Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

اسلام اور جین مت میں طہارت کا تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_410

Pages

192-209

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/205/195

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/205

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

اللہ تعالیٰ نے جب سے اس دنیا کو وجود بخشا اس میں ضروریات مہیا کیں۔ انسان کو اس کا مکین بنایا اور اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور سلیقہ سکھایا چنانچہ آج تک دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان آباد ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین یا دھرم اور مذہب سے ہو ، بہرحال اس کا اپناایک طرز معاشرت ہے جسے وہ شدت کے ساتھ اختیار کیا ہو ا ہے اور لغوی معنی کے اعتبار سے یہی مفہوم مذہب کا ہے کیونکہ ’’مذہب‘‘ اسم ظرف کا صیغہ ہے اور مصدر میمی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی چلنے کی جگہ یا چلنے کا راستہ وغیرہ اور اصطلاحی طور پر مذہب کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ جن اصول و قواعد پر چل کر زندگی گزاری جا سکے ان اصولوں کو’’ مذہب‘‘ کہا جاتا ہے۔

مذہب کے اس تناظر میں بعض ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جن کا کوئی نظریہ اور مذہب نہیں۔ انہیں دھریہ کہا جاتا ہے۔ تاہم دھریہ کی یہ ’’تعریف‘‘ جو خدا ور پیغمبر خدا کا منکر ہو جامع ہے۔ کیونکہ ہر انسان اپنے اپنے طرز پر زندگی گزار رہا ہے۔ اور اس نے اپنی زندگی کے لئے خاص نہج کو منتخب کر رکھا ہے اور اسی کو مذہب کہتے ہیں۔ زیر نظرمقالہ میں اسلام اور جین مت کے درمیان فلسفہ صفائی کا تقابلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ دنیا کو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے کہ دنیا میں اسلام ایک ایسا دین ہے کہ صفائی کے حوالےسے جین مت مذہب اسلام کے قریب نہیں بھٹک سکتا ۔ تقابل تو درکنار۔

اس سے جہاں اسلام کی عظمت و اہمیت اجاگر ہو گی وہیں دورحاضر کے خوشنما ،جاذب نظر اور پر کشش نعروں کی حقیقت بھی واضح ہو سکے گی۔

جین ازم کا تعارف :

’’ جین‘‘ کالفظ ’’جنا‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’فاتح اور غالب‘‘ ۔ یہ لوگ اپنے زعم میں اپنی خواہشات پر غالب آچکے ہیں۔ اس لئے یہ اپنے آپ کو ’’جینی‘‘ کہتے ہیں۔ جین مت کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ جین مذہب ایک قدیم ازلی اور ابدی مذہب ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے۔ اس میں چوبیس راہنما گزرے ہیں جن کی عمریں ناقابل ترین حدتک طویل تھیں۔ ان میں سب سے پہلا مصلح آدمی ناتھ اور سب سے آخری مصلح پرسوناتھ تھا۔ یہ تمام راہنما چھتری گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ موجودہ جین مت کا بانی ’’مہابیر یا مہاویر‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاویر کی پیدائش ’’پرسوناتھ ‘‘ سے ڈھائی سو سال بعد ۵۴۰ق م کو ہوئی۔ اُن کے عقیدے کے مطابق اِس دور میں مہاویر کے بعد اب کوئی راہنما نہیں آئے گا۔ تاریخی اعتبار سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے کہ جین مذہب کے بانی مہاویر نہیں تھے بلکہ پہلے سے یہ مذہبی روایت ہندوستان میں چلی آ رہی تھیں[1]۔

مہاویر کاتعارف:

مہاویر جین کی پیدائش ۴۸۶ ق م کو مشرقی ہندوستان کےمشہور شہر دیسائی کی ایک نواحی بستی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام سدھارتھ اور والدہ کا نام ترسالہ تھا۔ ان کی والدہ ایک کھشتری خاتون تھیں جو ویسامی اور مگدھ کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ سوتیا مبر یعنی سفید پوش جینیوں کی روایات کے مطابق اس نے ایک شہزادی ’’ایشووما‘‘ سے شادی کی تھی اُس وقت آپ کی عمر انیس سال تھی۔ دس سال تک نہات خوشگوار زندگی بسر کرتا رہا۔ جب تیس سال کی عمر میں قدم رکھا تو دنیا ترک کر دی اور پرسوناتھ کا مسلک اختیار کیا۔ بارہ سال مکمل برہنگی اور فقروفاقہ کی حالت میں راہبانہ زندگی بسر کی تقریباً چھ سال تک وہ ایک بھگشو’’گوسالہ‘‘ کی معیت میں رہا۔ لیکن گوسالہ نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہوا چھ سال مزید ریاضتیں کرتے ہوئے نجات کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا۔ تیرھویں سال کو دریائے چوپالگا کے کنارے اپنی ریاضت سے کامیابی حاصل کی اور بیالیس کی عمر میں وہ ایک نئے مذہب کے راہنما بن گئے مہاویر نے بہتر سال کی عمر میں ۵۴۰ق م کو وفات پائی۔ اس اعداد وشمارسے یہ معلوم ہوتاہے کہ مہاویر گوتم بدھ کے ہم عصر تھے[2]۔

جین مت میں نجات کے ذرائع:

جین مت میں سب سے اہم مسٔلہ نروان اور اطمینان قلبی کا حصول ہے کیوں کہ جس وقت مہاویر پیدا ہوا اس وقت سب سے بڑا مسٔلہ یہی تھا لہٰذا مہاویر نے اس کے لیے دو طریقے ایجاد کیے جن میں سے ایک طریقہ ایجابی ہے اور دوسرا سلبی ۔سلبی طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل سے ہر قسم کی تمنا اور خواہشات نکال پھینکے جب خواہشات نکل جائیں تو روح مسرت اور شادمانی سے ہم آ غوش ہو جائے گی یہی مسرت ’’نروان‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ تمام پریشانیوں کا سر چشمہ انسانی خواہشات ہیں جو غیر محدود اور غیر متناہی ہیں جب خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ غم سے دوچار ہوتا ہے۔ جب خواہشات اور تمنائیں نہ ہوںگی تو روح کو اطمینان حاصل ہو گا۔

جین مت میں حصول نروان کا ایجابی طریقہ یہ ہے کہ انسان کے عقائد، علم اور عمل درست ہوں انہیں تین رتن کہا جاتاہے اعمال کی درستگی کا دارومدار پانچ اصولوں پر ہے۔ اور ان پانچ اصولوں کو جینی مذہب میں بنیادی اہمیت حاصل ہے جن کی تفصیل یہ ہے[3]:

الف۔اہمسہ:

کسی ذی روح کو قتل نہ کیا جائے اور کسی کو زبان یا ہاتھ وغیر ہ سے تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ اہمسہ کو جین مت میں بنیادی اور مرکزی ستون گردانا جاتا ہے۔

ب۔ استیام:

چوری سے پرہیز کرنا چاہے حلال روزی کمائی جائے دوسروں کے اموال کو نا جائز طریقے سے حاصل کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔

ج۔ستیام:

جھوٹ فحش گفتگو سے باز رہنا چاہئے اور ہمیشہ راستی کو اپنا شعار بنایا جائے۔

د۔پرہمچا ریام:

عفت و عصمت اور پاکبازی کی زندگی بسر کی جائے۔

س۔اپری گراہہ:

دنیا سے بے رغبتی ، لذات مادی اور حواس خمسہ پر غلبہ ہونا چاہئے۔

جین مت میں نجات اور نروان کے حصول کیلئے اور بھی بہت سے اصول اور قوانین ہیں جو جین مت کےمطابق ہر ’’نجات‘‘ کے خواہشمند کیلئے لازمی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ فرد کی پوری زندگی ایک بہت سخت ڈسپلن کاتابع ہوتا ہے ۔ ادھر تمام لوگ خواہشات کی نفی کے اعلیٰ ترین معیار کیلئے فوراً تیار نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے انہوں نے ایسے لوگوں کو یہ آسانی دی ہے کہ وہ مکمل ترک دنیا نہ کرتے ہوئے گھر بار والی سماجی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور ہلکی سے شکل قوانین و ضوابط کا ماننا کافی ہوگا[4]۔

جین ازم میں صفائی کا فلسفہ:

طہارت و صفائی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ظاہری طہارت یعنی کسی چیز کے ظاہر کا صاف ہونا مثلاً جسم کا ظاہر گندگی ، بدبو اور میل کچیل وغیرہ سے پاک و صاف ہونا۔ دوسری باطنی طہارت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کا نظر نہ آنے والا حصہ مثلاً انسان کا دل و نفس وغیرہ کو مادیت کی محبت اور اخلاق رذیلہ وغیرہ سے پاک وصاف کرنا۔ جین مت کی تعلیمات کے مطابق روح وذہن کی صفائی یعنی باطنی طہارت تو حاصل ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اصولِ خمسہ( اہمسہ، ستیام، استیام، برہمچاری،اوراپری گراہہ) خصوصاً اہمسہ قانون کے مطابق کسی ذی روح کو قتل کرنا، نقصان پہنچانا اور تشدد کرنا جائز نہیں اس لئے انہوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے منہ اور ناک کے نتھنوں پر کپڑا باندھے رکھتے ہیں تاکہ کوئی جاندار چیز اندر نہ جاکر مر جائے[5]پانی چھان کر پیتے ہیں۔ گوشت نہیں کھاتے کیونکہ گوشت کھانے کیلئے جانور کو مارنا ہوگا اور یہ ان کے نزدیک جائز نہیں۔ اس لئے یہ لوگ قصاب کا پیشہ اختیار نہیں کر سکتے ۔ اور نہ جانوروں اورمچھلیوں وغیرہ کا شکار کرسکتے ہیں[6]۔کارپینٹری پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں[7]۔چراغ وغیرہ نہیں جلاتے تاکہ کوئی ذی روح نہ مرجائے۔ اسی طرح صابن ، شیمپو اور کاسمیٹکس وغیرہ جس میں حیوانات کی چربی وغیرہ استعمال ہوئی ہو ان کا استعمال کرنا بھی جائز نہیں۔ چمڑے کی مصنوعات استعمال کرنا جائز نہیں اگر استعمال کرنا ہو تو وہ بھی قدرتی طور پر مردہ جانور کے چمڑے کو استعمال کرنا ہوگا[8]۔بھٹی کے کام سے اس لئے دور رہتے ہیں تاکہ غیر مرئی حشرات کے ہلاکت کا سبب نہ بنے[9]پانی نہیں ابالتے ۔دانتوں کو صاف نہیں کرتے کیونکہ اس سے جراثیم مرنے کا خطرہ ہے ۔نیز زمین پر سونا اور اپنے بالوں کا کاٹنا ہوگا جب کہ دگمبرفرقے والوں کا خیال ہے کہ جب لوگ دریا میں کپڑے دھوتے ہیں تو اس میں جاندار وغیرہ کے مرنے کا خطرہ ہے اور سوتیامبر فرقے کا عقیدہ ہے کہ کپڑوں کی صفائی سے زیادہ ذہن کی صفائی کی ضرو رت ہے [10]نیز چلتے وقت اپنے ساتھ ایک جھاڑو بھی رکھتے ہیں جس کے ذریعے اس جگہ کو صاف کرتے ہیں جہاں وہ قدم رکھتے ہوں ۔ یا بیٹھتے ہوں ۔ یا کسی چیز کو رکھنا ہو تاکہ کوئی چھوٹا سے چھوٹا کیڑا بھی دب کر نہ مرجائے اور سادھو جان لینے کے عظیم گنا ہ کامرتکب نہ ہوجائے[11]سادھووں کیلئے رات میں چلنا پھر نا منع ہے کیونکہ کسی سادھوکے قدم کے نیچے کیڑے مکوڑے دب کر مرجانے کا خدشہ ہے۔ جینوں میں دگمبر فرقہ والے اکثر بالکل برہنہ پھرتے رہتے ہیں تاکہ خواہشات اور تکبر ختم ہو جائے [12]سادھو لوگ نہاتے نہیں کیونکہ نہانے سے جراثیم وغیرہ کے مرنے کا خدشہ ہے[13] ۔ ایک سادھو کو ہر طرح کی تکالیف برداشت کرنی ہوتی ہیں لیکن اس کو بہر حال اپنے آپ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ روحانیت کی تکمیل سے پہلے بے کار موت نہ مر سکے۔ اسی طرح ایک سادھو کیلئے بائیس قسم کی بہت مشکل تکالیف برادشت کرنا ان کے اصول وضوابط میں داخل ہے اس مذہب میں بائیس قسم کی تکالیف حسب ذیل ہیں:

۱۔ بھوک

۲۔ پیاس

۳۔ سردی

۴۔ گرمی

۵۔ کیڑوں کے کاٹنے کی تکلیف

۶۔ ننگے رہنا

۷۔ ناپسندیدہ جگہ رہنا

۸۔ جنسی جذبے کے تقاضے

۹۔ زیادہ چلنا

۱۰۔ ایک وضع میں طویل وقفے کیلئے بیٹھنا

۱۱۔ زمین پر آرام کرنا

۱۲۔ برا بھلا سننا

۱۳۔ مارپیٹ برداشت کرنا

۱۴۔ بھیک مانگنا

۱۵۔ بھیک مانگنے پر بھیک نہ ملنا

۱۶۔ بیماری

۱۷۔ کانٹے گڑنا

۱۸۔ جسمانی گندگی اور ناپاکیاں

۱۹۔ بے عزتی برادشت کرنا

۲۰۔ اپنے علم کی قدردانی نہ ہونا

۲۱۔ کسی نہ کسی درجہ میں اپنے اندر جہالت کو موجود پانا

۲۲۔ جین مت کے عقائد کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا شامل ہے[14]۔

مطلب یہ ہواکہ جین مت کی تعلیمات کے رو سے جسم کی ظاہری صفا ئی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورنہ جسم کی ظاہری طہارت و صفائی پر کوئی توجہ دی جاتی ہے کیونکہ جین مت کی تعلیمات کا فلسفہ یہ ہے کہ جسم جتنا ہی زیادہ گندا اور ناپاک ہوگا اتنا ہی سادھو زیادہ روحانی ترقی کے منازل طے کرے گا۔

طہارت کے بارے میں اسلامی تعلیمات :

قرآن و حدیث کی تعلیمات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے کیونکہ فطرت جن چیزوں سے محبت کرتی ہے اسلام میں بھی ان چیزوں کی محبت کادرس پایا جاتا ہے اور جن چیزوں سے فطرت نفرت کرتی ہے اسلامی تعلیمات میں بھی ان چیزوں کے بارے میں نفرت کرنے کا سبق ملتا ہے۔ مثلاً صٖفائی اور گندگی؛ فطرت صفائی سے محبت اور گندگی سے نفرت کرتی ہے اور اسلام میں بھی صفائی کا خیال رکھنے اور گندگی سے باز رہنے کے بہت سارے احکام قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔ دین اسلام میں صفائی کے ہر پہلو کے بارے میں واضح احکام موجود ہیں کیونکہ طہارت کے چار مراتب ہیں:

مرتبہ اول۔ ظاہرکو ناپاکیوں اور پلیدیوں سے پاک کرنا۔

مرتبہ دوم۔ اعضاء کواللہ تعالی کی نافرمانیوں اور گنا ہوں سے بچا نا ۔

مرتبہ سوم۔ دل کو اخلا ق مذمومہ و رذیلہ سے صاف کر نا۔

مرتبہ چہارم۔ ا پنے ضمیر کو ما سوٰی اللہ سے صاف کرنا ۔

سب سے پہلے ہم وہ آیات اور احادیث ذکر کرتے ہیں جو ظاہر کو ناپاکیوں اور پلیدیوں سے صاف رکھنے پر زور دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نےقران پاک میں صفا ئی کرنے والوں کو اپنا محبوب قرار دیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے: ’’إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ“[15] ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ محبت کرتا ان لوگوں سے جو توبہ کرتے ہیں اور ان لوگوں سے جو صفائی کرتے ہیں۔

عدم طہارت کی صورت میں ہرنماز کے لئے اعضاء اربعہ کے پا ک کرنے کا حکم دیا گیاہے۔کیو نکہ اس کے بغیر نماز جیسی عبادت قبول نہیں ہوتی۔اس میں حکمت یہ ہے کہ گنا ہو ں اور غفلت کے باعث جو روحا نی نوروسرو ر اعضاءسے سلب ہوچکاتھاوضوکرنے سے دوبا رہ ان میں عود کرتا ہے۔

ارشادباری تعالی ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ "[16]

ترجمہ:اے ایمان والو! جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو۔ سر کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھو ڈالو۔

عبادت کے وقت خوب زینت اختیار کرنے کا فرمان ہے۔جیسا کہ ارشاد ہے:

" يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ "‘‘[17] ترجمہ: اے اولاد آدم! ہر نماز کے وقت خود کو سنوارو۔

بادشاہوں کے دربار میں نظافت وطہارت کا لحا ظ ہوتا ہے ان کے دربار میں آنے والوں کیلئےپاک اور اور صاف لباس پہن کر داخل ہونے کا لحا ظ ضروری ہوتاہے پس جیسا کہ لبا س کی صفا ئی اور مکان کی ستھرائی بادشاہوں کوپسند ہوتی ہے ایساہی احکم الحا کمین و مالک الملک پاک ذات کو پاکیزگی اور ستھرائی لباس ومکان کی اور نظافت دل کی مدنظر ہے کیو نکہ وہ پاک ہے اور پاکی چاہتا ہے ، کپڑوں کی صفائی کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ، وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ"[18] اپنے لباس کو پاک کراور گندگی سے کنا ر ہ کر ۔

ناپا کی اور میل سے شیا طین کو منا سبت ہے اس لئے اللہ تعالی کے حضو رمیں کھڑے ہو نے کے وقت شیاطین کےساتھ مناسبت رکھنے والی اشیاء سے با لکل قطع تعلق اور کنارہ کش رہنا چاہیے ورنہ حضوردل مین خلل ہوگا ۔اور مقامات عبادت کوخوب پاک رکھنے کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:

وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ‘‘[19] ترجمہ: اورمیرے گھر کو طواف، قیام اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کیلئے پاک صاف رکھنا۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی طہا رت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہا ں تک کہ طہا رت کو ایمان کا جز قرار دیا ہے۔

حضرت مالک اشعری رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الطهور شطر الايمان‘‘[20] طہا رت ایمان کا جزہے۔

کیونکہ طہا رت ا س لئے کی جاتی ہے کہ باطن منورہوجائے اور انس وسرور پیدا ہو اور افکا ر ردیہ دور ہوجائیں۔اور تشویشات وپراگندگی ،پریشا نی وافکا ر رک جائیں۔پوری جسم کی صفائی کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ آپﷺنے فرمایا:

’’حق علی کل مسلم ان يغتسل فی کل سبعة ايام يوم يغسل فيه راسه وجسده‘‘[21]

ترجمہ:ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن مقرر کرے جس میں وہ غسل کرے اور اپنے سر اور جسم کو دھوئے۔

اس میں حکمت یہ ہے کہ پور ا ہفتہ غسل نہ کرنے کی صورت میں جسم سے پسینہ نکلتا ہے جو بدبو اور تعفن کا باعث بن کر اپنے اوردوسروں کیلئے موجب ایذاء بنتا ہے یا جسم کے مساما ت سے زہریلے مواد پسینہ وغیرہ کے ساتھ خارج ہوتے ہیں جو کہ غسل نہ کرنے کی صورت میں ان پرگردوغبار پڑنے سے مسامات بند ہوجاتے ہیں اور مساما ت کے بند ہونے سے زہریلے مواد پھر اندرجاکرمختلف بیماریوںکا باعث بنتے ہیں۔

اسی طرح ہر مسلمان نماز پڑھتا ہے۔ اور نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے پہلے وضواور طہارت حاصل کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ’’ لا يقبل الله صلاة الا بطهور‘‘[22]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی۔

دانتوں کی صفائی کے بارے میں ارشاد ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

’’قال النبی صلی الله عليه وسلم السواک مطهرة للفم و مرضاۃ للرب‘‘[23]

ترجمہ:مسواک کرنا منہ کی صفائی اور رب کی رضا ہے۔

کیونکہ مسواک نہ کرنے کی صورت میں مسوڑھوں اوردانتوںمیں بقیہ غذا کے ذرات اورمیل جم کر منہ میں تعفن اور بدبو پیدا کر دیتے ہیں ۔نیز بات چیت کرتے وقت اورنشت وبرخاست میں دانتوں کی زردی اور میل پر نظر پڑنے سے طبائع سلیمہ اور عام لوگوں کو تکلیف اور نفرت ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے اعظم شعائر اللہ یعنی نمازپڑھنے سے پہلے جیسا کہ دیگر میل کچیل کو صاف کرنےکا اہتمام کیا جاتا ہے ایسا ہی دانتوں کے میل ومنہ ومسوڑھوںکی عفونت کو رفع کرنا بھی مستحسن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نماز سے پہلے مسواک کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ناخنوں، مونچھوں، زیر ناف بالوں اور ختنہ کے بارے میں اسلامی تعلیمات:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ا ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادنقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خمس من الفطرۃ ، قص الشارب ونتف الابط وتقلیم الاظفار والاستحداد والختان‘‘[24]

آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ مونچھوں کا کاٹنا ، زیر بغل بال کاٹنا، ناخن کاٹنا زیرناف بال کاٹنا اور ختنہ کرنا۔

کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ کی صفائی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’بركة الطعام الوضوء قبله وبعدہ‘‘[25]

کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونا کھانے کی برکت ہے۔ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونااس لئے سنت ہے کہ اس سے انسان کے امراض متعدیہ اتر جاتے ہیں اور انسان کے اندر داخل نہیں ہوتے ۔کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کی ایک حکمت یہ ہے کہ خوراک کے ذرات ہاتھوں پرباقی رہنے سے رات کے وقت نیندمیں حشرات کے کاٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے جوکہ دھونے سے ٹل جاتا ہے۔

نیند سے بیدار ہو کر ہاتھ دھونے کا حکم :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اذاستيقظ أحدکم من الليل فلا يدخل يدہ فی الإناء حتیٰ يفرغ عليها مرتين أوثلاثا فانه لايدری أين باتت يدہ‘‘[26]

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی رات کی نیند سے بیدار ہوجائے تو وہ اپنے ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک دو یا تین بار ہاتھ پر پانی نہ ڈالے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ نیند کی حالت میں اس کے ہاتھ کہاں پھرے ہوئے ہیں۔

پانی کو ناپاک نہ کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’لا يغتسل أحدکم فی الماء الدائم وهو جنب‘‘[27] ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے درانحا لیکہ وہ جنبی ہو۔شاہراہوں اور سڑکوں کی صفائی کے بارے میں آپﷺ کاارشاد:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’عرضت علی أعمال أمتی حسنها و سیئها فوجدت فی محاسن أعمالها الاذیٰ يماط عن الطريق ‘‘[28]

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے میری امت کے اعمال دکھائے گئے اچھے اور برے دونوں میں نے دیکھے کہ اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کرنا ہے۔

دین ا سلام میں کھانے پینے کی چیزوں میں سے پاک وصا ف کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ا رشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ‘‘[29]

ترجمہ:اے ایمان والو!جو رزق ہم نے دیا ہے اس میں سے پاک کھاؤ۔

پاک اشیاء کھانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات ثابت شدہ اورمسلم ہے کہ غذاؤں کا اثر بھی انسان کی روحانی ،اخلاقی اطوارپرضرورہوتاہے۔ اسلئے شریعت مطہرہ میں مختلف قسم کے جانورمثلا:خنزیر ،درندے، شکاری پرندے ،حشرات الارض وغیرہ کو مختلف وجوہات کے بناء پر ان کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔جو درج ذیل ہیں:

۱۔خباثت وگندگی۔

۲۔درندگی؛ یعنی ایسے جانوروں کے کھانے سے انسان درندہ طبع بن جاتا ہے ۔

۳۔شیطانی امور سے مشابہت ۔

۴۔بعض جانوراور چیزیں زہریلے ہونےکی وجہ سے حرام ہیں ۔

۵۔بد اخلاقی یعنی بعض جانوروں کے کھا نے سے انسان بداخلاق بن جا تا ہے۔

۶۔بداعتقادی یعنی بعض ایسے جانوروں اور اشیاء کے کھانے سے انسان کے اندر بداعتقادی کے آثار پیدا ہوجا تے ہیں ۔ جیسے ما اهل به لغير الله کا کھانا ۔

نیز اہلیہ کے ساتھ حالت طہارت میں جماع کرنے کا حکم دیا گیاہے حالت حیض میں ممنوع قرار دیاگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ وَلاَ تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىَ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللّهُ ‘[30]

ترجمہ:یعنی پو چھتے ہیں تجھ سے حکم حیض کاتو کہو وہ ناپا کی ہے۔سوتم حیض میں عورتوں سے کنارہ کرو اور صحبت نہ کرو یہاں تک کہ وہ پاک نہ ہولیں پس جب وہ پاک ہولیں توان کے پاس آؤجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حیض کونا پا کی واذی فرما یا ہے تو ایسی حالت میں صحبت کرنے سے شدید ضرر پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے لہٰذا اللہ تعا لیٰ نے حیض میں جما ع کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ طب کے رو سے جو شخص حا لت حیض میں عورت سےجما ع کرے اس کو مند رجہ ذیل امراض لا حق ہو نے کا خدشہ ہے ۔

۱۔جر ب یعنی خارش

۲۔نامردی

۳۔سوزش یعنی جلن

۴۔جریان

۵۔جزام اولاد یعنی جب پیدا ہوتا ہے اس کو جذام کی بیما ری لاحق ہوجا تی ہے ۔

اس کے علاوہ عورت کو مندرجہ ذیل بیما ریاں لاحق ہو جا تی ہیں ۔

۱۔اس کو اکثر یا ہمیشہ کیلئے خون جاری ہوتا ہے ۔

۲۔بچہ دانی یعنی رحم باہر لٹک آتا ہے۔

۳۔بعض عورتوں کے لئے اکثر اوقات کچا حمل گر جانے کا باعث بن جاتا ہے ۔

حالت حیض میں جماع کرنے سے مذکورہ بالاامراض پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرکے حا لت حیض میں جما ع کرنے سے منع فرما یا ہے ۔

اس کے علاوہ دین اسلام میں ہر چیز کی صفائی اور نفاست کو ضرور ی قرار دیا گیا ہے اوران کے بارے میں خصو صًا فقہاء کرام نے فقہ میں تفصیلی احکام ذکر کئے ہیں۔

باطنی طہارت و صفائی کے بار ے میں اسلامی تعلیمات:

دین اسلام میں کسی چیز کی ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ باطنی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے ۔ خاص کر انسان کی روحانی ، ذہنی اورقلبی صفائی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور ان سب کا سر چشمہ تقویٰ قرار دیا گیا ہے.

اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ "[31] ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم نہ مرو مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ۔

دل کو پاک و صاف رکھنے کے بارے میں ارشادباری تعالی ہے: " يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ. إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ" [32]ترجمہ: جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کا م نہ آئے گی لیکن فائدہ والا وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب ( پاک ) دل لے کر آجائے۔

دین اسلام کے احکام بجالانے سے مقصودانسانوںکوپاک وصاف کرناہے۔

جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

" مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَكِن يُرِيدُ لِيُطَهَّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ‘‘[33]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ تمہیں پاک کرنے کا اور بھر پور نعمت دینا چاہتا ہے تا کہ تم شکر ادا کرتے رہو۔

کیو نکہ دین اسلام کے ہر حکم سے تہذیب وتزکیہ نفس وغیرہ مقصود ہوتا ہے ۔ان میں سے ایک حکم روزہ ہے ۔جس میں اللہ تعالی نے مختلف حکمتیں رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں :

۱۔روزہ سے انسان کی عقل کو نفس پر پوراپورا تسلط وغلبہ حا صل ہوجاتا ہے ۔

۲۔روزہ سے خشیت اورتقوی کی صفت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے جیساکہ کتا ب اللہ میں ہے: ’’لعلکم تتقون‘‘ [34]ترجمہ: یعنی تم پر روزہ اس لئے فرض ہوا کہ تم متقی بن جاؤ۔

۳۔روزہ رکھنے سے انسان کواپنی عاجز ی ومسکنت اوراللہ تعالی کے جلال و قدرت پر نظر پڑتی ہے ۔

۴۔ روزہ سے چشم بصیرت کھلتی ہے ۔

۵۔دوراندیشی کا خیال ترقی کرتا ہے ۔

۶۔حقائق ِ اشیاء کا کشف ہوتا ہے ۔

۷۔درندگی وبہیمیت سے دوری ہوتی ہے ۔

۸۔ملائکہ الٰہی سے قرب حاصل ہوتا ہے ۔

۹۔خداتعالیٰ کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے ۔

۱۰۔انسانی ہمدردی کا دل میں ابھا ر پیدا ہوتا ہے ۔

۱۱۔روزہ موجب صحت جسم وروح ہے ۔

۱۲۔روزہ انسا ن کے لئے ایک غذا ہے جو آئندہ جہا ں میں انسان کو ایک غذا کا کام دے گا ۔

۱۳۔روزہ محبت الٰہی کا ایک بڑا نشان ہے جیساکہ کوئی شخص کسی کی محبت میں سر شار ہو کر کھانا پینا چھوڑ کر بیوی کےتعلقات بھی بھول جاتا ہے ایسے ہی روزہ داراللہ کی محبت میں سر شار ہوکر اسی حا لت کا اظہار کرتاہے[35]۔

قرآن پاک میں مومنوں کودلوں کے کینہ اور بغض سے صفا ئی کی دعا بتلائی گئی ہے: ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا‘‘[36] ترجمہ: اے ہمارےرب! ایمان داروں کے بارے میں ہمارے دل میں کینہ نہ ڈالدے۔

دین اسلام میں بعض ایسے احکام ہیں جن سے دلوں کی گندگی مثلاً :لالچ، طمع اور بخل وغیرہ کیلئے صفائی کا باعث بنتے ہیں اس لیے ان احکام کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے" "خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا"[37] ترجمہ:آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس سے آپ ان کو صاف و پاک کر دے۔

قرآن پاک میں عا م طور پر زکوٰۃ کیلئے لفظ صدقہ استعمال ہوا ہے ۔کیونکہ زکوٰۃ کے معنی پاکی اور نمو وترقی کے ہیں ۔ زکوٰۃانسا ن کےلئے بخل وگناہ وعذاب سے رہا ئی وطہارت کی موجب اور ترقی مال وطہارت دل کا باعث ہے ۔

اور صدقہ اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ فعل صدقہ دینے والے کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی قلبی حالت یعنی صدق وصفائی نیت کی یہ علامت ہے ۔

مسلما نوں پرزکوٰۃ فرض ہو نے میں کئی حکمتیں ہیں :

۱۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان سے بخل کی پلیدگی دور ہوجاتی ہے کیونکہ جب وہ اپنے اس ما ل عزیز کو تر ک کردیتا ہے جس پراس کی زندگی کا مدار معیشت کا انحصا ر ہے اور جومحنت او رتکلیف اورعرق ریزی سے کمایا گیا تھا اس کو محض رب کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسب خیر ہے جس سے نفس کی وہ بد ترین ناپاکی دور ہوتی ہے جو بخل ہےاور اس کے ساتھ ساتھ ایمان میں بھی ایک قسم کی شدت اور صلابت پیدا ہوجا تی ہے۔

۲۔اس میں اعلیٰ درجہ کی ہمدردی سکھائی گئی ہے کیونکہ انسا نی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ غرباء کی امداد کی جائے پس زکوٰۃ ادا کرنے سے بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی ہوتی ہے ۔

۳۔ گناہوں کو دور کرنے اور برکات کوزیادہ کرنے کے موثر ترین ذرائع واسباب میں سے زکوٰۃ وصدقات ہیں ۔

قرآن پاک خود مسلما نوں کے دلوں کی صفائی کے لئے شفاء اور رحمت ہے: ارشادباری تعالیٰ ہے: " وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ "[38]یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سر اسرشفاء اور رحمت ہے ۔

آپ ﷺ یہ دعا وِرد کرتے تھے ۔

’’اللهم ننقنی من ا لخطايا کما يننقی الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسل خطايای بالماءوالثلج والبرد‘‘[39]

ترجمہ:اے اللہ! میری خطاؤں کو دور کردے جس طرح سفید کپڑے سے میل دور کیا جاتا ہے۔اے اللہ ! میری لغرشوں کوپانی ،بر ف اور اولوں کے ساتھ دھولے۔

حسد ، بغض اور کینہ وغیرہ سے دل کو صاف رکھنے کے بارے میں آپﷺکا فرمان: حضرت انس رضی اللہ عنہ آپﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’لا تقاطعوا ولاتدابروا ولا تباغضوا ولا تحا سدوا وکونوا عبادالله اخوانا ولا يحل لمسلم ان يهجر أخاہ فوق ثلاث ‘‘ [40]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہم تعلقات قطع نہ کرو اورنہ ایک دوسرے کی طرف پشت کرکے بیٹھواورنہ باہم بغض رکھو اورنہ باہم حسد کرو اور اللہ تعالی کے بندے بھائی بھائی بن جاؤاور کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔

ایک اور جگہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

عن ابی هريرة قال قال رسول الله ﷺ:’’لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابر واالا یبیع بعضکم علی بیع بعض وکونوا عبادالله اخوانا المسلم اخوا المسلم لا یظلمه ولا یخذ له ولا یحقرہ التقوى ههنا ویشیر الی صدرہ ثلاث مرات بحسب امری من الشر ان یحقر اخاہ المسلم کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه‘‘[41]

ترجمہ:حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :آپس میں حسد نہ کرو اور بیع نجش نہ کرو اور نہ آپس میں بغض کرو اور نہ ایک دوسرے کی طر ف پشت کرکے بیٹھواور نہ کسی کی بیع پر بیع کروبلکہ سب اللہ کے بند ے بھائی بھائی ہو جاؤ۔ مسلما ن مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پر ظلم کرے۔نہ اسے ذلیل کرے اور نہ اسے حقیر جانے تقوی اسی جگہ پر ہے آپ ﷺنے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا آدمی کی برائی کے لئے یہ کافی ہےکہ اپنے بھائی مسلما ن کو حقیر جانے مسلمان کی ہر ایک چیز اس کا خون ،اس کا ما ل اور اس کی عزت وآبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔

جین مت اور اسلام میں صفائی کا تقابل :

1۔جینی عقائد کے مطابق باطنی صفائی اور روحانی ترقی کیلئے کسی ذی روح کو تکلیف پہنچانا منع ہے اس لئے اس مذہب کےپیرو کار اکثر سرجھکا کر اور ہاتھ میں جھاڑو وغیرہ لےکر چلتے ہیں ۔

ظاہری طور پر یہ غیر فطری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انتہائی تکلیف دہ اور انسانی طاقت سے باہر بھی ہے اوراسلام میں روز اول سے یہ حکم ہے۔ "لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا"[42] اللہ تعالیٰ کسی کو مکلف نہیں کرتا مگر اس کے بَس کے مطابق ۔

2۔جین مت کے گمبرفرقہ والے برہنہ پھرتے ہیں ۔ جب کہ اسلام ستر پوشی کا حکم دیتا ہے۔

3۔جین مت میں دگمبر فرقے والے نہاتے نہیں جب کہ اسلام میں نہانے کا حکم ہے ۔

4۔جین مت میں ایک سادھو کیلئے بائیس قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہے جس میں ایک یہ بھی ہے کہ نا پاک او گندہ رہنا تاکہ روحانی ترقی اور باطنی صفائی حاصل ہوجائے جب کہ اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں کہ ناپاک رہ کر باطنی صفائی حاصل ہوجائے ۔

5۔جین مت میں گرہسست کیلئے عمر کے آخری حصے میں کسی جان لیوا بیماری سے سیکھنا یعنی فاقے کے ذریعے خود کشی کا عہد کرنا ہے جو کہ جین مت کے روحانیت کیلئے قابل تعریف موت سمجھی جا تی ہے جب کہ اسلام میں خود کشی کرنا حرام ہے چہ جائیکہ روحانیت حاصل ہو جائے۔

6۔جین مت میں روحانیت کے حصول کیلئے نفس کشی ، اذیت پسندی فاقہ مستی اوررہبانیت کی تعلیم پر زور دیا گیاہے جب کہ اسلام میں حوصلہ افزائی تو درکنار ان چیزوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

نتائج البحث:

۱۔جین مت میں اہمسہ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔

۲۔جین مت میں ظاہری صفائی نروان کے حصول کیلئے مانع ہے۔

۳۔اسلام میں طہارت وصفائی کے بغیر عبادت قبول نہیں ہوتی۔

۴۔مہاویر کے بعد جین مت میں کوئی اور مصلح نہیں آئےگا۔

۵۔جین مت ایک جامد اور ساکن مذہب ہے۔

۶۔جین مت میں تمام برائیوں کا سرچشمہ خواہشات ہے۔

۷۔اسلام میں صفائی کا نظام فطرت کے عین مطابق ہے۔

۸۔جین مت کے کچھ احکام اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں ۔جیسے جھوٹ نہ بولنا، چوری نہ کرنا وغیرہ وغیرہ ۔

۹۔اسلام انسان کے ظاہری وباطنی دونوں صفائیوں پر توجہ دیتا ہے۔جب کہ جین مت میں صرف روح یعنی باطن پرتوجہ دی جاتی ہے ۔

۱۰۔جینی خدمت خلق کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔

۱۱۔جینیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ مذہب دنیا کا قدیم ترین مذہب ہے۔

حوالہ جات

  1. ۔مظفر ولی خان، مکالمہ بین المذاہب، فاروقیہ کراچی ، ۲۰۰۷ء، ص ۱۴۲
  2. ۔غلام رسول ، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ ، علمی کتب خانہ لاہور، ۱۹۷۶ء، ص ۲۲۲
  3. ۔فاروقی عماد الحسن ، دنیا کے بڑے مذاہب، تعمیر انسانیت لاہور، ۱۲
  4. ۔پالر مارٹن، ورلڈ ریلیجیز ، برٹش لائبریری، ۲۰۰۴ء، ص ۱۷۱
  5. ۔الوڈرابرٹ اینڈ الاس گریگوری، انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ ریلیجیز، لائبریری آف کانگریس ۲۰۰۷ء، ص ۲۹
  6. ۔خان محمد یوسف ، تقابل ادیان، بیت العلوم لاہور، ص ۱۱۹،وارن ہربن ،جینزم ،لایبریری اف کیلفورنیا،۱۹۷رام چاو لہ کا شی ، شرمی بھگوان مہاویر سوامی ،طباعت ۱۹۸۱ء،ص۲۲
  7. ۔ولکنسن فیلپ، ا ئی و یٹینس کمپنینز ریلیجینز ،dkنیویارک،ص۲۲۷
  8. ۔جین فیلسوفی اینڈپریکٹس،www.jainelibrery.org،ص۲۵ایجوکیشن کمیٹی جینا ، جینزم ۱۰۱،ص۶۷
  9. ۔مظفر ولی خان، مکالمہ بین المذاہب، ص ۱۴۳
  10. ۔خان محمد یوسف، تقابل ادیان، ص ۱۲۰،جین فیلسوفی اینڈپریکٹس،www.jainelibrery.org،ص۹ ولکنسن فیلپ، ا ئی و یٹینس کمپنینز ریلیجینز ،dkنیویارک،ص۲۲۷
  11. ۔فاروقی عماد الحسن، دنیا کے بڑے مذاہب، ص 138،جین فیلسوفی اینڈپریکٹس،www.jainelibrery.or،ص۹
  12. ۔خان محمد یوسف، تقابل ادیان، ص ۲۰،جین فیلسوفی اینڈپریکٹس،www.jainelibrery.or،ص۹
  13. ۔لال خلف پنا لال، انریری زام لالہ، نروان سمت ملکھی شاہ جینی،۱۹۱۵ء، ج ۲، ص۲۲۹، جین فیلسوفی اینڈپریکٹس، www.jainelibrery.org،ص۹
  14. ۔فاروقی عماد الحسن ، دنیا کے بڑے مذاہب ، ص ۱۴۰، ایجوکیشن کمیٹی جینا ، جینزم ۱۰۱،ص۵۷
  15. ۔سورۃ البقرۃ:۲۲۲
  16. ۔سورۃ المائدۃ:۶
  17. ۔سورۃ الاعراف:۳۱
  18. ۔سورۃ المدثر:۴
  19. ۔سورۃ الحج ،۲۶
  20. ۔القشیری مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح المسلم، دارالافاق الجدیدۃ بیروت، ج ا ، ص ۴۰
  21. ۔بخاری محمدبن اسماعیل ، الجامع الصحیح البخاری ، دارالشعب القاھرۃ ، ۲۹۸۷ء، ج ۲، ص۷
  22. ۔القشیری مسلم بن حجاج ، الجامع الصحیح المسلم ، ج ا ، ص ۴۱
  23. ۔نسائی، احمد بن شعیب ،سنن النسائی المجتیٰ من السنن، مطبوعات الاسلامیہ حلب ، ۱۹۸۶ء ، ج ص۰ا
  24. ۔ایضاً،ج ا ،ص ۱۴
  25. ۔ترمذی، محمدبن عیسٰی،سنن الترمذی،ج1،ص۲۸۱
  26. ۔ایضاً،ج ا ، ص ۳۶
  27. ۔نسائی، احمد بن شعیب ، سنن النسائی المجبتی من السنن، ج ا ص ۳۳۱
  28. ۔القشیری،مسلم بن حجاج ، الجامع الصحیح المسلم ، ج ۲،ص ۲۲
  29. ۔سورۃ البقرۃ:۱۷۲
  30. ۔سورۃالبقرۃ:۲۲۲
  31. ۔سورۃ آل عمران:۲۰۱
  32. ۔سورۃ الشعراء :۸۸
  33. ۔سورۃ المائدۃ :۶
  34. ۔سورۃ البقرۃ:۱۸۳
  35. ۔بخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح البخاری ، ج ا ،ص ۱۸۹
  36. ۔سورۃ الحشر :۱۰
  37. ۔سورۃ التوبہ:۱۰۲
  38. ۔سورۃ بنی اسرائیل:۸۲
  39. ۔ترمذی، محمد بن عیسیٰ ، سنن الترمذی ، ج۴، ص ۵۵۳
  40. ۔القشیری،مسلم بن حجاج ، الجامع الصحیح المسلم ،ج ۴،ص۱۹۸۳
  41. ۔ترمذی محمدبن عیسٰی الترمذی،سنن الترمذی،ج۴،ص۳۲۹
  42. ۔سورۃ البقرۃ ، ۲۶۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...