Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 2 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

عصر حاضر میں قرض بیچنے کی اقسام اور اس کی شرعی حیثیت |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060025806_945

Pages

1-8

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/50/45

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/50

Subjects

Hundee Cheque Promissory Note Jamkia Current Account Saving Account Hundee Cheque Promissory Note Jamkia Current Account Saving Account.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

1۔ہنڈی

یری جمهور الفقهاء من الحنفیة والمالکیة والشافعیة وروایة عن أحمد أن السفتجة لا یجوز العمل بها؛ لکونها قرضا جر نفعا فهی عندهم من باب القرض الذی جر نفعا فکأنه أقرض المال واستفاد أمن خطر الطریق فلا یجوز.۱

ترجمہ:جمہور فقہاء کے ہاںیہ جائز نہیں ہے ،کیونکہ یہ قرض سے نفعہ حاصل کرنے کے معنی میں ہے،گویا کہ یہ اس شخص کے مانند ہوگیا کہ جس نے قرض کا مال لیا اور راستے کے خطرات سے محفوظ ہوگیا گویا کہ اس نے قرضہ سے نفعہ حاصل کی جو کہ جائز نہیں ہے۔

حنابلہ : نری أن الراجح من ذلک هو جواز هذا العمل لأنه من باب الحوالة ولیس من باب القرض..الخ. وقد أجاز ذلک مجلس "المجمع الفقهی التابع لرابطة العالم الإسلامی فی قرارة المتخذ فی دورته الحادیة عشرة برئاسة سماحة الشیخ عبد العزیز بن باز-رحمه الله ۲.

ترجمہ: تما م فقہاء کے ہاں یہ عمل قرض سے فائدہ حاصل کرنے کے ما تحت آنے کی وجہ جائز نہیں ہے۔ یہی مالکیہ،حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک ہے ،لیکن حنابلہ کے ہاں یہ عمل حوالہ کے ماتحت آنے کی وجہ سے ہے اور آجکل یہی قول راجح ہے اور اسی قول کومجمع فقہ الاسلامی جدہ کے قرارداد میں منظور کرکے تمام بینکوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

خصم حصم الکمبیالة ذکر الحنفیة أن بیع الأراق الکمبیالة المعارف فی زماننا إلی غیر الغریم (المدین) أو لمن علیه أموال أمیریة بأنقص من الحق غیر صحیح۳.

ترجمہ:حنفیہ نے فرما یا کہ ہمارے زمانے میں مشہور ہنڈی سسٹم کے ذریعے غیر مدیون کو یا جس پر سرکاری قرضے ہوتے ہیں انکو انکے حقوق سے گھٹا کر دیا جا تا ہے جو کہ ناجائز ہے ۔ اسکا حاصل یہ ہوا کہ بیچنے والا کچھ مدت کے بعد حاصل ہونے والی رقم کو کسی تیسرے کے ہاتھ کم قیمت پر نقد فروخت کردیتا ہے۔

عموماتمام بینک ہنڈی کی ڈسکاؤنٹ کرتے ہیں او ر بینک والے اسکو شارٹ ٹرم قرضہ جات میں شمار کرتے ہیں ،اس بل کی ادائیگی کی مدت اندازۃ تین ماہ سے چھ ماہ کا عرصہ ہو تا ہے۔اور لین کا یہ طریقہ بھی بیع الدین لغیر من علیہ الدین کے ماتحت آکر نا جائز ہو جاتا ہے.اگر ہنڈی کی بیع ایک ملک کی کرنسی میں کیا جائے تویہ جائز نہیں ،کیونکہ یہ بیع قبل القبض کے حکم ماتحت آکرناجائز ہوجائیگا ،لیکن قرضہ کی صورت میں اگر قانونی کوئی بند ش نہیں ہے تو پھر اسکے جائز ہونے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔

2۔چیک

مفتی محمد تقی عثمانی چیک کی تعریف میں لکھتے ہیں :

وقد یقع تسلیم النقود عن طریق الشیکات (Cheques). والشیکات جمع شیک وهو ورق یصدره من له حساب فی بنک فیرید أن یسحب به مبلغا من رصیده عند البنک إما لیأخذ ذلک المبلغ بنفسه، أو لیأخذ منه شخص آخر مکتوب علیه اسمه، أو لیأخذه من ذلک الحساب من یعرضه علی البنک بدون تسمیته. وفی هذه الحالة الأخیرة یسمی الشیک ـ "الشیک لحامله" (Bearer of Cheque) ۴.

ترجمہ:یہ اس ورق کے ٹکڑے کا نام ہے کہ جسکو وہ ہی شخص جا ری کرسکتا ہے جس کا بینک میں اکاؤنٹ ہو تا ہے اور وہ اس دستاویز کو جا ری کرکے گویا کہ بینک کو حکم کرتاہے کہ اسکے ہو لڈر کو متعینہ ،درج شدہ رقم ادا کردی جائے۔ اسمیں جو چیک قبول کرتا ہے اسکو عربی میں مصرف کہا جا تا ہے اردو میںبینک کہا جا تا ہے۔ اور جسکو چیک کاٹ کر جاری کیا جا تا ہے اسکو (Payee) کہا جاتا ہے۔(Cheque Issuer) چیک ایشوور چیک جا ری کرنے والے کو کہا جا تا ہے۔بعض مرتبہ چیک جا ری کر نے والا کبھی کبھار اس چیک پر اس شخص کا نا م لکھ دیتا ہے کہ جسکو جاری کرتا ہے اور بعض مرتبہ بغیر نام کے جاری کردیتا ہے جسکو بیئررچیک کہا جاتا ہے ۔

علامہ الدبیان چیک کی تعریف میں لکھتے ہیں ،

عرف الشیک بأنه ورقة تجاریة تتضمن أمرا صادرا من شخص یسمی الساحب إلی أحد البنوک بأن یدفع لإذن شخص ثالث، وهو المستفید مبلغا معینا من النقود بمجرد الاطلاع ۵.

ترجمہ:چیک جا ری کرنے والا کسی کے نا م چیک جا ری کر کے بینک کو حکم کر تا ہے کہ حامل ہذا کو میری طرف سے متعینہ درج شدہ رقم کی ادائیگی کی جائے ۔

چیک کی اقسام

حامل چیک: اگر کسی متعین آدمی کا نا م درج نہ کیا جائے اور نہ ہی"Bearer"کے لفظ کو ہٹا یا جائے تو ایسا چیک "حامل چیک" کہلاتا ہے اس چیک پر بینک کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے کہ اسکے حال کی چانچ پڑتال کرے ۔

ہدایتی چیک:یہ چیک جس آدمی کو بھی جار ی کیا جا تا ہے،تو بینک کی ذمہ داری ہے کہ پوری تحقیق کے بعد حامل ہذا کو رقم کی ادائیگی کی جائے۔

خط کشیدہ چیک: حامل ہذا کو سب سے پہلے یہ چیک اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کے بعد ہی رقم لینے کی اجازت ہوگی، کیونکہ یہ اسی کے نام پر جاری کیا گیا ہے اس میں حفاظت کا بڑا راز پو شیدہ ہے۔

پس تاریخی چیک:جو کہ مستقبل کی کسی تاریخ کیلئے جاری کیا جاتا ہے۶ ۔

چیک کے حکم کے بارے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب "فقہ البیوع" میں لکھتے ہیں:

ورأی جمع من العلماء المعاصرین أنه ینبغی أن یعتبر تسلم الشیک قبضا لمبلغه. أما احتمال فشل الشیک فلا ینبغی أن یلتفت إلیه، لأن القانون یفرض عقوبات شدیدة علی من أصدر شیکا بدون رصید. ومثل هذا الاحتمال قائم فی تسلیم النقود فعلا وهو کون النقود مزیفة ولکن هذا الاحتمال لا یمنع تمام القبض، فکذلک احتمال فشل الشیک.وذکر بعض المعاصرین فی التدلیل علی کون قبض الشیک قبضا حکمیا أن الفقهاء جعلوا لحوالة بمنزلة القبض۷.

خلاصہ:موجودہ دور کے علماء کرام نے چیک پر قبضہ اصل رقم پر قبضہ تصور کیا ہے ،لیکن یہ ضروری ہے کہ چیک بینک کی طرف سے جاری شدہ ہو،سرٹیفائیڈ ہو یاکم از کم چیک کے حکم میں ہو ۔بعض علما ء نے اسکے حوالہ کو قبضہ کے قائم مقام قرار دیا ہے ۔ بہرحال اس طرح کے مالی ستاویز ات کو کم یا زیا دہ قیمت پر بیچنا تمام علماء کے اتفاق سے کسی طرح جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ قرض پر سود حاصل کر نا ہے ،حامل چیک گویاقرض لے رہا ہے اور ڈسکاؤنٹ کی رقم بطور سود ادا کررہا ہے۔

3۔ سند (پرامیسری نوٹ)

صک یتضمن تعهد محرره وهو المدین بدفع مبلغ معین من النقود فی تاریخ محدد لشخص آخر یسمی المستفید وهو الدائن. فالسند الإذنی: ورقة تجاریة تتضمن طرفین:

الأول: المحرر. والثانی: المستفید. والعلاقة بینهما علاقة دین، المحرر فیها مدین، والمستفید دائن. وبهذا یختلف السند الإذنی عن الکمبیالة، حیث إن الکمبیالة تتضمن طرفا ثالثا، وهو المسحوب علیه کما أن الکمبیالة تتضمن أمرا بالدفع من قبل الساحب، أما السند فیتضمن تعهدا بالدفع، ویحرر من قبل المدین۸.

ترجمہ:یہ وہ رقعہ ہے جو کہ ایک مخصوص آدمی کیلئے مخصوص تاریخ پرمخصوص رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا جاتا ہے،اسمیں حامل سند کو قرضدار کہا جاتا ہے اور جس نے متعینہ تاریخ پر رقم کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے اسکو مدیون کہاجائیگا۔اورشرعی طور پر اسکا حکم بھی وہی ہے جو کہ کمبیالہ کا ہے ،کیونکہ دونوں میں دین کاحوالہ ہو تا ہے ،لیکن بہرحال اس طرح کے مالی ستاویز ات کو کم یا زیا دہ قیمت پر بیچنا تمام علماء کے اتفاق سے کسی طرح جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ قرض پر سود حاصل کر نا ہے،حامل سندگویاقرض لے رہا ہے اور ڈسکاؤنٹ کی رقم بطور سود کے ادا کر رہاہے۔

4۔جامکیہ

فقہ البیوع میں مفتی محمد تقی عثمانی جامکیہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قد ذکر الفقهاء المتأخرون نوعا منها تسمیالجامکیة۔وهی عبارة عن ورقة کانت تصدر من بیت المال أو من ناظر الوقف۔الخ ۹ .

ترجمہ: یہ نام ہے اس تنخواہ کا جو کہ پرانے زمانے میں حکومت وقت کی طرف ملازمین کو ملا کرتی تھی۔

علامہ شامی اس کی تعریف لکھتے ہیں :

قوله الجامکیة هی ما یرتب فی الأوقاف لأصحاب الوظائف۔الخ. الجامکیة کالعطاء سنوی أو شهریة أن لها شبهة الأجرة وشبهة الصلة عن بیع الجامکیة: وهو أن یکون لرجل جامکیة فی بیت المال ویحتاج إلی دراهم معجلة قبل أن تخرج الجامکیة فیقول له رجل: بعتنی جامکیة التی قدرها کذا بکذا، أنقص من حقه فی الجامکیة فیقول له: بعتک فهل البیع المفکور صحیح أم لا لکونه بیع الدین بنقد أجاب إذا باع الدین من غیر من علیه کما ذکر لایصح قال: مولانا فی فوائده: وبیع الدین لایجوز ولو باعه من المدیون۱۰۔

ترجمہ: جامکیہ اس ما ہانہ یاسالانہ تنخواہ کو کہا جاتا ہے کہ جو ملازمین کیلئے حکومت وقت کی طرف سے مقرر ہو تاتھا ۔اور اسکو قبل از وقت ضرورت کی بناء پر بیچا بھی جاتا تھا اور خریدا ر اسکو کم قیمت پر خریدلیتا تھا تو یہ صورت اس وجہ سے ناجائز تھی کہ یہاں پر قرض کی بیع غیر مدیون سے کی جارہی ہے اور وہ بھی نقد کی صورت میں تو علامہ حصکفی ؒنے اس بیع کو درست قرار نہیں دیا ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب "فقہ البیوع" میں اسکے بارے میں فرماتے ہیں:

وقد أفتی الفقهاء من الحنفیة والحنابلة بأن بیع الجامکیة لایجوز، لکونه بیع الدین من غیر من علیه وأجازه الحطاب من المالکیة.

ترجمہ:فقہاء میں سے حنفیہ اور حنابلہ نے جامکیہ کی بیع کو نا جائز قرار دیا ہے کیونکہ یہ اس شخص کو دین پیچ کر دینا ہے کہ جس پر دین نہیں ہے، لیکن مالکیہ میں سے امام حطاب نے اس بیع کو جائز کہا ہے ۔اور شافعیہ کے ہاں مختلف اقوال ہیں۔

5۔دیگر دیون کی بیوعات

مفتی تقی عثمانی "تکملہ فتح الملہم" میں لکھتے ہیں:

الحقوق التی تثبت لصاحبها بعقود یعقدها هو أوٖغیره مثل رجل باع شیأ فثبت له حق استیفاء الثمن أو أقرض أحدا فثبت له حق استیفاء الدین أو أعلنت الحکومة له بجائزة فثبت له حق استیفائها فبیع مثل هذه الحقوق لیس بیعا للحقوق فی الحقیقة، وإنما هو بیع لمال یتعلق به ذلک الحق وإنه لا یجوز عند الحنفیة لکونه بیع ما لیس عند الإنسان ویدخل فی هذا القسم بیع العطایا والأرزاق والبراآت وبیع حظوظ الأئمة وبیع الجامکیة۱۲.

ترجمہ: تمام وہ حقوق جو کسی بھی انسان کے واسطے کسی لین دین کے ذریعے وجود میں آئیں مثال کے طور پر کسی آدمی نے کوئی چیز فروخت کی تو اب اس صورت میں اسے اپنی اس چیز کے بدلے قیمت لینے کا پورا پورا حق حاصل ہے یا کسی نے کسی کو قرضہ دیا تو اب اس کیلئے اپنے اس دیئے ہوئے قرضے کے واپس لینے کا پورا حق حاصل ہے یا کسی کیلئے حکومت وقت نے انعام دینے کا اعلان کیا تو اب اسے یہ انعام حاصل کر نے کا حق ہے تو ان جیسے تمام حقوق کو بیچنا حقیقۃ حقوق بیچنا نہیں ،بلکہ انکے بیک پر جو رقم ہے اسکو بیچنا مقصود ہے حنفیہ کے ہاں اس رقم کو بیچنا درست نہیں ہے،کیونکہ یہ بیع الدین من غیر من علیہ الدین یا بیع مالیس عند الانسان کی لین دین ہے ۔اور اسی میں تحائف،اجرتیں،برآت اور علماء کرام کے وظائف اور جامکیہ کی لین دین بھی ہے۔

بینک میں موجود اکاؤنٹس کی صورتیں اور ان کی شرعی وفقہی حیثیت 

1۔کرنٹ اکاؤنٹ(Current Account)

کمپنیاں یا ادارے بینک میں رقم جمع کریں، بینک کو تصرف کا حق ہو، کسی بھی وقت اس کے مطالبہ کا حق ہو، بینک سے نفع کے طلب گا ر نہ ہوں،وہ نہ نفع میں شریک ہوں گے اور نہ نقصان میں۱۳۔

2۔ سیونگ اکاؤنٹ(Saving Account)

کھاتہ دار بینک میں رقم بچت کے لئے جمع کرے نہ کہ نفع کے لئے، اگر بینک اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہو،تو یہ "ودیعت بالضمان" ہے یعنی جمع شدہ رقم کی حیثیت امانت کی ہے ، بینک اس کی ادائیگی کا ضامن ہوگا اور وہ امانت کی حفاظت کی اجرت لے گا،عربی میں اس کو حسابات الوفیر کہتے ہیں۱۴۔

۳۔فکسڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ (Fixed Deposit Account)

بینک میں طے شدہ مدت کے لئے زیادہ نفع حاصل کرنے کی غرض سے رقم جمع کی جائے۱۵ ۔

اکاؤنٹس کی فقہی حیثیت

۔کرنٹ اکاؤنٹ:قرض حسنہ اور عند الطلب قابل ادائیگی۔

۔سیونگ اکاؤنٹ: ودیعہ بالضمان۔

۔فکسڈ ڈپازٹ اکاؤنٹ: ایک مقررہ مدت کےلئے مضاربت، شرکت یا"وکالت بالاستثمار"۱۶۔

حصص کا بازار

بازار حصص (Stock Exchange )کو فرانسیسی زبان میں "Bourse" البورصۃ کہتے ہیں ،جس سے مراد ایسی جگہ ہے ،جہاں بینکار اور کرنسی کے دلال شیئرز ،بانڈز اور حصص تاسیس کے تجارتی معاملات طے کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔اس بازار میں نرخ کا تعین طلب و رسد کے اصول کے مطابق ہوتا ہے۔جن مالی دستاویزات کی اس بازار میں خریدوفروخت ہوتی ہے ،انہیں درج ذیل دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے:(1)ایسی دستاویزات جو سرکاری تمسکات کی صورت میں ہوتی ہیں ۔(2)ایسی دستاویز جو شیئرز اور حقوق ملکیت کی صورت میں ہوتی ہیں۔۱۷

سرکاری تمسکات : ان سے مراد ایسی دستاویزت ہیں ،جن کی بنیاد حکومت مالی قرض لیتی ہے اور اس پر متعین شرح سے سود اداکرتی ہے۔ایسی دستاویزات کو سندات مذھبۃ بھی کہتے ہیں ۔یہ طویل المیعاد بھی ہوتی ہیں ،جن میں قرض کی ادائیگی پندرہ سال کے بعد ہوتی ہے ۔درمیانی مدت کے بھی ہوتی ہیں ،جن میں قرض کی ادائیگی پانچ سال کے اندر اندر ہوجاتی ہے۔بعض سرکاری تمسکات کسی خاص اقتصادی منصوبے کے لئے سالانہ سود کی بنیاد پر قرض حاصل کرنے کے لئے جاری کی جاتی ہیں ۔ایساقرض متعینہ مدت کے اندر اداکردیاجاتا ہے۔۱۸

حصص :حصص کمپنیاں جاری کرتی ہیں ۔حصص کے مالکان کو حاملین حصص (Share Holders) کہتے ہیں ۔حاملین حصص کو اپنے حصص کی نسبت سے کمپنی کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کا حق حاصل ہوتاہے۔جب کمپنی کو منافع حاصل ہوتا ہے تو اس کا کچھ حصہ حاملین حصص کے درمیان تقسیم کردیاجاتا ہے،جسے قابل تقسیم منافع (Dividend Profit) کہتے ہیں،جبکہ بقیہ منافع کمپنی کی ترقی اور اسکے دائرہ عمل کو وسیع کرنے کے لئے دوبارہ کمپنی لگادیا جاتا ہے۔۱۹

بازار حصص میں مختلف قسم کے سامان تجارت کی خریدوفروخت بھی ہوتی ہے۔یہ سامان تجارت کبھی تو فروخت کنندہ کی تحویل میں ہوتا ہے اور کبھی اس کی ملکیت میں نہیں ہوتا اور کبھی اس کی ملکیت میں تو ہوتا ہے ،لیکن اس کے قبضہ میں نہیں ہوتا اور بعض اوقات عقد کے وقت اس کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔بازار حصص میں تجارتی سرگرمیاں کیسے طے پاتی ہیں؟اس بازار میں خریدوفروخت سے متعلق معاملات دوطرح سے طے پاتے ہیں۔۲۰

نقدمعاملات: یہ خریدوفروخت کا عام طریقہ ہے ، جس میں خریدار طےشدہ ثمن اداکرکے سامان یابانڈکافورا مالک بن جاتا ہے اور فروخت کنندہ ثمن پر قبضہ کرنے کےفورابعد سامان یا بانڈخریدار کے حوالے کر دیتا ہے۔۲۱

ادھار معاملات: یعنی عملیات البیع عینۃ ان سے مراد طے شدہ نرخ کے مطابق سامان اور بانڈز کی خریدوفروخت کے ایسے معاہدات ہیں جن میں حوالگی اور ادائیگی دونوں مستقبل کی کسی تاریخ تک مؤخر ہوتی ہیں (یہ مدت تین ماہ ،چھ ماہ اور سال کی بھی ہوسکتی ہے)۔۲۲

بازارحصص میں ادھار خریدوفروخت کے بعض ایسے مشروط معاملات بھی ہوتے ہیں ،جن میں فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کومتعین معاوضہ اداکرکے اپنے آپ کو عقد سے مستثنی قرار دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔۲۳

بازارحصص کے مثبت پہلو

(۱)یہ ایسا ہمہ وقتی بازار فراہم کرتا ہے ،جس کے ذریعےفروخت کنندگان اور خریداروں کا رابطہ آسان ہوجاتا ہے ،نیز اس میں حصص ،بانڈز اور سامان سے متعلق نقد او ادھار معاملات طے پاتے ہیں ۔

(۲)یہ بازار حصص اور سرکاری تمسکات فروختگی کے لئے پیش کرکے صنعتی تجارتی اورحکومتی اداروں کے لئے سرمایہ کی فراہمی (Finance) کاکام آسان بناتاہے ۔

(۳)یہ بازار حصص اور بانڈز دوسروں کے ہاتھ فروخت کرنے اور ان کی قیمت سے نفع اٹھانے کی سہولت فراہم کرتا ہے،کیونکہ انہیں جاری کرنے والی کمپنیاں ان کے حاملین کو ان کی درست نہیں بتاتیں ۔

(۴)یہ بازار طلب ورسد کے اصول کی بنیاد پر حصص ،بانڈز اوردیگر سامان کے نرخ اور ان کے لین دین میں اتار چڑھاؤ سے آگاہی فراہم کرتا ہے ۔۲۴

بازارحصص کے منفی اور نقصان دہ پہلو

(۱) اس بازار میں ہونے والے اکثر ادھار معاملات پر خریدوفروخت کی حقیقی تعریف صادق نہیں آتی ،کیونکہ ان میں فریقین کی طرف سے عوضین پر قبضہ نہیں پایا جا تا ،حالانکہ شریعت کی رو دونوں عوضوں یا کسی ایک عوض پر مجلس عقد میں قبضہ کرنا شرط ہے ۔

(۲) بازار حصص میں عام طورپر فروخت کنندہ غیر مملوکہ کرنسی ،حصص،بانڈز اورسامان اس امید فروخت کردیتا ہے کہ وہ بعد میں انہیں بازار سے خرید کر مقررہ وقت خریدار کے حوالے کردے گا ،اسی طرح وہ عقد کے وقت ثمن پر قبضہ نہیں کرتا ہے،جیساکہ یہ بیع شرط ہے۔

(۳) اس بازار میں عام طور پر خریدار خرید کردہ چیز پر قبضہ کرنے سےپہلے ہی اسے دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردیتاہے اور دوسرا شخص قبضہ سے پہلے اسے تیسرےشخص کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے ۔قبضہ سے پہلے ایک ہی چیز کی خریدوفروخت کایہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اس آخری خریدار پر جاکر ختم ہوجاتا ہے، جو سب سے پہلےفروخت کنندہ سے مبیع وصول کرنے یا پھر عقد کی تنفیذ یعنی تصفیہ کے دن نرخ کے فرق کی بنیاد پر حساب برابر کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے،جبکہ پہلے اور آخری فروخت کنندہ اور خریدار کے علاوہ دیگر فروخت کنندگان اور خریداروں کا کا م صرف یہہوتاہے کہ مقررہ میعاد پر نفع کی صورت میں نرخون کے فرق پر قبضہ کرلیں اور نقصان کی صورت میں اس کی ادائیگی کردیں ۔یہ بعینہ وہی صورت حال ہے ،جو جوابازاروں میں رائج ہے۔

(۴) مال دار لوگ بازار میں موجود حصص ،بانڈز اورسامان کی ذخیرہ اندوزی کرلیتے ہیں ،تاکہ ان لوگوں پر من مانی کرسکیں اور انہیں مشکلات میں پھنساسکیں، جنہوں نے غیر مملوکہ اشیاء اس امید پر فروخت کی ہوتی ہیں کہ عقد کی تکمیلل کے وقت سے پہلے کم نرخ پر انہیں خرید کر مقررہ وقت پر خریدار کے حوالے کردیں گے۔

(۵) بازار حصص کی سنگینی کا مدار اسےدیگر بازاروں کی قیمتوں پر اثر انداز ہونے کا ذریعہ بنانے پر ہے ،کیونکہ اس میں قیمتوں کا تعین مکمل طورپر خرید وفروخت کے خواہش مند لوگوں کی طرف سے حقیقی طلب ورسد سے نہیں ہوتا،بلکہ قیمتیں اور بھی بہت سے عوامل سے متأثر ہوتی ہیں ۔بعض عوامل بازار پر ہولڈ رکھنے والے لوگوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں،جبکہ بعض عوامل سامان اورکرنسی نوٹوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی طرف سے سامنے آتے ہیں ، مثلا جھوٹی افوہیں پھیلانا وغیرہ ۔یہاں سے شریعت کی رو سے ناجائز خطرہ (Risk) پایا جاتا ہے ،کیونکہ اس کی بدولت قیمتوں میں غیر فطری تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں، جو اقتصادی زندگی پر برے اثرات ڈالتی ہیں۔۲۵

حوالہ جات

١۔عبد اللہ بن محمد الطیاروعبد اللہ بن محمد المطلق و محمد بن إبراہیم الموسی ،مدارالوطنالریاض السعودیہ، الفقہ المیسر٦/۱۲۲

۲۔عبد اللہ بن محمد الطیاروعبد اللہ بن محمد المطلق و محمد بن إبراہیم الموسی ،مدارالوطنالریاض السعودیہ، الفقہ المیسر٦/۱۲۲

۳۔الزحیلی، دکتو ر وہبۃ ، دارالفکر دمشق، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۵/ ٣٤٠٨

۴۔عثمانی، مفتی محمد تقی ، مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان ، فقہ البیوع۱/۴۴۱،۴۴۲

۵۔ابوعمرودبیان بن محمد،مکتبۃ الملک فہد الوطنیۃالریاض ،الدبیان المعاملات المالیۃ اصالۃ ومعاصرۃ ۱۳/۵۹۳

۶۔عثمانی ،مفتی محمد تقی ، مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان ، فقہ البیوع۱/۴۴۲تا۴۴۵۱

۷۔عثمانی، مفتی محمد تقی ، مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان ، فقہ البیوع۱/۴۴۲

۸۔ابو عمر دبیان بن محمد الدبیان ، مکتبۃ الملک فہد الوطنیۃ الریاض، المعاملات المالیۃ اصالۃ ومعاصرۃ ص:٥٨٩

۹۔عثمانی، مفتی محمد تقی ، مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان ، فقہ البیوع، ج۱/٣٥٢۔۔۔٣٧٠

۱۰۔ابن عابدین ،محمد امین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی (المتوفی:١٢٥٢ھ)دارالفکر بیروت،الطبعۃ الثانیۃ ١٤١٢ھ١٩٩٢م، ردالمحتارعلی الدرالمختار ۴/٤١٧،٤٣٤،٥١٧

۱۱ ۔عثمانی، مفتی محمد تقی ،فقہ البیوع ،ص:٣٥٤ ۔ج: ١ ، ناشر۱/٧:مکتبہ معارف القرآن کراچی پاکستان

۱۲۔عثما نی، مفتی محمد تقی ، داراحیاء التراث العربی بیروت، تکملہ فتح الملہم ۱/۳۶۲

۱۳۔رحمانی، مولانا خالد سیف اللہ ۔ کتب خانہ نعیمیہ دیوبندسہارنپور یوپی ، جدید مالیاتی ادارے ص: ٢٦۔۔٢٧

۱۴۔الزحیلی، وہبۃ الفقہ الاسلامی وادلتہ ٣٦٦٣،ج:٥، ،ناشر:۱/٧ دارالفکر ۔ بیروت ۔ وایضا فی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:ص ،٢١٨،ج :٥ ، علاء الدین، أبو بکر بن مسعود بن أحمد الکاسانی الحنفی (المتوفی:٥٨٧ھ)الناشر:۱/٧ دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ: الثانیۃ، 1406ہـ - 1986م

۱۵۔الزحیلی، ڈاکٹروہبۃ ، الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ص: ٣٦٦٤ ،،،ج:٥،، ناشر:۱/٧ مکتبہ حقانیہ ،پشاور۔وایضافی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع:ص ،٢١٨،ج :٥ ،المؤلف: علاء الدین، ابو بکر بن مسعود بن احمد الکاسانی الحنفی (المتوفی:٥٨٧ھ)الناشر:۱/٧ دار الکتب العلمیۃ،الطبعۃ: الثانیۃ، 1406ہـ - 1986م

۱۶۔ابو القاسم ،محمد بن احمد بن محمد بن عبداللہ ،ابن جزی الکلبی الغرناطی (التوفی:٧٤١)القوانین الفقہیۃ، ص:٢١٣،ج:١،۔۔۔۔۱/٧ دارالفکر ۔بیروت۔وایضا فی الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ص :٣٦٣٤ ،ج:٥،۔۔۔۔۱/٧ وہبۃ الزحیلیؒ ،ناشر: دارالفکر ۔ بیروت

۱۷۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۱۸۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۱۹۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۲۰۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۲۱۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۲۲۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۲۳۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۳،۴۸۴

۲۴۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۶

۲۵۔البوطی، ڈاکٹر محمد توفیق رمضان ،مترجم محمد اسلام خریدوفروخت کی مروجہ صورتیں اور ان کی شرعی حیثیت ص۴۸۶،۴۸۷

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...