Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

پاکستانی دینی مدارس و عصری تعلیمی اداروں کا سماجی تشکیل میں کردار: فقہ السیرۃ کے تناظر میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1254

Pages

87-115

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/18/18

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/18

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

پاکستانی دینی مدارس کے قیام و ارتقاء سے قبل دینی مدارس کی مختصر تاریخ بیان کی جاتی ہے:

 

عہدِ نبویﷺ میں پورے جزیرۃ العرب میں اسلام پھیل چکا تھا، خاص طور سے فتح مکہ کے بعد عرب کے تمام قبائل اسلام میں داخل ہو کر قرآن اور شرائع اسلام کی تعلیم و تعلم میں مشغٹول ہو گئے تھے اور ہر قبیلہ اور ہر بستی میں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں حالات کی ناسازگاری کے باوجود کسی نہ کسی طرح قرآن کی تعلیم جاری تھی، اس پورے دور میں کوئی باقاعدہ درسگاہ نہیں تھی، رسول اللہ ﷺصحابہ کرام  کو تعلیم دیتے تھے۔ موسم حج اور دیگر مواقع پر لوگوں کو قرآن سناتے تھے۔ اس دور میں مسجدِ ابو بکر ، دارِ ارقم ، بیت فاطمہ بنت خطاب  ، شعب ابی طالب وغیرہ کو کسی حد تک درسگاہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود مکی دور میں متعدد قرأء معلمین پیدا ہوئے جنہوں نے دوسروں کو قرآن اور تفقہ فی الدین کی تعلیم دی۔ حضرت خباب بن ارت  مکہ میں بیت فاطمہ بنت خطاب  میں قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ [1]

 

حضرت سالم  مولیٰ ابو حذیفہ  ہجرتِ عامہ سے پہلے قباء میں، حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابن اُمِّ مکتوم  نقیع الخمات میں اور حضرت رافع بن مالک زرقی  مسجد بنی زریق میں تعلیمی خدمات انجام دیتے تھے۔ [2]

 

یہ سب مکہ کے فضلاء و فارغین ہیں۔ ان کے اصحاب و تلامذہ مدینہ منورہ کی مسجدوں میں امامت اور تعلیم کی خدمت انجام دیتے تھے۔

 

ہجرتِ عامہ کے بعد مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی ﷺ میں مرکزی درسگاہ قائم ہوئی جس میں سید العالمین ﷺ تعلیم دیتے تھے۔ نیز حضرت ابو بکر  ، حضرت اُبی بن کعب  ، حضرت عبادہ بن صامت  ، وغیرہ اس درسگاہ کے معلم و مقری تھے۔[3]

 

یہاں کے طلبہ اپنے گھروں میں بچوں اور عورتوں کو تعلیم دیتے تھے اور چند دنوں میں پورا شہر مدینہ دارالعلم بن گیا۔ اس کے گلی کوچے قرآن کی آواز سے کونجنے لگے۔ مختلف علاقوں سے قبائل اور وفودِ مدینہ آکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ قرأ صحابہ  کو معلم بنا کر قبائل میں بھیجتے اور وفودِ مدینہ آکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ درسگاہِ نبوی ﷺ سے تعلیم حاصل کرکے قبائل کے رئیس و ترجمان اپنے یہاں تعلیم دیتے تھے۔ اس دور میں مکہ اور مدینہ کے بعد یمن کے مختلف علاقوں اور بستیوں میں تعلیم و تعلم کی سرگرمی زیادہ تھی۔

 

رسول اللہ ﷺ کے اُمراء و عمال ،قرآن، سنت، فرائض، تفقہ فی الدین اور شرائع اسلام کی تعلیم اپنے اپنے حلقوں میں دیتے تھے۔ خاص طور سے مکہ میں فتح مکہ کے بعد حضرت معاذ بن جبل  ، طائف میں حضرت عثمان بن ابو العاص ثقفی  ، عمان میں حضرت ابو زید انصاری  ، نجران میں حضرت خالد بن ولید  ، یمن میں حضرت علی  اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح  اس خدمت پر مامور تھے۔

 

ان حضرات کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے جن امراء عمال کو عرب کے مختلف مقامات پر مقرر فرمایا تھا وہ اپنے اپنے مقام کے معلم و امام تھے اور مسلمانوں کے جملہ دینی امور ان کے سُپرد تھے، وہی حضرات اس منصب پر رکھے جاتے تھے جو قرآن، سنت، تفقہ فی الدین اور شرائع اسلام کے عالم ہوتے تھے اور ان باتوں کو تعلیم دیتے تھے۔ تعلیمی اسفار و حالات کا سلسلہ بھی جاری تھا اور دور دراز کے وفود افراد خدمت نبوی میں آتے تھے۔ وفد عبد القیس کے ارکان نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا کہ ہم لوگ بہت دور سے مشقت برداشت کرتے ہوئے آئے ہیں۔ راستہ میں کفار مضر

 

کے قبائل ہیں۔اس لئے صرف شہر حرام میں ہم آپ ﷺ کے پاس آ سکتے ہیں۔ حضرت عقبہ بن حارث  صرف ایک

 

مسئلہ معلوم کرنے کے لئے خدمتِ نبوی ﷺ میں مدینہ آئے۔

 

عہدِ نبوی ﷺ کی درسگاہیں:

ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے کوئی مرکزی درسگاہ نہیں تھی جہاں رہ کر سکون و اطمینان سے باقاعدہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھتے۔صحابہ کرام  میں چند حضرات چھپ چھپا کر قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابو بکر  اور حضرت خباب بن ارت  وغیرہ معلم تھے۔ اس دور کے ایسے مقامات اور حلقات کو درسگاہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جہاں حالات کی نزاکت اور ضروریات کے مطابق کسی نہ کسی انداز میں قرآن پڑھایا جاتا تھا۔

 

1۔ درسگاہ مسجد ابو بکر  :

 

اس سلسلے میں سب سے پہلی درسگاہ حضرت ابو بکر  کی مسجد ہے جس میں وہ نماز اور قرآن پڑھتے تھے۔ یہ ایک کھلی ہوئی جگہ تھی۔ حضرت ابو بکر  قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو کفار و مشرکین کے لڑکے بچے اور عورتیں ان کے گرد جمع ہو کر قرآن سنتے تھے۔ یہ صورتحال ان کو ناگوار گزری، انہوں نے اس مرکز کو چھوڑنے پر حضرت ابو بکر  کو مجبور کیا۔ مگر ابن وغنہ نامی شخص یہ کہہ کر ان کو واپس لایا کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھیں اور قرآنِ مجید کی تلاوت کریں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر  نے کچھ دنوں اس پر عمل کیا پھر مکان کے سامنے مسجد بنا کر نماز و تلاوت میں مشغور ہوگئے۔ صحیح بخاری میں ہے:

 

ثم بد الا بی بکر فابتنیٰ مسجد آیفناء دارہ و برز فکان یصلی فیہ و یقرء القرآن۔[4]

 

"پھر ابو بکر  نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے۔"

 

مسجد ابو بکر  میں نہ کوئی معلم و مقری تھا اور نہ کوئی متعلم اور پڑھنے والا تھا۔ البتہ یہ مسجد تلاوتِ قرآن کے لئے مکہ مکرمہ میں پہلا مرکز تھی اور یہاں کفار کے بچے قرآن سنتے تھے۔

 

2۔ درسگاہِ بیت فاطمہ بنت خطاب :

 

حضرت فاطمہ بنت خطاب  حضرت عمر  کی بہن ہیں۔ اپنے شوہر حضرت سعید بن زید  کے ساتھ ابتدائی دور میں مسلمان

 

ہوگئی تھیں اور زوجین اپنے گھر میں حضرت خباب بن ارت  سے قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ حضرت عمر  اسلام

 

لانے سے پہلے تلوار لئے ہوئے اپنی بہن کے مکان پر گئے تو دیکھا کہ بہن اور بہنوئی دونوں قرآن مجید پڑھ رہے ہیں۔ ابن ہشام نے لکھا ہے:وعندھا خباب بن الارت معہ صحیفۃ فیہا طہ یقرء ہما ایاھا۔ [5]

 

"ان دونوں کے پاس خباب بن ارت  تھے۔ ان کے ساتھ ایک صحیفہ تھا جس میں سورہ طہ تھی اور ان دونوں کو پڑھا رہے تھے۔"

 

خود حضرت عمر  کی زبان منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بہنوئی کے یہاں دو مسلمانوں کے کھانے کا انتظام کیا تھا۔ ایک خباب بن ارت  اور دوسرے کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔ خباب بن ارت  میرے بہن اور بہنوئی کے یہاں آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ  کے یہ الفاظ معروف ہیں:

 

’’ کان القوم جلوساً یقرؤن صحیفۃ معھم ‘‘یہ جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جو ان کے پاس تھا۔ [6]

 

بیت فاطمہ بنت خطاب  کو قرآن کی تعلیم کا مرکز اور درسگاہ کہا جا سکتا ہے جس میں کم از کم دو طالب علم اور ایک معلم تھے اور حضرت عمر  کے بیان میں لفظ قوم دو سے زیادہ کو بتا رہا ہے۔

 

3۔ درسگاہِ دار ارقم:

 

حضرت ارقم بن ابو ارقم  سابقون الاولون اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔مکہ مکرمہ میں ان کا مکان کوہِ صفا کے اوپر واقع تھا۔ اس جگہ کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کا شمار وہاں کے مترک مقامات میں ہے۔ اس کو دارالاسلام اور محتبیٰ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔[7]، اعلانِ نبوت کے پانچویں سال ضعفائے اسلام نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور مکہ میں رہ جانے والے حضرات سخت حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ چھ نبوی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام دارِ ارقم سے دعوتِ اسلام کا فریضہ ادا کرتے رہے اور اسی میں دین اور قرآن کی تعلیم و تعلم کا شغل بھی جاری رہا۔ مستدرک حاکم میں ہے:

 

کان النبی یسکن فیہا فی اول الاسلام و فیہا یدعو الناس الی الاسلام فاسلم فیہا قوم کثیر۔[8]

 

"رسول اللہ ﷺ ابتدائے اسلام میں اسی مکان میں رہتے تھے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔"

 

قدیم الاسلام اور جدید الاسلام صحابہ  کو اسی دار ارقم میں قرآن اور دین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ امام ابو الولید ارزقی اپنی

 

کتاب ’’ اخبارِ مکہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:

 

یجتمع ہو وا اصحابہ عند اللارقم بن ابی الارقم و یقرء ہم القرآن و یعلمہم فیہ ۔[9]

 

"رسول اللہ ﷺ اور صحابہ  دار ارقم میں جمع ہوتے تھے اور آپ ﷺ ان لوگوں کو قرآن پڑھاتے اور دین کی تعلیم دیتے تھے۔"

 

درسگاہ دار ارقم کے طلبہ کے قیام و طعام کے بارے میں حضرت عمر  کا بیان ہے کہ اسلام لانے والوں میں سے دو آدمیوں کو کسی مستطیع مسلمان کے ساتھ کر دیا جاتا تھا اور یہ دونوں اس کے یہاں رہ کر کھانا کھاتے تھے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ  تقریباً ایک ماہ رہ کر خفیہ طور سے تعلیم و تعلم اور دعوتِ اسلام میں لگے رہے۔ یہی مقام ان کے لئے درسگاہ اور دارالاقامہ تھا۔ خورد و نوش کا انتظام صاحبِ حیثیت صحابہ کے یہاں تھا۔ اسی مدت میں حضرت عمر  اسلام لائے تو مسلمان کھلم کھلا کعبہ میں نماز پڑھنا شروع کی اور ان میں ایمانی جرأت پیدا ہوئی۔ [10]

 

ان مقامات کے علاوہ مکہ مکرہ میں حضرات صحابہ  دو دو، چار چار، جمع ہوکر قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے۔ خاص طور سے دارارقم میں حضرت عمر  کے اسلام کے بعد مسلمانوں نے جرأت و ہمت سے کام لیا اور کھل کر جگہ جگہ قرآن سننے سنانے کا مشغلہ جاری کیا۔ شعب ابی طالب میں حصار کے تقریباً تین سالہ دور میں رسول اللہ ﷺ قرآن پڑھتے پڑھاتے تھے۔ حضراتِ صحابہ  تعلیم و تعلم میں مشغول رہتے تھے جن میں حضرت مصعب بن عمیر  بھی تھے جن کو رسول اللہ ﷺ نے ہجرت سے پہلے مدینہ میں معلم بنا کر بھیجا تھا۔ مہاجرین حبشہ میں حضرت جعفر بن ابو طالب  بھی تھے جنہوں نے شاہ نجاشی کے دربار میں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے ترجمانی کی تھی اور شاہ نجاشی کے سامنے سورہ ’’ کھیعص ‘‘ کی ابتدائی آیات سنائی تھیں جن کو سن کر وہ رو پڑآ تھا۔

 

اس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کفار و مشرکین کی مجلسوں، بازاروں اور موسمی میلوں ور مناسک حج کے مواقع و مقامات میں دعوتِ اسلامی کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور لوگوں کو قرآن سناتے تھے۔ ایسے مقامات قرآن اور دین کی درسگاہ تھے۔

 

مدینہ منورہ کے اعیان و اشراف اور سردارانِ قبائل نے برضا و رغبت اسلام قبول کرکے اس کی ہر طرح مدد کی۔ خاص طور سے قرآنِ مجید کی تعلیم کا متعدد و مقامات پر معقول انتظام کیا۔ بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد ہی سے مدینہ منورہ میں قرآن اور دین کی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا اور قبیلہ انصار کی دونوں شاخ اوس اور خزرج کے عوام اور اعیان و اشراف جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے تھے اور ہجرت عامہ سے دو سال قبل ہی وہاں مساجد کی تعمیر اور قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔ اس دو سالہ مدت میں تعمیر شدہ مساجدمیں نماز کے امام ان میں معلمی کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔ اس وقت تک صرف نماز فرض ہوئی تھی اس لئے قرآن کے ساتھ نماز کے احکام و مسائل اور مکارم اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اسی کے ساتھ تین مستقل درسگاہیں بھی جاری تھیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم ہوتی تھی۔یہ تینوں درسگاہیں اس طرح جاری تھیں کہ شہرِ مدینہ اور اس کے آس پاس اور انتہائی کناروں کے مسلمان آسانی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ مدینہ منورہ کی پہلی درسگاہ قلبِ شہر میں مسجد بنی زریق میں تھی جس میں حضرت رافع بن مالک زرقی  انصاری تعلیم دیتے تھے ۔ دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے سے فاصلہ پر مسجدِ قباء میں تھی جس میں حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ  امامت کے ساتھ معلمی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ اسی سے متصل حضرت سعد بن خثیمہ  کا مکان واقع تھا جو ’’ بیت العزاب ‘‘ کے نام سے مشہور تھا اس میں مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے مہاجرین قیام کرتے تھے۔ تیسری درسگاہ مدینہ منورہ سے کچھ فاصلے پر شمال میں نقیع الحقمات نامہ عالقہ میں تھی جس میں حضرت مصعب بن عمیر  پڑھاتے تھے اور حضرت اسعد بن زرارہ  کا مکان گویا مدرسہ تھا۔ ان تین مستقل تعلیم گاہوں کے علاوہ انصار کے مختلف قبائل اور آبادیوں میں قرآن اور دینی احکام کی تعلیم ہوتی تھی۔

 

غزوۂ بدر میں اُن قیدیوں کا فدیہ دس دس انصاری بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانان مقرر کیا گیا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

 

پاکستان ۲۷/ رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ/۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ اس سر زمین میں ہندوؤں ، پارسیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے قائم کردہ عصری تعلیمی مدارس پہلے سے موموجد تھے۔ مسلمانوں کے قائم کردہ چند دینی مدارس اور عصری تعلیمی ادارے بھی تھے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین نے اور یہاں کے مقامی لوگوں نے تیزی کے ساتھ دینی مدارس اور عصری تعلیمی ادارے قائم کرنے شروع کئے۔ ان کے قیام کے لئے مخیر جاگیرداروں، زمینداروں اور صنعتکار و تُجّار نے اپنی زمینیں حکومتِ پاکستان کو عطیہ و ہدیہ کے طور پر پیش کیں اور ان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیا۔

 

حکومتِ پاکستان نے ان سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و افسران اور ملازمین کے تقرر کے لئے بورڈز، جامعات اور کمیشن قائم کئے جن میں مختلف اسامیوں کے لئے اہلیت کا معیار مقرر کیا گیا اور یوں یہ ادارے ترقی کرتے چلے گئے۔

 

لیکن جہاں سرکاری ملازمت میں ملازمین کے تحفظ کے لئے نوکریاں پکی کی گئیں اور انہیں فرائضِ منصبی کی عدم ادائیگی

 

پر ملازمت سے نکالنے کے بجائے ٹرانسفر کرنے یا رشوت و سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر ان کے خلاف تادیبی کاروائی کو رکوانے کا سلسلہ شروع ہوا وہیں سے معیارِ تعلیم گرنا شروع ہوا۔

 

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدا میں اساتذہ معمار قوم کے فرائض انجام دیتے ہوئے ان کے نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی دیا کرتے تھے جس کے باعث نامی گرامی افسران و سائنسدان اور سیاستدان وغیرہ سامنے آئے۔لیکن جب سے اہلیت کے معیار کو نظر انداز کرکے نا اہلوں کو سفارش اور کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر مسلط کیا گیا تو ’’انسان سازی ‘‘کا عمل رُک گیا اور اب ’’ سائنسدان و محققین ‘‘ کے بجائے گویّے ، رقاص، بہروپیئے اور دھوکے باز پیدا ہو رہے ہیں۔بقول شاعر:

 

؎ یک بیک کیسا زمانے میں ہوا ہے انقلاب

 

قدر داں سب مٹ گئے نا قدر داں پیدا ہوئے

 

یہ تو ایک جھلک سرکاری عصری تعلیمی اداروں کی پیش کی گئی، جبکہ زیادہ تر نجی تعلیمی ادارے منافع بخش کاروباری صنعت بن چکے ہیں، جہاں بیرونِ ملک سے درآمد کی گئی مہنگی کتب، کیمبرج سسٹم اور اُن کے نصابات دینِ اسلام اور سیرت و سنتِ رسول ﷺسے قریب لانے کے بجائے دوری پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

 

رہی بات دینی مدارس کی تو وہ ایک دینِ اسلام کی وحدت ملی قائم کرنے کے بجائے پانچ مسالکی بورڈز کے تحت اپنے اپنے مسلک کے دفاع و بقا اور ترقی و استحکام کے لئے کوشاں ہیں۔ جس کے نتیجے میں فرقہ واریت، تعصب اور تشدد پروان چڑھے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر عصرِ حاضر تک نو (۹) تعلیمی پالیسیاں بنائی گئیں لیکن ان کے اہداف پورے طور پر حاصل نہیں ہو سکے۔ منجملہ کئی اسباب و عوامل اور وجوہات و علل کے من حیث القوم پاکستانی اساتذہ و والدین ہی مقاصدِ تعلیم کے عدم حصول کے زیادہ ذمہ دار نظر آتے ہیں کیونکہ جب ان کا نصب العین غلامِ رسول اور کنیزِ فاطمہ بننا نہیں ہوگااور وہ سیرتِ رسول ﷺ سے روشناس نہیں ہونگے، نہ اس کا مطالعہ کریں گے اور نہ خود سمجھ کر عمل کریں گے تو اپنے بچوں اور شاگردوں کو کیسے اس راہ پر ڈال سکیں گے۔لہٰذا سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ اپنے آپ کو سیرتِ رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہے۔

 

پاکستان شہروں میں ماذل دینی مدارس بھی بنائے گئے جہاں نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا مگر تاحال اس کے تشکیل معاشرہ میں کوئی خاطر خواہ اثرات نہیں نکلے۔

 

ارکان و عناصرِ تعلیم:

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے بی ایڈ کی نصابی کتب کے مطابق تعلیمی نظام کے مندرجہ ذیل ارکان یا عناصر ہوتے ہیں:۱۔ تعلیمی ادارہ (مدرسہ یا درسگاہ)۲۔ طلباء و طالبات اور درسی مواد۳۔ اساتذہ و معلمات (تدریسی عملہ) اور تدریسی طریقے۴۔ ادارہ کا انتظامی سربراہ (پرنسپل/ہیڈ)۵۔ دفتری عملہ برائے غیر تدریسی اُمور۶۔ نظامتِ امتحانات، (کنٹرولر آف ایگزامنیشن ؍بورڈ یا یونیورسٹی کا عملہ)۷۔ تعلیمی اُمور کی نگرانی و درستگی کی ذمہ دار انتظامیہ (ڈائریکٹوریٹ؍سیکریٹریٹ)۸۔ صوبائی وزارت تعلیم مع گورنر و وزیراعلیٰ برائے جائزہ و تعلیمی سرمایہ کاری۔۹۔ وفاقی وزارت تعلیم مع صدر و وزیراعظم برائے تعلیمی سرمایہ کاری۔

 

سفارشات برائےنظامِ تعلیم و سماجی تشکیل:مندرجہ بالا نو ارکان یا عناصر سے متعلق سفارشات و تجاویز علیحدہ علیحدہ بیان کی جاتی ہیں:

 

۱۔ تعلیمی ادارہ:

 

ا۔تعلیمی ادارہ کا صاف ستھرا اور کھلی فضا میں ہونا ضروری ہے تاکہ طلبہ و طالبات آسانی کے ساتھ مدرسہ آ، جا سکیں۔ب۔ یہ ادارہ آبادی کے تناسب سے قائم کیا جائے اور اس میں آبادی کے لحاظ سے گنجائش رکھی جائے۔ اس کا نقشہ ایسا ہو کہ تازہ ہوا اور روشنی کا معقول انتظام ہو۔ج۔ ابتدائی جماعتوں کے لئے مسجد کو بھی بطور مکتب یا مدرسہ استعمال کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ رسولِ کریم ﷺ نے مسجدِ نبوی سے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو درس دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ یا مسجد سے ملحق کمروں میں بھی مدرسہ قائم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنھم کے لئے ایک چبوترہ کے اوپر سائبان بنا کر پہلی درسگاہ و اقامت گاہ قائم کی گئی۔د۔ تعلیمی اداروں کے در و دیوار پر علم اور علماء کی فضیلت سے متعلق آیاتِ قرآنی و احادیث عربی، اردو ع، علاقائی زبان اور انگریزی میں لکھوائی جائیں تاکہ تعلیمی ماحول سازگار و خوشگوار ہو اور درسگاہوں کے در و دیوار سیاسی یا مذہبی نعروں سے محفوظ رہیں۔ہ۔ کلاسوں میں تختۂ سیاہ درست حالت میں ہو اور چاک و ڈسٹر یا رائٹنگ بورڈ و مارکر کا معقول انتظام ہو۔و۔ پانی پینے کا مناسب انتظام ہو، فرنیچر مکمل اور آرام دہ ہو اور بیت الخلاء صاف ستھرے ہوں۔ز۔ اقامت گاہوں میں رہائش کی مناسب سہولت موجود ہو ، کھانے پینے کی اشیاء کے سلسلہ میں حفظانِ صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا ہو اور وارڈن، اہل و ذمہ دار شخص ہو۔ح۔ پرنسپل؍ ہیڈ کا کمرہ ایسی جگہ ہو جہاں سے زیادہ سے زیادہ معاملات پر نظر رکھی جا سکتی ہو اور باہر سے آنے والا با آسانی سربراہ ادارہ سے ملاقات کر سکتا ہو۔ط۔ نماز کی جگہ (مسجد) مختص ہو تاکہ با جماعت نماز کا اہتمام ہو سکے۔

 

۲۔ طلبہ و طالبات اور درسی مواد:

 

ا۔ بے بی کیئر سینٹر ، نرسری، ک جی اور مانٹیسری میں صرف بسم اللہ کروا کے قاعدہ و قواعد پڑھائے اور لکھائے جائیں جبکہ باقاعدہ تعلیمی اداروں میں کم از کم عمر برائے داخلہ پانچ سال ہو تاکہ بچہ پاکی و ناپاکی میں تمیز کر سکے اور اس کا خیال رکھ سکے ۔ اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی اپنے حبیب مکرم ﷺ کے توسط سے اپنے دربار میں حاضر ہوکر نماز سیکھنے کی عمر بھی سات سال رکھی ہے۔ب۔ ابتدائی جماعتوں ہی سے طلبہ و طالبات کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی ادارے ہوں اور جہاں ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ان کے سیکشن اور کلاسیں ضرور علیحدہ علیحدہ ہوں تاکہ بچپن ہی سے اسلامی پردہ کی عملی تربیت کی جا سکے اور یہ سلسلہ اعلیٰ تعلیم کے پیشہ ورانہ اداروں تک جاری رہے۔ اسی طرح مخلوط تعلیم سے بچنے کے لئے طلبہ و طالبات کی شفٹیں الگ الگ رکھی جائیں۔ج۔ طالبات کے یونیفارم میں وی (V) کے بجائے پورا اسلامی دوپٹہ اور چادر یا کوٹ ہو، یا گون و اسکارف ہو تاکہ لباس کے پردے کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔د۔ طلبہ کے یونیفارم سے یہود و نصاریٰ کی غلامی کا پٹہ (ٹائی ) نکال کر سنتِ ٹوپی کا احیاء کیا جائے تاکہ سو شہیدوں کا ثواب بھی ملے اور موسمی امراض و اثرات سے طلبہ کی صحتیں خراب نہ ہوں اور اسلامی آداب کے تقاضے بھی پورے ہوں۔ہ۔ یونیفارم چاہے طالبعلم کا ہو یا طالبہ کا، صرف قمیص شلوار ؍کرتا پاجامہ کا ہو تاکہ نئی نسل میں اسلامی ثقافت باقی رہے اور وہ اسلامی لباس پہننے میں کوئی عار محسوس نہ کریں۔و۔ طلبہ و طالبات خواہ ابتدائی جماعت کے کم عمر بچے ہوں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے یا تعلیم بالغاں سے متعلق ہوں، ہر سطح پر پورے ملک کے تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کا یونیفارم یکساں ہو۔ز۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کی روشنی میں ابتدائی جماعتوں (پانچویں) تک قرآن مجید ناظرہ مکمل پڑھایا جائے اور تعلیمی اداروں کے نظام الاوقات میں پہلا پیریڈ قرآنی تعلیمات کا رکھا جائے تاکہ تلاوت قرآن کی برکت سے ماحول خوشگوار رہے۔ح۔طبقاتی نظامِ تعلیم کو ختم کیا جائے اور سرکاری و نیم سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم ہر سطح پر رائج کیا جائے۔ ذریعہ تعلیم میٹرک تک اردو ہو یا مقامی زبان تاہم چھٹی جماعت سے گریجویشن تک عربی اور انگریزی لازمی مضامین کی حیثیت سے شامل کئے جائیں تاکہ ایک طرف تو مسلمان طالبعلم قرآن و حدیث کو سمجھنے کے قابل ہو سکے اور دوسری طرف غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کر سکے۔و۔ نصاب کمیٹیوں میں سے نااہل ، سفارشی، کام چور اور کلاسیں نہ لینے والے افراد کو نکال کر اہل، قابل، محنتی اور کلاسیں لینے والے افراد کو رکھا جائے، جو ہر جماعت کے طلبہ و طالبات کے ذہنی معیار کے مطابق نصاب مرتب کر سکیں۔ی۔نصاب، اسلامی نظریۂ حیات اور نظریۂ پاکستان سے ہم آہنگ ہو اور ہر درسی کتاب کی ابتداء بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے ہو۔ اس کے بعد پہلے صفحے پر ہی اس مضمون سے متعلق آیتِ قرآن یا حدیث یا کسی مسلمان سائنسدان یا فلسفی یا مفکر یا عالم یا صوفی کا قول درج کیا جائے۔ک۔درسی کتب کو مثالوں، نقشہ جات، تصاویر (بے جان اشیاء کی) اور اشکال سے مزین کیا جائے تاکہ ایک طرف تو وہ طلبہ و طالبات کے لئے دلچسپ ہوں اور دوسری طرف انہیں سبق یاد کرنے میں آسانی ہو۔ل۔ درسی کتب میں ایسے اسباق رکھے جائیں جن کو پڑھ کر طلبہ و طالبات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہو، ان میں تسخیر کائنات کی اُمنگ پیدا ہو اور وہ سچے مسلمان اور اچھے پاکستانی بن سکیں۔م۔ درسی مواد جدید علوم اور عصری تقاضوں کے مطابق ہو جس کا معاشرے میں اطلاق آسانی سے ممکن ہو۔ اس مقصد کے لئے Syllabus Review Committeeبھی بنائی جائے جو ہر سال نصاب پر نظرِ ثانی کرے اور جن باتوں کا معاشرتی یا عملی اطلاق ممکن نہ ہو انہیں نصاب سے خارج کرکے نصاب کو حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق جدید بنائے اور اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو بھی دور کرے۔ن۔نصاب میں نظری حصہ مختصر ہو جبکہ عملی حصہ تفصیل سے ہو تاکہ تعلیم بوجھ نہ معلوم ہو اور لوگ شوق سے تعلیم حاصل کر سکیں۔س۔اعلیٰ تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں کے نصابات میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی پر زیادہ توجہ دی جائے اور ایسا نصاب مرتب کیا جائے کہ دینی مدرسے کا طالبعلم، عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر، انجینئر ، حکیم، ماہر قانون اور ماہر کمپیوٹر بھی بن سکے اور وہ جدید علوم سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ عربی و انگریزی زبان سے بھی واقف ہو تاکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کی سر بلندی کے لئے بھی کوششیں کر سکے۔ اسی طرح دنیاوی مدارس سے فارغ ہونے والے بھی عربی و انگریزی زبان سے واقف ہوں اور اسلام کے بنیادی فرائض سے بھی بخوبی واقف ہو ں، صرف کلرک نہ بنیں بلکہ ترقی کر سکیں۔ع۔ درسی مواد، تعلیمی سال کے ابتدائی دنوں ہی میں بازار میں دستیاب ہو اور اس میں جو بھی تبدیلی کی جائے وہ نئے سال سے ہو، دورانِ تعلیمی سال، درمیان میں کوئی بھی نصابی تبدیلی نہ کی جائے ۔ ٹیکسٹ بک بورڈ میں بھی وقت کے پابند اہل افراد رکھے جائیں۔

 

۳۔ تدریسی عملہ و تدریسی طریقے:

 

ا۔ تدریسی عملہ یعنی اساتذہ و استانیاں اس پیشے سے مخلص ہوں اور اپنے فرائضِ منصبی پورے اور صحیح طور پر ادا کریں۔ب۔ معلمین و معلمات خود با کردار اور اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ ہوں تاکہ ان کے شاگرد ان سے رہنمائی حاصل کر سکیں۔ج۔جو اساتذہ اسلامی تعلیمات کے مطابق درس و تدریس کے فرائض انجام دیں اور اپنے فرائض منصبی ٹھیک طور سے ادا کریں تو ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد اور انکریمنٹ و پروموشن سے نوازا جائے اور جو کاہل، ہڈ حرام ہوں انہیں انکریمنٹ و پروموشن نہ دیا جائے۔د۔مسجد اسکول و مدارس میں طلبہ و طالبات کے تناسب سے اساتذہ کا تقرر کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ کم تعداد والے تعلیمی ادارے میں زیادہ استاد ہوں اور بڑے تعلیمی ادارے میں جہاں زیادہ طلبہ یا طالبات ہیں اساتذہ کی تعداد بہت کم ہو۔ہ۔اساتذہ کو معاشرے میں باعزت مقام دیا جائے۔ بین الصوبائی اور وفاقی تعلیمی اداروں کے درمیان اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات میں فرق نہ ہو تاکہ صوبائی عصبیت پیدا نہ ہو بلکہ ہر تعلیمی ادارے میں اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے انہیں اچھی تنخواہیں اور بہتر مراعات دی جائیں تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں۔و۔پرائمری کے استاد، سیکنڈری کے استاد، کالج کے استاد اور یونیورسٹی کے استاد کی تنخواہ و مراعات اور پے اسکیل مساوی ہوں اور ان کے گریڈ، ان کی تعلیمی قابلیت اور تجربے و خدمات کے لحاظ سے ہوں۔ یہ نہ ہو کہ پرائمری اسکول میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر استاد بہت کم تنخواہ اور مراعات پائے اور اس کا گریڈ بھی کم ہو جبکہ اس سے کم تجربہ کار وہی سند رکھنے والا یونیورسٹی کا استاد اس سے بہت زیادہ تنخواہ پائے اور بے شمار مراعات حاصل کرے۔ز۔محلہ کمیٹیوں، مساجد کمیٹیوں، سول ڈیفینس اور اسکاؤٹس وغیرہ سے بھی خدمات حاصل کرکے قریہ قریہ کوچہ کوچہ تعلیمی کیمپ قائم کرکے خواندگی کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ ح۔معلمین و معلمات کو درس و تدریس کے ایسے دلچسپ اور مؤثر طریقے اپنانے چاہی کہ طلبہ و طالبات اس میں منہمک ہو جائیں اور شوق سے تعلیم حاصل کریں۔ط۔ابتدائی جماعتوں میں زیادہ تر زبانی و معروضی سولات ہوں جبکہ ثانوی و اعلیٰ جماعتوں میں انشائی سوالات اور عملی کام ہوں جن کے لئے کشادہ لیباٹریزاور ورکشاپ ہوں۔ن۔طلبہ و طالبات کو تعلیمی سیر بھی کرائی جائے اور انہیں کھیل و تفریح میں مشغول کرکے کام کی باتیں بتائی جائیں۔ک۔بڑی جماعتوں میں لیکچر میتھڈ اور ڈسکشن میتھڈ کے تحت تدریس کی جائے۔ل۔تعلیمی اداروں کی بانڈری وال کے ساتھ فوٹو اسٹیٹ مشین، بک شاپ اور کینٹین اور برقی و میکانکی اشیاء کی مرمت کی دکانیں نکالی جائیں تاکہ ایک طرف تو طلبہ و طالبات کو عملی کام اور ضروری اشیاء کی خرید و فروخت میں آسانی ہو اور دوسری طرف دکانوں کے کرائے سے ادارے کی آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ اپنے اخراجات کے لئے خود کفیل ہو۔م۔مدرسین کی تربیت کے لئے بھی ادارے موجود ہوں۔ ٹیچرز اکیڈمی ، ریفریشر کورس کا اہتمام کرے اور نئے آنے والے مدرسین کو اور نصاب کی تبدیلی کے بعد اساتذہ کو نئے نصاب سے متعلق معلومات فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

 

۴۔ ادارے کا انتظامی سربراہ (پرنسپل/ہیڈ(:

 

ا۔ادارے کا انتظامی سربراہ بہترین معلم اور تجربہ کار منتظم ہو جو ایک طرف تو غیر تدریسی عملے سے دفتری کام لے سکے اور دوسری طرف تدریسی عملہ کو متحرک رکھے اور اس کی نگرانی کر سکے۔ب۔بچیوں کے ادارے میں سارا تدریسی و غیر تدریسی عملہ خواتین پر مشتمل ہو اور اس کی سربراہ بھی خاتون ہی ہو جبکہ بچوں کے ادارے میں سارا تدریسی و غیر تدریسی عملہ صرف مرد حضرات پر مشتمل ہو اور ان کا سربراہ بھی مرد ہی ہو۔ج۔سربراہ با کردار، وقت اور اصولوں کا پابند ہو اور اس قابل ہو کہ ادارے میں بوقت نماز با جماعت نماز کی امامت بھی کرا سکے۔ اس لئے کہ اسلام میں سربراہ کا امامت کے قابل ہونا بھی ایک ضروری اور لازمی شرط ہے۔اسی طرح خواتین اور بچیوں کی خاتون سربراہ کو بھی اپنے ادارے میں نماز کے وقت نماز کا اہتمام کرانا چاہیئے۔ اور وہ بھی بعد نماز کم از کم ایک آیت یا حدیث پڑھ کر ترجمہ بیان کرے تاکہ اسلامی معلومات میں اضافہ ہو۔د۔کسی بھی اہل شخص کو سربراہ بنانے سے پہلے انتظامی امور سے متعلق کچھ ضروری تربیت بھی دلوائی جائے جیسا کہ NIPAکے توسط سے مختلف سرکاری افسران کی تربیت کی جاتی ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ مالی اُمور میں بھی وہ دفتری کام اور دفتری عملہ کی کارکردگی کا صحیح جائزہ لے سکے گا۔ایسی ہی تربیت خاتون سربراہ ادارہ کو بھی دی جائے۔ہ۔ادارے کا سربراہ ادارے میں آنے والے سامان کا حساب رکھے اور کسی بھی شئے کو ضائع یا غلط استعمال ہونے سے روکے اور ضروریات کو فوری طور پر پورا کرے۔و۔ وہ کلاسز کا راؤنڈ کرکے تدریسی عمل کو جاری رکھے اور ایسا انتظام کرے کہ کوئی کلاس بھی خالی نہ رہے۔ز۔سربراہ خواہ مرد ہو یا عورت ہو، ادارہ بچوں کا ہو یا بچیوں کا، ہر فرد کو اس کی ضرورت کے مطابق سہولیات فراہم کرنا، سربراہ کی ذمہ داری ہو اور وہ شفقت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر طالبعلم، استاد اور دیگر غیر تدریسی عملہ کو خوشگوار ماحول فراہم کرے۔ح۔سربراہ، مختلف نصابی اور غیر نصابی کاموں کے لئے اساتذہ، غیر تدریسی عملہ اور والدین کے باہمی اشتراک سے ایسی کمیٹیاں بنائیں جو تعلیمی عمل کو مزید ترقی دے سکیں اور تعلیمی ماحول کو مزید بہتر بنا سکیں۔ط۔سربراہ کا تقرر سینیریٹی ، خدمات ، تجربہ اور اہلیت کی بنیاد پر ہو، یہ نہ ہو کہ سینئر اساتذہ کا سربراہ، کسی جونیئر کو سیاسی تعلقات کی بناء پر بنا دیا جائے اور پھر لوگوں میں بد دلی پیدا ہو اور وہ اس سے تعاون نہ کریں۔ی۔سربراہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ تعلیمی ادارے کی بقا، ترقی و استحکام اور اشیاء کے تحفظ کے لئے پوری توجہ دے۔

 

۵۔ دفتری عملہ برائے غیر تدریسی اُمور:ا۔دفتری و غیر تدریسی عملہ کم از کم میٹرک پاس ہو البتہ چوکیدار، چپراسی اور مالی وغیرہ کے لئے کسی بھی عاقل بالغ کو رکھا جا سکتا ہے۔ب۔سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق لیبارٹریز کا عملہ کم از کم میٹرک سائنس ہو اور وہ کیمیکلز، اشیاء اور آلات کے استعمال میں احتیاط سے کام لینے والا ہو۔ج۔ریکارڈ کیپر، ادارے میں آنے والے سامان اور اس کے استعمال کا بروقت اندراج کرے اور اشیائے صرف کے ختم ہونے سے پہلے ان کی اطلاع سربراہ ادارہ کو دے تاکہ استعمال کی ضروری اشیاء بر وقت مہیا کی جا سکیں۔د۔جونیئر کلرک، ٹائپسٹ، ہیڈ کلرک اور سپرنٹینڈنٹ وغیرہ بھی کم از کم گریجویٹ ہوں اور دفتری کام کرنے کے شوقین اور محنتی ہوں۔ وقت کے پابند ہوں اور کام کو ٹالنے کے بجائے روز کا کام روز نمٹانے پر زور دیتے ہوں۔ہ۔دفتری عملہ طلبہ و طالبات کے علاوہ اساتذہ اور دیگر غیر تدریسی عملہ کے تمام دفتری اُمور کو خوش اسلوبی سے انجام دیں تاکہ طلبہ و طالبات حصولِ علم میں یکسوئی سے توجہ دے سکیں اور اساتذہ بھی اپنے فرائض منصبی خوش دلی اور دلجمعی سے انجام دے سکیں۔و۔دفتری عملہ کو دفتری اوقات میں چائے یا کھانا وغیرہ کے لئے باہر نہ جانے دیا جائے بلکہ انہیں ایک چپراسی اس کام پر متعین کرنا چاہیئے جو انہیں چائے پلائے یا لاکر دے اور کھانا لاکر دے۔ اس طرح سے کام کی رفتار متاثر نہیں ہوگی اور عام لوگوں کو یہ شکایت نہیں ہوگی کہ دفتر میں کوئی وقت پر سیٹ پر نہیں ملتا۔ز۔داخلہ فارم سے لے کر امتحانی فارم اور نتائج تک ہر کام میں دفتری عملہ کو طلبہ و طالبات کی بھرپور رہنمائی اور معاونت کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لئے نوٹس بورڈز پر تمام ہدایات کو جلی حروف میں بروقت لگایا جائے۔ح۔ہم نصابی سرگرمیوں میں اور طلبہ و طالبات کو سہولیات مہیا کرنے میں بھی دفتری عملہ کو پوری توجہ اور دلچسپی سے کام کرنا چاہیئے۔ط۔دفتری عملہ ہو یا تدریسی عملہ، ہیڈ ہو یا لیبارٹری کا عملہ، غیر تدریسی امور میں بھی اسے سنجیدگی سے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کی ہر طرح سے رہنمائی اور معاونت کرنی چاہیئے تاکہ لوگوں میں حصول علم کا شوق بڑھے اور نئی نسل ملک کی تعمیر و ترقی کے جذبے سے محنت کرکے باوقار مقام حاصل کر سکے۔ی۔دفتری عملہ کو سرکاری، نیم سرکاری اور نجی املاک مدارس کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنی چاہیئے، ریکارڈ کو محفوظ کرنا چاہیئے اور اسٹیشنری و دیگر اموال کو بالکل ضائع نہیں کرنا چاہیئے تاکہ تعلیمی اداروں کے مالی معاملات بھی درست ہوں اور کسی کو غبن کا موقع نہ ملے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے عملہ کا ایماندار و دیانتدار ہونا ضروری ہے۔

 

۶۔ نظامت امتحانات (کنٹرولر آف ایگزامنیشن، بورڈ اور یونیورسٹی کا عملہ(:

 

ا۔نظامت امتحانات کے اعلانات تمام بڑے اخبارات میں دینے کے ساتھ ساتھ ہر تعلیمی ادارے کو نوٹس بورڈ پر لگانے کے لئے بھی ضرور بھیجے جائیں تاکہ طلبہ و طالبات کو امتحانی معاملات سے بروقت آگاہی ہو سکے۔ب۔نظامت امتحانات میں نہایت ایماندار اور دیانتدار عملے کا تقرر کیا جائے اور جس کے خلاف بھی رشوت یا سفارش کی کوئی شکایت یا رپورٹ ملے اسے فوری طور پر معطل کرکے تحقیقات کروا کے ملازمت سے نکال دیا جائے۔ج۔نظام امتحانات درست اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ نقل کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے یا تو open bookطریقہ امتحانات رائج کیا جائے یا کثیر الجواب پرچہ جات مرتب کئے جائیں جن کی timingاور تعداد اس طرح سے رکھی جائے کہ کسی کو کسی سے پوچھنے کا موقع نہ مل سکے۔د۔امتحانات پورے ملک میں تمام جماعتوں کے لئے ایک ہی ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوں اور نتائج کا وقت بھی تین ماہ سے زیادہ نہ ہو تاکہ ملک کے ہر حصے میں ہر شخص کو ایک ہی وقت میں داخلہ اور ملازمت مل سکے اور سرکاری افسران کے تبادلوں کے باعث ان کے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں۔ہ۔جتنے بھی بورڈز اور یونیورسٹیز ہوں ان میں طلبہ و طالبات کے گھروں کے نزدیک امتحانی مراکز رکھے جائیں تاکہ وہ بر وقت اور بآسانی اپنے امتحانی مراکز تک پہنچ سکیں اور ہشاش بشاش رہ کر امتحانات دے سکیں۔و۔امتحانات میں پرچہ دینے کی زبان مقامی، صوبائی، قومی یا بین الاقوامی کوئی بھی رکھی جا سکتی ہو تاکہ جو طالبعلم جو زبان بھی جانتا ہو وہ اُسی زبان میں امتحان دے سکے اور اس کی امتحانی کاپیوں کی جانچ بھی اُسی زبان جاننے والے اساتذہ سے کرائی جائے تاکہ وہ صحیح طرح سے جوابات کو جانچ سکے۔ز۔رول نمبرز کو خفیہ رکھنے کے لئے Codificationکا عمل جاری رکھا جائے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی استاد، کلرک یا codifierکسی کے لئے بھی decodeنہ کرے اور چند ٹکوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا نہ کرے۔ اس مقصد کے لئے بھی سفارشی و راشی کے بجائے اچھی شہرت رکھنے والے ایماندار افراد کا تقرر کیا جائے۔ح۔امتحانی کاموں کی نگرانی اور پرچہ جات کی جانچ کا معاوضہ طلبہ و طالبات سے لی جانے والی فیس کے تناسب سے اتنا رکھا جائے کہ اساتذہ و غیر تدریسی عملہ شوق اور دلجمعی سے یہ کام ایمانداری سے کر سکے۔ط۔بورڈ و یونیورسٹی کے عملہ کو جتنی تنخواہ و مراعات دی جاتی ہیں۔ اساتذہ کو بھی کم از کم ان کے مساوی رکھا جائے تاکہ وہ خلوص نیت سے امتحانی و تدریسی کام کر سکیں۔ی۔بورڈ آف اسٹڈیز اور کورسز کمیٹیوں میں قابل، لائق اور محنتی اساتذہ کو رکھا جائے۔اور ان اساتذہ کو پرچہ بنانے کے لئے دیا جائے جو باقاعدہ کلاسیں بھی لیتے ہوں اور سینئر و تجربہ کار بھی ہوں۔ک۔Modifierبھی Paper Setterسے زیادہ قابل و بہتر رکھا جائے تاکہ وہ طلبہ و طالبات کے ذہنی معیار اور نصاب کے مطابق پرچہ میں ترمیم و اضافہ کر سکے۔ل۔جامعات کی اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ اور سینیٹ میں اساتذہ کے نمائندوں اور علم دوست سماجی شخصیات کو رکھا جائے جو تعلیم کی ترقی و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کر سکیں اور امتحانی عمل کو مزید بہتر بنا سکیں۔م۔امتحانی نتائج و مارکس شیٹ وغیرہ کی تیاری میں بھی سفارشی افراد کے بجائے ایماندار افراد کا تقرر کیا جائے جو محنت اور دیانت کے ساتھ بروقت یہ کام انجام دے سکیں۔ن۔امتحانی مراکز کے عملہ کے تقرر میں بھی اُسی ادارے کے ایماندار افراد کو ترجیح دی جائے ، باہر کے افراد کو لاکر مسلط نہ کیا جائے تاکہ وہ امتحانی مراکز میں طلبہ و طالبات کی صحیح نگرانی کر سکیں اور نقل کرنے والوں کو پکڑ کر تادیبی کاروائی کر سکیں تاکہ طلبہ و طالبات پڑھ لکھ کر امتحانات پاس کریں۔س۔امتحانات میں پوزیشن لینے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے انعامات، اسناد اور میڈلز و شیلڈز وغیرہ دی جائیں تاکہ دوسرے طلبہ و طالبات میں مقابلہ کا رجحان پیدا ہو اور وہ بھی مزید محنت کریں۔ع۔بورڈ اور یونیورسٹی کی سطح پر ادبی و غیر نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی توجہ دی جائے اور ان کے مقابلوں کا انعقاد کرکے طلبہ و طالبات میں مختلف میدانوں میں اعلیٰ کارکردگی انجام دینے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔ف۔کھیلوں اور سائنسی ایجادات کے مقابلے بھی بورڈ اور یونیورسٹی کی سطح پر منعقد کئے جائیں تاکہ طلبہ و طالبات کی ذہنی و جسمانی نشو و نما ہو سکے اور ان میں تسخیر کائنات کا جذبہ اُجاگر ہو۔ص۔قرأت، نعت، کوئیز ،مباحثہ و تقریر ، قومی نغمات، بیت بازی اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرکے دیگر اسلامی ممالک کے مدارس کے طلبہ و طالبات کے ساتھ بھی ان کا مقابلہ کروایا جائے تاکہ عالم اسلام میں اسلامی ثقافت نئی نسل میں منتقل ہو اور اس میں پیشوائے عالم بننے کی اُمنگ پیدا ہو۔ق۔بورڈ اور یونیورسٹی اپنی لائبریریز و لیبارٹریز میں جدید تقاضوں کے مطابق علمی مواد اور آلات مہیا کریں تاکہ طلبہ و طالبات ان سے استفادہ کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ ر۔بورڈ اور یونیورسٹی کا کنٹرولر آف ایگزامینیشن اتنا ایماندار اور صاحبِ کردار ہو کہ اپنے بچوں، رشتے داروں اور دوستوں تک کو کوئی Confidentialبات اور پالیسی یا پرچہ جات و کوڈ نمبر نہ بتائے اور اس مقصد کے لئے کنٹرولر سے بھی حلف لیا جائے اور وہ اپنے ما تحتوں سے حلف لے اور اس بات کا یقین رکھے کہ اُسے اللہ کے سامنے اپنے فرائضِ منصبی سے متعلق جواب دینا ہوگا۔ش۔امتحان میں ناجائز ذرائع استعمال کرنے والوں کے خلاف ایسی کاروائی ہو جس کو دیکھ کر اور سن کر دیگر مجرمانہ ذہنیت والے افراد عبرت حاصل کریں اور تائب ہوں۔ت۔اعزا و اقربا، جاننے والوں کے لئے یا سیاسی دباؤ کے تحت سیاسی افراد کے لئے کبھی بھی امتحانی مراکز تبدیل نہ کئے جائیں اور ان کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہ کی جائے۔

 

۷۔ انتظامیہ: (ڈائریکٹوریٹ؍سیکریٹریٹ:

 

ا۔ڈائریکٹر اور سیکریٹری تعلیمات کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی پالیسی کا عملی نفاذ کرے۔ب۔ڈائریکٹر پرائمری سے لے کر کالجز تک ، ماہر تعلیم اور قابل شخص ہو جو تعلیمی پالیسی کو نافذ کرکے اس کے مثبت نتائج اور مقاصد حاصل کر سکے اور وہ خود بھی محنتی و با کردار ہو۔ج۔سیکریٹری بھی کوئی CSSیا بیورو کریٹ نہ ہو بلکہ ماہر تعلیم ہو جو طلبہ و طالبات، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کے مسائل سے بخوبی واقف ہو اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو اور با عمل و باکردار ہو۔د۔پرائمری ڈائریکٹر کے ماتحت SDEOحضرات و خواتین اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرکے وہاں کی تعلیمی سرگرمیوں اور معیار کا جائزہ لیں اور عمل تدریس کی نگرانی کریں تاکہ معیارِ تعلیم بہتر ہو اور تعلیمی مسائل حل ہوں ، علاوہ ازیں اداروں کی ضروریات بھی پوری کریں۔ہ۔ڈائریکٹریٹ و سیکریٹریٹ میں تدریسی و غیر تدریسی عملہ کی فائلیں اس طرح سیٹ ہوں کہ کسی کی فائل گم نہ ہو اور کسی کا کام بھی نہ رُکے۔ اس مقصد کے لئے دس دس تعلیمی اداروں کا کام ایک کلرک کے سپرد کیا جائے اور کام کا وقت متعین ہو کہ بغیر چکر لگائے ہر فرد کا کام تین دن کے اندر اندر ہو جائے۔ ایک دن کا کام مہینوں نہ چلے۔و۔ثانوی ڈائریکٹریٹ کے ماتحت DEOحضرات و خواتین اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں کا باقاعدہ دورہ کریں اور وہ تدریسی عمل اور اس کے معیار کا جائزہ لیں اور ان اداروں کی ضروریات کو پورا کریں اور ان کے ما تحت مدارس کے تمام مسائل، خواہ وہ کسی فرد سے متعلق ہوں یا انتظامی اُمور سے، سب کو حل کریں۔ز۔کالجز کے ڈائریکٹر و ڈپٹی ڈائریکٹر صاحبان بھی کالجز کا دورہ کریں اور وہاں کے تعلیمی معیار کا جائزہ لیں، پڑھائی کو یقینی بنائیں اور اداروں کے تمام مسائل حل کریں۔ خواتین کے کالجز کے لئے خواتین ڈپٹی ڈائریکٹرز اور دیگر دفتری عملہ کے توسط اور تعاون سے ان کے معیار تعلیم کو بھی بہتر بنایا جائے اور ان کے تمام مسائل بھی حل کئے جائیں۔ح۔ڈائریکٹریٹ اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کی چھٹیوں کی منظوری اور ان کی دیگر درخواستوں کو ایک ہفتے کے اندر اندر نمٹا دے تاکہ انہیں ڈائریکٹریٹ کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ اسی طرح اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کے تقرر و ٹرانسفر کے معاملات کو بھی فوری طور پر نمٹا یا جائے۔سفارش و رشوت کے انتظار میں تاخیر نہ کی جائے۔ط۔اساتذہ کی ترقی اور ان کی ACRسے متعلق کام بھی بروقت مکمل کیا جائے اور ڈائریکٹریٹ کے عملہ کی سستی اور غلطی کا خمیازہ اساتذہ یا غیر تدریسی عملہ کو نہ بھگتنا پڑے۔ ی۔پرنسپل حضرات و خواتین کی سفارش پر بہترین فرائض منصبی ادا کرنے والے اساتذہ کو ترقی اور انعامات دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے تاکہ اساتذہ مزید محنت کریں۔ک۔نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی ڈپٹی ڈائریکٹرز ، برائے نجی تعلیمی ادارے مقرر کرکے انہیں قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ پر زور دینا چاہیئے۔ل۔ان تمام اداروں کی فیسوں اور فنڈز کی وصولی کی نگرانی کرنی چاہیئے اور طلبہ و طالبات یا ان کے والدین کو غیر ضروری مالی بوجھ سے نجات دلانے میں قانون سازی کرنے اور اس پر عمل درآماد کرنے پر زور دیا جائے ۔م۔سیکریٹری، ڈپٹی سیکریٹری اور اسسٹنٹ سیکریٹری کو وقت اور اصولوں کی پابندی کرنی چاہیئے۔انہیں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے، طلبہ و طالبات، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کے مسائل کو فوری حل کرنا چاہیئے۔ن۔جس درجے کے ملازمین کے جو حقوق ہوں انہیں بھوک ہڑتال پر مجبور کئے بغیر بر وقت خود ادا کر دینے چاہئیں اور سالانہ سینیریٹی لسٹ ہر گریڈ کے لحاظ سے بروقت نکال دینی چاہیئے۔س۔تمام طے شدہ فارمولوں کے تحت Move-Overاور ترقیوں کے احکامات کے نوٹیفیکیشن بھی از خود بر وقت نکال دینے چاہئیں۔ع۔اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کے تحفظ اور ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے اور انہیں خوشگوار تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے لئے سیکریٹریٹ و ڈائریکٹریٹ کے عملہ کو بھرپور تعاون کرنا چاہیئے۔ف۔ڈائریکٹریٹ و سیکریٹریٹ میں سائیکلو اسٹائل مشین، کمپیوٹر، فیکس، اور فوٹو اسٹیٹ مشینوں کو رکھا جائے تاکہ ہر کام آسانی اور تیزی سے ہو سکے۔ص۔اساتذہ و غیر تدریسی عملہ کے کوائف کا مکمل ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے تاکہ بار بار فارمز بھجوا کر کوائف معلوم کرکے اسٹیشنری اور وقت برباد نہ ہو۔ق۔سیکریٹریٹ میں بھی دفتری عملہ کو اسکولز اور کالجز کے کاموں کے لئے تقسیم کار علیحدہ علیحدہ کر دینا چاہیئے اور ہر کام کے لئے ایک وقت متعین ہو جس پر وہ یقینی طور پر مکمل ہو جائے۔ر۔جامعات میں جو انتظامیہ یا سنڈیکیٹ ، سینیٹ و اکیڈمک کونسل اور بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ہیں انہیں تدریسی و انتظامی امور کو بہتر بنانا چاہیئے اور یہ مقصد رکھنا چاہیئے کہ تعلیمی عمل اور ماحول میں خوشگوار تسلسل قائم رہے۔ طلبہ و طالبات ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ ہر قسم کے تناؤ سے آزاد ہو اور وہ خوشی اور دلجمعی سے اپنے فرائض منصبی ادا کر سکے۔ش۔انتظامیہ کو ایک طرف تو تعلیمی اداروں کو سہولیات فراہم کرنا چاہیئے اور دوسری طرف ان کو چلانے اور بنانے والے افراد کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پورے طور پر ادا کریں۔ اس مقصد کے لئے جائزہ کمیٹی قائم کرکے اُسے مکمل اختیارات تفویض کر دینے چاہیئے تاکہ وہ آزادانہ طور پر تدریسی عمل کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات پیش کر سکے۔ت۔ڈائریکٹریٹ و سیکریٹریٹ کے ملازمین کو رشوت اور سفارش سے بچانے کے لئے وہاں کی مساجد کے امام اور نمازی افسران پر مشتمل احتساب کمیٹی قائم کی جائے جو متاثرین سے معلومات کرکے ان کے کام بغیر رشوت و سفارش کے کروائے اور راشی و سفارشی عملہ کی تطہیر کا فریضہ بھی انجام دے سکے۔ اسی طرح یہ کمیٹی پرنسپلز، ہیڈز، SDEO، DEOاور دیگر افسران کے کاموں کا بھی جائزہ لے کر احتساب کرے۔

 

۸۔ صوبائی وزارتِ تعلیم ، وزیراعلیٰ اور گورنر کے فرائض:

 

ا۔گورنر کو چاہیئے کہ مشیرِتعلیم، سیکریٹری تعلیم، چیئرمین بورڈ، ڈائریکٹر اور ماہرینِ تعلیم پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرے جو تعلیمی اداروں اور بورڈز کے کاموں کی نگرانی کرے اور تعلیم،، طلبہ و طالبات، اساتذہ اور دفتری عملہ کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات تجویز کرے۔ب۔جب تعلیمی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی گورنر کو سفارشات پیش کرے تو گورنر فوراً اس پر عملدرآمد کے احکامات جاری کرے۔ج۔ٹیکسٹ بک بورڈز اور نصابی کمیٹیوں کی رپورٹس پر بھی فوری اقدامات کرنے چاہیئے۔د۔وزیراعلیٰ کے مشیرِ تعلیم، ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم اور ماہرینِ تعلیم آبادی کے تناسب سے تعلیمی سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دیں۔ مساجد و دینی مدارس کو ابتدائی تعلیم شروع کرنے اور انہیں ڈائریکٹوریٹ کے تحت رجسٹر کرنے کے اُمور انجام دیں تاکہ ہر محلہ، ہر گاؤں اور ہر شہر میں ہر فرد کو اپنے گھر سے قریب تعلیمی سہولتیں میسر ہوں۔ہ۔مدارس کے قیام میں متمول افراد کو آسانیاں اور سہولتیں فراہم کی جائیں اور ہر صنعتکار و زمیندار کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے علاقے کی ایک مسجد یا دینی مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کی سہولت مہیا کرے گا۔و۔صوبائی وزارتِ تعلیم، تعلیمی سرمایہ کاری اور مالیاتی معاملات میں تمام وسائل کو بروئے کار لائے اور موجود وسائل کو ضائع ہونے سے بچائے۔ز۔وزیر تعلیم خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا ہو، جو ملک میں انتخابات جیت کر عوامی نمائندہ کی حیثیت سے سامنے آئے مگر وہ کم از کم ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہو اور اس کا تعلیمی پس منظر بہتر ہو، یہ نہ ہو کہ انگوٹھا چھاپ اور ناخواندہ یا بے علم شخص کو وزیر تعلیم بنا دیا جائے۔ لہٰذا ہر سیاسی پارٹی کو یہ بات بتا کر شرط عائد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے امیدوار اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو سامنے لائے جو تعلیمی مسائل کو سمجھ سکیں اور ان کو حل بھی کر سکیں۔ح۔گورنر اور وزیراعلیٰ اپنی اعلیٰ اختیاراتی تعلیمی کمیٹیوں کو ایک طرف تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے تعینات کریں اور دوسری طرف نا اہل، سفارشی اور راشی عملہ کے احتساب پر بھی مامور کریں۔ط۔وزارت تعلیم نئے تعلیمی ادارے کھولے، ان کی توسیع اور ان میں مرمت کے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر بر وقت مکمل کرنے کے اقدامات کرے۔ی۔دینی، تعلیم، دنیاوی تعلیم، پیشہ ورانہ تعلیم اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم، طبی تعلیم، گھریلو صنعتوں اور دستکاریوں کی تعلیم، ہومیو پیتھی و یونانی علاج معالجے کی تعلیم اور ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر کمپیوٹر تعلیم کو فروغ دینے کے لئے ان میدانوں میں کام کرنے والے ماہرین پر مشتمل ’’ مجلس مفکرین‘‘ قائم کرے جو مقالات لکھ کر اور سیمینارز منعقد کرکے ان علوم و فنون اور تجارتی تعلیم کی اہمیت سے لوگوں کو روشناس کرائیں اور علوم عقلیہ و نقلیہ و متداولہ کی ترویج و اشاعت میں وزارت تعلیم سے تعاون کر سکیں۔

 

۹۔ وفاقی وزارتِ تعلیم، صدر و وزیراعظم:

 

ا۔وفاقی وزارتِ تعلیم کو ملک کے تمام صوبوں اور ڈویژنوں اور اضلاع میں ہر سطح پر مساوات قائم کرنی چاہیئے۔ آبادی کے تناسب سے ہر علاقے میں یکساں تعلیمی سہولیات کا جائزہ لے کر انہیں فراہم کرنا چاہیئے اور اس کے لئے سرمایہ کاری کرنا چاہیئے۔یہ نہ ہو کہ دارالحکومت میں یا حکمران پارٹی کے علاقوں میں تو ہر قسم کی اور ہر طرح کی تعلیمی سہولت میسر ہو اور ملک کے دیگر علاقے برسوں ان سہولتوں کو ترستے رہیں۔ب۔ہر صوبے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو تمغے اور انعامات دیئے جائیں اور ان کے اساتذہ کو بھی ایوارڈز و تعریفی اسناد سے نوازا جائے تاکہ طلبہ و طالبات مختلف تعلیمی میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔ج۔صدر و وزیراعظم قومی تعلیمی پالیسی کا صرف اعلان نہ کریں بلکہ اپنے ایوانِ صدر و وزیراعظم ہاؤس میں مشیرانِ تعلیم کے توسط سے ان کے عملی نفاذ کو یقینی بنائیں۔ اس لئے کہ ہمیشہ پالیسیاں بنتی رہیں ان کے اعلانات ہوتے رہے مگر خلوصِ نیت سے عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ان کے مقاصد و ثمرات بھرپور طریقے سے حاصل نہ ہو سکے۔د۔اسکالرشپس اور وظائف کے سلسلہ کو سفارش و رشوت سے پاک کیا جائے تاکہ ملکی و بیرونی اسکالرشپس پر طلبہ و طالبات جدید علوم و فنون حاصل کر سکیں اور بیرون ملک جاکر بھی کارنامے انجام دے سکیں۔ہ۔جو لوگ جہاد بالعلم (زبان و قلم سے جہاد) میں مشغول ہوں اور جن کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے افضل ہو انہیں معاشرے میں ایک عام مجاہد و سپاہی (جہاد بالا سلحہ والے) سے زیادہ نہیں تو کم از کم ان کے برابر مقام دیا جائے۔ اس لئے کہ اساتذہ روزانہ جہاد میں مشغول ہیں جبکہ افواج روازانہ مسلح جہاد میں مشغول نہیں اور اساتذہ کا مقام اسلام میں مجاہد سے بڑا رکھا گیا ہے۔موجودہ ماحول میں با وردی سپاہی خواہ کسی بھی ایجنسی کا ہو بغیر رشوت دیئے بغیر سفارش استعمال کئے اپنے تمام جائز کام کسی بھی سرکاری محکمے سے کروا سکتا ہے لیکن ٹیچر، پھٹیچر کہلاتا ہے اور اس کا کام کسی بھی محکمے میں شاید سفارش یا رشوت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔عوام کے کاغذات پر اس کی تصدیق سے عام لوگوں کے کام تو ہو جاتے ہیں مگر خود اس کا کام نہیں ہو پاتا لہٰذا ایسی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے اساتذہ کو تمام محکموں اور زندگی کے تمام شعبوں میں وہ سہولتیں دی جائیں جو کسی بھی سرکاری ایجنسی کے سپاہی کو حاصل ہیں۔ اس طرح سے اس کا وقار بلند ہوگا اور وہ دلجمعی و شوق سے اپنے فرائض منصبی ادا کر سکے گا اور تعلیمی معیار بہتر ہو سکے گا۔د۔بین الصوبائی تنخواہوں اور مراعات کا فرق دور کیا جائے۔ ملک کے ہر صوبے کے اساتذہ کو ایک جیسی تنخواہیں اور مراعات دی جائیں تاکہ ان میں بے چینی دور ہو اور وہ یکسوئی سے تعلیمی خدمات انجام دے سکیں۔ز۔طلبہ و طالبات کی تعداد کے اعتبار سے داخلوں کو یقینی بنایا جائے اور تعلیمی اداروں میں جہاں ضرورت ہو دوسری اور تیسری شفٹیں شروع کی جائیں۔ح۔طلبہ و طالبات کے تناسب سے اساتذہ و استانیوں کے تقرر کئے جائیں۔اکثر ملازمتوں پر پابندی لگا کر اساتذہ کی کمی نہ رکھی جائے بلکہ ضرورت کے مطابق اساتذہ کی بھرتی جاری رکھی جائے۔ط۔پاکستانی ملازمین کی تنخواہوں کے اسکیل میں جس طرح بیورو کریٹ تو گریڈ 22تک ترقی پاتے ہیں اسی طرح ان کو پڑھانے اور بنانے والے ہر تعلیمی ادارے کے اساتذہ کو بھی گریڈ 22تک ترقی دی جائے۔ی۔ترقی یافتہ ممالک کے ماہرینِ تعلیم اور سائنسدانوں کو بلوا کر ان سے مختلف جدید تعلیمی موضوعات پر مقالے پڑھوائے جائیں اور ان کی آراء سے فائدہ اُٹھا کر جدید علوم و فنون پر زیادہ توجہ دی جائے ۔ک۔وزارتِ تعلیم کے افسران کو بھی ترقی یافتہ ممالک کی جامعات اور ان کے نظام تعلیم و نظام امتحانات کا معائنہ کرنے اور جائزہ لینے بھیجا جائے اور ان کی سفارشات پر عمل در آمد کرکے اپنے ملک کے نظام تعلیم و نظامِ امتحانات کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ل۔ملک کے صدر اور وزیراعظم کو علم دوست ہونا چاہیئے اور ملک میں ہونے والی ہرسطح کی تعلیم کی سرپرستی کرنی چاہیئے۔م۔جدید علوم و فنون پر لکھی جانے والی کتب کو بیرونِ ملک سے منگوایا جائے اور ان کے سستے ایڈیشن شائع کرکے ان کو طلبہ و طالبات تک پہنچایا جائے۔ن۔مجاہدین فوجی تعلیمی اداروں میں عسکری تربیت کے لئے سمعی و بصری امدادی اشیاء کے استعمال کو یقینی بنایا جائے اور انہیں جدید اسلحہ سازی کے علوم و فنون سے روشناس کرایا جائے۔س۔انتظامیہ و پولیس میں بھی تعلیم و تربیت پر زور دیا جائے اور انہیں مہذب و با اخلاق بنایا جائے تاکہ ان کے مظالم کا شکار ہوکر لوگ سرکشی و بغاوت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ع۔ایوانِ صدر و وزیراعظم ہاؤس کے عملے کے لئے اور پروٹوکول افسران کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی مواقع مہیا کئے جائیں تاکہ ملک میں مظالم کے شکار افراد اور فریادی با آسانی سربراہانِ مملکت سے ملاقات کر سکیں اور ان سے اپنے حقوق طلب کرکے حاصل کر سکیں۔ف۔جو لوگ پیشۂ پیغمبری سے وابستہ ہیں ان کی شکایات پر کان دھرنا چاہیئے اور ان کی سفارشات پر ضرور غور کرنا چاہیئے اس لئے کہ جو اساتذہ محب وطن ہیں وہ ہمیشہ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنا چاہتے ہیں اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی تدریس و توجہ دلانے سے حکمران بھی ایسا ہی کریں۔ص۔جس طرح سیاسی پارٹیوں کو، وزیر تعلیم نہایت پڑھا لکھا ذہین اور قابل شخص دینا چاہیئے، اسی طرح صدر اور وزیراعظم بھی، انہیں ایسا شخص تیار کرنا چاہیئے جو عالم باعمل ہو جدید و قدیم علوم سے واقف ہو اور عیدین کی نماز با جماعت کی امامت کر سکتا ہو۔کاش! کہ کبھی اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ایسا ممکن ہو!!!اسی طرح بہترین تعلیم یافتہ باعمل شخص کے سربراہِ مملکت ہونے سے ملک میں زندگی کے ہر شعبے اور ہر محکمے میں ترقی کی رفتار تیز ہوگی اور شرح خواندگی میں اضافہ ہوگا اور ملک ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے گا۔ اس طرح مقاصدِ تعلیم بھی تیزی سے حاصل ہو سکیں گے۔اللہ تبارک و تعالیٰ تمام پاکستانیوں کو حصولِ علم اور اس پر خلوصِ نیت کے ساتھ عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!راقم الحروف کی رائے میں پاکستان میں جو بھی ’’ قومی تعلیمی پالیسی ‘‘ بنائی جائے اس میں نہ صرف یہ کہ مندرجہ ذیل اُمور کو مدنظر رکھا جائے بلکہ اس ملک میں قومی تعلیمی پالیسی پر خلوص کے ساتھ پوری طرح عمل در آمد کیا جائے اور اسے ردّی کی ٹوکری کی نظر سے بچا لیا جائے۔

طویل المعیاد منصوبہ بندی کے لئے چند تجاویز :

۱۔ موجودہ نافذ العمل دستور پاکستان مُرتّبہ ۱۹۷۳ء کی اسلامی دفعات کی روشنی میں پانچویں جماعت تک قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم مکمل کرائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مسجد مدارس اور پرائمری مدارس میں عربی اساتذہ (O.T)کی خدمات لی جائیں اور مدرسہ کے نظام الاوقات میں پہلا پیریڈ قرآنی تعلیم کا رکھا جائے۔۲۔ چھٹی جماعت سے میٹرک تک قرآن مجید با ترجمہ ختم کروایا جائے اور آیاتِ امر (۵۰۰ آیات جن میں عمل کرنے احکام دیئے گئے ہیں) اور آیات نہی (۵۰۰ آیات جن میں ممانعت یعنی باز رہنے کے احکام دیئے گئے ہیں)پر خصوصی توجہ دی جائے۔۳۔ تمام مدارس کے ماحول کو اسلامی بنانے اور اسے سیاسی نعرے بازی سے پاک رکھنے کے لئے مدارس کی اندرونی و بیرونی دیواروں اور بڑے دروازوں پر اخلاقیات سے متعلق آیاتِ قرآنی و احادیث مع اردو ترجمہ لکھوائی جائیں۔۴۔ طلبہ کا یونیفارم پورے ملک میں قمیص شلوار اور ٹوپی اور کتھئی سیاہ جوتے کا ہو، طالبات کے لئے قمیص شلوار کے ساتھ مکمل دوپٹہ ہو، Vکی پٹّی نہ ہو۔ سیکنڈری کی طالبات کے لئے بڑی چادر کا استعمال بھی لازمی ہو۔ اس طرح بے شرمی و بے حیائی کا سدّباب ہو سکے گا۔۵۔ قرآنی تعلیمات، اسلامیات اور علومِ اسلامیہ کی تدریس کے لئے صرف ایسے ہی اساتذہ اور استانیوں کو مقرر کیا جائے جو با شرع ہوں اور اسلامی اقدار کا عملی نمونہ ہوں۔ جو بے عمل اساتذہ اور استانیاں پہلے سے ہی تدریسی اُمور انجام دے رہے ہوں، انہیں اسلام پر سختی سے عمل کی تاکید کی جائے اور اگر وہ پھر بھی عمل نہ کریں تو ان کا پروموشن اور سالانہ انکریمنٹ دینے پر عمل اور اچھے کردار کے ساتھ مشروط کر دیا جائے۔ اس لئے کہ جس استاد کے قول و فعل میں تضاد ہو، وہ اس مقدس پیشۂ پیغمبری کا اہل نہیں ہو سکتا۔۶۔ ہیڈ ماسٹر؍ہیڈ مسٹریس، پرنسپل، DEO، ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈائریکٹر، ڈپٹی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری اور سیکریٹری تعلیم کا تعلق شعبۂ تعلیم ہی سے ہو کسی دوسرے شعبہ کے افراد کو مسلط نہ کیا جائے۔ اس لئے کہ دوسرے شعبے کا آدمی نہ تو شعبۂ تعلیم کے مسائل کا صحیح ادراک کر سکتا ہے اور نہ ہی انہیں صحیح طور سے حل کر سکتا ہے۔ ان عہدوں پر بھی ایسے افراد کا تقرر کیا جائے جو با شرع ہوں۔ رشوت، اقربا پروری، لسانی و صوبائی عصبیت اور سفارش کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے اساتذہ، طلبہ و طالبات اور عوام الناس کی محکمۂ تعلیم سے شکایات پر فوری توجہ دینے کے لئے شعبۂ تعلیم میں اچھی شہرت کے حامل و مالک اساتذہ کا ایک ’’ احتساب سیل ‘‘ قائم کیا جائے جو ہر سطح پر بد عنوانی و زیادتی کی روک تھام کرے اور شکایات کا ازالہ کرے۔۷۔ مخلوط تعلیم کا ہر سطح پر خاتمہ کیا جائے۔ طلبہ کے مدارس الگ ہوں اور طالبات کے الگ۔ اس سلسلہ میں پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کی جائے اور جگہ کی کمی دور کرنے کے لئے ہر مدرسہ میں کم از کم دو شفٹیں چلائی جائیں۔ میڈیکل کی تعلیم کے لئے، انجینئرنگ کے لئے اور جدید سائنس وٹیکنالوجی کے حصول کے لئے بھی طلبہ و طالبات کی علیحدہ علیحدہ یونیورسٹیاں بنائی جائیں یا وسائل کی کمی کے باعث ان میں اوقات یا سیکشن کی تقسیم کی جائے۔۸۔ ہر سطح پر یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے، جہاں امرأ و غربأ کے بچے ایک ہی ماحول میں ایک ساتھ ایک ہی نصاب پڑھیں۔ انہیں پڑھانے والے باعمل مسلمان اور محب وطن پاکستانی ہوں جو طلبہ و طالبات میں اسلام پر عمل کرنے اور وطن سے محبت کرنے کا جذبہ بیدار کر سکیں۔۹۔ پرائمری، سیکنڈری، ہائر سیکنڈری، ڈگری اور پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر نصابی کتب کی ابتداء بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم سے کی جائے اور پہلے صفحے پر متعلقہ مضمون کی کتاب پر اس مضمون کی آیت یا حدیث یا کسی مسلمان مفکر یا سائنسدان کا کوئی مقولہ بھی درج کیا جائے۔۱۰۔ اس وقت ملکِ پاکستان میں صوبائی بورڈز، آغا خان بورڈ، دینی مدارس کے بورڈز، صوبائی ٹیکنیکل بورڈز،فیڈرل بورڈ اور برطانوی و امریکی یونیورسٹیوں سے ملحقہ تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں یکسانیت پیدا کی جائے۔عام طور سے صوبائی بورڈز غریب و متوسط طبقے کے لئے، فیڈرل بورڈ بیورو کریٹ اور Upper Midlle Classکے لئے اور برطانوی و امریکی ملحقہ ادارے نو دولتیوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے لئے مختص ہیں۔ اکثر جو لوگ مراعات یافتہ اور قومی دولت لوٹنے والے ہیں وہ اپنی اولاد کو بیرونِ ملک پڑھواتے ہیں اور یہاں کے غریب طلباء و طالبات کو اپنی سیاست کا آلۂ کار بناتے ہیں۔اس لئے ہونا یہ چاہیئے کہ برطانوی اور امریکی یونیورسٹیوں سے ملحقہ اداروں پر کڑی نظر رکھی جائے، فیڈرل بورڈ صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور دارالحکومت کے مدارس تک محدود کر دیا جائے اور صرف ڈویژنل سطح پر بورڈز کے ذریعے پورے ملک میں ایک ہی وقت میں امتحانات لئے جائیں اور ان کا نتیجہ بھی ایک ساتھ نکالا جائے۔ بیرونِ ملک پاکستانی، پاکستانی اسکولوں اور کالجوں میں سفارتخانوں کے توسط سے اپنے ڈویژن میں امتحان دیں، تاکہ دنیا میں رہنے والا ہر پاکستانی ایک ہی سطح پر تعلیم حاصل کر سکے۔ اس طرح طبقاتی نزاع ختم ہوگا اور مساوات کے تقاضے بھی پورے ہونگے۔۱۱۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر ایک ’’ تحقیقاتی سیل ‘‘ ہر یونیورسٹی میں ہر شعبے میں قائم کیا جائے، جو نہ صرف تحقیقی کام کا جائزہ لے بلکہ دنیا میں ہونے والی سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کو اس شعبے کے نصاب میں شامل کرتا رہے تاکہ ترقی کے میدان میں پاکستانی کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ اس سیل کا تعلق ترجمہ سے بھی ہو جو قومی زبان اردو میں جدید علوم کو منتقل کرتا رہے۔۱۲۔ بنیادی لازمی تعلیم(Primary Education)کا ہدف اس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے کہ ہر محلہ کی مسجد میں مدرسہ کھولا جائے اور وہاں قرآن مجید حفظ و ناظرہ کے ساتھ ساتھ پرائمری جماعتوں کی تعلیم بھی دی جائے۔ اس کے لئے ’’ اقراء ٹیکس‘‘ کا صحیح استعمال کیا جائے اور جہاں ’’ اقراء اسکول ‘‘ پہلے سے بنے ہوئے ہیں وہاں تدریسی عملہ تعینات بھی کیا جائے۔۱۳۔ ملک سے ناخواندگی کو ختم کرنے کے لئے سماجی بہبود کے اداروں، اسکاؤٹس، سول ڈیفینس، جانباز فورس اور ایسے ہی دیگر اداروں مثلاً زکوٰۃ کمیٹیوں اور مساجد کمیٹیوں کے اراکین سے رابطہ کرکے ہر محلہ کی مسجد میں فجر سے ظہر تک بچوں کے لئے ظہر سے عصر تک عورتوں کے لئے اور مغرب سے عشاء تک مردوں کے لئے آسان نصاب مقرر کرکے (جس سے پڑھنا لکھنا اور حساب کرنا آجائے) تعلیم دی جائے۔۱۴۔ ذریعۂ تعلیم پورے ملک میں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک ملک کی قومی زبان اردو میں ہو۔ صوبائی زبان، انگریزی اور عربی چھٹی جماعت سے دسویں تک بطور اختیاری مضامین شامل نصاب کی جائیں۔۱۵۔ گیارہویں جماعت سے ڈگری کلاسز تک انگریزی کو لازمی مضمون کی حیثیت سے شاملِ نصاب رکھا جائے اور اس کے نصاب میں تاریخِ اسلام کے مجاہدین و فاتحین کے واقعات رکھے جائیں، مسلم سائنسدانوں کی خدمات کے اسباق اور قواعد رکھے جائیں۔ کئی سال پرانا غیر اطلاقی وغیر اخلاقی نصاب خارج کیا جائے۔۱۶۔ حب الوطنی کے جذبے کو اجاگر کرنے کے لئے قومی تہواروں پر چھٹی کرنے کے بجائے اس دن اور اس دن سے منسوب شخصیت کے کارناموں پر مبنی کوئز پروگرام اور تقریری مقابلے رکھے جائیں۔ طلبہ و طالبات کو اُن سے متعلق تاریخی مقامات و عجائب گھر کی سیر کروا کر ان کی مشاہداتی معلومات میں اضافہ کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔۱۷۔ استاد کی حیثیت کو مؤثر بنانے کے لئے معاشرے میں اس کو تمام انتظامی اداروں کے افسران سے زیادہ نہیں تو کم از کم ان کے برابر عزت و اختیارات دیئے جائیں جو اس کا اسلامی حق بھی ہے۔ اس کی تربیت کے لئے ریفریشر کورسز کا انعقاد کیا جائے تاکہ جب استاد کی سیرت و کردار مثالی بن جائے تو وہ نئی نسل کا آئیڈیل بن سکے اور طلبہ و طالبات اپنے اساتذہ کی پیروی میں اسلام پر عمل کرکے پیشوائے عالم بن سکیں۔پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک کے استاد کو کم از کم اتنی مراعات ضرور دی جائیں جتنی ان کے گریڈ کے دیگر سرکاری افسران اور محکمۂ دفاع و سیکریٹریٹ کے ملازمین کو میسر ہیں۔۱۸۔ خواتین میں تعلیم کے فروغ کے لئے شہروں اور دیہاتوں میں تعلیم بالغاں برائے خواتین کے جز وقتی ادارے ہوں جو مساجد میں ان کے لئے ظہر تا عصر مناسب تعلیم کا بندوبست کر سکیں۔ اس طرح خواتین اپنے بچوں کو خواندہ بنانے کے لئے زیادہ مدد دے سکیں گی۔۱۹۔ ہر تعلیمی ادارے میں باجماعت نماز کا انتظام و اہتمام ہو۔ خواتین کے لئے بھی نماز کا علیحدہ انتظام ہو۔ اگر ہر تعلیمی ادارے کا سربراہ اتنا با عمل مسلمان ہو کہ وہ نماز کی امامت خود کر سکے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔ اس طرح اس کا ما تحت بھی نمازی بن جائے گا۔ نماز کے بعد اگر ادارے کا سربراہ صرف ایک آیت یا حدیث کا ترجمہ بیان کرے یا ایک دینی مسئلہ بیان کرے اس سے ادارے کا ماحول اسلامی رہے گا اور رشوت و اقربا پروری میں کمی آئے گی، اور فساد کا خطرہ نہیں رہے گا۔۲۰۔ مختلف جماعتوں کے مضامین کے نصاب وہ اساتذہ تیار کریں جو اس مضمون کے ماہر ہوں، طلبہ و طالبات کی عمروں کے لحاظ سے ان کی ذہنی سطح سے آگاہ ہوں، جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوں اور ان کا نصب العین یہ ہو کہ ان کے تیار کردہ نصاب کے مطابق تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات نہ صرف یہ کہ علم کو فرض سمجھ کر رضائے الٰہی کے حصول کے لئے حاصل کریں بلکہ ضمناً وہ معاشی فوائد بھی حاصل کر سکیں اور ملک و قوم کے لئے مفید خدمات بھی انجام دے سکیں۔۲۱۔ نصاب سازی کے بعد درسی کتب کی اشاعت کی ذمہ داری اُن ایماندار تجار کے ذمے کی جائے جو بر وقت درسی کتب بازار میں لا سکیں اور راتوں رات امیر بننے کے لئے بہت زیادہ مہنگی کتابیں نہ بیچیں بلکہ آٹے میں نمک کے برابر نفع لے کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

 

تجاویز برائے قلیل المیعاد منصوبہ بندی:

۱۔تمام دینی مدارس کا ایک متفقہ بورڈ ہو جو مختلف مسالک کے نمائندہ علماء پر مشتمل ہو جو سیرتِ رسول ﷺ کے تناظر میں یکساں نصاب نافذ کرے۔

 

۲۔دینی مدارس، سرکاری و نجی اور نیم سرکاری عصری تعلیمی مدارس میں طلباء و طالبات سے دیگر ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی طرح رسولِ کریم ﷺ اور ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی پسندیدہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، سواریوں، رہائش گاہوں اور دیگر استعمال کی اشیاء سے متعلق کوئز، تقریر ی مقابلے، ٹیبلو اور انعامی پروگرام منعقد کئے جائیں “Salam Book” بنوائی جائیں تاکہ نئی نسل سیرتِ رسول ﷺ کے پیغام کو سمجھ کر اُسے عام کر سکے اور اپنا سکے۔

 

۳۔فیڈرل بورڈز کی طرز پر تمام صوبائی بورڈز کے مختلف کلاسز کے نصاب بھی قومی تعلیمی پالیسیوں کے مقاصد کو پورا کرنے والے ہوں جن میں سیرتِ رسول ﷺ کی تفہیم کے لئے خصوصی توجہ دی جائے۔ وغیرہ۔

حوالہ جات

  1. ۔ ابی جعفر بن جریر الطبری ، تاریخ الامم و الملوک، ج/۱، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت، ۱۴۲۸ھ بمطابق ۲۰۰۷ء ،:۳۰۔
  2. ۔محمد بن عمر بن واقدی، کتاب المغازی، عالم الکتب، بیروت، ۱۴۰۴ھ بمطابق ۱۹۸۴ء ،:۶۱۸۔
  3. ۔لابی عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج/۴، دارالجیل بیروت، س ن ،:۱۲۸۔
  4. ۔عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی، المصنف، ج/۱۱، للمجلس العلمی، بیروت، ۱۳۹۰ھ بمطابق ۱۹۷۰ء ،:۲۲۲۔
  5. ۔تقی الدین ابی العباس احمد بن علی المقریزی، کتاب الإطط والآثار، ج/۴، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، القاہرۃ، ۱۹۸۷ء،:۲۷۳۔
  6. ۔لابی محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی، مجمہرۃ انساب العرب، دارالمعارف، القاہرۃ، ۱۹۸۲،:۱۲۰۔
  7. ۔مقریزی، کتاب الخطط والآثار، ج/۲، محولہ بالا،:۳۶۲۔
  8. ۔لوثروب ستودارد، حاضر العالم الاسلامی، ج/۲، دارالفکر، بیروت، ۱۳۹۱ھ بمطابق ۱۹۷۱ء،:۲۹۳۔
  9. ۔ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد العبدری المعروف بہ لابن الحاج، المدخل، ج/۱، مکتبۃ دارالتراث، القاہرۃ، س ن ،:۲۰۲۔
  10. ۔ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد العبدری المعروف بہ لابن الحاج، المدخل، ج/۱، مکتبۃ دارالتراث، القاہرۃ، س ن ،:۲۰۲۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...