Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities > Volume 2 Issue 1 of Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

پر امن معاشرے میں تعلیم کا کردار |
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities
Al-Iʿjaz Research Journal of Islamic Studies and Humanities

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060025806_1251

Pages

1-9

PDF URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/download/24/22

Chapter URL

http://www.arjish.com/index.php/arjish/article/view/24

Subjects

Education peaceful society confidence knowledge Education peaceful society confidence knowledge.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

پر امن معاشرے میں تعلیمات کا کردار

کسی بھی دور میں تعلیم کی افادیت اور اس کی روحانی ضرورت سے منہ موڑا نہیں جا سکتا ۔ تعلیم کو زندھ قوموں اور مہذب سماج کی بالادستی اس کی عظمت کی علامت گردانا جاتا ہے ۔ تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان صبر ، انکساری شکر گزاری، خوف خدا اور عزم و استقلال جیسی اہم ترین عادات زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں۔ حتی کہ تعلیم یافتہ سماج با حوصلہ ، بلند ہمت اور انسانی اقدار کا سچا علمبردار مانا جاتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہنا ضرور ی معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کمزور ترین سماج کو طاقتور بنانے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ پاکیزہ اور صلح افکار سے متصف معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئے تاکہ سماج ہمدردی ، غمگساری اور خیر سگالی کے جذبہ سے معمور ہو ۔ادہر تعلیم یافتہ افراد نور علم اور اپنی سنجیدہ کاوشوں کی بدولت نوع انسانیت کی سعادت و کامرانی کی فکر کرسکیں جب معاشرے میں اس نوعیت سے محنت کی جائے تو یقینا براہ راست اس کا فائدہ اہل علم کو ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے دبلے کچلے اور علم سے محروم افراد کو بھی ہوگا ، اور اس صداقت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تعلیم کے حصول کا جو ثمرہ ہے وہ یہی کہ بشریت کو زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہو تعلیم کی روشنی ان گھروں تک بھی جائے جو لاچاری مجبوری اور ناداری کیوجہ سے دولت علم سے محروم ہیں۔

اہمیت

علم ایک ایسی دولت ہے جس میں جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور انسان کے دل و دماغ آگہی سے واقف ہوتا ہے ۔ یہ وہ قیمتی خزانہ ہے جس سے معاشرے کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے ۔ اور انسا ن کی مکمل تکمیل کا خزانہ ہے ۔ علم کے ذریعہ سے انسان کی شخصیت اور روحانیت کے منازل طے کرتی ہے ۔ تعلیم یافتہ افراد ایک بہترین تہذیب و تمدن اور مہذب معاشرے کو جنم دیتے ہیں ۔ تعلیم سے ہی ہم اپنے علمی ورثہ اور اپنے تہذیبی و ثقافتی زیور اور اعلی اقدار کو سنبھال کر اس سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ماحول کے مطابق اس میں تعمیر نو کا رنگ بھر سکتے ہیں ۔ تعلیم ہر انسان کی ضرورت ہے ، مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے ۔ تعلیم و تربیت کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ انسانی شخصیت کو اعلی کردار کی چوٹی تک پہنچایا جائے ۔ اسلام نے انسان کی اس عظمت کی وجہ سے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرے اور محبت سے پیش آئے۔

تعلیم کا سب سے پہلا مقصد خود اپنی ذات کی تشکیل ہے اور اپنی صلاحیتوں کا نشو ونما اور ارتقاء ہے ، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آپ کے سامنے زندگی کے اصول اور قانون و ضوابط نہ ہوں جس کے لیے آپ پورے کے پورے وقف ہوں جو فکر و خیال کا مرکز اور تگ ودو کا محور ہو ۔ پھر یہ مقصد جتنا اعلی اور آپ کی فطرت سے ہم آہنگ ہوگا اتنا ہی آپ کا ارتقاء ہوگا اور جتنی ہی یکسوئی اور والہانہ سپردگی کے ساتھ آپ اس مقصد کو اختیار کریں گے اتنی ہی قریب اور ممکن المحصول آپ کی منزل ہوگی ۔ زندگی میں قیمت اور وزن کسی مقصد کو اختیار کرنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔ ورنہ مقصد زندگی کے بغیر انسان ایک ایسی مشت خاک ہے جس کو ہر آنے جانے والا قافلہ اپنے پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔1

انسانی حیات کا ایک دوسرا دائرہ ہے جس کا تعلق مادی کائنات سے ماوراء یعنی ما بعد الطبیعاتی حقائق کے ساتھ ہے جس میں کائنات حیات انسانی کا آغاز ، مقاصد تخلیق اور انجام کار کی گھتی کو سلجھانا ہے تاکہ حیات انسانی اپنی حقیقی منازل کی جانب گامزن ہوسکے ۔ اللہ تعالی نے ان انتہائی بنیادی اور ضروری ما بعد الطبیعاتی امور کے سلسلے میں رشد وہدایت کا سلسلہ انبیاء کی بعثت کی صورت میں روز اول سے جارہ وساری فرمایا جس کی آخری کڑی اور نقطہ کمال آپ ﷺ کی آمد باسعادت ہے۔

ربنا وابعث فیهم رسولا منهم یتلوا علیهم ایتک و یعلمهم الکتب والحکمة ویزکیهم انک انت العزیز الحکیم2

ترجمہ : اے پروردگار ان ( لوگوں ) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان ( کے دلوں ) کو پاک صاف کیا کرے ۔ بیشک تو غالب ( اور) صاحب حکمت ہے ۔

اللہ تعالی نے مسلمہ امت پر ایک عظیم احسان یہ کیا ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے سلسلہ رسل - علیہم السلام- کے آخری اور عظیم الشان نمائندہ جناب رسول اللہ ﷺکی بعثت مبارکہ انسانیت کے لئے اپنا احسان عظیم گردانا ہے ۔

لقد من الله علی المؤمنین اذ بعث فیهم رسولا من انفسهم یتلوا علیهم ایته ویزکیهم ویعلمهم الکتب والحکمة وان کانو من قبل لفی ضلل مبین3

ترجمہ : اللہ نے مومنو ں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے ۔ جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور ( اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔

تہذیب جماعت کی ترقی میں ابن خلدون تعلیمی جدوجہد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ علم ودانش تشکیک ارتیاب اور تحقیق سے ذہن انسانی "معاشرت و ثقافت اور روحانی زندگی میں وہی وحدت پیدا ہوتی ہے جو توحید کا مقتضائے اصلی ہے ۔ تعلیم ہی سے عرفان ذات " خدا کا عرفان اور منشائے حیات اور اس کی بلند تر نصب العین اور غایت الغایات کا علم ہوتا ہے ۔ تعلیم کا مسئلہ ابن خلدون کے مباحث دوگانہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ایک تو اس کا مذہبی اور ثقافتی مسلک اور دوسرے بحیثیت علم اس جہت میں اس نے متنوعہ اور مختلف اضافہ عمرانیات میں ایک نئے شعبے علمیہ یعنی عمرانیات تعلیم کا اضافہ کیا ہے۔ عمرانیات تعلیم کے نقطہ نظر سے بھی ابن خلدون کا تصور اس معنوی وحدت کا آئینہ دار ہے جو نتیجہ ہے اس کی ثقافت ذہنیت کا کہ جس کے ہر بن مو میں توحید موجزن ہے ۔ اس کا اصرار ہے تعلیم مذہب کے ساتھ وابستہ ہوکر اتحاد استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کرسکتی ہے اس کے نزدیک معاشرتی اور ثقافتی جدوجہد کی منظم صورت کا اظہار تعلیمی قوتوں کے ذریعے ممکن ہے ۔ اسی خیال کو دیہی اور شہری عمرانیات بدوی اور حضری زندگی کے مسائل کے سوا عروج و زوال کے نظریے میں دہراتا ہے ۔ تعلیمی جمود معاشرے کی بربادی اور اس کا عام چرچا اس کی ترقی کا موجب ہوتا ہے اسلامی معاشرے کے زوال کے منجملہ اسباب میں وہ تعلیم کے انحطاط پر بہت زیادہ زور دیتا ہے ۔ تعلیم کا انحطاط کا نتیجہ ہے عقیدے اور مذہب کے انحطاط ان سے بے تعلقی کا۔4

مختصر تاریخ

کسی بھی معاشرے کے نظریہ حیات اور فلسفیانہ تصورات سے ماخوذ ہوتے ہیں ۔ ہر قوم اپنے مقاصد کا تعین اپنے ملک کے تاریخی سیاسی معاشی اور معاشرتی پس منظر میں کرتی ہے ۔ انسان میں تبدیلی کے ارادے کا تعلق زندگی بسر کرنے کا ارادہ سے وابستہ ہے ، انسان اپنی عقل و فکر کے بل بوتے پر خود اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ چیزوں ( کے استعمال ) اور لوگوں سے معاملات میں صحیح انداز اختیار کرے ۔

عروج وزوال کا نظریہ جس کی توضیح میں قرآنی تصور کماحقہ حاوی ومحیط ہے ۔ ابن خلدون نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کسی جماعت میں زندگی اور کائنات کے حقائق سے فائدہ اٹھانے کا ملکہ اور جذبہ باقی نہ رہے تو اس کا تنزل شروع ہوجاتا ہے ۔

معاشرتی زندگی کے تعمیری اجزاء میں ایک جز ابن خلدون کی تحقیق کی رو سے اتحاد عمل بھی ہے ۔ افراد کے خیالات اور ارادوں کی ہم آہنگی سے جماعتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ معاشرتی اشتراک عمل کا سب سے اہم اور سب سے اعلی تصور انہی عوامل میں پوشیدہ اور انہی پر منحصر اور موقوف ہے ۔ ابن خلدون کے نقطہ نظر کے مطابق مختلف جماعتوں اور ادارات کی یکجائی کاہے ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مختلف جماعتوں اور ادارات میں اتحاد نہ پیدا ہوجائے اگر ان کے وجود سے پراگندگی اور معاشرتی انتشار پیدا ہوجائے تو نہ صرف زندگی بلکہ تمام معاشرے کی زندگی خطرہ میں پر جائے گی ۔5

اسلامی معاشرہ ایک مخصوص عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر قائم دائم ہے جو اس کے تمام ادارے قوانین اور اخلاقی اقدار کا مصدرومنبع ہے ۔ یہ نظریہ اسلام ہے اور اسی پر مبنی ہونے کے باعث یہ معاشرہ کہلانے کا مستحق بنتا ہے ۔ چنانچہ اسلامی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو اسلام کو اپنے منہج حیات ، دستور حکومت ، قانون سازی اور زندگی کے تمام شعبوں اور انفرادی و اجتماعی ، مادی و غیرمادی، مقامی و بین الاقوامی تعلقات کے سرچشمے کو طور پر اپنا چکا ہو ۔

معاشرہ میں کچھ رسوم ورواج اور روایات ہوا کرتی ہیں ۔ جن روایات واقدار کو معاشرہ قبول کرتا ہے وہ مثبت اور اخلاقی اقدار کہلاتی ہیں اور جن اقدار کو معاشرہ مسترد کرتا ہے وہ منفی یا غیر اخلاقی اقدار کہلاتی ہیں ۔ مذاہب عالم عمومی طور پر اخلاقی اقدار کا بنیادی سرچشمہ ہوا کرتی ہیں اور انھیں سے اخلاقی حقوق متعین ہوتے ہیں ۔ اخلاقی حقوق چونکہ رضا کارانہ نوعیت کے ہوتے ہیں اور انھیں حکومت ، انتظامیہ یا عدالتوں کے ذریعہ سے نافذ نہیں کیا جاتا ۔ البتہ انسان کا اپنا ضمیر اور معاشرہ کا دباؤ اخلاق حقوق کے نفاذ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

اخلاقی حقوق کے حوالہ سے اسلام کا نقطہ نظر انفرادیت کا حامل ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی میں اخلاقی تعلیمات کو پوری جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کی تہذیب کا پہلا عنصر دینی عقائد اسلامی اصول زندگی اور اخلاقیات ہے ۔ مگر اسلام تزکیہ نفس کی تہذیب و تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ اخلاقی حس بیدار ہوکر انسان کو اخلاقی حقوق و فرائض کی بجا آوری کے لیے آمادہ کرتی ہے ۔ مزید برآں اسلام اس عقیدہ و نظریہ کو انسانی قلوب و اذہان میں راسخ کرتا ہے کہ انسان کی دنیاوی زندگی آخرت کی کھیتی اور امتحان گاہ ہے ، جو کچھ انسان یہاں بوئے گا اسی کی فصل آخرت میں کاٹے گا اور اس دنیا کے تمام تر اعمال کے لیے حیات بعد الموت میں اللہ سبحانہ و تعالی کے ہاں جوابدہ ہونا ہوگا۔6

فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره ومن یعمل مثقال ذرة شرا یرة7

ترجمہ : پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرا برابری کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا ۔

اسلامی معاشرے کی خصوصیات

اللہ کی ہستی کا یقین اور اس کے ہر وقت موجود ہونے کا خیال عقیدہ توحید (جیسا کہ انبیا نے تعلیم دی ۔ اس کی مکمل تشریح قرآن میں پائی جاتی ہے ۔ بعد کے تمام انبیا حضرات ابراہیم کی نسل ہی سے تھے ) شرافت اور مساوات انسانی کا اضطراری و دائمی تصور جو کسی مسلمان کے ذہن سے جدا نہیں ہوتا ۔ یہ وہ امتیاز ی خصوصیتیں ہیں جنہوں نے ابراہیمی تہذیب کو دنیا کی دوسری تہذیبوں کے مقابلہ میں ایک نئی صورت بخشی ہے ۔ یہ خصوصیتیں اتنے روشن اور نمایاں طریقہ پر کسی اور تہذیب میں نہیں پائی جاتی ۔8

اللہ تعالی فرماتے ہیں سب انسان ایک قوم ہیں سب کے حقوق ایک جیسے ہیں تو ان میں جگھڑا کیسا ۔ یہ برابری کی خصوصیت ہی مسلمانوں کو سب سے الگ کرتی ہیں ، قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

وما کان الناس الا امة واحدة فاختلفوا9

ترجمہ : اور سب لوگ ایک ہی قوم ہیں اور وہ باہم جگھڑتے ہیں ۔

عملی اتحاد کی بنیاد

تمام تفریقات امتیازات کو مٹانے کے لئے سب سے پہلی بنیاد مسجد ہے ، جہاں پانچ وقت مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں ۔ جہاں غریب امیر کے ساتھ ، خادم آقا کے ساتھ دوش بدوش کھڑا ہوتا ہے ۔ حج کی عبادت کا بھی ایک عظیم مقصد جاہلیت کے امتیازات کو مٹانا ہے ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریمﷺ نے وحدت نسل انسانی کے پیغام کو دہرایا ہے ۔

وحدت فکر انسانی

نسل انسانی میں مسلمانوں کے افکار و خیالات و مقاصد میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا اسلام کے اہم تقاضوں میں سے ہے اسلام نے نسل انسانی کو وحدت فکر کے ایسے واضح کیے ہیں جن کی پابندی انتشار فکر سے محفوظ رکھتی ہے ۔ اسلام غور وفکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اپنی عقل سے کام لو اس لیے راہنمائی کے لیے کچھ اصول مقرر کیے ہیں ۔

ان کی پابندی لازمی ہے وہ اصول قران مجید میں بیان کردیے ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید کو ہدایت للناس اور ہدایت للمتقین کہا ہے۔ وحدت فکر انسانی کے متعلق ارشاد الہی ہے:

ان الدین عند الله الاسلام وما اختلف الذین اوتو االکتب الا من بعد ما جاءهم العلم بغیا بینهم10

ترجمہ : دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے ۔ اور اہل کتاب نے جو ( اس دین سے) اختلاف کیا تو علم حاصل ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا۔ اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا ( اور سزا دینے والا ) ہے ۔

ان آیتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام صرف قرآن مجید کے اصولوں کے ہی داعی تھے لیکن ان کے ماننے والے ان اصولوں کو چھوڑ کر اپنی اغراض اور خواہشات کے پیچھے دوڑ پڑے۔

نیکی کا فروغ اور برائی کا انسداد

اسلام معاشرہ کے لیے ایک ایسا ضابطہ اخلاق مقرر کرتا ہے جس سے کسی کو بھی تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ صرف اس ضابطہ اخلاق کو خود اپنا نا ہی لازمی قرار نہیں دیتا بلکہ یہ بھی حکم دیتا ہے کہ جو شخص اس سے انحراف کرنے کی طرف مائل ہو اس کو روکا جائے تاکہ معاشرہ میں نظم وضبط پیدا ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر معاشرہ میں فساد اور بگاڑ ہوجاتا ہے ۔11

ارشاد الہی ہے :

وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان12

ترجمہ: نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو ۔

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنکر وتؤمنون بالله13

ترجمہ : (مؤمنو !) جتنی امتیں (یعنی قومیں )لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہت اچھا ہوتا ۔ ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں (لیکن تھوڑے ) اور اکثر نا فرمان ہیں ۔

آپﷺ کے معمولات میں تعلیم کو ترجیح اول حاصل رہی ہے۔ آپﷺ نے عظیم الشان انقلاب کی بنیاد تعلیم پر رکھی ۔ "اقرأ" سے آپﷺ نے تعلیم کا آغاز فرمایا ۔ آپﷺ کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں تئیس (23) سال کے اندر ریاست مدینہ میں خواندگی کی شرح اسی فی صد (%80) سے تجاوز کر گئی ۔ اس کے ساتھ آپﷺ نے صحابہ میں غوروفکر اور تحقیق کا ایسا ذوق پیدا فرمایا کہ ان میں ایک ایسی ٹیم تیار ہوگئی جسے اسلامی علوم کے مختلف پہلوؤں پر درجہ اختصاص حاصل ہوگیا۔

آنحضور ﷺ کی تعلیمی جدوجہد

آنحضور ﷺ آج سے چودہ سو سال پہلے جزیرۃ العرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے ۔ آپﷺ نے اہل مکہ کہ امی لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا کیونکہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ وہ لکھنے پڑھنے کو عار سمجھتے تھے ۔ زبانی روایات اور حافظہ کے ذریعے ہی وہ اپنے علمی اثاثے کو محفوظ کرتے تھے ۔ ( سوائے مستثیات کے )

ایسے عالم میں آنحضور ﷺ نے ایک علمی تحریک کا آغاز کیا ۔ آپ ﷺنے مکہ میں دارارقم کو مرکز تعلیم قرار دیا ۔اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا تھا آپﷺ داراقم میں صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے اور اس کی تشریح بھی فرماتے تھے ۔

مدینہ پہنچ کر آپ نے باقاعدہ صفہ کے نام سے ایک درس گاہ کی بنیاد رکھی ۔ اس طرح غیر رسمی تعلیمات کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے رسمی تعلیمات کا بھی اہتمام فرمایا ۔ آپﷺ نے علم کے حصول ' اس کی اشاعت ' ترسیل اور استحکام کے لئے زبردست تحریک چلائی ۔ اور ہر ایک شخص کے لئے علم کی راہیں آسان بنائیں ۔

حصول علم کی ذمہ داری : آپ ﷺ نے مرد و زن پر علم کا حصول لازمی قرار دیے دیا ۔ آپﷺ نے فرمایا : طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة۔14

ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ آپ ﷺ نے طلب علم کے لئے عمر کی شرط ختم کردی ۔

سربراہان کنبہ کی ذمہ داری : آپ ﷺ نے سربراہان کنبہ کے لئے ضروری قرار دیا کہ وہ اپنی بیوی بچوں کو بھی علم سکھائیں ورنہ ان سے اس کے بارے میں محشر کے دن سوال ہوگا ۔۔ آپﷺ نے فرمایا :

کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیته۔15

تم میں سے ہر شخص رعایا کا ( نگہبان) ہے اور ہر ایک سے رعیت کے بارے میں پو چھا جائے گا-

امام بخاریؒ نے حضرت مالک بن الحویرث کا واقعہ بیان کیا کہ وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ آپﷺ کے پاس بیس دن ٹھہرے۔ جب انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے بخوشی اجازت دے دی اور ساتھ ہی فرمایا :16

اپنے گھر والوں کے پاس چلے جاؤ ، انہیں علم سکھاؤ اور (علم) سیکھنے کا حکم دو اور جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اس طرح نماز پڑھو ۔17

(3) پڑو سیوں کی ذمہ داری : گھر میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کرنے کے بعد آپﷺ نے آس پاس کے لوگوں پر توجہ دی ۔ آپﷺ نے پڑھے لکھے لوگوں کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو تعلیم دیں ورنہ انہیں دنیا ہی میں سزا دی جائے گی ۔ آپﷺ نے فرمایا :

ما بال أقوام لا یفقهون جیرانهم ولا یعلمونهم ولا یفطنونهم ولا یأمرونهم ولا ینهونهم ۔18

لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو ( پڑوسیوں ) کو نہ دین علم کی تعلیم دیتے ہیں نہ فقہ کی تعلیم دیتے ہیں نہ وعظ کرتے ہیں ، نہ نیکی کا حکم کرتے ہیں اور نہ برائی سے منع کرتے ہیں ۔

(4)نشر علم کے لئے ایک جماعت کاقیام : علاوہ ازیں آپﷺ نے امت مسلمہ میں سے ایک گروہ کی باقاعدہ ذمہ داری لگائی کہ وہ ہر وقت لوگوں کو تعلیم دیتا رہے ۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے :

وما کان المومنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منهم طائفة لیتفقهوا فی الدین ولینذروا قومهم اذا رجعوا الیهم لعلهم یحذرون19

ترجمہ : اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب نکل آئیں ۔ تو یوں کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت سے چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین (کا علم سیکھتے اور اس ) میں سمجھ پیدا کرتے اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آتے تو ان سے ڈر سناتے تاکہ وہ حذر کرتے۔

(5)نسل نو کے لئے تعلیم کا انتظام : آپ نے نسل نو کی تعلیم کی طرف خاص توجہ فرمائی ۔ والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنی اولاد کو زیور علم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کریں ۔20

آپﷺ نے فرمایا : أکرموا أولادکم فأحسنوا أدبهم۔21 مفہوم : اپنی اولاد کو بہترین آداب سکھائیں اور ان کی عزت کرنا سیکھیں۔ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا :

آج کل امن وامان کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ اور سب کو اپنے جسم و جان ،خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیزہے۔امن کاآرزو مند ہو ناانسان کی فطرت میں داخل ہے ،اس لئے ہر وجود امن اور سلامتی چاہتاہے کیونکہ امن و سلامتی معاشرہ،افراد،اقوام اورملکوں کی ترقی و کمال کےلئے انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جا ئزہ لیاجائے تو ان تمام چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعویدار ہے بلکہ قیام امن کو ہر حال یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتاہے۔

نتائج :

1۔قانونی نظام کے ساتھ ایک بڑا تعلق ملک کے تعلیمی نظام کا ہے۔ اگر نظام تعلیم افراد قوم کو مسلمان بنانے والا نہ ہو تو محض قانونی نظام کے نفاذ سے اسلامی معاشرے کی تشکیل کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا ۔ ایسا ہی معاملہ ملک کے معاشی نظام کا ہے ۔ اگر اسے صحیح اسلامی خطوط پر استوار نہ کیا تو اس صورت میں محض قانونی نظام کی اصلاح مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی ۔ اس بنا پر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری پوری معاشرتی زندگی ،اسلام کے مطابق ہو ۔ ہماری حکومت کی نمایاں پالیسیاں اسلام کے مطابق ہوں اور حکومت کے سارے معاملات صحیح اسلامی خطوط پر انجام پائیں ۔

2۔ تعلیم کے حصول کا حق بلا تفریق مذہب و ملت سب کا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ، کسی بھی انسان کے ساتھ تعلیم کا رویہ میں بھید بھاؤ نہیں برتنا چاہئے ، لھذا ہماری مرکز اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کے لئے یکساں تعلیم کے فروغ میں معتدل و متوازن نہیں ہے تو وہ ملک فوزو فلاح کے حصول سے عاری رہےگا کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ ان کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا جانا چاہئے اونچ نیچ اور بھید بھائو کی سیاست سماج میں ابتری اور بے راہ روی کو فروغ دیتی ہے جس کے سبب معاشرہ کا امن تباہ ہوجاتا ہے اور معاشی اعتبار سے بھی ایسے معاشرہ کو کمزور تصور کیا جاتا ہے نتیجا سماج کی یکجہتی ختم ہوجاتی ہے اور نفرت انتشار ، ضکم عدولی جیسے جرائم کا ان پڑھ معاشرہ شکار ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے جو منفی نتائج بر آمد ہوتے ہیں وہ انتہائی ضرر رساں ثابت ہونگے نیز ان منفی افکار و نظریات کی زد میں پوری انسانیت کے آنے کا خطرہ بنا رہے گا جن کا کسی بھی پر امن معاشرے کے لئے تحمل کرنا ممکن نہیں۔ جب تعلیم یافتہ طبقہ ان کی حسرتوں آرزؤں اور تمناؤں کی قدر کریگا تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سماج میں کوئی گھر خاندان اور فردوبشر اپنی بے بسی کا شکوہ نہ کرے گا اور پھر پورا سماج تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوجائے گا ۔

حوالہ جات

  1. خرم جاہ مراد ، احیائے اسلام اور معلم ، اشاعت اول ، اپریل ، 1981 ، سلیم منصور خالد ، میٹرو پرنٹر لاہور ، ص -11
  2. سورۃ البقرہ ، آیت نمبر ـ 129
  3. سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ـ 164
  4. ابن خلدون ص ـ 69
  5. ابن خلدون ، ايضا ، ص _ 70
  6. محمد اشرف ، اسلام اور بنیادی انسانی حقوق ، ناشر پنجاب یونیورسٹی پریس لاہور ، طبع اول 2013ء ، ص -125
  7. سورۃ زلزال ، 99: 7:8
  8. ندوی، سید ابوالحسن ، اسلامی تہذیب و ثقافت ، ناشر ، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ، تاریخ اشاعت ، 2005 ء ، ص- 40،41
  9. یونس ـ 19:10
  10. آل عمران ۔ آیت ،نمبر 19:3
  11. چیمہ، غلام رسول ، اسلام کا عمرانی نظام ، ناشر ، گل فراز احمد علم وعرفان پبلشرز اردو بازار لاہور ، اشاعت سال 2004 ء ،ص ـ 36 سے 37
  12. المائدہ ـ 2:5
  13. آل عمران ، آیت نمبر ، 110:3
  14. ابن ماجہ ، محمد بن یزید ، السنن ابن ماجہ ،جلد اول ، ص ـ81
  15. بخاری ،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح بروایت عبداللہ بن عمر
  16. رب نواز ، آنحضور ص کی تعلیمی جدوجہد، اشاعت 2001ء ،ادارہ تحقیق ، 3ـ بہاول شیر روڈ ، مزنگ ، میٹرو پرنٹر لاھور ، ص ـ 14
  17. بخاری ،محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ' کتاب الادب
  18. الفاسی، محمد بن سلیمان جمع الفوائد من جامع الاصول و مجمع الزوائد جلد اول
  19. سورۃ التوبۃ ، آیت نمبر 122
  20. رب نواز ، آنحضور ﷺ کی تعلیمی جدوجہد ، ص ـ 26
  21. ابن ماجہ ، محمد بن یزید ، الامام ، سنن ابن ماجہ ، کتاب الادب
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...