Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

اسلام اور ہندو مت میں مادی اور روحانی طہارت کے اصول |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_416

Pages

182-191

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/204/194

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/204

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

طہارت اور پاکیزگی ہرانسان فطری طور پر پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر متمدن معاشروں میں طہارت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔مذاہب عالم نے جسمانی، ذہنی اور روحانی پاکیزگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پاک کھانا کھانے، صاف لباس پہننے اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ عبادات کی ادائیگی سے پہلے ہر مذہب نے جسمانی طہارت لازمی قرار دی ہے،اور عبادت کو ذہن، نفس اور روح کی پاکیزگی کا ذریعہ بتا یا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں مذہب کی بنیاد پر دو معاشرے، اسلامی اور ہندو معاشرہ تشکیل پا چکے ہیں۔اسلام اور ہندو مت نے اپنے اپنے پیرو کاروں کیلئے طہارت اور پاکیزگی کے اصول اور احکام وضع کئے ہیں ۔یہ اصول کہیں ایک دوسرے کے ساتھ مماثلت اور کہیں تضاد رکھتے ہیں۔انہی اصولوں کی بنیاد پر اسلامی اور ہندو معاشرہ کے سماجی اور معاشرتی قوانین ورسوم بنا ئے گئے ہیں۔ ان سطور میں اسلام اور ہندو مت کے طہارت کے اصولوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔

(1) اسلام میں طہارت کی اہمیت:

1۔قرآنی آیات کی روشنی میں:

طہارت اور پاکیزگی اسلام کے اولین احکام میں سے ہے۔ نبی کریم ٍصلى الله عليه وسلم پرجو دوسری وحی نازل ہو ئی تھی اس میں اپنے رب کی کبریائی اوکپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ [1]"اور پنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو صاف رکھ"۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نفاست پسند لوگوں کی مدح فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک وصاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [2]ترجمہ: بیشک اللہ توبہ کرنیوالوں اور صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

قرآن مجید میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام بنی نوع انسان کو طیب یعنی پاک غذا کھانے اور نیک عمل کرنے کی تاکیدکی گئی ہے ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ[3] ترجمہ: اے لوگو!زمین میں حلال اور پاک چیزیں کھا یا کرو اور شیطان کی پیروی مت کرو۔ بیشک یہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

"وَاشْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ[4] ترجمہ: اے ایمان والو!جو رزق ہم نے تمہیں دی ہے ان میں پاک چیزیں کھایا کرو اور اللہ کا شکر اداکرو اگر عبادت کرنے والے ہو۔عبادات کامقصدبھی تزکیہ نفس اور تطہیر جسم و قلب ہے ۔

زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرما تے ہیں:

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم[5] ترجمہ: ان کے اموال میں زکوٰۃ لیا کرو تاکہ اس سے وہ پاک وصاف ہو جا ئے۔

نماز سے قبل طہارت لازمی قرار دی گئی ہے ۔[6] جس کا مقصد بھی تطہیر اور اتمام نعمت بتا یا گیا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَكِن يُرِيدُ لِيُطَهَّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔ [7]

ترجمہ: اللہ نہیں چاہتا ہے کہ تم پر تنگی لا ئے بلکہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں تاکہ تم شکر اداکرو۔

2۔ طہارت : اسوۂ حسنہ کی روشنی میں:

انہی قرآنی آیات کی روشنی میں نبی کریمٍ صلى الله عليه وسلم نے ظاہری ااور باطنی طہارت وپاکیزگی کے اصول متعین کئے ہیں۔وضو کے بارے میں فرمایا کہ کہ قیامت کے دن وضو کی وجہ سے میری امت کے لوگوں کے ہاتھ،پاؤں، چہرے اور تمام اعضاء جہاں پانی پہنچتا ہے، سفید اور روشن ہو ں گے۔[8]یہ بھی فرمایا کہ زمین سوکھ کر نجاست سے پا ک ہو جا تی ہے۔[9]سوکھی زمین کے مطہر ہو نے کے بارے میں فرمایا:

عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أنا وطئ أحدكم بنعله الأذى فان التراب له طهور۔[10]

ترجمہ: ابو ہریرہؓ سے روایت کہ نبی کریمٍ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب کو ئی تم میں سے اپنی جوتی سے پلیدی پر چلے ، تو مٹی اس کو پاک کردے گی۔

یوں تو طہارت لغت میں پاکیزگی کو کہتے ہیں لیکن فقہی اصطلاح میں حدث اور خباثت کے دور کرنے کو طہارت کہا جا تا ہے۔ مؤخر الذکر جسمانی ناپاکی ،مثلاً خون اور فضلات وغیرہ، اور حدث اس حالت کا نام ہے جس میں مسلمان کو نماز ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کے دور کرنے کیلئے وضو،غسل یا تیمم کرنا لازمی ہوتا ہے۔ حدث سے طہارت کیلئے نیت ضروری ہو تا ہے جبکہ نجاست سے طہارت کیلئے نیت کی ضرورت نہیں ہو تی ہے۔

3۔نجاست:

اسلامی تعلیمات کے مطابق نجاست میں ،جن سے پاک وصاف ہونا ضروری ہو تا ہے، حیوانات کے اجسام سے نکلنے والے فاضل مادے، پس خوردۂ حیوانات ،حیوانات کے مردہ اجسام اور نشہ آور مشروبات شامل ہیں۔انسان اور حلال جانوروں کا جھوٹا پاک ہے، جبکہ کتے ،۔[11] خنزیر اور دوسرے درندوں ،شیر بھیڑئیے وغیرہ، کا جھوٹا ناپاک ہے۔ بلی، آزاد مرغی اور گھریلو جانور جیسے سانپ اور چوہے وغیرہ کا جھوٹا مکروہ ہونے کے باوجود پاک ہے۔انسان کے علاوہ تمام جانوروں کے مردہ اجسام،جن سے خون نکلتا ہے، ناپاک ہے۔

جسم سے نکلنے والے مادوں میں خون ناپاک اور ہرن سے جسم سے نکلنے والا مشک پاک ہو تا ہے۔البتہ شہید کا خون ،مذبوحہ جانور کا خون جو اس کے جسم پر لگ جا تا ہے،پاک ہے۔انسان اور جانوروں کے جسموں سے نکلنے ولافاضل مادہ، پیپ، پیشاب، اور مادۂ منویہ ، قئے،درندوں کا لعاب دہن اور پس خوردۂ نجس ہے۔ شراب اور تمام تر نشہ آور مشروبات ناپاک ہیں۔

4۔ حصول طہارت کے اصول:

پانی کے ذریعے حدث اورنجاست دونوں سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ ۔[12]پانی کی مقدار یعنی قلیل وکثیر اوراس میں مختلف اشیاء کے ملاوٹ کے اعتبار سے پانی کی دو قسمیں،ماء المطلق اور ماء المضعاف، ہیں۔ بارش، سمندر، ندی، چشمے اور کنویں کا پانی ماء المطلق ہے ،جوطاہرو مطہر ہے۔ ماء المستمعل استعال شدہ پانی ہے،جس کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔پانی سے نجس چیز پاک کی گئی ہو تو یہ پانی نجس ہے ، اگر حدث سے طہارت کیلئے استعمال کیاگیا ہے،تو یہ طاہر ہے لیکن مطہرنہیں ہے۔ البتہ ثواب اور جمعہ کیلئے غسل کے دوران استعمال شدہ پانی پاک اور پاک کرنے والاہے۔ ماء المضعاف پھلوں کے رس یا وہ پانی جس میں کو ئی ایسی چیز ملائی گئی ہو جس کی وجہ سے اس کی خاصیت بدل چکی ہو ، کو کہتے ہیں ۔ یہ بھی پاک ہے لیکن اس سے پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے ۔

ماء المطلق ،جو طاہر اور مطہر ہونے کی بناء پر تمام تر نجاستوں اورا حداث کے لیے ذریعہ طہارت ہے، کے علاوہ زمین کی مٹی پاؤں اور جوتے کے تلوں کو پاک کرتی ہے جب تک اس پر ظاہری نجاست رہ نہ جائے۔ سورج زمین اور زمینی اشیاء کو پاک کرتی ہے۔استحالہ ،مثلاً ہرن کے خون کا مشک میں بدل جانا، سے خون پاک ہو جا تا ہے۔آگ سے بھی نجس چیز جلاکر پاک کیا جاسکتا ہے ،مثلاً ناپاک چکنی مٹی آگ میں جلانے سے پاک ہو جاتی ہے۔ خنزیر کے علاوہ مردہ جانوروں کی کھال دباغت سے، اون دھننے سے اور سخت و چمکیلی سطح والی چیزیں مثلاً لوہا، تانبا اور شیشہ وغیرہ، پونچھ کر خشک کرنے سے پاک ہو جاتی ہیں۔ نجس تیل اور گوشت ابالنے سے پاک ہو جا تا ہے۔

(2)ہندو مت میں طہارت کا تصور:

ہندو مت میں طہارت اور پاکیزگی کو شوچا(Sauca ) ۔[13])کہتے ہیں جو خدا شناسی کا دوسرا نام اور پارسائی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔صبح سویرے اٹھ کر ایک برہمن غسل کرتا ہے ۔دانت صاف کرتا ہے ۔تراش خراش کرکے آنکھوں میں سرمہ ڈالتا ہے اور دیوتا ؤں کی پوجا کرتا ہے ۔صفائی ،پاکیزگی اور حسن سلوک مدارس کا پہلا درس ہوتا ہے۔چینی سیاح یوان چوانگ ہندوؤں کی نفاست اورپاکیزگی کے بارے میں رقمطراز ہیں:

وہ کسی دباؤ کے بغیر فطری طور پر پاک وصاف لوگ ہیں،جن کے ہاں ہر کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا ضروری تصور کیا جاتا ہے ، کھانے کے بعد خلال دندان سے منہ کی صفائی کی جاتی ہے اور یہ لوگ غسل سے قبل مجامعت سے پر ہیز کرتے ہیں‘‘۔۔[14]

تاہم طہارت اور پاکیزگی کے اصول اور احکام زیادہ برہمن اور دوجنم ذات سے متعلق ہوتے ہیں ، جبکہ نچھلے ذات والے شودر وں پر ان اصولوں اطلاق بہت کم ہو تا ہے۔زندگی کے چار آشرم یا مراحل ہونے کی وجہ سے طہارت کے اصول بھی ہر آشرم کیلئے الگ الگ ہیں۔

1۔ روحانی پاکیزگی :

ہندوؤں کے مذہبی کتابوں ویدوں، اپنشدوں ، پرانوں اور بھگوت گیتا میں ذہنی اور روحانی پاکیزگی کے اصول بتا ئے گئے ہیں۔تزکیہ نفس اور اندریوں یعنی ظاہری حواس پر قابو پانے کے طریقے بتا ئے گئے ہیں، جن میں یگیہ یعنی قربانی،ستتی حمد وثنا، پرارتھنا مناجات و دعا، پاجنا عرض والتجا ،سمر پن نذر ونیاز، اپاسنا عبادت ، یوگ اور تپسیا یعنی ریاضت قابل ذکر ہیں۔ تاہم مادی و جسمانی طہارت وپاکیزگی کے اصول کے ماٰخذ میں منو دھرم شاستر، ارتھ شاستر اور گریھیہ سوترا کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

رگ وید کے مطابق تمام کائنات ایک مقدس اور پوتر ہستی کی علامت ہے اور ’’اوم ‘‘ ۔[15] ہر جگہ جاری وساری ہے[16] اس لئے تیتریہ اپنشد میں کہا گیا ہے کہ اگر تم دنیا اور انسان کو غور سے دیکھو تو پتہ چلے گا کہ ہر چیز پو تر ہے ۔اندرونی اور بیرونی دنیا پر بھی غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ ہر چیز کی روح پوتر ہے اور اوم اس کی اعلیٰ ترین علامت ہے۔[17] رگ وید میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ روحانی پاکیزگی برہما کے قوانین، جو نہ ہلنے والے پہاڑکی مانند ہیں۔[18] کے مطابق زندگی گزارنے سے حاصل ہو تی ہے۔[19] گناہ کا ارتکاب روحانی الودگی کا باعث بنتا ہے ، اس لئے گناہوں کی بخشش کی دعا مانگ کر روحانی پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔

راہ عمل ،(کرم مارگ)جو ویدوں کی تعلیمات کا جو ہر رہا ہے ، کے برعکس اپنشدوں میں راہ علم(گیان مارگ) پر زور دیا گیا ہے اس لئے اپنشدوں میں ترک خواہشات کو اعلیٰ روحانی پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ بھگوت گیتا ویدوں اور اپنشدو ں کا نچوڑ ، کرم اور گیان کا مجموعہ ہے اس لئے اس میں نش کرم ۔[20] یعنی بے لوث عمل اور ضبط نفس ہی تزکیہ نفس ۔[21]کے ذرائع بتائے ہیں۔جن کی تفصیلات اور طریقہ کار پتنجل یوگ شاستر میں درج ہے۔

2۔ مادی اور جسمانی ناپاکی:

مادی اور جسمانی ناپاکی یا نجاست کو ہندو مذہب میں سوتک، پاتک[22]۔اور بھرشٹ یا بھٹ جبکہ ناپاکی میں مبتلا شخص کو ’’بھٹل‘‘کہتے ہیں۔ ہندو مذہب میں نجاست اورپاکیزگی کے اصول معاشرتی زندگی کے مطابق وضع کئے گئے ہیں جن سے طبقاتی تقسیم کی عکاسی ہو تی ہے۔

ظاہری نجاست کے علاوہ ہندو مذہب میں رشتہ داروں کی موت، بچے کی پیدائش،انسانی جسم سے نکلنے والے بارہ رطوبتیں، ناپاک اشیاء کو دیکھنایا چھونا اور عورتوں کیلئے حیض ونفاس باعث ناپاکی ہے۔ تاہم بادشاہ، برت کی تکمیل میں مصروف، استر یعنی کھانا کھلانے والے کے بارے میں اصول ہے کہ ان کو سوتک(ناپاکی) نہیں ہوتا ہے اس لئے کہ بادشاہ دنیا کے محافظ آٹھ دیوتاؤں کا اوتار ہے ،’’اندر‘‘ کے تحت پر ہو تا ہے اور اس کی فوری پاکیزگی ضروری ہو تی ہے اس لئے وہ پاک ہو تا ہے ۔ جبکہ برت کی تکمیل میں مصروف اور کھاناکھلانیوالے ،برہما کی طرح پاک ہو تے ہیں۔اس کے علاوہ جنگ یا فساد میں مرنے ،بجلی گرنے، بادشاہ کے حکم سے مرنے اور گائے یا برہمن کی حفاظت کرتے ہو ئے مرنے والوں کے رشتہ دار سوتک سے مستثنیٰ ہو تے ہیں۔ان کو بھی سوتک نہیں ہوتا ہے جنہیں بادشاہ پاک رہنے کا حکم دیتے ہیں۔[23]

رشتہ دارکی موت پر ناپاکی سوتک کا دورانیہ مختلف ہو تا ہے ۔جس کا انحصارمیت کی عمر،میت سے قرابت داری اور ذات پر ہے۔بچہ ،جس پر مذہبی رسم چونڈاکرم۔[24]نہ ہو ا ہو، یا ہم مکتب کی موت پر سوتک کا دورانیہ ایک دن کا ہو تا ہے۔دوسالہ بچے یا جس پر چونڈاکرم کی رسم ہو اہو کی موت پراس کے رشتہ دار تین دن تک ناپاک رہتے ہیں۔روحانی مرشد(اچاریہ) کی موت پر سوتک تین دن تک ہو تا ہے جبکہ اس کی بیوی یا بیٹے کی موت کی صورت میں شاگرد ایک دن اور ایک رات تک ناپاک رہتا ہے۔قریبی رشتہ دار کی مرنے اور اچاریہ کا کرپا کرم۔[25] کرنیوالا دس دن تک ناپاک رہتا ہے۔ذات کے اعتبار سے برہمن دس دن بعد، کھشتری بارہ دن، ویش پندرہ دن بعد پاک ہو گا ۔شودر کیلئے یہ دوارنیہ ایک مہینے کا ہے۔[26]

سوتک کے دوران میت کے لواحقین کو مصنوعی نمک کھانے سے پرہیز، روز نہانا اور زمین پر الگ الگ سونا ہو تا ہے۔مقرر ہ وقت کے گزرجانے کے بعد کپڑوں سمیت یا کپڑوں کے بغیر نہانے سے طہارت اور پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔[27]

بچے کی پیدائش ماں باپ دونوں کیلئے باعث ناپاکی ہے۔اپنے بیٹے کی پیدائش پر باپ صرف نہانے سے پاک ہو تا ہے جبکہ نیوگ[28] کی صورت میں مرد تیسرے دن بعد پاک ہو تا ہے۔ماں کیلئے ناپاکی کا دورانیہ مخصوص نہیں البتہ یہ بتا یاگیا ہے کہ حمل گرنے کی صورت میں یہ مدت اسقرار حمل کی برابر ہو تی ہے۔حائضہ عورت کے بارے میں قاعدہ ہے کہ وہ اسی روز نہانے سے پاک ہو جا تی ہے جس روز حیض آنا بند ہو جا تا ہے۔[29]

ہندو مذہب میں انسانی جسم سے خارج ہونے والی رطوبتیں نجس ہیں ۔ان میں خون،مادۂ منویہ، دماغ کا چربیلا مادہ، پیشاب، پاخانہ، ناک کی رطوبت، کان کی میل، بلغم، آنسو، آنکھوں کی گید اور پسینہ شامل ہیں۔پانی یا مٹی استعمال کرکے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔چنڈال، حائضہ ور دھرم سے باہر شخص کا دیکھنا یاچھونا بھی باعث ناپاکی ہے ۔نہاکر،آچمن کرکے یا سورج رخ ہو کر منتر پڑھنے سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔[30]

منو شاستر ظاہری اور باطنی شوچا یعنی طہارت کے بارے میں کہتا ہے: 

برہما کا گیان، تپسیا، آگ، مقدس خوراک یعنی شرادھ وغیرہ ، مٹی ، اندری یعنی خواہشات پر قابو، پانی،گا ئے کے گوبر کا لیپ، مقدس رسوم، سورج اور زمانہ سب فانی مخلوق کو پاک کرتی ہے۔عالم فاضل معاف کرنے سے،اعمال ممنوعہ بجانے والا سخاوت،چھپا گناہگار مقدس کلمات جپنے اور ویدوں کےجاننے والا تپسیا سے پاک ہو جا تا ہے۔ظاہری نجاست پانی اور مٹی سے دور کی جاسکتی ہے۔دریا اپنے  بہاؤ سے اور برہمن ترک دنیا یعنی سنیاس سے پا ک  ہو جا تا ہے۔یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ جسم پانی سے، اندرونی اعضاء صداقت سے ، روح علم اور تپسیا سے اور عقل سچے علم سے پاک ہو تا ہے۔تاہم اصل اور بہترین پاکیزگی یہ ہے کہ دولت کے حصول میں پاکیزگی رکھی جائے اس لئے کہ وہ پاک ہے جو صاف ہاتھوں سے دولت حاصل کرتا ہے ناکہ وہ جو مٹی یا پانی سے خود کو پاک کرتا ہے۔[31]

بے جان اشیاء، دھات ،جواہر، اور پتھر سے بنی ہو ئی چیزوں کو مٹی، راکھ اور پانی سے صاف کی جاسکتی ہے۔ جب تک بدبو اور داغ دھبے مٹ کر ختم نہ ہوں اس وقت تک بے جان اشیاء کو مٹی یا پانی سے دھونے کی تاکید کی گئی ہے۔ اناج اور کپڑے زیادہ مقدار میں ہو تو محض پانی چھڑکنے سے پاک ہو تے ہیں لیکن مقدار کم ہو تو پانی سے دھونا ضروری ہو تا ہے۔پاکیزگی کیلئے گائے کا پیشاب بھی استعمال ہو تا ہے ،البتہ انسان یا دوسروں جانوروں کے فضلات ،تھوک، پیپ، خون اور شراب سے ناپاک مٹی کے برتن جلانے سے بھی پاک نہیں ہوتے ہیں۔[32]

زمین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پانچ طرح سے پاک ہو تی ہے؛جھاڑوسے، گائے کا گوبر لیپنے سے، گائے کا دودھ یا پیشاب چھڑکنے سے،سطح کی مٹی کھرچ اتارنے سے اور اس پر ایک دن رات گا ئے ٹھرانے سے۔ مشروبات اور مائع اشیاء کے بارے میں اصول ہے کہ ’’کش گھاس کے دو تنکے پھرانے سے ہر طرح کا مائع پاک ہو جاتا ہے۔‘‘[33]

دریاؤں ، سمندروں کا پانی اور محض بہتا ہو ا پانی طاہر اور مطہر خیال کیا جا تا ہے ۔ساکن پانی تب پاک سمجھا جا تا ہے جب پاک زمین پر ٹہرا ہوا ہو،اس کی مقدار اتنی ہو جس سے گائے کی پیاس بجھ سکے،جس کا رنگ ،بو اور ذائقہ ٹھیک ہو اور جس میں ناپاک مادے شامل نہ ہو۔[34]

خلاصہ بحث:

مختصر یہ کہ اسلام اور ہندو مت میں طہارت اور پاکیزگی کی تاکید یکساں طور پر کی گئی ہے،تاہم طہارت اور نجاست کے اصول وضوابط میں کہیں کہیں مماثلت کے ساتھ ساتھ نمایاں فرق پا یا جا تا ہے۔اسلام اور ہندو مت دونوں میں روح و نفس کی طہارت کوبنیاد قرار دیا گیا ہے ۔مادی اور جسمانی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے۔پانی دونوں مذاہب میں طاہراور مطہر سمجھا گیا ہے ۔ٹھرے ہو ئے پانی کی قلیل مقدار ناپاک اور کثیرمقدار پاک سمجھا جا تا ہے ۔ فقہائے اسلام قلیل اور کثیر مقدار میں مختلف الخیال ہیں ۔شافعی اور حنبلی مکاتب فکر کے نزدیک کثیر مقدار وہ ہے جو دو ’’قلہ‘‘ کے برابر ہو ،جبکہ حنفی مکتب فکر کا کہنا ہے کہ پانی کی اتنی مقدار کو کثیر کہیں گے کہ جب اس کے ایک کنارے کو چھیڑا جائے تو دوسرا کنارہ بے حرکت ہی رہے۔[35]ہندو مذہب میں اس کی مقدار اتنی بتائی گئی ہے جس سے ایک گائے کی پیاس بجھ سکے۔

اسلام میں کسی زندہ یا مردہ انسان کوچھونے یا دیکھنے سے ناپاکی نہیں ہو تی ہے،جبکہ ہندو مت میں چنڈال، حائضہ ا ور دھرم سے باہر شخص کا دیکھنا یاچھونا بھی باعث ناپاکی ہے۔اسلام کے اصول طہارت تما م مسلمانوں کیلئے یکساں قابل عمل اور واجب العمل ہیں جبکہ ہندو مت میں سماج کے مختلف طبقوں کے لحاظ سے یہ اصول بھی مختلف ہیں۔دوسرے جانوروں کے پیشاب اور فضلات کی طرح اسلام میں گائے کا پیشاب اور گوبر بھی نجس ہے ۔ اس کے برعکس ہندو مذہب میں گا ئے کا پیشاب اور گوبر طاہر اور مطہر ہے ،نچھلے ذات کے لوگ اور ادھرم انسانوں کو چھونا اور دیکھنا باعث ناپاکی ہے۔

حوالہ جات

  1. ۔القرآن، ۷۴:۳،۴
  2. ۔ القرآن،۲:۲۲۲
  3. ۔ القرآن،۲:۱۶۸
  4. ۔ القرآن،۲:۱۷۲
  5. ۔ القرآن، ۹:۱۰۳
  6. ۔ القرآن،مائدہ۵:۶
  7. ۔ القرآن،مائدہ۵:۶
  8. ۔ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب فضل الوضوء، حدیث نمبر۱۳۶
  9. ۔ سلیمان بن اشعث سجستانی، سنن ابی داؤد، کتاب الطہارت، باب فی طہور
  10. ۔ سنن ابی داؤد، کتاب الطہارت، باب الاذٰی یصیب النعل، حدیث نمبر ۳۸۴ 
  11. ۔ صحیح البخاری ،کتاب الوضوء ،باب الما ء الذی یغسل بہ شعر الانسان ، حدیث نمبر ۱۷۰
  12. ۔ القرآن، ۸:۱۱ اور ۲۵:۴۸
  13. ۔ سنسکرت ڈکشنری ،ص ۵۴۵ (سنسکرت ڈکشنری ، رگ وید اپنشد اور ہندوؤں کی دوسری مقدس کتابوں کیلئے ملاحظہ ہو www.sacred books of Hinduism)
  14. ۔ ول ڈیورانٹ، تاریخ ،تہذیب ،تمدن، فلسفہ ہندوستان، مترجم طیب رشید ، تخلیقات پبلیشرز،علی پلازہ لاہور،۲۰۰۰،ص ۱۲۸
  15. ہندو مذہب کا مقدس ترین کلمہ ہے ۔ یہ کل کلام اور عالم کی کلیت کی نمائندگی کرتا ہے۔اوم کے بارے میں عقیدہ ہے کہ یہ وہ لا فانی آواز ہے جس سے ہرطرح کی افزائش وابستہ ہے۔اس ایک آواز میں ماضی، حال ، مستقبل ، بلکہ وہ سب بھی جو ان سے ماوراہے، اس ایک آواز میں شامل ہے۔چانڈوگیہ اپنشد (1,4,4-5) کے مطابق شروع میں صرف اگنی لافانی تھا اور دوسرے دیوتاؤں نے فنا سے بچنے کیلئے لا فانی اوم میں پناہ لی تھی۔اوم کی نفسی اور معالجاتی طاقت کو لامحدود سمجھا جا تاہے۔ویدوں کے طالب علم کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ سبق کا آغازاور اختتام اوم سے کرے۔
  16. ۔ رگوید ۱:۱۶۴
  17. ۔ تیتریہ اپنشد ، ۷:۱،۸:۱
  18. ۔ رگ وید ،۲:۲۸:۱تا۸
  19. ۔ رگ وید، ۱:۱۶۰۔۱۔۳۔۴۔۵
  20. ۔ بھگوت گیتا: تشریح ووضاحت ، رائے روشن لعل، فکشن ہاؤس لاہور، ۱۹۹۶،ص ۲۳
  21. ۔ بھگوت گیتا، ص۴۲،۴۳،۴۴
  22. ۔ لفظی معنی گناہ اور جرم ہے ، سنسکرت ڈکشنری ،ص۴۳۴ 
  23. ۔ منودھرم شاستر، ۵:۹۳تا۹۸ ، اردو ترجمہ ارشد رازی، نگارشات پبلشرز لاہور، ۲۰۰۳
  24. ۔ چونڈاکرن یاکرم نومولود کے بال پہلی بار کاٹنے کی رسم کا نام ہے جو ہندوؤں کے سولہ سنسکار میں ایک ہے۔
  25. ۔ ہندوؤں میں میت کی اخری رسوم ارتھی وغیرہ جلانے کا کرپا یاکریا کرم کہتے ہیں۔
  26. ۔ منوشاستر، ۵:۶۸،۷۱،۸۰،۸۳،۵۹
  27. ۔ منوشاستر، ۵:۷۳،۷۶،۸۷
  28. . ۔ ہندو مذہب میں اولاد کے حصول کیلئے شادی کے آٹھ اقسام کے ساتھ ساتھ ’’نیوگ‘‘ کی اجازت بھی دی جاتی جس میں مر د بھی اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرلیتا تھا ۔ نیوگ اگرچہ باقاعدہ شادی کی قسم نہیں ہو تی ہے لیکن سماجی اور مذہبی لحاظ سے اس کو جو درجہ دیا جا تاہےوہ شادی کے قریب ضرور ہو تاہے ۔اس لئے کہ نیوگ میں نہ صرف یہ کہ خاندان اور برادری کی مرضی شامل ہو تی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہو تی ہے اس کو میراث اور جائداد میں حصہ دیا جا تا ہے ۔مذہبی لحاظ سے نیوگ ویدی رسوم کا حصہ بتا یا جا تا ہے جس کا منوشاستر میں بھی باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے ۔
  29. ۔ منوشاستر، ۵:۶۱،۶۳،۶۶
  30. ۔ منوشاستر۔۵:۸۵،۸۶،۱۳۴،۱۳۵
  31. ۔ منوشاستر، ۵:۱۰۵تا ۱۰۹
  32. ۔ منوشاستر، ۵:۱۱۱،۱۱۸، ۱۲۶
  33. ۔ منوشاستر،۵:۱۱۵،۱۲۴
  34. ۔ منوشاستر،۵:۱۲۸
  35. ۔ لیلہ بختیار،اسلامی شریعت کا انسائیکلو پیڈیا اردو ترجمہ یاسر جواد،نگارشات پبلشرز لاہور،۲۰۰۹ ،ص۳۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...