Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

اجماع کی اہمیت شریعت اسلامی کی روشنی میں |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060025806_485

Pages

21-33

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/18/16

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/18

Subjects

Ijmāʿ Concensus Salaf Ummah Ijmāʿ Concensus Salaf Ummah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اجماع کی تعریف

لغت کے اعتبار سے اجماع "عزم،پختہ ارادہ اور کسی بات پر متفق ہونے " کو کہتے ہیں[1]، ہم اجماع کے حوالے سے فقہاء کرام کی نظر سے کی گئی کچھ تعریفات کا ذکر کرتے ہیں :

1: "هو اتفاق المجتهدین فی عصر من العصور علی الحکم الشرعی بعد وفاة النبی ﷺ بدلیل "[2]

اجماع سے مراد آنحضرت ﷺ کے وصال ہونے کے بعد کے زمانے کے (مسلم امت کے) سب علمائے کرام اور مجتہد حضرات کا کسی دلیل کے ساتھ کسی حکمشرعی پر متفق ہوجانا ہے۔

2: امام غزالی ؒ نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:

"اتفاق امة محمد ﷺخاصة علی امر من الامور الدینیة "[3] امت محمد یہ کا دینی امور میں سے کسی امر پر متفق ہونا۔

3 :امام شوکانی ؒ اجماع کی تعریف کچھ یوں کرتا ہے : "فهو اتفاق مجتهدي أمة محمد ﷺ بعد وفاته فی عصر من العصور علي أمر من الأمور" [4]حضرت محمد ﷺ کےوصال کے بعدامت مسلمہ کے مجتہدین حضرات کا کسی بھی دورکے کسی معاملے پر متفق ہونا۔

اجماع کی بنیاداصول شرعی میں سے کسی نہ کسی اصول پر ہو اس لئے کہ قیاس یا اجماع کوئی الگ سے مستقل دلیل نہیں ہیں۔اجماع کے لیے اس بات کو مدنظر رکھنا لازم ہے کہ وہ بنیادی اصول یعنی کتاب اللہ یاسنت رسول کریم ﷺ یاپھرقیاس میں پایا جانا ضروری ہو ۔اجماع جیسے اصول کی ضرورت اس لیے پڑی کہ وہ حضرات جو اہل اجماع ہیں وہ خود احکامات کو بیان نہیں کرسکتےکیونکہ شریعت کی انشاء کا حق تو صرف اللہ رب العزت اور رسول اکرمﷺ کو حاصل ہےیہی سبب ہے کہ اصحاب رسول ؓ نے جن مسائل پراجماع کیا ہے ان سارے مسائل میں وہ کسی اصول پر مباحثہ کرتے ہو ئےاس پر خود کیراء کی بناء رکھتے تھے ۔ اسی طرح اس دؤر میں اجماع منعقد ہو ہوجایا کرتاتھا۔دادی کی وراثت کے معاملے میں اصحاب رسول ﷦ نے صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی بیان کی گئی خبر پر بھروسہ کرلیا اور جمع بین المحارم والی حرمت کے مسئلےمیں حضرت ابوہریرہ﷦ کی بیان کی گئی روایت پر بھروسہ کرلیا۔ اس جیسا ایک اور معاملہ مین حقیقی بھائیوں کی غیر موجودگی میں باپ شریک بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ۔ علمائےکرام میں سے جمہورکی اکثریت کتاب اللہ اور سنت رسول کو اجماع کوحقیقی بنیاد قرار دینے پر متفق ہےجیسا کہ اوپر ذکر کردہ سطور میں اس کی کچھ تفصیل پیش کی گئی ہے، اس میں سنت اجماع کی بنیاد ہے۔

اجماع کی ضرورت

اسلام ایک کامل ضابطہ حیات دین ہے ۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں"اَلْیَوْم اکملت لکم دینکم "[5] آج میں نے اپنا دین تمھارے لئے مکمل کردیا –اللہ رب العزت نے دین اسلام کو پورا کردیا ۔ حضور اکرمﷺ خاتم النبیین تھےاورآنحضرت ﷺ بھی وفات فرما چکے تھے ۔ قرآن حکیم میں صرف چند امور کے متعلق احکام دیئے گئے تھے اور اب چونکہ اور یہ ذریعہ ہدایت ہم سے منقطع ہوگیا ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو احکام قرآن مجید اور احادیث رسول سے واضح طریقے سے نہ پائے جائیں وہ اس قابل ہونے چاہئیں کہ قرآن حکیم اور احادیث رسول مکرم ﷺ سے حصول ہو سکیں اور چونکہ علماء ہی کو ایسے مسائل نکالنےکا تجربہ ہوسکتا ہے ۔اس لئے کسی مسئلے کے متعلق ان کی متفقہ راء جائز قرار پاسکتی ہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: إن الله لا یجتمع أمتي علی الضلالة[6]- اللہ تعالیٰ میری امت کوگمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا۔دوسری حدیث میں فرمایا کہ:"اتبعو سواد الأعظم فإنه من شذ شذ فی النار "[7] سواد اعظم (بڑی جماعت ) کی اتباع کرو ، کیونکہ جو الگ ہوا وہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔

اجماع کی اہمیت قرآن مجید کی روشنی میں

1:"وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى

وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"[8]

اور جس نے ہدایت کھل کر سامنے آجانے کے بعد رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے کے سوائے کسی اورراستے کی پیروی کی تواسے ہم اسی طرف لے جائیں گے جدہر وہ خود گیا اور اس نے جانا چاہا اور اس کو جہنم میں داخل کر دیں گے جو بہت بری رہنے کی جگہ ہے ۔

مذکورہ آیت کی تشریح کرتےہوئے مفتی محمد شفیعؒ اپنی مایہ ناز تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ:"اس آیت میں دو چیزوں کا جرم عظیم اور دخول جہنم کاسبب ہونا بیان فرمایا ہے : ایک رسولﷺ کی مخالفت ، اور یہ عیاں ہے کہ رسول اکرم ﷺکی مخالفت ایک کفر اور عظیم وبال ہے دوسرا جس کام پہ ساری امت مسلمہ کرے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرنا "۔[9] ان باتوں سے ظاہر ہوا کہ امت کا اجماعحجت ہے، یعنی جس طرح کتاب اللہ اورسنت رسول ﷺ میں بیان کردہ احکامات پر عمل کرنا اور ماننا لازم ہوجاتا ہے، بالکل اس طرح مسلمانوں کا جس چیز پر اتفاق ہوجائے اس چیز پر بھی عمل کرنا اور اس کو ماننالازم ہوجاتاہے اوراس کی مخالفت کرنا گناہ عظیم ہے ۔

حضرت امام شافعی ؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا امت کے اجماع واقع ہونے کی دلیل قرآن حکیم میں ہے ؟ آپ ؒ قرآن سے دلیل معلوم کرنے کی غرض سے تین دن تک قرآن حکیم میں غوروفکرکرتےرہے بالآخر مطلوبہ آیت ذہن میں آگئی، پھر اس آیت کو علماء کرام کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اجماع کی حجت پر قرآن مجید کی مذکورہ آیت والا دلیل صحیح ہے۔[10]قرآن مجید میں اللہ تعالی اور اس کےرسول ﷺکی اطاعت وفرمانبرداری کو لازم پکڑنے کے لئے کہا گیا ہے ۔

2 :"وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعَا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا"[11]

"اللہ تعالی کی رسی کو مظبوطی سے پکڑو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔"

3: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اللهَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ جفَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیءِ فَرُدُّوْہ اِلیٰ اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤُمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِذَالِکَ خَیْرُا وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلَا[12]

"اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ کی اورفرمانبرداری کرو رسول ﷺکی اور تم میں سے ختیار والوں کی، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کروتو اسےرجوع کرو اللہ کی طرف اوررسول ﷺ کی طرف اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور بااعتبار انجام کے بہت اچھا ہے ۔"[13]

4 : "وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ"۔[14]

"اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادیا ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہوجاؤ۔"۔

مذکورہ آیات کے اولین مخاطب اصحاب رسول ؓ ہیں اور "خیرامت"(بہتر امت) اور "امت وسط"(درمیانی امت) کے اجماع قابل اعتبار ماننا چاہیے؛ اور جہاں مسلمانوں کو آپس میں ایک جماعت پر رہنے کا حکم دیا گیا ہے وہاں جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے سے سخت وعید سنائی گئی ہے اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں :

5: وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاختَلَفُوْا مِنْ بَعَدِ مَاجَآءَهُمُ اَلْبَیِّنٰتُ[15]

ترجمہ:اورتم مت ہو ان لوگوں کو کی طرح جو متفرق ہوگئے اور اختلاف کرنےلگے بعد اس کے کہ پہنچ چکی انکو واضح نشانیاں۔[16]

اس آیت مبارکہ کے بارے میں مولانا محمد شفیع عثمانی ؒ اپنی تفسیر میں رقمطرازہیں کہ تفرق اور اختلاف نے پچھلی قوموں کو تباہ کر دیا ،ان سے عبرت حاصل کرو اور اپنے میں یہ مرض پیدا ہونے نہ دو ، آیت میں جس تفرق واختلاف کی مذمت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تفریق ہے جو دین کے اصول میں ہویا دین کے فروعی احکامات میں نفسانیت کے غلبہ کی وجہ سے ہو ، چنانچہ آیت میں یہ قید ہے کہ "احکام واضح آنے کہ بعد " اس امر پر واضح قرینہ ہے ، کیونکہ اصول دین سب پر واضح ہوتےہیں ، اور فروع بھی بعض ایسے واضح ہوتے ہیں کہ اگر نفسانیت نہ ہو تو اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی۔ [17]

احادیث کی روشنی میں اجماع کی اہمیت

حضرت معاویہ رضہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے کہا : میں نبی کریمﷺ کے ساتھ تھا ،آپ ﷺ نے فرمایا : "لایزال من أمتی أمة قائمة بأمر الله لا یضرهم من کذبهم ولا من خذلهم حتی یأتی أمر الله وهم علی ذالک۔"[18]

ترجمہ : میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گی ، اس کی مخالفت کرنے والے اور جھٹلانے والے انہیں کوئی نقصان نہیں دے سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر، یعنی قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔

ایک دوسری حدیث : حضرت عبداللہ ا بن عمر رضہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "إن اللّٰه لا یجتمع أمتی علی الضلالة[19]- اللہ تعالیٰ میری امت کوگمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضہ سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ ) کا فرمان ہے: "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ[20]

ترجمہ: جو چیز امت مسلمہ کےلوگوں کے پاس اچھی ہے وہ اللہ رب العزت کے پاس بھی اچھی ہے اور جو چیز امت مسلمہ کے لوگوں کے پاس بُری ہے وہ اللہ رب العزت کے پاس بھی بری ہے۔

امام شوکانی ؒ مذکورہ روایت کے متعلق فرماتے ہیں : "لا اعتبار بقول العوام فی الإجماع لاوفاقا ولا خلافا عند الجمهور لأنهم لیسوا من أهل النظر فی الشرعیات ولایفهمون الحجة ولایعقلون البرهان"

جمہور علماء فرماتے ہیں کہ عوام کی بات چاہے اس کے موافق ہو یا اسکے برعکس ہو،اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ شریعت کے احکام میں وہ اتنے زیادہ اہل نظر نہیں ہیں، کیونکہ وہ دلائل وبراہین کی حجت اورسمجھ بھی نہیں رکھتے۔[21]

الغرض وہی اجماع معتبر کہلائےگا جو مسلمان مجتہدین کے ذریعے ہو اور یہ کہ وہ تمام مجتہدین متفق ہوں اگر ایک،دو،تین مجتہدین بھی اختلاف کریں تو بھی اجماع منعقد نہیں ہوگا۔

اصحاب رسولﷺ کیروشنی میں اجماع کی اہمیت

نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر رضہ کو جب خلافت سپرد کی گئی تو ایک بوڑھی عورتآپ رضہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس عورت نے اپنے پوتے کی ملکیت میں سے اپنے لیے میراث مطالبہ کیا۔حضرت ابوبکر رضہ نے اسے کہا کہ " تمھارے لئے قرآن مجید میں کوئی حصہ موجود نہیں ہے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں بھی تمھارے حصے کے بارے میں مجھ تک کوئی روایت نہیں پہنچی ہے ۔تا ہم لوگوں سے پوچھ کر تمھیں جواب دوں گا" اس پر مغیرہ بن شعبہ رضہ نے فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ نے میرے سامنے اس طرح چھٹا حصہ دیا ہے(یعنی کہ اس حالت میں چھٹہ حصہ مقرر کیا ہے) ۔ اس پر ابوبکر صدیق رضہ نے مغیرہ بن شعبہ رضہ سے پوچھا : "تمھارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟" اس پر محمد بن مسلمہ رضہ نے مغیرہ بن شعبہ کی بیان کردہ روایت کی گواہی دی اور تصدیق فرمائی–اس کے بعد ابوبکرصدیق رضہ نے بھی آنحضرت ﷺ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے دادی کے لئے چھٹے حصے کا فیصلہ کردیا۔[22]

اجماع کی مثالیں

اجماع کی مثالیں درج ذیل بیان کیے جاتے ہیں۔

1: مسلمان عورت کا کسی غیرمسلم مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔

2: پھوپھی اور بھتیجی ، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت ایک نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا۔

3: مفتوحہ اراضی کو فاتحین دیگر اموال غنیمت کی طرح نہیں بانٹا جائے گا۔

4: اگر سگے بھائی بہن نہ ہوں تو باپ کی طرف سے بننے والے بھائی بہن کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔[23]

5: رسولاللہﷺنےصرف دو رات تراویح کی نماز باجماعت پڑھیں،اسکےبعدیہ فرماکرتراویح کی نماز پڑھنی چھوڑدی کہ مجھےاندیشہ ہےکہ کہیں یہ تمہارےاوپرفرض نہ کردی جائے ۔[24] ،پھرصحابہ کرامؓ کےمابین عملاًوقولاًاختلاف رہا۔پھرحضرت عمرؓکےزمانہ میں پورےرمضان پابندی کےساتھ باجماعت تراویح پرصحابہ کرام ؓکااجماع منعقدہوگیا۔

6:ایک مجلس کے دوراں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے سے ایک طلاق شمار ہو گی یاتین طلاق واقع ہو جائےگی، اس معاملہ میں بھی اصحاب رسول﷦ میں اختلاف رہا، پھرحضرت عمرؓ کےعہد خلافت میں اس پر اصحاب رسول ﷦ کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور علماء اس مسئلے پرمتفق طور پہ چلے آرہے ہیں کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینےسے تین ہی واقع ہوتی ہیں۔

7:اگرکوئی شخص کئی بارچوری کرےاورایک مرتبہ میں اسکا دایاں ہاتھ اوردوسری مرتبہ میں اسکا بایاں پیر کاٹا جاچکا ہو اور پھر تیسری اورچوتھی بارچوری کرےتواسکےہاتھ وپیر کاٹ کرسزادی جائےیاقطع کےعلاوہ دیگرکوئی ایسی سزادیجائے۔اس مسئلے میں اختلاف رہاہے۔اسکےبعدحضرت عمر﷦اورحضرت علی﷦ نےایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگااورصحابہ کرام﷦ نےاسپراتفاق کیا۔پس یہی سلسلہ جاری ہوگیا،اس سےبھی معلوم ہواکہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرامؓ کااجماع ہے۔

8:رسول اللہﷺسےنمازِجنازہ کی تکبیرات پانچ بھی منقول ہیں۔اورسات،نواورچاربھی اسی لیےصحابہ کرام کےمابین اسمیں بھی اختلاف رہاہے۔اسکےبعدحضرت عمر﷦نےصحابہ کوجمع کرکےفرمایاکہ تم صحابہ کی جماعت ہوکراختلاف کررہے ہو۔ تو تمہارے بعد آنےوالوںمیں کتناشدیداختلاف ہوگا۔پس غورفکرکرکےچارتکبیرات پرصحابہ کرام کااجماع ہوگیا۔

اجماع کی حجت

جمہور کے پاس اجماع بھی کتاب اللہ اور سنت رسول اکرم ﷺ کی طرح حجت ہے ، ان کے پاس اجماع کی حجت کے بارے میں جو دلائل و براہین ہیں ان دلائل میں سے چند حسب ذیل ہیں : (١) "يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنازعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ لآخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا۔"[25]

"اے ایمان والو! اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کرو اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرو، اور آپ میں جو حاکم ہے اس کی بھی ، پھر اگر کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ رب العزت اور اس کے پیغمبر کی طرف رجوع کرو، اگر آپ اللہ تبارک وتعالی پر اور قیامت کے روز پر ایمان رکھتے ہو ، یہ بہت بہتر ہے اور نتیجے کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے۔[26]

(2) "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔[27]

اور جس نے ہدایت کھل کر سامنے آجانے کے بعد رسول اکرم ﷺ کی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے کے سوائے کسی اورراستے کی پیروی کی تواسے ہم اسی طرف لے جائیں گے جدہر وہ خود گیا اور اس نے جانا چاہا اور اس کو جہنم میں داخل کر دیں گے جو بہت بری رہنے کی جگہ ہے۔

آیت بالا میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ( ﷺ) کی مخالفت اور مؤمنین کے راستے کے علاوہ دوسروں کے راستے کو اختیار کرنے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اور جس پر اللہ تبارک وتعالی وعید بیانسنائے وہ قطعی طور پر حرام ہوجاتی ہے، اسی طرح رسول اکرم ﷺکی مخالفت اور غیر سبیل مؤمنین(مؤمنین کے راستے کے علاوہ ) کی پیروی صحیح نہیں ہو گی پھر جب یہ دونوں حرام ہیں ۔تو ان کے برعکس یعنی رسول اکرمﷺ کی اتباع اور سبیل مؤمنین کی پیروی لازم ہوگی پھر مؤمنین کا اختیار کردہ راستے کانام اجماع ہے؛اس لئے اجماع کی پیروی سب پرلازم ہوثابت ہوگیا پھر اب جب اجماع کی پیرویلازم ہوگئی تواب اس کےحجت ہونے کا بھی ثبوت مل گیا، حضرت عمربن خطاب﷦، عبداللہ بن مسعود﷦، ابوسعید خدری﷦، انس بن مالک﷦ ، عبداللہ بن عمرو بن العاص﷦ ، ابوہریرہ عبداللہ بن صخر ﷦اور حذیفہ بن الیمان سے ایک روایت وارد ہے : "إن أمتی لا تجتمع علی الضلالة"[28]

بلاشبہ میری امت کسی بھی حال میں گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی۔

مغیرہ بن شعبہ رضہ سےروایت بیان ہوئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : "لَایَزَالُ مِنْ اُمَّتی طَائِفةُ ظَاهرِیْنَ عَلَی النَّاسِ حَتی یَاتِیَهُمْ اَمْرُالله الحق۔"

میری امت کی ایک جماعت دوسرے گروہوں پر غالب رہے گی، یہاں تک کہ "امراللہ " یعنی قیامت آجائے گی۔[29]

اسی طرح حضور انور ﷺ کا فرمان مبارک : "یدالله علی الجماعة"اللہ کی نصرت جماعت کے شامل حال ہوتی ہے۔

دوسری روایت میں آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: اتَّبَعُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ۔"[30]

ترجمہ: سواد اعظم (بڑی جماعت ) کی اتباع کرو ، کیونکہ جو لوگ جماعت سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں وہ جہنم میں ڈالے جائے گے۔

اجماع کی اہمیت اور صحابہ کرام

سرکار دو عالمﷺ کے وصال کے وقت پر سب سے پہلے اہم واقعہ ابوبکر صدیق رضہ کی امامت صغریٰ کو خلافت کبریٰ پر سارے صحابہ متفق ہیں ۔اور یہ اجماع ، اجماع صحابہ ہے ، اجماع کی دوسری صورت صحابہ کرام کی یہ ہے کہ ایک یا چند صحابہ نے کوئی فتویٰ دی اور سارے صحابہ نے اس مسئلے پر سکوت فرمائی ، پھر اس فتوی کے متعلق کوئی تردید نہ کی تو ایسا اجماع بھی حجت ہوگا اور بمنزلہ حدیث متواتر کے ہوگا۔ کیونکہ اگر حق کے خلاف ہوتا تو صحابہ کرام ؓخاموش نہیں رہ سکتے۔ اور ایسے اجماع کا انکاری گمراہ اور بدعتی ہے۔ جس طرح خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضہ نے نماز تراویح کے لئے جماعت معین فرمائی اور اس پر سب صحابہ نے سکوت کیا اس طرح حضرت علی المرتضی رضہ کے پیش کردہ مشورے سے شراب پینے والے آدمی کے لیئے اسی کوڑے کی حد بطور سزا متعین کی اور سب صحابہ نے اسے سکوت اختیار کیا ، حضرتصدیق اکبر رضہ نے قرآن مجید کو مصحف کی صورت میں جمع کروایا، منکرین زکواۃ سے جہاد کیا اور کسی بھی شخص نے ان کے حکم کی تردید نہیں کی ، خلیفہ ثالث عثمان ذوالنورین رضہ نے جمعہ کے دن پہلی آذان کے اضافے فرمائے اور لوگوں کو ایک قراءت پر جمع کیا، صحابہ نے خاموشی اختیار کی ، حضرت فاروق اعظم رضہ کی اجازت ملنے کےبعد تمیم داریؓ نے سب سے پہلے مسجد میں چراغ روشن کیا اور صحابہ خاموش رہے ۔ حضرت عثمان غنی رضہ نے مسجد نبوی کو پختہ بنایا اگرچہ صحابہ نے اعتراض کیا لیکن دلیل پیش کرنے پر سب نے خاموشی اختیار کی[31]، بغوی نے میمون بن مہران سےروایت کی ہے کہ ابو بکر صدیق رضہ کے سامنے جب مقدمات پیش کیے جاتے تھے تو وہ کتاب اللہ کے ذریعے ان کا فیصلہ فرماتے اگر ان کے متعلق کتاب اللہ میں کوئی واضح حکم نہیں ملتا تو وہ رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق حکم فرماتے لیکن اگر وہاں بھی کوئی مسئلہ نہ ملتا تو مسلمانوں کو جمع فرماتے اور ان سے معلوم کرتے کہ تمہیں ان کے متعلقاللہ کے رسولﷺ کی تو کوئی ایسی حدیث معلوم نہیں ؟ اصحاب رسول میں سےاگر کسی کو کوئی حدیث معلوم ہوتی تو وہ اسے بیان کرتا ، اور اگر مسئلے میں کوئی حدیث دستیاب نہ ہوتی تو علم رکھنے والے اصحاب رسول کو جمع فرماتے اور ان سے مشورہ فرماتے جب وہ کسی حکم پر اتفاق فرما لیتے تو وہ اس کے مطابق حکم فرماتے ۔ اس طرح حضرت فاروق اعظم رضہ کا بھی یہی طریقہ کار تھا جب انہیں کتاب وسنت میں کوئی مسئلہ نہ ملتا تو حضرت ابو بکر ؓکے فیصلے پر عمل فرماتے اور اگر حضرت ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی دستیاب نہ ہوتا تو علماء صحابہ کو جمع فرماتے اور ان کی متفق رائے کو معلوم کر کہ فیصلہ فرماتے جیسا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات پر اسی طرح تعین ہوا۔ شراب کی حد اسی کوڑے اسی طرح معین فرمائی ، حضرت فاروق اعظم رضہ دوسرے لوگوں کو بھی اسی کی ہدایت فرماتے حتی کہ حکم نامہ جو آپ نے قاضی شریح ؒ کو تحریر فرمایا تھا اس میں اصول فقہ کے یہ چاروں اصول بالترتیب درج ہیں جسے امام شعبی ؒ نے شریح سے ان الفاظ میں بیان کیے ہیں ۔ "شریح نے حضرت عمرفاروق رضہ کی دربار مین کچھ سوالات بھیجے ، حضرت عمر نے انھیں جواب لکھا کہ کتاب اللہ کے موافق فیصلے کردو اگر وہ مسئلہ اللہ کےکتاب میں نہ پایا جائے تو رسول اکرم ﷺ کی حدیث کے موافق فیصلہ کرو اگر وہ حکم اللہ کےکتاب میں بھی نہ پایا جاتا ہو اور نہ ہی سنت رسول میں مسئلہ پایا جاتا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا ہے اور اگر صالحین نے بھی کوئی فیصلہ نہ کیا ہو تو تیری مرضی ہے چاہے تو آگے بڑھ یعنی اپنی رائے سے اجتہاد کر اور چاہے پیچھے ہٹ جا یعنی کوئی فیصلہ نہ کر اور دوسروں پر چھوڑ دے اور میں تیرے لئے پیچھے ہٹنا زیادہ پسند کرتا ہوں اور تم پر سلام ہو۔ [32]

اجماع فقہائے کرام کی نظر میں

علامہ ابوبکر جصاص نے "فاجمعوا امركم وشركاءكم"[33] کے بارے میں فرمایا : "قد حکم الله تعالیٰ بصحة إجماعهم وثبوت حجة فی مواضع کثیرا من کتابه۔" اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں بہت سی جگہوں پر اجماع کے صحیح اور اس کی حجت ہونے کو ثابت کیا ہے ۔ [34]

علامہ آمدی نے "فاجمعوا امركم وشركاءكم"کے بارے میں اس طرح فرمایہ ہے : "إنه تعالیٰ نهی عن التفرق ومخالفة الإجماع تفرق فکان منها عني۔ ولا معنی لکون الإجماع حجة سواه النهی عن مخالفتة۔"[35]

اللہ تعالی نے تفرق وانتشار سے روکا اور ظاہر ہے کہ اجماع کی مخالفت تفرق ہے بس وہ ایسی چیز ہوگی جس سے روکا گیا ہے اور اجماع کا اسی کے سوائے کوئی معنی ٰنہیں جس کی مخالفت سے روکا گیا ہے۔

اجماع کی قسمیں

اجماع کی دو اقسام ذکر ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں ۔

1: اجماع صریحی/قولی، 2: اجماع سکوتی

1: اجماع صریحی : اس کا مطلب یہ ہے کہکسی بھی زمانے کےسارے مجتہد کسی مسئلے کے بارے میں اس طرح متفق ہوںجائےکہ وہ اسی کے متعلق صراحت سے اظہار کریں خواہ قول سے کریں یا افتاء سےکریں یا قضا سے کریں ۔ یہ اجماع بالاتفاق حجت ہے ۔

2: اجماع سکوتی : اسکا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں اگر کوئی مجتہد اپنی رائے پیش کرے اور پھر یہ مشہور ہو کر سارے مجتہد حضرات تک پہنچ جائے وہ سب بھی اس پر خاموشی اختیار فرمائیں ۔کوئی بھی صراحتاًانکار نہ کرے اور نہ ہی صاف طور پر اس کی حمایت یا تائید کریں ، مگر اس میں شرط یہ ہے کہان کے رائے کے اظہارمیں کوئی چیز مانع نہ ہو۔

اجماع سکوتی کے شرعی مقام ومرتبہ میں مختلف مکاتب فکر کی آراء

اجماع سکوتی کے شرعی مقام ومرتبہ میں امت کے علمائے کرام میں بھی اختلاف ہوتا ہے اس سلسلے میں علماء کے پانچ مکاتب فکرپائے جاتے ہیں جن کی آراء پیش کی جاتی ہے۔

پہلا مکتبہ فکر : امام شافعی،امام مالک ،امام باقلانی ،اور عیسیٰ بن ابان کا ہے، ان کے مطابق اجماع سکوتی خود تو اجماع نہیں ہے اور اس کو حجت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

دوسرا مکتبہ فکر : امام احمد ؒ اور دوسرے حنفی فقہائے کے مطابق اجماع سکوتی بھی صریح اجماع کی طرح ہےاور یہ حجت بھی ہے۔

تیسرا مکتبہ فکر : ابو علی الجبائی کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ کسی مجتہد کی کوئی رائے جب مشہور ہوجائے تو پھر دوسر علماء کی خاموشی کو اس دور میں اجماع نہیں کہا جائے گا ۔ ان کے فوت ہوجانے کے بعد اس مسئلے کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ علماء کرام نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کی تھی اس لیے اب ان کی یہ رائے سکوتی اجماع کے ضمن میں آجائےگی ، اس کا اہم سبب یہ ہے کہ جو لوگ صراحت سے اپنی رائے قیام فرما چکے ہوںوہ اس مباحثے کے تحت ایسے معاملات پر خوب مطالعہ وتحقیق کر چکے ہوتے ہیں ۔ مسئلہ کے تمام جزئیات ان کے سامنے آچکی ہوتی ہیں ، مگر جو لوگ خاموشی اختیار کرتے ہیں ان کی ایسی سکوت کو اجماع کی نسبت دینا درست نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ بھی تحقیق ومطالعہ کے مرحلے سے گذر رہے ہوں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہوں یا متردد ہوں اور وہ اپنی رائے کے اظہار کو اس وقت وہ مناسب تصور نہ کرتے ہوں اس لئے ان کی خاموشی کو سکوتی اجماع نہیں کہلایا جاسکتا۔

چوتھا مکتبہ فکر : ابن حاجب مالکی ،امام کرخی حنفی،ابوہاشم بن ابی علی اور علامہ آمدی کے مطابق اجماع کی ایسی قسم کو درحقیقت اجماع قرار نہیں دیا جاسکتا مگر اسے دلیل کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے۔

پانچواں مکتبہ فکر :ابن ابی ہریرہؓ کے نزدیک جن آدمیوں سے صریح اجماع کا صدور ہوا ہو اگر وہ لوگ حکومتی اختیار اور منصب رکھتے ہوں تو اس پر سکوت اختیار کرنے والوں کی طرف سے اجماع سکوتی منسوب نہیں کیاجاسکتا لیکن اگر صریح اجماع ان لوگوں کی طرف سے ہوجو حکومتی مناصب واختیار پر نہ ہو تو پھر اس کو اجماع ہی کہا جائے گا اور اسے دلیل کے طور پر حجت بھی تسلیم کیا جائےگا ۔ اس رائے کےضمن میں یہ بات بھی ہے کہ امت کے اجتماعی فیصلے ہر طرح کے خوف،ڈر لالچ، ترغیب وتحریص اور ترہیب سے الگ رہ کر کئے جائیں۔ [36]

اجتماعی فیصلوں کا اجماع جدیددورکے ذریعے تنسیخ : کیا کوئی مجتہدین کا نیا اجماع سابقہ/گذرے ہوئے اجماع کو منسوخ کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں اور ان دونوں کے بارے میں الگ آراء ہیں ۔

1 : اجماعی فیصلوں میں اختلاف

اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مجتہدین کسی مسئلہ پر اجماع منعقد کرلیں اور پھر وہی مجتہدین اپنا فیصلہ بدل کر اسی مسئلے پر نیا اجماعی فیصلہ کرلیں اس کے متعلق دو مکاتب فکر ہیں ۔

1: جمہور علماءئے کرام کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اجماع ایک ہی دفعہ منعقد ہوتا ہے اور حجت شرعیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔

2: دوسرے مکتب فکر کے کچھ علماء کا خیال ہے کہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ نئے اجماع کی ضرورت پیش آئے تو وہی مجتہدین کوئی نیا فیصلہ کرنے کامجاز ہیں ۔

2:نئے مجتہدین کے ذریعے اختلاف

اس کی وجہ بنتی ہے کہ کسی اجتماعی فیصلے کو کسی اورمجتہد نے اس زمانے میں منسوخ کیا ہو ، اس کی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔

(الف): پہلی صورت یہ ہے کہ مجتہدین کا کسی مسئلے پر اجماع ہوچکا ہو اور مجتہدین ہی کی ایک جماعت کسی مختلف رائے کا اعلان کرے یہ صورت جمہور علماء کے لئے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ایک وقت میں دو اجماع ممکن نہیں ہیں اور یہ بات اجماع کے بنیادی تصور سے متصادم ہے ، لہٰذا دوسرا اجماع باطل قرار پائے گا ۔ بعض علماء نے ایک درمیانی راستہ نکالا کہ موخرالذکر مجتہدین کوئی ایسی دلیل ملی ہو جو اول الذکرمجتہدین کی نظروں میں آنے سے رہ گئی ہو تو اس کی روشنی میں نیا اجماع بھی ممکن ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کےلئے اس طریقے کو سامنے رکھا جائے جو اجماع کے لئےبنایا گیا ہے ۔

(ب): اجماع کے منسوخ ہونے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مجتہدین کسی معاملہ پر اتفاق کرلیں، اس کے بعد آنے والے مجتہدین اس مسئلے کے متعلق کسی نئی رائے کا اظہار کریں اور سابقہ فیصلے کو تبدیل کیا جائے تو یہ صورتحال اسی طرح ممکن ہوسکتی ہے کہ سابقہ تاویلات کے مقابلہ میں نئی تاویلات کے ساتھ اجماع کیا جائے ۔[37]

اجماع کے مراتب :قوت وضعف اور یقین وظن کے اعتبار سے اجماع کے چار مراتب میں سے مراتب میں جو مختصرا مندرجہ ذیل ہیں :

1: کسی مسئلہ و واقعہ کے بارے میں صحابہ کا یہ کہہ کر اتفاق کرنا کہ تمام صحابہ اس پر متفق ہو گئے یہ اجماع عزیمت کے اعلیٰ قسم کا ہے ۔ یہ بمنزلہ قرآن مجید وحدیث کے ہے اکثر مشائخ حنفیہ کے نزدیک ایسے اجماع کا رد کرنا کفر ہے جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحابہ کا متفق ہوجانا۔

2:کسی مسئلہ پر صحابہ کرام کا اس طرح اتفاق کرناکہ بعض زبان سے اسے اس کی قبولیت کا اقرار کریں یا اس پر عمل کریں اور دوسرے خاموش رہیں اور اس قول یا عمل کو رد نہ کریں یہ اجماع رخصت (اجماع سکوتی) ہے۔ یہ حدیث متواتر کی طرح ہے بشرطیکہ یہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچے ، یہ پہلے قسم کے اجماع سے درجہ میں کم ہے ایسے اجماع کا منکر کافر نہیں ہے، بلکہ گمراہ کہلائےگا اس اجماع کی بنیاد قطعی دلیل پر ہوتی ہے،بعض علماء اصول کے نزدیک اگر اجماع سکوتی میں قرائن حال سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ سکوت کرنے والوں نے کسی قول سے اتفاق کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے تو اس کےانکار کرنے والا کافرہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ حضررت ابوبکر صدیق رضہ کے خلافت کے زمانے میں قبیلہ بنوتمیم اور غطفان نے زکواۃ دینے سے انکار کردیا ، ان کے انکار زکوات پر حضرت ابوبکر صدیق رضہ نے ان کے خلاف جہاد کرنے کا ارادہ کیا ، ابتدا میں لوگوں نے حضرت ابوبکر رضہ کی مخالفت کی لیکن بعد میں سب کا اتفاق ہوگیا اور جن لوگوں نے سکوت اختیار کیا وہ آپہ کے ساتھ متفق تھے کیونکہ جہاد میں صحابہ نے حضرت صدیق اکبر رضہ کا ساتھ دیا۔

3: صحابہ کے بعد تابعین وتبع تابعین کا کسی ایسے مسئلہ ،یں اجماع جس میں سلف نے کچھ نہیں کہا یہ اجماع بمنزلہ حدیث مشہور کے ہے یعنی اس سے صرف طمانیت حاصل ہوتی ہےیقین حاصل نہیں ہوتا بشرطیکہ اس میں صحابہ کا کوئی اختلاف نہ ہو۔ ایسے اجماع کا منکر صرف گمراہ ہے نہ کہ کافر۔

4: صحابہ یا تابعین کے اقوال میں سے کسی قول پر متاخرین کا اتفاق کرلینا اس کا حکم اخبار احاد کی مانند ہے ۔ یہ سب سے کم درجہ اجماع ہے اس سے مراد یہ ہے کہ صحابہ وتابعین کے زمانے میں کسی مسئلہ میں اتفاق ہو اور متاخرین ان اقوال میں سے کسی ایک قول پر متفق ہوجائیں ۔ اس کی حجت ظنی ہے اور اس قول پر عملکرنا لازم ہے یقین واجب نہیں ۔امام غزالی اور بعض احناف کے نزدیک اس پر عمل واجب نہیں۔ اہل اصول کے نزدیک ہر قسم کا اجماع رائے اور قیاس پر مقدم ہے کیونکہ یہ بمنزلہ خبر متواتر ، مشہور یا خبر واحد کے ہے اور حدیث کی ان تینوں قسموں کو رائے پر ترجیح ہے۔[38]

نتائج

اجماع احکام قوانین کا تیسرا ماخذ مانا جاتا ہے، آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد شریعت کے فروعی احکام کو حل کرنے کی نوعیت پہ امت مسلمہ کے تماممجتہدین متفق ہوجانے کا نام اجماع ہے، اجماع قابل حجت ہے اور اجماع کے لئے تمام مجتہدین کا متفق ہونا لازم ہے ورنہ اتفاق بغیر اجماع نہیں ہوسکتا، اجماع اس چیز پر کیا جائے گا جو قرآن و حدیث میں مذکور نہ ہو یا کسی نص میں ابہام ہو یا وہ نص تاویل کے قابل ہو۔ اجماع اجتہاد کے ذریعہ ہوتا ہے اگر کسی مجتہد کےکسی مسئلہ پر کئے ہوئے اجتہاد پر سارے مجتہدین متفق ہوجاتے ہیں تو وہ اجماع کی حیثیت پائے گا، اور ایسا اجماع اسی طرح قابل حجت ہے جس طرح قرآن اور سنت حجت ہے،اجماع کی کچھ صورتیں اس طرح ہیں کہ

1: مطلوبہ مسئلے پر متفق ہونے والے تمام افراد مجتہد ہوں ورنہ اجماع معتبر نہ ہوگا۔

2 : مجتہدین کے اتفاق سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ایک شہر والے یا ایک بستی کے علماء ہی کسی مسئلے پر جمع ہوں کیونکہ ایک کی مخالفت بھی اجماع کے منعقد ہونے میں رکاوٹ ہے۔

3 : تمام مجتہدین مسلمان ہوں ، یعنی کہ امت اسلامیہ کے مسلمان ہی تو مجتہد ہوسکتے ہیں نہ کہ غیر مسلم۔

4 : جب کسی مسئلے پر تمام مجتہد متفق ہو جائیں تو پھر ضروری ہے کہ اتفاقی فیصلہ عمل میں آجائے ۔ علاوہ ازیں یہ شرط نہیں ہے کہ تمام مجتہدین کی موت بھی اس اتفاق پر ہی ہو۔ [39]

5: اجماع کےلئے ضروری ہے کہ کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو ، نہ کہ طب ،ریاضی یا لغت سے متعلقہ کسی مسئلے پر ہو۔

6 : صرف وہ ہی اجماع قابل قبول ہوگا جو حضور انور ﷺ کیےوصال کے بعد ہواہو۔

7: اجماع کے لئے کسی شرعی دلیل کا ہونا بھی ضروری ہے ۔جس پر سب متفق ہوئے ہوں محض اپنی خواہش پر کیا جانے والا اجماع معتبر نہیں ہوگا۔­

 

حوالہ جات

  1. لاہوری، حافظ عمران ایوب ، فقہ الحدیث ، فقہ الحدیث پبلیکشنز لاہور، مطبوعہ حمید پرنٹر ،اجماع کی تعریف : ج:1، ص: 66، نعمانی کتب خانہ ، فروری 2004ع
  2. : ایضاً ، ص:67-
  3. : ڈاکٹر فاروق حسن، فن اصول فقہ کی تاریخ عہد رسالت سے عصر حاضر تک، دارالاشاعت،اکتوبر 2006، حصہ دوم،ص :757
  4. : ایضاً ،
  5. : المائدہ05:آیت:03
  6. : تبریزی ،محمد بن عبداللہ خطیب ، مشکواۃ المصابیح ،(اردو) ،مکتبہ اسلامیہ ، طباعت 2013ع ، حدیث 173، ج:1، ص:93
  7. : ایضاً ، ، حدیث :174، ج: 1،ص؛94
  8. : النساء 4، آیت 115
  9. عثمانی، محمد شفیع مفتی ، معارف القرآن: طبع : اول، ربیع الاول 1399ھ، فروری 1979ع ، ج: 02، ص: 546
  10. : ایضاً ، ص : 546،547،
  11. : آل عمران 3۔آیت 103
  12. : النساء :4، آیت 59،
  13. : ترجمہ: ابن کثیر حافظ ابوالفداء اسماعیل بن عمر ، تفسیر ابن کثیر،اردو مترجم: مولانا محمد جوناگڑھی ؒ ،مکتبہ قدوسیہ ، اشاعت :2006ع، سورۃ النساء 4، آیت 59، ص:623،
  14. : البقرۃ2، آیت :۱۴۳۔
  15. : آل عمران 4، آیت 105،
  16. : آل عمران 3، آیت 105، ترجمہ: معارف القرآن، ج:2،ص : 134،135-
  17. : ایضاً : ص:142،143
  18. : بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ، صحیح البخاری ، اردو مترجم: حافظ عبدالستار حماد،مکتبہ دارالسلام 1434ھ ، ج: 06، ص: 610 ، حدیث 7461-
  19. : مشکاۃ المصابیح ،(اردو) حدیث 173، ج:1، ص:93
  20. : حنبل امام احمد بن محمد ؒ،مسندِاحمد، حدیث نمبر:3600،ج 2،ص 513، مکتبہ رحمانیہ ،لٹل اسٹار پرنٹرز لاہور
  21. : فن اصول فقہ کی تاریخ ، حصہ دوم،ص:760،
  22. :عبدالقیوم مولانا ، فقہ حضرت ابوبکر ، معارف اسلامی منصورہ لاہور ، طابع : مکتبہ رشیدیہ جدید پریس لاہور،طبع اول، نومبر 1989، ص:48،
  23. : فقہ الحدیث، جلد اول،ص:67،
  24. : بخاری، الصحیح ،ج:1،ص152-
  25. : النساء 4، آیت 59۔
  26. : ابن کثیر ، تفسیر ابن کثیر، اردو مترجم مولانا جونا گڑھی ؒ ،ص :623-
  27. :النساء:04 ، آیت 115
  28. : مشکواۃ ، ، حدیث 173، ج:1، ص:94-
  29. :بخاری،الصحیح ،مترجم:سلفی داؤد راز (7459) کتاب التوحید،ج8،ص577 ،س:2004ع ،مرکزی جمیعت اہل حدیث ہند،
  30. : مشکواۃ ، حدیث :174، ج: 1،ص؛94
  31. : صدیقی حبیب الرحمٰن مولانا، اصول فقہ ، ص338،339
  32. :ایضاً ، ، ص: 324،325
  33. : یونس:10، آیت 71
  34. : فن اصول فقہ کی تاریخ، حصہ دوم، ص 759-
  35. : قرطبی، ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری، الجامع الاحکام القرآن ، ج:4،ص: 164 ، بیروت دارلفکر 1987ع
  36. : فن اصول فقہ کی تاریخ ،حصہ دوم، ص: 761،762
  37. :ایضاً ،، حصہ دوم، ص:763
  38. : ایضاً ، ج:2/ ص:763،764
  39. : فقہ الحدیث، جلد اول،ص:67
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...