Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 1 of Al-ʿILM

پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کے قانونی مسائل، مجوزہ حل |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060040263_1255

Pages

76-97

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/88/68

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/88

Subjects

Divorce Problems Family life Dangerous level Tragedy

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عصر حاضر میں خاندان کو جہاں اور  بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑہ رہا  ہے وہاں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ گھروں کے ٹوٹنے اور بننے کی رفتار تقریبا برابر ہوچکی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی معاشرے میں طلاق کے رجحان میں  خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ مغرب میں یہ رجحان گزشتہ کئی دہائیوں سے    بہت تیزی سے بڑھا ہے  کہ اب ان کے ہاں بھی خاندان بچاؤ تحریکیں  چل رہی ہیں لیکن  اب اسی    مغرب کی سی تیزی سے اس رجحان نے مشرق کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 

موجودہ دور میں بالخصوص مغربی ممالک میں طلاق ، علیحدگی ، فرار اور عدم اتحاد اور تعاون میں کمی کے بے شمار واقعات اخباروں کے صفحات اور عدالتوں کی فائلوں  کی زینت بن رہے ہیں۔ عدم استحکام کی شدت مختلف  مقامات پر مختلف ہے۔ بعض صنعتی علاقوں میں اس کے  واقعات مقابلتا  زیادہ  ہیں مگر مجموعی طور پر ان واقعات  میں  ہر جگہ اضافہ ہورہا ہے ۔

پاکستان میں موجود فیملی کورٹس میں داخل مقدمات کا جب جائزہ لیا  گیا تو معلوم ہو اکہ آج سے چند برس پہلے صرف لاہور شہر میں ۱۰ فیملی کورٹس قائم تھیں جبکہ آج ان کی تعداد  صرف لاہور شہر  میں ۲۵ ہوچکی ہیں۔  اورہر عدالت میں  دائرہ مقدمات طلاق، خلع، سامان جہیز کی واپسی ، نان و نفقہ ، بچوں کی حضانت  وغیرہ کے  ہیں اور تقریبا  ۱۳۵کے قریب کیسسز کی سماعت روزانہ ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ صورت حال ہماری خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کیونکہ طلاق کے  تین الفاظ ادا کرکے مرد تو  الگ ہوجاتا ہے لیکن عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل  کی نوعیت  قانونی بھی ہے اور سماجی بھی۔

پاکستان کی سماجی صورت حال    میں طلاق کے اسباب کا جائزہ  لینے کے بعد یہ بات   کا فی حد تک  درست معلوم ہوتی ہے کہ مرد توطلاق کے  تین الفاظ ادا کرکے الگ ہوجاتا ہے لیکن عورت  کے لئےسماجی مسائل  جہاں ان گنت تلخ    تجربوں سے بھرپور ہوتے ہیں وہیں قانونی مسائل  مالی، جسمانی، نفسیاتی وجذباتی      لحاظ سے مطلقہ خاتون اور اس کے خاندان کے لئے ایک  ناقابل فراموش   بد ترین سانحہ بن کر رہ جاتے ہیں۔  طلاق کے بعد اگرچہ عورت پہلے ہی اپنا گھر ٹوٹنے کے باعث اپنی جذباتی، نفسیاتی ، جسمانی کیفیت کےایک بدترین دور سے گزرہی ہوتی ہے وہیں جب اسے   اپنے حق کے حصول کے لئے یا اپنے دفاع میں قانونی چارہ جوئی  کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے جو لڑکی اور اس کے والدین کے لئے طلاق سے بڑھ کر ناقابل تلافی جرم بن کر  رہ جاتا ہے۔  عدالت تک داد رسی  اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے عورت کو بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔   جو ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔   ذیل میں مطلقہ خواتین کو جو قانونی مسائل در پیش ہیں ان کا   انٹرویو اور سروے  کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔ ان مطلقہ خواتین جن سے  انٹرویو  اور سروے کیا گیا ہے  ۴۰ فیصد خواتین کے والدین نے عدالتی طریقہ کار کی پیچیدگی، تاخیر اور خصوصا مالی وسائل کی کمیابی کی وجہ سے  عدالت سے رجوع ہی نہیں کیا۔  اس سروے اور انٹرویو کی روشنی میں جو مسائل سامنے آئے ہیں ذیل میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے

عدالت میں مطلقہ خواتین کی جانب سے دائر مقدمات کی نوعیت و شرح سروے کی روشنی میں اس طرح ہے :

مقدمات مطلقہ خواتین شرح فیصد
حضانت و نان و نفقہ 70 36.46
مہر و جہیز 122 63.54
ٹوٹل: 192 100

پاکستانی معاشرے میں مطلقہ خواتین کو درپیش قانونی  مسائل:

۱۔ حصول انصاف کے لئے مالی مسائل :

جن خواتین سے سروے کیا گیا ان میں سے ۴۰ فیصد نے کہا کہ انھوں نے اپنے سا مان جہیز کی واپسی، حق مہر کی طلبی، نان و نفقہ  کی فراہمی، بچوں کی حضانت کے معاملے میں  عدالت سے اس وجہ  سے رابطہ نہیں کیا  کیونکہ ان کے مالی وسائل اس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ وکیلوں کی فیسیں بھر سکیں، اور نہ ہی ان کے والدین یا بھائی اس مالی حیثیت کے حامل تھے کی وہ ان کی اس معاملے میں مالی اعانت کرسکتے، وہ تو پہلے ہی اپنے والدین اور بھائیوں پر ناقابل برداشت بوجھ ہیں ایسے میں یہ کہاں ممکن تھا کہ وہ عدالتی معاملے میں ان کی مدد کرتے۔

اس سلسلے میں  ایک خاتون نے بتایا کہ  اس نے عدالت سے اس لئے  رجوع نہیں کیا کیونکہ اس کے گھر والے وکیلوں کی فیسیں نہیں  بھر سکتے تھے جبکہ اس کا سابقہ شوہر مالی لحاظ سے مضبوط تھا لہذا اس نے بچوں کو اپنے پاس رکھ لیا حالانکہ وہ ابھی چھوٹے تھے لیکن وہ اس سلسلے میں قانو نی مدد اس لئے  حاصل نہیں کرسکی کہ اس کے والدین اسے تو برداشت کررہے ہیں لیکن اس کے بچوں کے اخراجات برداشت  کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔جبکہ وہ پڑھی لکھ بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اخراجات خود اٹھانے کے لئے کوئی  ملازمت کرسکے۔ ([1])

۲۔عدالتی و قانونی پیچیدگیاں :

جن مطلقہ خواتین نے عدالت سے  اپنے کسی بھی  قانونی مسئلے میں رجوع کیا  انھوں نے کہا کہ  دوسری پارٹی تنگ کرنے کے لئے مختلف حیلے بہانوں سے  تاخیر کرواتی رہتی ہے، کبھی وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے کبھی ان کا وکیل چھٹی کرلیتا ہے ، کبھی وہ کوئی میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کرکے حاضری سے ایک لمبے عرصے تک استثنا لے لیتے ہیں۔  ان  کا مقصد ایسے کرنے سے یہ ہوتا ہے کہ  ہم تنگ آکر کیس ہی واپس لے  لیں یا تاخیر سے تنگ آکر عدالت ہی آنا چھوڑ دیں۔

لاہور بار کے صدر کے مطابق اذیت پسند شوہر  اپنی بیویوں  کو اذیت دینے کے لئے حربے استعمال کرتے ہیں لیکن عدالتیں اس حوالے سے تیزی سے اقدامات نہیں کرتیں۔ ([2])

  ایک خاتون نے بتایا کہ اس کی طلاق ہوئے چار سال ہو چکے ہیں اس نے تب ہی سے اپنے سامان جہیز کی واپسی کا  مقدمہ دائر کیا ہوا ہے لیکن ابھی تک اس کے کیس کا فیصلہ نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی ان کا وکیل چٹھی کرلیتا ہے،کبھی  جج صاحب بھی چھٹی پر ہوتے ہیں، اکثر اوقات اس کا سابقہ شوہر اور  اس کے گواہ  مقدمے  گواہی اور بیان دینے  کے لئے حاضر نہیں ہوتے، اس دوران دوبار جج تبدیل ہوگیا ہے جس کے باعث بھی مقدمہ التواء کا شکار ہوا ہے۔  اور ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ([3])

سینئیروکیل مظہر سجاد  شیخ ایڈوکیٹ  کہتے ہیں کہ اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیئے۔ ([4])

ایسے ہی مسائل کی  نشاندہی دیگر خواتین نے بھی کی جن سے انٹرویو  لیا گیا۔([5])

ایک انٹرویو دینے والی خاتون نے یہ کہا کہ اس والدین بوڑھے ہیں ۔ عدالت  کی جانب سے دی جانے والی تاخیر پر اس کے والد کو آنا پڑتا ہے، تمام دن انتظار کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ان کا وکیل نہیں آیا یا اگلی کوئی تاریخ  لے کر چلا گیا ہے۔ میرے والد صاحب کے لئے بار بار عدالت کی سیڑھیاں چڑھنا  اترنا انتہائی مشکل ہے لیکن وہ میرے حق کے لئے یہ تکالیف برداشت کررہے ہیں جبکہ مقدمے کو چلتے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں، میرے بھائی  ابھی چھوٹے ہیں اور پڑھ رہے ہیں اس لئے وہ عدالت کے کاموں کو نہیں سمجھتے اور عدالت میں نہیں آسکتے۔[6]

۳۔حق حضانت:

  مطلقہ اگر صاحب اولاد ہے تو ایسی صورت میں اس کے لئے  مزید پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔   خصوصا بچوں کی حضانت اور ان کے نان و نفقہ کے  حوالے سے۔ طلاق اگرچہ  خاندانی   طور پر ہوچکی ہو لیکن ان معاملات کے لئے مطلقہ  اور اس کے ورثا کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں ہمارا عدالتی نظام  میں بھی بہت سے نقائص ہیں اور حصول انصاف اور داد رسی کے لئے اسے بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس سے ذہنی اذیت، بے بسی، وقت اور پیسوں کا ضیاع، عدالتوں کے چکر  اور دیگر مسائل سے   مطلقہ خاتون کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے  جو ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔  ان مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بچوں کی  حضانت کا مسئلہ  ہے۔

عدالتوں میں سینکڑوں   بچوں کی حضانت  سے متعلق مقدمات  ہر روز سماعت کے لئے  آتے ہیں ۔ یہ مقدمات کئی کئی سال سے چل رہے ہیں، دیگر مقدمات کی طرح ان میں بھی کافی تاخیر ہوتی ہے،  بچوں کے والدین پر اس حوالے سے نفسیاتی دباؤ بھی  ہوتا ہے دوسری طرف بچے بھی جذباتی و نفسیاتی لحاظ سے  بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔  چھوٹے بچے کیونکہ اپنی والدہ کی سرپرستی میں زیادہ ترہوتے ہیں ،اس لئے بھی خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا  کرنا پڑتا ہے۔

انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ  اس کی طلاق اگرچہ خاندانی طور پر ہوگئی تھی لیکن بچوں کی حضانت سے متعلق اسے  اپنے شوہر کی جانب سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا  ، طلاق واقع ہوئے تین سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس  معاملے میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی،  میں ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوتی ہوں لیکن بچوں کے باپ کی جانب سے کبھی گواہ پیش نہیں کئے جاتے اور کبھی وکیل ہی پیش نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا باپ آتا ہے، جب اس سے اس حوالے سے بات کی گئی کہ آیا باپ بچوں سے ملاقات کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ مہینے میں ایک بار  ایک گھنٹے بچوں کی ملاقات کا شیڈول طے ہے لیکن  ان کا باپ  اس کی پابندی نہیں کرتا ، کبھی دس منٹ ملاقات کرتا ہے اور اکثر اوقات دو ،تین ماہ ملاقات کے لئے نہیں آتا جبکہ میں  اپنے بچوں کو عدالت میں ملاقات کے لئے لے کر آتی ہوں، بچوں کا تعلیمی حرج بھی ہوتا ہے ، نیز عدالت کا ماحول ایسا نہیں ہے جو بچوں کی ذہنی تربیت کے لئے اچھا ہو یہ ان پر برا ا ثر ڈالتی ہے، لیکن مجبوری میں ایسا کرنا پڑتا ہے۔[7]

والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور چپقلش کے نتیجہ  میں چار مہینوں میں  تقریبا   ایک ہزار کمسن بچے عدالتوں میں رل گئے۔ ([8])

بچوں کی حضانت کے ایک مقدمے میں  متاثرہ خاتون نے بتایا کہ   طلاق کے بعد اس کے شوہر نے اسے اور اس کی دو سالہ بیٹی کوگھر سے نکال دیاجبکہ اس کے دوسرے دو بچے جو لڑکے ہیں اسے شوہر نے اپنے پاس رکھ لیا، اس نے کہا  کہ میں نے   خاندانی اور محلے کی سطح پر بڑی کوشش کی کہ مجھے میرے بیٹوں سے ملنے دیا جائے جن کی عمر چار سال اور چھ سال ہیں لیکن ان کے باپ نے ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا، چنانچہ میں نے عدالت سے رجوع کیا، اب میری ملاقات میرے بچوں سے ہوگئی ہے  لیکن ابھی ان کے میرے پاس  رہنے کا فیصلہ نہیں ہوا ہے، مقدمہ ابھی چل رہا ہے، ان کا باپ کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کسی قیمت پر نہیں  دوں گا ، خاتون نے کہا کہ مجھے اپنی نہیں اپنے بچوں کی  بہت فکر ہے، میری زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے۔([9])

۴۔غیر شائستہ زبان اور دھمکیاں:

عدالتوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے ہیں، اگرچہ ایسا دونوں جانب سے ہوتا ہے لیکن  مشاہدے میں آیا ہے کہ مرد  حضرات اپنی سابقہ بیوی،  ان کے خاندان والوں ، اس کے والدین اور  بہن بھائیوں کو طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہیں،   ایک خاتون جو اپنے  شوہر اور سسرال والوں کے رویے کی وجہ سے  طلاق لینے پر مجبور ہوگئی تھی، اس نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میرے سسرال والوں خصوصا میرے دیوروں نے میرے باپ کو  عدالت میں اس قدر دھمکیاں دیں کہ اس کی وجہ سے میرے والد کو ہارٹ اٹیک ہو گیا اور ہسپتال جاتے ہوئے ان کا انتقال ہوگیا۔ ([10])

فیملی کورٹ میں بچوں سے ملاقات کے وقت بھی اکثر اوقات والدین دوسرے فریق کے لئے ناشائستہ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، ایک فریق دوسرے فریق کو برا بھلا کہتا ہے ، ایک دوسرے کردار کشی کی جاتی ہے، وکلاء بھی اپنے مقام  ومرتبہ کا لحاظ کئے بغیر بعض اوقات  فریق مخالف سے اور بعض اوقات جج سے بھی ا لجھ  پڑتے ہیں۔  تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے ، ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔عدالت میں پیش آنے والی اس صورتحال کی وجہ سے شرفاء  ایسے عائلی معاملات میں عدالتوں میں جانا اپنی عزت و غیرت کا جنازہ نکل جانے کےمترادف خیال کرتے ہیں کیونکہ جب عدالتوں کے باہر   بہو بیٹیوں کے نام پکارے جاتے ہیں اس وقت دل یہ چاہتا ہے کہ  زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دھنس جائے۔ ([11])

عدالتی نظام پر عدم اعتماد ،  معاشرتی  و عدالتی ماحول ، مقدمات کی طوالت  اور مالی  وسائل کی عدم فراہمی  کے باعث بہت سے خاندان حصول انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ   تک نہیں جاتے ، اور اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ صورت حال سروے سے  حاصل شدہ  اعداد وشمار کی روشنی میں  کچھ یوں پیش ہے ۔

قانونی تحفظ اور امداد مطلقہ خواتین شرح فیصد
سرکاری 0 0.00
غیر سرکاری 70 36.46
ذاتی 80 41.67
عدالت پر عدم اعتماد 42 21.88
ٹوٹل 192  

ایک بزرگ جو اپنی نواسے نواسیوں کے حضانت کے مقدمے میں پیروی کے لئے اپنی بیٹی کے ہمراہ آئے ہوئے تھے انھوں نے کہا کہ میں ایک  دینی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، میری بچیاں باپردہ رہتی ہیں لیکن  اس مسئلے میں مجھے اور میری بچیوں کو عدالتوں کے چکر لگانے پڑے  اور جب عدالت میں بیٹیوں کے ناموں کی پکار لگتی ہے تب  میرے لئے شرم سے مرجانے کا مقام ہوتا ہے۔جبکہ دوسرے فریق کی جانب سے دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور ایسی ایسی زبان اور القابات سننے کو ملتے ہیں کہ میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ آنکھ ملانے کے بھی قابل نہیں رہتا۔ ([12])

۵۔نان و نفقہ کے مسائل:

فیملی عدالتوں میں جہاں طلاق و خلع، سامان جہیز کی واپسی ،  ادائیگی مہر،حق حضانت  وغیرہ کے مقدمات دائر ہوتے ہیں وہیں مطلقہ خواتین کے نان و نفقہ اور زیر  سرپرستی بچوں کے نان  و نفقہ کے مقدمات  بھی ان عدالتوں میں زیر سماعت ہوتے ہیں۔ ان مقدمات میں ایسی خواتین جن کو شوہر نے گھر سے نکال دیا ہو اور طلاق بعد میں  دی ہو تو اس کے شوہر کے گھر سے آنے سے لے کر طلاق کی عدت تک کا نان ونفقہ شوہر کے ذمہ واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر مطلقہ عورت کے ہمراہ بچے ہیں تو ان بچوں کی  معاشی کفالت بذمہ والد ہے لہذا اسے بچوں کا نان ونفقہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر اوقات  والد یہ  ذمہ داری ادا کرنے سے پہلو تہی کرتا ہے جس کے لئے عورت کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ ایسے میں ایک جانب تو عورت کو مقدمہ دائر کرنے کے لئے روپے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری جانب   بچوں کی پرورش  اور نان و نفقہ کا بار بھی وہ خود یا  اس کے والدین، بھائی   برادشت کررہے ہوتے ہیں، ایسی صورت میں جو مقدمات دائر کئے جاتے ہیں  ان کی شرح طلاق و خلع کے لئے قائم کئے جانے والے مقدمات سے کم ہے، کیونکہ مقدمے کو چلانے کے لئے بھی مالی وسائل ہونا ضروری ہیں۔ لہذا  بہت سی خواتین اس لئے بھی قانونی چارہ جوئی نہیں کرتیں کہ ان کے پاس نہ  تو تاریخیں بھگتنے کے لئے وقت ہے اور نہ ہی ان کے اولیاء اس سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ایسے میں وہ خود یا ان کے والدین  بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔

انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے ایم اے کیا ہے، اس کی شادی  ہوئی تو شوہر نے کچھ ہی عرصے کے بعد  جہیز کم لانے اورمطالبات پورے نہ کرنے کی وجہ سے اسے طلا ق دے دی،بعدازاں اس کاایک بیٹا ہوا،جو اب اس کے پاس ہے ، اس  دوران لڑکی نے ایم فل میں داخلہ لے لیا ، بچے  اب دوسال کا  ہوچکا ہے، اس دوران اس کے باپ نے نہ تو کوئی رابطہ کیا اور نہ ہی بچے کا خرچہ دیا لیکن اب اس نے دھمکیاں دینی شروع کردی ہیں کہ میں  بیٹے کو اغوا کرلوں گا، اس دوران بچے کا باپ دوسری شادی کرچکا ہے۔  ان حالات میں لڑکی اور اس کے والدین بہت پریشان ہیں۔ لڑکی غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور بہن بھائیوں میں وہ پہلے نمبر پر ہے، اس کے والد نے بڑی مشکل سے اسے تعلیم دلوائی تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچے کا بوجھ اٹھا سکے،اس سے پہلے اس نے کسی بھی معاملے میں عدالت سے  رجوع نہیں کیا لیکن اب عزیز و اقارب نے مشورہ دیا ہے کہ وہ عدالت سے بچے کے خرچے کے لئے رجوع کرے تاکہ عدالت کے نوٹس میں آجائے کہ بچہ والدہ کے پاس ہے اور اس کی پیدائش سے لے کر تاحال اس کے والد نے کوئی خرچہ نہیں دیا۔ لہذا اب اس نے مقدمہ دائر کیا ہے۔ ([13])

جو خواتین عدالت میں بچوں کے  نان و نفقہ  کے لئے مقدمہ دائر کرتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ بچوں کے والد اس سلسلے میں انہیں بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں، باقاعدگی سے خرچہ نہیں دیتے جبکہ انھوں نے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کرنے ہوتے ہیں اور دیگر ضروریات بھی پوری کرنی ہوتی ہیں۔ ایسے میں اگر ان کے والد کی جانب سے خرچہ ملنے پر تاخیر ہوجائے یا نہ ملے تو انہیں  اور ان کے بچوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

عدالت میں لئے گئے ایک انٹرویو میں  خاتون نے بتایا کہ  اس کے دو بچے ہیں  اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے اور بچے بھی اس کے پاس ہیں، وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے بچوں کے والد نے  چھ ماہ تک بچوں کا کوئی خرچہ نہیں دیا   بچوں کے اخراجات کے لئے اس نے  عدالت سے رجوع کیا اس کے سابقہ شوہر نے کہا کہ میں کوئی ملازمت نہیں کرتا لہذا بچوں کا خرچہ نہیں دے سکتا میں تو خود  اپنے بھائی کے ساتھ رہتا ہوں ، خاتوں نے کہا کہ اس نے بچوں کو خرچہ دینے سے بچنے  کے لئے یہ بہانا بنایا ہے جبکہ وہ برسر روزگار ہے تاہم عدالت نے بچوں کا خرچہ لگا دیا ہے لیکن وہ پھر بھی کسی مہینے دیتا ہے اور کسی مہینے نہیں دیتا،  جو رقم اس کی جانب سے دی جاتی ہے وہ  انتہائی قلیل ہے جس سے ان کے تعلیمی اخراجات بھی پورے نہیں  ہوتے باقی ضروریات تو دور کی بات ہے۔ اس کے والدین بھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ اس کے اخراجات مستقل طور پر برداشت کرسکیں جبکہ بھائی اپنے گھروں والے ہیں ،آج کل مہنگائی کے اس دور میں ان کے لئے اپنا گھر چلانا مشکل ہے وہ میرا اور میرے بچوں کا بار کیسے اٹھائیں ،اگر وہ کوئی تعاون کرتے بھی ہیں تو بھابیاں لڑنا شروع کردیتی ہیں، ایسے میں تنگ آکر میں نے لوگوں کے کپڑے سلائی کرنے شروع کردئیے ہیں تب بھی طعنے ملتے ہیں کہ ہماری ناک کٹوادی، ہماری لوگوں میں کیا عزت رہ جائے گی، ایسے میں سمجھ نہیں آتا کہ میں کدھر جاؤں اور کیسے اپنے بچوں کے اخراجات   پورے کروں۔ ([14])

مطلقہ خواتین کی یہ معاشی مشکلات   اس بات کی غماز ہیں کہ ان کے بچوں کے باپ بچوں کے اخراجات  کی ادائیگی میں انہیں زیر بار کرنے کے لئے ہر ممکن حد تک جاتے ہیں، تاکہ انہیں یہ بوجھ نہ اٹھاناپڑے ، نیز اگر والد نے دوسری شادی کرلی ہے تو پھر تو مستقل طور پر اس سے راہ فرار ڈھونڈتا ہے کیونکہ اب نئے بیوی بچے اس کی ذمہ داریوںمیں شامل ہوجاتے ہیں وہ ان کے اخراجات سے پہلو تہی نہیں کرتا جبکہ سابقہ بیوی اور بچوں کو اس کے اس عمل سے جس قدر تکالیف پہنچتی ہیں ان کا اسے کوئی احساس نہیں ہوتا۔

انٹرویو کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ بچوں کے نان ونفقہ  کی ادائیگی کے سلسلے میں والدہ کو ستانے کے لئے   ان کے نان و نفقہ میں تاخیر کی جاتی ہے کوشش کی جاتی ہے جتنا کم سے کم دیا جاسکے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی وجہ سے  بچوں کے حقوق متاثر ہورہے ہیں  ان کو بھی اذیت سہنی پڑ رہی ہے۔   جو والد اپنے بچوں کا خرچہ خوش دلی سے ادا کرتے ہیں ان کی تعداد انتہائی کم ہے۔ 

ایک متاثر ہ خاتون نے بتایا کہ  اسں کے بچوں کا  عدالت میں اپنے باپ سے ملاقات کے لئے آنے جانے   کا خرچہ اور نان ونفقہ عدالت نے مقرر کیا کچھ ماہ تو اس نے یہ ادا کیا لیکن گزشتہ چار ماہ سے اس نے  یہ پیسے دینے بند کردئیے ہیں  اب عدالت نے اس کے خلاف ڈگری کردی ہے ،بچوں کی ملاقات ختم ہوگئی ہے جبکہ نان ونفقہ کی ادائیگی کے لئے اس کے وارنٹ جاری کئے ہیں، وہ جہاں رہتا تھا پتہ چلا ہے کہ وہاں سے گھر بیچ کر کہیں چلا گیا ہے کہاں گیا ہے اس بارے میں کوئی پتہ نہیں، لہذا تاحال عدالت کے فیصلے پر عمل نہیں ہوسکا۔([15])

میرے ایک سوال کے جواب میں کہ ایسی صورت میں اس کی اور بچوں کی کفالت کون کررہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ میرے والدین  میرے اور میرے   بچوں کے تمام اخراجات  برداشت کررہے ہیں۔  میرے والدین میری معاشی کفالت کی پوزیشن میں ہیں لیکن بچوں کےے والد کی جانب سے ایسا سلوک رکھنا اسلام اور قانون دونوں کی روسے ناجائز ہے۔ )[16](

۶۔حق مہر و سامان جہیز کی واپسی:

عدالت میں جو فیملی کیسز سماعت کے لئے آتے ہیں ان میں سے بہت سے کیسز میں  طلاق کے بعد خواتین کی جانب سے شوہر  پر حق مہر کی ادائیگی اور سامان جہیز  کی واپسی کے بھی مقدمات پیش کئے جاتے ہیں۔     عموما ہمارے ہاں حق مہر شادی کے موقع پر ادا نہیں کیا جاتا   ، بعد میں مرد حضرات اکثر اوقات یہ حق بخشوا لیتے ہیں ، اگر عورت نے یہ حق معاف نہیں کیا تو ایسے میں طلاق ہونے کی صورت میں عورت عدالت سے اپنے اس حق کی ادائیگی کے لئے رجوع کرتی ہے۔ تاہم ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب مہر کی رقم زیادہ ہو   تبھی عورت انصاف کے حصول کے لئے عدالت کا دروازے پر جاتی ہے۔

طلاق کے بعد  مطلقہ کو یہ بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر اورشادی کے بعد دلہن کو والدین  اور عزیز و اقارب کی جانب سے  دئیے جانے والے تحائف  سابقہ شوہر کے گھر  اس کی یا اس کے   والدین کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ لڑکی کو جس وقت طلاق دی جاتی ہے  تو اس وقت ایک تو طلاق کی وجہ سے  وہ رنج و غم کی کیفیت میں ہوتی ہے تو دوسری جانب عموما اسے بے یارو مددگار گھر سے نکال دیا جاتا ہے ایسے میں   اس کا تمام سامان جہیز      اور دیگر سامان  اپنے ہمراہ نہیں لاسکتی۔  بعدازاں وہ اس سامان کی واپسی کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے لیکن    ایسے مقدمات میں فیصلے بہت تاخیر سے ہوتے ہیں۔ لڑکے والے سامان جہیز کا عموما انکار کرتے ہیں یا  کم اشیاء دینے پر راضی ہوتے ہیں۔  ایسے مقدمات  میں بھی گواہیاں ہوتی ہیں  سامان جہیز کی فہرستیں طلب کی جاتی ہیں ، مشاہدے میں آیا ہے لڑکے والوں کے وکیل کی جانب سے  اس سامان کی رسیدیں بھی مانگی جاتی ہیں  جو شادی کے موقع پر لڑکی والوں نے دیا تھا ۔

طلاق کے بعد زوجین کے سامان  کی واپسی کا معاملہ شرعی  اور قانونی لحاظ سے اہم  اور نازک ترین ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ طلاق کا اسلامی رویہ   اپنانے کی بجائے ، طلاق بدعت  کے رویے اختیار  کر کے عورت  کے اثاثہ  جات اور سامان  جہیز ، تحائف  پر جبرا قبضہ کر نے کی طرف توجہ کی جاتی ہے ۔ اور عورت سے احسان کے قرآنی حکم کو بھی درخو اعتناء  تصور نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ قرآن کا  طلاق دیئے جانے کی  صورت میں حکم یہ  کہ وہ چیزیں جو تحائف کی صورت  میں یا بری  کی صورت میں بیوی کو دے چکا ہے ، وہ چیزیں واپس نہ لی جائیں ۔ بلکہ اسے احسان کے طور پر عورت کے پاس رہنے دیا جائے  ۔ تاکہ اس کی آئیندہ زندگی  کے لئے دلجوئی  کا سبب بنے ۔ )[17](

انٹرویو میں ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے عدالت میں دو مقدمات زیر سماعت ہیں ایک  سامان جہیز کی واپسی کا اور دواسرا حق مہر کی ادائیگی کا۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے شوہر نے نکاح نامے میں چھ تولے سونے کے زیورات بطور حق مہر مقرر کئے تھے ، اس کی شادی تین سال رہی لیکن وہ کہتی ہے کہ جو زیور مجھے ڈالا گیا تھا وہ میری نند کا تھا ، میرے سسرال والوں نے شادی کے موقع پر بطور حق مہر تو یہ لکھ دیا لیکن شادی کے بعد مجھ سے لے کر  اپنی بیٹی کو واپس کردیا۔ اب نکاح نامے میں تو لکھ دیا گیا کہ بوقت نکاح لڑکی کو دے دیا گیا لیکن عملا ایسا نہیں ہوا، جب میرے شوہر نے مجھے طلاق دی  تو میں نے حق مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جو انھوں نے کہا کہ تمہیں دیا جاچکا ہے  ۔ لڑکے والوں کے پاس نکاح نامہ بطور ثبوت ہے جبکہ میرا گواہ     صرف اللہ ہے اور اسی کے بھروسے پر میں نے  عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے ۔  خاتون نے بتایا کہ اس کے جہیز کا سامان اور والدین کی جانب سے عید وغیرہ پر دیئے جانے والے تحائف بھی  اس کے سابقہ شوہر ہی کی تحویل میں ہیں ۔ اس بارے میں اس کے شوہر نے  یہ موقف اپنایا ہے کہ اس کے والدین نے جہیز میں بہت کم سامان دیا تھا لہذا اس نے جہیز کے سامان کی واپسی کے لئے صرف چند چیزوں کے دینے کا اقرار کیا ہے کہ میرے پاس جہیز میں صرف یہی اشیاء تھیں۔18)  (

ایک اور مقدمے میں خاتون نے اسی طرح کی صورتحال کا تذکرہ کیا لیکن اس حوالے سے اس کا کہنا یہ تھا کہ اس کے شوہر نے اسے اس کے دو بچوں سمیت گھر سے بے سرو سامانی کی کیفیت میں  نکال دیا تھا چنانچہ ایک سال تک ان دونوں کے درمیاں کسی طرح کا رابطہ نہیں ہوا ۔ آخر کار لڑکی نے خلع  لے لیا۔ اس کے نکاح نامے میں بھی بطور مہر   دس تولہ زیوارت    بوقت نکاح ادائیگی تحریر کئے گئے ۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ زیورات اڑھائی سال تک اس کے پاس رہے لیکن جب اس کے سابقہ شوہر نے باہر جانے کا ارادہ کیا تو اس نے اس سے کہا کہ یہ زیورات میری بہن کے تھے لہذا اب میں اسے ادا کرکے جانا چاہتا ہوں تم وہ واپس کردو۔ لڑکی نے وہ زیورات واپس کردیئے ۔ جب ایک سال کے بعد لڑکی نے خلع لیا تو سابقہ شوہر نے یہ مقدمہ دائر کردیا کہ لڑکی سے مہر واپس دلوایا جائے ۔حالانکہ وہ لڑکی سے واپس لے چکا تھا لیکن واپسی  کا ثبوت لڑکی کے پاس نہیں تھا۔ جبکہ اس کے جہیز کا سامان بھی لڑکے ہی کی تحویل میں تھا ۔ لڑکی والوں کی جانب سے پیش کردہ  سامان جہیز کی فہرست  سے لڑکے والوں نے انکار کردیا کہ یہ اشیاء جہیز میں نہیں دی گئیں ۔  لڑکے کے والوں نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان اشیاء کی خریداری کی رسیدیں دکھائیں ۔ لڑکی نے کہا کہ عدالت نے  لڑکے والوں کی جانب سے  زیورات کی واپسی کا مقدمہ خارج کرکے فیصلہ لڑکی کے حق میں کردیا ہے جبکہ سامان جہیز کے سلسلے میں لڑکے والوں کے موقف کو درست قرار دے صرف ان اشیاء کی واپسی کا حکم صادر کیا جن کو لڑکے والوں نے تسلیم کیا ہے۔ (19)

خاتون نے مزید بتایا کہ خلع کے بعد اان مقدمات کو فیصلہ ہونے میں دوسال کا عرصہ لگا ہے ۔ چناچہ جو سامان واپس کی گیا وہ انتہائی خستہ خال تھا اور اسے توڑ کر دیا گیا، سامان کی لسٹ تو پوری کرنے کی کوشش کی گئی لیکن   سامان کو ناقابل استعمال بنا کردیا گیا۔18) (

طلاق کے بعد زوجین کے سامان  کی واپسی کا معاملہ شرعی  اور قانونی لحاظ سے اہم  اور نازک ترین ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ طلاق کا اسلامی رویہ   اپنانے کی بجائے ، طلاق بدعت  کے رویے اختیار  کر کے عورت  کے اثاثہ  جات اور سامان  جہیز ، تحائف  پر جبرا قبضہ کر نے کی طرف توجہ کی جاتی ہے ۔ اور عورت سے احسان کے قرآنی حکم کو بھی درخو اعتناء  تصور نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ قرآن کا  طلاق دیئے جانے کی  صورت میں حکم یہ  کہ وہ چیزیں جو تحائف کی صورت  میں یا بری  کی صورت میں بیوی کو دے چکا ہے ، وہ چیزیں واپس نہ لی جائیں ۔ بلکہ اسے احسان کے طور پر عورت کے پاس رہنے دیا جائے  ۔ تاکہ اس کی  آئیندہ زندگی  کے لئے دلجوئی کا سبب بنے ۔22)  (

عدالت میں آنے والی بہت سی خواتین نے  اپنے انٹرویوز میں اسی قسم کے حالات بیان کی ہے۔ ان انٹرویوز کی روشنی جو مجموعی صورتحال  سامنے آتی ہے اس سے ایک طرف تو مقدمات  کے فیصلوںمیں تاخیر کا  رجحان  نظر آتا ہے تو دوسری جانب     فریق مخالف کو نیچا دکھانے  ، اسے خوار کرنے  اور انتقامی جذبات  کا بھی پتہ چلتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں والدین  اپنی استطاعت سے بڑھ کر اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں تاکہ انہیں کہیں کوئی طعنہ نہ سننے کو ملے دوسری جانب  اگر طلاق ہوجاتی ہے تو سسرال والوں کا رویہ  انتقامی ہوجاتا ہے اور وہ بے رحمی سےا س سامان کو لوٹ کا مال سمجھ کر  تباہ کردیتے ہیں ،والدین  یا اس لڑکی کے لئے جسے طلاق ہوئی ہے سامان ہی سب کچھ نہیں ہوتا کیونکہ طلاق کے سبب جو بٹہ اسے اور اس کے والدین وخاندان کی عزت کو لگا ہے وہ سامان  جہیز یا مہر کی رقم اس کا مدوا نہیں کرسکتے۔  بہت سے والدین ایسے بھی ہیں جو تھانے کچہری کے چکر میں پڑنے کی بجائے ان معامات کو برداشت کرلیتے ہیں تاکہ عزت مزید نیلام نہ ہو  ۔ انہیں اپنی عزت ان لاکھوں کے جہیز اور ہزاروں کے سامان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔  اس لئے وہ ان مقدمات سے دور رہتے ہیں  لیکن اگر کوئی انصاف کی خاطر عدالت میں استغاثہ دائر کردیتا ہے تو پھر معاشرہ  اور فریق مخالف تمام اخلاقی حدود و قیود سے بری ہوکر بے رحمانہ و سفاکانہ سلوک کرتے ہیں۔

عدالت میں آئے ہوئے ایک بزرگ   نے کہا کہ کہ جب عزت ہی نہ رہی تو سامان کا  کیا کرنا میری بیٹی کا گھر اجڑ گیاوہ ان چیزوں کو استعمال نہ کرسکی تو اب یہ چیزیں اس کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتیں۔اگرچہ جو سامان ہمیں لڑکے والوں نے دیا ہے وہ  قابل استعمال نہیں ہے اورنہ ہی تمام سامان واپس کیا گیا ہے۔22)  (

معاشرتی المیہ  یہ ہے کہ عورت کو احسان کے ساتھ رخصت  کرنے کی بجائے عورت کے سامان جہیز پر بھی قبضہ کر لیا جاتا ہے ۔ جس سامان  کی واپسی کے لئے عورت  کو عدالتوں کے چکر  لگانے اور ثابت کرنے میں  گزر جاتے ہیں کہ  اس کا سامان واقعی شوہر کے گھر اور اس کے قبضے میں ہے ۔ یہاں تک کہ خبث کی بنیاد پر عورت  کا سامان خورد برد کر لیا جاتا ہے ، یا  استعمال کے ذریعے ناکارہ  کردیا جاتا ہے ۔  اور عدالت میں عورت  کو شکست دینے  کے لئے اس کی شخصیت  اور حیثیت کو مجروح کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح قدیمی  رویوں کے ذریعہ عورتوں کو  ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ۔ ایسے اقدامات قابل مذمت ہیں اور شیطانی افعال شمار ہونگے۔

ضروری ہے کہ عورت  سے علیحدگی کے ساتھ ہی اس کا سامان جہیز اوربری وغیرہ  عزت کے ساتھ لوٹا دئیے جائیں، تاکہ  وہ اپنا  آئندہ نکاح کرسکے ۔  موجودہ دور میں   عورت کے سامان جہیز پر قبضہ  کرنا وغیرہ  معاملات  بھی قرآن کے اسی حکم  کے تحت آتے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ،،عورتوں  کو آئیندہ  زندگیاں اپنی مر ضی سے  گزارنے  میں رکاوٹ نہ ڈالو۔

یاد رکھیں کہ جتنا عرصہ  عدت کے بعد    مقدمات میں الجھائے  رکھنے کے نتیجے میں عورت دوسری شادی نہ کرسکے ، اور اس دوران اپنی طلب کے تحت گناہ کا شکار ہوجائے ، تو اس کی تمام  تر آلودہ  زندگی   کی ذمہ داری اس مرد پر عائد  ہوگی ، جس کی وجہ سے وہ  عورت دوسرا نکاح  کر نے میں ناکام رہی ۔ لہذا  ضروری ہے کہ ایسی عورتوں کو بلا جواز مقدمات میں الجھائے رکھنے کے نتیجے میں ہونے والے ذہنی ، جسمانی  نقصان کے ازالہ  کے حقوق کا بھی عدالت  اپنے ابتدائی فیصلوں میں  ہی تعین کرے ۔ تاکہ ایسے مردوں کو بلا جواز عورتوں کو تنگ کرنے  کے راستے بند ہو سکیں۔ طلاق کے بعد کا یہ المیہ  عورتوں کی نسبت سے دردناک ہے ۔ جس کہ نتیجہ میں عورت غلط  مردوں کے ہاتھوں رسوا ہوجاتی ہے ۔23) (

یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہم اپنے سامان کی اس قدر حفاظت کرتے ہیں اسے سنبھال سنبھا ل کررکھتے ہیں تاکہ وہ خراب نہ ہوجائے لیکن جو سامان ہمارے پاس بطور امانت ہوتا ہے ہم اس  کے خراب کرنے میں  کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے۔  اسے اپنا حق سمجھتے ہیں ، مال غنیمت سمجھ کر خود کے  لئے اس کا استعمال حلال گردانتے ہیں  ۔ مہر  جسے نکاح  کے معاملے میں فرض  قرار دیا گیا ہے اس کے مقرر کرنے اورادا کرنے میں بھی ہم ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ۔  جہیز نقد اور مہر ادھار ہوگیا ہے۔  ہر طرف سے صرف مال  ہتھیانے کی فکر ہے ۔ حالانکہ لڑکی  کے والدین  نے اپنے جسم کا ٹکرا  ان کے سپر د کیا ہوتا ہےـ ؟ کیاکبھی ہم نے ان ماں باپ کی جگہ بھی بن کرسوچا ہے جن کی بیٹی کا بسا بسایا گھر اجڑ جاتا ہے ان کے دل پر کیا گزرتی ہے ؟ان کے احساسات و جذبات کیا ہوتے ہیں؟۔  اپنے موضوع کے حوالے سے سروے اور انٹرویوز کرتے ہوئے  بہت سی لڑکیوں نے یہ  بتایا کہ ان کی طلاق کے بعد ان کے والدین کی جسمانی و ذہنی کیفیت وہ نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی۔ وہ   یہ غم لے کر بیمار ہوگئے ہیں۔

۷۔قوانین کے نفاذوحصول انصاف  کی صورتحال :

قوانین وضع کرنے کی  ضرورت تب محسوس کی جاتی ہے جب سماجی سطح پر مسائل  اس نہج پر پہنچ جائیں  کہ معاشرے کا عمومی مزاج ، اخلاق      اور سوچ اپنے مثبت کردار کی بجائے منفی  کردار  کو فروغ دے رہی ہو ، معاشرے کی تعمیر کی جگہ تخریب ، اتحاد وتعاون کی بجائے  فسادو انتشار   پروان چڑھتا جائے ۔ ایسے میں قوانین کا وضع کرنا  اور ان کا نفاذ یقینی بنانا ایک اہم معاملہ بن جاتا ہے ۔  تاکہ  سماج اپنا ارتقاء  مثبت سمت میں جاری  رکھے ۔ اور معاشرہ ایک حقیقی فلاحی معاشرہ بن سکے ۔لیکن موضوع تحقیق   کے حوالے کئے گئے سروے جو نتائج سامنے آئے وہ قوانین  و عدالتی طریقہ کار کے سقم کی نشاندہی کرتے ہیں جن کے باعث   مطلقہ خواتین کو عدالتوں میں عائلی مسائل کے حوالے سے دائر مقدمات میں حصول انصاف میں تاخیر ، مقدمات کی طوالات  کے نتیجے میں نفسیاتی  وجذباتی  اور مالی مسائل کا  سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح طلاق، خلع و تنسیخ نکاح کے مقدمات میں بھی  زوجین میں مصالحت  کے لئے اختیار کئے جانے والے اقدامات میں بھی بہت سے قانونی و تکنیکی سقم ہیں جن سے  طلاق و خلع کی ڈگریاں معمولی معمولی تنازعات کی  صورت میں تقسیم کی جارہی ہیں ۔ لہذا عدالتی طریقہ کار کو طلاق  وخلع کی ڈگریاں جاری کرنے کا ادارہ ہی تصور نہ کیا جائے بلکہ ولایت عامہ  کا اختیار رکھتے ہوئے انہیں معاشرے کے  وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مقدمات کے فیصلے نہایت  حساسیت ، باریک بینی سے کرنا چاہیے اور ایسی  عدالتی اصلاحات متعارف کروانی چاہئیں  جن سے حتی الامکان کوشش مصالحت کروانے کی ہونی چاہیے ۔ عدالتی طریقہ کار کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار نہ کرنے کے باعث  بھی بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں لہذا قوانین  وضع کرنے، ان کا نفاذ  یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ   سماجی مفادات  ، تعمیر و اصلاح کو بھی ملحوظ رکھا جائے نہ کہ صرف معاملہ مقدمات  کی نبٹانے تک محدود رہے۔

موضوع تحقیق کے نتیجہ میں سامنے آنے والے ان مسائل کا حل ہونا ازدواجی زندگی کے تحفظ اورمعاشرتی  استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔  نیز  ان مسائل  کا جامع و مؤثر حل یہ ہے کہ  ان مسائل کو شریعت اسلامیہ کے عمومی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کیا جا ئے ۔اور اسلام کا جامع تصور پیش کیا جائے جس میں صرف عقائدو عبادات  تک ہی عوام الناس کو آگاہی نہ دی جائے بلکہ اخلاق ومعاملات اور حسن معاشرت کی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے تاکہ  ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے اس بگاڑ کو  روکا اور معاشرے پیدا ہونے والے انتشار کا تدارک کیا جاسکے۔

قانونی مسائل کے حل کے لئے تجاویز و سفارشات  :

قوانین بنانے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب متعلقہ مسائل  کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہو ، افراد معاشرہ میں سے اکثریت کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں  اور حالات عموم بلوٰی کی صورت  اختیار کرتے جارہے ہوں۔  ایسے میں سماجی مسائل کے حل کے لئے قوانین وضع کرنا اور ان کا نفاذ  ترغیبا  و  جبرا بنانا ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ تاکہ   سماجی انتشار  و مسائل کا تدارک   مستحکم بنیادوں پر کیا جاسکے ۔حقوق کا تحفظ   یقینی طور پر ہوسکے اور جہاں حقوق کا استحصال ہو رہا ہو وہاں  انصاف کا  حصول ترجیحی بنیادوں  پر  مہیا کیا جاسکے ۔ نیز انصاف کے حصول میں رکاوٹوں کو بھی  موثر حکمت عملی  و دیگر  قانونی وانسدادی  تدابیر کے  ذریعے ختم کیا جاسکے۔

مطلقہ خواتین کے مسائل کے حل اورطلاق کی شرح کو کم کرنے کے لئے قانونی تجاویز  و سفارشات درج ذیل ہیں۔

۱۔        مقدمات میں   کوشش کی جائے  کہ بلاوجہ کی طوالت اختیار نہ کریں ۔ 

۲۔       یونین کو نسل اورمصالحتی انجمنوں کو فعال کیا جائے ۔

۳۔       مصالحتی انجمنوں   کے ممبران   کی تعلیمی و قانونی قابلیت کا بھی جائزہ لیا جائے ۔ دیکھا جائے کہ وہ معاملات کو سمجھنے اورحل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں ۔ لہذا کوشش کی جائے کہ مصالحتی کمیٹی کے اراکین  کو شرعی قوانین اور  ملکی وعدالتی قوانین    کا کافی حد تک علم ہو۔ اس حوالے سے انہیں پابند کیا جائے کہ اگر وہ خود علم نہیں رکھتے تو  لازما شرعی وقانونی ماہرین کی خدمات حاصل کریں ۔ ان سے متنازعہ امور سے متعلق مشاورت لیں ۔

۴۔        مصالحتی انجمنوں میں خواتین کی جانب سے بھی ایک ممبر مقرر کی جائے ، اسی طرح ایک عالم اور ایک وکیل کو بھی شامل کیا جائے  تاکہ معاملات کو  شریعت اور قانون کی روشنی میں بہتر انداز میں  سلجھایا جاسکے ۔

۵۔       عدالت میں مقدمہ دائر ہونے سے پہلے ضروری قرار دیا جائے   کہ یونین کونسل   یا مصالحتی انجمن   اس تنازعہ کے حل کے لئے فریقین میں مصالحت یا معاملات کے حل کی کوشش کروائے ۔اس پلیٹ فارم پر ناکامی  پر مقدمات عدالت میں دائر کئے جائیں ۔ اس اقدام کا فائدہ یہ ہوگا کہ عدالت میں  دائر مقدمات   کی تعداد کم ہو گی ۔

۶۔       مصالحتی کونسل یا یونین کونسل کی سطح پر عائلی معاملات کے  حل میں خواتین کو کافی سہولت رہے گی ۔ انہیں عدالتی طریقہ کار سے بھی نجات حاصل ہوگی اور معاشی بار بھی نہیں ہوگا، معاملات جلدحل ہوں  گے ۔ نیز بہت سی خواتین عدالت میں جاکر  اپنے خانگی معاملات  پر بحث کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتی ہیں اور مقدمات کی پیروی نہیں کرتیں ۔ اس اقدام سے خواتین کے مسائل  کا فی حد تک کم ہوں گے۔

۷۔       عائلی عدالتوں  کی ججز کی تعدادبڑھائی جائے نیز کوشش کی جائے کہ خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

۸۔      مصالحتی کونسل اور عدالت  طلاق و خلع اور فسخ نکاح کے مقدمات میں مصالحت کے لئے  جدید اسالیب متعارف کراوئے ۔   ایک سے زائد بار زوجین کو مصالحت کے لئے مواقع دیئے جائیں ۔ اور سائیکاٹرسٹ سے بھی ضروری راہنمائی لی جائے اور ججز ان سے ماہرانہ رائے بھی لیں۔

۹۔         عائلی عدالتوں میں خاندان کے ذاتی ، کریمنل، سول   اور دیگر مقدمات بھی پیش کئے جاتے ہیں ۔ عدالت کا ماحول  خاندانی اور خصوصا زوجین کے مقدمات کے حوالے سے   ان کی نجی معاملات کے بارے میں انہیں تحفظ فراہم نہیں کرتا ، چنانچہ بہت سے خاندان  اپنی عزت و وقار کی وجہ سے عدالت کا رخ نہیں کرتے  اور اپنے حقوق حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں عائلی عدالتوں میں صرف نکاح ، طلاق، حلالہ، فسخ نکاح ، خلع اور بچوں کی حضانت کے معاملات ہی کو زیر سماعت لایا جائے ،  نیز  خاندان کی حیثیت و وقار کا   تحفظ کرتے ہوئے  مقدمات کی سماعت    تک دوسرے غیر متعلقہ افراد کی رسائی کو روکا جائے۔ اور احاطہ عدالت میں صرف متعلقہ خاندان ہی اپنے مقدمہ کی سماعت کے دوران موجود ہوں اوردیگر کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے ۔

۱۰۔      عائلی عدالتوں کی تعدا د میں اضافہ کیا جائے ۔  ہر عائلی عدالت میں روزانہ  تقریبا ۱۳۵سے زائد کیس زیر سماعت ہوتے ہیں ، مقدمات کی یہ تعدا د انسانی بنیادوں پر دیکھی جائے تو ایک  جج کے لئے  بہت بڑا بوجھ ہے اورانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے ۔ اس وجہ سے بعض اوقات ایک جج کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہر مقدمہ کا تفصیلا جائزہ لے یوں بہت سے نکات   نظر انداز بھی ہو جاتے ہیں ۔  اور مقدمات  کے فیصلے بھی تاخیر کا شکار ہوتے ہیں ۔ عدالتوں میں اضافہ سے یہ مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں ۔

۱۱۔       طلاق، خلع ، فسخ نکاح ، مہر ، جہیز اور بچوں کی حضانت  اور نان ونفقہ وغیر ہ کے مقدمات کا عائلی عدالتوں میں بکثرت زیر سماعت ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ  عدالتی دائرہ کار سے باہر معاملات کے تصفیہ کے لئے کوشش نہیں کی گئیں ۔ چانچہ  اس بات کو لازم قراردیا جائے کہ مقدمات یا تنازعات اول یونین کونسل ، مصالحتی انجمن میں تصفیہ وحل کے لئے پیش ہوچکے ہوں ، اگر مصالحتی کونسل ضروری سمجھے تو مقدمہ عدالت میں پیش کیا جائے اور یہ کونسل عورتوں اور بچوں کی معاون کے طور پر عدالت میں پیش ہو۔ اس طریقہ کار سے حصول انصاف میں تاخیر کی شکایت کو دور کیا جاسکتا ہے ۔

۱۲۔      وکلاء حضرات کو بھی اس بات کو پابند کیا جائے کہ وہ عدالتی اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں اورمقدمات کی سماعت میں  غیر حاضری سے اجتناب کریں بہت سے وکلاء مقدمات کو طول دینے کے لئے بہت سےغیر اخلاقی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں تاکہ فریق مخالف کو تنگ کیا جاسکے لہذا  عدالت اس طرح کی روش اختیار کرنے والے وکلاء  پرجرمانہ عائد کریں جو  عائلی مقدمات کی سماعت میں  متعدد بار غیر حاضر ہوں ، یا غیر اخلاقی زبان یا دیگر غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث ہوں ۔

۱۳۔      عدالتوں کا ماحول خواتین اور  بچوں کے لحاظ سے غیر صحتمندانہ ماحول ہے اس لئے  عائلی عدالتوں کی عمارات الگ سے بنائی جائیں۔

۱۴۔       عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی کو  متعارف کروایا جائے ۔    کمپیوٹرز، فیکس، انٹر نیٹ  اورجدید ذرائع کو  عدالتی کاروائی کو  آسان اور تیز تر  کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔

۱۵۔       عائلی عدالتوں کے کچھ ججز  صاحبان شرعی قوانین کا    سیر حاصل علم نہیں رکھتے جس کے باعث بہت سے مقدمات کے فیصلے  قوانین کی صحیح روح  کے مطابق نہیں ہوپاتے اس لئے  ضروری ہے کہ ایک ایسا بورڈ تشکیل دیا جائے جو بوقت ضرورت  ججز کی  معاونت کر سکیں تا کہ مقدمات کے فیصلے درست طریقے پر ہوسکیں ۔

۱۶۔      عائلی قوانین میں بہت سے مقدمات کیس لاء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ انہی مقدمات کی روشنی میں مستقبل کے مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں ، چنانچہ ان کیس لأز کو  آن لائن کیا جائے تا کہ  عدالت کو جب ضرورت پڑے بغیر وقت ضائع کئے وکلاء، اور ججز مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی اس کا مطالعہ کرلیں ۔ اور ان بنیادی مقدمات کی روشنی میں  فیصلے کئے جاسکیں ۔

۱۷۔       عدالتیں باہمی طور پر بھی انٹر نیٹ کے ذریعے منسلک ہوں ، کسی اہم مقدمہ  کی تفصیلا رپورٹ ایک دوسرے کو ای میل کی جائے تاکہ دیگر فیصلے اس کی روشنی میں کئے جائیں نیز اگر  کسی مقدمہ کے فیصلے میں کوئی کمی یا نقص رہ گیا ہو دیگر ججز یا وکلاء اس حوالے سے ماہرانہ رائے بھی دیں سکیں گے ۔ اس طرح بہتر عدالتی فیصلے ممکن ہوسکیں گے۔

عدالت جہاں فریقین کو عدالت میں حاضر ہونے کے لئے نوٹسز بجھواتی ہے وہیں اس کے ساتھ ساتھ ای میل  اور ٹیلی فون کی سہولت سے بھی استفادہ کرکے   مقدمات کو جلد نمٹا جا جاسکتا ہے ۔ اور اس کا  ریکارڈ بھی رکھا جائے ۔

۱۸۔      عدالتی طریقہ کار کو جدید بنیادوں پر منظم کیا جائے ۔ خواتین ، ان کے  بچوں  ویگر متعلقین کو عدالتی چارہ جائی کے درمیان بہت سے مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں درخواست  دینے سے لے کر ریکارڈ کے حصول تک کے مختلف مراحل ہیں ۔  چنانچہ اگر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا جائے تو کافی حد تک  معاملات بہتر ہوسکتے ہیں ۔

۱۹۔        کرپشن نے جس طرح تمام اداروں کو  اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہیں عدالتی نظام بھی اس سے  محفوظ نہیں ہے ۔  جس سے بہت سےمسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔   عدالتی ریکارڈ   تک رسائی ، ان کی نقول حاصل کرنا ، فائل کو محفوظ رکھنا وغیرہ ایسے مسائل ہیں جو    عدالتی طریقہ کار کو دشوار بناتے ہیں ۔جس سے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے  ۔ عدالتی نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے   جائیں نیز فریقین  کو عدالتی ریکارڈ تک رسائی بآسانی ممکن بنائی جائے ۔

۲۰۔      عائلی مقدمات میں  عدالتی اخراجات  کو ختم کیا جائے ، خصوصا  ان مقدمات میں  جو لوگوں کے باہمی تعلقات کے حوالے  ہوں ۔ جیسے نکا ح ،  طلاق، فسخ نکاح ، مہر ، جہیز، نان ونفقہ  اور بچوں  سے متعلق ہوں ۔  خصوصا خواتین اور بچوں کو دائر  مقدمات میں  عدالتی اخراجات سے استثناء  دیا جائے ۔ عدالت اس سلسلے میں سرکاری وکلاء کا تقرر کرے جنہیں پابند کیا جائے کہ وہ بھی بلا معاوضہ خدمات انجام دیں ۔

۲۱۔      زوجین سے متعلق مقدمات میں  فریقین کی راہنمائی کے لئے ایک  مرد کونسلر اورایک عورت کونسلر   کا تقرر کیا جائے ۔  اور یہ فریقین کی اپنی مرضی سے ہو۔ عدالت اس میں  کوئی دخل اندازی نہیں کرے گی۔

۲۲۔       مقدمات کے اخراجات میں کمی  کے لئے اور   فیصلوں میں تاخیر  کے خاتمے کے لئے  عائلی عدالتیں ڈسٹرکٹ سطح پر قائم کی جائیں۔ نان ونفقہ ، مہر جہیز وغیر ہ کے مسائل طلاق، خلع اور فسخ نکاح کے بعد مصالحتی کونسل کی سطح پر  حل کیے جائیں۔

۲۳۔        ماہر قانون منیر صاحب  تجویز کرتے ہیں :

عدالت میں  فیملی ججز اور فریقین کے مابین     راؤنڈ ٹیبل  ڈسکشن ہونی چاہیے۔ فریقین کے مابین    تنازعات اس سے بہتر انداز میں  حل ہوسکتے ہیں ۔  کیونکہ    فریقین ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ ان کے خاندان والے معاملات کو زیادہ الجھاتے ہیں اور اگر فریقین  آپس میں صلح کرنا بھی چاہتے ہیں تو ان کے خاندان والے ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اور رکاوٹ بنتے ہیں ۔ عدالتی  امور میں  ان طریقہ کار کے استعمال سے  زوجین میں صلح کروائی جاسکتی ہے ۔ (24)

زوجین کے تنازعات میں  ریکونسولیشن ضروری قرار دی جائے۔   اس  بارے میں وہ   TJکی تھیوری  سے استفادہ کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ نیز اس حوالے سے وہ تجویز دیتے ہیں  کہ وکلاء ،ججز اور عائلی عدالتوں کے ججز کو اس بارے میں ٹرینگ دی جائے ۔ اور جدید سائنسی طریقہ کار کے استعمال سے   عائلی عدالتوں میں پیش ہونے والے مسائل کا حل کیا جاسکے۔(25)

۲۴۔      پری میرج کونسلنگ کے ساتھ ساتھ  پری ڈائیورسڈ کونسلنگ بھی ضروری قراردی جائے ۔ زوجین کو طلاق، تنسیخ نکاح اور خلع کے مقدمات سے پہلے ایسے  سماجی و ازدواجی  و نفسیاتی معاملات کے ماہرین سے راہنمائی لینا ضروری قرار دیا جائے تا کہ  وہ طلاق  سے پہلے کے حالات اور طلاق کے بعد کے مسائل سے  واقفیت اور راہنمائی حاصل کر سکیں ۔   اس طرح ممکن ہے کہ  وہ طلاق کے آخری حل ہونے سے پہلے دیگر   ممکنہ حل وا قدامات کو اختیار کرکے طلاق جیسے قبیح  فعل سے بچ سکیں گے۔

پری  ڈائیورسڈ کونسلنگ سنٹرز  سرکاری وغیر سرکاری دونوں سطح پر قائم کئے جاسکتے ہیں  ، علیحدگی اختیار کرنے والے زوجین کے لئے ان  کونسلنگ سنٹرز سے طلاق سے قبل   کم از کم ۵    بار   راہنمائی  لینا ضروری ہو۔جب  کونسلر تجویز کرے کہ  معاملات اس نہج پر ہیں کہ نہیں سدھر سکتے تب عدالت میں مقدمہ دائر کیا جائے۔  امریکہ کی مختلف ریاستوں میں  نئے  شادی شدہ جوڑوں کے مابین طلاق کی شرح کو کم کرنے کے  پری  ڈائیورسڈ کونسلنگ کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (26)

۲۵۔ حکومت خواتین کو ان کے مسائل کے حل سے واقفیت فراہم کرنے کے لئے ایک ٹی وی چینل شروع کرے ،جہاں مختلف قانونی وسماجی ماہرین  خواتین کے مسائل اوران کے  مجوزہ حل کے بارے میں آگاہی دیں ۔

۲۶۔ فری ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا جائے ، جہاں خواتین اپنے مختلف مسائل و مشکلات  کی رپورٹ درج کرواسکیں اور ان کا مسائل حل  فوری طور پر ممکن ہوسکے۔

 

حواشی و حوالہ جات

1۔        سروے، ۸ جولائی، ۲۰۱۷ء

2۔        روزنامہ جنگ ۸ مئی ۲۰۱۵ء

3۔         انٹرویو: ۲۲ جون، ۲۰۱۷ء

4۔         روزنامہ جنگ ۸ مئی ۲۰۱۵ء

5۔        انٹرویو:۲۲ جون ۲۰۱۷ء

6۔         انٹرویو، ۲۳ جون ۲۰۱۷ء

7۔        انٹرویو، ۲۳ جون،۲۰۱۷ء

8۔        روزنامہ جنگ ۸ مئی ۲۰۱۵ء

9۔        انٹرویو،۲۳ جون ۲۰۱۷ء

10۔      انٹرویو:۸ جولائی ۲۰۱۷ء

11۔      ایضاً

12۔      انٹرویو: ۱۳ جولائی ۲۰۱۷ء

13۔      انٹرویو : ۱۰ جولائی ۲۰۱۷ء

14۔      انٹرویو، ۲۲ جون ۲۰۱۷ء

15۔      انٹرویو، ۸ جولائی ۲۰۱۷ء

16۔      ایضاً

17۔           مسعود احمد بھٹہ ، حیات النساء، (عورت کی زندگی مناکحات  کے بعد) لاہور، آہن  ادارہ اشاعت وتحقیق ، پاکستان ،ص: ۶۸۸

18۔      انٹرویو: ۸ جولائی۲۰۱۷ء

19۔      انٹرویو ۵ جولائی ۲۰۱۷ء

20۔      ایضاً

21۔      حیات النساء،ص: ۶۸۸

22۔      انٹرویو:۵ جولائی۲۰۱۷ء

23۔      حیات النساء،ص:۶۸۸

۔24                  Muhammad Amir Munir, Family Courts in Pakistan In Search of better Remedies for Women and Children, p: 209  http://www.ssrn.com/en/, Retrieved on

24-06-2017

۔25                  Muhammad Amir Munir, Family Courts in Pakistan In Search of better Remedies for Women and Children, p: 223-224  http://www.ssrn.com/en/, Retrieved on

24-06-2017

۔26.                 http://www.divorceknowledgebase.com/blog/should-pre-divorce-counseling-be-mandatory-for-married-couples/, Retrieved on :10.07.2017

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...