Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 1 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

الدر المختار کا سندھ میں مطالعہ: ایک تحقیقی جائزہ |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060025806_487

Pages

1-19

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/9/6

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/9

Subjects

در مختار فقہ مخطوطات سندھ کتب سندھی رسائل طباعت مطبوعہ تحقیق

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

در مختار اور اس كے مؤلف كا مختصر تعارف

امام محمد بن عبد اللہ التمرتاشی (م1004ھ) کی کتاب"تنویر الابصار" کی شروحات میں اگر کسی شرح کو اللہ تعالی نے سب سے زیادہ مقبولیت سے نوازا ہے تو وہ امام محمد بن علی الحصکفی (1025ھ) کی کتاب"الدر المختار شرح تنویر الابصار" ہے۔یہ اس کی سب سے عظیم شرح ہےحتی کہ امام محمد امین ابن عابدین شامی (1198-1252ھ) " رد المحتار شرح الدر المختار" میں اس کی مقبولیت کا بارے فرماتے ہیں کہ: یہ ایسی کتاب ہے جو ملکوں میں اڑتے ہوئے اور سورج سے زیادہ دنیا میں مشہور ہوئی٬ یہاں تک کہ لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور سارے اسی کی طرف چل پڑے اور ایسا کیوں نہ ہو؟! جب کہ وہ مذہب (حنفی) میں سونے کے مثل ہے٬ اس نے سارے مسائل (اصول و فروع) کو بہترین انداز میں اپنے اندر ایسا سمویا ہے کہ کسی اور کتاب میں ایسا نہیں دیکھاگیا۔

اسی طرح صاحب در مختار نے بذات خود بھی کتاب کی بڑی تعریف کی ہے۔ یہ کتاب ہر دور میں بڑی کثرت سے ہر جگہ شائع ہوتی رہی ہے، اس وقت ہمارے سامنے جو نسخہ موجود ہے وہ دار الکتب العلمیہ، لبنان،بیروت کا ہے۔

صاحب کتاب کا مختصر تعارف

آپ کا نام: محمد بن علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمن الحصنی الاثری علاء الدین الحصکفی ہے۔ آپ شام میں فقہ حنفی کے مشہور مفتی تھے۔ آپ کی ولادت دمشق میں سن 1025ھ کو اور وفات 1088 ھ کو دمشق ہی میں ہوئی ہے۔

در مختار پر سندهی علماكی شروح وحواشی

ہماری معلومات کے مطابق اب تک"الدر المختار شرح تنویر الأبصار"کی سات (7) شروحات، حواشی اور تعلیقات سندھی علما نے تصنیف کی ہیں، ان میں سے کچھ موجود ہیں تو کچھ مفقود، آیئے! اب ان کی تفصیلات اور تجزیہ ذکر کرتے ہیں:

1۔ حاشیۃ قرۃ الأنظار علی الدر المختار، علامہ ابو الطیب سندھیؒ (م 1149ھ)

نام ونسب

قاضی، علامہ، محدث، فقیہ ابو الطیب محمد بن عبد القادر سندھی حنفی مدنی[1]۔

ولادت

آپؒ کی ولادت با سعادت سندھ میں ہوئی، لیکن کسی مصنف اور مورخ نے آپؒ کی تاریخ ولادت کا ذکر نہیں کیا۔

بچپن و تحصیل علوم

آپؒ کا بچپن سندھ میں گذرا، جہاں آپ نے اپنے دؤر کے علما سے علمی تحصیل کی، اس کے بعد سن 1120ھ میں آپؒ حرمین تشریف لے گئے، علامہ عبد الرحمن انصاریؒ فرماتے ہیں کہ: آپؒ بچپن ہی میں مدینہ منورہ آگئے تھے[2]۔ اورو ہاں پر حج و عمرہ کے احکامات ادا کئے، اس کے بعد مدینہ منورہ تشریف لائے[3]۔

آپ بڑے عالم، محقق اور مدقق فقیہ تھے۔ حرمین کے علما سے استفادہ کیا۔ آپ کا شیخ ابو الحسن سندھی کبیر سےمتعدد فقہی مسائل پر اختلاف چلتا رہتا تھا، شیخ محمد عابد سندھیؒ ( م1257 ھ) نے لکھا ہے کہ:شیخ ابو الحسنؒ حدیث پر عمل کیا کرتے تھے اور کوئی بات نہیں سنتے تھے جبکہ شیخ ابو الطیب حنفی مسلک کے تھے وہ اور کوئی بات نہیں سنتے تھے، تو بعض اوقات ان میں جب مناظرہ ہوجاتا تھا تو شیخ ابو الحسن سندھیؒ قوی دلائل سے شیخ ابو الطیب کو عاجز کردیتے تھے[4]۔

اساتذۃ

آپؒ کے اساتذہ میں سے جن تک رسائی ہوئی ہے وہ یہ ہیں:

1۔ شیخ حسن بن علی العجیمی۔

2۔ محمد سعید کوکنی قرشی نقشبندی

3۔ قاری علامہ شیخ احمد البنا الدمیاطی م1117ھ

علمائے حرمین سے تحصیل علمی مکمل کرنے کے بعد آپؒ آخر عمر تک مدینہ منورہ میں درس و تدریس میں مشغول ہوگئے، آپؒ سے سندھ اور حجاز مقدس میں بہت ساری مخلوق نے استفادہ کیا۔

تلامذۃ

آپ کے کچھ مشہور تلامذہ یہ ہیں:

1۔ شیخ ابو الخیر بن احمد بن ابو الغیث مغلبای حنفی (1115-1164ھ)[5]

2۔ محی الدین بن احمد بن ابو الغیث مغلبای حنفی (1120-1187ھ)[6]

3۔ شیخ خطیب عبد الرحمن بن عبد الکریم انصاری مدنی (1125-1195ھ)[7]

4۔ محمد آفندی بن علی آفندی بن ابراہیم زھری شروانی (1112-1179ھ)[8]

5۔ عبد اللہ بن ابراہیم بری (1083-1175ھ)، انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے استاد شیخ ابو الطیبؒ کے در مختار پر حاشیے(زیر بحث) کو لکھا تھا۔[9]

6۔ (خطیب) یوسف انصاری (1121-1177ھ)[10]

7۔ علامہ عبد الخالق بن زین مزجاجی [11]

8۔ شیخ اسماعیل بن محمد العجلونی 1162ھ[12]۔

قرة الأنظار حاشیه در المختار

اس حاشیے کا نام تراجم اعیان المدینہ کے مؤ ‏ لف نے (نظرۃ الأنظار ) لکھا ہے[13]۔

ڈاکٹر عبد القیوم سندھی حفظہ اللہ (پروفیسر دعوۃ فیکلٹی، ام القری یونیورسٹی، مکۃ مکرمۃ) نے اپنی پی ایچ ڈی تھیسز میں اس کا نام (قوة الأنظار) لکھا ہے[14]۔ لیکن پھر اپنی دوسری کتاب فھرس مخطوطات علماء السند میں (قرۃ) ہی ثابت کیا ہے[15]۔

شیخ سائد بکداش نےبھی اس کا نام قرة الأنظار لکھا ہے[16]۔

اس حاشیے کا ایک نسخہ مکتبہ محمودیہ مدینہ منورہ میں دو جلدوں میں موجود ہے۔ پہلی جلد 1131 کے نمبر سے 674 صفحات (337 ورق) پر مشتمل ہے، جبکہ دوسری جلد 1312 کے نمبر سے 704 صفحات(352 ورق) پر مشتمل ہے[17]۔

اس کا دوسرا نسخہ مکتبہ عبد اللہ بن عباس (طائف،سعودی عرب) کا ہے، غلاف پر وقف المرحوم محمد بن عبد القادر رحمہ اللہ لکھاہے۔طائف کے نسخہ کا عکس راقم کےپاس موجود ہے وللہ الحمد۔

شیخ محمد عابد سندھیؒ اپنی شاہکار فقہ حنفی کی کتاب "طوالع الانوار شرح الدر المختار" میں اس حاشیے سے استفادہ کر کے بار بار حوالے دیتے ہیں، جس سے اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے[18]۔

طائف کا نسخہ

پہلی جلد کی شروعات اس طرح ہے: (بسم الله الرحمن الرحيم وبه نستعين اللهم على ما نورت قلوبنا بنور الإيمان...)۔آخر اس طرح ہے: (باب الحقوق ، أي حقوقه كطريق... )۔

بلکل آخر میں یہ عبارت ہے: (بلغت مطالعته مع الشرح من أوله إلى هنا وأنا الفقير إلى الله زين العابدين بن الشيخ عمر عفي عنه) غلاف پر شیخ محمد عابد سندھیؒ کی مہربھی موجودہے، زین العابدین کی طرف سے لکھا ہے کہ اس نے یہ کتاب شیخ ابراھیم سندھی کے ہاں پڑھی ہے[19]۔

دوسری جلد کی شروعات اس طرح ہے: (السابع: وما يذكر في دعوى العقار... )۔ آخر اس طرح ہے: (الفروض المقدرة في القرآن نوعان ... ) خط نسخ ہے، تاریخ نسخ کا ذکر نہیں، نسخہ آخر سے ناقص ہے۔

باقی تصانیف

آپؒ کی تصانیف میں چھوٹے رسالےتو بہت ہیں،لیکن ان میں سے چند مشہور تصانیف کا ذکر کرتے ہیں:

  1. (حیاۃ المهجة وإیضاح الوحجة ) سنن ترمذی شریف کی شرح ۔
  2. رسالة جواب آخر فی مسألة حج البدل (حج بدل پر)
  3. رسالة فی ضبط قول النبیﷺ لسیدنا حذیفة رضی الله عنه
  4. شرح رسالة رحمة الله السندی فی وصیة الحج البدل وأفعاله
  5. النصوص الجلیلة القاضیة بعدم کراهیة من صلی الصبح بسبح اسم ربک الاعلی وهل اتاک حدیث الغاشیة

ان کے علاوہ بھی شیخؒ کے چھوٹے موٹے رسائل ہیں۔

اولاد

شیخ عبد الرحمن انصاریؒ فرماتے ہیں کہ:

انہوں نے اپنے پیچھے صرف 2 دو بیٹیاں چھوڑیں، جو بھی انتقال کر گئیں ہیں، جبکہ ان دونوں کی اب دو بیٹیان اس وقت موجود ہیں[20]۔

وفات

علامہ عبد الحی الحسنیؒ "معارف العوارف" میں آپؒ کی وفات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ( 900 ھ) کے کچھ سال بعد فوت ہوئے، جبکہ یہ بات علامہ لکھنویؒ سے سہو ہے[21]۔شیخ عبد الرحمن انصاریؒ نے ان کی تاریخ وفات 1145 لکھی ہے[22]۔اصل میں آپؒ کا انتقال مدینہ منورہ میں سن 1149ھ میں ہوا ہے۔

2۔ شیخ ابو الحسن سندھی (صغیر) 1187 ھ

نام ونسب

شیخ ابو الحسن غلام حسین بن محمد صادق نقشبندی ٹھٹوی سندھی۔ المعروف (ابو الحسن صغیر)[23]۔

ولادت

آپؒ سندھ کے علمی شہر ٹھٹہ میں سن 1125ھ میں پیدا ہوئے۔

بچپن و تحصیل علوم

آپؒ کا بچپن سندھ میں گذرا، وہیں ان کی نشو و نما ہوئی، اور اپنے والد ماجد سے علمی تحصیل کی جو کہ شیخ محمد معین ٹھٹویؒ کے شاگرد تھے۔ آپ کو "صغیر" اس لئے کہا جاتا ہے تاکہ آپ میں اور ابو الحسن محمد بن عبد الھادی سندھی (کبیر) میں فرق کیا جائے٬ کیوں کہ دونوں کی کنیت ایک جیسی ہے۔

آپؒ کا شمار بڑے محدثین میں ہوتا ہے۔اپنے شہر ٹھٹہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے گئے۔مدینۃ منورۃ میں آپؒ نے شیخ محمد حیات چاچڑ سندھیؒ سے اپنا تعلق جوڑ لیا اور آخر عمر تک ان سے علمی تحصیل کرتے رہے۔آپؒ بڑے اچھے ماہر خطاط تھے، ہر سال صحیح بخاری شریف اپنے ہاتھ سے خوبصورت انداز میں لکھ کر بیچتے تھے۔شیخ عبد الرحمن انصاری فرماتے ہیں کہ: وہ ہمارے ساتھی تھے، 1165ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور مسجد نبوی میں حدیث میں آپ سا کوئی ماہر نہ تھا، ہمیشہ مسجد نبوی میں رہتے تھے، یہاں تک آپ کے اسباق دن رات میں دس (10) تک پہنچتے تھے، اور آپؒ دنیاوی تجارت وغیرہ بھی کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کا شمار مدینہ منورہ کے امیروں میں ہو گیا، آپؒ نے کئی شادیاں کیں[24]۔

اساتذہ

1۔ محمد صادق سندھی (آپ کے والد ماجد)۔

2۔ شیخ محمد حیات سندھی

3۔ شیخ محمد ھاشم

4۔ شیخ نجم الدین عبد المعین سندھی

5۔ شیخ عبد الولی سورتی

تلامذہ

آپؒ مسجد نبوی میں اپنے استاد شیخ محمد حیات سندھیؒ کی وفات کے بعد ان کی مسند پر بیٹھ کر قال اللہ و قال الرسول ﷺ پڑھانے لگے،آپؒ کے چند شاگرد یہ ہیں:

1۔ سید ابو سعید بن محمد ضیاء الشریف حسنی بریلوی۔

2۔ شیخ امین الدین بن الحمید العلوی الکاکوری۔

3۔ شیخ نعمت اللہ سندھی

اولاد

شیخ عبد الرحمن انصاری فرماتے ہیں کہ: آپ نے اپنے پیچھے ایک بیٹا احمد چھوڑا، اور یہ احمد نیک صالح ہو کر بڑا ہوا، لیکن شکل اچھی نہیں تھی، جیسے اعضاء ٹوٹے ہوئے ہوں، قد کا چھوٹا، کمزور جسم تھا، اگر دور سے کوئی اس کو دیکھے تو سمجھے گا کہ لاٹھی چل کر آرہی ہے٬جبکہ سمجھداری اور عقلمندی میں اس سا کوئی نہ تھا، خاص طور پر دنیاوی معاملات میں، سمندر کے راستے مصرسے ہوتے ہوئے روم جا رہا تھا تو بحری بیڑے میں انتقال ہو گیا اور سمندر کے بیچ کہیں دفن کیا گیا، اس نے کوئی اولاد نہ چھوڑی[25]۔

حاشیہ سےمتعلق

اتنا تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آپؒ نے الدر المختار پر حاشیہ لکھا تھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اس حاشیہ کا نام معلوم ہے اور نہ اس کی موجودگی کا پتہ!

یہ بہت بڑے المیے کی بات ہے، در اصل سندھ کے علما کی بارہویں اور تیرہویں صدی ھجری کی علمی کاوشوں کا بڑا چرچا موجود ہے، عرب وعجم کی کوئی کتاب ہوگی جو سندھ کے علما کی تصانیف کے ذکر سے خالی ہو!لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے بعد سندھ میں تصنیف وتألیف کی طرف توجہ نہیں دیگئی الا ما شا اللہ٬ جس کی وجہ سے ایک تو وہ اس میدان میں پیچھے رہ گئے، لیکن اس سے بڑی اور تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ بڑی عظیم کتابیں مفقود ہو گئیں، ان میں شیخ ابو الحسن سندھی صغیر کا در مختار پر یہ حاشیہ بھی ہے۔تقریبا ہر مؤرخ نے اس حاشیے کا ذکر کیا ہے:

1۔ شیخ سائد بکداش فرماتے ہیں:علامہ محدث فقیہ شیخ ابو الحسن سندھی صغیر (1187) کا در مختار پر حاشیہ ہے[26]۔

2۔ شیخ محمد عابد سندھیؒ طوالع الأنوار کے باب صفۃ الصلاۃ میں ان کے حاشیے سے اقتباس لیتے ہیں[27]۔

3۔ علامۃ قاسمیؒ (المتانۃ) علامۃ جعفر بوبکانیؒ کے حواشی میں التحریر المختار رافعی سے شیخ ابو الحسن سندھی صغیر کے حاشیے کے اقتباسات دیتے ہیں[28]۔اکابر کی کتابیں پکار پکار کر شیخ ابو الحسن سندھی صغیر کے اس حاشیے کی دہائی دے رہی ہیں، لیکن! کاش!اس میراث کی حفاظت ہوئی ہوتی۔ اب بس یہ امید کی جا سکتی ہے کہ شاید اللہ کرے آگے آنے والے محققین کو یہ مخطوط مل جائے۔

باقی تصنیفات

  1. إجازة الشیخ أبی الحسن السندی الصغیر لتلمیذه جار الله بن عبد الرحیم الهندی۔ غیر مطبوع
  2. أربعون حدیثا- غیر مطبوع
  3. الإفاضة المدنیة فی الإرادة الجزئیة- مطبوع
  4. إنباء الأنباء فی حیاة الأنبیاء۔ مطبوع
  5. بهجة النظر علی شرح نخبة الفکر- مطبوع۔

وفات

آپؒ مدینۃ منورۃ میں جمعۃ المبارک کی رات رمضان المبارک کی 25 تاریخ سن 1187ھ کو انتقال کر گئے۔

3۔ رش الأنوار علی الدر المختار، مخدوم عبد الواحد سیوستانی (م 1224ھ)

نام ونسب

مخدوم عبد الواحد بن مخدوم قاضی دین محمد بن مخدوم مفتی عبد الواحد کبیر بن عبد الرحمن بن مولانا محمود سہروردی بن شیخ عیسی ثانی پاٹائی برھانپوری صدیقی[29]۔

ولادت

آپؒ کی ولادت با سعادت میاں نور محمد کلہوڑہ کے دؤر میں سن1150ھ بمطابق 1737ع میں سیہون شریف میں ہوئی[30]۔

بچپن و تحصیل علوم

آپؒ کے والد مخدوم دین محمد صدیقی نے پاٹ چھوڑ کر سیہون میں سکونت اختیار کی اور وہیں شادی کی٬جہاں ان کے دو بیٹےمخدوم عبد الواحد اور محمد حسن پیدا ہوئے، صوفی بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے گہرے دوست دو تھے، ایک: مخدوم محمد معین ٹھٹوی اور دوسرے:مخدوم دین محمدسیوھانی۔اس دور کے حاکم سندھ میاں نور محمدکلہوڑا کو ان پر بہت بھروسا تھا، ان کی طرف سے قضاء کے منصب پر فائز تھے اور وزیر مذہبی امور تھے۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی جب بھی سیہون جاتے تھے تو مخدوم دین محمد کے ہاں رہتے تھے۔آپؒ کے دادا مخدوم عبد الواحد کبیر سلطان اورنگزیب کے دؤر میں سیہون کے مفتی تھے۔آپؒ کے خاندان کا سلسلہ نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سیہون علما و فضلا کا مرکز تھا، بالخصوص مخدوم صاحب کا خاندان مکمل طور پر علم وعمل سے معمور تھا۔ابتداء میں اپنے والد صاحب کی نگرانی میں ان کی تربیت ہوتی رہی، آگے چل کر ٹالپروں کی طرف سے ایک خاص علائقے کے مفتی کے منصب پر فائزکیے گئے۔

آپؒ کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی، صدہا مسائل فقہ حنفی کی کتابیں سامنے رکھ کر اپنے اجتہاد سے حل کر لیا کرتے تھے، ان کے بے شمار فتاوی کو ان کے شاگرد مولوی محمد افضل جمع کرتے رہے، جو تین جلدوں پر ہے اور اس مجموعہ کا نام"جمع المسائل علی حسب النوازل" ہے۔ جو آج کل بیاض واحدی کے نام سے مشہور ہے، بیاض واحدی اب سندھی ادبی بورڈ کی طرف سے دو خوبصورت جلدوں میں چھپ کر آچکی ہے، اور اس کا سندھی ترجمہ بھی آچکا ہے۔ آپ کی فقاہت کی وجہ سے آپ کو"نعمان ثانی" کہا جاتاہے۔آپ کے دادا مخدوم عبد الواحد کبیر کی وجہ سے محمد احسان بھی کہا جاتا ہے۔آپؒ کی ظاہری علوم کے ساتھ باطنی علوم سے بھی بڑی چاہت تھی۔

اساتذہ

1۔ مخدوم دین محمد (آپؒ کے والد)

2۔ حضرت خواجہ صفی اللہ مجددی (1212ھ)

تلامذہ

1۔ محمد حسین سیوستانی

2۔ اخوند رازق ڈنو

3۔ میاں محمد امین خیرپوری

4۔ خلیفہ عبد الحکیم سیوستانی

5۔ مولانا محمد افضل

رش الأنوار

علامہ غلام مصطفی قاسمیؒ (ڈ ائریکٹر شا ہ ولی اللہ اکیڈ می، حیدر آباد) "المتانة"کے حاشیے پر بار بار "رش الأنوار" سے اقتباسات لیتے نظر آتے ہیں، آپؒ "المتانة فی المرمة عن الخزانة" کے مقدمے میں فرماتے ہیں: حواشی میں جو تعلیقات ہیں ان میں، میں نے اکثر سندھی علما کی تعلیقات سے استفادہ کیا ہے، ہاں اگر اس موقع پر کسی سندھی عالم کی تحریر نہیں ملی تو پھر دوسروں سے بھی استفادہ کیاہے۔۔۔ میں نے اس کتاب کے حاشیے میں مناسب جگہوں پر ان کو لگا دیا ہے، ان میں سے در مختار کا ایک قلمی نسخہ ہے جس پر حاشیہ رش الانوار کے اقتباسات لگے ہوئے ہیں، جو کہ نعمان ثانی مخدوم عبد الواحد سیوستانی کی تصنیف ہے، جس کو میں نے صاحب رش الانوار کے خاندان میں سے قاضی محمد مراد سندھی کے کتب خانے سے حاصل کیا[31]۔بیاض واحدی کے شروع میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے[32]۔ مخدوم فضل اللہ پاٹائیؒ (1290ھ) اپنے فتاوی میں بار بار رش الأنوار سے اقتباسات لے آتے ہیں، ایک جگہ فرماتے ہیں: (وفي رش الأنوار حاشية الدر المختار لجدنا السيوستاني النعماني الثاني رحمه ربه أن علم القلب عطف على الفقه...)[33]۔

اس حاشیے کے متعلق اپنے اکابرین سے بہت سنا تھا، خواہش تھی کہ اس کو حاصل کیا جائے، نیز ہماری یہ تحقیق بھی اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ حاشیے کو ڈہونڈا جائے، اور نہیں تو کم از کم اس کی وصف ہی مل جائے، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کی چھوٹی بڑی لائبریریز کو چھانتا رہا[34]۔

بالآخر "الرحیم" مشاہیر نمبر (شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد)میں اس کے بارے میں کچھ احوال ملا[35]۔تقریبا وہی احوال مقالات قاسمی میں بھی پڑھ چکا تھا[36]۔

بالآخر حضرت علامۃ مفتی عبد الوہاب چاچڑ مد ظلہ (روہڑی) کے پاس رش الأنوار کا ایک ناقص نسخہ مل گیا، اور الحمد للہ حضرت نے بڑی سخاوت کرتے ہوئے اس ناقص نسخے کی ایک کاپی کرنے کی اجازت دے دی، جس کی تفصیل یہ ہے:

نسخہ ناقص ہے، یعنی کتاب الطہارۃ سے کتاب النکاح کے باب الرضاع تک ہے۔شروعات اس طرح ہے:(بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله الأحد القديم الصمد الدائم ... أما بعد: فيقول العبد الفقير مخدوم عبد الواحد بن مخدوم دين محمد سيوستاني فلما كان الدر المختار شرح تنوير الأبصار معدن الفقه ... وسميتها بـرش الأنوار على الدر المختار وعلى ملهم الصواب أعتمد وأتوكل)آخر اس طرح ہے:(تزوج نفسها منه أي في الحكم فيما بينهما وبين الله تعالى ... أي لأن الحكم لم يتصل بهذه الشهادة)۔

خط نستعلیق ہے اور ٹوٹل اوراق کی تعداد 152 ہے یعنی کہ 304 صفحات ہیں۔ہر صفحے پر 23 سطر ہیں اور ہر سطر میں اوسط 20 لفظ ہیں۔مخطوط کا سائز 19*11.5 ہے۔

ابواب جو اس نسخے میں شامل ہیں

کتاب الطہارۃ۔ کتاب الصلاۃ۔کتاب الزکاۃ۔ کتاب الصوم۔ کتاب الحج۔ کتاب النکاح۔

غلاف پر مالکہ فقیر حکیم محمد مراد صدیقی لکھاہے۔

اور کتاب کے نام کے ساتھ لکھا ہے: مصنف کی کتاب لکھنے سے فراغت 1217ھ کو ہوئی۔ غلام رسول۔

باقی تصانیف

1۔ بیاض واحدی (تحریر المسائل علی حسب النوازل)۔ مطبوع

2۔ حاشیة الأشباه والنظائر۔

3۔ کشف الکامن فی علم الباطن۔ مطبوع

4۔ تهدید الغافر فی تعذیب الکافر۔ مطبوع

5۔ تیسیر القدیر فی أضحیة الفقیر۔ مطبوع۔

اولاد

آپؒ کو نرینہ اولاد نہ تھی، صرف تین بیٹیاں تھیں۔ جو سب کی سب علوم متداولہ فقہ، حدیث میں بڑی عالمہ اور فاضلہ تھیں۔ پاٹ اور سیہون کے مخدوم آپ کے بھائی محمد حسن کی اولاد ہیں۔

وفات

مخدوم صاحب کے 74 سال کی عمر میں ایک بڑی گانٹھ پیدا ہو گئی تھی اور اسی کی جراحی کے نتیجے میں ان کی وفات ہوئی۔رحلت کا واقعہ 14 رمضان 1224ھ میں ہوا۔ یاد رہے کہ سیوستانی رح پر مادر علمی سندہ یونیورسٹی جامشورو اور ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں سندھی، اردو اور عربی زبانوں میں پی ایچ ڈ یز ہو چکی ہیں۔

4۔ البحر الزخار، حمزۃ بن ابراہیم سند ھی

نام ونسب

شیخ حمزۃ بن شیخ ابراہیم بن شیخ فیض اللہ سندھی[37]۔

ولادت

آپؒ مدینۃ منورۃ میں پیدا ہوئے، آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کسی نے نہیں لکھا، لیکن (تراجم أعیان المدینة المنورة) میں لکھا ہے کہ یہ عالم (شیخ حمزۃ) آج (یعنی 1251ھ) میں یہاں مدینۃ میں موجود ہیں۔

کتاب کے محقق ڈ/محمد التونجی فرماتے ہیں کہ:اس کتاب میں جو سب سے آخری ترجمہ آیا ہے وہ سن 1251ھ کا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مصنف سن 1251ھ کے بعد تک زندہ رہے ہیں۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیخ حمزۃ تیرہویں صدی ھجری کے عالم ہیں اور اس سے ان کی ولادت کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ سن 1200ھ یا اس کے کچھ سال بعد پیدا ہوئے ہونگے[38]۔

بچپن و تحصیل علوم

"تراجم أعیان المدینة المنورة" میں ہے کہ: آپ کے والد شیخ ابراہیم سن 1140ھ میں اپنےوالد (شیخ فیض اللہ) کے ساتھ مدینۃ منورۃ تشریف لے آئے تھے، اور آپ (شیخ ابراہیم) جامع المعقول والمنقول اور سید المحققین والمدققین اور محرر الفروع والاصول تھے، جنہوں نے اپنے والد (شیخ فیض اللہ) سے بھی علمی تحصیل کی تھی، اور آپؒ کے دادا شیخ فیض اللہ بھی بڑے عالم، فاضل، فقیہ تھے ۔آپؒ کے دادا شیخ فیض اللہ سندھی مدینۃ منورۃ میں17 رجب سن 1208ھ کو فوت ہوئے[39]۔ اور آپ کے والد شیخ ابراہیم بھی مدینۃ منورۃ ہی میں سن 1192ھ میں فوت ہوئے[40]۔

آپؒ کی مدینۃ منورۃ ہی میں نشو نما ہوئی، اور وہیں علمی تحصیل کی، اور اپنے دور کے بڑے عالم فاضل بن کر ابھرے۔آپؒ فقہ حنفی کے بڑے عالم، فقیہ، فاضل اور منطق کے صف اول کے ماہر تھے۔

اساتذہ

1۔ شیخ ابراہیم فیض اللہ (آپ کے والد)

2۔ شیخ علی افندی شروانی

3۔ شیخ مصطفی رحمتی (صاحب حاشیة الرحمتی علی الدر المختار)

4۔ شیخ عثمان الحصری

5۔ شیخ عمر شحاتہ

تلامذہ

آپؒ کے تلامذہ کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں۔

البحر الزخار

سندھ کے اکثر کتب خانوں میں اس کتاب کو چھانا اور محققین کے مراجع سے بھی رجوع کیا لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا، بالآخر مسلسل تحقیق کرتے ہوئے کتاب (فہرس آل البیت) سے معلوم ہوا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ ترکی میں موجود ہے، اور اس کی دو جلدیں ہیں۔ اور اس میں البحر الزخار کو در مختار کی شروح میں شمار کیا گیا ہے۔

جلد اول= (4220) ف۔م۔ع۔ طوبقبو، سرای، استانبول 2/610۔

جلد دوم= (4221) ف۔م۔ع۔ طوبقبو، سرای، استانبول 2/611۔

استنبول کے کتب خانہ توپ کاپی میں اس مخطوط کی دو جلدیں موجود ہیں[41]۔مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس مخطوط کا ایک دوسرا نسخہ بھی ہے اور وہ دار الکتب القاہرۃ، مصر کے کتب خانے میں موجود ہے، دار الکتب القاہرۃ، (45 مجامیع) ف۔ دار الکتب 1/440[42]۔

تراجم اعیان المدینۃ میں فرماتے ہیں کہ: آج کل یہ عالم (شیخ حمزۃ) الدر المختار پر حاشیۃ لکھ رہے ہیں، لیکن حاشیۃ سے زیادہ در مختار کی مکمل شرح لگ رہی ہے، اور آج کل (باب شروط الصلاۃ) تک پہنچے ہیں، اور اگر وہ اس کو مکمل کرتے ہیں تو ان کے لکھنے کے انداز سے پتا چل رہا ہے کہ یہ کتاب کئی جلدوں میں آئیگی[43]۔ھدیۃ العارفین میں بھی کتاب شرح الدر المختار کو ان کی تصانیف میں شمار کیا ہے۔

باقی تصانیف

2۔ شرح الاظہار للبرکوی[44]

وفات

"هدیة العارفین" میں ان کی تاریخ وفات 1212ھ بتائی گئی ہے جو کہ غلط ہے، کیونکہ اوپر ہم ثابت کر چکے ہیں کہ مصنفؒ سن 1251ھ تک موجود تھے تو سن 1212ھ کو کیسے فوت ہو سکتے ہیں!

5۔ طوالع الأنوار شرح الدر المختار، شیخ محمد عابد سند ھی (1257 ھ)

نام و نسب

شیخ محمد عابد سندھیؒ (1190-1257ھ ) کا نام اوران کا نسب نامہ اس طرح ہے:

ابو عبد اللہ محمد عابد بن احمد علی بن محمد مراد بن حافظ محمد یعقوب الانصاری المدنی السندھی[45]۔

آپ ؒ 21 واسطوں سے سیدنا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جا کر ملتے ہیں۔

ولادت

آپؒ کی ولادت با سعادت ایک بہت بڑے دیندار اور علمی گھرانے اور برِ صغیر کے مشہور صوفی بزرگ حضرت(محمد عثمان مروندی) لعل شہباز قلندرؒ کے شہر سیہون شریف میں سن 1190ھ کے حدود میں ہوئی[46]۔

بچپن اور علوم کی تحصیل

آپؒ کا گھرانہ سندھ میں دینی اور علمی حوالے سے بہت معروف و مشہور تھا۔ ان کے والد شیخ احمد علیؒ (م1202ھ) بہت بڑے عالم تھے[47]، اوردادا شیخ محمد مراد انصاریؒ ( م1198ھ) مخدوم محمد ہاشم ٹھٹویؒ کے قابل قدر تلمیذ اور سندھ میں شیخ الاسلام کے نام سے مشہور تھے٬ آپ سندھ کے بڑے مقرر اور خطیب تھے[48] ۔ اور آپ کے چچاشیخ محمد حسین انصاری ؒ ( م1211ھ) علمی حوالے سے مرجع الخلائق تھے۔ایسی ہی شخصیات کے سایۂِ شفقت میں شیخ محمد عابد سندھیؒ نے پرورش پائی [49]۔ بچپن میں ہی اپنےوالد شیخ احمد علی، دادا شیخ الاسلام محمد مراد انصاری اور چچا محمد حسین اور پورے خاندان کے ساتھ سفر حجازمقدس پر روانہ ہوئے ، مکۃ المکرمۃ اور مدینۃ المنورۃ کے احکامات پورے کرنے کے بعد وہ جدہ میں مستقل رہائش پذیر ہوئے، جہاں پر حجاز مقدس کے والی، محمد علی پاشا کے وزیر، ریحانؒ نے ان کے علمی مقام کو دیکھتے ہوئے ان کے لئےایک مسجد اور ایک بڑا رِباط(سرائے،مسافر خانہ) اور ایک گھر بنوایا، جہاں شیخ نے ایک عظیم کتب خانہ بنوایا۔اس سرای کو شیخ الإسلام نے عوام کے لئے وقف کردیا۔ شیخ محمد عابد سندھیؒ اپنے والد، چچا اور دادا سے بچپن ہی سے علمی تحصیل کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے والد اور دادا کا وہیں جدہ میں انتقال ہوا، تو اس کے بعد اپنے چچا کے ساتھ یمن کا سفر اختیار کیا اور یہاں شیخؒ نے پورے 30 سال کا طویل قیام فرمایا[50]۔

اساتذہ

یوں تو شیخؒ نے کافی علما کرام سے استفادہ کیا، ان کو تحصیلِ علم سے کوئی بات روک نہ سکی٬ مختصر طور پر ان کے کچھ اساتذہ کرام کا تذکرہ کرتے ہیں:

1۔شیخ محمد حسین بن محمد مراد الانصاری السندھیؒ (آپ کے چچا) م1203ھ۔

2 شیخ ابو العباس احمد بن ادریس الحسنیؒ (1172-1253ھ)۔

3۔ شیخ محمد زمان (دوم) بن محبوب الصمد بن محمد زمان (اول) سندھیؒ م1247ھ۔

4۔ شیخ حسین بن علی المغربیؒ (مفتی المالکیة بمکة المکرمة) م 1228ھ۔

5۔ محمد بن علی الشوکانی (م1250ھ)

تلامذہ

یمن میں رہتے ہوئے شیخ محمد عابد ؒ نے یمن کے کافی شہروں اورقصبوں میں پڑھایا، اس کے علاوہ آپؒ مدینۂِ منورہ کے علما کے رئیس تھے، نیز آپ مسجد نبوی کے اہم اساتذہ میں سے تھے ،جن سے عوام اور طلباء کا جم غفیر استفادہ کیا کرتا تھا، آپؒ مسجد نبوی کے شیخ الحدیث تھے، بسا اوقات تو صحاح ستہ بغرض اجازت محض چھ ماہ میں مکمل کرواتے تھے، آپ ؒ حدیث شریف میں اپنی عالی سند پر اس طرح فخرفرمایا کرتے تھے: (میری طرح بننے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ میرے اور بخاری کے درمیان صرف نو واسطے ہیں)۔ آپؒ کے طلباء کی صحیح تعداد معلوم کرنا مشکل ہے ، اس کے باوجود آپ ؒ کے کچھ مشہور طلباء کے نام لکھتے ہیں:

1۔ شیخ ابراھیم بن محمد سعید المکی الحنفیؒ (1204- 1290ھ)۔

2۔ شیخ جمال بن عبد اللہ بن عمر المکیؒ ۔ مفتی الحنفیۃ بمکۃ المکرمۃ ۔ 1284ھ۔

3۔ شیخ لطف اللہ بن احمد بن لطف اللہ بن احمد الصنعانیؒ ۔ 1243ھ۔

4۔ شیخ ابو محمد علی ارتضی علی خان بن شیخ احمد مجتبی الھندیؒ ۔ 1270ھ۔

5۔ شیخ عبد الرحمن وجیہ الدین بن شیخ محمد حسینؒ (شیخ کا چچا زاد بھائی) وغیرہ۔

طوالع الأنوار شرح الدر المختار

یہ کتاب فقہ ِحنفی کی شاہکار کتاب ہے، اور مصنفؒ کی سب سے آخری تصنیف ہے، اس لئے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ کتاب آج تک دنیا کے سامنے اپنی 16 ضخیم جلدوں میں مخطوط کی شکل میں موجود ہے۔مادرِ علمی سندھ یونیورسٹی جامشورو نے اس پر تحقیق کا کام شروع کرایا ہے اور تکمیل کے بعد اسے چھپانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے کچھ ابواب پر تحقیق کر کے کچھ احباب نے سندھ یونیورسٹی جامشورو سے پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں، اور کچھ ابھی (بشمول راقم الحروف وللہ الحمد) تحقیق کر رہے ہیں جو کہ اپنی جگہ پربہت ہی عمدہ کام ہے اور اس کو جاری رکھنا بھی چاہیے، اب تک باب الطہارۃ سے باب الإمامہ تک کام ہو چکا ہے۔

طوالع الانوار مخطوط کے دو نسخے الحمد للہ ہمارے پاس عکس کی شکل میں موجود ہیں۔

ایک ازہری نسخہ ہے اور یہ مکتبۂِ ازہر شریف مصر کا ہے، یہ 16 جلدوں پر مشتمل ہے، اس کے تقریبا 9522 اوراق ہیں! یعنی اس کے دگنے عدد کے صفحات، اور ہر صفحہ پر 23 سطریں ہیں، اس کی چار لوگوں نے 1293ھ سے 1296ھ تک کتابت کی ہے اور وہ یہ ہیں: 1 - علی بن علی بن حسن الشرقاوی۔ 2 ۔ مصطفی أبو سنہ – 3 – یوسف زیادہ البغدادی۔ 4۔ عبدہ یوسف زیادہ۔

دوسرا نسخہ مکی ہے، اور اس کی صرف شروع کی ۲ جلدیں موجود ہیں، اس کو نسخۂِ مکتبۃ المولد الشریف بھی کہا جاتا ہے، جو کہ مکتبۂِ مکۃ المکرمۃ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے پہلے نسخے کے 484 اوراق ہیں اور دوسرے کے 487 اوراق ہیں، اس کے بھی ہر صفحہ پر 23 سطریں ہیں۔ خط واضح ہے، اس پر کوئی مقدمہ نہیں، اور کتاب الطہارہ سے ہی شروعات ہوتی ہے۔اور ویسا ہی ازہری نسخہ کا حال ہے۔ مکی نسخے کے ناسخ کا نام یا تاریخِ نسخ کا ذکر نہیں۔ ازہری نسخے کا خط فارسی ہے، اور مکی کا خطِ رقعہ ہے ، جو خوبصورت خط ہے۔

ان کے علاوہ دو (۲) اور نسخوں کی اطلاع ملی ہے ان میں ایک (لیڈن- ھالینڈ) کا نسخہ ہے، اور دوسرا ترکی کا نسخہ ہے۔ ترکی کے نسخے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مؤ ‏ لف شیخ محمد عابدسندھی کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اس نسخے کے پہلے چند صفحات کی راقم نے زیارت کی ہے٬ باقی دونوں نسخوں کو تفصیلا دیکھنے اور ان شا اللہ ان کے عکس حاصل کرنے کے بعد ان پر تفصیل سے بات ہوسکے گی۔

یہ کتاب فقہ حنفی کی مشہور و مستند کتاب در مختار کی مکمل، مفصل، اور مدقق شرح ہے، جس میں مصنف ؒ کسی مسئلہ کا ذکر کرنے کے بعد پہلے قرآن مجید، پھر احادیث مبارکہ اور پھر کتبِ فقہ سے استدلال کرنے کے بعد بقیہ فقہی مسالک سے مقارنہ کرنے کا عظیم کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔اس کتاب میں ایسے مصادر کا ذکر بھی ہے جو آجکل مفقود ہیں۔

"مسند الحجاز" میں ڈاکٹر عبد القیوم سندھی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: میں نے اپنے استاذ شیخ فاضل علامہ عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ: (اس کتاب کے ہوتے ہوئے کسی فقیہ کو حاشیۂِ ابن عابدین کی ضرورت نہیں پڑ سکتی)![51]

ہم نے خود حضرت علامہ ڈاکٹر محمد ادریس سومرو۔ کنڈیاروی۔ سے سنا ہے کہ علامہ غلام مصطفی قاسمیؒ (سابق ڈائریکٹر شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدرآباد،سندھ)ایک صدری روایت فرمایا کرتے تھے کہ: ابن عابدین شامی ؒ - صاحب رد المحتار -نے جب طوالع الأنوار کو دیکھا تو فرمانے لگے کہ : کاش میں اس کو پہلے دیکھ لیتا تو رد المحتار نہ لکھتا! ۔ اسی طرح بہت سے علمائے کرام نے اس کی بڑی تعریف لکھی ہے، جس کی تفصیل ہم یہاں ذکر نہیں کر سکتے[52]۔

باقی تصانیف

شیخؒ کی علوم قرآن،حدیث، صرف، نحو، طب وغیرہ میں اب تک ہمارے سامنے تقریبا چونتیس(34) کتابیں سامنے آئیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

  1. الأبحاث فی المسائل الثلاث ۔
  2. إلزام عساکر الإسلام بالاقتصار علی القلنسوة طاعةً للإمام۔
  3. تحریر فی عدم جواز الجمع بین الصلاتین فی السفر إلا الجمع الصوری والعرفاتی والمزدلفی۔
  4. تعیین/تغییر الراغب فی تجدید الوقف الخارب۔
  5. الحظ الأوفر لمن أطاق الصوم فی السفر۔ وغیرہ

6۔فوح الأزهار،مولانا ہدایت اللہ ہالائی

نام ونسب

مولانا ہدایت اللہ بن محمد حسن ہالائی

ولادت، بچپن اورتلامذہ

ان سب کے بارے میں کوئی معلومات نہیں مل سکی، لیکن اتنے شواہد ملے ہیں کہ وہ ہالا کے رہنے والے تھے۔

اساتذۃ

مولانا محمد ملوک

فوح الأزهار

فوح الأزهار کے بارے میں شروع میں زیادہ معلومات نہ مل سکی تھی، البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ اس نام سے کتاب لکی گئی تھی جس کے شواہد ایک سے زیادہ ہیں، مخدوم سلیم اللہ صدیقی صاحب خزینۃ المخطوطات میں رقمطراز ہیں:

فھرست مخطوطات مولوی ہدایت اللہ ہالائی

فوح الأزهار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار – تصنیف ہالائی (قلمی) جلد اول اور جلد دوم[53]۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ھدایت اللہ ہالائی کے نام سے سندھی عالم نے در مختار پر شرح لکھی تھی جس کا نام فوح الأزهار تھا۔

اس کے بعد وقتا فوقتا ہماری جستجو جاری رہی یہاں تک کہ سندھ کے حوالے سے لکھی گئی ایک پرانی کتاب سے نایاب اور قیمتی معلومات مل گئی، جس کی عرصے سے تلاش تھی۔

ہوا یوں کہ مرجع محققین حضرت مفتی ڈاکٹر محمد ادریس سومرہ کے ہاں ۔ قاسمیۃ لائبریری کنڈیارہ۔ میں ایک دفعہ کتاب گردی کرتے ہوئے سندھ کی ایک پرانی کتاب (سندھ کےدینی ادب کا کئٹلاگ) کو دیکھا تو اس کے مخطوطات کے حصے میں ص 10 پر علامۃ غلام مصطفی قاسمیؒ کی مخطوطات میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس کا ذکر مل گیا، اور وہ یوں ہے:

نمبر: 29۔مخطوط کا نام: فوح الأزهار۔ مؤلف: مولانا ھدایت اللہ ھالائی۔ فن: فقہ۔ زبان: عربی۔ خط: نستعلیق۔ تألیف کا سن: تخمینا 1320ھ

سائیز اوراق: فل اسکیپ۔ کیفیت: مولانا ہدایت اللہ ہالائی سندھی، عربی اور فارسی کے بڑے شاعر تھے، شاہ عبد اللطیف بھٹائی کا رسالہ فارسی میں نظم کیا۔یہ ان کی الدر المختار للحصکفی کی کتاب پر تعلیقات ہیں، جو انہوں نے مولانا محمد ملوک کے پاس الدر المختار پڑھتے ہوئے تألیف کی تھیں[54]۔

الحمد للہ ابتدائی طور پر یہ معلومات حوصلہ افزا تھیں۔کافی کتب کو چھاننے اور محققین سے رجوع کرنے کے باوجود مؤلفؒ کے بارے میں مزید کچھ معلوم نہ ہو سکا، لیکن ایک گوہر نایاب معلومات مولانا ڈاکٹر محمد ادریس سومرو حفظہ اللہ سے یہ ملی کہ انہوں نے فوح الأزھار علامۃ غلام مصطفی قاسمیؒ کے ذاتی کمرے میں دیکھی ہے۔ بس پھر ہمت کرکے محترم نظیر احمد قاسمی (فرزند ارجمند حضرت غلام مصطفی قاسمی) سے فون پر اس کتاب کے حوالے سے بات ہوئی٬ جنہوں نے ایسی کتاب ان کے پاس موجود ہونے کی تصدیق کی٬ پھر حیدر آباد کا سفر اختیار کر کے اس قیمتی خزانے کے حصول کے لئے نکل پڑا٬ کتاب چوں کہ مخطوط اور انتہائی زبون حال میں تھی اس لئے اس کی فوٹو کاپی عکس حاصل تو نہ کر سکا٬ البتہ قراء حضرات کے سامنے اس کی وصف پیش خدمت ہے:

کاتب کا نام اور سن کتابت کا ذکر نہیں،زبان: عربی، فن: فقہ، خط: نستعلیق، تقطیع: 21*32، ورق: 115۔ ہر صفحے پر اوسط 31 سطر۔ پہلے صفحے پر کتاب کی فہرست اس طرح سے شروع ہے: فهرست الجزء الأول من التعلیق المسمی بفوح الأزهار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار۔ پہلی جلد کی شروعات ہی کتاب البیوع سے شروع ہوتی ہے اور کتاب پر واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ یہ پہلی جلد ہے٬ اس سے ایک تو یقینی بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ اس کی دوسری جلد بھی ضرور ہوگی٬ لیکن جو غیر یقینی بات سامنی آتی ہے وہ یہ ہے کہ آیا دوسری جلد بھی کتاب المعاملات کا ہی تسلسل ہوگی یا پھر وہ عبادات پر مشتمل ہوگی۔ کتاب کی شروعات: (بسم الله الرحمن الرحيم إن أبهر أقمار التعريفات طلعت من مطالع سمت شكر اللسان... أما بعد: فيقول العبد العاصي المذنب راجي رحمة الله المدعو بـهدايت الله بن محمد حسن الهالائي إن هذا شرح...).

آخر اس طرح ہے: (والمبسوط والهندية والخانية والخلاصة والبزازية وغيرها فتدبر وقد نظمت ذلك فاحفظه وهو هذا:

فما يمنع رجوع النقص اسمع هو للأشياء اسمع ثم اقنع

تمكثه على رد المبيع فلا يرجع بامساك المنيع

وإن قد امتنع من قبله لا ولو من غيره يرجع فهذا

كذا وصل العوض من ذي الوف كذا ظهر الرضا بعد الوقوف

ولو قبض العلم ينظر بصدق فإن خرج السلع لا دون عتق

كذا لو أسقط التخيير يحكم كما لو أبرأ الشاري فيكرم

اس کے بعد منظوم کے تقریبا پندرہ (15) ابیات ہیں جو مدہم پڑ گئے ہیں۔

باقی تصانیف

1۔ ترجمہ فارسی رسالہ شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ

تاریخ وفات: تخمینا 1320 ھ

7۔حل المشکلات حاشیة علی الدر المختار، مخدوم عبد الکریم متعلوی رح (م1265ھ)[55]

نام ونسب

علامۃ، فقیہ، مخدوم عبد الکریم بن مخدوم عثمان بن عبد اللہ عرف لارو بن یعقوب مٹیاروی۔

ولادت: 1200 ھ مٹیاری،سندھ۔

بچپن و تحصیل علوم

مخدوم عبد الکریم کی پرورش ایک دیندار اور عالم گہرانے میں ہوئی٬ آپ کے والد مخدوم عثمان بارہویں صدی ہجری کے آخر اور تیرہویں صدی کے شروع کے ایک جید عالم دین تھے٬ علم حدیث کی بڑی خدمت کی٬ 296 ابواب پر مشتمل مشکاۃ شریف سے احادیث منتخب کر کے ان کی شرح بنام "بیان معانی أحادیث منتخبة از مشکاۃ المصابیح" ہفتہ 29 ذی الحجۃ 1200ھ میں مکمل کی۔ پیر 23 شوال سن 1217ھ میں اپنے ہاتھ سےلکھا ہوا صحیح بخاری شریف کا نصف سے زیادہ متن موجود ہے٬ جس کے حاشیے پر مخدوم محمد اکرم نصرپوری کی شرح نقل کی ہے۔ مخدوم عثمان نے شمائل ترمذی کا فارسی ترجمہ کیا۔ درس و تدریس اور تالیف و تصنیف ان کے فتاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے وقت کے وسیع النظر محقق روشن خیال عالم تھے۔علامہ مخدوم عبد الکریم کی تعلیم وتربیت ایسی ہستی کے سایہ شفقت میں ہوئی اور جمعہ 20 ذوالحج سن 1219ھ کو جب مخدوم عثمان کی وفات ہوئی تو آپ کے بیٹے مخدوم عبد الکریم ہی آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔حضرت علامۃ غلام مصطفی قاسمیرح نے مخدوم عبد الکریم مٹیارویرح کو سندھ کا آخری محدث لکھا ہے۔

اساتذہ

1۔ مخدوم عثمان مٹیاروی ( آپ کے والد ماجد) فی الحال ان کے علاوہ کسی دوسرے استاد کا پتہ نہیں چل سکا۔

تلامذۃ

1۔ میان محمد یوسف کنیاروی (1277ھ)

2۔ حافظ عبد الباقی مٹیاروی

3۔ قاضی عبد الرحیم ٹھٹوی۔

4۔ سید علی محمد شاھ دائرائی (1287ھ)

5۔ مولانا محمد عیسی ساند ٹہارو شاہی نوشہروی (علامۃ شوکانی رح کے شاگرد)

مکۃ مکرمۃ کی طرف ہجرت

جب محرم 1259ھ میں سندھ پر انگریزوں نے غاصبانہ قبضہ کیا تو یہ محب وطن اور خوددار عالم دین نے غلامی میں رہنا گوارا نہ کیا اور بڑھاپے کی وجہ سے جہاد کی طاقت بھی نہ رکھنے کے باعث فورا ہجرت کر کے مکۃ مکرمۃ چلے گئے٬ ہجرت میں آپ کے اہل وعیال کے ساتھ آپ کے شاگرد رشید مولانا محمد عیسی بھی تھے۔ یہ وہی محمد عیسی ہیں جو مخدوم عبد الکریم کی جب مکہ مکرمہ میں وفات ہوئی تو ان کے اہل وعیال مولانا محمد عیسی کے ساتھ مٹیاری واپس آئے تھے، اور انھی مولانا محمد عیسی کا بیٹا مولانا فیض الکریم اپنے رسالے تحقیق الخلافۃ سے مشہور ہوئے۔

حل المشکلات حاشیة علی الدر المختار

سن 1219ھ سے لے کر سن 1259ھ کے 40 سالوں کے دوران مخدوم عبد الکریم سندھ کے چند محققین اور رہبر علما میں سے تھے، (حل المشکلات علی الدر المختار) کے نام سے در مختار کتاب پر حاشیۃ لکھا، لیکن افسوس کہ اس حاشیے کے متعلق مزید کوئی معلومات بہت کوشش اور ڈہونڈنے کے باوجود حاصل نہ ہو سکی ہے۔

باقی تصانیف

1۔ بیاض (فتاوی کریمیۃ)

2۔ فرائد الأحکام شرح فرائض الإسلام از مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی۔

3۔ فتوی دار الحرب، معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی فتوی ہے جس کا آنے والی سطور میں ڈ اکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے ذکر کیا ہے اور شاید اسی فتوی کی بناء پر آپ نے مکۃ مکرمۃ ہجرت کی اور شاید یہ وہی فتوی ہے جو آپ نے مدینۃ منورۃ شیخ محمد عابد کو ارسال کی تھی جس کی شیخ محمد عابد سندھی نے تائید بھی کی تھی۔

ہمعصر:

1۔ حافظ مسعود چوٹیاروی۔

2۔ مخدوم محمد بختیارپوری۔

3۔ مخدوم ابراہیم ٹھٹوی۔

4۔ مخدوم محمد عارف سیوستانی۔

5۔ شیخ محمد عابد سندھی (مدنی) ٬ آخری دونوں بزرگوں سے آپ کی خط و کتابت بھی ہوتی ۔

6۔ مولانا عبد الغنی کڈ ہر والے۔

7۔ قاضی یار محمد کوٹڑی والے۔

8۔ مخدوم عبد الکریم ٹھٹوی۔

9۔ میر حسن علی۔

10۔ قاضی میان عبد الرحیم۔

11۔ میان محمد صدیق

12۔ دلخوش، مشہور فارسی شاعر اور غالب کا معاصر۔

نتیجہ

ہماری تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ سندھ کے علما نے ہر میدا ن میں اپنا لوہا منوایا ہے، امید ہے کہ ہماری یہ تحقیق آنے والے محققین کے لئے کافی مددگار اور بنیادی ثابت ہوگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اکابرین کی مفقود کتابوں کا پتہ لگائیں جو دنیا میں ضرور کہیں نہ کہیں کسی کونے یا لائبریریز میں موجود ہونگی، اور ان کی جدید انداز سے ایڈیٹنگ اور تحقیق کرکے دنیا کے سامنے لائیں۔

 

حوالہ جات

  1. : دیکھیئے: مؤلف مجہول، تراجم اعیان المدینۃ المنورۃ ص 78، تحقیق: ڈ/محمد التونجی، دار الشروق، جدۃ، ط1، 1984- السندھی، عبد القیوم، ڈاکٹر: الامام أبو الحسن السندھی الکبیر، پی ایچ ڈی تھیسز، ص 285، غیر مطبوع- الحسنی، عبد الحی، نزھۃ الخواطر ص 6/689، دار ابن حزم، ط1، 1999، بکداش، سائد، الفقیہ المحدث محمد عابد السندی ص 383-384۔
  2. : الانصاری، عبد الرحمن، تحفۃ المحبین والاصحاب فی معرفۃ ما للمدنیین من الانساب، ص 79۔
  3. : مولف مجہول، تراجم اعیان المدینہ المنورہ فی القرن الثانی عشر الھجری، ص 78، تحقیق: التونجی، محمد، ڈاکٹر، دار الشروق جدہ، ط1، 1984۔
  4. : السندھی، محمد عابد، جزٔ تراجم شیوخ محد عابد السندھی، ص 16 مخطوط۔
  5. : مؤلف مجہول، تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 80
  6. : تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 81
  7. : تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 54، الزرکلی، خیر الدین بن محمود، الاعلام 3/311، الحسینی، محمد خلیل، سلک الدرر 2/303، دار البشائر الاسلامیۃ ، بیروت1988۔
  8. : تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 19-20، سلک الدرر 4/66-67
  9. : تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 38، سلک الدرر 3/82
  10. : تراجم اعیان المدینہ المنورہ ص 52-53
  11. : الحسینی، محمد خلیل، سلک الدرر 4/247، الحسنی، عبد الحی، نزھۃ الخواطر 6/14، دار ابن حزم1999
  12. : ان کو شیخ ابو الطیب نے حدیث میں اجازت بھی دی تھی، مکمل اجازت دیکھئے: العجلونی، اسماعیل بن محمد، حلیۃ اھل الفضل والکمال باتصال الاسانید بکمل الرجال ص127، دار الفتح، اردن، ط1- 2009
  13. : تراجم اعیان المدینۃ المنورۃ ص 78۔
  14. : السندھی، عبد القیوم، ڈاکٹر، الشیخ ابو الحسن الکبیر، پی ایچ ڈی تھیسز، ص 287
  15. : السندھی، عبد القیوم، ڈاکٹر، فھرس مخطوطات علماء السند فی مکتبات الحرمین ص 68
  16. : بکداش، سائد، الامام الفقیہ الشیخ محمد عابد السندی، ص 383-384، دار البشائر الاسلامیۃ بیروت، ط1-1424ھ۔
  17. : ایضا
  18. : مثال کے طور پر دیکھئے: سندھی، شیخ محمد عابد، طوالع الانوار شرح الدر المختار ، باب صفۃ الصلاۃ، 743/ب وغیرہ۔
  19. : فھرس مخطوطات علماء السند فی مکتبات الحرمین ص 68-69
  20. : الانصاری، عبد الرحمن، تحفۃ المحبین والاخوان ص 79
  21. : لکھنوی، معارف العوارف فی انواع العلوم والمعارف (الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند) ص 152، ط2-مجمع اللغۃ العربیۃ دمشق 1983۔
  22. : الانصاری، عبد الرحمن، تحفۃ المحبین والاصحاب، ص 79
  23. : آپؒ کےترجمہ کیلئے مزید دیکھئے: تراجم اعیان المدیمہ المنورہ ص 59- عبد القیوم سندھی، ڈاکٹر، پی ایچ ڈی تھیسز ص 59-60- نزھۃ الخواطر 6/685- سائد بکداش ص 385، زرکلی، الاعلام 6/160- تراجم شیوخ محمد عابد ص 28/ب، مخطوط- معجم المؤلفین: 10/76- علی شیر قانع، تحفۃ الکرام 3/236، قاسمی، غلام مصطفی، مقدمہ بھجۃ النظر ص 5-6
  24. : الانصاری، عبد الرحمن، تحفۃ المحبین والاصحاب فی معرفۃ ما للمدنیین من الانساب، ص 287
  25. : الانصاری، عبد الرحمن، تحفۃ المحبین والاصحاب ص 287
  26. : بکداش، سائد، الشیخ محمد عابد، ص385
  27. : مثال کے طور پر دیکھیں: شیخ محمد عابد سندھی، طوالع الانوار شرح الدر المختار ص 610/أ۔ 610/ب۔ 653/ب۔
  28. : بوبکانی، علامہ جعفر، المتانۃ فی المرمۃ عن الخزانۃ ص 59، 163، سندھی ادبی بورڈ، ط1، 1962۔
  29. : آپؒ کا مزید ترجمہ دیکھیں: وفائی، دین محمد، مولانا: تذکرہ مشاہیر سندھ 1/191-199، سندھی ادبی بورڈ ط1، 1991- سیوستانی، عبد الواحد، مخدوم: رسائل سیوستانی، تحقیق: مخدوم سلیم اللہ صدیقی، ص 8-12- الرحیم، مشاہیر نمبر عدد 3-4، سن 1967ع شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر آباد ص 5-9-
  30. : سیوستانی، عبد الواحد، مخدوم، رسائل سیوستانی ص 11، سندھی ادبی بورڈ حیدر آباد ط1، 2008
  31. : بوبکانی، جعفر، مخدوم، مقدمۃ المتانۃ فی المرمۃ عن الخزانۃ قاسمی، ص 49، سندھی ادبی بورڈ، ط1، 1962ع۔
  32. : سیوستانی، عبد الواحد، مخدوم: بیاض واحدی، مقدمہ، سندھی ادبی بورڈ حدر آباد 2006
  33. : پاٹائی، فضل اللہ، مخدوم: فتاوی ص 149 مخطوط
  34. : خاص طور پرقاسمیۃ لائبریری کنڈیارو، مولانا عبد الوہاب چاچڑ لائبریری روہڑی، مکتبۃ فہیمیۃ لاڑکانہ اور سیرت لائبریری شہدادکوٹ۔
  35. : دیکھیں: الرحیم مشاہیر نمبر عدد 3-4 ، ص 6-7، سن 1967
  36. : دیکھیں: قاسمی، غلام مصطفی، مقالات قاسمی، ص 363۔ ط1، 2000 ع
  37. : آپؒ کے ترجمہ کیلئے مزید دیکھیں: تراجم اعیان المدینۃ المنورۃ ص 84،
  38. : مقدمہ کتاب تراجم اعیان المدینۃ المنورۃ ص 7
  39. : تراجم اعیان المدینۃ ص 111
  40. : تراجم اعیان المدینۃ ص 83
  41. : دیکھیں: فھرس آل البیت 26/1۔ المجمع الملکی لبحوث الحضارۃ الاسلامیۃ٬ عمان٬ اردن ٬ ط2۔ سن 1994ع۔
  42. : فہرس آل البیت 76/38۔ المجمع الملکی لبحوث الحضارۃ الاسلامیۃ٬ عمان٬ اردن ٬ ط2۔ سن 1994ع۔
  43. : تراجم اعیان المدینۃ المنورۃ ص 84
  44. : البغدادی، اسماعیل بن محمد، ھدیۃٰ العارفین 1/338، وکالۃ المعارف استانبول 1951، اعادۃ طبع، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  45. : آپ کے ترجمہ کیلئے مزید دیکھئے: الشوکانی، محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع: ج2 ص 227، دار المعرفۃ بیروت، رقم 485، اور: الزرکلی، خیر الدین بن محمود، الأعلام: ج 6، ص 179، دار العلم للملایین ط 15، 2002، اللکھنوی، عبد الحی بن فخر الدین، نزہۃ الخواطر: 7/1096، دار ابن حزم، ط1، 1999۔
  46. : الشوکانی، محمد بن علی، البدر الطالع: ج 2/227
  47. : البدر الطالع: 2/227، اور : السندی، محمد عابد، تراجم مشائخ محمد عابد: ص 69 مخطوط، اسی طرح شیخ سندھی ؒ خوداکثر تصانیف میں اپنے نام کے بعد اپنے والد صاحب کو (الشیخ أحمد علی) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔۔
  48. : اللکھنوی، عبد الحی بن فخر الدین، نزھۃ الخواطر: 7/1096، اور : البدر الطالع: 2/227۔
  49. : السندی محمد عابد، تراجم مشائخ محمد عابد: ص 69 مخطوط، نزھۃ الخواطر: 7/1096۔
  50. : السندی، عبد القیوم بن عبد الغفور، ڈاکٹر، مسند الحجازورئیس علماء المدینہ، الإمام محمد عابد السندی الأنصاری، : مجلہ الدراسات الإسلامیۃ، اسلام آباد، شمارہ 36 ، مارچ 2001، ص 16-18۔
  51. : السندھی، عبد القیوم، ڈاکٹر، مسند الحجاز ص 65، مجلہ الدراسات الإسلامیۃ، اسلام آباد، شمارہ 36 ، مارچ 2001، ص 16-18
  52. مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: الترھتی، محمد بن یحیی ، الیانع الجنی فی اسانید الشیخ عبد الغنی، ، مخطوط ص 72، نزھہ الخواطر 7/489 وغیرہ۔
  53. : صدیقی، سلیم اللہ، مخدوم، خزینۃ المخطوطات 1/473، سندھی ادبی بورڈ، ط1، 2006ع
  54. : سندھ جی دینی ادب جو کئٹلاگ، مخطوطات علامۃ قاسمیؒ، ص 10، انسٹیٹیوٹ آف سندھالاجی، جامشورو 1971ع۔
  55. : ہمارے اس مقالے میں مخدوم عبد الکریم متعلوی مٹیاروی رح کے احوال لئے گئے ہیں: دائرائی،علی محمد شاہ،سید: مصلح المفتاح، کا مقدمہ از: بلوچ، نبی بخش،ڈ اکٹر، ناشر: انسٹیٹیوٹ آف سندھ الاجی٬ یونیورسٹی آف سندھ، جامشورو٬ ط1۔ 1970ع۔ اور: قاسمی٬ غلام مصطفی، علامۃ،الرحیم مشاہیر نمبر،کتاب 11 اور 12۔ اور: وفائی،دین محمد، مولانا، تذکرۃ مشاہیر سندھ، جلد ۱۔ ص 145-147۔ سندھی ادبی بورڈ ، جامشورو۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...