Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

اسلامی تصوف کے مصادر اور مستشرقین كى آراء کا ایک تجزیاتی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_423

Pages

130-141

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/307/245

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/307

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلامی تصوف کے مصادر اور مستشرقین كى آراء کا ایک تجزیاتی مطالعہ:

فکر اسلامی میں اسلامی تصوف کے مصدر اور ماخذ کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ خصوصا انیسویں صدی کے شروع سے لیکر آج تک مغربی مفکرین میں سے مستشرقین تصوف کے حقیقی مصدر کے متلاشی ہیں۔ اس سلسلے میں متقدمین مستشرقین اسلامی تصوف کو ایک ہی مصدر کی طرف منسوب کرتے ہیں، جبکہ متاخرین متعدد مصادر کی طرف مائل ہیں۔ لیکن ان سب کا خیال ہے کہ تصوف اسلام میں دخیل ہے، باہر سے آیا ہے۔ اسلام سے اس کا تعلق نہیں ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ ایران اور اہل فارس سے ماخوذ ہے، کوئی ہندوستانی ادیان سے متاثر قرار دیتے ہیں۔ کوئی عیسائیت اور یہودیت سے ماخوذ کرتے ہیں اور کوئی افلاطونی فلسفہ سے منسوب کرتے ہیں۔ زىر نظر مقالہ مىں ان سب آراء کا ردّ بھی کریں گے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ تصوف کا اصل مصدر قرآن و حدیث ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی حیاۃ طیبہ ہے۔

نظریہ مصدر فارسی:

مستشرقین میں وہ لوگ جن کا یہ قول ہے کہ تصوف کی اصل فارسی ایرانی ہے، ان میں سے ایک F.A.DThuluk ہے۔ یہ جرمن مستشرق 1821ء میں اپنی کتاب Sufismus sire theologiapanthistiea میں لکھتے ہیں کہ اسلامی تصوف کا اصل مجوسی ہے۔ دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ شمالی ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد اکثر مجوسی اپنی مجوسیت پر بدستور قائم رہے۔ اور تصوف کے اکابرین کی اکثریت شمالی ایران، خراسان میں سے نکلے۔ ساتھ ہی تصوف کے اکثر بانی مجوسی الاصل تھے، جیسے معروف کرخی اور ابو یزید البسطامی وغیرہ[1]۔

جب کہ ہالینڈ کے مستشرقDozy اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تصوف مسلمانوں کی طرف فارس سے آیا ہے اور فارس میں اسلام سے پہلے ہند سے آیا تھا۔ ڈوزی کے نزدیک فارس میں ایک نظریہ عرصۂ دراز سے آرہا ہے کہ " ہر چیز کا صدور اللہ کی طرف سے ہے اور عالم کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے اور موجود حقیقی صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے"۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو اسلامی تصوف سے ٹپکتے ہیں[2]۔

جواب:

تصوف معروف کرخی اور بایزید بسطامی کے مرہون منت نہیں ہے اور نہ سارا تصوف ان ہی حضرات کی وجہ سے پھیلا، بلکہ اس میں مغرب عربی اور مصر کا خاص عمل دخل ہے، جیسے ذوالنون مصری، ابو سلیمان الدارانی اور حارث المحاسبی وغیرہ۔ اور یہ جو نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ عالم کا فی ذاتہ کوئی وجود نہیں ہے اور موجود حقیقی رب ذوالجلال کی ذات ہے۔ اگر اس کا اشارہ تصوف میں وحدۃ الوجود کی طرف ہے، تو یہ نظریہ تصوف کے آخری چھٹی صدی میں آیا اور اسلام کے تمام صوفیاء کا یہ مذہب اور مسلک نہیں ہے۔

Thonlk کے نظریے پر ایک مستشرق Arberry خود ردّ کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ اس کا یہ نظریہ جدید تحقیق کے اصولوں کے منافی ہے، اور ایک فضول بحث چھیڑی ہے[3]۔ پھر ایک جگہ خودThonlk گواہی دیتا ہے کہ تصوف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی زندگی ہی کا خلاصہ ہے[4]۔

اور مستشرقR.A Nichoeson لکھتے ہیں کہ علم الکلام، فقہ اور تصوف کی اوّل بنیاد اور اساس قرآن کریم اور سنت ہی ہے[5]۔

نظریہ مصدر ہندی:

بعض مستشرقین کی رائے یہ ہے کہ اسلامی تصوف کا ماخذ ہندی ثقافت ہے ،اور یہ اسلامی ثقافت میں ایسا گھس گیا ہے جیسا کہ بعض ہندی عادات اور رسم و رواج داخل ہوا ہے۔ یہ لوگ اسلامی تصوف کے بعض نظریات اور وظائف عملیہ کو ہندی تصوف کے متشابہ قرار دیتے ہیں جیسے ہندی مذاہب میں زہد اور ذکر و فکر کے طریقے، معرفت، فناء اور وحدۃ الوجود جیسے مسائل میں ایک گونہ یکسانیت ہے۔

ان مستشرقین میں Hortman, Max Horten, اور A.Von Cremer قابل ذکر ہیں۔ Horten کا یہ نظریہ ہے کہ اسلامی تصوف کے اصول و ضوابط ہندی فکر سے ماخوذ ہیں[6]۔

ڈاکٹر ابو العلاء عفیفی لکھتے ہیں کہ ہورٹن نے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس سلسلے میں اس نے 1927ء اور 1928ء میں دو مقالے بھی لکھے ہیں۔ اس میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابویزید بسطامی و حلّاج او ر جنید بغدادی کا تصوف ہندی افکار سے بھری تھی۔ خصوصامنصور حلّاج کے نظریات پر زیادہ تر چھاپ ہندی افکار ہی کا تھا۔ اور ساتھ ہی اس نے تصوف کے بعض فارسی اصطلاحات کے تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اسلامی تصوف بعینہ ہندی ویدی مذہب ہے[7]۔

اسی طرح دلائل میں یہ پیش کرتے ہیں کہ:

  1. ابتدائی اکثرمشائخ صوفیہ غیر عربی تھے، جیسے ابراہیم بن ادہم، شقیق بلخی، ابو یزید بسطامی اور یحیی بن معاذ الرازی۔
  2. یہ کہ تصوف اسلامی پہلے پہل خراسان میں ظاہر ہوا اور پھیلا۔
  3. یہ کہ ترکستان فتح اسلامی سے پہلے مشرقی اور مغربی دنیا کا ایک دینی اور ثقافتی مرکز تھا۔ جب اس کے باشندے اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے قدیم صوفی عادات و نظریات کے رنگ سے اسلامی تصوف کو رنگ کردیا۔
  4. یہ کہ مسلمان خود بھی ہندی اثرات و نظریات کے اختلاط کے معترف ہیں[8]۔

اسی طرح Richerd Hortman کا قول Arberryنقل کرتے ہیں کہ صوفی ابو علی سندی، ابویزید البسطامی کے استاذ رہے ہیں اور یہ صاف ظاہر ہے کہ تصوف کا اصل ہندی ہے[9]۔

الفریڈ ون کریمر کی رائے ىہ ہے کہ تصوف میں دو عناصر پائے جاتے ہیں ایک عیسائی رہبانیت والا اور دوسرا ہندی بدھ مت والا، جو کہ حارث المحاسبی، ذوالنون مصری وغیرہ میں پائے جاتے ہیں[10]۔

جوابات:

Max Horten کے رد میں مستشرقہ A. Schimmel لکھتی ہیں کہMax Hortenنے تصوف کو ہندی مصدر قرار دینے کے لئے جو دلائل دیئے ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں اور اس جیسے دعوی کرنے کے لئے یہ دلائل ناکافی ہیں[11]۔ جبکہArberry کہتے ہیں کہ Max Horten جیسے آدمی کے علاوہ کسی اور نے تصوف کو ہندی مصدر قرار دینے کی کوشش نہیں کی، لیکن اس کے دلائل کا جو طریقۂ کار ہے یا اس نے جو استنباطات کیے ہیں وہ خود اپنے دعوی کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کا مقصد اور طرز بیان جدلی ہے۔ جبکہ ماسنیون نے حلّاج کو موحد (Monotheist) قرار دیا ہے[12]۔

اسی طرح مستشرق Brown اپنی کتاب "تاریخ ادب فارسی" میں Horten کے تشابہات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ سطحی دلائل پیش کیے ہیں اور حقىقت سے بالکل خالی ہیں[13]۔ جبکہ اسلامی تصوف پر ہندی ، بوذی اثرات کے فقدان کے بارے میں کہتا ہے کہ تصوف اور بدھ مت کے تعلیمات میں بہت جوہری اختلاف ہے۔ اگرچہ بدھ مت کے نروانا اور تصوف کے فناء میں ایک گونہ سرسری مشابہت ہے، لیکن طریقۂ کار اور مقصد میں دونوں ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ جبکہ وحدۃالوجود اور ویدوں کے تعلیمات میں مشابہت اور طریقۂ کار میں اتفاق بہت ہے[14]۔

Von Cremer کی رد میں Margrat Smithتعجب کا اظہار کرتی ہے کہ حارث المحاسبی جیسی شخصیت کو بھی Von Cremer نے بدھ مت سے متاثر قرار دیا ہے۔ یہ کہتی ہیں کہ حارث المحاسبی نے تو غزالی سے پہلے اہل سنت و جماعت میں تصوف کو اسلام میں ایک اعلی مقام دیا تھا۔ اور حارث المحاسبی نے جو افکار پیش کئے تھے وہ عرب و عجم (فارس) دونوں کے لئے قابل قبول تھے۔ اس نے تو تصوف کے اوّل اور بنیادی مآخذ کو قرآن کریم و سنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا تھا۔

"His first and chief authority for any doctrine is the Quran, the word of God and his second the Sunnah, the canonical law embodying the traditions of Muhammad[15].”

اسی طرح نیکلسون (Nicholson) اپنی کتاب میں اسلامی تصوف کے مصدر کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ:

"A part from the fact that Sufism like every other religions movement in Islam, has its roots in the Quran and Sunnah and cannot be understand unless we study it from the source upwards[16]."

ترجمه:

"درحقیقت تصوف اسلام کے دیگر دینی تحریکات کی طرح اس کی جڑیں اور مآخذ قرآن و سنت سے جڑى ہىں۔ اور اس کی حقیقت کوسمجھنے سے ہم اس وقت تک قاصر رہیں گے جب تک ہم اس کے بنیادی مصادر تک رسائی نہ کریں۔"

اور اس لئے دیوان شمس تبریز کے ترجمہ کے مقدمہ میں یہ بات بھى قابل ذکر ہے کہ:

"The identity of two beliefs does not prove that one is generated by the other, they may be the result of a like cause[17]."

دو عقیدوں کے درمیان مشابہت اور مماثلت اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے متاثر ہیں ۔ ہو سکتا ہے دونوں کے سبب مشترک کا نتیجہ ہو۔

دوسرے مستشرقین جو تصوف کے ہندی اثرات کے بارے میں خیال کرتے ہیں، ان کے دلائل میں کوئی وزن نہیں ہے اور زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ یہ البیرونی کی بات کرتے ہیں تو ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی 440ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ اس نے اس وقت یہ کتاب لکھی تھی کہ جب تصوف اسلامی تصور اور مصادر سے مزین تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کتاب میں یا اس سے پہلے یا بعد میں کوئی تاریخی سند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا ہندی، بوذی افکار کا کوئی تبادلہ رہا ہو۔

نظریہ مصدر یونانی:

مستشرقین کا ایک گروہ اس بات کے قائل ہے کہ تصوف اسلامی یونانی تصوف کی ایک خاص قسم ہے۔ وہ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اسلامی تصوف کو بعض افکار - بقول ان کے- قدیم اور جدید افلاطونی فلسفہ سے ملتے جلتے ہیں۔

جیسا کہ E. H Whinfield کا بیان ہے کہ نو افلاطونیت میں اشراقی باطنی فلسفہ میں اور تصوف کے الہام اور کشف میں ایک گونہ مشابہت اور مماثلت ہے، جو ایک واضح ثبوت ہے کہ صوفیاء نوافلاطونیت سے متاثر ہیں[18]۔

مصر کے تصوف کے بڑے بڑے علماء جیسے ابوالعلاء عفیفی، ڈاکٹر محمد مصطفی حلمی اور شیخ المشایخ ابوالوفاء التفتازانی اس بات پر متفق ہیں کہ تصوف میں بعض مصطلحات اسلام میں دخیل ہیں جو یونانی فلسفہ سے عمومی طور پر اور افلاطونی فلسفہ سے خصوصی طور پر بذریعۂ ترجمہ مسلمانوں کے اندر آئے ہىں جو کہ ابن ناعم نے کتاب "اوثولوجیا ارسطاطالیس" کا ترجمہ کرکے مسلمانوں کو پیش کیا تھا کہ ارسطو نے افلاطون کے تاسوعات سے اقتباس لیا ہے اوراس سے لاہوتی مذہب نکلا ہے۔

ڈاکٹر محمد مصطفی حلمی رقمطراز ہیں کہ "اتولوجیا ارسطو" جو نو افلاطونیت کی کتاب ہے، میں مذکور ہےکہ حقیقت علوی کا ادراک فکر سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا ادراک نفس اور عالم محسوس سے فناء اور مجرد ہو کر مشاہدہ سے کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کی گنجائش فلسفی صوفیاء کے کلام میں بھی معرفت کے باب میں موجود ہےکہ حس اور عقل سے معرفت حقیقی کا حصول ناممکن ہے۔ بلکہ اس کا حصول تب ہوتا ہے جب بندہ نفس کو ترک کرے اور اللہ تعالی اس کے دل میں نور ڈال دے اور وہ ذات الہی میں ایسا مستغرق ہو کہ فرق بالکل ختم کردے۔ پس ثابت ہوا کہ معرفت کے حصول کے طریقہ میں دونوں مکاتب فکر میں مشابہت ہے۔ اسی طرح مسلم صوفیاء ، دلف ٹیمپل (معبد) میں لکھے ہوئے اس یونانی عبارت سے بھی واقف ہوں گے کہ"اپنے نفس کو خود جان لو"۔ صوفیاء نے اس عبارت کو پہچان لیا اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب اس قول "جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا کے زمرے مىں لىا"۔ اسی طرح فلسفی صوفیاء کے وضع کردہ بعض اصطلاحات جیسے کلمہ، عقل اوّل، علت اور معلول، فیض وجد، وحدت اور کثرت جیسے الفاظ کا استعمال تاثیر کی ایک واضح دلیل ہے[19]۔

لیکن یہ تاثیر اسلامی تصوف پر بہت کم درجے تک محدود رہا۔ جو عقل فعال اور نفس کو بدن سے مجرد کرکے اوپر مخلوق کے ساتھ اتصال وغیرہ جیسے باتیں کرنے والے اس تاثیر کی زد میں آئے تھے۔ لیکن اس کے علاوہ معرفت کی باتیں کرنے والوں کا مصدر خالص اسلامی ہے۔ جو قرآن و حدیث میں اس کے نمونے ملتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن کے تصوف پر یہ اثرات تھے وہ چھٹے صدی ہجری کے چند لوگ تھے۔ اس سے پہلے تصوف اپنے خالص اسلامی رنگ میں مضبوط بنیادوں پر استوار ہوا تھا[20]۔

نظریہ مصدر نصرانی مسیحی:

اس نظریے کے حامل مستشرقین میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔ Von kremer ،Neoldeke،Wensinck ، Gold Ziher، Asian Palacies،Andrae ،Q Leary ،JolianBalie اور جبGibbوغیرہ شامل ہیں۔

ان میں سے ہر ایک نے اس نظریہ کی حمایت میں مختلف دلیلیں پیش کی ہیں جس کا خلاصہ مصر کے محقق ڈاکٹر عبدالرحمن بدوی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کیا ہے[21]۔

  1. اسلامی تصوف اور مسیحی تصوف میں ظاہری لباس میں مشابہت، جیسے خرقہ (جبّہ) کا استعمال، جس طرح مسیحی راہب اپنے شانوں پر کپڑا ڈالتا ہے۔ اسی طرح اون کا استعمال اور اس کے کپڑے کو تصوف کی نشانی سمجھنا۔
  2. چند امور میں فکری مشابہت جیسے نفس کی محاسبہ کرنا۔
  3. اسلامی تصوف میں بعض آرامی اور سریانی زبان کے الفاظ استعمال کرنا، جیسے لاہوت، ناسوت، رحموت، رہبوت، ربانی اور روحانی وغیرہ۔
  4. مسلمانوں اور عرب نصرانیوں کے درمیان حیرہ، کوفہ، دمشق اور نجران وغیرہ علاقوں میں اختلاط۔
  5. متقدمین صوفیاء کی بعض روایتیں جو وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

اس سلسلے میں Von kremer نے اپنی کتاب "اسلام کے چیدہ چیدہ اذکار کی تاریخ" (Geschichle der herrschundendeen des Islam) میں اسلامی تصوف کی تاریخ و تدوین پر پہلی مرتبہ علمی اور تحقیقی کوشش کی۔ اس میں کریمر نے اپنا یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ اسلامی تصوف دو مختلف عناصر کا مجموعہ ہے۔ ایک عنصر مسیحی رہبانیت والا اور دوسرا ہندی بدھ مت والا۔ اور یہ دونوں عناصر تصوف کے بڑے مشائخ جیسے حارث المحاسبی، ذوالنون مصری، ابویزید البسطامی اور جنید بغدادی کی زندگی میں ملتے ہیں۔ اور ہندی بدھ مت کا عنصر نظریۂ وحدۃ الوجود کا تصوف اور اہل تصوف میں موجود ہونا ہے[22]۔

اسی طرح گولڈ زیہر (A. Gold Ziher) نے بھی تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک زہد او ر دوسرا تصوف۔ اس کے نزدیک زہد کا روح اسلامی اور اہل السنۃ و الجماعۃکے مذہب سے ایک مضبوط رشتہ ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بعثت کے اثرات کا نتیجہ تھا۔ جو کہ عین رہبانیت ہے۔

اس کے ساتھ گولڈ زیہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زہد میں غلو کی ممانعت والی احادیث کا بھی ذکر کرتا ہے۔ جو صوم دہر اور عبادت کی خاطر مسلسل جاگنا اور ازدواجی زندگی سے دور رہنا وغیرہ پر مشتمل ہیں[23]۔

ایک اور مستشرقHamillon A. R. Gibb بھی کہتا ہے کہ تصوف اسلامی، مسیحی تصوف اور گینوسزم (Genostism) سے گہرا اثر لیا ہوا ہے[24]۔

اسی طرح Nicholoson اپنے ایک مقالہ Muslim Asceticism جو کہ 1909ء میں انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اىنڈ ايتهكسEncy. Of religion and ethics میں شائع ہوا تھا، میں حد درجہ کوشش کی ہے کہ یہ ثابت کرے کہ اسلامی تصوف اور زہد اسلامی ، مسیحیت سے ماخوذ ہے۔

ایک اور مستشرق Julian Balick کے نزدیک جب مسلمانوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نیا دین قبول کیا تو مسلمانوں نے مسیحیوں سے روابط تیز کیں اور ان سے تصوف بھی لے لیا[25]۔

اسی طرح لفظ "صوفی" بھی مسیحیت سے لیا ہوا ہے۔ کیونکہ یہ "صوف" (اون) سے مشتق ہے، جو کہ مسیحی راہب صوف سے کپڑے بنا کرپہنتے تھے۔ جس کو متقدمین مسلمانوں نے لے لیا۔ اسی طرح جبّہ"خرقہ" کا استعمال جو کہ صوفیاء استعمال کرتے ہیں، اسلام سے پہلے مسیحیت میں یہ موجود تھا[26]۔

جوابات:

Balick پر مستشرق تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مذہبی تعصب کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ اس نے علمی امانت کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح الزامات لگائے ہیں[27]۔

"It is not so much honest scholarship, as the worst form of the sectarian bigotry."

رہی یہ بات کہ عربوں کااسلام سے پہلے اور بعد میں نصاری کے ساتھ روابط تھے۔ اگرچہ جزیرۃ العرب میں موجود نصاری کے مختلف فرقے موجود تھے جو مختلف ثقافات اور افکار سے متاثر تھے۔ لیکن مسلمانوں کا ان سے کسی قسم کی روحانی زندگی کے لئے ہدایات اور ارشادات طلب کرنا خلاف عقل اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے پاس خود روحانیت کا ایک وافر ذخیرہ موجود ہے۔ یعنی قرآن کریم ہدایت اور نور کا سرچشمہ ہے۔ اس کی شب و روز کی تلاوت اور اس کی آیات میں غور و فکر اور حکمت و اسرار اور روحانیات کے چشموں سے سیرابی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث جو زہد اور نفس کے ساتھ مجاہدہ اور اللہ تعالی سے محبت سے بھرپور گلدستے کى صورت مىں موجود ہىں۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی زہد اور تقوی کا ایک مثالی نمونہ تھا۔ تو پھر دوسروں سے ماخوذ کرنا، سمجھ سے باہر ہے۔

اس لئے مستشرقین آپس میں بھی ایک رائے پر متفق نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ بعض مستشرقین کا تو اپنی آراء میں بھی تضاد ہے۔ تصوف پر سب سے زیادہ کام کرنے والے مستشرقین ماسینیون اور نکلسون ہیں، وہ بھی اس طرف مائل ہیں کہ تصوف اسلامی کسی اجنبی مصدر سے ماخوذ نہیں ہے۔ کبھی کبھی اشارہ دیتے ہیں کہ فلاں مصدر سے مشابہت رکھتا ہے، لیکن بعد میں دوسری جگہوں پر اپنی قول سے رجوع کرتے ہیں۔

باقی یہ بات کہ مسیحی راہبوں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات ، تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر یہ تعلقات ثابت بھی ہو جائیں تو یہ قرآنی تعلیمات کے منافی نہیں ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آَمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ [28]۔

ترجمه: اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے.

اگر ہم بنظر غائر قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے جوہر کا مطالعہ کریں، تو ہمیں روز روشن کی طرح عیاں ہوگا کہ زہد، مجاہدۃ النفس اور دنیا کی شہوتوں اور لذتوں سے دور رکھنے کی واضح مصادر قرآن کریم اور احادیث نبویہ ہیں۔

مثال کے طور پر قرآن کریم کی ایک آیت:

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآَخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ.[29]۔

ترجمه: جان لو! دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (و آرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال و اولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب وخواہش ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ(پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کیلئے) عذاب شدید اور (مومنوں کیلئے) اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔

اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ جو زہد کا مجسم پیکر تھے.

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اتنی کثیر عبادت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک میں ورم آ جاتا۔ اتنی کثیر عبادت کے باعث صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اتنی مشقت کیوں فرماتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بخشش کا وعدہ فرما رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔[30]

ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے اور فرمایا : دیکھو یہ مردار اس درجہ ذلیل و خوار ہے کہ کوئی بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس مردار سے بھی زیادہ ذلیل و خوار ہے۔ فرمایا : دنیا کی صحبت تمام گناہوں کی سردار ہے، دنیا برباد شدہ لوگوں کا گھر اور مفلسوں کا مال ہے۔ [31]

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ جو کی روٹی پکائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ فاطمہ یہ کیا ہے؟حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ۔ ابا جان آج میں نے یہ جو کی روٹی بنائی تو میرا دل نہ کیا کہ اکیلی کھاؤں اس لئے آپ کی خدمت میں لے کر آئی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ توڑا اور فرمانے لگے بیٹی یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے والد نے تین دن بعد کھایا ہے اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تین دن سے اس پیٹ میں ایک لقمہ بھی نہیں گیا.[32]

حضرت ابن مسعود بیان فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چٹائی پر آرام کیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر کچھ نشانات آگئے، ابن مسعودؓ سے رہا نہ گیا وہ بول پڑے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں نرم چٹائی بچھادوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے دنیا کی کیا ضرورت ؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو گرماں کے زمانے میں سفر کررہا ہو اور تھوڑی دیر کے لیے درخت کے سائے میں آرام کیا اور چل دیا، اسی طرح کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے اس وقت بھی مروی ہیں جب حضرت عائشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نرم بستر بچھادیا تھا.[33]

اسی کو مولانا مناظر أحسن گیلانی نے بڑے عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا:

" کہ خاک کے فرش کے سوا جس کے پاس کوئی فرش نہ تھا، وہ اگر خاک پے سویا تو کیا خاک سویا، جو تخت پر سوسکتا تھا وہ مٹی پر سویا تو اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں."[34]

اسی طرح صحابہ کرام کی اپنی زندگی زہد اور تقوی سے بھری پڑی ہوئی ہے۔ ہاں اگر بعد میں مسلمانوں نے کسی اور مذاہب سے کچھ چیز یں اپنی تصوف میں مختلط کئے ہوں تو یہ اسلام کے ابتدائی چھ صدیوں کے بعد کا ہوگا۔ اور اس وقت ہوگا جب اسلام نے تصوف حقیقی کی ایک شاندار عمارت مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھمایا ہو۔

حوالہ جات

  1. : ماخوذ از کتاب ، مقدمۃ کتاب فی التصوف الاسلامی، ص - ھ - طبع لجنۃ التالیف و النشر قاہرہ
  2. : مدخل الی التصوف، ص 26
  3. : Arberry, An introduction to the history of Sufism, P- 32
  4. : دیکھئے ابحاث فی التصوف علی المنقذ من الضلال للغزالی، ڈاکٹر عبد الحلیم محمود، ص 95
  5. : R.A.Niehasson, The Idea of personality in Sufism, PP- 8- 9. Lahore. 1964
  6. : مدخل الی التصوف الاسلامی، د/ ابو الوفاء التفتازانی، ص 28
  7. : مقدمة فی التصوف الاسلامی، د/ ابو العلاء عفیفی، ص- ح
  8. : ایضا، ص - ط
  9. : Arberry, An introduction to the history of Sufism, P- 34
  10. : فصول فی التصوف، دکتور حسن الشافعی، ص 60
  11. : Mystical Dimension of Islam, P- 33
  12. : Arberry, An introduction to the history of Sufism, P- 31
  13. : مقدمة فی التصوف الاسلامی، د/ ابو العلاء عفیفی، ص- ح/ ط۔ و مدخل الی التصوف الاسلامی، د/ ابو الوفاء التفتازانی، ص 31
  14. : الفکر العربی ومکانتہ فی التاریخ- اولیری- (ترجمہ: د/ تمام حسان، مراجعہ: د/ مجمد مصطفی حلمی، ص: 199- 200، ط۔ ملتزم الطبع و النشر عالم الکتب القاہرۃ۔ مطبعۃ مخیمر 1962
  15. Margarat Smith. Al-Muhasabi; An early Mysthic of Baghdad. :
  16. Nicolson. The idea of personality in Sufism. Lahore 1964. P-4 :
  17. Nicolson. Selected poems from the Diwani Shams Tabtes. Cambridge. 1898.
  18. : E. H Whinfield, Gulshan-i-Raz, London, 1980. PP- VI,VII
  19. : الحیاة الروحیة فی الاسلام، د/ محمد مصطفی حلمی، ص 57- 58
  20. : ایضا، ص 61
  21. : ڈاکٹر عبدالرحمن بدوی، تاریخ التصوف الاسلامی، ص 33- 34، طبع ، وکالة المطبوعات کویت، 1970ء
  22. : الدکتور ابوالعلاء عفیفی، اسلامی تصوف اور اس کی تاریخ (نیکلسون کی کتاب)، مقدمہ، ص - ھ، و-- ط/ لجنۃ التالیف و الترجمہ و النشر بالقاھرۃ 1956ء
  23. : گولڈ زیہر، اسلام میں عقیدت اور شریعت، ص 129- 141 (ماخوذ)
  24. : Studies on the civilization of Islam. Ed by Stanford Show and William Polk. P- 208, Lahore 1987. See also: The structure of religious thoughts in Islam (The Muslin world) 1948
  25. : J. Balick, Mystical Islam; An introduction to Sufism I.B, Tauris, London, 1989, P- 9
  26. : ایضا : ص 10- 15 (متفرق)
  27. : A.J. Arberry; An introduction to the history of Sufism. 1942, P- 33
  28. : المائده: 82-83
  29. : الحديد: 3
  30. : بخاری، الصحيح : 207، رقم : 1130، کتاب التهجد، باب قيام النبی صلی الله عليه وآله وسلم حتی ترم قد ماه
  31. : ترمذی، الجامع : 635 رقم : 2321، کتاب الزهد، باب ما جاء فی هوان الدنيا علی اﷲ عزوجل
  32. : حیاتہ الصحابہ از مولانا محمد يوسف كامدهلوي :ج 1 ص 212
  33. : الوفاء باحوال المصطفیٰ از ابن الجوزي: ص:2/475 بیروت)
  34. : النبی الخاتم: از مولانا مناظر أحسن گیلانی ص: 52 مكتبه أخوت لاهور
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...