Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

اسلام اور مغرب: ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کا خصوصی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_415

Pages

219-239

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/312/250

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/312

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

دین اسلام چونکہ ایک عالمی اور آفاقی دین ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام شعبہ ہائے جات کے لیے راہنمائی فراہم کرتا ہے اس لیے اس کا دائرہ کار دنیا و آخرت سے متعلق تمام علوم مثلاً فلسفہ، الٰہیات، نفسیات،سماجیات،معاشیات اورسیاسیات جیسے تمام علوم پر محیط ہے۔تاہم یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ عام طور پرکسی شخص کے لیے مذکورہ تمام علوم میں یکساں مہارت و عبور حاصل کرلینا تقریباً محال ہے۔

لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ قرآنی حکم’’وخاتم النبیین‘‘(1) اور اعلانِ رسالت مآب ﷺ ’’لا نبی بعدی‘‘ (2) کے بعد ’’العلماء ورثۃ الانبیاء‘‘(3) کے مصداق یہ اعزاز امت محمدیہ کے ان قابل قدر اور عصری تقاضوں سے آشنا علماء ربانیین کو ہر دور اور ہر معاشرہ میں حاصل رہا ہے کہ وہ دین اسلام کو درپیش مسائل اور پیش آمدہ مشکلات کا انبیاء کے جانشین ہونے کی حیثیت سے نہ صرف مقابلہ کرتے رہے ہیں بلکہ امت کو پیش آنے والے ان مسائل کا نہایت معتدل اورمتوازن حل بھی پیش کرتے رہے ہیں۔تاریخ اسلام کے ہر دور میں اس دور کے عملی تقاضوں کوقرآنی ہدایات اور آسمانی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے والے ایسے رجال پیدا ہوتے رہے ہیں (4) جنہوں نے اپنی انفرادی صلاحیتوں اور محنتوں سے وہ کام کردکھائے ہیں جوشاید بڑی بڑی انجمنیں اور اداروں سے بھی ممکن نہ تھا۔

دورِ حاضر میں عالم اسلام کوجن مسائل ومشکلات کا سامنا ہے شاید تاریخ میں اس کی دوسری مثال پیش کرنا ممکن نہ ہو۔عالمِ اسلام آج علمی اور عملی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں نہیں ہے۔اسلامی تہذیب اور تشخص کی حفاظت ایک مسلمان کے لیے مشکل ہوچکی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آج ہمارے محققین اسلامی تاریخ کے سنہری ادوار کے راگ الاپ کے بزعم خویش مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں کہ ہم ایسی تابناک تاریخ کے وارث ہیں اور اہلِ یورپ ہمارے سائنسدان اور محققین کی تحقیق کے نتیجہ میں ترقی کرگئے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمیں اپنی اس تاریخ پر فخر ہونا چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ عملی طور پر ہماراموجودہ کردار کیا ہے؟حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ (5) نے شاید اسی لیے فرمایاتھا کہ :

تجھے آبا ء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی

کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ

علامہ محمد اقبال ہی نے آج سے تقریباً ستر سال قبل اسلام کو درپیش مسائل کے حوالہ سے فرمایاتھا کہ:’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص زمانہِ حال کے اصول قانون(jurisprudence) پرایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ میری رائے میں مذہب اسلام گویا زمانہ کی کسوٹی پر کساجارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘ (6(

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ (1370ھ تا 1431 ھ /1950 تا 2010ء) اقبال کے اسی خواب کی تعبیر تھے (7) وہ بیک وقت مفسر، محدث،ماہر تعلیم اور اعلیٰ درجہ کے محقق تھے اور اسلامی و بین الاقوامی قانون میں انہیں کمال درجہ کا تفقہ حاصل تھا۔ ان کی شخصیت اسلامی علوم و فنون کے جملہ شعبہ ہائے جات پر مساوی طور پر حاوی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کی انفرادی خصوصیات اور شخصی خصائل پرکافی کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھاجائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ وہ جو کچھ اپنے افکار و خیالات کی شکل میں چھوڑ گئے ہیں ان سے استفادہ اور اس کی عملی تشکیل کے حوالہ سے ہم ایک منصوبہ بند جدوجہد کی ابتدا کریں۔

ڈاکٹر صاحب ؒ کے افکار و خیالات امتِ مرحومہ کے مرض کی نہ صرف صحیح تشخیص پیش کرتے ہیں، بلکہ ان میں ایک گونہ سنجیدگی، متانت اور بالغ نظری کی جھلک واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ان کی شخصیت کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ نہایت وسیع مطالعہ اور دنیا کے مختلف اطراف میں گھومنے کے باوجود اسلام کے علاوہ کسی نظام اور نظریے سے مرعوب نہیں ہوئے۔ انہیں عالمِ اسلام کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملاجس کے نتیجے میں وہ امت مرحومہ کے عروج و زوال کی اس تاریخ میں سے اپنی متاع گم گشتہ کی بازیافت میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جدیددور کے اس پہلو سے ایک قدیم انسان تھے کہ انہوں نے اپنے قدیم ورثے کو جدید ورثاء میں نہایت دیانتداری ،مہارت اور دانشمندی سے منتقل کرنے کی کوشش کی۔

ڈاکٹرصاحبؒ کے افکار کی بہت سی جہات ہیں جن میں سے ہر ایک پر گفتگو بڑی تفصیل کی متقاضی ہے۔ تاہم ہم نے ان سطور میں ڈاکٹرصاحب مرحوم کے ان افکار کا جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن میں انہوں نے عالم مغرب کے افکاراور کردار کا ایک ماہرانہ تجزیہ وتنقیدی جائزہ لیا ہے۔

اسلام اور مغرب کی کشمکش کا تاریخی پس منظر:

آج سے ربع صدی قبل مغرب سے مراد صرف یورپ بالخصوص برطانیہ سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ اصطلاح یورپ کے ساتھ امریکہ کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ چنانچہ آج جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہود و نصاریٰ ہوتے ہیں۔ چونکہ اسلام اور عالم اسلام کو سب سے زیادہ واسطہ انہی دو اقوام سے پڑنا تھا اس لیے قرآن حکیم نے ان کے حوالہ سے وہ تمام تفصیلات مہیا کی ہیں جن کی روشنی میں ہم ان اقوام سے اپنے تعلقات اور ترجیحات کا تعین کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مغرب اور اسلام کی موجودہ کشمکش کا پس منظر اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’امتِ مسلمہ کے عالمگیر کردار میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ ان کا ایک طویل عرصہ تک یہودیوں اور عیسائیوں سے واسطہ رہے گا، مقابلہ کی نوعیت پیش آتی رہے گی، تصادم ہوتا رہے گا، اور اس تصادم کے لیے مسلمانوں کو یہ دو سورتیں (سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران) تیار کررہی ہیں۔‘‘(8(

مغربی تہذیب کے حوالہ سے ایک غلط فہمی کا ازالہ:

ہمارے بہت سے محققین اور دانشوروں میں یہ خیال عام پایاجاتا ہے کہ مغرب نے اپنی تہذیب کو سیکولرزم میں ڈھال لیا ہے اور مذہب کے حوالہ سے مغرب میں ایک سیکولر ذہنیت نے جنم لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ اسے مسلمانوں کی سادہ لوحی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’ ہمارے ہاں بہت سے حضرات سادہ لوحی سے مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں اور مغرب کے ظاہری دعووں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کو گھر سے نکال دیا ہے اور اب مغرب ہر مذہبی تعصب سے آزاد ہے۔ وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کو ایک خاص علاقے سے نکالا ہے، گھر سے نہیں نکالا۔ مغرب کی ہر چیز عیسائی تہذیب و تمدن، عیسائی روایات اور عیسائی تعصبات پر مبنی ہے‘‘۔(9(

مغرب کی تہذیبی ترجیحات ومقاصد :

ڈاکٹر صاحبؒ دنیائے اسلام اور مغرب کی تہذیبی ترجیحات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ یہ تاریخی حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اہل مغرب کی پیش قدمی دنیائے اسلام میں جب بھی ہوئی ، تجارت اور اقتصادی خوشحالی کے نام پر ہوئی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہذیب کو دنیائے مغرب و مشرق میں جب بھی پیش قدمی حاصل ہوئی وہ اخلاق و کردار اور روحانی مقاصد کے نام پر ہوئی۔‘‘(10(

یہ وہ فرق ہے جو اسلام اور مغرب کی ترجیحات کے حوالہ سے واضح طور پر محسوس کیاجاسکتا ہے۔

مغربی بالا دستی اور اس کے اثرات:

اگرچہ مغرب تجارت، معیشت، سیاست اور حربی ایجادات کی بنیاد پر مسلمانوں پر بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے افکارو خیالات بھی اس سے متاثر ہونے شروع ہوگئے۔

اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ بالادستی شروع میں سیاست، عسکریات، تجارت اور معیشت کے میدان میں تھی اور اتنی زیادہ خطرناک نہیں تھی۔لیکن بالتدریج اس کا اثر مسلمانوں کی ذہنیت پر، مسلمانوں کے خیالات و افکار پر اور بالآخر تہذیب و تمدن پر پڑنا شروع ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دنیائے اسلام کے پیشتر حصے میں تعلیم یافتہ اور بااثر حضرات کی بڑی تعداد نے مغرب کے تصورات، مغرب کے خیالات اور مغرب کے افکار کو ایک طے شدہ اصول اور قابل قبول معیارکے طور پر اپنا لیا۔‘‘ (11(

سوفیصد تعلیم کو سوفیصدجہالت میں بدلنے کا تحفہ:

مغرب کے افکار و خیالات سے متاثر ہونے والے ایک مخصوص طبقے کا کہنا ہے کہ مغرب نے ہمیں سویلائزڈ کیا ہے۔ چنانچہ مغرب کی دیکھا دیکھی ان کی تہذیب و تمدن کی اتباع کی جائے۔ لیکن ڈاکٹر صاحبؒ اسے خوش فہمی اور سادہ لوحی پر محمول کرتے ہیں اور مغرب کے استحصالی رویہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ انیسویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں میں پنجاب میں سو فیصد تعلیم تھی۔ اور بحیثیت مجموعی 84فیصد تھی اور جب انگریز 1947ءمیں ہندوستان سے گیاتو پنجاب میں مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب 4فیصد تھا۔ انگریز سو کو چار پر لے آئے اور پوری قوم کو جاہل چھوڑکر چلے گئے۔ یہ ہے اس دعویٰ کی حقیقت جو کیاجاتا ہے کہ مغربی ممالک کا ایک سویلائزنگ رول تھا۔آج بھی ہمارے ہاں بہت سے سادہ لوح اور مشرق بیزار لوگ کہتے ہیں کہ انگریز نے ہمیں سویلائز کردیا۔ یہ سویلائز کیا کہ سو فیصد تعلیم کو سو فیصد جہالت میں بدل دیا۔‘‘ (12(

اسلامی تہذیب و اقدار سے مایوسی کاپروپیگنڈہ:

اہل مغرب کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ اہل مشرق کو اپنی پیروی پر آمادہ رکھا جائے۔ چنانچہ اس کے لیے انہوں نے مسلمانوں میں یہ سوچ پیداکی کہ ان کی تہذیب کھوکھلی ہوچکی ہے ، ان کی اقدار کی کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ لہٰذا انہیں مغرب کی اقتداء کرنی چاہیے کیونکہ دنیا کو سویلائز کرنے کا اعزازاور اقوام عالم کی رہنمائی کا حق اب انہیں حاصل ہے۔ اس تمام پروپیگنڈے کا مقصد محض یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب کے مستقبل سے بالکل مایوس کردیاجائے۔ اس تمام صورتحال پر ڈاکٹر صاحبؒ نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

’’آج اگر ہمارا نوجوان اپنے مستقبل سے، اپنے ملک کے مستقبل سے، تہذیب کے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے یا بے یقینی کا شکار نظر آتا ہے تو اس کے اسباب گزشتہ ڈھائی تین سو سال کی مغرب کی تاریخ میں تلاش کرنے چاہئیں۔‘‘(13)

دہشت گردی کا آغاز مغرب سے ہوا:

اسلام امن کا داعی ہے تاہم آج کل مغرب آئے روز یہ پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنارہے ہیں اور ان کی وجہ سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ عراق کو اسی الزام کی بھینٹ چڑھادیاگیا اور اب ایران کے حوالے سے بھی آئے دن الزامات آرہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ مغرب کے اس پروپیگنڈے کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں:

’’آج مغربی دنیا شکایت کرتی ہے کہ ماس کلنگ یابڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنائے جارہے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ماس ڈسٹرکشن کے یہ ہتھیار سب سے پہلے مغربی دنیا نے بنائے تھے اور ان ہی ہتھیاروں کی مدد سے دنیائے اسلام پر ان کا قبضہ مستحکم ہوا اور مستحکم رہا۔‘‘ (14)

اسلام اورمغرب کا نظریہ ارتکاز دولت:

اسلام ارتکازِ دولت کا مخالف ہے۔(15) اسلامی تعلیمات کی رو سے دولت کا چند افراد میں گردش کرتے رہنا بڑا برا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ دولت گردش کرے اور اس کے لیے اسلام نے زکواۃ، صدقات اور وراثت جیسے اہم اصول متعارف کروائے ہیں۔ تاہم مغرب نے اس کے بالکل برعکس دولت کے ارتکاز کو ایک اصول کے طور پر اپنایا ہے۔ مغرب کے اس اصول پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ:

’’مغربی دنیا نے دولت کے ارتکاز کو ایک اصول کے طور پر اپنایا ہے۔اس لیے وہاں بہت سے ایسے تصورات اور قوانین موجود ہیں جو ارتکاز دولت کو ناصرف یقینی بناتے ہیں بلکہ اس میں اضافے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے یہاں اس طرح قانونِ وراثت نہیں ہے جس طرح کا شریعتِ اسلامیہ میں ہے۔۔۔۔۔۔وہاں تو یہ بات فرد کے ذاتی صوابدید ی اختیار پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ اپنی دولت جس کے نام کرنا چاہے کردے۔ بعض لوگ کتوں کے نام وصیت کردیتے ہیں، کوئی بلی کے نام کردیتا ہے۔‘‘ 16)

مغرب کا ہمہ گیر ایجنڈا :

مغرب مسلمانوں کے حوالہ سے ایک ہمہ گیر ایجنڈا رکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیائے اسلام اپنے آپ کو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ لے۔اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ رقمطراز ہیں کہ : ’’مغرب کا ایجنڈا ایک ہمہ گیر ایجنڈا ہے اور اس میں سیاست، معیشت، تجارت و مالیات اور تعلیم و ثقافت سے لے کر فرد اور خاندان تک ہر چیز شامل ہے۔‘‘ (17)

غالباً1995ء میں ڈاکٹر صاحب نے جرمنی میں ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں بہت سے مغربی اسکالرز بھی موجودتھے ان کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحبؒ نے عالمِ اسلام میں مغرب کے اثرات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تین رویوں کا ذکرکیا۔

(i) مغرب کی شدید مخالفت کا رویہ

(ii)مغرب سے مرعوبیت کا رویہ

(iii) ’’خذ ما صفا و دع ماکدر‘‘ کا رویہ

ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق یہ آخری رویہ بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ اس اصول سے مسلمانوں نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا ہے کہ جو چیز اچھی ہے وہ لے لو اور جو بری ہے وہ چھوڑ دو۔ لیکن کیا مغرب بھی اس رویہ کی حمایت کرتا ہے؟ اور کیا وہ اس کے لیے تیار ہے کہ مسلمان اس کی سائنسی ترقی سے تو استفادہ کریں مگر اس کی تہذیب پر عمل نہ کریں۔اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ نے اس کانفرنس میں موجود دیگر مغربی مستشرقین سے گفتگو کی اور اپنا یہ موقف پیش کیاتو ان کے جواب کا ماحاصل یہ تھا کہ مغرب مسلمانوں کے اس انتخاب و اختیار کے رویہ سے اتفاق نہیں کرتا۔(18)

عالم اسلام کے حوالہ سے مغرب کی حکمت عملی:

مغرب عالم اسلام میں بالخصوص دنیائے مشرق میں اٹھنے والی تحریکات اور نئے رجحانات پر برابر غوروفکر کررہا ہے۔ مستقبل میں ان تحریکات کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیاجاسکتا ہے اور ان سے کس طرح فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔ اس حوالہ سے مغرب میں ایک طویل عرصہ سے منصوبہ بندی تیار کی جارہی ہے۔ مغرب اسلام کے حوالہ سے جو منفی تدابیر کررہا ہے ڈاکٹر صاحب اس کے تین رخ متعین کرتے ہیں جسے وہ three pronged strategy کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ یہ تین حکمت عملیاں درج ذیل ہیں:

  1. اسلامی تحریکات اور تنظیموں سے ڈیل کرنے کی حکمت عملی۔
  2. دنیائے اسلام کے نقشے کی ازسرنوتشکیل کی حکمت عملی۔
  3. دنیائے اسلام کی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے کی حکمت عملی۔

(i) پہلی حکمت عملی:

ان حکمت عملیوں میں سے پہلی حکمت عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

’’جہاں تک پہلی حکمت عملی کا تعلق ہے کہ جو لوگ دین کا کام کررہے ہیں ان سے کس طرح ڈیل کی جائے؟ اس کے لیے آج سے پچیس تیس سال پہلے سے کوششیں شروع ہوئیں اور ان پچیس تیس سالوں میں یہ مطالعہ کیاگیا کہ دنیائے اسلام میں اسلام کا نام لینے والے کون کون ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔‘‘(19(

اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنا ایک ذاتی مشاہدہ اور تجربہ بھی ذکر کیا ہے۔ جس میں امریکہ کے ایک پروفیسر نے انہیں دینی مدارس کے حوالہ سے تحقیق کرنے کے عوض دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ اور اسکالرشپ کی پیش کش کی تھی۔(20)مقصد اس کا یہ تھا کہ ان دینی اداروں اور تحریکات پر معلومات کو اکٹھا کیاجائے۔ تاہم ڈاکٹر صاحب نے اس پیش کش کو مسترد کردیا۔یہ واقعہ اکتوبر 1976ء کا ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ مغرب ان دینی اداروں اور تحریکات سے کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔ نیز اس حوالہ سے ان کی معلومات کے حصول کے طریقہ کار کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ مغرب کی اس حکمت عملی میں گزشتہ ایک دہائی سے کافی شدت نظر آرہی ہے۔ اور اگر حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھیں تو مغرب اپنی اس حکمتِ عملی میں بڑی حدکامیاب بھی نظر آتا ہے۔

(ii) دوسری حکمت عملی:

مغرب کی دوسری حکمتِ عملی کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

’’حکمت عملی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ جغرافیائی حیثیت پر نظرثانی کی جائے، دنیائے اسلام کے سیاسی نقشے کو تبدیل کیاجائے۔‘‘(21(

مغرب کی ہٹ لسٹ پر کون کونسے اسلامی ممالک ہیں جن کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنا مقصود ہے وہ ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق درج ذیل ہیں:

(۱) پاکستان (۲) انڈونیشیاء (۳) ملائشیاء (۴) سعودی عرب (۵)مصر(۶) عراق (۷) ایران

ان اسلامی ممالک کے جغرافیائی نقشے تبدیل کرنے سے مغرب کے لیے انہیں کنٹرول کرنا اور ان پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا آسان ہوگا۔ نیز اس سے یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ اسلامی دنیا فرقہ در فرقہ بٹتی چلی جائے گی۔

(iii) تیسری حکمت عملی:

لیکن اگر مغرب اپنی اس حکمتِ عملی میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس کا سائیڈ پلان بھی انہوں نے نہ صرف تیار کررکھا ہے بلکہ اس پر بڑے زوروشور سے مصروف عمل بھی ہیں۔ یہ تیسری حکمت عملی کیا ہے اس پر ڈاکٹر صاحب نے بڑا محققانہ تجزیہ پیش کیا ہے۔ اسے آپ ڈاکٹر صاحبؒ کی زبانی سنیے:

’’اگر دنیائے اسلام میں یہ تبدیلی نہ آسکے۔۔۔تو پھر دنیائے مغرب کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لیے تیسری حکمتِ عملی بھی تیار کی جاچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ یہ تبدیلی گلوبلائزیشن کے نام پر آرہی ہے۔‘‘۔(22)

گلوبلائزیشن کے حوالہ سے ہمارے ہاں ایک طبقے کی رائے یہ ہے کہ گلوبلائزیشن انتہائی مفید چیز ہے اور اسے اختیار کرنے سے ہم لوگ بہت ترقی کرجائیں گے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے مطابق یہ گلوبلائزیشن دراصل مغرب کی تیسری حکمتِ عملی ہے جس میں بالخصوص دنیائے اسلام اور بالعموم تیسری دنیا کے غریب پسماندہ ممالک کی تہذیب کو اپنی تہذیب کا تابع بنانا مقصود ہے۔

اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ قرآن کریم کی آیت: ’’ وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ‘‘(23) کاحوالہ دیتے ہوئے اس طبقہ کی خوش فہمی اور سادہ لوحی پر تبصرہ کرتے ہیں کہ

’’ (یہ ) قرآن پاک کا اعلان ہے اور صیغہ تاکید میں ہے۔ یہود و نصاریٰ ہرگز ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کی ملت کا اتباع نہیں کروگے۔ یہاں محض دین کا اتباع نہیں، ملت کا ذکر ہے، ملت اس دین کو کہتے ہیں جس میں کلچر بھی شامل ہے۔ شعائر بھی شامل ہیں اور جس میں سویلائزیشن بھی شامل ہے۔ جب تک تم سو فیصد ان کے رنگ میں نہیں رنگ جاؤ گے وہ تم سے راضی نہ ہوں گے۔‘‘ (24)

ڈاکٹر صاحبؒ گلوبلائزیشن کے زبردست ناقد ہیں۔ ان کے نزدیک گلوبلائزیشن کا مقصد دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کرنا ہے:

(i) درجہ اول: جس میں یورپ اور امریکہ وغیرہ کے لوگ شامل ہوں

(ii) درجہ دوم: جس میں دیگر غیر مسلم اقوام ہوں مثلاً چین یا سنگاپور وغیرہ

(iii) درجہ سوم: جملہ اسلامی ممالک اور دیگر غریب ممالک وغیرہ

ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق دنیا کی اس تقسیم کے نتیجے میں ان طبقات کی ذمہ داریاں اور فرائض کا خلاصہ یہ ہے۔

درجہ اول کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جدید سائنسی ترقی اور دنیا کی صنعت و معیشت پر کنٹرول رکھیں۔ درجہ دوم کا کام یہ ہوگا کہ وہ درمیانے درجے کی چھوٹی انڈسٹری یا درمیانے درجے کی تجارت پر اکتفا کریں۔ جبکہ درجہ سوم کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ درجہ اول کے ممالک کے لیے مزدور فراہم کریں۔ نیز ان کے فائدہ کے لیے خام مواد فراہم کریں۔ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں کہ:

’’یہ دو کام ہمارے ذمے ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس نئے نظام (گلوبلائزیشن) کے تحت ہمیں کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔(25)

اگر ڈاکٹر صاحبؒ کے اس تجزیہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے تو یہ بات بڑی حد تک مبنی بر حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ آج ہمارے نوجوان کے ذہن میں ترقی اور اچھے مستقبل کا زیادہ سے زیادہ معیار یہ ہے کہ وہ درجہ اول کے کسی ملک میں تعلیم یا ملازمت کے حصول کی راہیں تلاش کرے یا پھر کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی ملازمت اختیار کرلے۔ڈاکٹر صاحبؒ نوجوانوں کی اس سطحی سوچ پر بڑے آزردہ اور کبیدہ خاطر دکھائی دیتے ہیں۔

مسلمانو ں کی جذباتیت اور مغرب:

وہ مسلمانوں کی صرف اس سوچ پر مغموم نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے خلاف مغرب کی ان سازشوں کے برعکس دنیائے اسلام بالخصوص دنیائے مشرق کی بے حسی اور سطحیت و جذباتیت ہر دو رویوں پر بھی مغموم نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق مغرب کی ان چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں میں ایک سطحیت و جذباتیت کا حامل طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جو اپنے عاجلانہ فیصلوں اور حکمت سے عاری جذباتی نعروں کے ذریعہ مغرب کے اس رویہ کا جواب دینا چاہتا ہے۔

ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق اس طبقہ کی جذباتیت کو مغرب بڑے غلط انداز میں پیش کرتا ہے اور انہیں اپنے اس دعویٰ کا ہم خود جواز فراہم کرتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحب رقمطراز ہیں کہ:

’’اہل مغرب یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جو دینی تعلیم کے ادارے ہیں ان کو ختم کردیاجائے۔ کریش ڈاؤن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی اداروں کا دنیا میں ایک بارڈرلائنز اور جنگ جو قسم کا امیج سامنے لایاجائے۔ وہ امیج ہم اور آپ خود سامنے لارہے ہیں۔۔۔۔۔۔ہمارے اپنے پُرجوش اور فہم سے عاری لوگ اس امیج کو خود پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے بعض پرجوش لیکن کم فہم اور بے بصیرت لوگوں کی حرکتوں سے یہ تاثر دن بہ دن مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ یہ مدرسے جنگ جوؤں کے اڈے ہیں۔ اور پورے عالم اسلام میں یہ فساد اور اختلاف کا مرکز ہیں۔ اس لیے ان پر ضرب لگائی جائے۔‘‘(26)

مسلمانوں میں یہ بات بڑی تیزی سے سرایت کررہی ہے کہ وہ مغرب کے استعماری اور ظالمانہ رویہ کے خلاف جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اپنے عزائم کا بہادرانہ انداز میں اظہار کرتے اور اسی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔حالانکہ مغرب اپنے عزائم کے اظہار کے حوالہ سے انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہ انتہائی خاموشی اور چالاکی سے اپنے عزائم کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اسی رازداری سے انہیں پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ مغرب کے اسی طرز عمل اور ہمارے موجودہ جذباتی رویوں پر ڈاکٹر صاحب نے بڑا وقیع تجزیہ کیا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔

دوہرا نظام تعلیم مغرب کا تحفہ ہے:

ڈاکٹرصاحبؒ دین اور دنیا کی الگ الگ تعلیم کے بھی مخالف ہی۔ وہ مدارسِ دینیہ کے موجودہ نظام سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں اور اس طرح کی تعلیم کو بھی مغرب کا تحفہ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں :

’’یہ تاثر کہ دینی اور دنیوی علوم جدا جدا اور الگ الگ بہنے والی مختلف نہریں ہیں، اسلامی تاثر نہیں، بلکہ یہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکولرازم کے باقیات سیئات و اثراتِ بد میں سے ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں اورمیں بغیر کسی تردد کے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب تک مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے یہ دو نظام الگ الگ برقرار رہیں گے، دنیائے اسلام میں سیکولرازم کو فروغ ملتا رہے گا۔‘‘(27)

مغربی مستشرقین کا منفی کردار:

مغرب نے اپنی نوآبادیاتی تاریخ سے یہ سبق سیکھا ہے کہ جب تک کسی قوم کی تہذیب و تمدن کو اپنے رنگ میں نہیں رنگا جائے گا اس وقت تک وہ مکمل طور پر اپنا جبری استبداد اور ظلم و ستم پر مبنی نظام قائم نہیں رکھ سکتے۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ سے مغربی دانشور اور مستشرقین دنیائے اسلام میں روشن خیالی اور تجدد پسندوں کے لیبل کو استعمال کرکے مسلم اُمّہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ان کی بقا اور ترقی کا راز اسی نسخہ کیمیا میں مضمر ہے۔

اس تمام عرصہ میں مستشرقین نے سب سے پہلے قرآن کریم وسنت نبویہ اور پھر بتدریج سیرت مطہرہ اور اسلامی تاریخ کے حوالہ سے دنیائے اسلام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی میں جب مستشرقین نے دیکھا کہ پورا عالم اسلام ان کے زیر تسلط ہے تو ان کو مسلمانوں کی تہذیبی روایات اور مذہبی اعتقادات کو ٹھیس پہنچانا بہت آسان لگا۔ اس سے قبل عالمِ اسلام عروج کی بہاریں دیکھ چکا تھا۔ لیکن اب واسطہ غلامی سے تھا۔ غلامی کا ایک اثر اقوام پر یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے اذہان بھی غلام ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مغرب سے بڑی پامردی سے مذہبی اعتقادات اور تہذیبی روایات کی جنگ لڑی۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے بجا طور پر لکھا ہے کہ :

’’ ہمارے اس برصغیر میں مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ (28) اور مولانا محمدقاسم نانوتوی(29)نے اس سلسلہ میں گرانمایہ خدمات سرانجام دی ہیں۔‘‘ (30)

اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ سرسید احمد خان(31)کی بھی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے انگریز مستشرق ولیم میور(32)کی کتاب The Life of Muhammad کا جواب خطبات احمدیہ کے نام سے دیا تھا۔(33)یہ دور برصغیر پر بڑے ابتلا کا دور تھا۔ اگر یہ مستشرقین اور پادری اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتے تو آج برصغیر کی حالت اندلس سے بھی گئی گزری ہوتی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس دور میں اس طرح کے لوگ پیدا فرمائے جنہوں نے مغرب کے اس جدید فلسفیانہ اور منطقیانہ شکوک و شبہات کا مبنی برعقل جواب دیا۔ اور امت کو ایک عظیم آزمائش سے بچالیا۔چنانچہ ہمیں ان حضرات کے بعد شبلی نعمانی(34)سے لے کرعلامہ اقبال تک مغرب کے اس لادینی فلسفہ کا رد واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر صاحبؒ بھی اسی فکر کا تسلسل ہیں۔

بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ مستشرقین دراصل ایک غیر جانبدار جماعت ہے اور ان کا حکمرانوں سے کبھی کوئی ربط نہیں رہا۔ مگر ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق مستشرقین عیسائیوں کی وہ جماعت ہے جو بہ ظاہر غیر جانبدار اور علمی تحقیق کے حوالہ سے متعارف ہے، لیکن اگر ان کی سرگرمیوں کا گہری نظر سے مطالعہ کیاجاے تو یہ بات روزرشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مستشرقین کا تبشیری گروہ(35) سے بڑا گہرا تعلق ہے بلکہ حکمرانوں کے ساتھ بھی ان کے روابط بڑے مضبوط ہیں۔(36)

مستشرقین کا پہلا حملہ:

ان مستشرقین نے سب سے پہلا حملہ قرآنِ کریم پر کیا۔ مغرب کے بڑے بڑے مستشرقین اس کوشش کو لے کر کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی زندگیاں اس مذموم مقصد کے لیے صرف کردیں۔ نولڈیکے( 37) ایک مشہور مستشرق ہے اس کے متعلق ڈاکٹر صاحبؒ نے لکھا ہے کہ

’’ (اس) نے اپنی زندگی کے کم از کم چالیس سال اس کام پر لگائے کہ وہ قرآنِ پاک کا مطالعہ کرے اور مطالعہ کرنے کے بعد اس نے دو جلدوں پر مبنی قرآنِ پاک کی تاریخ لکھی۔ لیکن ان کو یہ اندازہ جلد ہی ہوگیا کہ قرآنِ پاک اتنی مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کہ ان بنیادوں کو آسانی کے ساتھ ہلایانہیں جاسکتا۔‘‘( 3)

ڈاکٹر حمیداللہ(39)نے خطبات بہاولپور میں لکھا ہے کہ جرمنی کے عیسائی پادریوں نے انجیل کے قدیم ترین مخطوطے جمع کیے اور ان کے ایک ایک لفظ کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اس انجمن کی حتمی رپورٹ کے مطابق ان نسخوں میں تقریباً دو لاکھ مقامات پر تحریف پائی جاتی ہے۔ جن میں سے 1/8 تحریفات کا تعلق انتہائی اہم مقامات سے ہے۔ اس کے بعد میونخ یونیورسٹی نے 1933ء میں یہی تجربہ قرآن کے ساتھ کیا اور 42ہزار قرآن کے نسخوں کے ایک ایک حرف کا مقابلہ کیا۔ اس انجمن کی آخری رپورٹ کے مطابق قرآن میں بعض جگہ کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن ایک بھی مقام ایسا نہیں ملا جس میں لفظی تحریف پائی گئی ہو۔ (40)

ڈاکٹر صاحبؒ نے غیر مسلموں کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’ غیر مسلموں کی اس رپورٹ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید کو صحابہ کرامؓ نے اس طرح دل و جان سے محفوظ کیا کہ اس سے بڑھ کر انسانی ذہن اور دماغ میں کسی چیز کی حفاظت کاخیال آنہیں سکتا‘‘۔(41)

(ii) مستشرقین کا دوسرا حملہ:

قرآن کریم کے بعد مستشرقین نے اگلا نشانہ احادیث مبارکہ کو بنایا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحبؒ کے مطابق انیسویں صدی کے وسط میں جو بنیادی اعتراضات کیے گئے تھے ان سب کی اصل بنیاد یہ غلط فہمی تھی کہ ذخیرہ احادیث تاریخی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ اور غیر مستند ہے۔(42)ڈاکٹرصاحبؒ کے مطابق اب یہ اعتراضات نہیں کیے جاتے کیونکہ ان کے مفروضے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ لیکن آج کل جو اعتراض ہورہے ہیں وہ احادیث کے مندرجات پر کیے جارہے ہیں۔(43) ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:

’’میں (مغربی مستشرقین کے) اعتراضات کا جواب دینے کے اس طریقے کو صحیح نہیں سمجھتا کہ پہلے آپ اعتراض نقل کریں اور پھر اس کا جواب دیں۔ آپ اصل بات کو اس طرح بیان کریں کہ اعتراض پیدا ہی نہ ہو۔ یہ زیادہ دیرپا اور زیادہ موثر طریقہ ہے۔‘‘ (44)

گولڈ زیہر(45)جوایک مشہور مستشرق گزرا ہے اس نے احادیث مبارکہ پر سب سے پہلے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے اس منفی کام کو اس کے شاگرد جوزف شاخت(46)نے آگے بڑھایا۔ اس نے احادیث کے موضوع پر کتب لکھیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اس کے اعتراضات کا جائزہ لیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ:

’’اس کا (جوزف شاخت) کا زور صرف احادیث احکام پر تھا اور اس نے تمام دلائل کو اور اسی اسلوبِ استدلال کو استعمال کیاجو گولڈ زیہر کا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ احادیثِ احکام سب کی سب جعلی ہیں، فرضی ہیں اور ان کا رسول اللہ ﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان علماء نے ایک ایک کرکے اس کا جائزہ لیا اور ان دلائل کی کمزوری واضح کی۔ جب ان کو یہ اندازہ ہوگیا کہ حدیث کی اتنی مضبوط بنیاد ہے کہ اس کو آسانی سے نہیں گرایاجاسکتا تو پھرد وبارہ ان کی توجہ سیرت پر گئی‘‘۔(47)

(iii) مستشرقین کا تیسرا حملہ:

قرآن و سنت کی مضبوط بنیادوں کو متزلزل نہ ہوتے دیکھ کر مغربی مستشرقین نے سیرت نبویہ ﷺ کو نشانہ بنایا۔ اس عمل سے ان کی غرض یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ اور ان سے منسوب روایات واقعات کو مشکوک بناکر اس کی عملی افادیت اور اہمیت کو کم کیاجائے۔ اس مقصد کے لیے مغربی مستشرقین نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر بڑے رکیک اور گھٹیا الزامات لگائے۔

ڈاکٹر صاحبؒ نے مستشرقین کے ان اعتراضات کا بڑا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ولیم میور نے اعتراض کیا ہے کہ کہ نبی کریم ﷺ کا تعلق حضرت اسماعیل علیہ السلام سے نہیں تھا۔ نیزبیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نہیں بنایاتھا۔ڈکٹر صاحب نے اس اعتراض کا بڑی عمدگی سے جواب دیا ہے۔(48 ) اسی طرح ڈاکٹر صاحبؒ نے سیرت کے مآخذ پر مغربی مستشرقین کے کیے جانے والے اعتراضات کا بھی بڑا عمدگی سے محاکمہ کیا ہے(49)ڈاکٹر صاحب نے مستشرقین کے اس اعتراض کا بھی جواب دیا ہے کہ نبی کریمﷺ کا خاندان بلحاظ عزت وشرافت عرب میں کم تر خاندان تھا۔(50) انہوں نے نبی کریمﷺ کے خاندان کی افضلیت بلند مقام و مرتبہ کو بڑے عمدہ دلائل سے مرصع کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مستشرقین کے غلط تراجم اور تفہیم کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس حوالہ سے انہوں نے ڈاکٹر مارگولیتھ(51) کے کئی مضحکہ خیز تراجم کا حوالہ بھی دیا ہے۔(52) ان اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ دورحاضر میں علم سیرت کو درپیش چیلنجز کے حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں کہ:

’’اب جو رجحان ہے وہ سیرت پر بہ حیثیت مجموعی حملے کا نہیں ہے، بلکہ جزوی واقعات کو نشانہ بنانے کا ہے۔‘‘(53)

ڈاکٹر صاحبؒ نے دورِ حاضر میں مغربی مستشرقین کے عمومی رویہ کے حوالہ سے اپنی رائے کااظہار ان الفاظ میں کیا ہے: ’’یہ بات اطمینان بخش ہے کہ اب مغرب میں سیرت کا مطالعہ سنجیدگی سے ہونے لگا ہے، پرانے تعصبات ایک ایک کرکے ختم ہورہے ہیں یا کم از کم کمزور پڑرہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ پرانے تعصبات کا علمی اعتبار سے دفاع نہیں کیاجاسکتا اور صدیوں پرانے مستعمرانہ تصورات کو باقی نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لیے اب مغرب کے انصاف پسند محققین زیادہ حقیقی اور زیادہ بہتر مطالعہ کی طرف آرہے ہیں۔‘‘ (54)

(iv) مستشرقین کا چوتھا حملہ:

تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ مغرب آج بھی اپنے استعماری نظریات کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کررہا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح وہ دنیائے اسلام کی تہذیب کو شکست و ریخت سے دوچار کریں۔ اس کے لیے وہ اب اعتراضات بھی بڑے جدید انداز اور جدید طرز کے کررہے ہیں۔ قرآن و سنت اور سیرت نبویہ کے بعد ان کے اعتراضات اب مسلمانوں کے فقہی ذخیرہ پر کیے جارہے ہیں۔ اگرچہ ہمارا فقہی ذخیرہ اپنی اہمیت اور معنویت کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے لیکن جمود کی روش نے مغرب کو بجاطور پر یہ اعتراض کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اسلامی قانون دورِ حاضر کا ساتھ دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔دنیا میں ہونے والی تیز رفتار تبدیلی نے اسلامی قانون کے لیے بہت سے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ان سوالات کے اجتماعی حل کے لیے اجتماعی اجتہادات سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں کہ:

’’اس اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں۔ ایک نئی فقہ وجود میں آرہی ہے۔ جس کو نہ فقہ حنفی کہہ سکتے ہیں نہ مالکی، نہ حنبلی ، نہ جعفری۔ بلکہ اس کو اسلامی فقہ ہی کہا جائے گا۔میں اس کے لیے Cosmopolitan Fiqhیعنی عالمی یا ہردیسی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں۔‘‘ (55)

ڈاکٹر صاحبؒ کے اس فقہ آفاقی کے تصور پر اگرچہ بحث کی جاسکتی ہے اوراس پر حال ہی میں تنقیدی جائزہ بھی لیاگیا ہے۔ لیکن امرواقعہ یہ ہے کہ آج نہ سہی کل سہی ہمیں مغرب کے اعتراضات سے قطع نظر ہوکر محض اپنے ملی تشخص اور مذہبی اقدار کی حفاظت کے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کے اس تصور سے استفادہ کرنا ہوگا۔

مغرب کامنفی کردار اوراسلام کا مستقبل:

ڈاکٹر صاحب کی فکر کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مغرب اور مغربی مستشرقین کے اس معاندانہ اور تخریب کارانہ رویہ پر محض جذباتی بیان بازی پر اکتفا نہیں کرتے اور نہ ہی ان کا وژن دنیائے اسلام میں ان سازشوں کا رعب طاری کرنا ہے۔ بلکہ وہ ان حالات میں بھی مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی فوقیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں: چنانچہ لکھتے ہیں:

’’آج مغربی تہذیب ان تمام میدانوں میں بہت غالب اور بالادست معلوم ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب کو وہ بالادستی حاصل نہیں۔۔۔۔۔۔البتہ یہ دونوں تہذیبیں ایک اعتبار سے برابرہیں۔وہ یہ کہ ان دونوں تہذیبوں کے مؤیدین اس عزم و ارادہ سے بھرپور ہیں جو عزم و ارادہ کسی قوی تہذیب کے پیروکارو ں میں پایاجاتا ہے۔ ایک اعتبار سے اسلامی تہذیب کو بالادستی آج بھی حاصل ہے۔ وہ اخلاقی بالادستی ہے‘‘۔(56)

دورِ حاضر میں مغربی پروپیگنڈے اور شعور کی کمی کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ بھی موجود ہے جو مغرب کے تہذیبی اثرات کے زیرِ اثر ہر جگہ اس بات کی جگالی کرتے نظر آتاہے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب کے آگے گٹھنے ٹیک چکی ہے۔ اس میں اب کوئی دم خم باقی نہیں رہا۔ اس طبقہ کی سوچ کی نفی کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبؒ اسلام اور اسلامی تہذیب کا مستقبل بڑا تابناک دیکھتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

’’اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے درمیان کشمکش کی یہ داستان بظاہر حوصلہ شکن معلوم ہوتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شاید مستقبل کی لگامیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھوٹ چکی ہیں۔ لیکن معاملات کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس پوری کشمکش کے دوران مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ، عامۃ الناس کی بہت بڑی تعداد نہ صرف پر امید رہی ہے بلکہ ان مصائب اور تکالیف کے سمندروں سے گزرنے کے نتیجے میں ان کا ایمان اسلامی شریعت پر پہلے سے بہت زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد ازسرنو اسلامی شریعت کی طرف متوجہ ہوئی ہے اور ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیداہوا ہے۔ جو جہاں مغرب کو خوب سمجھتا ہے وہاں اسلامی شریعت پر ایمان اور شریعت کے ازسرنو نفاذ کے لیے اپنے عزم میں کسی بھی دوسرے پرجوش مخلص مسلمان سے کم نہیں۔‘‘(57)

ڈاکٹر صاحبؒ کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے۔ کیونکہ آج مغربی دنیا ہی کے اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ اسلام مغرب میں پھیلنے والے مذاہب میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنا ایک ذاتی مشاہدہ بھی بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1974یا1975میں مشہور اسلامی مفکر ڈاکٹر دوالیبی فرانس کے کچھ مسلمانوں کی شکایات لے کر رابطہ عالم اسلامی کے حوالہ سے فرانس کے صدر سے ملے۔ اس موقع پر فرانسیسی صدر نے مسکرا کر کہا ڈاکٹر دوالیبی آج آپ فرانس کے مسلمانو ں کی طرف سے مجھ سے بات کرنے آئے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں میرے جانشین فرانس کے عیسائیوں کی طرف سے بات کرنے کے لیے آپ کے جانشینوں سے ملنے آئیں‘‘۔(58)

اگر آج ہم اپنے نوجوانوں کو مغرب کی جانب سے درپیش جدید چیلنجز سے کماحقہ آگاہی دیتے ہیں اور انہیں ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ حاصل کرلیں اور اس حوالہ سے ڈاکٹرصاحبؒ کی فکر ہمارے لیے صراط مستقیم کی حیثیت رکھتی ہے۔

حوالہ جات وحواشی

  1. سورۃ الاحزاب کی اس آیت نمبر40کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا۔ نیز خاتم النبیین کے یہ الفاظ بخاری شریف میں بھی آئے ہیں۔ ملاحظہ ہوبخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، حدیث 744۔
  2. یہ احادیث مبارکہ کا ایک جملہ ہے، جس کا معنی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس حدیث کو مفتی محمد شفیعؒ نے معارف القرآن میں صحیح بخاری، مسلم اور مسند احمد سے تخریج کیا ہے۔ ملاحظہ ہو معارف القرآن، جلد ہفتم، ص166۔
  3. اس حدیث مبارکہ کا مطلب ہے کہ علماء انبیاء علیہم السلام کے ورثاء اور جانشین ہیں۔ اس حدیث کو صاحبِ مشکوٰۃ نے ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور مسند احمد سے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مشکوٰۃ المصابیح، کتاب العلم، حدیث 15۔
  4. یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ اسلام کے ہر دور میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق مجدد پیدا ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے لے کر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی(متوفی 1762ء) تک بالخصوص اور دورِ حاضر تک بالعموم اس طرز فکر کے رجال پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جنہوں نے دین کو درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر صاحبؒ بلا شبہ اس دور میں مولانا ابوالحسن علی ندوی (متوفی 1999،)اور ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ (متوفی2002ء) کے پایہ کے عالم تھے۔
  5. حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال 9نومبر 1977ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مغربی علوم وافکار پر بڑی کڑی تنقید کی ہے۔ آپ کی وفات 21اپریل 1938ئمیں ہوئی۔
  6. عطاء اللہ 249شیخ، اقبال نامہ، ص 99۔98، اقبال اکیڈمی، لاہور، 2005ء۔
  7. ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی پیدائش 18ستمبر1950ء میں دہلی میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام مولانا محمد احمد فاروقی تھا۔ وہ تصوف میں مولانا اشرف علی تھانویؒ (متوفی1943ء) سے بیعت تھے۔تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاسؒ (متوفی1944ء) اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ (متوفی 1982ء) ڈاکٹر صاحبؒ کی والدہ کے سگے ماموں تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے 26دسمبر2010ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔
  8. ماہنامہ تعمیر افکار،ج8، شمارہ 10، ص20۔
  9. ایضاً، ص 21۔
  10. غازی ،محمود احمد، محاضراتِ شریعت، ص 466، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور،2009ء۔
  11. ایضاً، ص455۔
  12. ماہنامہ تعمیر افکار،ج8 ، شمارہ 10، ص26۔
  13. غازی ،محمود احمد، محاضراتِ شریعت، ص548۔
  14. ایضاً، ص 453-454
  15. قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’کئی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم‘‘(سورۃ الحشر آیت :7)یعنی دولت تمہارے امراء ہی میں گردش نہ کرتی رہے۔
  16. غازی، محمود احمد، محاضرات معیشت و تجارت، ص143، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب لاہور، 2010ء۔
  17. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، ، ص189، الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ، 2009ء
  18. ایضاً
  19. ماہنامہ تعمیر افکار، ج8، شمارہ 10، ص29۔
  20. ایضاً، ص30۔
  21. ایضاً، ص 31۔
  22. ایضاً ، ص 35۔
  23. البقرہ، آیت: 120۔
  24. ماہنامہ تعمیر افکار، ج8،شمارہ 10، ص35۔
  25. ایضاً، ص36-37۔
  26. ایضاً، ص32۔
  27. غازی، محمود احمد، مسلمانوں کا دینی و دعصری نظام تعلیم، ص192۔
  28. مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی پیدائش 1818ء میں ہوئی اور وفات 1891ء میں ہوئی۔بڑے جید عالم دین تھے۔ عیسائی مناظرین کا انتہائی عمدگی سے مقابلہ کیا۔
  29. مولانا محمد قاسم نانوتویؒ 1832ء میں نانوتہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ بڑے زبردست عالم دین تھے۔ دارالعلوم دیوبند آپ ہی نے قائم فرمایا۔مولانا نے تمام عمر مغربی تہذیب کے علمبرداروں سے زبان و قلم کا جہاد کیا۔ آپ کی وفات 1880ء میں ہوئی۔
  30. ماہنامہ تعمیر افکار، ج8،شمارہ11، ص29۔
  31. سرسید احمد خان1817ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے انگریز مستشرق ولیم میور کی کتاب The Life of Muhammadکا جواب خطبات احمدیہ کے نام سے لکھا۔ آپ کا انتقال 1898ء میں ہوا۔
  32. ولیم میور، گلاسکو،اسکاٹ لینڈ میں 1819ء میں پیدا ہوا۔ اس نے گلاسکو اور ایڈنبرا یونیورسٹی سے مروجہ تعلیم حاصل کی۔ برصغیر میں یوپی کا گورنر رہا۔1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس نے( The Life of Muhammad)نامی کتاب لکھی جو چار جلدوں میں 1861ء میں شائع ہوئی۔ اس کا انتقال 1905ء میں ہوا۔
  33. غازی، محمود احمد، محاضرات سیرت، ص616، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور، 2007ء
  34. مولانا شبلی کا مکمل نام محمد شبلیؒ تھا۔ آپ مئی 1857ء میں پیدا ہوئے۔ بڑے جید عالم دین تھے۔ سیرت النبی جیسی معرکۃ الآراء کتاب تصنیف کی جس میں بڑی خوبصورتی سے مغربی اعتراضات کے جوابات دیے۔ آپ کا انتقال 18نومبر1914ء کو ہوا۔ تفصیل ملاحظہ ہو ’’یادگار شبلی‘‘ مصنفہ ایس۔ ایم اکرم۔
  35. تبشیری گروہ سے مراد عیسائی مبلغین اور پادری ہیں۔ جو دین مسیحی کی تبلیغ کرتے ہیں۔
  36. ماہنامہ تعمیر افکار، ج8، شمارہ 11، ص29۔
  37. اس کا مکمل نام تھیوور نولڈیکے تھا۔ 1836ء میں ہاربرگ میں پیدا ہوا۔1859ء میں فرانس کی اکادمی ادبیات نے اس کی کتاب ’’تاریخ قرآن‘‘ پر انعام سے نوازا۔ دسمبر 1930ء میں انتقال کیا۔
  38. ششماہی السیرۃ عالمی کراچی، شمارہ 25، ص417۔
  39. ڈاکٹر محمد حمید اللہ 19فروری 1908ء میں پیدا ہوئے۔ بڑے جید عالم دین اور محقق تھے۔165سے زائد کتب اور تقریباً 1000کے قریب تحقیقی مقالات تحریر کیے۔17دسمبر 2002ء میں انتقال ہوا۔
  40. ڈاکٹر حمیداللہؒ نے تحریفات کی تعداد دولاکھ تحریر کی ہے جو 1/8بنتی ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے پونے دو لاکھ تحریفات لکھی ہیں جو 1/7بنتی ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ، ص 16-17اور محاضرات قرآنی از ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ، ص149-150
  41. غازی، محمود احمد، محاضرات قرآنی، ص151، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور، 2007ء۔
  42. غازی، محمود احمد، محاضرات حدیث،ص462، الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور2004ء۔
  43. ایضاً۔
  44. غازی، محمود احمد، محاضرات سیرت، ص727نیز محاضراتِ حدیث،ص462
  45. گولڈزیہر ہنگری کا یہودی باشندہ تھا۔ وہ 1850ء میں پیدا ہوا۔ اس نے جامعہ ازہر مصر سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس نے نبی کریمﷺ کی سیرت پر کافی کچھ لکھا ہے۔ اس کا انتقال 1921ء میں ہوا۔
  46. جوزف شاخت1902میں پیدا ہوا۔ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں قانون اسلامی کا پروفیسر رہا۔ اس نے 1969ء میں وفات پائی۔ اس پر ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی نے بڑا جامع مضمون لکھا ہے۔ جس کا ترجمہ نشریات لاہور نے ’’علوم اسلامیہ اور مستشرقین‘‘ نامی کتاب میں شائع کیا ہے۔ ص41-68ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
  47. ششماہی السیرۃ عالمی کراچی، شمارہ 25،ص418۔
  48. ایضاً، ص428۔
  49. ملاحظہ ہو السیرۃ عالمی شمار25، ص420-427نیز محاضرات سیرت، ص418۔
  50. ششماہی السیرۃ عالمی کراچی، شمارہ25، ص429۔
  51. مارگولیتھ کا اصل نام ڈیوڈ سیموئیل مارگولیتھ تھا۔ وہ 1858ء میں لندن میں پیدا ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ اس نے نبی کریمﷺ اور اسلام سے متعلق متعدد کتب تحریر کیں۔ اس کا انتقال 1940ء میں ہوا۔
  52. ملاحظہ ہو ششماہی السیرۃ عالمی کراچی، شمارہ 25، ص430-432، نیز محاضرات سیرت،ص662۔
  53. ششماہی السیرۃ عالمی کراچی، شمارہ 25، ص424۔
  54. غازی محمود احمد، محاضرات سیرت،ص51۔
  55. ملاحظہ ہو ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص313-321نیز معارف اسلامی کی خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص143-172۔
  56. غازی، محمود احمد، محاضرات شریعت، ص466۔
  57. ایضاً، ص471-
  58. ماہنامہ تعمیر افکار، ج8، شمارہ 10، ص40-41۔

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...