Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

اسیران جنگ سے متعلق اسلام کے شرعى احکام کا علمى و تحقیقی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_429

Pages

92-113

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/305/243

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/305

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قرآن مجید میں جہاں کثیر تعداد میں قتال اور آداب قتال سے متعلق آیات مبارکہ موجود ہیں۔ وہاں اسیران جنگ سے متعلق بھی چند آیات ہماری بطور ضابطہٴ جنگ کے راہنمائی کرتی ہیں۔ اسلام کا سب سے اہم اور جامع دستور العمل چونکہ قرآن مجید ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اسیران جنگ کے متعلق تعلیماتِ اسلامی کا علم حاصل کرنے کے لئے قرآن مجید کی متعلقہ آیات کا مطالعہ کیا جائے۔سورۃ انفال میں ارشاد ِربانی ہے:

﴿ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ﴾[1]

آیت بالا سے محض یہی ثابت ہوتا ہے کہ غلبہ حاصل ہونے تک مسلمانوں کو قتل و قتال اور جنگ و جدال کو برابر جاری رکھنا چاہیے۔ اگر مسلح جد و جہد کی نوبت آ جائے تو مال غنیمت سمیٹنے اور کفار کو پکڑ پکڑ کر باندھنے کی بجائے میدان جنگ میں خوب خون بہا کر غلبہ اسلام کی سعی کرنی چاہیے۔ اس مقام سے ذرا آگے چل کر فرمایا گیا:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الأَسْرَى إِن يَعْلَمِ اللّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ ﴾ [2]

اس آیت مبارکہ سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسیران جنگ سے مسلمانوں کو کیا معاملہ کرنا چاہیے اور ان کے بارے میں کیسا طرز عمل اختیارکرنا منشائے الٰہی ہے۔ البتہ سورۃ محمد کی آیت مبارکہ میں جہاں کفار کو میدان جنگ میں قیدی بنانے کے جواز کا ذکر ہے وہیں اُن سے معاملہ کرنے کی ہدایات بھی ملتی ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے:

﴿فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ﴾[3]

اس کے متعلق مفسرین کی آراء مختلف ہیں۔سدی، قتادہ اور ابن جریج اس آیت کے نسخ کے قائل ہیں[4] اور فقہاء میں سے امام سرخسی بھی اس رائے کے قائل ہیں۔[5] جب کہ اکثر علماء کا خیال ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔[6] آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے بعد صحابہ کے تعامل پر غور و فکر کرنے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔ جیسا کہ کئی قیدیوں کو احسان کر کے بغیر عوض کے رہا کرنا آپ ؐ کی حیات طیبہ کے آخری دور تک ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر سورۃ انفال کی آیت کی تفسیر کے ذیل میں نبی اکرم ﷺ کے گرفتارانِ جنگ سے مختلف معاملوں کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

فدل كل ذلك علی ترجیح قول الجمهور أن ذلك راجع إلی رأي الإمام و محصل أحوالهم تخییر الإمام فى الأسر بین ضرب الجزیة لمن شرع أخذها منه أو القتل أو الاسترقاق أو المن بلا عوض أو بعوض۔[7]

معلوم ہوا کہ سورۃ انفال ، سورۃ توبہ اور سورۃ محمد کی آیات باہم متعارض نہیں ہیں کہ کوئی ایک دوسرے کی ناسخ قرار پائے۔ کیونکہ اُن میں جنگ سے قبل، جنگ کے دوران اور بعد از جنگ کے قواعد کا ذکر ہے۔ لہٰذا قرآن مجید سے اسیران جنگ سے متعلق دو ہی اختیار معلوم ہوتے ہیں کہ یا تو انہیں بغیر عوض کے یا پھر بعوض رہا کر دیا جائے۔ لیکن سنت نبوی کے مطالعے سے مزید صورتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ سر براہ ریاست یا امام اپنی رعایا اور عوام کے معاملات کا نگران ہوتا ہے۔ لہٰذا اسیران جنگ کے معاملے میں اسے جو اختیارات بھی شریعت اسلامیہ کی طرف سے حاصل ہیں ان میں ایک چیز مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور وہ ہے عامۃ المسلمین کا مفاد۔[8] عام معاملات کی طرح قیدیوں کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کرتے ہوئے امام یا سر براہ ریاست کا یہی مطمع نظر ہوتا ہے۔[9]

فقہائے کرام نے جہاں اسیران جنگ کے معاملے میں مختلف نقطہ ہائے نظر اختیار کئے ہیں وہاں اُن کے درمیان اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسیران جنگ کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ مسلم ریاست و رعایا کے مفاد کی بنیادوں پر قائم ہو۔ [10]

کتبِ فقہ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام کو قیدیوں کے بارے میں حاصل اختیارات کے حوالے سے تین مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے احناف محض تین اختیارات کے قائل ہیں۔[11]جیسا کہ اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

و هو فی الاساری بالخیار: ان شاء قتلهم، و ان شاء استرقهم و إن شاء تركهم احراراً ذمة للمسلمین ولا یجوز أن یردهم الی دارالحرب۔[12]

حنابلہ اور شوافع کے موقف میں مماثلت پائی جاتی ہے اور وہ چار صورتوں کے قائل ہیں۔[13] جیسا کہ الشرح الکبیر میں ہے۔

أن الامام یخیر فی الأسری بین القتل والمن والفداء والاسترقاق۔[14]

ابن قدامہ نے اہل کتاب اور مجوسیوں کے اسیران کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

فیخیر الامام فیهم بین أربعة أشیاء القتل والمن بغیر عوض والمفاداة بهم واسترقاقهم۔[15]

جب کہ تیسری قسم کی رائے مالکیہ کی ہے اور وہ مزید ایک چیز کا اضافہ کرتے ہوئے سر براہ ریاست کو پانچ اختیارات دیتے ہیں۔ جیسا کہ امام مواق نے لکھا ہے:

ذهب مالك و جمهور أهل العلم أن الإمام مخیر فی الأسری بین خمسة أشیاء فإما أن یقتل وإما أن یأسر ویستعبد وإما أن یعتق وإما أن یأخذ فیه الفداء وإما أن یعقد علیه الذمة ویضرب علیه الجزیة۔[16]

مندرجہ بالا مختلف صورتوں پر نبی کریم ؐ اور صحابہ کرام ؓ نے مختلف اوقات میں عمل فرمایا ہے۔ شریعت الٰہی نے ریاست اسلامی کے حکمران کو کسی ایک صورت کا پابند نہیں بنایا۔ کسی مسلم ریاست کی حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب ترین خیال کرے اُسی کو اختیار کرتے ہوئے عمل کر سکتی ہے۔ اسیرانِ جنگ کے سلسلے میں مسلم ریاست کے پاس جن صورتوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار  ہے انہیں تفصیلاً ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔

اسیرانِ جنگ کا قتل:

جنگی قیدیوں کے قتل سے متعلق قرآن مجید میں کوئی حکم موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی آیت مبارکہ سے کوئی جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اور جماعتِ صحابہ کا اجماع منقول ہے کہ جنگی قیدی کا قتل جائز نہیں ہے۔ طبقہ صحابہ اور تابعین میں سے ابن عباس، ابن عمر، علی، حسن بصری، عطاء، ابن سیرین، مجاہد، ضحاک اور ابن جریج جیسے جلیل القدر مفسرین کرام سے قتل اسیر کی ممانعت نقل کی گئی ہے۔[17] اگرچہ عہد نبوی میں ہم قتل اسیر کی چند ایک مثالیں پاتے ہیں ۔ لیکن قتل اسیرانِ جنگ کو اسلامی ریاست کے سربراہ کا صوابدیدی اختیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان مثالوں کو محض استثنائی حیثیت ہی دی جا سکتی ہے اور ان کی بنیاد پر قتلِ اسیر کو تعلیماتِ اسلامی کا قاعدہ عامہ (Established Rule) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر مثال کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ کار فرما تھی جس کی بدولت یہ استثنائی صورت اختیار کی گئی اور ٹھوس وجہ میں بھی مقتول قیدی کے سابقہ ذاتی اور جنگی جرائم ہی نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے چند ایک مواقع کے علاوہ عہد نبوی میں بلا وجہ قیدیوں کے قتل کی کوئی مثال میسر نہیں۔ عہد نبوی میں قتل اسیران کے تمام مواقع کا تذکرہ ذیل میں ایسی ٹھوس اور ناقابل تردید وجوہات کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

غزوہ بدر میں کفارِ مکہ کے ستر افراد مسلمانوں نے قیدی بنائے جن میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جنہوں نے مکی دور میں نبی کریم اور آپؐ کے صحابہ کو حد درجہ ستایا تھا۔ مگر اس بڑی تعداد میں سے صرف دو افراد کے قتل کی روایات ہی ذخیرہ کتب حدیث و سیرت میں ملتی ہیں۔ اس سے مراد عقبہ بن ابی معىط اور نضر بن حارث ہیں۔ جن روایات میں ان دونوں قیدیوں کے قتل کا اکٹھا ذکر ہے وہ سب فنِ حدیث کے لحاظ سے قابل حجت نہیں ہیں۔[18] حافظ ابن کثیر کے مطابق تو نضر بن حارث کا قتل بعد از  جنگ نہیں بلکہ دورانِ جنگ ہوا۔[19]  یعنی وہ بطور اسیر نہیں بلکہ بطور جنگجو میدانِ جنگ میں مارا گیا۔ البتہ عقبہ بن ابی محیط کے دورانِ قید قتل کئے جانے کا ثبوت قابل قبول روایت سے ملتا ہے۔[20]   اس کے قتل کی جو ٹھوس وجہ معلوم ہے وہ یہ ہے کہ اس نے مکی دور میں نبی کریمؐ کے قتل کی دو دفعہ کوشش کی۔ ایک دفعہ تو اس نے اکیلے ہی نبی کریمؐ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جو حضرت ابو بکر کی کوشش سے ناکام ہوا جس کا تذکرہ  سیدنا عبداﷲ بن عمر یوں کرتے ہیں:

رأیت عقبة بن أبی معیط جاء إلی النبی صلی اﷲ علیه وسلم و هو یصلی فوضع ردائه فی عنقه فخنقه به خنقا شدیدا فجاء أبو بكر حتی دفعه عنه فقال ﴿أتقتلون رجلا أن یقول ربی اﷲ و قد جاءكم بالبینات من ربكم﴾[21]

سیدنا ابوبکر ؓنے اِس  موقع پر جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے بالکل واضح ہے کہ یہ شخص کس ارادے سے نبیؐ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اگر حضرت ابو بکر بر وقت نہ پہنچتے تو عقبہ نے تو اپنی دانست میں آپؐ کو گلا گھونٹ کر شهيد كر هي ڈالا تھا۔ اس کے علاوہ عقبہ کا دوسرا قاتلانہ حملہ اجتماعی نوعیت کا تھا۔  ہجرت مدینہ کی رات جب قریش کے منتخب گیارہ افراد نے آپ کے قتل کے ارادہ سے آپؐ کے گھر کا محاصرہ  کیا تو یہ فرد اُن میں سے ایک تھا۔[22]

غزوہ احد کے بعد ابو عزۃ جمحی مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا اور بعض روایات کے مطابق رسول اﷲؐ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔ لیکن اس بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے ۔ سیرت ابن ہشام میں اس بارے میں ایک روایت بیان ہوئی ہے۔[23] ابن اسحق نے اسے بغیر سند کے بیان کیا ہے، لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے ۔[24]  ابو عزہ جمحی کے قتل کے متعلق ایک اور روایت امام بیہقی نے محمد بن عمر کی سند سے بیان کی ہے۔ لیکن یہ بھی مردود ہے۔[25]اگر سیرت ابن ہشام کی مندرجہ بالا روایت کو تمام فنی تقاضوں سے صرف نظر کرتے ہوئے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ابو عزہ کے قتل کی وجہ اسی روایت میں ہی بیان کر دی گئی ہے اور وہ ہے بد عہدی ، گویا اس کو جس شرط کے تحت فتح بدر کے بعد رہائی دی گئی اس نے اس شرط کو پامال کیا جس کی بدولت اسے تہہ تیغ کر دیا گیا۔ گویا اس کا قتل بحیثیت قیدی عمل میں نہیں آیا بلکہ بد عہدی کی پاداش میں ایسا کیا گیا۔ وہ غزوہ احد کے موقع پر نہ صرف خود دوبارہ جنگ میں اپنے محسن یعنی نبی کریمؐ کے خلاف صف آراء ہوا بلکہ کئی اور لوگوں کو بھی جنگ میں شریک ہونے پر آمادہ کر لایا۔[26]

جہاں تک بنی قریظہ کے مقاتلین قیدیوں کو قتل کرنے کا تعلق ہے تو یہ کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد، سنن ترمذی، سنن دارمی اور سنن بیہقی کی روایات سے اس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے۔ تا ہم کتبِ حدیث و سیرت میں ان مقتول افراد کی تعداد مختلف روایات میں مختلف بیان ہوئی ہے۔ یہ تعداد چار سو سے نو سو تک بیان کی جاتی ہے لیکن مستند روایت مسند احمد کی ہے جس کی رو سے یہ تعداد چار سو ہے یہ روایت اسناد حسن کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔[27]

یہ لوگ مذہبی اعتبار سے یہودی تھے اور رسول اﷲ ﷺ کی مدینہ آمد سے پہلے ہی دوسرے یہود یعنی بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ آپ ؐ نے اپنی تشریف آوری کے بعد جہاں دوسرے یہود قبائل سے معاہدہ منعقد کیا ،وہاں ان کو بھی شریک کیا۔ پھر جب بنو نضیر سے جنگ ہوئی تو نبی اکرم ؐ نے دوبارہ بنو قریظہ کو معاہدہ کی دعوت دی اور قدیم معاہدہ کی تجدید کرلی لیکن غزوہ احزاب کے موقع پر انہوں نے کھلم کھلا اس کی خلاف ورزی کی۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس عہدشکنی کی تحقیق کے لیے حضرت سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، عبداﷲ بن رواحہ اور خوات بن جبیر کو روانہ فرمایا۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو بنو قریظہ کا جواب تھا۔ من رسول اﷲ ،لا عهد بیننا و بین محمد ولاعقد۔  لہٰذا جنگِ خندق سے فارغ ہو کر آپ ؐ نے حکم الٰہی سے ان کے علاقے کا محاصرہ کیا اور فریقین کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ کو حکم تسلیم کر لیا گیا تو حضرت سعد بن معاذؓ نے فیصلہ فرمایا کہ بنو قریظہ کے لڑنے والے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے لہٰذا ایسا ہی کیا گیا۔[28]  نبی رحمت ؐنے خود ان کے لئے کوئی سزا جاری نہیں کی بلکہ خود ان کی آزادانہ رائے سے ان کے سابق حلیف حضرت سعد بن معاذ کو ثالث اور حکم بنایا اور اسیران جنگ کے متعلق یہ فیصلہ در اصل اس ثالثی ہی کا نتیجہ تھا اور یہ فیصلہ بھی در حقیقت ان یہود کے اپنے قانون کے مطابق تھا جیسا کہ تورات میں ہے:

’’ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں، بلکہ تجھ سے جنگ شروع کر یں تب تو اُس کا محاصرہ کر اور خداوند تیرا خدا اُسے تیرے ہاتھ میں دے دے گا اور تو سب مردوں کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتیں اوربچے اور چوپائے اور اس شہر کی سب لوٹ کو اپنے لئے  لے اور اپنے دشمنوں کی تمام غنیمت کھا جا جو خداوند خدا نے تجھے دی ہے ۔‘‘[29]

احادیث میں موجود ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ نے جب مذکورہ بالا فیصلہ کیا تو نبی اکرم نے فرمایا کہ تم نے یہ آسمانی فیصلہ کیا ہے۔[30]  یہ اسی طرف اشارہ تھا کہ یہ فیصلہ تورات کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہودیوں کو یہ حکم سنایا گیا تو انہوں نے خود بھی اسے حکم الٰہی کے مطابق و موافق سمجھا ۔[31] اسیران بنو قریظہ میں سے صرف ایک عورت ایسی تھی جس کو قتل کیا گیا۔ اس عورت کو قصاص میں قتل کیا گیا، کیونکہ اس عورت نے خلاد بن سوید صحابی رسول پر اوپر سے چکی کا پاٹ گرایا جس سے وہ شہید ہوئے تھے۔[32]

غزوہ خیبر کے بعد ابو الحقیق کے دو بیٹوں کے قتل کی روایت بعض کتب سیرت میں نقل ہوئی ہے مگر یہ قابل قبول نہیں کیونکہ ابن اسحاق کی سند میں انقطاع پایا جاتا ہے اور اس کا راوی محمد بن حمید الرازی متروک الحدیث بھی ہے۔[33]  جب کہ ابن سعد کی سند میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ انصاری کا حافظہ بہت کمزور تھا۔[34] البتہ سنن ابو داؤد[35] کی مستند روایت کے مطابق ابو الحقیق کے صرف ایک بیٹے کے قتل کا سراغ ملتا ہے اور اس کے قتل کی ٹھوس وجہ موجود ہے کہ یہ محمود بن سلمۃ کے قصاص میں قتل ہوا۔[36]

جب فتح مکہ کے موقع کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آپﷺ نے مکہ کے لوگوں کے متعلق عام معافی کا اعلان فرمایا تھا تا ہم چند افراد اپنے سابقہ جرائم کی بدولت اس عام معافی سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے تھے ۔ اس عام معافی سے محروم رہنے والے افراد کی تعداد اور ناموں کے اعتبار سے کتبِ حدیث و سیرت میں مختلف روایات درج ہیں جو اپنے درجات کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں۔ اور پھر ان سب کا استناد اور ثقاہت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اگر ان تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ تعداد چودہ بنتی ہے جسے مختلف حوالوں سے حافظ ابن حجر العسقلانی نے جمع کیا ہے۔[37] اس سلسلے میں موجود  روایات میں سے اکثر سے محض اشتہاریانِ قتل کی تعداد معلوم ہوتی ہے اور بعض روایات سے ان کے نام معلوم ہوتے ہیں۔ جہاں تک عملاً قتل كئے جانے والے افراد کا تعلق ہے تو یہ صرف دو مرد ہیں، یعنی عبداﷲ بن خطل اور مقیس بن صبابہ اور مستند روایات سے کسی عورت کے قتل کئے جانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔  مذکورہ بالا دونوں اسیران کے قتل کے پیچھے ہم اُن کے نا قابل معافی جرائم پاتے ہیں۔ ان دونوں کے انجام کی طرح ان کے جرائم میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں مجرم در اصل ارتداد اور قتل ناحق کے مجرم تھے۔[38]

استرقاق اساریٰ:

جنگوں میں اسیران کو غلام بنانے کا رواج قدیم زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ یہ رواج تمام ترقی یافتہ اقوام عالم میں موجود رہا ہے اور مذہبی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ مسیحیت، یہودیت اور ہندو مت کی مذہبی کتب میں اس رواج کی کوئی مذمت موجود نہیں ہے۔ اسیران جنگ کو غنائم میں شمار کرتے ہوئے انہیں غلام بنا لینا ایران، روم، یونان اور عرب کے معاشروں کا باقاعدہ طریقہ رہا ہے۔ لہٰذا ظہور اسلام کے وقت عرب اور دیگر معاصر قومیں اس دستور پر عمل پیرا تھیں۔ اس صورت حال میں اسلام نے اسیران جنگ کے باب میں غلامی کو کس نظر سے دیکھا اور کیا لائحہ عمل اختیار کیا ذیل میں بحث کی جا رہی ہے۔

قرآن حکیم نہ تو اسیران جنگ کو غلام بنانے کا حکم دیتا ہے اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہے۔ قران مجید اس معاملے میں خاموش ہے۔ باندی یا غلام بنانے کے متعلق منفی یا مثبت طور پر اس میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ ایک وقتی اور ہنگامی چیز ہے اور معاشرت، تمدن اور اجتماعی زندگی کاکوئی مستقل عنصر نہیں۔  اس کے بعد احادیثِ رسولؐ اور تاریخ اسلامی کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام میں اسیران جنگ کو غلام بنانے کی گنجائش موجود ہے اور تاریخ اسلامی میں بکثرت غلام اور باندی کا ذکر موجود ہے کہ انکار نا ممکن ہے۔ لیکن کسی بھی فرمانِ نبوی ؐ سے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا کہ وہ اسیران جنگ کو لازمی طور پر غلام بنائیں۔[39] یہ شریعت کا تقاضا اور مطالبہ ہر گز نہیں کہ مسلمان جنگ میں ہاتھ آنے والے افراد کو بطور فرض، واجب یا مستحب غلام بنائیں ۔ جہاں غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب ہم جگہ جگہ پاتے ہیں[40] وہاں آزادوں کو غلام بنانے سے متعلق ترغیب کی نشاندہی کسی ایک مقام پر بھی نہیں کی جا سکتی۔

شریعت اسلامی میں اسیران جنگ سے متعلق دو طرح کے احکام ہیں۔ ایک وہ جو ہر قیدی کے ساتھ برتے جا سکتے ہیں در اصل یہی قیدیوں کے متعلق اسلام کا قاعدہ عامہ ہیں اور دوسرے وہ احکام ہیں جو خاص قیدیوں سے اور خاص حالات سے مخصوص ہیں۔ پہلی قسم کا حکم من و فداء ہے جب کہ دوسری قسم کا حکم قتل و استرقاق ہے۔ اسلام نے بعض ناگزیر اور وقتی حالات کے پیشِ نظر اگرچہ اس کو جائز قرار دىا ہے لیکن اس کو پسندیدہ نظر سے ہر گز نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ استرقاق کی جو اجازت شریعت میں موجود ہے اس پر عمل نہ کرنے سے کوئی گناہگار نہیں ہوتا ، جیسا کہ ڈاکٹر محمد حمید اﷲ نے لکھا ہے:

Not being an obligatory rule of conduct, if Muslims voluntarily give it up, they commit no sin and no violation of their law. [41]

اسلام کی نظر میں اسیران جنگ کو غلام بنانے کی صورت حالات و افراد سے مخصوص ہے اور پھر اس صورت کو استعمال نہ کرنے اور ترک کرنے سے شریعت کے تقاضوں سے انحراف بھی عمل میں نہیں آتا تو کیا وجہ ہے کہ خود شریعت نے اس آپشن کو مستقل ختم نہیں کیا؟ اس کی ایک وجہ تو ىہ ہے کہ اگر اس آپشن کو ختم کر دیا جاتا تو بوقت ضرورت اسے اختیار نہیں کیا جا سکتا تھا۔[42]  لہٰذا شریعت نے اسے سرے سے ختم نہیں کیا ۔ جبکہ دوسری وجہ ’’ معاملہ بالمثل‘‘ ہے۔ اگر اسلام اس کو بحالتِ جنگ جائز قرار نہ دیتا تو اس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچتا۔ جنگ میں جو مسلمان گرفتار کر کے قیدی بنا لئے جاتے تو وہ مکمل طور پر اپنے قید کنندہ کے رحم و کرم پر ہوتے۔ اس کے برعکس جو لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں قیدہوتے وہ تمام منّاً یا فداءً رہائی پاتے تو یقیناً اس طریقے سے مسلمانوں کوطرح طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنے پڑتے اور مسلمان ریاست کو دوہرا نقصان ہوتا ۔ یہ بات عام فہم ہے کہ دوران جنگ اپنی قوت کو متوازی رکھنے کی خاطر ہر فریق کو ان ہی جنگی اصولوں پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے جو دوسرے فریق کا معمول ہوں۔ لہٰذا ابتدائے اسلام میں جب جنگ کے گرفتار لوگوں کو غلام بنانے کا رواج عام تھا تو اسلام کے لئے بھی ناگزیر تھا کہ وہ بامر مجبوری ہی سہی لیکن اس کو لازم جائز رکھے اور اسلام اس کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کر سکتا تھا جب تک مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے اتنی شوکت و قوت حاصل نہ ہو جائے کہ یہ خود اپنے اختیار سے اس رسم کوختم کر دیں۔ یا پھر دیگر اقوام عالم بھی اس رسم بد کے خاتمے پر متفق ہو جائیں۔ لہٰذا فقہ اسلامی نے مسلمانوں کو قیدیوں سے سلوک کے متعلق دوسری اقوام عالم سے معاہدات کرنے کی اجازت دی ہے اور ان معاہدات کی پابندی لازم ٹھہرائی ہے۔  دورِ جدید کے بہت سے مسلمان علماء نے اسیران جنگ کے باب میں غلام بنا لینے کے فعل کو اسلام کی منشاء اور مقصود کی بجائے معاملۃ بالمثل ہی قرار دیا ہے جن میں محمد ابوزہرہ، ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی اور سید سابق جیسے ماہرین قانون شامل ہیں۔[43]

  بعض اوقات جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت اور جواز کے نظریے کے خلاف سورۃ محمد کے الفاظ ’’ فَاِمَّا منَّا بَعْدُ وَ اِمَّا فداًء‘‘ کو پیش کیا جاتا ہے اور اس آیت کے ظاہری الفاظ سے بعض اوقات یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ قرآن اسیرانِ جنگ کے بارے میں محض دو ہی راستے فراہم کرتا ہے اورکسی تیسرے راستے کا سدباب کرتا ہے۔ اس طرز فکر کے حاملین میں سے برصغیر میں غلام احمد پرویز اور جاوید احمد غامدی نمایاں ہیں۔ جاوید احمد غامدی کی رائے یہ ہے کہ رسول اﷲ کا طرز عمل سورۃ محمد کی آیت کے عین مطابق تھا اور انہوں نے ہمیشہ قیدیوں کو معاوضہ لے کر رہا کیا یا بغیر عوض کے۔ عام طور پر آپ قیدیوں کو بلا معاوضہ رہا کرتے تھے اور اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ کبھی آپ قیدیوں کا تبادلہ کرتے یا کسی اور عوض پر رہا فرماتے۔[44]  اسی طرح غلام احمد پرویز نے سرے سے ہی انکار کیا کہ رسول اﷲ ﷺنے کبھی قیدیوں کو غلام بھی بنایا تھا۔ انہوں نے اس قسم کی ساری روایات کو عجمی سازش کہہ کر مسترد کر دیا۔[45]  جاوید احمد غامدی کی بھی یہی رائے ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے قیدیوں کو غلام نہیں بنایا۔[46] تا ہم وہ ان روایات کو عجمی سازش کہہ کر مسترد کرنے کے بجائے ان میں سے کچھ کی تاویل کرتے ہیں اور کچھ کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ لیکن مذکورہ بالا طرز فکر محل نظر ہے۔

  تمام فقہاء اسلام جنگی قیدیوں کے معاملے میں استرقاق کے قائل ہیں اور ان کے درمیان قیدیوں سے متعلق دیگر صورتوں  پر اگرچہ اختلاف موجود ہے مگر استرقاق پر اختلاف نہیں ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حنفیہ تین صورتوں کے قائل ہیں۔ حنابلہ اور شوافع چارصورتوں کے قائل ہیں اور مالکیہ کے نزدیک سر براہ ریاست کو قیدیوں سے متعلق پانچ اختیارات حاصل ہیں لیکن ان تمام آراء میں استرقاق مشترک صورت ہے ۔ نہ صرف مذاہب اربعہ کے فقہاء کی آراء میں یہ مشترک صورت ہے بلکہ صحابہ کرام کا اس صورت کے جواز پر اجماع بھی نقل کیا گیا ہے۔[47]

فدیہ بصورت مال و خدمات:

    اسیران جنگ کو فدیہ لے کر رہا کرنا خود قرآن مجید کے حکم کے مطابق ہے ۔[48]  قرآن کے علاوہ سنت نبوی سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ نے ایک سے زائد مواقع پر دشمنوں سے فدیہ قبول فرما کر انہیں رہا فرمایا۔ آپ ؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں سریہ عبداﷲ بن حجش اور غزوہ بدر کے موقع پر قیدیوں سے مالی فدیہ لے کر انہیں رہا فرمایا۔ سریہ عبداﷲ بن حجش کے موقع پر صحابہ کرام کفار کے دو قیدی پکڑ لائے تو قریش مکہ نے ان کا فدیہ رسول اﷲ ﷺ کی طرف بھیجا تو آپ ؐ نے ان سے یہ قبول فرمایا اور ان دونوں قیدیوں کو رہا فرما دیا۔[49] اسی طرح غزوہ بدر کے قیدیوں کو بھی مالی فدیہ کے عوض نبی اکرم نے رہا کیا۔ فدیہ دینے والوں کی فہرست میں خود نبی اکرمؐ کے چچا بھی شامل تھے۔ اِس موقع پر مختلف افراد کا فدیہ بھی مختلف تھا۔ حضرت عباس نے اپنے فدیہ کے طور پر ایک سو اوقیہ سونا ادا کیا تھا۔ جب کہ عقیل بن ابی طالب نے اسّی اوقیہ اور بعض قیدیوں نے صرف چالیس اوقیہ سونا ادا کیا۔[50] فدیہ کی عام مقدار چار سو درہم تھی لیکن امراء سے زیادہ لیا گیا۔ حضرت عباس اہل ثروت تھے لہٰذا ان سے بھی زیادہ رقم وصول کی گئی۔ انصار چاہتے تھے کہ عباس بن عبدالمطلب کو فدیہ سے مستثنیٰ قرار دے دیں کیونکہ جہاں وہ رسول اﷲؐکے سگے چچا تھے وہیں ان کی دادی ان انصار کے اپنے لوگوں میں سے تھی۔ لیکن رسول اﷲﷺ نے مساوات کی خاطر اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:  و اﷲ لا تذرون منه درهما۔[51]

تعلیمات اسلامی کے مطابق فدیہ کے طور پر روپے پیسے کے علاوہ باقی اقسام کا مال بھی قیدیوں کے فدیہ کے طور پر کام آ سکتا ہے۔ سونے چاندی اور روپے پیسے کے علاوہ دیگر مادی اشیاء بھی فدیہ بن سکتی ہیں۔ مثلاً سامانِ جنگ ، اسلحہ اور آلات وغیرہ۔[52] حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دشمن قیدیوں کو قطعہ زمین کے عوض رہا کیا۔[53] جیسا کہ ابن جعفر نے لکھا ہے  ’’واشتری ملطیة من الروم بمائة الف اسیروبناها‘‘  فدیہ محض مادی اشیاء تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ مال و دولت اور دیگر مالی اشیاء کے ساتھ خدمات تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسا کہ بدر کے قیدیوں نے انصار کے بچوں کو لکھنے کا فن سکھا کر آزادی حاصل کی۔[54] دور نبوی کے بعد بھی مسلم حکمران اس طریقے پر عمل کرتے رہے ہیں اور فدیہ کی رقم طے کرتے ہوئے قیدیوں کے لئے آسان ہدف کے طور پر شرح مقرر کی جاتی تھی۔ حضرت ابو بکرؓ نے نجیر کے قیدیوں سے چار سو درہم فدیہ لیا۔[55]  صلاح الدین ایوبی نے حاکم رملہ بلبان ابن نیزران سے جو معاہدہ کیا وہ اس رجحان کا واضح ثبوت ہے۔ سلطان نے ان پر یہ شرط عائد کی کہ ہر مرد کو دس اور عورت کو پانچ دینار ادا کرنا ہوں گے۔ ہر بچے پر خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی دو دینار مقرر ہیں۔ یہ ادائیگی چالیس دن کے اندر کی جا سکے گی۔[56] مالی معاوضہ کے عوض اسیران کو رہا کرنا اگرچہ مشروع ہے تا ہم بعض فقہا ء نے اسے ناپسند کیا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان مال لے کر دشمن افراد کو چھوڑ دیں تا کہ وہی ادھر جا کر ان کے خلاف دوبارہ بر سرِپیکار ہو جائیں۔[57]

رسول اﷲ ﷺ نے اسیران بدر میں سے بعض افراد سے جو تعلیم اطفال کی خدمات کو بطور فدیہ قبول فرمایا تو ا س سے نہ صرف یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت کس قدر ہے بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ اسلام کے نزدیک انسانوں کی آزادی مسلم ّہے اور اسلام اسیران کی رہائی کے لیے وہ حل تلاش کرتا ہے جو خود اسیران کے لئے آسان اور قابل عمل ہو۔ اور یہ اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے اسیران جنگ کو بے بس حالت میں نہیں چھوڑا کہ اگر وہ روپے پیسے اور مالی وسائل پر قادر نہیں ہیں تو آزادی سے محروم رکھے جائیں۔ تعلیمات اسلامی کا یہ امتیاز اس اعتبار سے کئی گنا ہو جاتا ہے کہ یہ قیدیوں کی رہائی کے لئے اس وقت کیا گیا جب کہ اسیران جنگ سے بد سلوکی دوسری قوام کے ہاں عین عروج پر تھی اور آج کی طرح اقوام عالم میں اسیران جنگ کے حقوق کا کوئی شعور مو جود نہ تھا۔

قیدیوں کا باہمی تبادلہ :

فدیہ کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے ہاں موجود کفار اسیران کو کفار کے پاس اپنے مسلمان قیدیوں کی رہائی کے بدلے رہا کریں اور اس کی کئی ایک مثالیں خود رسول اﷲ ﷺ کی زندگی سے ثابت ہیں اور اس کے بعد خلفاء راشدین نے بھی اس پر عمل کیا۔ قیدیوں کے تبادلے کی جو مثالیں ہمیں دور نبوی میں ملتی ہیں ان میں سے  ایک یہ ہے کہ نبیؐ نے قبیلہ فزارہ کی قیدی لڑکی کو واپس کر کے اس کے بدلے کئی مسلمانوں کو چھڑایا۔[58] تبادلہ اسیران کے ضمن میں فریقین کے قیدیوں کی تعداد کا برابر ہونا بھی ضروری نہیں جیسا کہ  حضرت عمران بن حصین سے مروی ہے:

أن رسول اﷲ فدی رجلین من المسلمین برجل من المشركین من بنی عقیل[59]

اگرچہ آغاز اسلام کے زمانے میں اسیران جنگ کے تبادلے کا دستور موجود نہ تھا۔ لیکن اسلام نے اس کو رواج دیا اور جہاں کہیں موقع ملا اور ممکن ہوا تو اہل اسلام نے اس کو خوشی سے قبول کیا۔ حافظ ابن حجر مسلمانوں کی اس عادت اور معمول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولو كان عند المسلمین أساری وعند المشركین أساری واتفقوا المفاداة تعیّنت[60]

آئمہ فقہ میں سے امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ بھی متفق ہیں کہ اگر دشمن بھی اسیران جنگ کے تبادلے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بھی ایسا کر لینا چاہیے۔[61] گو تبادلہ اسیران کا آغاز تو بہت پہلے ہو گیا لیکن عباسیوں کے زمانے میں یہ رواج عام ہو گیا اور اس پر عمل معاہدات کے ذریعے سے ہوتا رہا ۔[62] اس کا اعتراف کرتے ہوئے مشہور مستشرق فِن لے نے لکھا ہے:

Regular exchange of Prisoners with the Muslims commenced as early as the reign of Constantine V, 769 c.e. (Contemporary of the Abbasid al-Mansur). In the year 797 (i.e., under Harun ar Rashid) a new clause was inserted in a treaty for the exchange of prisoners, binding the contracting parties to release all supernumerary captives on the payment of a fixed sum for each individual. [63]

بغیر عوض رہائی :

قرآن مجید نے اسیران جنگ کے معاملے میں جو قاعدہ عامہ دیا ہے اس میں سے ایک جزو یہ بھی ہے کہ دشمن کے وہ افراد جو مسلمانوں کے ہاتھ آ جائیں اور قید کر لیے جائیں تو ان کے ساتھ مَنّ کا معاملہ کیا جا سکتا ہے اور تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ اس  مَنّ کے معنی خود قیدی یا اس کے ملک سے کوئی عوض یا قیمت لئے بغیر اسے رہا کرنا ہے جیسا کہ ذیل میں درج مختلف مفسرین کی اس لفظ کے بارے میں آراء سے ظاہر ہو رہا ہے: [64]

أن تمنوا علیهم بعد ذلك باطلاقكم ایاهم من الأسر، و تحرروهم بغیر عوض ولا فدیه

(الطبری)

أن تمنو ا علیهم منّاً با طلاقهم من غیر عوض   (بغوی)

الاطلاق بغیر عوض   (فتح القدیر)

أن یترك الامیر الاسیر الكافر من غیر أن یاخذ منه شیٔاً     (حقی)

اي تمنون علیهم با طلاقهم من غیر شئ  (جلالین)

اسیران جنگ کو بغیر کسی عوض کے رہا کر دینا رسول اﷲ سے ثابت ہے اور کسی ایک موقع پر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی متعدد مثالیں ہمیں دور نبوی میں ملتی ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جنگوں میں غلام اور باندی حاصل کرنے کے شیدا تھے۔ اکثم بن صیفی جو عرب کا بڑا جہاندیدہ اور صاحب رائے فرد تھا کہا کرتا تھا کہ اهنأ الظفر كثرة الاسری وخیر الغنیمة المال۔[65] یعنی بہترین فتح وہ ہے جس میں بہت سے قیدی ہاتھ لگیں اور بہترین غنیمت مال و دولت ملے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی میدان جنگ سے قیدیوں کے حصول اور پھر انہیں غلام اور کنیزیں بنانے کا برابر شوق رکھتی تھیں۔ جب کوئی قبیلہ جنگ لڑنے نکلتا تو اس کی خواتین اپنے مردوں کو قسم دیا کرتیں کہ وہ بغیر مال و دولت لوٹے اور اسیران حاصل کیے واپس نہ لوٹیں۔[66]

غزوات نبوت میں غزوہ بدر کو بڑی اہمیت حاصل ہے گو کہ اس میں آپﷺ نے تمام اسیران جنگ کو ازراہ احسان بلا شرط رہا تو نہیں کیا لیکن چند ایک افراد کو ضرور بلا عوض رہا فرما دیا۔ اس موقع پر ابو العاص بن ربیع، المطلب بن حنطب، صیفی بن ابی رفاعۃ اور ابو عزۃ جمحی وغیرہ کو اسی طریقے سے رہا فرمایا۔[67] اور باقی قیدیوں کے متعلق بھی آپﷺ نے ارشاد فرمایا:   لوكان المطعم بن عدی حیّا، ثم كلمنی فی هولاء الأسرى، لتركتهم له ۔[68] اس حدیث مبارکہ پر خطابی نے اپنا تبصرہ کرتے ہوئے اس حدیث کو اسیر کی بلا معاوضہ رہائی کی دلیل قرار دیا ہے۔[69]

غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر تقریباً سات سو قیدی گرفتار ہوکر آئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیئے گئے ان میں عرب کے ایک سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ بھی تھیں جو ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی تھیں انہوں نے ثابت سے کہا کہ مکاتبت کر لو، ثابت نے منظور کر لیا۔ لیکن حضرت جویریہ کے پاس روپیہ نہ تھا۔ آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا اگر میں تمہاری طرف سے زر مکاتبت ادا کر کے تم کو اپنی زوجیت میں لے لوں تو اس میں تمہاری کیا رائے ہے؟ جویریہ نے اس کو پسند کیا اور آپﷺ نے اُن سے نکاح کر لیا ۔ اس نکاح کا اثر یہ ہوا کہ تمام اسیران دفعتہً آزاد کر دیئے گئے۔ مسلمانوں نے کہا کہ جس خاندان میں رسول اﷲﷺ نے شادی کی ہو وہ غلام نہیں بن سکتا۔[70] غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر بھی آپﷺؐ نے بعض افراد کو بلا عوض رہا کیا۔[71]غزوہ حنین میں چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ اور یہ سب کے سب بلا عوض رہا کر دیئے گئے۔ آپ نے نہ صرف اپنے حصے کے تمام قیدی خود آزاد فرمائے بلکہ صحابہ کو اس کی ترغیب دی اور چونکہ قیدی تقسیم ہو چکے تھے لہٰذا جو لوگ بغیر عوض کے اپنے حصے کے قیدی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے آپﷺ نے ان سے مال غنیمت سے فدیہ دینے کا وعدہ فرمایا جب یہ قیدی میدان جنگ سے گرفتار ہوئے تو آپ نے اُن سب کو مقام جعرانہ میں بڑی حفاظت کے ساتھ رکھا اور اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ ان کے اعزا و اقرباء ان کے متعلق گفتگو کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں۔ ابھی آپ نے کوئی قطعی حکم صادر نہیں فرمایا تھا کہ قبیلہ ہوازن کے چودہ آدمی زبیر بن صرد کی زیر قیادت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قیدیوں کو آزاد کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے انہیں یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو مال و اپس لے لیں اور اگر چاہیں تو اپنے قیدی واپس لے لیں۔ اس پر انہوں نے قیدیوں کی واپسی کو ترجیح دی۔ رسول اﷲ ﷺ نے مسلمانوں سے اس موقع پر خطاب فرمایا اور خود مسلمانوں کو ان قیدیوں سے متعلق سفارش کرتے ہوئے  ذیل کے الفاظ میں مخاطب ہوئے۔ جس کے بعد سب لوگ بے مول قیدی رہا کرنے پر رضا مند ہو گئے۔

فإن إخوانكم قد جاء ونا تائبین وإنی قد رأیت أن أرد إلیهم سبیهم فمن أحب منكم أن یطیب ذلك فلیفعل و من أحب منكم أن یكون علی حظه حتی نعطیه إیاه من أول ما یفیء اﷲ علینا فلیفعل۔[72]

آپؐ نے اپنی فوج کے ہمراہ جب طائف کا محاصرہ کیا تو اس دوران مشرکین کے جتنے غلام آپ کے پاس آئے آپؐ نے سب کو آزاد فرما دیا۔[73] صلح حدیبیہ کے موقع پر اسّی آدمی فجر کی نماز کے وقت آپؐ اور آپؐ کے صحابہ پر حملہ آور ہوئے تو سب کے سب قیدی بنا لئے گئے۔ تا ہم آپؐ نے ان سب کو بلا عوض رہا کر دیا۔[74] جہاں آپ ؐ نے کئی غزوات میں قیدیوں کو اجتماعی طور پر از راہ احسان بلا عوض رہا کیا وہاں آپؐ نے انفرادی طور پر بھی بعض اسیران کو اسی طرح رہا کیا۔ مستند روایات کے مطابق آپ ؐ نے اہل یمامہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو بھی بلا عوض رہا فرمایا [75]اور یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ صحیح بخاری ، سنن ابی داؤد، سنن نسائی ، سنن ترمذی اور مسند احمد بن حنبل میں بھی موجود ہے۔ عرب کے مشہور فیاض حاتم طائی کی بیٹی جب قیدی بنا کر لائی گئی تو آپؐ نے اُسے اس کی درخواست پر آزاد فرما دیا۔ نہ صرف از راہِ احسان بغیر عوض کے آزاد فرمایا بلکہ اسے کچھ تحائف بھی دیئے۔[76]

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنی حیات طیبہ میں اسیران جنگ میں جس قدر اس صورت کو اختیار   فرمایا کسی اور طریقے کو اس قدر اختیار نہیں فرمایا۔ دورِ نبوی میں جو قیدی مجموعی طور پر نبی اکرم ﷺ کے اختیار میں آئے ان کی تعداد ایک تحقیق کے مطابق چھ ہزار پانچ سو چونسٹھ ہے۔ جن میں سے آپؐ نے چھ ہزار تین سو چوہتر کو از راہ لطف و احسان بلا کسی شرط کے آزاد فرمایا،[77] یعنی آپؐ نے کل تعداد کے ستانوے فیصد (97%)سے زائد افراد کو بذریعہ منّ آزاد فرما دیا۔ گویا جس تواتر سے مختلف اختیارات میں سے آپؐ نے اس اختیار کو استعمال فرمایا کسی اور کو اس قدر اختیار نہیں فرمایا۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد صحابہ کے دور میں بھی بطور احسان بلا عوض قیدیوں کو آزاد کرنے کی مثالیں متعدد اور مسلسل نظر آتی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے اشعث بن قیس کندی کو رہا کیا[78] اور حضرت عمر نے ہرمزان کو بلا عوض رہا کیا،[79] اسی طرح حضرت عمر کے دور حکومت میں جب مناذر فتح کیا گیا تو ان کے گرفتار اسیران کو بھی رہا کر دیا گیا۔ جیسا کہ مہلب بن ابی صفرہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے مناذر کا محاصرہ کیا اور وہاں کے لوگوں کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنا لیا۔ تو پھرجب حضرت عمر کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے لکھ بھیجا: ان مناذر قریة من قری السواد فردوا علیهم ما أصبتم۔[80]

ذمی بنا لینا:

اسلام کی نظر میں جنگی قیدیوں کے متعلق جو مختلف حل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جزیہ لگا کر ان کو مملکت اسلامی کا ذمی بنا لیا جائے اور اُسے اس طرح سے وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو باقی رعایا کو وہاں حاصل ہوں گے۔ پھر اُن کے جان و مال کی حفاظت میں اسلامی مملکت مکمل ذمہ دار ہو گی اور اُن کے جان و مال اور دیگر حقوق کسی طرح بھی عام مسلم رعایا سے کم تر درجہ کے نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت علی کا فرمان ہے:  انما بذلوا الجزیة لتكون دماؤهم كد مائنا و اموالهم كأ موالنا[81]

فقہاء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اسیران جنگ پر جزیہ لگا کر مسلم حکمران انہیں اپنی ذمی رعایا بنا سکتا ہے اور یہ اتفاق اہل کتاب اور مجوس کے حوالے سے ہے۔ تا ہم مشرکین عرب سے جزیہ قبول کر کے انہیں ذمی بنانے میں اختلاف ہے۔[82] اسیران جنگ کے بارے میں حکمران کو حاصل اختیارات کے طور پر ہی مالکیہ اور احناف تو اس اختیار کا ذکر کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک حکمران اپنی مرضی سے اگر چاہے تو وہ اسیران جنگ پر بر بنائے مصلحت جزیہ عائد کر کے انہیں آزاد کر سکتا ہے لیکن شوافع اور حنابلہ کے نزدیک حکمران قیدیوں کو محض اس صورت میں ذمی بنا سکتا ہے جب وہ خود اس کے لئے درخواست کریں۔ تا ہم ان کے مابین بھی اس پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا حکمران پر ان کی درخواست ماننا لازم ہے یا نہیں۔ احناف نے اس معاملہ کو اہل کتاب اور مجوس تک ہی محدود رکھا ہے اور ان کے نزدیک مشرکین و مرتدین سے جزیہ لے کر انہیں ذمی نہیں بنایا جا سکتا۔ [83]

اسیران جنگ سے متعلق اس طریقے پر بالعموم ان حالات میں عمل کیا گیا ہے جب کہ قید ہونے والے لوگ جس علاقے کے باشندے ہوں وہ مفتوح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہو چکا ہو۔ جیسا کہ نبی اکرمؐ نے اہل خیبر کے معاملے میں یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا۔[84] اسی طرح آپؐ نے اہل ہجر سے بھی یہی معاملہ فرمایا کہ آپؐ نے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ۔[85] آپ کے بعد سیدنا عمر فاروق نے بھی سواد ، عراق اور دوسرے علاقوں کی فتح کے بعد بڑے پیمانے پر اس کی پیروی فرمائی۔ مصر کے بعض دیہات  مثلاً بلہیت، الخیس اور سلطیس جب قہراً فتح ہوئے تو وہاں سے غلام بنا کر مدینہ بھیجے گئے تو حضرت عمر نے ان کو واپس کرایا اور انہیں ذمی بنا لیا۔[86]

عراق اور شام کے بعض علاقے بزور شمشیر فتح ہوئے تو اسلامی فوج نے اصرار کیا کہ باشندوں کو غلام بنا لیا جائے اور زمین کو تقسیم کر دیا جائے۔ سیدنا بلال اور عبدالرحمن بن عوف اس سوچ کے افراد میں نمایاں تھے۔ دوسری طرف سیدنا عثمان، طلحہ، ابن عمر اور اکابرین انصار اس کے خلاف تھے اور خود امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق بھی اس کے خلاف تھے۔ چنانچہ سیدنا عمر ؓ نے اپنا موقف صحابہ کے سامنے پیش کیا جسے بعد میں سب صحابہ نے قبول کر لیا۔ آپ نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری رائے یہ ہے کہ زمین کو اس کے غیر مسلم باشندوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دوں۔ ان کی زمین پر خراج اور ان کی گردنوں پر جزیہ مقرر کر دوں۔‘‘ عراق کی فتح کے بعد اس علاقے کے سرکردہ لوگ جمع ہو کر حضرت عمر کے پاس آئے اور عرض کیا اے امیر المؤمنین ! پہلے اہل ایران ہم پر قابض تھے انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا، بہت برا سلوک کیا۔ پھر جب اﷲ نے آپ کو بھیجا تو ہم لوگ آپ کی آمد سے خوش تھے، ہم نے آپ کے مقابلے میں نہ تو کوئی مدافعت کی نہ جنگ میں حصہ دار ہوئے۔ اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ ہمیں غلام بنانا چاہتے ہیں تو حضرت عمر نے جواب دیا:  فالآن فإن شئتم فالإسلام، وإن شئتم فالجزیة۔[87] ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا تو یہ آزاد چھوڑ دیئے گئے اور ذمی بنا لئے گئے۔

مندرجہ بالا مختلف صورتوں پر تفصیلی بحث سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ اسلام نے جنگی قیدیوں کے متعلق ایک ایسا وسیع ضابطہ بنایا ہے کہ اس کے مطابق اس معاملے میں ہر دور اور زمانے کے مختلف حالات کے باوجود اس مسئلے سے عہدہ براء ہوا جا سکتا ہے۔ شریعت اسلامی نے حکمران کو مختلف اختیارات دے کر برمحل اور بربنائے مصلحت اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق فراہم کیا ہے۔ اگر شریعت اسلامی اسیران جنگ سے متعلق کوئی ایک حل تجویز کر دیتی تو یقیناً یہ حل یا تو صدر اسلام کے حالات سے مطابقت نہ رکھتا یا پھر آج کے جدید دور میں امت مسلمہ کے لئے مشکلات کا سبب بنتا۔ مندرجہ بالا مختلف صورتوں پر رسول اﷲ ﷺ اور ان کے اصحاب نے مختلف مواقع پر حسب موقع عمل فرمایا ہے۔ جس کا لازمی اثر یہ ہے کہ اسلامی حکومت اسیران جنگ کے معاملے میں کسی ایک ہی صورت کی پابند نہیں ہے۔ حکومت جس وقت جس طریقے کو مناسب سمجھے اُس پر عمل پیرا ہو سکتی ہے۔


[1]      الانفال67:8

[2]      الانفال70:8

[3]      محمد4:47

[4]      ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، تفسیر ابن کثیر،174/4، مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، الریاض و دارالفکر للطباعۃ والنشر ا لتوزیع، 1980ء

[5]      السرخسی، شمس الدین محمد بن احمد، المبسوط،  20/10 ،دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، 1978ء

[6]      تفسیر ابن کثیر،174/4

[7]      العسقلانی، احمد بن علی بن حجر، 152/6 ، فتح الباری، دارالمعرفۃ، بیروت، 1379 ھ،

[8]      العبدری، محمد بن یوسف،التاج والاکلیل لمختصر خلیل، 358/3 ، دارالفکر، بیروت، 1398ء

[9]      الشوکانی، محمد بن علی بن محمد، نیل الاوطار،324/9 ، مکتبۃ دارالتراث، قاہرۃ، 1357 ھ،

[10]    الزحیلی، وھبۃ، الدکتور، آثار الحرب فی فقہ الاسلامی،ص430، دارالفکر بدمشق، س۔ن

[11]    الکاسانی، ابوبکر بن مسعود بن احمد، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،  117-120/7، دارالکتاب العربی، بیروت، 1982ء

[12]    المیدانی، عبدالغنی ، اللباب فی شرح الکتاب،124/4 ، مکتبۃ محمد علی صبیح، مصر، طبعۃ الرابعۃ ،  س۔ن

[13]    الماوردی، ابوالحسن علی بن محمد، الاحکام السلطانیہ، ص 14 ، مطبعۃ الاتحاد المصری، مصر، الطبعۃ الاولیٰ، 1909

[14]    ابن قدامۃ، موفق الدین، ابی محمد عبداﷲ بن احمد بن محمود، المغنی ویلیہ الشرح الکبیر،  205/2، دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1983ء ؛  الشرح الکبیر للدردیر 424/10

[15]    المغنی ویلیہ الشرح الکبیر ،  400/10

[16]    التاج والا کلیل لمختصر خلیل 358/3

[17]    سیوطی، جلال الدین،  امام، الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، 46/6، دارالمعرفۃ، بیروت، س۔ن؛الشوکانی، محمد بن علی، ’’فتح القدیر الجامع بین فنّی الروایۃ والدرایۃ من علم التفسیر‘‘ ، 31/5,  شرکۃ مکتبۃ و مطبعۃ مصطفیٰ البابی الجلی واولادہ بمصر۔،  س۔ن ؛  تفسیر ابن کثیر،/4  174؛ الجصاص، ابوبکر احمد الرازی، احکام القرآن، 391/3، سہیل اکیڈمی لاہور؛ القرطبی، ابو عبداﷲ محمد، الجامع لاحکام القرآن، 226-230/16، دارالکاتب العربی، قاہرۃ، 1967ء

[18]    البانی، ناصر الدین، محمد، ارواء الغلیل ،  40/5 ،  المکتب الاسلامی، بیروت، 1979ء

[19]    ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنھایۃ، 35/3، مکتبہ المعارف، بیروت، 1966ء

[20]    ابوداؤد سلیمان بن الاشعث، سنن ابیٔ داؤد، 12/3، دارالکتاب العربی، بیروت، س-ن

[21]    البخاری، ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری ، 1345-1346/3، دار ابن کثیر، بیروت، 1990ء

[22]    المبارکپوری، صفی الرحمن، الرحیق المختوم،ص181، دارالالوفاوللطباعۃ والنشروالتوزیع، المنصورۃ، الطبعۃ الثالثۃ، 1987،

[23]    ابن ھشام، ابو محمد عبدالملک، السیرۃ  ا لنبویۃ لابن ہشام ، 104/2 ، دارالکنوز الادبیۃ،س۔ن

[24]    ارواء ا لغلیل، 41/5

[25]    ایضاً

[26]    السیرۃ  ا لنبویۃ لابن ہشام،  61-62/2

[27]    اکرم ضیاء العمري، الدکتور، السّیرۃ النبویۃ الصحیحۃ ، 316/1 ، مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، 1994 ء 

[28]    ابن سید الناس، محمد بن عبداﷲ، عیون الاثرفی فنون ا لمغازی والشمائل والسیّر ، 38/2 ، موسسۃ عزالدین للطباعۃ والنشر، بیروت، 1986ء

[29]    استثناء  باب12، آیت 14

[30]    صحیح البخاری ، 1384/3 

[31]    شبلی نعمانی، سلیمان ندوی، سید،سیرت النبی، 268/1، ادارہ اسلامیات، لاہور، جمادی الثانی 1423ھ/ستمبر 2002

[32]    النسائی، ابو عبدالرحمن احمد بن شعب، السنن  الکبریٰ للبیہقی، 82/9 ، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، 1356ھ، الطبعۃ الاولیٰ۔

[33]    محمد صبعی حسن حلاق، ضعیف تاریخ الطبری، 186/7، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت؛ الذھبی، سیر اعلام النبلاء، 503-504/11، موسسۃ الرسالۃ، بیروت؛ ابن حبان، المجروحین من المحدثین، 321/2، دارالصمیعی، الریاض

[34]    الرازی، ابو محمد عبد الرحمن،کتاب الجرح و التعدیل، 322/7 ، دارالمعرفۃ للطباعۃ و النشر، بیروت، 1975ء  ؛ العسقلانی، احمد بن علی بن حجر،’’ تقریب التھذیب ‘‘، 184/2 ، دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت، 1975ء 

[35]    سنن ابی داؤد،117/3

[36]    الطبری، محمد بن جعفر،تاریخ الطبری ، 138/2 ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 1969 ء

[37]    فتح الباری ، 111-112/8

[38]    ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل، السیرۃ النبویۃ، 564/3، دارالفکر، بیروت، 1981

[39]    محمد خیر ھیکل، الجھادو القتال فی السیاسۃ الشرعیۃ، 1552/3، دارالبیارق، بیروت، 1996ء

[40]    النساء 92:4 ؛  المائدۃ 89:5؛  المجادلۃ 3:58 ؛  االبلد 12-16:90

[41]    Hamidullah, Muhammad, Dr., The Muslim Conduct of State, P.219, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore, 1996

[42]    مشتاق احمد، محمد، جہاد، مزاحمت اور بغاوت: اسلامی شریعت اور بین الاقو امی قانون کی روشنی میں، ص 443، الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ،  دسمبر 2008ء

[43]    ابو زہرۃ، محمد، الامام، العلاقات الدولیۃ فی الاسلام، ص 116؛ الدار القومیۃ للطباعۃ والنشر، القاہرہ، 1964 ء،  الزحیلی، وھبۃ، الدکتور،آثار الحرب فی فقہ الاسلامی، ص 445-444،  دارالفکر بدمشق، س۔ن،السید السابق،فقہ السنۃ، 88/3، دارالکتاب العربی، بیروت ، س۔ن

[44]    غامدی، جاوید احمد، قانونِ جہاد،  ص  272، 276، ادارہ طلوع اسلام، لاہور

[45]    غلام احمد،پرویز، غلام اور لونڈیاں، ص8، ادارہ طلوع اسلام، لاہور، 1984 ء

[46]    قانون جہاد،  ص  272، 276

[47]    ابن رشد، محمد بن احمد بن محمد، بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد، 382/1، دارالمعرفۃ، 1982

[48]    محمد4:47

[49]    السیرۃ  ا لنبویۃ لابن ہشام، 604/1؛  عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل و السّیر، 301-302/1

[50]    فتح الباری ، 322/7

[51]    صحیح البخاری، 1474/4

[52]    The Muslim Conduct of State, P. 220

[53]    القضائی، محمد بن سلامۃ بن جعفر، تاریخ القضاعی کتاب عیون المعارف و فنون اخبار الخلائف، ص 362، جامعۃ ام القری، مکۃ المکرمۃ، 1995 ؛ الکتبی، محمد بن شاکر، فوات الوفیات، 134/3، دار صادر، 1974ء

[54]    احمد بن حنبل، الامام، مسند احمد ،  92/4 ،  موسسۃ الرسالۃ، 1999ء

[55]    البلاذری، احمد بن یحییٰ، فتوح البلدان، ص 145، موسسۃ المعارف، بیروت، 1987ء

[56]    تاریخ ابن خلدون ، /5  309

[57]    بدائع الصنائع، 120/7

[58]    مسلم بن الحجاج القشیری،الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم‘ 150/5، دارالجیل، بیروت و دارالافاق الجدیدۃ، بیروت، س-ن

[59]    مسند احمد،  167/6

[60]    فتح الباری ،167/6

[61]    ابن الھمام، کمال الدین محمد بن عبدالواحد، فتح القدیرمع الکفایۃ،220/5 ، المکتبۃ النوریۃ الرضویۃ، سکھر، پاکستان

[62]    Majid Khadduri, War and Peace in the Law of Islam, P. 128, The Law Book Exchange Ltd., Clark, New Jercey, 2006

[63]    George finlay, Histroy of the Byzantine Epmire Vol.1, P.106, William Blackwood and Sons, Edinburgh and London, 1853

[64]    سورۃ محمد کی آیت نمبر 4 کی تشریح میں متعلقہ تفاسیر کے اندر یہ معانی درج ہیں

[65]    ابن الاثیر، عزالدین ابو الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد، الکامل فی التاریخ ، 623/1، دار صادر، دار بیروت، بیروت، 1966ء

[66]    احمد الزوزنی، ابو عبداﷲ الحسین، شرح المعلقات السبع ، ص192، دارالمعرفۃ، بیروت، 2004ء

[67]    البلاذری، احمد بن یحيٰ، انساب الاشراف،  ص 302-303/1، دارالمعارف، مصر، س۔ن

[68]    صحیح البخاری، 1475/4

[69]    الخطابی، ابو سلیمان، معالم السنن، 289/2 ، مطبوعۃ علمیۃ، الحلب، 1933 ء

[70]    سنن ابی داؤد،34/4

[71]    ابو عبید قاسم بن سلام الھروی، کتاب الاموال ، ص 130، مکتبۃ اثریۃ، لاہور،  س۔ن

[72]    صحیح البخاری، 1569/4

[73]    ابن ابی شیبہ، عبداﷲ بن محمد، مصنف ابن ابی شیبہ، 09/14،  ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ، کراتشی، باکستان،  1986ء

[74]    سنن ابی داؤد13/3

[75]    الجامع الصحیح المسمی صحیح مسلم ،  158/5

[76]    السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، 579/2

[77]    منصور پوری، قاضی محمد سلیمان سلمان، رحمۃ للعالمین ،/2 204، مکتبہ اسلامیہ، اردو بازار، لاہور، جون، 2006ء

[78]    فتوح البلدان، ص 141

[79]    الشیبانی، محمد بن حسن، کتاب السیر الکبیر، 49/2، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 1997؛  فتوح البلدان، ص 537-538

[80]    فتوح البلدان ، ص   533

[81]    النووی، یحییٰ بن شرف، المجموع شرح المھذب، 416/19، دارالفکر للطباعۃ و النشر والتوزیع۔ س۔ن

[82]    بدایۃ المجتھد و نھایۃ المقتصد، 389/1

[83]    السرخسی، شمس الائمۃ محمد بن احمد، شرح السیرالکبیر، 269/2،دائرۃ المعارف النظامیۃ، حیدر آباد، 1335 ھ 

[84]    مودودی، ابو الاعلی، سید، تفہیم القرآن، 15/5، ادارہ ترجمان القرآن، (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور، 2004ء

[85]    ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم، الامام، کتاب الخراج، ص 80، مکتبۃ السلفیۃ، قاہرۃ، 1346ھ

[86]    فتوح البلدان،  ص303

[87]    کتاب الاموال، ص 138-139

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...