Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 8 Issue 1 of Al-Basirah

پاکستانی دستور میں حکمرانوں کا تصور استحقاق اسلامی تعلیمات کی روشنی میں |
Al-Basirah
Al-Basirah

Article Info
Authors

Volume

8

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060032214_1245

Pages

61-79

PDF URL

https://www.numl.edu.pk/journals/subjects/157552581303-107-URD-V7-2-18-Transliterated.pdf

Chapter URL

https://numl.edu.pk/journals/subjects/156775292004-04-105-URD-V7-2-18-Formatted.pdf

Subjects

Concept of privilege constitutional immunity Analyses of privilege laws.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

 

حکومت اور قیادت انسانی سماج کا سب سے اہم اور اعلیٰ ادارہ سمجھا جاتاہے، اسی سے انسانی سماج کا شیرازہ اپنی جگہ قائم اورمستحکم رہتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی اجتماعیت کو سیاسی نظام اور تنظیمی استحکام کے بغیر قائم نہیں رکھا جاسکتا۔کسی بھی ریاست میں سیاسی نظام اور تنظیمی استحکام کے لیے با قاعدہ قوانین وجود میں آتے ہیں ،ان قوانین کے لیے بنیادی ضابطہ آئین کو تسلیم کیا جاتا ہے ،جس کے ذریعے پوری ریاست کا نظم و نسق چلتاہے۔آئین کسی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتا ہے، جو اس مملکت کے نظریات، تصورات اس کے اندرونی نظم و نسق کے بنیادی اصولوں اور اس کے مختلف شعبوں کے درمیان فرائض اور اختیارات کی حدود کا تعین کرتا ہے۔زمانہ قدیم میں آئین کا اہم ترین کام اس بات کا تعین کرناہوتا تھا کہ ملک پر حکومت کس کی اور کن اصولوں پر ہو گی۔ کسی فردکو ملک کا سیاسی اختیار تفویض کرنے کی بنیاد کا معیار اس ملک کے معاشرتی نظام کے جذباتی روّیوں اور طرزعمل کی عکاسی کرتا تھا۔

 

جہاں تک اسلامی معاشروں میں قوانین ریاست کا تعلق ہے تو پہلی اسلامی مملکت میں اس کی بنیادیں نبی کریمﷺ نےاپنے ہاتھوں سے رکھی۔پھرمملکت اسلامیہ میں ریاستی نظم و نسق کے لیے باقاعدہ عہدوں کی بنیاد ڈالی گئی اور ان عہدوں پر کام کرنے والوں کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بھی بنائے گئے۔ایسے قواعد و ضوابط جن کی پاسداری ہر عہدے دار کے لیے ضروری تصور کی گئی اور یہی طریقہ بعد کے ادوار میں بھی دیکھنے کو ملا۔جب سے جمہوری ادوار کا آغاز ہوا تب سے ریاستی نظم و نسق کے لیے باقاعدہ دستور(آئین) وجود میں آیا یعنی ایسا ضابطہ جو منتخب عوامی نمائندے بناتے ہیں اور پھر اسی کے مطابق ریاست کے نظام کو چلاتے ہیں۔ان عوامی نمائندوں(ارکان پارلیمنٹ و اعلیٰ انتظامیہ) کےتحفظ کےلیے جو قوانین بنائے جاتے ہیں ان کو قوانین استحقاق سے موسوم کیا جاتا ہے۔جن قوانین میں ان حکمرانوں کا تحفظ موجود ہوتا ہے،سہولتیں پیدا کی جاتی ہیں اور نظم ونسق کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف اختیارات تفویض کیے جاتے ہیں جنھیں باقاعدہ قانون کادرجہ دیاجاتاہے۔

 

استحقاق کالغوی مفہوم

 

استحقاق کا بنیادی ماخذ تو حق ہے اور حق کی وضاحت مختلف ماہرین لغت اور اہل علم نے کی ہے،جس کی وضاحت یہاں مطلوب نہیں۔یہ واضح رہے کہ حق سے ہی استحقاق وجود میں آتا ہےاگر استحقاق کے لغوی مفہوم کی بات کی جائے تو مختلف ماہرین نے اس کے معانی بیان کیے ہیں۔

 

مختصر اردو لغت میں استحقاق کا مطلب ہے :

 

”حق دار ہونا،حق،دعویٰ اورقابلیت۔“([1])

 

میاں محمد صدیقی نے‘‘ اسلامی قانونی لغت’’ میں لکھا ہے کہ استحقاق کا مطلب ہے کہ :

 

”یہ معلوم ہو جانا کہ فلاں شے فلاں شخص کا حق واجب ہے۔“([2])

 

اس سے معلوم ہوا کہ استحقاق کا مطلب ہے کہ قانونی اعتبار سے معلوم حق کا طلب کرنا، یہ حق قانونی،سیاسی اعتبار سے مختلف حالات میں مختلف ہوتے ہیں گویا استحقاق لغت میں حق کا ثبوت ووجوب ہے اور اسی سے فرمان باری تعالیٰ ہے:

 

﴿فَاِنْ عُثِرَ عَلٰی اَنّهُمَااسْتَحَقَّآاِثْمًا﴾([3])

 

پھر اگر خبر ہوجائے کہ و ہ دونوں (وصی) حق بات دباگئے یعنی ان دونوں پر سزا ثابت ہوجائے۔

 

گویاہم کہ سکتے ہیں کہ استحقاق کامطلب ہے حق کا مطالبہ کرنا،وہ حق جو قانونی طور پر ثابت ہو خواہ اس کا تعلق معاشرتی،معاشی یا سیاسی زندگی سے ہو۔

 

استحقاق کااصطلاحی مفہوم

 

جہاں تک استحقاق کے اصطلاحی مفہوم کا تعلق ہے تومختلف فقہاء کرام نے استحقاق کے اصطلاحی مفہوم کو واضح کیا ہے۔ حنفی فقہاء میں سے محمد امین بن عمر بن عبد العزیز المعروف ابن عابدین﷫(م١٢٥٢ھ) کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہےکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ فلاں چیز کسی دوسرے کا واجب حق ہے۔([4])اور مالکی فقہاء میں سے ابن عرفہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ سابقہ ملکیت کے ثبوت کی وجہ سے کسی چیز سے ملکیت کو بلامعاوضہ اٹھادینا۔([5])

 

شافعیہ اور حنابلہ اس کو لغوی معنی میں استعمال کرتے ہیں، ان دونوں کے یہاں ہمیں استحقاق کی تعریف نہیں ملی، البتہ ان کے کلام کے تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو اصطلاحی معنی میں استعمال کرتے ہوئے بھی لغوی معنی سے باہر نہیں جاتے۔([6])

 

اگر ہم جدید قانونی ماہرین کی آراء کا جائزہ لیں تو جان سالمنڈ اپنی کتاب‘‘اصول قانون’’ میں رقم طراز ہے:

 

” ہر ایک حق کا ایک استحقاق ہوتا ہے جس سے وہ حق صادر ہوتا ہے۔قانون ایک شخص کو بعض واقعات کی بنا پر جوحق عطا کرتاہے وہ دوسرے کو نہیں کرتا ۔“([7])

 

استحقاق کا تعلق حق کے ساتھ مربوط ہے اور حق فرض کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔اختیارات کی تفویض کے ساتھ جہاں ان کی بجا آوری ضروری سمجھی جاتی ہے وہیں ان فرائض و اختیارات کی تکمیل کے لیے حقوق کا تصور بھی ملتا ہے۔پاکستان میں جتنے بھی انتظامی قوانین ملتے ہیں ان سب میں استحقاق کا تصور ملتا ہے،یہاں تک کہ آئین پاکستان ١٩٧٣ء(جو اب نافذا لعمل ہے) اس میں بھی ان حکام اور پارلیمانی نمائندوں کے لیے استحقاق کا تصور موجود ہے۔

 

حکمرانوں کے استحقاق کے قوانین

 

جب سے جمہوری ریاستوں کا آغاز ہوا،ا ن ریاستوں کو چلانے کے لیے جو آئین اور دستور بنائے گئے وہ بنیادی قواعد و ضوابط کا درجہ اختیار کر گئے۔ان دساتیر میں دو قسم کے قوانین کا تصور ملتا ہے۔ایک قسم کے وہ قوانین جن کا تعلق ریاستی نظم و نسق سے ہوتا ہے اور دوسری قسم کے وہ قوانین جن کا تعلق ریاستی نظام کو چلانے والے(حکمران اور انتظامیہ)سے ہوتا ہے۔حکمران اور انتظامیہ کسی بھی ریاست میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،کیونکہ یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو ان قوانین کا اطلاق کرتے ہیں یا جن کے مطابق وہ ریاستی نظام کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔جہاں تک اس خطے (برصغیر پاک و ہند)کا تعلق ہے تو اس خطے کی تقسیم سے پہلے حکومت برطانیہ کا تسلط تھا۔حکومت برطانیہ ایک جمہوری حکومت ہوتی تھی(گو کہ وہ جمہوری سے زیادہ تاج برطانیہ کے زیر تسلط تھی)وہاں پر جو قوانین تھے، تقسیم ہند کے وقت وہی قوانین پاکستان میں بھی نافذ کیے گئے۔اس کے بعد پاکستان میں جو باقاعدہ آئین( قوانین) بنائے گئے تو انہی برطانوی قوانین کو بنیاد بنایا گیا اور پھر ان قوانین میں ترامیم کی گئی۔

 

ذیل میں ہم چند بنیادی قوانین کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان میں انتظامیہ کے لیے موجود قوانین استحقاق کا جائزہ لیں گے:

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

١۔ قانونی نمائندگا ن مقدمات ایکٹ١٨٥٥ء Legal Representatives souits Act 1855
٢۔ حق آسائش ایکٹ ١٨٧٢ء Easements Act 1872
٣۔ اقوام متحدہ(استحقاقات و استثناء)ایکٹ ١٩٤٨ء United Nation (Privileges and Immunities) Act 1948
٤۔ سفارتی تحفظ(نمائندگان ممالک دولت مشترکہ)ایکٹ ١٩٥٧ء Diplomatic immunities (Commonwelth Countries Representatative) Act 1957
٥۔ مراعات سفارتی و قونصلی ایکٹ ١٩٧٢ء Diplomatic and consular privileges Act 1972
٦۔ اسلامی کانفرنس تنظیم(استثناء و مراعات)ایکٹ١٩٧٧ء Organization of the Islamic Conference (immunities and privileges) Act 1977
٧۔ ریاستی استثناء آرڈینینس ١٩٨١ء State immunities Ordanance 1981
٨۔ انفساخ استحقاق ایکٹ١٩٩٢ء Revocation of Privileges Act1992
٩۔ پاکستانی ادارہ برائے پارلیمانی خدمات ایکٹ ٢٠٠٨ء The Pakistan institute for parliamentary services act 2008

آئین پاکستان کی روشنی میں انتظامیہ کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی گئی اور پہلی بار ١٩٧٤ء میں استثناء اور استحقاق کا باقاعدہ قانون سامنے آیا جسے(The members of Parliament (Powers,Immunities and Privileges) Act1974)کا نام دیا گیااور پھر بعد میں اس میں ترمیمات ہوتی رہیں اور اکتوبر ٢٠١٤ء میں سینٹ میں اس قانون کا ترمیمی ایکٹ پیش کیا گیا جسے(The members of Parliment(Powers,Immunities and Privileges) Act 2014)کا نام دیا گیا ہے۔

 

انتظامیہ کے قوانین استحقاق کا جائزہ

 

جہاں تک پاکستان میں انتظامیہ کے قوانین استحقاق کا تعلق ہے تو آئین پاکستان میں اس کا مفصل ذکر موجود ہے جس کا جائزہ لینے کے بعد ہم ان استحقاق کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ایک قسم کے وہ استحقاق ہیں جن کا تعلق ریاستی نظم و نسق سے ہے اور دوسری قسم کے وہ استحقاق ہیں جن کا تعلق ان حکمرانوں کی شخصی زندگی سے ہے ۔ جہاں تک حکمرانوں اور اعلیٰ انتظامیہ کےان استحقاقات کا تعلق ہے تو ذیل میں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

 

 

 

 

صدر پاکستان کا استحقاق

 

ریاستی نظام میں صدر کا عہدہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت سی جمہوری ریاستوں میں صدر ہی ریاستی نظام کو کنٹرول کرتا ہےاور کچھ ممالک میں وزیر اعظم کا عہدہ بنیادی تصور کیا جاتا ہے اور صدر وزیر اعظم کے مشورے پر عمل کرتا ہے۔پاکستان میں بھی اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد وزیر اعظم کو کلیدی اختیارات واپس دیئے گئے اور اب صدر پاکستان وزیر اعظم کے مشورے پرعمل کرتا ہے۔اس کے باوجود صدر پاکستان کے کچھ استحقاقات ہیں جن پر وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا ہے۔

 

صدر کو معافی دینے کا اختیار

 

صدر کے پاس کسی بھی شخص کو معافی دینے کا اختیار ہوتا ہے جس کا استعمال صدر پاکستان اپنی صوابدید پر کرتا ہے جیسا کہ آئین پاکستان ١٩٧٣ء کی دفعہ نمبر ٤٥ میں اس کا ذکر موجود ہے:

 

‘‘صدر کو کسی عدالت،ٹربیونل یا دیگر ہیت مجاز کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے،ملتوی کرنے اور کچھ عرصے کے لیے روکنے اور اس میں تخفیف کرنے اسے معطل یا تبدیل کرنے کا اختیار ہو گا’’۔([8])

 

یہ بات سربراہ ریاست کے صوابدیدی اختیارات میں شامل ہے کہ وہ حالات اور جرائم کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے سزاؤں میں تخفیف کر سکتا ہے۔ اگرشریعت اسلامیہ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ وہ جرائم جن کی سزائیں شریعت اسلامیہ میں متعین کردی گئی ہیں جن کو حدود کہا جاتا ہے ان میں سربراہ ریاست یا صدر پاکستان تخفیف یا ختم نہیں کر سکتا۔جہاں تک حدود کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں ارشاد ہے:

 

﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَاُولئكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾([9])

 

یہ اللہ کی مقررکردہ حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ اللہ کی حد سے باہر نکل جائیں یہی لوگ ظالم ہیں۔

 

اسی طرح ارشاد ہے:

 

﴿وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللهِ یُبَیِّنهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾([10])

 

یہ اللہ کی حدیں ہیں اللہ ان لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے جو اہل علم و دانش ہیں۔

 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی گزارنے کے جو اصول و ضوابط اور حدود و قیودات متعین کردی ہیں ان کے اندر رہ کر زندگی گزاری جائے اور سزاؤں کے نفاذ میں بھی حدود کا خیال رکھا جائے گا۔نبی کریم ﷺکی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں اس کی تعلیم ملتی ہے۔

 

عبد اللہ بن عباس ﷠فرماتے ہیں کہ صفوان بن امیہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک ایسے شخص کو لے کر آئے جس نے ان کی چادر چوری کی تھی۔آپﷺ نے ان کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو صفوان بن امیہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ میں اس کو معاف کرتا ہوں آپﷺ نے قطع ید کی حد نافذ کردی۔([11])

 

اسی طرح قریش کے قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود سے چوری کا جرم سرزد ہو گیا۔ قریش کے کہنے پر اسامہ بن زید کو سزا کی معافی کے لیے سفارشی بنا کر نبی کریم کے پاس بھیجا گیا تو نبی کریمﷺ کا چہرہ انور متغیر ہو گیا کہ تم اللہ تعالی کی مقرر کردہ حد کو معاف کرنے کی سفارش کرتے ہو پھر آپﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا:

 

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا ضَلَّ مَنْ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ الضَّعِيفُ فِيهِمْ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرَقَتْ، لَقَطَعَ مُحَمَّدٌ يَدَهَا".»([12])

 

اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لیے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تومحمدﷺاس کا ہاتھ ضرور کاٹ ڈالتے۔

 

حدود کی سزا جب اسلامی شرائط کے مطابق ثابت ہو جائے تو پھر بشمول حاکم کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس سزا میں تخفیف یا ختم کر سکے بلکہ حاکم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس سزا کی توثیق کر کے اس سزا کو نافذ کردے۔آئین پاکستان میں اس قسم کا قانون در اصل جمہوری ریاستوں اور مغربی افکار کا پیش خیمہ ہے جس میں سربراہ ریاست کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ سزاؤں میں تخفیف،تبدیل یا ختم کردے۔حقیقت میں یہ تصور اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کہ شریعت نے جو سزائیں مقرر کردی ہیں ان میں تخفیف یا تبدیلی کی جائے۔اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے حوالے سے بھی ہمیں مفصل تعلیم ملتی ہے۔

 

 

صوابدیدی اختیارات کے استعمال کا حق

 

جہاں تک صدر کے صوابدیدی اختیارات کا تعلق ہے تو اگر صدر پاکستان اپنے ان اختیارات کا استعمال کسی بھی معاملے پر کرے گا تو وہ اس کے لیے کسی بھی اتھارٹی کو جوابدہ نہیں ہو گا۔جس کی تفصیل آئین پاکستان ١٩٧٣ کی دفعہ نمبر ٤٨ کی ذیلی شق نمبر ٢ میں ملتی ہے۔

 

‘‘صدر کسی ایسے معاملے کی نسبت جس کے بارے میں دستور کی رو سے ایسا کرنے کا اختیار دے گیا ہے، اپنی صوابدید پر عمل کرے گااور کسی ایسی چیز کے جواز پر جو صدر نے اپنی صوابدید پر کی ہو کسی وجہ سے خواہ کچھ بھی ہو اعتراض نہیں کیا جائے گا’’۔([13])

 

اس کا تعلق چونکہ صدر کے قانونی اختیارات سے ہے اس لیے صدر پاکستان کے کسی ایسے عمل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی جس کا دستور پاکستان میں اس کو اختیار دیا گیا ہو اس لیے صدر کے صوابدیدی اختیارات میں بھی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکتی۔ہاں اگر صدر پاکستان اپنے ان صوابدیدی اختیارت کا غلط استعمال کرے یا اپنے اختیار سے ریاست،حکومت یا عوام الناس کو تکلیف دے تو پھر اس پر قانونی گرفت کی جائے گی؛ لہٰذا سر براہ ریاست سے تو اس کے ہر عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اس کو جو طاقت اور اختیار دیا گیا تھا اس کا استعمال کیسے کیا ۔حضرت خالدبن ولید﷜کے حوالے سے مشہور ہے کہ انھوں نےصوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئےایک بڑے شاعر الاشعت کو ایک قصیدہ پڑھنے پر دس ہزار درہم یا دینار انعام میں دیے تو ان سے جواب طلب کیا گیا کہ انہوں نے شاعر الاشعت کو جو رقم انعام میں دی ہے وہ کہاں سے دی ہے ؟ آیا اپنے پاس سے دی ہے یا عوام کے خزانہ میں سے دی ہے۔ اگر خزانہ عوام میں سے دی ہے تو خیانت کی ہے اور اگر اپنے پاس سے دی ہے تو اسراف کیا ہے۔حضرت عمر ﷜نےحضرت ابو عبیدہ بن جراح﷜(جو اس وقت گورنر جنرل تھے)کو حضرت بلال حبشی﷜ کے ذریعے پیغام بھیجا کہ دونوں حالتوں میں انہیں معزول کر دو اور ان کا علاقہ اپنی قلم رومیں شامل کرلو ۔ان کے الفاظ یہ تھے:

 

"اعزله علی کل حال واضمم إلیك عمله"([14])

 

بہرحال ان کو معزول کردو اور ان کے مال بھی ضبط کرلو۔

 

حکمران کو ملکی خزانہ اور سرکاری املاک سے بقدرِ ضرورت تو اپنے اخراجات مہیا کرنا جائز ہے، جس میں بقدر ضرورت سواری اور ملازم اور رہائش وغیرہ کا انتظام داخل ہے لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بقدرِ ضرورت اور بوقتِ ضرورت کے اصول پر عمل پیرا ہو اور موجودہ دور کے عام حکمرانوں کی شاہی فضول خرچیوں اور اسراف سے بچے، ورنہ اس کا وبال بڑا سخت ہے۔مدینہ کے ایک شیخ روایت کرتے ہیں کہ:

 

” میں نے عمر بن عبدالعزیز کو مدینہ میں دیکھا تھا۔ وہ سب سے زیادہ خوش پوشاک، خوشبو لگانے والے اور سب سے زیادہ اکڑ کر چلنے والے تھے۔ پھر میں نے ان کو خلیفہ ہونے کے بعد دیکھا کہ ان کا چلنا بالکل راہبوں کے چلنے کی طرح ہوگیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ انداز رفتار ایک فطری چیز ہے، اس میں تغیر ممکن نہیں ہے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تغیر حال اس دعویٰ کی کھلی تردید ہے’’۔ ([15])

 

حکمرانوں کے اختیارات ان کے احتساب میں رکاوٹ نہیں بن سکتے لہذا جو بھی حاکم اختیارات سے تجاوز کرے گا اسے اس کے بارے میں جواب دینا پڑے گا۔پاکستان کے موجودہ نظام میں بھی حکمرانوں کا احتساب قانونی اور آئینی تقاضوں کی تکمیل کر رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ احتساب کے اس نظام کو سیاسی تقاضوں کی بجائے قانونی تقاضوں کی روشنی میں غیر جانبدار بنایا جائے تاکہ قانونی اور اخلاقی تقاضوں کی بھی تکمیل ہو۔

 

ارکان پارلیمنٹ کے استحقاقات

 

پاکستان کے ریاستی نظام میں دو ایوانوں کا تصور ملتا ہے ایک کو ایوان بالا اور دوسرے کو ایوان زیریں یعنی پارلیمنٹ اور سینٹ کہا جاتا ہے،لہذا ان دونوں ایوانوں کے ارکان اور ان کے حقوق کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔حکومتی نظام میں پارلیمانی نظام کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اس لیے ان کے اراکین کا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔چنانچہ پاکستان کے آئین میں ارکان پارلیمنٹ کے استحقاقات کا ذکر بھی ملتاہے جس میں ان ارکان پارلیمنٹ کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔

 

تقریر کی آزادی

 

آ ئین پاکستان ١٩٧٣ ء کی دفعہ نمبر ٦٦ کی شق نمبر ١ تا ٤میں میں ارکان پارلیمنٹ کے جن استحقاقات کا ذکرہے، ان میں قابل ذکر تقریر کی آزادی ہے تاکہ وہ بطور عوامی نمائندہ اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکے۔

 

‘‘ (مجلس شوریٰ و پارلیمنٹ) میں تقریر کی آزادی ہو گی اور کوئی رکن مجلس شوریٰ میں اپنی کی ہوئی تقریر یا دیے ہوئے کسی ووٹ کی نسبت کسی عدالت میں کسی قانونی کارروائی کا مستوجب نہیں ہو گا اور کوئی شخص مجلس شوریٰ کی طرف سے یا اس کے اختیار کے تحت کسی رپورٹ،مضمون،ووٹ یا کارروائی کی اشاعت کی نسبت بایں طور پر مستوجب نہیں ہو گا’’۔([16])

 

آئین پاکستان کی روشنی میں ارکان پارلیمنٹ کے استحقاقات میں آزادی تقریرکو نمایا حیثیت حاصل ہے جس کی وضاحت جسٹس محمد منیر اس طرح کرتے ہیں:

 

‘‘مجلس شوریٰ کے ارکان اجلاس کے دوران تقریر کا غیرمشروط حق رکھتے ہیں اور اسمبلی میں ان کی تقریر یا ووٹ کے خلاف کسی عدالت کو اختیار سماعت نہیں،وہ جس شخص کے خلاف جیسا چاہے بیان دے سکتا ہے حتیٰ کے اس کے توہین آمیز بیان پر بھی عدالت کو اختیار سماعت نہیں ہے،خواہ یہ بیان بد نیتی پر ہی کیوں نہ ہو، اس حق تقریر پر صرف ایوان کے قواعد یا اسمبلی کی رولنگ کا اطلاق ہوتا ہے۔یہ تحفظ ان افراد کو بھی حاصل ہے جو گو مجلس شوریٰ کے رکن تو نہ ہیں مگر انھیں ایوان سے خطاب کا حق حاصل ہے ان میں وزراء اسمبلی کے افسران اور وہ افراد شامل ہیں جو اسمبلی کی کسی کمیٹی کے روبرو گواہی دینے کے لیے بلائے گئے ہوں’’۔([17])

 

بنیادی طور پر یہ ارکان پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ رائے کی آزادی رکھتے ہیں۔رائے کی یہ آزادی در اصل ملکی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ ہے کہ وہ ریاستی تحفظ،انتظامی اختیارات اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں یعنی قانون سازی کے لیے استعمال کریں۔اگر وہ اس ا ٓزادی اظہار کا استعمال بد نیتی اور دھوکہ دہی کے ساتھ کرے، ایوان کو گمراہ کرے یا آئین اور قانون کا مذاق اڑائے تو اس کے خلاف نہ صرف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی بلکہ اس کا احتساب بھی کیا جائے۔

 

حضرت عمرفاروق﷜ کے دور خلافت میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح﷜(گورنر شام) نے حضرت معاذ بن جبل﷜ کو رومیوں کے پاس سفیر بناکر بھیجا۔رومیوں سے بات چیت کے دوران بادشاہ اور اس کے اختیارات کے ذکر چھڑ گیا تو حضرت معاذ﷜ نے فرمایا:

 

”تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمھاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے اس کو اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے کو ترجیح نہیں دے سکتا۔اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں،چوری کرے تو ہاتھ کاٹ دیے جائیں،وہ پردے میں نہیں بیٹھتا اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔“([18])

 

حضرت ابوبکرصدیق﷜نے خلافت کی مسند سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں رعایا کو اپنا احتساب کرنے اور غلطیوں پر نظر رکھنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ نے فرمایا:

 

"أيها الناس! إني قد وليت عليكم وليست بخيركم، إن أحسنت فأعينوني، وإن أسأت فقوموني" ([19])

 

لوگو! مجھے تم پر حکمران مقرر کیا گیا ہے، حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھائی کی راہ پر چلوں تو میری مدد کرنا اور اگر برائی کی راہ پر چلوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کردینا۔

 

شریعت اسلامیہ میں حکمرانوں کی جو ذمہ داریاں بتائی گئی ہیں اگر ان کا جائزہ لیں تو ہمارے حکمرانوں کے لیے بہترین اسوہ موجود ہے۔حضرت ابوبکرصدیق ﷜نے اپنی حکومت کا بنیادی مقصد بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 

"وَالضَّعِيفُ فِيكُمْ قَوِيٌّ عِنْدِي حَتَّى أُرِيحَ عَلَيْهِ حَقَّهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ وَالْقَوِيُّ فِيكُمْ ضَعِيفٌ عِنْدِي حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْهُ إنْ شَاءَ اللَّهُ"([20])

 

اور تم میں جو بے اثر ہیں، وہ میرے نزدیک بااثر ہیں یہاں تک کہ میں ان کا حق واپس دلادوں (ان شاء اللہ) اور تم میں جو بااثر ہیں وہ میرے نزدیک بے اثر ہیں یہاں تک کہ میں ان سے دوسروں کا حق وصول کرلوں انشاء اللہ۔

 

حضرت عمرفاروق﷜ نے خلیفہ ہونے کے بعد اسی حقیقت کا اعادہ ان الفاظ میں فرمایا:

 

"والله ما منکم أقوی عندي من الضعیف حتی أخذله الحق ولا أضعف عندي من القوی حتی أخذ الحق منه"([21])

 

خدا کی قسم، تم میں سے کوئی شخص میرے نزدیک ایک بے اثر سے زیادہ با اثر نہیں ہے، جب کہ میں اس کا حق وصول نہ کروں اور نہ کوئی شخص ایک بااثر سے زیادہ بے اثر ہے جب تک کہ میں اس سے دوسرے کا غصب کیا ہوا حق وصول نہ کرلوں۔

 

اسلامی مملکت کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایسی انتظامیہ ،ارکان پارلیمنٹ اور حکمرانوں کی ضرورت ہے جن کے کلام،عمل اور اختیار میں خوف خدا، ایمانداری ،سا دگی ، شرافت، دیانتداری ، نیک نیتی، انسانیت کی عزت و احترام شامل معاشرے میں عدل و مساوات کو قائم رکھ کر ایک اچھے حکمران اور نیک صالح انتظامیہ کا فر یضہ اداکر سکیں۔

 

 

 

 

ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری

 

ارکان پارلیمنٹ بنیادی طور معزز شمار کیے جاتے ہیں اور ان کے حقوق اور استحقاق کا خیال رکھا جاتا ہے۔مگر ضابطہ دیوانی کے تحت اگر وہ کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو کیا اس صورت میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے اور اس کارروائی کے لیے انھیں گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ اس ضمن میں آئین پاکستان١٩٧٣ء،ترمیمی بل ٢٠١٤ء کی دفعہ نمبر ٣١ میں گرفتاری کے حوالے سے بھی مفصل وضاحت کی گئی ہے، جس اس سےواضح ہوتا ہے کہ بغیر اجازت کے کسی بھی رکن پرلیمنٹ کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔گرفتاری کے لیے نہ صرف اجازت ضروری ہے بلکہ ان کا عزت و احترام بھی ضروری ہوتا ہے۔اگر کوئی عدالت کسی رکن پارلیمنٹ کو جرم کا مرتکب پاتے ہوئے یا مزید تحقیق و تفتیش کے لیے گرفتاری کو ضروری سمجھے تو اس رکن پارلیمنٹ کو گرفتار کیا جا سکے گا اور یہ گرفتاری عدالت کے اندر سے یا گھر سے کی جا سکتی ہے اور اس گرفتاری کے دوران بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں اس کو سپیکر کی خصوصی اجازت سے شمولیت کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے۔

 

سینٹ کے قواعد و ضوابط میں بھی ارکان کی گرفتاری کا ذکر موجود ہے:

 

‘‘کسی بھی رکن سینیٹ کو چیئرمین سینٹ کی اجازت کے بغیرسینیٹ کے احاطہ سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ اورچیئرمین سینٹ کی اجازت کے بغیر کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر اتھارٹی کے جاری کردہ کسی قانونی حکم نامہ کی تعمیل نہیں کرائی جائے گی۔ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت جہاں رکن کو زیرحراست رکھا گیا ہو، یا کوئی اتھارٹی جس کے زیر حراست رکن ہو جوبھی صورت ہو چیئرمین سینیٹ کی اجازت سے مذکورہ رکن اجلاس میں شرکت کر سکے گا اور اجلاس کے اختتام پر رکن کو وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت یا کسی دیگر اتھارٹی، جو بھی صورت ہو، کی حراست میں دےدیا جائےگا“۔([22])

 

واضح رہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ یا رکن سینٹ کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے ہے تو اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی جس میں اس کی گرفتاری بھی شامل ہے مگر شرط یہ ہے کہ پہلے چیئرمین سے اجازت لی جائے گی اور احاطے سے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی رکن یا عوامی نمائندہ کسی بھی جرم کی صورت میں کسی بھی کارروائی سے نہیں بچ سکتا بلکہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے ،جہاں تک اجازت کا تعلق ہے تو وہ گویا ایک ادارے کا معزز رکن ہے اس لیے اس ادارے کی اجازت سے اس کے خلاف کارروائی کی جائے اور جرم کی نوعیت ایسی ہے جس میں ان ایوانوں میں کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر چیئرمین خود اس کی اجازت دے گا اور کسی ذیلی کمیٹی کے ذریعے اس کی تحقیقات کرے گا اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں خود سزا دے گا یا عدلیہ سے رجوع کرے گا۔اگر جرم اس نوعیت کا ہے کہ گرفتار کر کے تفتیش کی ضرورت ہے تاکہ جرم ثابت ہونے کے مراحل میں کوئی شخص یا ادارہ اثر انداز نہ ہو سکے ۔تحقیق و تفتیش کے بعد مذکورہ شخص کو سزائیں بھی دی جائیں گی جیسا کہ اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں ملتی ہیں جب جرائم کی صورت میں تادیبی سزائیں دی گئیں۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق﷜ نے یزید بن ابی سفیان(جو کہ گورنر تھے) کے بارے میں سنا کہ وہ کھانے میں متنوع غذائیں استعمال کرتے ہیں تو آپ﷜ نے شام کے کھانے کے وقت ان کے گھر پہنچنے کا ارادہ کیا اور بالکل کھانے کے وقت پہنچے جب ان کا کھانا دیکھا تو انھیں کھانے میں اسراف کرنے سے منع کیا۔([23])

 

جب مصر کے گورنر عمرو بن العاص﷜ کے بارے میں حضرت عمر فاروق﷜ کے پاس شکایت پہنچی تو آپ﷜ نے ان کو خط لکھا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے اپنےلیے منبر بنوایا ہے تم اس پر چڑھ کر لوگوں کی گردن پر بیٹھنا چاہتے ہو۔کیا تمھارے لیے یہ کافی نہیں کہ کھڑے رہو اور مسلمان تمھارے قدموں کے پاس رہیں۔میں تمھیں زور دے کر کہتا ہوں اسے فورا توڑ دو۔([24])

 

قیس بن ابی حازم کا بیان ہے کہ :

 

”حضرت عمر فاروق﷜ نے ایک انصاری نوجوان کو عامل(افسر) بنا کر بھیجا ۔وہ باشندگان حیرہ کے ایک رئیس عمر بن حیان بن بقیلہ کے ہاں مہمان ہوئے۔ اس نے ان کی طلب کے مطابق اچھا کھاناپیش کیا مگر انھوں نے میزبان کا مذاق اڑایا اور اس کے داڑھی پکڑ لی۔ وہ آدمی بے عزتی برداشت نہ کر سکا اور حضرت عمر کے پاس پہنچا اور شکایت کی۔حضرت عمر فاروق﷜ نے اس عامل کو بلوایا اور کہا سنو اس نے تمھارے سامنے کھانا پیش کیا، جیسا تم نے چاہا، پھر بھی تم نے اس کی داڑھی پکڑ لی۔ اللہ کی قسم اگر داڑھی رکھنا نبی کریمﷺ کی سنت نہ ہوتی تو تمہاری داڑھی کا ایک ایک بال اکھاڑ لیتا، لیکن جاؤ اللہ کی قسم آج سے تم کسی منصب کے قابل نہیں ہو“۔([25])

 

حضرت عمر فاروق﷜نے عیاض بن غنم کو شام کا امیر بنا کر بھیجا ۔آپ﷜ کو خبر ملی کہ انھوں نے اپنے لیے اعلیٰ قسم کا ایک حمام بنا لیا ہے اور کچھ مخصوص لوگوں کو اپنا ہم نشین مقرر کیا ہے۔ آپ نے خط لکھ کر انھیں بلوایا، وہ آئے تو آپ نے انھیں تین دن کے لیے نظر بند کر دیا، پھر باہر نکلنے کی اجازت دی اور ان کے لیے ایک اونی جبہ منگوایا اور بکریوں کا ایک ریوڑ دیا کہ جاؤ ان کو چراؤ۔آپ ان کو کئی بار بلواتے اور تادیبی نصیحت کر کے واپس بھیج دیتے آخر کچھ وقت کے بعد ان کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا۔([26]) اس سزا کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیاض حضرت عمر﷜کے افضل ترین والیان ریاست میں شمار ہونے لگے۔([27])

 

ضحاک بن خلفیہ عریض (جھیل ) سے پانی نکال کر اپنی زمین تک لانا چاہتے تھے ۔ راستہ میں محمد بن مسلمہ کی زمین پڑتی تھی۔ مگر وہ کس طرح تیار نہیں ہوئے جس پر حضرت عمرنے ان سے فرمایا کہ تمہارا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ بلکہ اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے ۔ کہ تم بھی اس سے پانی لے سکتے ہو۔ اس پر حضرت عمرنے ان کی سرزنش کی اور فرمایا کہ خدا کی قسم یہ ضرور نکالیں گے خواہ تمہارے پیٹ پر سے بھی گزرنا پڑے چنانچہ ضحاک نے وہ نہر محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے نکال لی۔([28])

 

ان مثالوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم،گونرنرز، عوامی نمائندوں،ارکان پارلیمنٹ و سینٹ اور سیاسی انتظامیہ کو استحقاق کے باوجود جرائم کے ارتکاب میں سزا دی جا سکتی ہے اور انھیں آئین اور قانون سے بالاتر تصور نہیں کیا جا سکتا۔

 

گورنر کا استحقاق

 

صدر پاکستان اور ارکان پارلیمنٹ کی طرح گورنرکو بھی استحقاق حاصل ہیں،جن کا انھیں عطا کیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ صوبائی معاملات کو آسانی سے چلا سکے۔ذیل میں ہم آئین پاکستان میں دیے گئے گورنر کے ان استحقاقات کا جائزہ لیتے ہیں:

 

صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق

 

صوبے کا انتظامی اختیار گورنر کے پاس ہوتا ہے اور گورنر در اصل وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی سرپرستی میں صوبوں کا نظام حکومت چلایا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ بھی آئین اور قانون کے دائرے میں گورنر کے احکامات کی تکمیل کا پابند ہوتا ہے۔ گورنر صوبائی انتظامیہ کی نا اہلی،عوامی حقوق کے تحفظ اور اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئےصوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا حق بھی رکھتا ہے کہ جب بھی وہ ایسے حالات محسوس کرے یا وزیر اعظم انھیں کوئی مشورہ دے تو وہ ایسے اقدامات(جن میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل شامل ہے) کر سکتا ہے جیسا کہ آئین پاکستان ١٩٧٣ ءکی دفعہ نمبر ١١٢ کی ذیلی دفعہ نمبر ١ کے مطابق:

 

‘‘ گور نر صوبائی اسمبلی کو تحلیل کردے گا۔ اگر وزیر اعلیٰ اسے ایسا کوئی مشورہ دے اور صوبائی اسمبلی بجز اس کے کہ اس سے قبل تحلیل نہ کر دی گئی ہو، وزیر اعلیٰ کی طرف سے ایسا مشورہ دیئے جانے کے بعد اڑتالیس گھنٹوں کے خاتمے پر تحلیل ہو جائے گی’’۔([29])

 

واضح رہے کہ اس میں کسی ایسے وزیر اعلیٰ کا حوالہ شامل ہے جس کے خلاف صوبائی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کی کسی قرارداد کا نوٹس دے دیا گیا ہو لیکن اس پر رائے دہی نہ کی گئی ہو یا جس کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کوئی قرارداد منظور ہو گئی ہو۔

 

آئین پاکستان ١٩٧٣ ءکی دفعہ نمبر ١١٢ کی ذیلی دفعہ نمبر ۲کے مطابق:

 

‘‘گورنر بھی اپنی صوبدید پر،لیکن صدر کی ماقبل منظوری کے تابع،صوبائی اسمبلی کو توڑ سکے گا جبکہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور کیے جانے کے بعد،صوبائی اسمبلی کے کسی رکن کا دستور کے احکامات کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کے اعتماد رکھنے کا امکان نہ ہو،جس طرح کے اس غرض سے بلائی گئی صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں معلوم ہوا ہو۔“([30])

 

گورنر اپنی صوابدید یا صدر کی پیشگی منظوری سے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے ۔گورنر یہ صوابدیدی حق صرف ایسی صورت میں استعمال کرے گا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ منظور ہو چکا ہو اور صوبائی اسمبلی کا کوئی دوسرا رکن آئین کے مطابق صوبائی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد نہ کر سکا ہو اور یہ تمام صورت حال اس مقصد کے لیے بلائے گئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں معلوم بھی ہو چکی ہو ۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اطمینان کا ووٹ آجائے،ایوان کا کوئی دوسرا رکن اکثریت کا اعتماد حاصل نہ کرسکے اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں یہ بات واضح ہو جائے تو گورنر اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی تحلیل کر دے گا۔گویا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وزیر اعلیٰ جو پورے ایوان کا متفقہ قائد ہوتا ہے وہ عدم اطمینان کی صورت میں اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکے گا۔

 

یہ واضح رہے کہ آئین میں گورنر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو معزول کر کے اسمبلیاں تحلیل کر سکتا ہے مگر آئین کی رو سے اس کا جو طریقہ کار ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئے اس کی کامیابی کے بعد اگر اکثریتی جماعت دوسرا وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں کر سکتی توگورنر اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کردے گا۔دوسری صورت یہ ہے کہ اگر گورنر سمجھتا ہے اور وزیر اعظم یا صدر اس کو مشورہ دیتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صوبے میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود اختیارات کا نا جائز استعمال کر رہا ہے اور ان کے اس فعل سے ریاست کو نقصان ہو رہا ہے یا ریاستی نظم و نسق میں خلل واقع ہو رہا ہے تو گورنر صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئےصوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دے گا۔

 

شریعت اسلامیہ کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو اسلامی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جب اختیارات کے ناجائز استعمال اور عدم اطمینان کی صورت میں اعلیٰ حکام کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا نہ صرف ہٹا دیا گیا بلکہ ان کے بارے میں سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔

 

حضرت ابودرداءکے حوالے جب خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ﷜ کو شکایت ملی کہ انھوں نے بیت المال کا استعمال اپنے ذاتی مقاصد کے لیے کیا ہے توحضرت عمر فاروق﷜ نے حضرت ابودرداء کے نام ایک مکتوب تحریر کیا:

 

‘‘مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم نے بیت المال سے رقم حاصل کرکے ذاتی استعمال کے لیے طہارت خانہ تعمیرکروایا ہے۔ روم کے سابقہ حکمرانوں کی تعمیر کردہ عمارات عبرت کے حصول کے لیے کافی نہیں تھیں جو تم نے بھی تعمیرات کا آغاز کردیا ہے، جیسے ہی یہ مکتوب تم تک پہنچے تو تم خود کو معزول سمجھو اور تمہارے لیے مزید حکم یہ ہے کہ دمشق جاکر اپنی زندگی کی بقیہ ایام وہیں بسر کرو۔جب یہ مکتوب حضرت ابودرداءنے پڑھا تو اپنے عہدے سے الگ ہوکر دمشق تشریف لے گئے اور وہیں وصال فرمایا’’۔([31])

 

حاکم جب جب اپنے ریاست معاملات میں خیانت کرتا ہے تو اس کے بارے میں اسوہ محمدی میں بڑی وعید سنائی گئی ہے۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:

 

«مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ المُسْلِمِينَ،فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ» ([32])

 

اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔

 

حضرت علی ﷜نے ابوامامہ باہلی کو بصرہ کا گورنر مقرر کیا۔ کچھ عرصہ بعدحضرت علی﷜ کی ملاقات بصرہ کے رہنے والے ایک شخص سے ہوئی تو آپ نے اس سے حضرت ابوامامہ باہلی کے احوال دریافت کئے۔ اس نے عرض کی ایک دن میں نے انہیں ایک صاحب ثروت کے ہاں دعوت کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ حضرت علی﷜ نے حضرت ابوامامہ باہلی کو مکتوب تحریر کیا:

 

”مجھے یہ افسوسناک اطلاع ملی ہے کہ تم اہل ثروت کی ضیافتوں میں شریک ہوتے ہو اور وہ طرح طرح کے کھانوں سے تمہاری تواضع کرتے ہیں۔ یاد رکھو اہل ثروت کی جن پر تکلف دعوتوں میں غرباء کو شامل ہونے سے سختی سے روکا جاتا ہے ایسی دعوت میں شریک ہونے والا حکمران حق اور باطل کے درمیان تمیز نہیں کرسکتا۔ (لہٰذا تمہیں معزول کیاجاتا ہے)۔اور حضرت علی ﷜نے حضرت ابوامامہ باہلی کو گورنری کے منصب سے معزول کردیا“۔ ([33])

 

جدید جمہوری نظام میں گورنر چونکہ پورے صوبے کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے اس لیے جب وہ محسوس کرے کہ صوبائی انتظامیہ بشمول وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کر رہے ہیں اور ان کے اختیارات کی وجہ سے ریاست اور عوام کو نقصان ہو رہا ہے تو اس صورت میں وہ ان کو ان عہدوں سے الگ کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کردیتا ہے تاکہ جمہوری طریقے سے ایک نئی انتظامیہ کی تشکیل کی جا سکے۔

 

خلاصہ

 

کسی بھی ریاستی نظام کو قانون کے مطابق چلانا اور اس نظام کو چلانے والے اراکین کے حقوق کا تحفظ کرنا آئینی اور قانونی طور پر ضروری سمجھا جاتا ہے،اسی لیے ان اراکین پارلیمنٹ کو آئینی اور قانونی طور کچھ استحقاقات عطا کیے جاتے ہیں تاکہ وہ قانونی دائروں میں رہتے ہوئے اور اپنے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ریاستی نظام کو بہتر انداز میں چلا سکیں۔جہاں تک پاکستان کے نظم حکومت میں حکمران اور انتظامیہ کا تعلق ہے تو ان کے لیے بھی ١٩٧٣ء کے آئین پاکستان اور قومی اسمبلی و سینٹ کے ضوابط و طریق کار میں استحقاقات کا ذکرموجود ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے باقاعدہ قوانین بھی بنائے گئے اور ان قوانین میں وقتی تقاضوں کے مطابق ترامیم بھی کی جاتی رہی ہیں۔چونکہ ان استحقاق کا تعلق قانونی تقاضوں سے ہے اس لیے یہ بنیادی طور پر درست تسلیم کیے جاتے ہیں۔جہاں تک ان استحقاق کے قوانین کے استعمال کا تعلق ہے تواس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔حکمران اپنے فرائض سے زیادہ استحقاق کو طلب کرتے نظر آتے ہیں۔اسلام میں حکمرانی کو خدمت خلق کے طور پر متعارف کرایاگیا ہے اور عوام کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی کی تعلیم دی گئی،لہذا پاکستان کے حکمران، ارکان پارلیمنٹ اور انتظامیہ اسلامی اصول و طرز حکمرانی کو اختیار کر کے ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپناکردار ادا کر سکتے ہیں۔اگر پاکستان میں اسلامی طرز حکمرانی کو اختیار کیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ مملکت پاکستان کو پر امن اور خوش حال نہ بنایا جاسکے۔

 

نتائج

 

۱۔پاکستان میں حکمرانوں اور انتظامیہ کے استحقاق کا تصور آئین پاکستان ۱۹۷۳ء،قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کار اور سینٹ کے قواعد و ضوابط کار میں موجود ہے۔کل وقتی اور جز وقتی ضرورتوں کے مطابق ان قوانین اور ضوابط میں ترامیم بھی کی جاتی ہیں۔

 

۲۔صدر پاکستان(سربراہ ریاست) کو سزاؤں میں تخفیف کا حق حاصل ہےجو کہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں درست نہیں ہے۔جن جرائم کی سزا شریعت نے حدود کی صورت میں مقرر کر دی ہے ان میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس میں کم یا معاف کردے ہاں البتہ تعزیری سزاوں میں کمی یا ختم کرنا صدر کا صوابدیدی حق ہے وہ چاہیے تو مصلحت کے لیے اس میں تخفیف و رعایت دے سکتا ہے۔

 

۳۔آئین پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کے لیے رعایتی قوانین موجود ہیں جن میں اظہار رائے کی آزادی اور اپنے حقوق کا تحفظ قابل ذکر ہے۔مگر واضح رہے کہ اظہار رائےکا استعمال بد نیتی یا دھوکہ دہی یا توہین عدالت کے لیے ہو گا تو اس پر گرفت کی جائے گی۔

 

۴۔گورنر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مخصوص حالات میں ضروری سمجھے تو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر سکتا ہے۔

 

۵۔ارکان پارلیمنٹ اپنے استحقاق کے تحفظ کے لیے پارلیمانی کارروائیوں میں یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ استحقاق کے مجروح ہونے کی صورت میں اس کے لیے آواز اٹھا سکیں اس کے لیے باقاعدہ قانونی طریقہ کار موجود ہے۔

 

۶۔استحقاق کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر درست ہیں مگر ان کےاستعمال میں مبالغہ کیا جاتا ہے۔حکمران اپنےان استحقاقات کاغلط استعمال کرتے اور بعض اوقات اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے نظر آتے ہیں۔

 

سفارشات

 

۱۔استحقاق کے قوانین کے درست استعمال کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

 

۲۔صوابدیدی اختیارات کو مصالح کے تابع کیا جائے اور ان اختیارات کے غلط استعمال پر گرفت کا قانون ہونا چاہیے۔

 

۳۔عام جرائم اور وائٹ کالر جرائم میں ملوث ہونے کی صورت میں استحقاقی قوانین ساقط ہونے چاہئیں اور عام ملکی قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے۔

 

۴۔ایسے استحقاقی قوانین میں ترمیم ہونی چاہیے جن سے حاکم و محکوم میں عدم مساوات کا تصور اجاگر ہوتا ہو۔

 

۵۔ریاستی نظام،عوامی مفاد اور مصالح عامہ کے لیےمحض استحقاق اور صوابدید کی بنیاد پر عہدوں پر تعنیاتی نہیں بلکہ اہلیت و صلاحیت کے مطلوبہ معیار پر ہونی چاہیے۔

 

حوالہ جات

  1. ()مختصر اردو لغت،قومی کونسل برائے فروغ ارردو زبان، نئی دہلی ،٢٠٠٩ء،ص:٢٧
  2. ()ڈاکٹر میاں محمد صدیقی،اسلامی قانونی لغت،مقتدرہ قومی زبان ،پاکستان ،٢٠٠٢ء،ص:١٨
  3. ()سورۃالمائدۃ:۱۰۷
  4. ()ابن عابدین شامی،محمد امین بن عمر،رد المحتار علی در المختار،دارالکتب العلمیہ ،بیروت ،لبنان،١٩٩٢ء،٤ /١٩١
  5. ()الدردیر العدوی،احمد بن محمد بن احمد ، الشرح الصغیر علی اقرب المسالک الی مذہب الامام مالک،تحقیق:د۔ مصطفی کمال وصفی،دار المعارف ،قاہرہ،٢/٤٦٦، حامش الزرقانی علی خلیل،حاشیۃالبنائی، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان،۱۹۹۶ء، ٦/١٥٨
  6. ()ابن قدامہ، محمد بن احمد مقدسی،المغنی فی فقہ امام احمد بن حنبل الشیبانی،دار الفکر ،بیروت ،لبنان،١٤٠٥ھ ،٤/٥٩٧
  7. ()جان سالمنڈ،اصول قانون،مترجم :سید علی رضا،جامعہ عثمانیہ ،حیدر آباد ،دکن،١٩٢٨ء،٢/١٣٥
  8. ()آئین پاکستان ١٩٧٣ ء،دفعہ نمبر :٤٥
  9. ()سورۃالبقرۃ: ۲۲۹
  10. ()سورۃالبقرۃ:۲۳۰
  11. ()دار قطنی،علی بن عمر،سنن،کتاب الحدود والدیات وغیره،باب قطع الید،حدیث نمبر :۳۴۶۹،موسۃ الرسالۃ،بیروت، لبنان،۱۴۲۴ھ
  12. ()بخاری،محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،کتاب الحدود،باب كراهية الشفاعة في الحد إذا رفع إلى السلطان، حدیث نمبر:۶۷۸۸، مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ،لبنان، ۱۴۲۴ھ
  13. ()آئین پاکستان ١٩٧٣ ء،دفعہ نمبر: ٤٨، شق نمبر: ٢
  14. ()امام طبری،ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک ، دار التراث ،بیروت ،لبنان ،۱۳۸۷ھ، ٤ /٣٠٥ ،ابن کثیر،ابو الفداء اسماعیل بن کثیر دمشقی،البدایہ والنہایہ،دار احیاء التراث ،العربی بیروت،لبنان، ١٩٨٨ء، ٥ / ٨٠
  15. ()امام ابو یوسف،یعقوب بن ابراہیم،کتاب الخراج،دار المعرفہ ،بیروت ،لبنان ، ص:١٠
  16. ()آئین پاکستان ١٩٧٣ء ،دفعہ نمبر :٦٦،شق نمبر :١ - ٤
  17. ()جسٹس محمد منیر،اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور،پی ایل ڈی پبلشرز، لاہور،۱۹۹۰ء،ص:١١٦
  18. ()شبلی نعمانی،الفاروق،سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور،١٩٧٦ء،ص:١٢٥
  19. ()سیوطی،جلال الدین،تاریخ الخلفاء، نور محمد کتب خانہ،کراچی،۱۹۸۳ء، ص:٢٩
  20. ()محمد حسین ہیکل،ابو بکر صدیق،مترجم :ڈاکٹر محمد احمد،طاہر سنز ،لاہور ،۲۰۰۸ء،ص:٢٧
  21. ()ایضاً ،ص:٢٨
  22. ()قواعد و ضوابط کاروانصرام کارروائی سینٹ ٢٠١٢ء،دفعہ نمبر :٧٩
  23. ()عمری،عبد العزیز بن ابراہیم ،الولایۃ علی البلدان،دار اشبیلیا،المملکہ العربیہ السعودیۃ ،ریاض ،طبع اول :۱۴۲۲ھ، ۱/۱۶۲
  24. ()قرشی،عبد الرحمن بن عبد اللہ ،فتوح مصر اوخبارہا،دارالتعاون للطبعہ والنشر، بیروت، ۱۹۷۴ء،ص:۹۲
  25. ()محمد عبد المعیود،تاریخ المدینۃ،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور، ۱۹۸۴ء، ۳/ ۸۱۳
  26. ()محمد عبد المعیود،تاریخ المدینۃ، ۳/ ۸۱۷
  27. ()عبد العزیز بن ابراہیم العمری،الولایۃ علی البلدان ، ۲/۱۳۰
  28. ()محمد رواس قلعہ جی، موسوعہ فقہ عمر ،مکتبہ الفلاح ،کویت، الطبعۃالدولی ،کویت ،١٩٨١،ص:٨٦
  29. ()آئین پاکستان ١٩٧٣ ء، دفعہ نمبر :١١٢،شق نمبر:١
  30. ()ایضا،شق نمبر:۲
  31. ()ہمدانی،سید علی ،ذخیرة الملوک،مترجم :محمد محی الدین جہانگیر،نوریہ رضویہ پبلی کیشنز ،لاہور ،۲۰۰۷ء ،ص:١٧٣
  32. ()بخاری،الجامع الصحیح،کتاب الأحکام،باب من استرعي رعية فلم ینصح،حدیث نمبر:٧١٥١، ٨/٣٨٠
  33. ()سید علی ہمدانی،ذخیرة الملوک، ص:١٧٦
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...