Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد اور فقہ السیرہ کی روشنی میں تدارک |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1253

Pages

57-64

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/28/26

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/28

Subjects

Pakistan Crime Child abuse Society Fiqh ul Seerah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بچوں پر جنسی تشدد اور چائلڈ پرونوگرافی ایک شیطانی دھندہ ہے۔ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی وجہ سے چائلڈ پرونوگرافی کا کاروبار پوری دنیا میں پھیل چکاہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے افراد اس برائی میں مبتلا ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس جرم کی وجہ افراد کے نفسیاتی مسائل ہیں جب کہ ترقی پذیر ممالک میں افراد کی غربت اور نفسیاتی طور پر بیماری اس کا سبب بنتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں اس جرم کی شرح میں اضافہ کی وجوہات میں دین سے دوری، غربت اور بے روزگاری ہیں۔

 

عصر حاضر میں اسلامی معاشرے میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات عام ہیں۔ مجرم کو کیف کردار تک نہیں پہنچایا جا رہا ۔ قوانین موجود ہیں لیکن ان کا عملی نفاذ نہیں ہو رہا۔ معروف صحافی شاہد مسعود کے بقول" ملک میں ایک بین الاقوامی گینگ سرگرم عمل ہے جو بچوں پر جنسی تشدد کرتا ہے اور بعد میں ان کی ویڈیوز کو براہ راست ڈارک ویب پر نشر کرتا تھا ۔"[1]

 

معاشرے میں بچوں کے ساتھ مندرجہ ذیل جنسی جرائم ہورہے ہیں:

* بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

  • جنسی زیادتی کے بعد قتل
  • جنسی تشدد کرتے ہو ئے فحش ویڈیو بنانا اور ان کو انٹرنیٹ پر ڈالنا

 

 

 

پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق" ملک میں روزانہ تقریباً 9 سے زیادہ بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ ساٹھ فیصدکیسزمیں اس بات کی نشاندہی کی گئی بچوں پر زیادتی کرنے والے زیادہ تر قریبی لوگ یا خاندان کے افراد ہوتے ہیں۔ 2017ءمیں بچوں کے اغوا کے 1049 واقعات ہوئے ۔ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات 467، لڑکوں کے ساتھ زیادتی کےواقعات 366 ، زیادتی کی کوشش کےواقعات 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات 180 اور لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات 158 واقعات رپورٹ ہوئے۔"[2]

 

"2018ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے اغوا، ان پر تشدد اورزیادتی سمیت مختلف جرائم کے 2300 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ 57 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ساحل تنظیم کی رپورٹ کے مطابق کم عمر لڑکوں کے ساتھ بد فعلی کے 542 واقعات ہوئے ، بچوں کے لاپتہ ہونے 236 کیسز سامنے آئے ہیں اور 92 بچوں کو گینگ ریپ کیا گیا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم کے زیادہ تر واقعات دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہوئے جبکہ 26 فیصد واقعات شہری علاقوں میں پیش آئے۔ رپورٹ میں دستیاب معلومات کے مطابق بچوں کے خلاف مختلف قسم کے جرائم کے 56 فیصد لڑکیاں متاثر ہوئیں جبکہ 44 فیصد واقعات میں لڑکے متاثر ہوئے۔"[3]

 

"کم سن بچی پر زیادتی کا ایک اہم واقعہ قصور میں وقوع پذیر ہو ا۔قصور میں عمران نامی شخص نے سات سالہ زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا ۔ جس کی لاش نو جنوری 2018ء کو ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی ۔ مجرم عمران زینب سمیت قصور کی آٹھ بچیوں پر زیادتی اور قتل میں ملوث تھا ۔ زینب کے قتل کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ عوام کے بھر پور احتجاج پر 20مارچ 2018ء کو سپریم کورٹ نے ملزم کو اکیس مرتبہ سزائے مو ت کا حکم سنا یا۔ مجرم عمران کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔"[4]

 

دین اسلام میں قیامت تک ہو نے والے جرائم کی سزا کے بارے میں رہنمائی موجود ہے ۔

 

اسلامی فقہ کی روشنی میں اگر کوئی مجرم کسی بچی پر جنسی تشدد کرتا ہے تو اس پر زنا بالجبر کی حد جاری ہو گی۔ جنسی زیادتی کے بعد بچی/بچہ کو قتل کر دیا جائے تو اس کی سزا قصاص کی صورت میں لی جائے گی ۔تاہم اگر مقتول کے گھر والے معاف کرنا چاہیں تو مقتول کے وارثین کو دیت ادا کی جائے گی۔ پاکستا ن کے قوانین کے مطابق جنسی زیادتی کی سزا سات سال قید اور سات لاکھ روپے جرمانہ ہے جبکہ قتل کی صورت میں پھانسی ہے۔

 

اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا جب کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

الزَّ انِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَا جْلِدُوْا کُلَّ وَ احِدٍ مِّنْ ھُمَا مِا ئَۃَ جَلْدَۃٍ[5]

 

"زناکار عورت اور زناکار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ"

 

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا:

 

خذوا عني، ‏‏‏‏‏‏قد جعل الله لهن سبيلا، ‏‏‏‏‏‏البكر بالبكر جلد مائة وتغريب سنة، ‏‏‏‏‏‏والثيب بالثيب جلد مائة والرجم۔[6]

 

"(دین اسلام کے احکام )مجھ سے سیکھ لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیےراہ نکال دی ہے۔غیر شادی شدہ مرد غیر شادی شدہ کے ساتھ زنا کرے تو اس کی سزاسو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے۔ شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرے ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے"

 

"حضرت ابوہریرہ ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنھم سے روایت ہے کہ دو اشخاص نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس حاضر ہوئے اور کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ چاہا۔ ایک شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس کے یہاں ملازم تھا اور اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا۔ چنانچہ میں نے اس کے بدلے(رجم کی بجائے ) سو بکریاں اور ایک خادم دے دیا (بطور جرمانہ )۔جبکہ اہل علم نے بتایا کہ اس کی سزا میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے ۔نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرمایا۔آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حکم دیا کہ سو بکریاں اور خادم (غلام) تو وہ تمہیں واپس کیے جائیں گے جب کہ تمہارے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ۔عورت نے بھی اقبال جرم کرلیا اوراس کو رجم کیا گیا ۔ "[7]"وائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے زمانہ میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے نکلی ۔تو اس سے ایک مرد نے دبوچ لیا اور اس سے بدکاری کی ۔نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس فیصلہ کرنے کےلیے رجوع کیا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس عورت سے فرمایا:تم جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ۔ زانی کے اقبال جرم کرنے پر نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس شخص کوسنگسار کرنے کی سزا سنائی ۔"[8]

 

بچیوں کے ساتھ زیادتی پر حد زناجاری کی جائے گی جب کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے (لواطت ) کو قبیح فعل کہا گیا ہے۔ اس جرم میں حد زنا کے بارے میں فقہاء کرام کا ختلاف ہے۔ لواطت میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم مبتلا تھی ۔قوم لوط عورتوں کو چھوڑ کرمردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے تھے ۔[9]قوم لوط پر اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش برسائی ۔ حکم الٰہی ہے:

 

فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬۔ مَّنۡضُوۡدٍ ۔[10]

 

"پھر جب ہمارا حکم آیا ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا اُوپر کا حصّہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے"

 

ارشاد نبوی صلی اللہ عليہ وسلم ہے کہ:

 

ملعون من عمل عمل قوم لوط  [11]"جو قوم لوط کا سا عمل کرے وہ ملعون ہے۔"

 

إن اخوف ما اخاف على امتي عمل قوم لوط [12]"مجھے اپنی اُمت کے بارے میں سب سے زیادہ خوف جس چیز کا ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے"

 

ارجموا الاعلى والاسفل ارجموهما جميعا .[13] "اوپر والا ہو کہ نیچے والا، دونوں کو رجم کر دو۔"

 

"نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّمّ نے فرمایا: قوم لوط جیسا عمل کرنے والے (فاعل اور مفعول )کو قتل کر دو۔ اس باب میں حضرت جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔ محمد بن اسحاق نے اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا اور فرمایا قوم لوط کا سا عمل کرنے والا ملعون ہے۔ قتل کا ذکر نہیں کیا۔ نیز یہ بھی مذکور ہے کہ چوپائے سے بدفعلی کرنے والا بھی ملعون ہے۔ بواسطہ عاصم بن عمر، سہیل بن ابی صالح اور ابوصالح، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاعل اور مفعول (دونوں) کو قتل کر دو۔ اس حدیث کی اسناد میں کلام ہے کہ اسے عاصم کے سوا کسی اور نے سہیل بن ابی صالح سے روایت کیا ہو۔ عاصم بن عمر حفظ کے اعتبار سے حدیث میں ضعف ہے۔ لوطی کی سزا میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک شادی شدہ ہو یا کنوارہ اس پر رجم ہے۔ یہ امام مالک، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اﷲ کا قول ہے۔ بعض فقہاء و تابعین جن میں حضرت حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اﷲ شامل ہیں۔ فرماتے ہیں لواطت کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ رحمہم اﷲ کا بھی یہی قول ہے۔"[14]

 

ہم جنس کی سزا کے بارے میں عبدالرحمن الجزیریؒ فقہائے احناف کے مؤقف کا بیان کرتے ہیں کہ

 

"حنفیہ کے نزدیک جرم لواطت کے لئے کوئی حد( شریعت کی مقرر کردہ سزا) نہیں ہے۔ لیکن حاکم اسلام پر واجب ہے کہ وہ اپنی رائے کے مطابق سزادے تاکہ جرم کو تنبیہ ہو۔ اگر اس فعل کو دوبارہ کرئے اور اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو (حد کے طور پر نہیں) اسے قتل کر دیا جائے۔ حنفیہ میں امام ابو یوسف ؒ اور امام محمدؒ نے امام اعظم کی اس رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں لواطت بھی شہوت رانی ہے۔ اور یہاں پر بھی پورے طور پر شہوت انگیزی کا سامان ہے۔ بناء بریں ایسے شخص پر حد زنا کا نافذ کرنا واجب ہے۔ "[15]"مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ جرم لواطت کے ثبوت کو بھی ثبوت زنا کی طرح شہادت درکا ہے۔ لہذا چار معتبر اشخاص، جن میں کوئی عورت نہ ہو ، کی گواہی کے بغیر جرم ثابت نہیں ہو گا۔ ان گواہوں کو سرمہ دانی میں سلائی کی طرح چشم دید گواہی دینی ہو گی ۔ حنیفہ کے نزدیک یہ گنا زنا کے گنا سے ہلکاہے ۔ اس جرم کی حیثیت اس جرم کی حیثیت سے کم ہے ۔ اس گنا سے نہ نسل میں گڈمڈ ہوتی ہے اور نہ عزت پر حرف آتا ہے۔ لہٰذا اس کا ثبوت صرف دو گواہوں کی شہادت سے ہو سکتا ہے ۔ ایسی کو ئی دلیل نہیں ہے جو اس فعل کو زنا کے برابر قرار دے۔ "[16]

 

نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے جرم کے مطابق مجرم کو سزا دی تاکہ معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہو سکے۔ "ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کرکچل دیا تھا۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ فلاں نے کیا؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا (جس نے اس کا سرکچل دیا تھا) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کر لیا اور نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سرکچل دیا گیا۔"[17]

 

بچوں کی فحش ویڈیو بنا کر ان کو انٹرنیٹ پر ڈالنا بے حیائی اور بے حیائی کی تشہیر ہے ۔ نبی صلّی اللہ

 

علیہ وسلّم نے فحش کاموں سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ دین اسلام حیاءاور عفت و پاکدامنی کا دین ہے ۔ حکومت کو اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسلامی معاشرے میں بے حیائی پھیلانے والے عناصر کا سدباب کرنا ضروری ہے تاکہ ایک پاکیزہ معاشرہ پروان چڑھ سکے۔

 

فقہ سیرۃ کی روشنی میں بچیوں پر جنسی تشدد کرنے والے اور اُس کے بعد قتل کرنے والے پر حد زنابالجبر کو لاگو کیا جائے۔ اگرغیر شدی شدہ بچیوں پر زیادتی کرئے تو حد زنا کے بعدقصاص کی صورت میں سزا دی جائے۔بچوں پر جنسی تشدد کرنے والے کو فقہ سیرت کی روشنی میں تعزیری سزا دی جائے۔ مجرم کو سزا دینے کا اصل مقصد مجرم کو جرم کرنے سے روکنا ہے تاکہ معاشرے میں امن و سکون قائم ہو سکے۔

 

بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔

* بچوں کی تربیت میں والدین اور اساتذہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک شخص کو مجرم بنانے میں معاشرتی عناصر ہوتے ہیں مثلاً بچوں کا والدین کو اپنےنفسیاتی مسائل سے آگاہ نہ کرنا، بے حیائی پر مبنی مواد تک رسائی اور بری صحبت وغیرہ ۔والدین کو بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کے مسائل کے بارے میں آگاہی ہو تاکہ افراد مجرم بننے کی بجائے معاشرے کا فعال رکن بن سکیں۔

  • ملک میں فحش ویڈیو کی ویب سائٹ کو بلاک کیا جائے۔
  • سرکاری سطح پر حکمران کو چاہیے کہ وہ ایک پاکیزہ معاشرہ کا قیام ممکن بنائے جس میں قیام صلوٰۃ کا اہتمام کیا جائے۔ افراد کو اقامت صلٰوۃ کی حقیقی روح سے آ گاہی دی جائے کیونکہ نماز بے حیائی اور لغو امور سے روکتی ہے۔اسلامی ریاست میں پاکیزہ ماحول کی ترویج حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں افراد کی اخلاقی تربیت کی جائے تاکہ وہ برائی کو برائی سمجھتے ہوئے اس سے دور رہ کر اپنا تزکیہ کر سکیں۔
  • بچوں کی حفاظت کے لیے والدین ، اساتذہ اور دیگر افراد معاشرہ کی تربیت و آگاہی کی ضرورت ہے۔
  • حکومت کو غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیں تاکہ افراد معاشرہ کو روزگار

 

 

 

میسر ہو اور وہ جرائم کو ذریعہ معاش نہ بنائیں۔" عباد بن شرحبیل بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قحط کے زمانے میں مدینہ کے ایک باغ میں داخل ہو کر پھل چوری کیے۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گیا اور اس نے پکڑ لیا۔ عباد شکایت لے کر نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں گئے تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا جبکہ یہ بھوکا تھا۔ نہ تم نے اس کو تعلیم دی جبکہ یہ جاہل تھا۔پھر نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس کے کپڑے واپس کرنے اور ساتھ ہی ایک وسق یا نصف وسق غلہ دینے کا حکم دیا۔"[18] اس سیرت کی واقعہ سے یہ استنباط ہوتا ہےکہ پہلے افراد کی معاشی ضروریات کا خیال رکھا جائے ۔ اگر اُن کی معاشی ضروریات پو ری ہو رہی ہوں تو پھر وہ جرائم کا ارتکاب کریں تو سزا دی جائے۔افراد معاشرہ کو مناسب روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔مناسب تعلیم و تربیت دی جائے ۔ نئے ہنر سکھائیں جائیں تاکہ وہ معاشرے میں باعزت روزگار کے قابل ہو سکیں۔* والدین اور اساتذہ بچوں کو جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے آگاہ کریں۔

  • ریاست میں عدلیہ کی آزادی کو بھی یقینی بنایا تاکہ معاشرے میں اس جرم کی روک تھام ہو سکے۔ جو بھی بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث ہوں، اثر و رسوخ والے افراد ہوں یا غریب طبقہ ان کو سخت سزا دی جائے ۔"نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے قبیلہ بنی مخزوم کی خاتون کو چوری کی سزا دی اور فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہو تی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔"[19]اس روایت سیرت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست میں قانون کی نظر میں امیر غریب برابر ہیں۔ نیزظالم کو سزا دینے سے معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہے۔
  • جرم کے سدباب کے لیے سخت سزاؤں کے علاوہ تعلیم وتربیت، معاشی و سماجی نا ہمواریوں کا خاتمہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مناسب تربیت اور کمیونٹی کی شمولیت بہت ضروری ہے۔

 

 

حوالہ جات

  1. = شاہد مسعود کے پروگرام پر تین ماہ کی پابندی، 20 مارچ 2018ء، https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43467832 =
  2. پاکستان میں ہر روزنو بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں:رپورٹ،4 اپریل 2018ء ،https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43637489
  3. بچوں کے خلاف جرائم: رواں سال 2300 سے زائد واقعات ،57 بچوں کا ریپ کے بعد قتل،31 اگست 2018، https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45363622
  4. روزنامہ نوائے وقت ، 17 اکتوبر 2018ء
  5. سورۃ النور، 24: 2
  6. ابن ماجہ ، محمد بن یزید القزوینی ،ابوعبداللہ، السنن ، کتاب الحدود ، باب حد زنا، حدیث نمبر : 2550
  7. النسائی ، احمد بن شعیب، ابو عبد الرحمن، السنن ، كتاب آداب القضاة،باب صون النساء عن مجلس الحکم ،حدیث نمبر: 5413
  8. ابو داؤد ،سلیمان بن اشعث،سجستانی، السنن ،کتاب الحدود، باب باب في صاحب الحد يجيء فيقر، حدیث نمبر 4379
  9. الاعراف،80:7-81
  10. ھود،82:11
  11. الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ(۲۷۹ھ)، السنن ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی حد اللوطی ،حدیث نمبر: 1456
  12. ابن ماجہ ، السنن ، کتاب الحدود ، باب من عمل عمل قوم لوط، حدیث نمبر: 2563
  13. ایضاً، حدیث نمبر :2562
  14. الترمذي، السنن، کتاب الحدودعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ماجاء فی حد اللوطی ،حدیث نمبر : 1456
  15. الجزیری، عبدالرحمن بن محمد عوض ، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ، دارالفکر، بیروت ( لبنان)، 2002ء، 5: 104
  16. ایضاً، 5: 103
  17. البخاری ، الجامع الصحیح، كتاب الوصايا ، باب ادا او ما المریض براسہ اشارۃ بینتہ تصرف ،حدیث نمبر 2746
  18. ابن ماجہ ، السنن ،کتاب التجارات، باب من مر علی ما شیۃ قوم او حائط ھل یصیب منہ،حدیث نمبر : 2298
  19. النسائی ، السنن ،کتاب قطع السارق،باب ما یکون حرزا وما لایکون، حدیث نمبر:4895
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...