Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

بائبل اور اسلام کی روشنی میں عورت کا مقام اور کردار |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_597

Pages

139-159

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/97/90

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/97

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بہترین معاشرے کا تصور مرد اور عورت دونوں کے کردار،مقام اورذمہ داریوں کے تعین کے بغیر ممکن نہیں۔ان میں سے کسی ایک کو نظر انداز کر کے یہ خیال کرنا کہ متوازن معاشرہ قائم ہو سکے گا،خام خىالى سے زیادہ کچھ نہیں۔بلا شبہ ان دونوں کی یکساں اہمیت کے پیش نظر رب کائنات نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور اور ہر معاشرے میں جہاں مرد کا تذکرہ ہے تو وہاں عورت کے وجود سے بھی انکار نہیں۔الہامی مذاہب میں عورت کا کردار غیر الہامی مذاہب کے مقابلے میں مضبوط ملتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب یہ مذاہب انسانی دست درازی کا شکار ہو گئے تو ان میں عورت کابھی وہ مقام نہ رہا۔بائبل جو آج مغرب کے پاس علم و تقدس کی سب سے بڑی علامت ہے،اس میں عورت کا مقام مجرمانہ اورپر عیب طور پر بیان کیا گیا ہے۔شجر ممنوعہ کا پھل کھانے اور مرد کو کھلانے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے گناہ اور برائی کا جو تصور اس سے جڑ گیا،اس نے آئندہ کے لیے بھی اس کو کسی باعزت مقام کے لائق نہیں چھوڑا۔یہی وجہ ہے کہ عہد نامہ قدیم و جدید دونوں میں اسے گناہ کا سرچشمہ،مذہبی طور پر بے بس اور ہمیشہ کے لیے بمثل غلام ،مردوں کے تابع کیا گیا ہے۔بائبل کاعورت کے بارے میں اتنے منفی تصور کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کا اثر بڑھنے نہ پائے یا اس وجہ سے بھی کہ بائبل چونکہ سینکڑوں لوگوں کے ہاتھ کی تصنیف ہے، تو انہوں نے اپنے ذہنی تصورات کو اس میں جگہ دے دی ہو۔اس کی مثال یوں ملتی ہے کہ بائبل کے بقول کہیں پرعورت نبوت کرتی،قضا کا منصب ادا کرتی اور پاکیزہ کردار ادا کرتی نظر آتی ہے جبکہ کہیں پر غوغائی،سرکش،بے حیا اور شیطان کا آلہ بنی دکھائی دیتی ہے۔مختصر یہ کہ عورت کے مقام اور کردار کا حقیقی تعین بائبل کی روشنی میں ممکن نہیں۔اس کے برعکس اسلام عورت کے مقام اور کردار کابہت حقیقت پسندانہ اور متوازن تصور پیش کرتا ہے۔اسلام عورت کو گھر کی ملکہ،خاندان کی عزت،اولاد کی اولین درسگاہ،معاشرے کا لازمی جز اور دین میں مرد کے شانہ با شانہ خدمات انجام دینے والی بتاتا ہے۔اسلام نے صرف فکری اور نظری پہلو سے ہی عورت کا مقام و مرتبہ بلند نہیں کیا بلکہ باقاعدہ قانون کے ذریعے سے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی اور مردوں کے ظلم کی روک تھام کا موثر انتظام بھی کیا۔الغرض اسلام میں عورتوں کے درست مقام کا تعین ملتا ہے۔مقالۂ ذیل میں بائبل اور اسلام کی روشنی میں عورت کے مقام اور کردار کا تقابل کیا گیا ہے اور اس مسئلے پر تفصیلی بحث کا آغاز ہم بائبل میں عورت کے کردار سے کرتے ہیں۔

بائبل میں عورت کا مقام و کردار

(۱)گناہ اور عورت

بائبل کے مطابق آدم کے جنت سے نکلنے کی وجہ عورت (حوّا)تھی جو شیطان کے بہکاوے میں آکرگناہ(نا فرمانی) کر بیٹھی اور پھر یہ گناہ اس نے آدم میں منتقل کیا اور ان کو بھی رب کا نافرمان بنا دیا۔لکھا ہے کہ:

’’عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لیے اچھا اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہےاور عقل بخشنے کے لیے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اس نے کھایا۔تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں ۔۔۔تب خدا وند نے آدم کو پکارا اور اس سے کہاں کہ ۔۔۔کیا تو نے اس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم دیا تھا کہ اسےنہ کھانا؟آدم نے کہا کہ جس عورت کو تو نے میرے ساتھ کیا ہے اس نے مجھے اس درخت کا پھل دیا اور میں نے کھایا۔تب خدا وند نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا؟عورت نے کہا کہ سانپ نے مجھ کو بہکایا تو میں نے کھایا‘‘۔(۱)

بائبل کے بقول عورت کو اس عمل کی سزا یوں سنائی گئی:

’’اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا ۔تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا ‘‘۔( ۲)

(۲)عورت اور مکاری

بائبل کےبقول عورت مکاری و عیاری کا آلہ کار ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی مکاری سے دوسروں کو نقصان پہنچایا ہے۔اس کی مکاری کو موت سے زیادہ تلخ قرار دیا گیا ہے اور ہزاروں کے مجمع میں ایک عورت بھی ایسی نہیں جو کامل اور راست باز قرار دی جا سکے۔لکھا ہے کہ:

’’تب میں نے موت سے تلخ تر اس عورت کو پایا جس کا دل پھندا اور جال ہے اور جس کے ہاتھ ہتھکڑیاں ہیں۔جس سے خدا خوش ہے وہ اس سے بچ جائے گا لیکن گناہ گار اس کا شکار ہو گا۔دیکھ واعظ کہتا ہے میں نے ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے یہ دریافت کیا ہے ۔جس کی میرے دل کواب تک تلاش ہے پر ملا نہیں۔میں نے ہزار میں ایک مرد پایا لیکن ان سبھوں میں عورت ایک بھی نہ ملی‘‘۔(۳)

بائبل میں ایسی عورتوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے اپنی مکاری سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو دھوکہ دیا ہے۔

بائبل کے بقول عورت اس قابل نہیں کہ کلیسا میں مذہبی تعلیم حاصل کر سکے بلکہ اس کو حکم ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرے۔لکھا ہے کہ:

’’عورتیں کلیسا کے مجمع میں خاموش رہیں کیونکہ ان کو بولنے کا حکم نہیں بلکہ تابع رہیں جیسا تورات میں بھی لکھا ہے۔اور اگر کچھ سیکھنا چاہیں تو گھر میں اپنے اپنے شوہر سے پوچھیں کیونکہ عورت کا کلیسا کے مجمع میں بولنا شرم کی بات ہے‘‘۔(۴)

عورت کو حکم چلانے یا کسی کو کچھ سکھانے کی بھی اجازت نہیں۔لکھا ہے کہ:

’’پس میں چاہتا ہوں کہ مرد ہر جگہ بغیر غصّہ اور تکرار کےساتھ پاک ہاتھوں کو اُٹھا کر دعا کیا کریں۔اسی طرح عورتیں حیا دار لباس سے شرم اور پر ہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔بلکہ نیک کاموں سے جیسا خدا پرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے۔عورت کو چپ چاپ کمال تا بعداری سے سیکھنا چاہیے اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے۔کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا اس کے بعد حوا۔اور آدم نے

فریب نہیں کھایا بلکہ عورت فریب کھا کر گناہ میں پڑ گئی‘‘۔(۵)

(۴)عورت اور عصمت

بائبل میں عورت کی شخصیت کایہ پہلو شرمناک حد تک بے بس اور کمزور بیان کیا گیا ہے اور مختلف مقامات پر بیسوں ایسے واقعات موجود ہیں جن سے ان کے ہاں عورت کی عصمت کے عدم تحفظ کا پتا چلتا ہے اور جن کے مطابق عورت کی موجودگی کوشہوت پوری کرنے کا ایک ذریعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے ۔ ظلم کی حد تو یہ ہےبائبل میں اکثر مقامات پر مقدس ہستیاں ایسے کاموں میں ملوث بیان کی گئی ہیں۔ان کی عصمت دری میں کبھی باپ،کبھی بھائی،کبھی شوہر ہی ملوث ملتا ہے۔ان واقعات میں سے سب سے پہلا واقعہ لوط اور اس کی بیٹیوں کا ہے۔بائبل کے بقول لوط نے اپنی سگی بیٹیوں سے ہم بستری کی جن سے اس کی اولاد بھی پیدا ہوئی۔لکھا ہے کہ:

’’اور لوط ضغر (۶)سے نکل کر پہاڑ پر جا بسا اور اس کی دونوں بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں ۔۔۔تب پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بڈھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے مطابق ہمارے پاس آئے ۔آؤ ہم اپنے باپ کو مئے پلائیں اور اس سے ہم آغوش ہو ںتاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔سو انہوں نے اسی رات اپنے باپ کو مئے پلائی اور پہلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی ۔۔۔اور دوسرے روز یوں ہوا کہ ۔۔۔انہوں نے اپنے باپ کو مئے پلائی اور چھوٹی گئی껵اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی۔۔۔سو لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں۔اور بڑی کے ایک بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نام موآب رکھا ۔۔۔اور چھوٹی کا بھی کے ایک بیٹا ہوا ‘‘۔(۷)

دوسرا واقعہ ابراہیم اور ان کی بیگم سارہ کا ہےجب وہ مصر میں داخل ہونے والے تھے تو ابراہیم نے سارہ سے کہا کہ وہ سب پوچھنے والوں کو بتائے کہ ابراہیم اس کا شوہر نہیں بلکہ بھائی ہے کیونکہ ان کو پتہ چل گیا تھا کہ فرعون مصر کی عادت ہے کہ کسی بھی حسین عورت کے شوہر کو مار ڈالتا ہے اور اس کی بیوی کو رکھ لیتا ہے۔سارہ نے ایسا ہی کیا تو فرعون کے لوگ سارہ کو فرعون کے پاس لے گئے اور فرعون نے اس کے بدلے میں ابراہیم کو انعام دیا۔یعنی نعوذ باللہ ابراہیم نے بیوی کی عصمت کا سودا کر دیا۔لکھا ہے کہ:’’اور یوں ہوا کہ جب ابرام مصر میں آیا تو مصریوں نے اس عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے۔۔۔اور وہ عورت فرعون کے گھر میں پہنچائی گئی اور اس نے اس کی خاطر ابراہىم پر احسان کیا اور بھیڑ بکریاں اور گائے اور بیل اور گدھے اور غلام اور لونڈیاں اور گدھیاں اور اونٹ اس کے پاس ہو گئے‘‘۔(۸)

اسی طرح سے یوسف کے بڑےبھائی ’یہوداہ ‘ کا اپنی بہو سے زنا کاری،داؤد کے بیٹے ’امنون ‘کا اپنی بہن ’تمر‘ سے جبر،یعقوب کے بیٹے’روبن ‘ کا اپنے باپ کی حرم’بلہا‘ سے مباشرت،داؤدکے بیٹے ’ابی سلوم‘ کا اپنے باپ کی حرموں سے کھلے عام جبر یہ سب ایسے واقعات ہیں جن کو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بائبل میں عورت کی عصمت کا حقیقی معیار سامنے آجاتا ہے۔

(۵) عورت اور طہارت

بائبل میں عورت کو بعض مخصوص حالات میں جہاں ناپاک بتایا گیا ہے وہاں اس کی ناپاکی کی حد یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے کپڑے،بستر،سامان سب ناپاک ہیں اور اگر کوئی اس عورت کو ہاتھ لگائے تو وہ بھی نا پاک ہو جاتا ہے۔لکھا ہے کہ:

’’اور اگر کسی عورت کو ایسا جریان ہو کہ اسے حیض کا خون آئے تو وہ سات دن تک ناپاک رہے گی اور جو کوئی اسے چھوئے وہ شام تک ناپاک رہے گا اور جس چیز پر وہ اپنی ناپاکی کی حالت میں سوئےوہ چیز ناپاک ہو گی اور جس چیز پر بیٹھے وہ بھی ناپاک ہو جائےگی۔اور جو کوئی اس کے بستر کو چھوئے وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور شام تک ناپاک رہےاور جو کوئی اس چیز کو جس پر وہ بیٹھی ہو وہ اپنے کپڑے دھوئے اور پانی سےنہائے اور شام تک ناپاک رہےاور اگر اس کا خون اس کے بستر پر یا جس چیز پر وہ بیٹھی ہو اس پر لگا ہوا ہو اور اس وقت کوئی اس چیز کو چھوئے تو وہ شام تک ناپاک رہے‘‘۔(۹)

بائبل کے بقول اگر کسی عورت کے بیٹا پیدا ہوتو اس کی ناپاکی کم ہے لیکن اگر بیٹی پیدا ہو تو اس کی ناپاکی دوگنی ہے۔لکھا ہے کہ:

’’بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے لڑکا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہےاور آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے۔اس کے بعد تینتیس دن تک وہ طہارت کے خون میں رہے اور جب تک اس کی طہارت کے ایام پورے نہ ہو ں تب تک نہ تو کسی مقدس چیز کو چھوئے اور نہ مقدس میں داخل ہواور اگر کسی کے لڑکی پیدا ہو تو وہ دو ہفتے ناپاک رہے گی جیسےحیض کے ایام میں رہتی ہے۔اس کے بعد وہ چھیاسٹھ دن تک طہارت کے خون میں رہے‘‘۔(۱۰)

(۶)عورت اور آزادئ رائے

بائبل میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں عورت مرد کے حکم کے تابع بن جاتی ہے اور اس کی اپنی مرضی کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔کبھی اس کو اپنی من مانی نذر کی بھینٹ چڑھایا گیا تو کبھی اغیار کو سونپا گیا لیکن اس دوران کسی کو اس کے احساسات کی کوئی پرواہ نہیں۔ان میں سے ایک واقعہ افتاح قاضی کا اپنی بیٹی کو بھینٹ کے طور پر جلانا ہے۔افتاح نے منت مانی کہ اگر خداوند اس کو دشمنوں پر فتح دے تو واپسی پر جو شخص سب سے پہلے اس سے ملے گا اس کو وہ خدا وند کی نذر کے طور پر چڑھائے گا۔اتفاق سے اس کی اکلوتی بیٹی نے اس کا استقبال کیا۔لکھا ہے کہ:

’’اور افتاح ۔۔ اپنے گھر آیا اور اس کی بیٹی طبلے بجاتی اور ناچتی ہوئی اس کے استقبال کو نکل کر آئی اور وہی ایک اس کی اولاد تھی۔۔۔جب اس نے اسے دیکھا تو اپنے کپڑے پھاڑکر کہا ہائے میری بیٹی تو نے مجھے پست کر دیا اور جو مجھے دکھ دیتے ہیں ان میں سے ایک تو ہے کیونکہ میں نے خدا وند کو زبان دی ہے اور میں پلٹ نہیں سکتا‘‘۔(۱۱)

آگے لکھا ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایسا ہی پیش آیا جیسی منت اس نے مانی تھی۔ساؤل(طالوت)کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی خود ہی داؤد سے بیاہ دی اور پھر ذاتی دشمنی کی وجہ سے اسے ایک اور شخص فلطی کو دے دیا۔لکھا ہے کہ:

’’اور ساؤل نے اپنی بیٹی میکل کو جو داؤو کی بیوی تھی لیس کے بیٹے جلیمی فلطی کو دے دیا تھا‘‘۔(۱۲) اسی میکل کو داؤد دوبارہ اپنی بیوی بنا لیتا ہے(۱۳)۔

(۷)عورت اور فحاشی

کتاب مقدس اس با ت کو برملا بیان کرتی ہے کہ عورت گناہ اور فحاشی پھیلاتی ہے اور اسے غوغائی اور خود سر کہا گیا ہے۔لکھا ہے کہ:

’’وہ غوغائی اور خود سرہے۔اس کے پاؤں اپنے گھر میں نہیں ٹکتے۔ابھی وہ کوچوں میں ہے۔ ابھی بازاروں میں اور ہر موڑ پر گھات لگائے بیٹھتی ہے۔سو اس نے اس کو پکڑ کر چوما اور بے حیا منہ سے اس سے کہنے لگی ۔۔۔میں تیری ملاقات کو نکل آئی کہ کسی طرح تیرا دیدار حاصل کروں سو تو مجھے مل گیا۔میں نے اپنے پلنگ پر کامدار غالیچے اور مصر کے سوت کے داری دھار کپڑے بچائے ہیں۔میں نے اپنے بستر کو عود اور دار چینی سے معطر کیا ہے۔آ ؤ صبح تک دل بھر کر عشق بازی کریں اور محبت کی باتوں سے دل بہلائیں‘‘۔(۱۴)

اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے:

’’احمق عورت غوغائی ہے۔وہ نادان ہے اور کچھ نہیں جانتی۔وہ اپنے گھر کے دروازہ پر شہر کی اونچی جگہوں میں بیٹھ جاتی ہے تاکہ آنے جانے والوں کو بلائے جو اپنے راستے پر سیدھے جا رہے ہیں‘‘۔(۱۵)

’’اپنی قوت عورتوں کو نہ دے اور اپنی راہیں بادشاہوں کو بگاڑنے والیوں کی طرف نہ نکال‘‘۔(۱۶)

(۸)عورت اور فسخ نکاح و حلالہ کا حق

بائبل میں کتاب استثنأ کے مطابق عورتوں کو فسخ نکاح کے حق سے محروم رکھا گیا ہے البتہ مرد عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔لکھا ہے کہ:

’’اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور پیچھے اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کر دےاور اسے اپنے گھر سے نکال دے‘‘۔(۱۷)

لیکن آگے لکھا ہے کہ یہ عورت اپنے پہلے شوہر سے بطور حلالہ دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی:

’’پر اگر دوسرا شوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کر دےاور اسے اپنے گھر سے نکال دےیا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہو جانے کے بعد پھر اس سے بیاہ نہ کرنے پائے‘‘۔(۱۸)

عہد نامہ جدید میں تو یہ تک لکھا ہے کہ اگر کوئی عورت طلاق لے کر دوسرے شخص سے نکاح کرتی ہے تو دراصل وہ زنا کر تی ہے۔لکھا ہے کہ:

’’اس نے ان سے کہا جو کوئی اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ اس پہلی کے برخلاف زنا کرتا ہے۔اور اگر عورت اپنے شوہر کو چھوڑ دے اور دوسرے سے بیاہ کرے تو زنا کرتی ہے‘‘۔(۱۹)

(۹)بیوہ اور نکاح

بائبل کے بقول کسی ایسی بنی اسرائیلی بیوہ کے لیے جس کی اولاد نہیں ، جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے مرنے کے بعدکسی اجبنی سے بیاہ کرے بلکہ وہ ضرور ہی اپنے مرحوم شوہر کے خاندان میں بیاہی جائے اور اس سے جو اولاد پیدا ہو وہ بھی اس کے مرحوم شوہر سے منسوب کی جائے چاہے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔لکھا ہے کہ:

’’اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہو اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے تو اس مرحوم کی بیوی کسی اجنبی سے نکاح نہ کرے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اسے اپنی بیوی بنا لے ۔۔۔اور اس عورت کے جو پہلا بچہ ہو وہ اس آدمی کےمرحوم بھائی کے نام کا کہلائے گا تاکہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔اور اگر وہ آدمی اپنی بھاوج سے نکاح نہ کرنا چاہے تو اس کی بھاوج پھاٹک پر بزرگوں کے پاس جائے اور کہے میرا دیور اسرائیل میں اپنے بھائی کا نام بحال رکھنے سے انکار کرتا ہےاور میرے ساتھ دیور کا حق ادا کرنا نہیں چاہتا۔تب اس کے شہر کے بزرگ اس آدمی کو بلوا کر اسے سمجھائیں اوراگر وہ اپنی بات پر قائم رہے اور کہے کہ مجھ کو اس سے بیاہ کرنا منظور نہیں تو اس کی بھاوج بزرگوں کے سامنے اس کے پاس جا کر اس کے پاؤں سے جوتی اتارے اور اس کے منہ پر تھوک دے اور یہ کہے کہ جو آدمی اپنے بھائی کے گھر آباد نہ کرے اس سے ایسا ہی کیا جائے گا۔تب اسرائیلیوں میں اس کا نام یہ پڑ جائے گا کہ یہ اس شخص کا گھر ہے جس کی جوتی اتاری گئی تھی‘‘۔(۲۰)

بائبل کے مطابق کسی کاہن کو اجازت نہیں کہ وہ کسی بیوہ سے نکاح کرے۔لکھا ہے کہ:

’’اور وہ کنواری عورت سے نکاح کرے۔جو بیوہ یا مطلقہ یا ناپاک عورت یا فاحشہ ہو ان سے وہ بیاہ نہ کرے بلکہ وہ اپنی ہی قوم کی کنواری کو بیاہ لے‘‘۔(۲۱)

(۱۰)بیوہ اور لڑکیوں کی میراث

بائبل کے مطابق بیوہ کااس کے مرحوم شوہر کی میراث میں سے حصہ مقررنہیں۔اگر مرحوم شوہر کا بیٹا ہے تو میراث اسے ملے گی اور اگر کوئی بیٹا نہیں تو اس صورت میں لڑکیوں کو میراث ملے گی۔گویا بیٹوں کی موجودگی میں بیٹی کو میراث نہیں دی جائے گی اور بیوہ تو ہر حال میں اس سےمحروم ہے۔لکھا ہے کہ:

’’اور بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا۔اگر اس کی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اس کی میراث دینا۔ اگر اس کے بھائی بھی نہ ہوں تو اس کی میراث اس کے باپ کےبھائیوں دینا۔اگر اس کے باپ کا بھی کوئی بھائی نہ ہو تو جو اس کے گھرانے میں اس کا سب سے قریبی رشتہ دار ہو اسے اس کی میراث دینا۔وہ اس کا وارث ہو گا‘‘۔(۲۲)

بائبل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جن لڑکیوں کو باپ کی میراث مل جاتی ہیں وہ اپنےباپ کے خاندان سے باہر نکاح نہیں کر سکتی،صرف بنی اسرائیلی خاندان میں ہی شادی کر سکتی ہیں۔لکھا ہے کہ:

’’اور اگر بنی اسرائیل کے کسی قبیلے میں کوئی لڑکی ہو جو میراث کی مالک ہو تو وہ اپنے باپ کے قبیلہ کے کسی خاندان میں بیاہ کرے تاکہ ہر اسرائیلی اپنے باپ دادا کی میراث پر قائم رہے۔یوں کسی کی میراث ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ میں نہیں جانے پائے گی کیونکہ بنی اسرائیل کے قبیلوں کو لازم ہے کہ اپنی اپنی میراث اپنے اپنے قبضہ میں رکھیں‘‘۔(۲۳)

(۱۱)عورت اور ظالمانہ سزائیں

بائبل میں عورتوں کے بارے میں چند عجیب و غریب سزاؤں کاذکر ہے جیسے:

’’جب دو شخص آپس میں لڑتے ہو ں اور ایک کی بیوی پاس جا کر اپنے شوہر کو اس آدمی کے ہاتھ سے چھڑانے کے لیے جو اسے مارتا ہو اپنا ہاتھ بڑھائے اور اس۔۔۔کو پکڑ لے تو تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنا اور ذرا ترس نہ کھانا‘‘۔(۲۴)

بی بی حوا کے درد حمل کو بھی بائبل میں سزا قرار دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کی خدا وند کی نا فرمانی ہے۔لکھا ہے کہ:

’’پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا۔تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور و ہ تجھ پر حکومت کرے گا‘‘۔(۲۵)

اسلام میں عورت کا مقام و کردار

بائبل کے برعکس عورت کے اصل مقام او رکردار کا تعین اسلام ہی نے کیا ہے۔اسلام نے عورت کو ہر حق سے نوازا۔اس کو عزت اور آزادی دی اور اس کی عصمت کومحفوظ کیا۔ذیل میں اس حوالے سے اسلام میں عورت کےکردار اور حقوق کو تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے؛

(۱)عورت ابدی گناہ کی مرتکب نہیں

اسلام یہ اعلان کرتا ہے کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے میں صرف عورت(حّواؑ) ہی ملوث نہیں تھی بلکہ مرد(آدمؑ) بھی اس کے ساتھ تھا اور دونوں سے یہ فعل بطور خطا ہوا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَقُلْنَا يٰٓادَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الْظّٰلِمِيْنَ۔ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ص وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلٰی حِيْنٍ ﴾ (۲۶)

ترجمہ:اور ہم نے کہا اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو تم ظالموں میں ہو جاؤ گے۔پھر شیطان نے دونوں کو اس طرف کے بارے میں پھسلا دیا اور جس عیش و نشاط میں تھے اس سے ان کو نکلوا دیا۔تب ہم نے حکم دیا کہ بہشت بریں سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانہ اور معاش مقرر کر دیا گیا ہے۔

آیت پر غور کرنے سےبخوبی پتا چلتا ہے کہ رب تعالیٰ نے صرف عورت کو قصور وار نہیں ٹھرایا بلکہ خطا دونوں سے سرزد ہوئی اور یہ بھی کہ اس دوران نہ تو درد حمل کی سزا کا علان ہے اور نہ ہی ابدی گناہ کا کوئی تصور موجود ہے۔

(۲)زندگی کا حق

اسلام سے پہلے کےمعاشرے میں یہ دستور تھا کہ بیٹیوں کی پیدائش پر خفا ہوتے تھے اور ان کو اپنی خوراک اور دیگر ضروریات زندگی میں شریک سمجھ کر ان کی جان لینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔اسلام نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ اپنی اولاد(بطور خاص بیٹیوں )کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَلَا تَقْتُلُوْۤا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ط نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم ط إنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيرًا﴾ (۲۷)

ترجمہ:اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرناکیونکہ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں۔کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔

بروز قیامت اللہ تعالیٰ ان لڑکیوں کو اٹھا کر خو دان سے ان کے قصور کے بارے میں دریافت فرمائیں گے۔ارشاد ہے:

﴿ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ۔ بِأَىِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ (۲۸) ترجمہ:اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گا۔کہ وہ کس گناہ کے سبب قتل کر دی گئی۔

۳) مساوی سلوک اور اجر کا حق

اسلام نے عورت کو یہ حق دیا کہ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی حقوق ہیں اور جس طرح مردوں کے لیے جزا وسزا ہے ویسے ہی ان عورتوں کے لیے بھی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِينَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِينَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ والصَّآئِمِيْنَ والصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِينَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِـظٰتِ وَالذَّاكِـرِيْنَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرٰتِ لا أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيْمًا﴾(۲۹)

ترجمہ:جو لوگ اللہ کے سامنے سر اطاعت خم کرنے والے ہیں یعنی مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اورفرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اورراستباز مرد اور راستباز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اورخیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنےوالی عورتیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرداوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنےوالی عورتیں کچھ شک نہیں کہ اللہ نے ان کے لیے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴾ (۳۰)

ترجمہ:جو بھی اچھے عمل کرے گا چاہے مرد ہو یا عورت بشرط یہ کہ وہ ایماندار ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے اچھے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔

(۴)عزت کا حق

اسلام نے عورت کو ایک بلند مقام دیا اور اس کوعزت دی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ﴾ (۳۱) ترجمہ:وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔

گویا جس طرح سے لباس انسان کی عزت اور پردہ ہے ویسے ہی مرد اور عورت کا تعلق بھی ہے۔اسلام کے بقول جس نے کسی پاکدامن عورت پر تہمت لگائی اس کو کوڑوں کی سزا دی جائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُواْ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلاَ تَقْبَلُواْ لَهُمْ شَهَادَةً أَبَداً وَأُوْلَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴾(۳۲)

ترجمہ: اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کوبدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کھبی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی لوگ بدکار ہیں۔گویا عورت کی عزت میں بلا تصدیق عیب لگانا بھی باعث سزا ہے۔

(۵)حسن سلوک کا حق

اسلام نے عورت کے ساتھ ماں،بہن،بیٹی اور بیوی ہر روپ میں حسن سلوک کی نا صرف تاکید کی ہے بلکہ حکم بھی دیا ہے۔ ماں کا ذکروالدین کے زمرے میں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

﴿ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوْٓا إِلَّآإ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ط إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِى صَغِيرًا ﴾(۳۳)

ترجمہ:اور تمہارے پرردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور ان نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات نرمی سے کرنا۔اور عجز و انکساری کے ساتھ ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیساا نھوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پرورش کیا ہے تو بھی ان کے حال پر رحم فرما۔

بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے آپﷺسے پوچھا کہ میرے بہترین سلوک کا مستحق کون سا شخص ہے تو آپﷺ نے تین مرتبہ ماں کا فرمایا اور چوتھی مرتبہ باپ کا ذکر فرمایا(۳۴)۔بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ﴾(۳۵) ترجمہ: اور اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔

بیٹیوں اور بہنوں کی صورت میں ان سے حسن سلوک کو جنت کی ضمانت قرار دیا گیا ہے۔ترمذی کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہو یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہو اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے اور ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے یہاں تک کہ ان کی ذمہ داری سے فارغ ہو جائے تو اس کے لیے جنت ہے۔(۳۶)

(۶)نکاح و فسخ نکاح کا حق

بائبل کے برعکس اسلام میں شادی کے معاملے میں عورت (کنواری ،مطلقہ اور بیوہ)کی مرضی کا خیال رکھا جاتا ہے اور اس معاملے میں اس پر کوئی جبر نہیں۔بخاری کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔صحابہ نے کہا ؛یا رسول اللہﷺکنواری عورت اذن کیونکر دے گی؟آٓٓنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔(۳۷)

بیوہ عورت کے نکاح کا ذکر قرآن میں یوں ہے:

﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُوْنَ أَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًاج فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِيۤ أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (۳۸)

ترجمہ:اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب یہ مدت پوری ہو جائے اور اپنے حق میں پسندیدہ کام یعنی نکاح کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔

یہی حکم طلاق یافتہ عورت کا بھی ہے۔اسی طرح سے اگر کسی عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہو جائے تو وہ اس نکاح کو باطل بھی کر سکتی ہے۔بخاری کی حدیث میں ہےکہ ایک انصاری عورت خنسأ بنت خذام انصاریہ ؓ کا نکاح ان کے والد نے کر دیا تھا۔وہ ثیبہ تھی،انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا۔اس لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔آنحضرتﷺنےاس نکاح کو فسخ کر ڈالا۔(۳۹)

(۷)میراث میں حصہ

بائبل میں جہاں عورت کو مرد کی میراث میں سے کچھ نہیں ملتا ،وہاں اسلام ہر صورت میں اس کا میراث میں حق تسلیم کرتا ہے۔ارشاد ہے:

﴿ لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُوْنَ ص وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ط نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴾(۴۰)

ترجمہ:جو مال ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔یہ حصے اللہ کے مقرر کیے ہوئے ہیں۔

اسی طرح سے بیواؤں کے حصے کا تعین اور بیٹیوں کا حصہ اسلام کی نگاہ میں ان کے حق کا اعتراف ہی ہے۔

(۸)عصمت و ناموس کی حفاظت

اسلام نے جہاں ضروری سمجھا عورت کو کچھ ایسی ہدایات سے نوازا جن کا مقصد اس کی ناموس کی حفاظت اور عصمت کو داغدار ہونے سے بچانا تھا۔ان میں سے ایک ہدایت زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار سے منع ہونا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَىٰ ﴾(۴۱) ترجمہ:اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح اپنا بناؤسنگھاردکھاتی نہ پھرو۔

﴿يٰٓايُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلاَبِيْبِهِنَّ ط ذٰلِكَ أَدْنٰٓی أَنْ يُّعْرَفْنَ فَلاَ يُؤْذَيْنَ ﴾(۴۲)

ترجمہ:اے پیغمبرﷺاپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہروں پرچادر لٹکا کر گھونگٹ نکال لیا کریں۔یہ چیزان کے لیے موجب شناخت اور امتیاز ہو گی تو کوئی انہیں ایذا نہ دے گا۔

(۹)فطرت نسواں کی رعایت

اسلام نے عورتوں کی نازک فطرت کا پورا احساس کیا ہے اور بعض کمزوری کی حالتوں میں ان کومنحوس یا قبیح قرار دینے کے بجائے ان کے تکلیفوں کو محسوس کر کے ان کے مطابق حکم دیاہے۔برخلاف بائبل کے ،جس میں عورت حیض کی حالت میں ایسی ناپاک ہوتی ہے کہ اس کا کل بدن ،کپڑے،بستر اور متعلقہ ہر شے ناپاک ہوتی ہے بلکہ اس کو ہاتھ لگانے والا بھی شام تک ناپاک رہتا ہے۔اسلام میں عورت کی اس حالت کو صرف تکلیف کا دور کہہ کر اس سے مباشرت سے منع کیا گیا ہے باقی اس کے ساتھ ہر طرح کاتعلق درست ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيْضِط قُلْ هُوَ أَذًى لا فَاعْتَزِلُوْا النِّسَآءَ فِى الْمَحِيْضِ لا وَلاَ تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰی يَطْهُرْنَج فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ط إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ﴾(۴۳)

ترجمہ:اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔کہہ دو وہ تو نجاست ہے پس ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو جس طرح سے اللہ نے تمہیں ارشاد فرمایا ہےان کے پاس جاؤ۔کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ قبول کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

(۱۰)بیعت کا حق

اسلام نے عورتوں کو یہ حق دیا کہ وہ کسی بھی اولوالامر امیر کی اطاعت کی بیعت کر سکتی ہیں اور اس سلسلے میں ان پر کوئی پابندی نہیں۔اس کی مثال صحابیات کا رسول اللہﷺ سے بیعت تھی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓی أَنْ لاَّ يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلاَ يَسْرِقْنَ وَلاَ يَزْنِينَ وَلاَ يَقْتُلْنَ أَوْلاَدَهُنَّ وَلاَ يَأْتِينَ بِبُهُتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيْهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلاَ يَعْصِيْنَكَ فِى مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ط إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾(۴۴)

ترجمہ:اے پیغمبرﷺ جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پربیعت کرنے کو آئیں کہ نہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نا فرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگو۔بے شک اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے عورتوں سے یہ بیعت ایسی حالت میں لی کہ وہ شرعی پردہ کیے ہوئی تھیں اور انہوں نے بطور بیعت آپﷺ کی ہتھیلی مبارک پر اپنی ہتھیلی نہیں رکھی بلکہ آپﷺ نے ان سے فاصلے سے ہاتھ کے اشارے سے بیعت لی۔غرض خواتین نیکی کے کاموں میں کسی بھی قسم کا عہد کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

(۱۱)علم وتعلم کا حق

اسلام نے بائبل کے برعکس خواتین کی تعلیم و تربیت پر نہ صرف زور دیا کہ اس کے لیے باقاعدہ مجالس اور ادارے بھی قائم کیے۔اسلام میں ماں کی گود کو بچے کی اولین درس گاہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی تربیت کی ذمہ داری یہی سے شروع ہو جاتی ہے۔آپﷺ نے احادیث مبارکہ میں خواتین کی تعلیم پر زور دیا ہے۔جامع الصغیر میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔آزاد عورتوں کے علاوہ آپﷺ نے باندیوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خصوصی ذکر فرمایا۔بخاری کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس کوئی باندی لڑکی ہے اور اس نے اس کو بہتر اور عمدہ تعلیم دی اور اس کو بہتر اور عمدہ تربیت دی،پھر اس کو آزاد کر کے اپنی نکاح میں لے آیا تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے(۴۵)۔ آپﷺ نے صحابیات کی درخواست پر ان کے لیے الگ مجلس کا اہتمام فرمایا جہاں ان کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔غرض اسلام نے اس لحاظ سے بھی عورتوں کی دلجوئی کی۔

(۱۲)معاشی استحکام اور نفقے کا حق

اسلام نے مردوں کی ذمہ داری لگا دی کہ وہ عورتوں کے معاشی استحکام کے لیے مختلف امور کی پابندی کریں کیونکہ اللہ نے اسی ذمہ داری ہی کی وجہ سے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَآ أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ﴾(۴۶)

ترجمہ:مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لیے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

مردوں کو حکم ہے کہ وہ عورتوں کو ان کا حق مہر ادا کریں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَاٰتُواْ النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ﴾(۴۷) ترجمہ:اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔

اسلام نے عورت کے نان نفقے اور بچے کے رضاعت کا خرچ بھی مرد کے ذمہ لگا یا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَعلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ﴾ (۴۸) ترجمہ: اور دودھ پلانے والی عورتوں کاکپڑا اور کھانا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔

اسلام نے اس فعل کو صرف ایک ذمہ داری ہی قرار نہ دیا بلکہ احادیث میں رسول اللہ ﷺنے مرد کا عورت کو کھلانے والے ہر نوالے کے بدلے میں اجر کا ذکر فرمایا ہے۔آپﷺ نے آخری خطبے،خطبہ حجتہ الوداع میں مردوں کو خصوصی نصیحت کی کہ وہ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں۔اس کے علاوہ اسلام میں عورت کو باعزت طریقے سے شرعی پردے میں رہتے ہوئے تجارت یا کسب معاش سے منع نہیں کیا گیا۔وہ بقدر ضرورت خود بھی اپنے گھر والوں کی کفالت میں حصہ لے سکتی ہے۔الغرض اسلام نے ہر طرح سے عورت کی بہبود اور اس کی معاشی کفالت کے حق کا خیال رکھا ہے۔

(۱۳)عورت اور عدل کا حق

بائبل میں جہاں بعض مقامات پر تعدد ازدواج کا ذکر اس حد تک موجود ہے کہ بیویوں کی تعداد ہزاروں تک بھی بیان کی گئی ہے،وہاں اسلام عورتوں میں انصاف کا حکم دیتا ہے اور اگرچہ ایک مرد کے لیے چار تک کی بیویوں کی اجازت موجود ہے لیکن اگر وہ ان کے درمیان انصاف نہ کر سکے تو اسے ایک پر ہی اکتفأ کا حکم دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ط ذٰلِكَ أَدْنٰٓی أَلاَّ تَعُولُوْا ﴾(۴۹)

ترجمہ:پس جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چاران سے نکاح کر لو اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ عورتوں کے درمیان انصاف نہ کر سکو گے تو تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو یا باندی سے تعلق رکھوجس کے تم مالک ہو۔اس طرح تم بے انصافی سے بچ جائو گے۔

﴿ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوْٓا أَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِيلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْهَا كَٱلْمُعَلَّقَةِ ط وَإِن تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾(۵۰)

ترجمہ:اور تم خواہ کتنا ہی چاہو بیویوں میں عدل نہ کر سکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ۔اور دوسری کو ایسی حالت میں چھوڑ دو کہ گویا ادھر میں لٹک رہی ہے۔اور اگر آپس میں مصالحت کر لو اور پرہیز گاری کر لو تواللہ بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے۔

سنت رسول ﷺ سے بھی ثابت ہے کہ آپﷺ نے ازواج کی باری مقرر کی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ سفر میں بھی باری باری ایک ایک زوجہ کو ساتھ لے جاتے تھے۔یوں اسلام سے عورتوں کے درمیان مساوات کا بھی پتا چلتا ہے۔

خلاصہ کلام

بائبل اور اسلام کی روشنی میں عورت کے مقام اور کردار کے تقابل کے بعد ہم درجہ ذیل نکات پر پہنچتے ہیں:

(۱)بائبل کے بقول عورت ابدی گناہ کی مرتکب ہو کر پوری نسل انسانی کو گناہ میں مبتلأ کر گئی جب تک کہ اس کا کفارہ ادا نہ کیا گیا لیکن قرآن کے بقول یہ ایک خطا تھی جو عورت اور مرد دونوں سے بیک وقت سرزد ہوئی تھی۔

(۲)بائبل کے بقول ہزاروں عورتوں میں کوئی ایک بھی کامل کردار کی مالک نہیں جبکہ قرآن خود مریمؑ و آسیہ اور دیگر پاکدامن عورتوں کا ذکر کر کے ان کے کامل ایمان اور بلند مرتبے کا معترف ہے۔

(۳)بائبل کا مؤقف ہے کہ عورت کو یہ آزادی نہیں کہ مذہبی علم سیکھے یا سکھائے جبکہ اسلام میں خواتین عالمات اور ان کے دینی قدر ومنزلت کا بیان ہے۔

(۴)بائبل کے مطابق عورت کی عصمت اگر لٹ بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں جبکہ اسلام اس سلسلے میں عورت کی عصمت کا خود محافظ ہے۔

(۵) بائبل عورت کے طہارت کے مسائل کو پیچیدہ طور پر بیان کرتا ہے جبکہ اسلام اس میں آسانی کا خواہاں ہے۔

(۶)بائبل عورت کے فطری اعذار کو اس کا عیب بنا دیتا ہے جبکہ اسلام اسے عورت کی کمزوری اور رخصت بتاتا ہے۔

(۷)بائبل کے بقول عورت کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن اسلام عورت کو آزادئ رائے دیتا ہے۔

(۸)بائبل کے بقول فسخ نکاح اور طلاق لینے کا حق عورت کو نہیں جبکہ اسلام عورت کو نکاح،فسخ نکاح اور خلع لینے کا حق دیتا ہے۔

(۹)بائبل کے بقول عورت کا میراث میں کوئی حصہ نہیں جبکہ اسلام اس کے باقاعدہ حق کا اعلان کرتا ہے۔

(۱۰)بائبل عورت کو فحاشی کا آلہ قرار دیتا ہے جبکہ اسلام اس کو گھر اور خاندان کی عزت قرار دیتا ہے۔

(۱۱)بائبل کے مطابق بیوہ عورت مرحوم شوہر کے خاندان سے باہرشادی نہیں کر سکتی جبکہ اسلام اس کو اس معاملے میں کھلی آزادی دیتا ہے۔

(۱۲)بائبل کے مطابق عورت حلالہ نہیں کر سکتی جبکہ اسلام میں عورت کو اس کی رعایت ہے۔

(۱۳)بائبل عورت کے بارے میں ظالمانہ سزائیں تجویز کرتا ہے جبکہ اسلام اس کے ساتھ نرمی اور محبت کی تعلیم دیتا ہے۔

حوالہ جات

پیدائش ۳: ۶تا۱۳۔ -۱

۲۔ ایضاً ۳:۱۶

۳۔ واعظ ۷: ۲۶ تا ۲۸

۴۔ کُرنتھیوں کے نام پولس رسول کا پہلا خط۱۴: ۳۴ تا ۳۵

تیمُتھیُس کے نام پولس رسول کا پہلا خط ۲: ۸ تا ۱۴ ۔-۵

۶ ۔ عبرانی ۔چھوٹا،یہ شہر بحیرہ مردار کے جنوب مغرب میں زیر آب ہے۔یہ شہر لوط کے زمانے میں لوط کی دعا کی وجہ سے تباہی سےبچ گیا تھا۔ (خیر اللہ،ایف،ایس،’’قاموس الکتاب‘‘،مسیحی اشاعت خانہ فیروزپور روڈ لاہور،۲۰۱۱،صفحہ نمبر ۶۰۶)۔

پیدائش ۱۹: ۳۰ تا ۳۸ ۔-۷

ایضاً۱۲: ۱۴ تا ۱۶۔ -۸

احبار ۱۵: ۱۹ تا ۲۳۔ -۹

ایضاً۱۲: ۲ تا۵ ۔ -۱۰

قضاۃ ۱۱: ۳۴ تا ۳۵۔ -۱۱

۱۔سموئیل ۲۵: ۴۴۔ -۱۲

۲۔سموئیل ۳: ۱۴ تا ۱۵ ۔ -۱۳

امثال ۷: ۱۱ تا ۱۸۔ -۱۴

امثال ۹: ۱۳ تا ۱۵۔ -۱۵

امثال ۱۳: ۳ ۔-۱۶

استثنأ۲۴: ۱ تا ۴۔ -۱۷

ایضاً۲۴: ۳ تا ۴۔ -۱۸

مرقس کی انجیل ۱۰: ۱۱ تا ۱۲ ۔-۱۹

استثنأ ۲۵: ۵ تا ۱۰۔ -۲۰

احبار ۲۱: ۱۳ تا ۱۴ ۔-۲۱

گنتی ۲۷: ۸ تا ۱۱ -۲۲

گنتی ۳۶: ۸ تا ۹۔ -۲۳

استثنأ۲۵: ۱۱ تا ۔۱۲ -۲۴

پیدائش ۳: ۱۶۔ -۲۵

ا لبقرۃ:۳۵ تا ۳۶۔ -۲۶

بنی اسرائیل:۳۱۔ -۲۷

التکویر:۸ تا ۹ ۔-۲۸

احزاب :۳۵۔ -۲۹

النحل:۹۷ ۔-۳۰

البقرۃ:۱۸۷ ۔-۳۱

النور:۴۔ -۳۲

بنی اسرائیل:۲۳ تا ۲۴۔ -۳۳

۳۴۔بخاری،امام ابو عبد اللہ اسماعیل،مترجم :محمد داؤد راز،صحیح بخاری،جلد ۶، جمیعت اہل حدیث دہلی،۲۰۰۴،حدیث ۵۹۷۱ ۔

النسأ:۱۹۔ -۳۵

۳۶۔ ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن موسیٰ، مترجم:ناظم الدین،جامع ترمذی، جلد دوئم، مکتبہ العلم لاہور،۲۰۰۴،حدیث ۱۹۱۶۔ -۳۶

صحیح بخاری،جلد ۶،حدیث ۵۱۳۶ ۔-۳۷

البقرۃ:۲۳۴۔ -۳۸

صحیح بخاری،جلد ۶،حدیث۵۱۳۸۔ -۳۹

النسأ:۷۔ -۴۰

احزاب:۳۳۔ -۴۱

احزاب:۵۹۔ -۴۲

البقرۃ:۲۲۲۔ -۴۳

الممتحنہ:۱۲ -۴۴

صحیح بخاری،کتاب النکاح،جلد ۶،حدیث ۶۳۲۴۔ -۴۵

النسأ:۳۴ ۔ -۴۶

النسأ:۴۔ -۴۷

البقرۃ:۲۳۳۔ -۴۸

النسأ:۳ ، ۵۰۔ النساء: ۱۲۹-۴۹۔

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...