Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 2 of Al-Idah

امام خطابی کی غریب الحدیث تعارف، منہج واسلوب اور امتیازی خصوصیات |
Al-Idah
Al-Idah

تمہید:

امام خطابی ؒکا مکمل نام ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم بن خطاب ہے ۔ آپ چوتھی صدی ہجری کے عظیم محدث شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ کو اس لحاظ سے علم حدیث میں انفرادیت حاصل ہے کہ سب سے پہلے سنن ابوداود کی مکمل شرح ’’معالم السنن ‘‘اور پھر صحیح بخاری کی اولین شرح ’’اعلام الحدیث‘‘ آپ ہی نے تحریر فرمائی تھی ۔ مذکورہ دونوں کتب کے علاوہ بھی موصوف نے مختلف علوم وفنون میں متعدد کتب تحریر فرمائی ہیں ، جن میں سے ایک اہم کتاب غریب الحدیث ہے ۔ یہ مخطوطے کی شکل ہی میں تھی ۔ اسے سب سے پہلے مکہ مکرمہ کی معروف یونیورسٹیز میں سے ایک ’’ام القریٰ یونیورسٹی ‘‘نے دکتور عبد الکریم بن ابراہیم عزباوی کی تحقیق کے ساتھ طبع کیا ہے۔ یہ کتاب احادیث میں موجود مشکل الفاظ کی توضیح و تشریح پر مشتمل ہے اور اپنے اس موضوع میں بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ چونکہ اس کتاب پر تاحال کوئی خاص کام سامنے نہیں آیا اس لئے اس کا انتخاب کرتے ہوئے اس کا سبب ِ تالیف ، منہج واسلوب ،علماء کے ہاں مقام ومرتبہ ، مصادر ، اثرات اور اس سے متعلقہ دیگر تفصیلات آئندہ سطور میں پیش کی جا رہی ہیں ، ملاحظہ فرمایئے ۔

نام کتاب:

اس کتاب کا نام ’’ غریب الحدیث ‘‘ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امام خطابی ؒ نے خود اس کے نام کی وضاحت فرمائی ہے اور اپنی متعدد کتب میں اس کا یہی نام ذکر فرمایا ہے ۔[1]یہی باعث ہے کہ تقریباً تمام علماء جنہوں نے امام خطابی ؒ کے احوال قلم بند کئے ہیں اُن سب نے اس کتاب کو امام خطابی ؒکی طرف منسوب کر کے اس کا یہی نام ذکر فرمایا ہے جیسا کہ امام ثعالبی ؒ [2]، امام ابن جوزی ؒ[3]، امام ابن اثیر ؒ [4]، امام نووی ؒ [5]، امام ذہبی ؒ [6]، امام ابن کثیر ؒ [7]اور حافظ ابن حجر ؒ [8]وغیرہم كی تصریحات سے بخوبی اس كا اندازہ ہوتاہے ۔

غریب الحدیث سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں یاد رہے کہ غریب ایسے مشکل لفظ کو کہتے ہیں جو بآسانی سمجھ نہ آئے اور جسے سمجھنے کے لئے کچھ محنت وکوشش درکار ہو ۔ غریب کا مفہوم بیان کرتے ہوئے خود امام خطابی ؒ نے کتاب کے مقدمہ میں نقل فرمایا ہے کہ’’کلامِ عرب میں غریب سے مراد وہ لفظ ہے جو (مفہوم کے اعتبار سے ) مخفی ہو اور جسے سمجھنا بعید ہو ۔ ‘‘[9]یعنی جسے سمجھنے کے لئے غوروفکر کی ضرورت ہو ۔ اس طرح غریب الحدیث سے مراد یہ ہوا کہ احادیث میں موجود ایسے مشکل الفاظ جو بآسانی سمجھ نہ آئیں اور جنہیں سمجھنے کے لئے کچھ غوروفکر کی ضرورت پڑے ۔

موضوع اور شرط:

نبی کریمﷺ ، صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی روایات میں موجود مشکل کلمات وعبارات کی تشریح وتوضیح اس کتاب کا موضوع ہے ۔

اس کتاب کے مقدمہ میں امام خطابی ؒنے اپنی شرط کے بارے میں بھی اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ اس سے پہلے اس موضوع پر لکھی جانے والی دو کتب ’’غریب الحدیث لابی عبید ‘‘اور ’’غریب الحدیث لابن قتیبہ ‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُن کلمات کی تشریح سے اجتناب کریں گے جو كلمات ان دونوں کتب میں پہلے گزر چکے ہیں ، ہاں اگر کہیں بطور ِاستشہاد ضرورت پڑے یا کوئی ایسا لفظ جو ان کتابوں سے ہو لیکن آپ کی کتاب میں کسی کلام سے متصل ہو تو بس اسی کو وہاں ذکر کیا جائے گا۔[10]

مقام و زمانہ تالیف:

امام خطابی ؒ نے مقدمہ میں جو خود وضاحت فرمائی ہے [11]اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب آپ نے دو مراحل میں مکمل کی۔ پہلے مرحلے میں آپ نے اسے بخاریٰ شہر میں (۳۵۹ھ )میں تحریر کیا ، لیکن اس وقت یہ محض مسودے کی شکل میں تھی کہ جس کی ترتیب ، تہذیب اور نظرثانی وغیرہ کی ضرورت تھی ۔ دوسرے مرحلے میں آپ نے یہ تینوں کام کئے اور کتاب کو مکمل کیا ۔اور امام ذہبی ؒ کے قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب کی اصلاح وتہذیب کے کام سے جب آپ فارغ ہوئے اس وقت آپ نیشاپور میں تھے جیسا کہ انہوں نے نقل فرمایا ہے کہ’’خطابی ؒ ایک مدت تک نیشاپور میں مقیم رہے اور تالیف وتصنیف کا کام کرتے رہے چنانچہ اس دوران آپ نے غریب الحدیث پر بھی کام کیا ۔‘‘[12]

سبب تالیف :

امام خطابی ؒ نے کتاب کے مقدمہ میں وہ سبب بیان کیا ہے جو اس کتاب کی تالیف کی بنیاد بنا ۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ سمجھتے تھے کہ امام ابوعبید قاسم بن سلام ؒاور امام ابو محمد بن قتیبہ ؒ ، ان دونوں اماموں نے اپنی اپنی کتاب ’’غریب الحدیث‘‘ میں تقریباً اُن تمام مشکل الفاظ کی تشریح وتوضیح فرما دی ہے جو غریب الحدیث سے متعلقہ ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے کسی دوسرے کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔

لیکن حدیث کا بنظر غائر مطالعہ كرنے اور كثرت سے محدثین کی مجالس میں بیٹھنے کی وجہ سے آپ کے سامنے کچھ ایسے الفاظ بھی آئے جن کی تشریح ان دونوں کتب میں موجود نہیں تھی ۔ تب آپ نے ایسے الفاظ جمع کرنے شروع کر دیئے حتی کہ ایک وقت آیا کہ آپ کے پاس اتنے الفاظ جمع ہو گئے کہ جنہیں مرتب کرنے سے ان کا حجم بھی ابو عبید ؒ یا ابن قتیبہؒ کی کتاب جتنا ہو گیا ۔[13] اور اس طرح آپ کی کتاب ’’غریب الحدیث ‘‘ مرتب ہو ئی ۔

مقدمہ وترتیب :

غریب الحدیث کے آغاز میں امام خطابی ؒ نے مقدمہ نقل فرمایا ہے ۔بسملہ كے بعد اللہ كی حمد و ثناء اور رسول كریم پر درود بھیجا ہے ، اس كے بعد غریب الحدیث میں تصنیف كا مقصد واضح كرتے ہوئے امام ابو عبید قاسم بن سلام كا تذكرہ فرمایا كہ سب سے پہلے انہوں نے احادیث كے مشكل الفاظ كے معانی پر كتاب تصنیف كی ، پھر انہی کے نہج پر چلنے والے ابو محمد ابن قتیبہ ہیں ، انہوں نے وہ الفاظ بھی جمع کر دیئے جن سے ابو عبید غافل رہ گئے تھے ۔ پھر جو تھوڑے بہت الفاظ باقی تھے اللہ کی مدد سے انہیں جمع کرنے اور ان کی تشریح وتوضیح کرنے کا کام انہوں نے انجام دیا۔[14]

پھر ترتیب ِکتاب میں آپ نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کا ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے میں احادیث ِرسول ﷺ کی تشریح کروں گا ، پھر احادیث ِصحابہ اور پھر احادیث ِتابعین کی توضیح کروں گا وغیرہ۔[15]

مقدمہ میں آپ نے چند فصول ذكر كی ہیں جن میں متعلم حدیث اور طالب علم كے لئے مختلف امور كا ذكر كیا ، جن كا لحاظ ركھنا طالب علم كے لئے اشد ضروری ہے مثلاً سب سے پہلے ’حدیث کے طالب علم پر کلامِ عرب کے حوالے سے جو کچھ سیکھنا واجب ہے ‘اس کا ذکر کرتے ہوئے عربی لغت کی پہچان اور اسے سیکھنے کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سی امثلہ سے بھی مدد لی ہے ۔ پھر تصحیف اور بری تاویل کے متعلق کلام کیا ہے اور بعض رواۃ کی تصحیفات کی مثالیں ذکر کی ہیں ۔ پھر صدر ِاوّل کے مسلمانوں کی حالت بیان کی ہے کہ وہ کس قدر اعراب کے پابند تھے اور عربی کو اصول وقواعد کے خلاف پڑھنے یا اس میں غلطی کرنے کو کتنا برا جانتے تھے اور اس کے تحت بہت سی امثلہ بھی بیان کی ہیں ۔ پھر رسول اللہ ﷺ کی فصاحت وبلاغت کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں احادیث سے متعدد امثلہ ذکر فرمائی ہیں ۔ پھر کتاب کے مقدمہ کو غریب کے معنی و اشتقاق کی توضیح پر ختم کیا ہے۔

اس کے بعد کتاب کا آغاز کیا ہے ۔ اور كتاب كی ترتیب وہی ركھی ہے كہ پہلے مرفوعات، پھر موقوفات اور اس كے بعد مقطوعات كا ذكر كیا ہے ۔ چنانچہ سب سے پہلے مرفوع احادیث میں موجود مشکل الفاظ کی تشریح کی ہے اورکتاب کی پہلی جلد اسی پر مشتمل ہے ۔ دوسری جلد میں موقوف روایات اور تیسری جلد میں مقطوع روایات کے مشکل الفاظ کی تشریح وتوضیح ذکر فرمائی ہے ۔ اور کتاب کے آخر میں اُن الفاظ کی اصلاح فرمائی ہیں جو عوام میں مشہور بعض روایات میں موجود ہیں لیکن تحریف شدہ ہیں ۔

کتاب کی اس ترتیب میں امام خطابی ؒ نے ابو عبید ؒاور ابن قتیبہ ؒ کے طریقے کی پیروی کی ہے جیسا کہ آپ نے خود ہی اس کی وضاحت فرمائی ہے ۔[16]البتہ آپ کے بعد جب امام ابو عبید ہروی ؒکا زمانہ آیا تو انہوں نے سب سے پہلے غریب الحدیث کی تالیف میں یہ ترتیب اختیار کی کہ تمام الفاظ وکلمات کو حروف ِتہجی کے اعتبارسے مرتب کر دیا ۔

منہج واسلوب:

غریب الحدیث میں امام خطابی ؒ کے منہج واسلوب کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے:* مشکل الفاظ کی شرح میں امام خطا بی ؒ نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ سب سے پہلے آپ حدیث کا متن ذکر کرتے ہیں (لیکن اس متن کو ذکر کرنے کی بذات ِخود کوئی معین ترتیب نہیں ) ۔ پھر متن کے بعد اس کی سند ذکر کرتے ہیں ۔ پھر اس متن میں موجود مشکل الفاظ کی تشریح کرتے ہیں ۔

  • الفاظ کی تشریح وتوضیح میں سب سے پہلے اپنی رائے ذکر کرتے ہیں ؛ چنانچہ پہلے لفظ کا معنی ومفہوم واضح کر کے حدیث میں اس کی مراد بیان کرتے ہیں ، پھر اس کے بعد دیگر ائمہ کے اقوال بطور ِاستشہاد نقل کرتے ہیں ۔
  • بالعموم آپ کی عادت ہے کہ آپ مشکل الفاظ کی تشریح میں بطور ِاستشہاد قرآنی آیات اور بعض اوقات احادیث بھی نقل کرتے ہیں جو اس معنی پر دلالت کر رہی ہوتی ہیں ۔جیسا کہ آپ نے ایک مقام پر[17] لفظ ’’رقیم ‘‘ کا معنی بیان کیا ہے ’’کتاب‘‘ یعنی لکھی ہوئی چیز ، پھر اس کے لئے بطور ِاستشہاد یہ قرآنی آیت نقل کی ہے (( کِتَابٌ مَّرْقُوْمٌ ))[18] ۔اسی طرح ایک دوسرے مقام پر[19] ا ٓپ نے لفظ ’’ لثق‘‘ کی تشریح کیچڑ سے کی ہے اور یہ معنی بھی بیان کیا ہے کہ ’’تر ہو جانا‘‘۔ پھر اس کے لئے بطور ِ استشہاد ایک حدیث نقل کی ہے جس میں یہ لفظ ہیں (( بکوا حتی تلثق لحاھم ))’’وہ روئے حتی کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں۔‘‘[20] اس کے علاوہ بھی اس طرح کی بہت سی مثالیں کتاب میں موجود ہیں ۔
  • تقریباً ہر مشکل لفظ کی تشریح میں آپ نے یہ التزام کیا ہے کہ آپ اس کے معنی کی توضیح پر مشتمل کوئی نہ کوئی شعر ضرور نقل کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ کتاب کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو گا جو اشعار سے خالی ہو ۔
  • بعض مقامات پر آپ نے کلمات کی تشریح کے دوران اس کے معنی پر دلالت کرنے والی ضرب الامثال بھی بیان کی ہیں ۔ ان ضرب الامثال کی تعداد کافی زیادہ ہے اسی وجہ سے کتاب کے محقق نے آخر میں ان کی الگ فہرست بھی ذکر کی ہے ۔[21]
  • آپ نے یہ بھی اہتمام فرمایا ہے کہ بعض مقامات پر آپ الفاظ کا صرفی وزن بیان کرتے ہیں اور یہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہاں کون سا حرف کس دوسرے حرف سے تبدیل ہوا ہے ۔ اسی طرح بعض اوقات آپ ا س کے بعد الفاظ کے اعراب اور دیگر نحوی مسائل بھی بیان کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے محقق نے آخر میں فہرس للغۃ اور فہرس للنحو والصرف کے عنوان سے الگ الگ فہرستیں مرتب کر دی ہیں ۔
  • کلامِ عرب میں اگر کسی ایک ہی چیز کے مختلف مراحل واحوال میں مختلف نام ہیں یا مترادف نام ہیں تو آپ نے اس کی بھی توضیح فرمائی ہے ،مثلاً :
  1. آپ نے امام ثعلب ؒ سے نقل فرمایا ہے کہ جماعت کے لئے بہت سے نام ہیں جیسا کہ کبۃ ، کبکب ، کبکبۃ ، ہلتاء ، زرافۃ ، غیثرۃ ، برزیق ، وصت ... ۔یہ سب ملے جلے اور ایک دوسرے کے ہم معنی الفاظ ہیں ۔[22]
  2. آپ نے ابن اعرابی ؒ سے نقل فرمایا ہے کہ بڑے ڈول کے لئے لفظ" غرب" استعمال ہوتا ہے ، اگر اس سے بھی کچھ بڑا ہو تو اسے " سحبل " کہتے ہیں اور اس سے بھی بڑا ہو تو اسے" سحبيلة" کا نام دیا جاتا ہے ۔[23]
  3. آپ نے اصمعی ؒ سے نقل فرمایا ہے کہ اگر دودھ اور پانی کو ملا لیا جائے تو اسے" المذیق" کہتے ہیں اور اگر پانی زیادہ ہو جائے تو اسے " الضیاع " کہا جاتا ہے ۔[24]
  4. بعض تثنیہ الفاظ کی توضیح میں آپ نے نقل فرمایاہے کہ عرب کے ہاں "عصرین "سے مراد صبح اور شام ہے ، " اسودان" سے مراد ہے پانی اور کھجور اور " سیرت العمرین" سے اہل عرب "ابوبکر ؓو عمرؓ"مراد لیتے ہیں ۔[25]
  • بعض مقامات پر آپ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض دیہاتیوں کے قصے اور ان کی فصاحت بھی بیان کی ہے۔[26]
  • کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ بعض الفاظ کی تشریح میں دیگر ائمہ لغت کے اقوال نقل کرنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں اور اپنی رائے ذکر ہی نہیں کرتے ۔[27]
  • اگر کسی حدیث میں ایک سے زیادہ الفاظ محتاجِ وضاحت ہوں تو آپ ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ وضاحت کرتے ہیں۔[28]
  • بعض مقامات پر آپ یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ہم اس کی وضاحت پیچھے کر چکے ہیں ۔[29]
  • آپ نے اس کتاب میں بعض اشیاء كے ناموں كا وجہ تسمیہ بیان کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ہے ، چنانچہ ایک مقام پر آپ نقل فرماتے ہیں کہ’’سانپ کو حیۃ کا نام اس لئے دیا گیا کیونکہ وہ گول ہو کر سمٹ جاتا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ بلکہ طویل حیات کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے ۔‘‘[30]
  • اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے مؤلف ؒ کے تقویٰ وپرہیزگاری اور علمی دیانت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کتاب میں بہت سے مقامات پر آپ نے واضح لفظوں میں اپنی لاعلمی کا اظہار فرمایا ہے اور اس کے لئے مختلف الفاظ استعمال فرمائے ہیں جیسا کہ (( لست اعرف حقیقة هذا )) ’’مجھے اس کی حقیقت کا علم نہیں۔‘‘ [31](( لا ادری ما هو )) ’’میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے ۔‘‘ [32](( لست ادری ما صحته )) ’’میں نہیں جانتا کہ اس کی صحت کیا ہے ۔‘‘ [33](( لم اسمع به )) ’’میں نے اسے نہیں سنا ۔‘‘[34]

بعض مقامات پر تو آپ نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ میں نے اس لفظ کے بارے میں اہل علم سے بہت زیادہ سوال کیا حتی کہ ایک مقام پر آپ نے بتایا ہے کہ آپ نے امام ازہری ؒ سے کچھ دریافت کرنے کے لئے انہیں خط ارسال کیا ، پھر انہوں نے اس کا جواب بھی دیا اور لفظ کی وضاحت بھی کی ۔[35]* اس کتاب میں آپ نے یہ بھی اہتمام فرمایا ہے کہ اگر کسی کی رائے درست نہیں یا کسی کو وہم ہوا ہے یا غلطی لگی ہے تو اس کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس کے لئے مختلف الفاظ استعمال فرمائے ہیں جیسا کہ(( هذا غلط )) ’’یہ غلط ہے ۔‘‘[36] ((هذا خطا)) ’’یہ خطا ہے ۔‘‘[37]((هذا لا یستقیم)) ’’یہ بات درست نہیں ۔‘‘[38](( هذا فاسد )) ’’یہ قول فاسد ہے ۔‘‘[39](( هذا التفسیر لیس علی التحقیق )) ’’یہ تفسیر مبنی بر تحقیق نہیں ۔‘‘[40]

پھر ان کلمات کے بعد اکثر مقامات پر صحیح رائے کی بھی ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے:(( والصواب کذا )) ’’اور درست بات اس طرح ہے ۔‘‘[41](( تحقیقه کذا )) ’’اس کی تحقیق اس طرح ہے۔‘‘ [42](( اللغة الجیدة کذا ))’’عمدہ لغت اس طرح ہے ۔‘‘[43]* اکثر مقامات پر آپ نے روایات کی اسناد بھی ذکر فرمائی ہیں حتی کہ دورانِ تشریح جن روایات کو بطور ِاستشہاد آپ نے نقل فرمایا ہے ان کی بھی سند ذکر کی ہے ۔[44] البتہ بعض مقامات پر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ بغیر سند کے اور بغیر راوی حدیث( صحابی) کا نام ذکر کئے صرف انہی الفاظ پر اکتفا ء کرتے ہیں کہ’’نبی ﷺ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا ۔ ‘‘[45] علاوہ ازیں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ ایک حدیث کی ایک سے زیادہ اسناد ذکر فرما دیتے ہیں۔[46]اور کبھی آپ سند کے کسی راوی پر کلام بھی فرماتے ہیں جیسا کہ ’’یہ اس روایت میں منفرد ہے‘‘ وغیرہ ۔[47]

  • یہ کتاب امام خطابی ؒ کے شیوخ کے اسماء کی معرفت کے حوالے سے اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ، اس لیے کہ آپ نے اس میں اپنے شیوخ سے پہلی بار روایت کرتے ہوئے ان کے نام ، نسب ، نسبت یا لقب وغیرہ کی مکمل وضاحت فرمائی ہے۔ البتہ جب کسی دوسری جگہ اسی شیخ سے روایت بیان کی ہے تو صرف اس کے مختصر نام یا لقب پر ہی اکتفاء فرمایا ہے ۔ ایسے شیوخ جن سے آپ نے کتاب میں متعدد مقامات پر روایت نقل کی ہے ، ان میں سے چند کے اسماء حسب ذیل ہیں:

(۱)ابراہیم بن فراس ۔(۶)احمد بن ابراہیم بن مالک ۔

(۲)احمد بن محمد بن الاعرابی ، ابو سعید شیخ الحرم ۔ (۷)اسماعیل بن محمد الصفار ۔

(۳)ابو رجاء الغنوی ۔ (۸)عبد اللہ بن شاذان الکرانی ۔

(۴)محمد بن بکر بن عبد الرزاق ابن داسہ ۔ (۹)محمد بن عبد الواحد المعروف بغلام ثعلب ۔

(۵)محمد بن مکی ۔ (۱۰)محمد بن ہاشم ۔ * امام خطابی ؒ نے روایت کے مختلف صیغے استعمال فرمائے ہیں جن میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں ؛ حدثنا ، حدثنی ، حدثونا ، اخبرنا ، اخبرنی ، اخبرونا ، سمعت ، رواہ لنا ، انشدنا ، انشدنی ، قال لی ، بلغنی ، روی ، حکی ، یرویہ اور ذکرہ وغیرہ ۔ البتہ بعض اوقات آپ روایت کا کوئی صیغہ نقل نہیں کرتے اور براہ راست راوی کے نام ہی سے سند شروع کر دیتے ہیں ۔ جیسا کہ عبد الرزاق عن معمر... ۔[48]

اصطلاحات ِحدیث:

اس کتاب میں اصطلاحا تِ حدیث کا بیان بہت کم ہے کیونکہ یہ کتاب کا موضوع نہیں ، البتہ امام خطابی ؒ نے بعض اصطلاحات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، ان میں سے چند ایک کا مختصر بیان حسب ذیل ہے :*

متواتر:

    • امام خطابی ؒ نے یہ اصطلاح اپنے اس قول میں بیان فرمائی ہے (( وقد تواترات الأخبار عن رسول الله ﷺ أنها أی لیلة القدر فی لیالی الوتر من العشر الأواخر من الشهر ۔ أی رمضان ))’’اور بیشک رسول اللہ ﷺ سے متواتر روایات میں یہ بات ثابت ہے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے ۔‘‘[49]

مشہور:

  • اس اصطلاح کو امام خطابی ؒ نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ پہلے یہ حدیث نقل فرمائی ہے : ((أهل المعروف فی الدنیا أهل المعروف فی الآخرة ))’’دنیا میں اہل معروف آخرت میں بھی اہل معروف ہوں گے ۔‘‘[50] اس کے بعد فرمایا ہے کہ ((هذا حدیث مشهور))’’یہ حدیث مشہور ہے ۔‘‘[51]غالباً اس کی شہرت کی وجہ سے ہی امام خطابی ؒ نے اس کی سند بھی ذکر نہیں فرمائی ، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت سند آپ کو مستحضر نہ ہو ۔ (واللہ اعلم)

محفوظ:

  • یہ اصطلاح بھی امام خطابی ؒ نے چند مقامات پر ذکر فرمائی ہے ، جیسا کہ ایک مقام پر آپ نے نقل فرمایا کہ ((والمحفوظ من هذا الحدیث الخشفة ))’’اس حدیث میں سے محفوظ لفظ الخشفة ہے ‘‘[52]

مرفوع:

  • اکثر مقامات پر آپ نے یہ اصطلاح ذکر فرمائی ہے اور نبی کریمﷺکےفرامین کو الحدیث المرفوع کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔[53]علاوہ ازیں اس کے لئے آپ دیگر الفاظ بھی استعمال فرماتے ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں: ((یرفعه))’’وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہیں ۔‘‘[54](( رفعه لنا ))’’انہوں نے اسے ہمارے لئے مرفوع بیان کیا ہے ۔‘‘ [55](( روی مرفوعا ))’’انہوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے ۔‘‘[56]

لغوی آراء وترجیحات:

چونکہ یہ کتاب لغوی تشریحات ہی پر مشتمل ہے اس لئے اس میں آپ کی لغوی آراء و ترجیحات کا بیان بہت زیادہ ہے ،ان میں سے چند ایک کا بیان بطور ِمثال حسب ذیل ہے :* ایک مقام پر آپ نے حضرت عائشہ ؓکی یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ’’یہود کے ایک گروہ نے نبی کریم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور کہا : اے ابو القاسم ’’السام علیکم ‘‘یعنی تم پر موت ہو ۔ یہ سن کر عائشہؓ نے کہا : اور تم پر بھی سام (یعنی موت ) اور لعنت ہو ۔‘‘[57]اس کے بعد آپ نے نقل فرمایا ہے کہ لفظ ’’السام‘‘ کی تفسیر میں ابو عبید ؒ نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ اس سے مراد موت ہے۔[58]پھر آگے چل کر آپ نے اسی روایت کو دوسری سند سے ذکر فرمایا ہے جس میں ’’وعلیکم ‘‘ کی بجائے صرف ’’علیکم‘‘ (وائو کے بغیر) لفظ ہیں ، اس کے متعلق آپ نے اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ یہ لفظ (یعنی علیکم) اُس روایت سے بہتر ہے جس میں ’’وعلیکم‘‘ کے لفظ ہے ، کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہی میں تم پر لوٹاتا ہوں ، لیکن اگر آپ وائو بھی لگائیں گے تو پھر اس کا معنی یہ ہو گا کہ (جوکچھ تم نے کہا ہے) وہ مجھ پر بھی ہو اور تم پر بھی کیونکہ وائو حرف ِجمع وتشریک ہے۔[59]

  • ایک دوسرے مقام پر آپ نے یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’غرباء کے لئے خوشخبری ہے ، دریافت کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! یہ غرباء کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : قبائل میں سے اجنبی وپردیسی لوگ ۔‘‘[60] اس کے بعد آپ نے فرمایا ہے کہ لفظ نزاع جمع ہے نزیع کی ، اور اس سے مراد وہ اجنبی وپردیسی شخص ہے جو اپنے اہل وعیال سے الگ ہوچکا ہو ۔[61] پھر آگے چل کر آپ نے فرمایا : اور ’’واللہ اعلم ‘‘ہماری رائے کے مطابق آپ ﷺ نے اس سے مراد وہ مہاجرین لئے ہیں جو اپنے علاقوں سے اللہ کے لئے ہجرت کر چکے ہیں ۔‘‘[62]
  • ایک جگہ آپ نے حدیث میں موجود نبی کریم ﷺ کی دعا کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں’’(اے اللہ !) ہمیں ہمارے کانوں اور ہماری آنکھوں سے فائدہ پہنچا اور ہمیں اس فائدے کا وارث بنادے۔‘‘ [63]اس کی تشریح میں آپ نے دو قول نقل فرمائے ہیں ؛ ایک یہ کہ کانوں اور آنکھوں میں وراثت سے مراد یہ ہے کہ ان کی صحت بڑھاپے میں بھی باقی رہے ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ آپ ﷺ نے اپنے بعد میں آنے والوں یعنی اولاد وغیرہ کے لئے دعا فرمائی ہے ۔ یہ اقوال نقل کرنے کے بعد آپ نے پہلے قول کو ترجیح دیتے ہوئے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں (( والاول اصح ))’’اور پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے ۔‘‘[64]

فقہی آراء :

اگرچہ کتاب کا موضوع غریب كلمات كی تشریح ہے لیکن متعدد مقامات پر امام خطابی ؒ نے احادیث سے ماخوذ احکام ومسائل اور فقہی فوائد بھی بیان فرمائے ہیں ، ایسا ہر حدیث کی توضیح میں تو نہیں ہے لیکن اکثر مقامات پر ایسا دیکھنے کو ضرور ملتا ہے ۔ چنانچہ متعدد مقامات پر آپ نے اپنی فقہی آراء بھی ذکر فرمائی ہیں جو تشنگانِ علم کے لئے کسی گوہر نایاب سے کم نہیں ۔ ایسی چند آراء حسب ذیل ہیں:

  1. تین مساجد (مسجد حرام ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ ) کو رخت ِسفر باندھنے کے لئے مخصوص کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے امام خطابی ؒ نے نقل فرمایا ہے کہ ((ونری ۔ والله أعلم ۔ أنه خص هذه المساجد بذلک لأنها مساجد الأنبیاء وقد أمرنا بالإقتداء بهم، قال الله تعالی: ’’فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ‘‘[65]))’’ہماری رائے میں ۔واللہ اعلم۔ آپ ﷺ نے ان مساجد کو رخت ِسفر باندھنے کے لئے اس لئے خاص کیا ہے کیونکہ یہ انبیاء کی مساجد ہیں اور ہمیں ان کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ ان (انبیاء ) کے راستے کی پیروی کرو۔‘‘[66]
  2. آپ نے ایک مقام پر اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ’’نشہ کرنے والے کی حد حدود میں سب سے ہلکی ہے اور بیشک اسے اُس طرح سخت ضرب نہیں لگائی جاتی جیسے دیگر تمام حدود میں ضرب لگائی جاتی ہے۔‘‘[67]
  3. قبیلہ غفار کے لئے جو نبی ﷺ نے خاص دعا فرمائی ہے کہ ((غفار غفر الله لها)) ’’ اللہ غفار قبیلے کو بخش دے ۔‘‘ [68]اس کے متعلق آپ نے نقل فرمایا ہے کہ’’ہماری رائے میں ’واللہ اعلم‘ آپ ﷺ نے ان کو دعائے مغفرت کے لئے اس لئے خاص فرمایا ہے کہ انہوں نے قبولِ اسلام میں جلدی کی تھی۔‘‘[69]

استنباطات :

بعض مقامات پر امام خطابی ؒ نے احادیث کے مشکل الفاظ کی تشریح نقل کرنے کے بعد ان احادیث سے مستنبط ہونے والے مسائل واحکام بھی ذکر فرمائے ہیں ، آپ کے ایسے چند استنباطات درج ذیل ہیں:

  1. ایک مقام پر آپ نے فاطمہ بنت قیس ؓ کی روایت ذکر فرمائی ہے ، جس میں مذکور ہے کہ جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تو نبی کریم ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اُم شریک کے گھر میں عدت پوری کرے ‘ لیکن آپ نے واضح کیا کہ وہ ایسی خاتون ہے جس کے پاس میرے صحابہ کا آنا جانا ہے۔ تجھے ابن اُم مکتوم ؓکے پاس عدت گزارنی چاہیے۔ وہ نابینا انسان ہے تُو وہاں کپڑے (حجاب)بھی اتار سکتی ہے۔ پھر اسے ابوجہم اور معاویہ ؓنے نکاح کا پیغام بھیجا تو نبی ﷺ نے ابوجہم کے متعلق بتایا کہ وہ مارتا بہت ہے اور معاویہ کے متعلق کہا کہ وہ فقیر ہے ۔ چنانچہ پھر اس نے اس کے بعد اسامہ بن زید سے شادی کر لی۔[70]

اس کے بعد آپ نے نقل فرمایا ہے کہ اس حدیث میں مختلف فقہی مسائل موجود ہیں، جیسا کہ: 1۔ عورتوں کی تادیب کا جواز۔

2۔ کفائت میں مال بھی معتبر ہے ۔

3۔ اگر کسی کے پاس بیوی کے اخراجات کے لئے مال نہ ہو تو دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی ۔

4۔ انسان کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے مقصود اس کی مذمت کا بیان نہ ہو اور یہ غیبت نہیں۔5۔ قریشی خاتون سے ایک آزاد کردہ غلام کا نکاح درست ہے ۔[71]

  1. ایک حدیث میں ہے کہ اسامہ بن زیدؓنے دورانِ حج رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ کل کہاں قیام فرمائیں گے تو آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا’’کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی گھر چھوڑا ہے (یعنی اس نے تو تمام گھر ہی بیچ ڈالے ہیں)۔‘‘ [72]اس کی تشریح کے دوران امام خطابی ؒ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث سے یہ فقہی مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مکہ کے گھروں کی خریدوفروخت جائز ہے ۔[73]
  2. ایک مقام پر امام خطابی ؒ نے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت ابن عمرؓسجدے کی حالت میں اپنے ہاتھ (چادر وغیرہ سے) باہر نکالا کرتے تھے ۔[74] اس کے بعد آپ نے نقل فرمایا ہے کہ’’اس حدیث میں یہ فقہی مسئلہ موجود ہے کہ نمازی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ ڈھانپ کر رکھے اور پھر ان کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے جیسا کہ پیشانی پر سجدہ کی حالت میں چہرے کو ڈھانپنا جائز نہیں ۔‘‘[75]

حکمت ِتشریع:

غریب الحدیث میں متعدد مقامات پر امام خطابی ؒ نے احکام کی علتوں اور حکمتوں کے بیان کا بھی اہتمام فرمایا ہے ۔ اس کی چند امثلہ آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمائیے ۔

  1. کالے کتے کو جو نبی ﷺنے قتل کرنے کا حکم دیا ہے اس کی علت وحکمت بیان کرتے ہوئے آپ نے نقل فرمایا ہے کہ’’کیونکہ ان کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ کتوں میں سب سے بدترین کالے کتے ہیں۔‘‘[76]
  2. رات کے وقت مویشی چرانے کی ممانعت کی حکمت آپ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ’’رات کے وقت نباتات پر ایک بیماری نمودار ہو جاتی ہے جو طلوعِ آفتاب تک باقی رہتی ہے ، اگر اس سے پہلے کوئی جانور اس سے کچھ کھا لے تو ہلاک ہو جاتا ہے ، (یہی وجہ ہے کہ ) بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اونٹ بھاگ جاتا ہے اور طلوعِ آفتاب سے پہلے اس سے کھا لیتا ہے اور مر جاتا ہے ۔‘‘[77]
  3. اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت اور بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت کی علت بیان کرتے ہوئے آپ نے نقل فرمایا ہے کہ’’اونٹ بعض اوقات بہت جلد جوش میں آ جاتے ہیں ، اس لئے ان کے باڑوں میں نماز پڑھنے والے کے متعلق اندیشہ ہے کہ ان کے قرب کی وجہ سے خوف سے اس کی نماز فاسد ہو جائے ، جبکہ بھیڑ بکریوں کے باڑوں میں اس چیز کا خوف نہیں اسی لئے ان میں نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ۔[78]

رفعِ تعارض:

غریب الحدیث میں امام خطابی ؒ نے بعض مقامات پر بظاہر متعارض روایات کا تعارض رفع کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓنے فرمایا کہ’’اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص میں ہوں۔‘‘[79] جبکہ بعض کتب ِحدیث میں یہ بات حضرت علی ؓسے بھی منقول ہے ۔[80] اسی طرح بعض اہل علم نے ابوبکرؓکے متعلق نقل فرمایا ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے اسلام قبول کیا ۔[81]

درج بالا ابن مسعودؓکی روایت نقل کرنے کے بعد امام خطابی ؒ نے فرمایا ہے کہ’’اس فرمان سے عبد اللہ بن مسعودؓکا مقصود یہ نہیں کہ انہوں نے تمام لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے ، کیونکہ لوگ تو ان پر سبقت لے جا چکے تھے ،چنانچہ صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت ہے جو ان سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی ۔ یقینا ابن مسعودؓکی مراد یہاں یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے اور یہ اسی طرح مجازی طور پر کہا گیا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ اور میں پہلا مومن ہوں‘‘ [82]یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصود ’واللہ اعلم‘ یہ ہے کہ اپنے زمانے کے مومنین میں سے پہلا مومن ۔ اور ابن مسعودؓیقینا پہلے پہل اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے ۔‘‘ [83]

اس کے بعد آگے چل کر امام خطابی ؒ نے سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص کے متعلق مختلف اقوال و روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ’’ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ابوبکرؓتھے ، نوجوانوں میں علی ؓاور عورتوں میں خدیجہ ؓسب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون تھیں۔‘‘ [84]

امتیازی خصائص:

امام خطابی ؒ کی غریب الحدیث متعدد امتیازی خصائص رکھتی ہے ، ان میں سے چند ایک کابیان درج ذیل ہے :* غریب الحدیث کے فن میں امام خطابی ؒ کی کتاب بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر اس کے ساتھ اس سے متقدم دو کتابوں ’غریب الحدیث لابی عبید اور غریب الحدیث لابن قتیبہ ‘کو بھی ملا لیا جائے تو پھر وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان تینوں کتب نے اپنے موضوع سے متعلقہ اکثروبیشتر مواد کا احاطہ کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد كے ادوار میں غریب الحدیث كے فن میں تالیف کرنے والے تقریباً تمام مؤلفین نے انہی کتب کو بنیاد بنایا ہے ۔

  • اس کتاب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں امام خطابی ؒ نے دورانِ تشریح بہت سی اشیاء کو یکجا کر دیا ہے (جو کہ آپ کی علمی وسعت کا بھی ثبوت ہے ) چنانچہ غریب کلمات کی تشریح کرتے ہوئے جہاں آپ الفاظ کے معانی کی توضیح کرتے ہیں وہاں بطور ِاستدلال قرآنی آیات ، احادیث اور اشعار وغیرہ بھی نقل کرتے ہیں ، مزید برآں احادیث وآثار سے متعلقہ فقہی مباحث ، احکام ومسائل ، استنباطات ، رفعِ تعارض اور اصولی قواعد وغیرہ بھی بیان کرتے ہیں ۔
  • یہ کتاب امام خطابی ؒ کے شیوخ کی معرفت کے حوالے سے بھی اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ آپ نے اس میں اپنے بہت سے شیوخ کے اسماء واضح طور پر اور مکمل ذکر فرمائے ہیں ، خواہ پوری کتاب میں کسی شیخ کا نام ایک مرتبہ بیان کیا ہو ۔
  • ائمہ لغت اور فصحائے عرب کے اقوال کے لئے بھی یہ کتاب اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔
  • اس کتاب کو اشعار کے لئے اگر اہم مرجع کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس میں تقریباً ہر لفظ کی تشریح میں امام خطابی ؒ نے بہت سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔
  • یہ کتاب صحابہ کرام ، تابعین عظام اور تبع تابعین کی روایات وآثار کی بھی ایک بہت بڑی تعداد پر مشتمل ہے لہٰذا اسے ان آثار وروایات کے لئے بھی مصدرومرجع کی حیثیت حاصل ہے ۔
  • اس کتاب کا ایک اہم خاصہ یہ بھی ہے کہ اس میں مؤلف ؒ نے بہت سے مقامات پر دیگر علماء کے اوہام کی بھی اصلاح فرمائی ہے ۔
  • بہت سے عقیدہ کے مسائل جیسے ایمان، توکل، استغاثہ، ولاء وبراء، بعث بعد الموت، غیر اللہ کے لئے ذبح، توحید اسماء وصفات اور عرش وغیرہ سے متعلقہ اُمور کا بیان بھی اس کتاب کا حصہ ہے ۔

مصادر :

غریب الحدیث میں امام خطابی ؒ نے جن مصادرومراجع سے استفادہ فرمایا ہے انہیں درج ذیل انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

(۱)روایت (۲)سماع (۳)نقل (۴)سوال

ان چاروں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

روایت:

  1. یعنی اس کتاب کی تالیف کا ایک اہم مصدر ومرجع روایت ہے ، بالفاظ دیگر اس میں آپ نے معروف کتب ِحدیث کی روایات ، اسی طرح صحابہ وتابعین اور ائمہ وعلماء کے وہ اقوال نقل فرمائے ہیں جن کی سند آپ کے شیوخ سے لے کر ان علماء تک متصل ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے امام مالک ؒ کی کتاب مؤطا سے بہت سی روایات اپنی سند سے نقل فرمائی ہیں جیسا کہ ایک روایت کی سند یوں ہے ((رواه الخطابی عن ابن الاعرابی، نا محمد بن اسماعیل الصائغ ، نا سلیمان بن داود الهاشمی، نا عبد الوهاب الثقفی سمعت یحیی بن سعید الانصاری نا مالک بن انس ان ابن شهاب اخبره ان الحسن وعبد الله اخبراه ... ))[85] ۔اسی طرح سنن ابو داود کی بعض روایات بھی آپ نے اپنی سند سے ذکر فرمائی ہیں ۔[86]علاوہ ازیں صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ کے جواقوال آپ نے اپنی سند سے بیان کئے ہیں اُن سے تو کتاب کا اکثر حصہ بھرا ہوا ہے ۔

سماع:

  1. اس کتاب کا دوسرا بڑا مصدر سماع ہے یعنی جو آپ نے اپنے شیوخ اور فصحائے عرب سے سنا اور اُن سے کلمات کی تشریح وتوضیح سن کر اپنی اس کتاب میں نقل فرما دی ۔ اس کی بھی متعدد امثلہ پیش کی جا سکتی ہیں جیسا کہ ایک مقام پر حضرموت کی بعض بستیوں کے اسماء کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے نقل فرمایا ہے کہ’’کعیدنہ بن مرفد نے اس بارے میں مجھ سے یہ کہا۔‘‘[87] اسی طرح ایک دوسرے مقام پر آپ نے کلمہ ’’ یغث‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے ایک دیہاتی کا قول نقل فرمایا ہے جو آپ نے اسے اپنے چھوٹے بچے کو کہتے ہوئے سنا ، چونکہ وہ اس کلمے کی تشریح پر مشتمل تھا اس لئے آپ نے اسے اس کتاب میں نقل فرما دیا۔[88]بعض کلمات کی تشریح کرتے ہوئے آپ کسی ایک خاص فرد کا نام ذکر کرنے کی بجائے یہ بھی نقل فرماتے ہیں کہ’’میں نے ایک قوم کو (اس کی یہ تشریح کرتے ہوئے ) سنا ہے ۔‘‘ [89]

نقل:

  1. یعنی کتاب کا تیسرا بڑا مصدر وہ کتب ہیں جو آپ سے پہلے کی تصانیف ہیں ، آپ نے ان سے استفادہ کر کے علمی فوائد اپنی اس کتاب میں نقل کئے اور ان کتب کا حوالہ بھی دیا ۔ ان کتب میں سے دو کتب امام خطابی ؒ کے نزدیک سب سے اہم تھیں ؛ ایک ’’غریب الحدیث لابی عبید‘‘ اور دوسری ’’غریب الحدیث لابن قتیبہ‘‘۔ان دونوں کے علاوہ جن علماء کی کتب سے آپ نے نقل فرمایا ہے اور ان کا حوالہ دیا ہے ان میں سے چند ایک کے اسماء یہ ہیں ؛ کتاب النضر بن شمیل[90]، کتاب الاصمعی[91]، کتاب ابو عبیدہ معمر بن مثنیٰ[92]،کتاب ابراہیم بن اسحق الحربی [93]اور کتاب شمر بن حمدویہ [94]وغیرہ ۔

سوال:

  1. یعنی جو کچھ آپ نے اپنے زمانے کے علماء سے بالمشافہہ یا بذریعہ خط وکتابت دریافت کیا اور پھر اسے کتاب میں نقل کر دیا ، یوں کتاب کا چوتھا مصدر اُن سوالات کو شمار کیا جا سکتا ہے جو آپ نے اہل علم سے دریافت کئے اور پھر ان کے جوابات بطور علمی فوائد کے اپنی اس کتاب میں نقل فرما دیئے ۔ اس کی امثلہ میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے ابو منصور ازہری ؒ کو خط ارسال کیا تھا اور اس میں ان سے کلمہ ((البرهرهة )) کا معنی دریافت کیا تھا اور پھر ازہری ؒ نے آپ کو اس کا جواب بھی بھیجا تھا ۔ آپ نے وہ ساری تفصیل اس کتاب میں نقل فرما دی ہے ۔[95]

اثرات:

امام خطابی ؒ کی غریب الحدیث اپنے اس موضوع کی ابتدائی کتب میں شمار ہوتی ہے اور اس فن میں بنیادی مصدر کی حیثیت رکھتی ہے ، اس لئے علماء کے ہاں اس کی اہمیت مسلم ہے ، یہی وجہ ہے کہ بعد میں اس موضوع پر لکھنے والے تقریباً تمام علماء نے اس سے استفادہ کیا ہے ، علاوہ ازیں جنہوں نے دیگر علومِ حدیث کی کتب میں اس سے استفادہ کیا ہے اور اس کی تعریف وتوصیف بیان فرمائی ہے ان کی فہرست بھی طویل ہے ۔

چنانچہ ابو منصور ثعالبی ؒنے نقل فرمایا ہے کہ’’ابو سلیمان خطابی نے کئی کتب تالیف کی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور ومعروف کتاب ’’غریب الحدیث ‘‘ہے اور یہ حسن وبلاغت کی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے ۔‘‘[96]یاقوت حموی ؒ نے بھی اس کتاب کی تعریف میں یہی الفاظ نقل فرمائے ہیں ۔[97] امام ابن اثیر ؒ نے اس کتاب کی کافی تعریف فرمائی ہے اور اسے اپنے موضوع میں بہت عمدہ قرار دیا ہے ۔[98]

علاوہ ازیں امام خطابی ؒ کے بعد جن علماء نے غریب الحدیث اور علم لغت میں کتب تالیف کیں اور آپ کی کتاب ’’غریب الحدیث‘‘ سے بھرپور استفادہ کیا ان میں سے چند اہم کے اسماء ان کی کتابوں کے ناموں سمیت یہ ہیں:

  1. لسان العرب از ابو الفضل جمال الدین ابن منظور الافریقی ؒ ۔
  2. الفائق فی غریب الحدیث ازابو القاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمخشری ؒ۔
  3. مشارق الانوار ازامام قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبیؒ ۔
  4. غریب الحدیث از امام ابو الفرج ابن جوزی ؒ ۔
  5. النہایہ فی غریب الحدیث والاثر از امام مجد الدین ابو السعادات ابن اثیر ؒ۔
  6. تہذیب الاسماء واللغات از ابوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نووی ؒ۔

اور جن علماء نے علم لغت کے علاوہ دیگر شروحات ِحدیث اور علومِ حدیث کی کتب میں امام خطابی ؒ کی غریب الحدیث سے استفادہ کیا اور اقتباسات نقل کئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ، البتہ چند ایک کے اسماء ان کی کتب کے ناموں سمیت یہ ہیں؛

  1. جامع الاصول از امام مجد الدین ابو السعادات ابن اثیر ؒ ۔
  2. شرح السنۃ از ابو محمد حسین بن مسعود بغوی ؒ ۔
  3. جامع العلوم والحکم از امام زین الدین عبد الرحمن بن حمد بن رجب حنبلی ؒ۔
  4. تلخیص الحبیر از حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ ۔
  5. تدریب الراوی از جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی ؒ۔
  6. المقاصد الحسنہ از شمس الدین ابو الخیر سخاوی ؒ۔
  7. کشف الخفاء ‘‘ از اسماعیل بن محمد العجلونی ؒ۔
  8. ارواء الغلیل شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ ۔

خلاصہ کلام:

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ امام خطابی ؒ کی غریب الحدیث اپنے موضوع کی نہایت اہم اور بنیادی کتاب ہے ۔ اس میں موصوف نے صرف مشکل الفاظ کی تشریح ہی نہیں فرمائی بلکہ بطور ِاستشہاد آیات ، احادیث اور اشعار وغیرہ بھی نقل فرمائے ہیں ۔ پھر آیات واحادیث اور آثار ِصحابہ وتابعین میں موجود فقہی احکام ومسائل اور استنباطات بھی ذکر فرمائے ہیں ۔ نیز متعدد مقامات پر اصطلاحات ِحدیث ، اصولی قواعد ، رفعِ تعارض اور حکمت ِتشریع کا بیان بھی اس کتاب کا حصہ ہے ۔ علاوہ ازیں یہ کتاب امام خطابی ؒ کے شیوخ کی معرفت کے سلسلے میں بھی اہم مرجع کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ موصوف نے اس میں بطور ِخاص احادیث وآثار اور ائمہ کے اقوال اپنی سند سے ذکر کرنے کا اہتمام فرمایا ہے ۔ پیش نظر کتاب کی انہی خوبیوں کے باعث بعد میں آنے والے نہ صرف ائمہ لغت نے اس سے استفادہ کیا بلکہ جلیل القدر محدثین ، فقہاء، شارحین اور محققین نے بھی اپنی اپنی کتب میں اس سے اقتباسات نقل فرمائے ہیں ۔ بلاشبہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سابقہ ادوار کے علماومحدثین کی كتب كی طرح یہ کتاب بھی آج کے اہل علم کی اہم ضرورت ہے ۔

 

حوالہ جات:

  1. ۔الخطابی، حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی، معالم السنن، دار ابن حزم بیروت، ۱۹۹۷ء (۱/۱۹۵، ۲۵۸)، (۲/۳۳۸)، (۴/۱۳۱) ۔ الخطابی، حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی، اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری، تحقیق ودراسۃ : الدکتور محمد بن سعد بن عبد الرحمن آل سعود، جامعہ ام القری مکۃ المکرمۃ،۱۹۸۸ء (۲/۱۲۵۶) ۔
  2. ۔ الثعالبی، ابو منصور عبد الملک، یتیمۃ الدھر فی محاسن اہل الاثر، تحقیق : محمد مفید قمیحۃ، دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۰۳ء (۴/۳۸۳) ۔
  3. ۔ابن الجوزی، ابو الفرج عبد الرحمن، المنتظم فی تاریخ الامم والملوک، تحقیق : محمد عبد القادر عطا، مصطفی عبد القادر عطا ، دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۱۹۹۲ھ (۶/۳۱۷) ۔
  4. ۔ابن الاثیر، مجد الدین ابو السعادات المبارک بن محمد الجزری، النهاية فی غریب الحدیث، المکتبة العلمية بیروت، ۱۹۷۹ء (۱/۷) ۔
  5. ۔النووی، محیی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف، تهذيب الأسماء واللغات، دار الکتب العلمية بیروت، ۱۴۱۲ھ (۱/۷) ۔
  6. ۔الذھبی، حافظ شمس الدین، سیر اعلام النبلاء، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ۱۴۰۵ھ (۱۷/۲۵) ۔
  7. ۔ابن کثیر، ابو الفداء حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیر، البداية والنهاية، تحقیق : علی شیری، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۸ھ (۱۱/۲۶۹) ۔
  8. ۔ابن حجر العسقلانی، ابو الفضل شہاب الدین احمد، فتح الباری شرح صحیح البخاری، دار المعرفۃ، بیروت، ۱۳۷۹ھ (۶/۲۱۵) ۔
  9. ۔ا لخطابی، حمد بن محمد بن ابراہیم بن الخطاب البستی، غریب الحدیث، تحقیق : عبد الکریم ابراہیم العزباوی، جامعہ ام القری مکۃ المکرمۃ، ۱۹۸۲ء (۱/۷۰) ۔
  10. ۔ غریب الحدیث (۱/۴۹) ۔
  11. ۔ ایضا(۱/۵۱،۵۲) ۔
  12. ۔ الذھبی، حافظ شمس الدین، تذکرۃ الحفاظ، دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۱۴۱۹ھ (۳/۱۴۹) ۔
  13. ۔ غریب الحدیث (۱/۴۸) ۔
  14. ۔ ایضا(۱/۴۷۔۴۸) ۔
  15. ۔ ایضا (۱/۴۹) ۔
  16. ۔ غریب الحدیث (۱/۴۸) ۔
  17. ۔ ایضا(۱/۲۲۳) ۔
  18. ۔ سورۃ المطففین (آیت : ۹) ۔
  19. ۔غریب الحدیث (۱/۲۸۹) ۔
  20. ۔النھایۃ فی غریب الحدیث (۴/۲۳۱) ۔
  21. ۔ غریب الحدیث (۳/۶۳۲) ۔
  22. ۔ایضا (۱/۴۰۲) ۔
  23. ۔ ایضا (۲/۵۲۰) ۔
  24. ۔ایضا (۲/۱۲) ۔
  25. ۔ایضا (۱/۱۸۶۔۱۸۷)
  26. ۔ایضا (۱/۹۱) ۔
  27. ۔ ایضا (۱/۳۵۳، ۵۹۲، ۵۹۳) ۔
  28. ۔ایضا (۱/۹۵، ۱۰۵، ۱۰۶، ۲۸۰) ۔
  29. ۔ ایضا (۱/۴۹۷، ۷۲۱) ۔
  30. ۔ایضا (۱/۱۶۲) ۔
  31. ۔ ایضا (۱/۷۳۲) ۔
  32. ۔ ایضا (۲/۹۹) ۔
  33. ۔ ایضا (۲/۲۱۳) ۔
  34. ۔ایضا (۱/۵۴۱) ۔
  35. ۔ ایضا (۱/۶۷۵) ۔
  36. ۔ ایضا (۱/۳۰۸) ۔
  37. ۔ ایضا (۱/۳۲۵) ۔
  38. ۔ ایضا (۱/۴۹۶) ۔
  39. ۔ ایضا (۱/۳۲۷) ۔
  40. ۔ایضا (۱/۲۹۵) ۔
  41. ۔ ایضا (۱/۸۵، ۱۶۳) ۔
  42. ۔ ایضا (۱/۲۹۳) ۔
  43. ۔ایضا (۱/۴۸۵) ۔
  44. ۔ ایضا (۱/۸۵، ۱۴۳) ۔
  45. ۔ ایضا (۱/۱۵۵) ۔
  46. ۔ایضا (۱/۵۰۵) ۔
  47. ۔ ایضا (۱/۲۱۴) ۔
  48. ۔ ایضا (۱/۵۹۴) ۔
  49. ۔غریب الحدیث (۳/۷۴) ۔
  50. ۔ البخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل، الادب المفرد، دار البشائر الاسلامیۃ بیروت، ۱۴۰۹ھ (رقم الحدیث : ۲۲۱) ۔
  51. ۔ غریب الحدیث (۱/۱۵۵) ۔
  52. ۔ ایضا (۱/۵۸۲) ۔
  53. ۔ ایضا (۳/۱۲۷) ۔
  54. ۔ ایضا (۱/۳۴۰) ۔
  55. ۔ ایضا (۱/۶۴۹) ۔
  56. ۔ ایضا (۲/۴۹۳) ۔
  57. ۔ البخاری، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، مطبوعه دار السلام ریاض، ۱۴۱۹ھ، کتاب الادب، باب لم یکن النبی ﷺ فاحشا ولا متفحشا (رقم الحدیث : ۶۰۳۰) ۔
  58. ۔ غریب الحدیث (۱/۳۲۰) ۔
  59. ۔ ایضا (۱/۳۲۲) ۔
  60. ۔ الدارمی، ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن، سنن دارمی، تحقیق : حسین سلیم اسد دارانی، دار المغنی سعودیہ، ۱۴۱۲ھ، کتاب الرقاق، باب ان الاسلام بدا غریبا (رقم الحدیث : ۲۷۹۷) ۔
  61. ۔ غریب الحدیث (۱/۱۷۵) ۔
  62. ۔ ایضا (۱/۱۷۶) ۔
  63. ۔ الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی، سنن ترمذی، مطبوعہ دار السلام ریاض، ۱۴۲۰ھ، کتاب الدعوات، باب ۶۷ (رقم الحدیث : ۳۴۸۰) ۔
  64. ۔ غریب الحدیث (۱/۳۴۳) ۔
  65. ۔ سورۃ الانعام (آیت : ۹۰) ۔
  66. ۔ غریب الحدیث (۱/۱۳۳) ۔
  67. ۔ ایضا (۱/۳۶۷) ۔
  68. ۔ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر اسلم وغفار (رقم الحدیث : ۳۵۱۲) ۔
  69. ۔ غریب الحدیث (۱/۱۸۳) ۔
  70. ۔ مسلم بن حجاج، ابو الحسن القشیری النیسابوری، صحیح مسلم، مطبوعہ دار السلام ریاض، ۱۴۱۹ھ، کتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها (رقم الحدیث : ۱۴۸۰) مسند احمد (۶/۴۱۴) ۔
  71. ۔ غریب الحدیث (۱/۹۸، ۹۹) ۔
  72. ۔ابوداود، سلیمان بن اشعث، سنن ابو داود، مطبوعہ دار السلام ریاض، ۱۴۲۰ھ، کتاب المناسک، باب التحصیب (رقم الحدیث : ۲۰۱۰) ۔
  73. ۔ غریب الحدیث (۱/۲۷۷) ۔
  74. ۔ ابن ابی شیبۃ، ابوبکر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم، المصنف فی الاحادیث والآثار، مکتبۃ الرشد ریاض، ۱۴۰۹ھ ، کتاب الصلوات، باب من کان یخرج یدیہ اذا سجد (رقم الحدیث : ۲۷۴۵) ۔
  75. ۔ غریب الحدیث (۲/۳۹۵) ۔
  76. ۔ ایضا (۲/۱۴۱) ۔
  77. ۔ایضا (۱/۶۴۳) ۔
  78. ۔ایضا (۲/۲۸۶) ۔
  79. ۔النهاية فی غریب الحدیث والأثر (۲/۳۹۵) ۔
  80. ۔ ابن الجعد ، علی بن الجعد بن عبید الجوھری البغدادی، مسند ابن الجعد، تحقیق : عامر احمد حیدر، مؤسسۃ نادر بیروت، ۱۴۱۰ھ ، (رقم الحدیث : ۴۹۱) ۔
  81. ۔غریب الحدیث (۲/۲۷۲) ۔
  82. ۔ سورۃ الاعراف (آیت : ۱۴۳) ۔
  83. ۔غریب الحدیث (۲/۲۷۱) ۔
  84. ۔ایضا (۲/۲۷۲) ۔
  85. ۔غریب الحدیث (۱/۲۶۳) ۔
  86. ۔ ایضا (۱/۸۶) ۔
  87. ۔ایضا (۱/۱۴۹) ۔
  88. ۔ ایضا (۱/۹۱) ۔
  89. ۔ایضا (۲/۱۷۶) ۔
  90. ۔ایضا (۱/۴۴۸) ۔
  91. ۔ایضا (۱/۷۲) ۔
  92. ۔ایضا (۱/۷۲۷) ۔
  93. ۔ایضا (۱/۴۹۹) ۔
  94. ۔ ایضا (۲/۱۰۵) ۔
  95. ا۔یضا (۱/۶۷۵، ۶۷۶) ۔
  96. ۔ یتیمۃ الدھر (۴/۳۸۳) ۔
  97. ۔ یاقوت حموی، شھاب الدین ابو عبد اللہ، معجم الادباء، دار الغرب الاسلامی بیروت، ۱۴۱۴ھ (۳/۱۲۰۶)۔
  98. ۔ النهاية فی غریب الحدیث (۱/۸) ۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...