Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

بنیادی انسانی حقوق کا اسلام اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور کی روشنی میں تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_601

Pages

133-144

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/168/160

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/168

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اہل مغرب کا عام طور پر یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ ہر اچھى چیز کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیںِ کہ یہ نعمت ہمارے ذریعے سے دنیا کو ملی ہے ورنہ دنیا ان چیزوں سے نااشنا اور نری جہالت میں مبتلا تھی، انسانی حقوق کے حوالے سے بھی یہی مدعا عام کیا جارہا ہے کہ اس کا تصور لوگوں کو انگلستان کے میگنا کارٹا کے ذریعے نصیب ہوا ہے، حالانکہ وہ اسلام کے چھ سو برس کے بعد کی چیز ہے، اس مقالہ میں اسلام میں انسانی حقوق کے تصور کو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ برائے انسانی حقوق سے موازنہ کرکے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام نے انسانیت کو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ایک جامع تصور سے نوازا ہے، جو انسان کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی تمام قسم کے حقوق کا احاطہ کرتا ہے۔

تمہید:

دورِ حاضر میں مختلف مذہبی وغیر مذہبی جنگوں اور ان کے نتیجے میں پیش آنے والے مظالم کی وجہ سے انسانی حقوق ایک اہم موضوع بن چکا ہے اور دنیا کے مختلف جامعات میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے سیمنارز اور مذاکروں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ اور مختلف ارباب ِ نظر انسانی حقوق کے حوالے سے نئے نئے فلسفے پیش کررہے ہیں ۔ پاکستان کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہاں پر انسانی حقوق کے بعض نام نہاد علمبردار انسانی حقوق کی آڑ لے کر اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس وجہ سے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام اور بین الاقوامی مواثیق کی روشنی میں انسانی حقوق کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جائے۔ تاکہ اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت واضح ہوسکے اور اسلام پر بے جا تنقید کا علمی محاسبہ کیا جا سکے۔

حق کی تعریف:

حق کا لفظ مصدر ہے جو اہل لغت کے ہاں باطل کے مقابلے مىں استعمال ہوتا ہے اور اس کی جمع حقوق یا حقاق آتا ہے[1], چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے "وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ"[2] یعنی حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو۔

شریعت کی اصطلاح میں عموما حقوق کی تقسیم مضاف الیہ کے اعتبار سے ہوتی ہے چنانچہ بعض حقوق عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں مثلا تعلیم کا حق اور انصاف پر مبنی فیصلے کا حق وغىرہ ایسے حقوق ہیں، جو معاشرے میں ہر شخص کے بنیادی حقوق تصور کئے جاتے ہیں اور بعض حقوق انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں، جنہیں خاص حقوق کہا جاتا ہے، مثلا اپنے لیے معاش کمانے کا حق یا زوجین کے ایک دوسرے کے اوپر واجب حقوق اسى قبیل سے ہیں[3]

دورِ حاضر کے مغربی مفکرین نے مختلف معانی کے لحاظ سے حقوق کی تقسیم کی ہے، جیسے سیاسی حقوق، معاشی حقوق، معاشرتی اور تقافتی حقوق وغیرہ[4].

انسانی حقوق :

معروف سکالر محمد النجیمی کہتا ہے:

"المقصود بحقوق الإنسان: تلك المبادئ والقوانين العامة التي اتفقت عليها الأديان، والقوانين الدولية فيما يتعلق باحترام الإنسان في مجال عقيدته، وحريته، وثقافته، وفي مجال حقوق المرأة والطفل، والقضايا السياسية، وحرية التفكير... وهي حقوق كفلتها الشريعة الإسلامية وجميع الأديان والقوانين الدولية"[5].

(ترجمہ): انسانی حقوق سے مراد جملہ ادیان اور بین الاقوامی مواثیق کی رو سے تمام قسم کے متفقہ رہنما اصول وقواعد ہیں، جن کا تعلق احترامِ انسانیت سے ہوں جیسا کہ دینی و معاشرتی آزادی، حقوقِ نسواں، بچوں کے حقوق، تمام قسم کے سیاسی حقوق اور آزادی اظہار رائے وغیرہ ایسے امور ہیں جن کو تمام ادیان اور حقوق انسانی کے عالمی دستاویزات میں بطور حقوق تسلیم کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کہتے ہیں:

"المراد بحقوق الإنسان حماية مصلحة الشخص سواء أكان حقاً عاماً كتحقيق الأمن، وقمع الجريمة، ورد العدوان، والتمتع بالمرافق العامة. أم خاصاً كحق الزوجة في النفقة وحق الأم في الحضانة لطفلها، وحق الأب في الولاية على أولاده ونحوه...[6]

(ترجمہ): انسانی حقوق سے مراد کسى بھى شخص مصلحت کی حفاظت ہوتی ہے، چاہے وہ عمومی مصلحت ہو جیسے امن وامان کی فراہمی، جرائم کا روک تھام، دشمن کی سرکوبی اور عمومی سہولیات سے استفادے کا حق وغیرہ یا وہ کوئی مصلحت خاصہ ہو جیسا کہ بیوی کا شوہر پر نفقہ کا حق، اور ماں کے لیے بچہ کا حقِ حضانت اور باپ کا بیٹوں پر حق ولایت وغیرہ

ان تعریفات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق سے مراد وہ بنیادی نعمتیں ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی نوعِ انسان پر نچھاور کی ہیں، تاکہ وہ بحیثیتِ انسان عزت وقار کی زندگی بسر کرسکیں۔

انسانی حقوق کا تصورو ارتقاء :

انسانی حقوق کے بارے میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ اس کا احساس جیسے آج ہے، اس سے پہلے نہیں تھا۔ انسانوں کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھی اور ظلم کی چکی میں پس رہی تھی۔کبھی کہیں سے کوئی آواز اٹھتی بھی تو طاقت ور طبقات کے مضبوط ہاتھ اسے دبانے میں کامیاب ہو جاتے۔ اس کی آزادی کا صحیح معنوں میں احساس مغرب کو ہوا اور مغرب ہی نے اس کا واضح تصور دیا۔ کہا جاتا ہے کہ فرانس کے الفانسو شاہ نہم نے یہ قانون منظور کیا یا اس سے منظور کرایا گیا کہ کسی کو بلا وجہ قید نہیں کیاجا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں حبسِ بے جا کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اسے انسانی حقوق کی تاریخ میں بہت بڑا اقدام سمجھا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد فرانس ہی میں روسو پیدا ہوا، اس نے اپنى کتاب مىں انسانی آزادی کا جو تصور دیا اس کا بڑا چرچا رہا۔ انہوں نے کہا کہ انسان فطرتاً آزاد ہے اور اسے آزاد ہونا چاہیے۔ اس کى کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا اور یہ بڑی انقلابی کتاب سمجھی گئی۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ ’معاہدۂ عمرانی‘ کے نام سے موجود ہے۔ اس کتاب کے بعد فرانس میں ایک طرح کی ہلچل پیدا ہوئی اور (Decleration of rights of the man) نامی اعلانیہ شائع ہوا، جس میں انسانی حقوق کا تذکرہ تھا۔

تاریخ کے مختلف ادوار میں انسان نے اپنے حقوق کے تحفظ کی غرض سے ہر زمانے میں ظلم واستبداد سے نبرد آزمائی کی ایک تاریخ رقم کی ہے[7]۔ بنی نوعِ انسان چونکہ تمام ادیان سماویہ ، فلاسفہ اور اہل ِ دانش کے نزدیک اس کائنات کا موضوع ہے ۔ اس وجہ سے انسان کی فلاح وبہبود اور ان کی حمایت کے خاطر ہر زمانہ میں کسی نہ کسی صورت میں اقدامات اٹھائے گئے[8]۔

اسلام اور فکری آزادی:

دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا ہے اور مسلمانوں نےانسانی حقوق کو پامال کیا۔ اس اعتراض کے جواب میں ہم صرف دو تاریخی واقعات کے ذکر پر اکتفاء کریں گے۔ جس میں مسلمانوں کا مخالفین کے ساتھ برتاو کا اندازہ ہو جائے گا۔

ساتویں صدی میں ظہورِ اسلام کے ساتھ ہی شام اور فلسطین کے علاقوں میں مجوسیوں نے عیسائیوں کے رومن کیتھولک فرقہ پر فتح حاصل کیا، چونکہ قرآن حضرت عیسی علیہ السلام کی مدح سرائی کرتا ہے، اس وجہ سے مشرکین مکہ مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ سے عیسائیوں کی شکست پر بڑا جش منایا جو کہ مسلمانوں کو بڑا ناگوار گزرا۔ چنانچہ قرآن پاک نے مسلمانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے دوسری بار رومن کیتھولک کی مجوس پر فتح کی بشارت دی، جس سے مسلمانوں کا مورال پھر بلند ہوگیا[9].

اس کے کچھ عرصہ بعد مجوس اور رومن کیتھولک کے درمیان دوبارہ معرکہ ہوا جس میں کھیتولک نے مجوسیوں پر فتح حاصل کی اور دوسرى طرف بدر کے میدان میں مسلمانوں نے مشرکین عرب پر فتح حاصل کرلیا، اس کے باوجود مسلمانوں نے مشرکین سے عقیدے کی بنیاد پر کوئی انتقام نہیں لیا، چنانچہ قرآن پاک نے صریح طور پر اعلان کردیا، "لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِين"[10] یعنی جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں مکمل طور پر فکری آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اسلام میں آزادی فکر کے لحاظ سے دوسرے اہم تاریخی واقعہ فتحِ بیت المقدس ہے، جب خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، تو عیسائیوں کو فکری اور مذہبی طور پر مکمل امان دیا گیا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا، کہ عیسائیوں کے چرچ اور معبد خانوں کی مکمل حفاظت کی جائے، اور ایک تاریخی معاہدہ لکھا گیا جس میں یہ بات بھی صراحت کے ساتھ لکھی گئی تھی کہ عیسائی اپنے مذہبی معاملات میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور یہ کہ ان کے عبادت خانوں کے آس پاس کسی دوسرے مذاہب کے لوگ قیام نہیں کریں گے[11].

ان دو تاریخی واقعات سے انسانی حقوق کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کو سمجھا جاسکتا ہے، کہ کس طرح مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں آزادی فکر کے حوالے سے دوسرے ادیان کا احترام کیا۔

اسلام اور حق تعلیم:

اسلام ہر انسان کے لیے حصولِ علم کا حق تسلیم کرتا ہے بلکہ علم کو انسان کے لیے زینت قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: "قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"۔[12] (ترجمہ): کہہ دیجئے کیا عالم اور جاہل کبھی برابر ہوسکتے ہیں ۔تو گویا ایک انسان علم وتقوی کی بدولت ہی افضلیت حاصل کرتا ہے ، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حصولِ علم کو تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا اور فرمایا: "طلب العلم فريضة على كل مسلم"[13]) (ترجمہ): حصولِ علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔ بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے علم اللہ کو پہچاننے اور کائنات کی تسخیر کا ذریعہ ہے۔

روزِ اول سے اسلام نے نا خواندگی کے مسئلے کو بنیادی مسئلہ قرار دے پہلی فرصت میں اس کو حل کرنے پر زور دیا۔ چنانچہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کو مرد وعورت دونوں کے لیے لازمی قراردیا"[14]

حصولِ علم کے معاملہ میں اسلام نے مرد و عورت اور آزاد وغلام میں بھی کوئی تفریق نہیں رکھی بلکہ عورت نیز غلام کو بھی علم وادب حاصل کرنے کا مکمل اختیار دیا۔ ارشاد نبوی ہے:

"أيما رجل كانت عنده وليدة أي جارية فعلمها فأحسن تعليمها وأدبها فأحسن تأديبها ثم أعتقها وتزوجها فله أجران"[15]

(ترجمہ): جس شخص کے پاس کو ئی باندی ہو اور اس نے اس کی اچھی طرح تربیت کی اور پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کی، تو وہ دو اجر کا مالک بن گیا۔

اسلام اور آزادی اظہار رائے:

اسلام میں آزادی اظہار رائے کا سب سے بڑا مظہر اجتہاد ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا:

"كيف تصنع إذا عرض لك قضاء؟ فقال: أقضي بكتاب الله. قال: إن لم يكن في كتاب الله؟ قال: فبسنة رسول الله. قال فإن لم يكن في سنة رسول الله؟ قال أجتهد برأئى ولا ألو. قال فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدره ثم قال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله كما يرضي رسول الله"[16].

(ترجمہ): اے معاذ جب تیرے پاس کوئی معاملہ آئے تو کیسے فیصلہ کرے گا ؟تو انہوں نے کہا: میں کتاب اللہ کے ذریعے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو کتاب اللہ میں نہ پائے تو انہوں نے کہا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ پائے تو؟ انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور کوتاہی نہیں کروں گاتو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس کے ذریعے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرتا ہے.

چونکہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور اس میں تمام لوگوں کے حقوق کی رعایت رکھی گئی ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ حدود مقرر کئے ہیں۔ کیونکہ جو چیز بھی حد سے تجاوز کر جائے، بدنما لگتی ہے۔ چنانچہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے۔ (Access of everything is bad)" چنانچہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اختلاف کی صورت میں ہمیشہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً"[17].

مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی میں کسی کی کردار کشی نہ ہو اور یہ کہ اظہار رائے معاشرے میں فساد کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے : "فَاذْكُرُواْ آلاء اللّهِ وَلاَ تَعْثَوْا فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ".[18] یعنی پس تم اللہ کی نعمتوں کا شکریہ بجا لاو اور زمین میں فسادی بن کر نہ پھیروِ ۔

ان آیات کریمہ کی روشنی میں یہ اخذ کیا جاسکتا ہے، کہ اسلام شائستہ انداز میں اظہار رائے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتاہے، صحافت جسے جمہوری نظام کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے[19]۔ اسلام نے اس کے لیے اخلاقیات مقرر کرکے یقینا انسانیت پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔

اسلام اور اقوامِ متحدہ کا عالمی منشور :

۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ نے حقوقِ انسانی کا عالمی منشور (The Universal Declaration of Human Rights) منظور کیا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا۔اسے انسانی حقوق کے سلسلے کا بڑا انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کا بہت ہی صاف اور واضح تصور اس کے اندر موجود ہے اور ىہ انسانوں کو ظلم و زیادتی سے بچانے کی یہ ایک کامیاب کوشش ہے۔

اس منشور میں تین باتوں پر زور دیا گیا ہے:

(۱)فرد کی آزادی

(۲)عدل و انصاف

(۳)مساوات

قانون کے ماہرین کے نزدیک یہ اس اعلانیے کی بنیادی خصوصیات ہیں ۔ اگر یہ تینوں چیزیں انسان کو مل جائیں تو اس کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے منشور کی خامیاں:

اس منشور میں بعض خامیاں بھی ہیں اور عملی رکاوٹ بھی ہے۔ ایک یہ کہ یہ منشور منظور تو ہو گیا لیکن اس کے پیچھے کوئی قوتِ نافذہ نہیں ہے۔ اگر کوئی ملک خاص طور پر کوئی طاقتور ملک اس کی خلاف ورزی کرے تو اسے اس کا پابند بنانے کی کوئی ٹھوس اور موثر تدبیر اس میں تجویز نہیں کی گئی ہے۔ اس کا ثبوت آپ آج کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہر بڑا ملک اپنی طاقت کے نشہ میں پوری دیدہ دلیری کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس میں مذہبی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس آزادی کے صحیح معنوں میں حدود متعین نہیں ہوئے ہیں ۔ فرض کیجیے کہ اگر مذہبی آزادی کا تصور صرف یہ ہے کہ آدمی پوجا پاٹ کرے، عبادت گھر میں جا کے اللہ کی عبادت کرے، مسجد میں نماز پڑھ لے، چرچ میں اپنے مذہب کے مطابق دعا میں شریک ہو جائے، گردوارے میں یا جس کی جو عبادت گاہ ہے اس میں پہنچ جائے اور عبادت کے مراسم بجا لے آئے تو یہ بھی ایک آزادی ہے۔ اس سے آگے بعض نجی اور خاندانی معاملات میں آزادی دے کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مذہبی آزادی ہے۔ آج مذہبی آزادی کا اس سے زیادہ کوئی تصور فی الواقع ہے بھی نہیں ، لیکن اسلام کے معاملے میں مشکل یہ ہے کہ وہ پوری زندگی کے بارے میں ہمیں ہدایات فراہم کرتا ہے اور ان کی پابندی کا حکم دیتا ہے۔ ایسا کوئی دستور نہیں ہے جو یہ کہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے تمام احکام پر چلنے کی آزادی ہے اور وہ اپنے دائرے میں اپنا قانون نافذ کرسکتے ہیں ۔

تیسری بات یہ کہ مغرب میں کلیسا اور اس کے زیر اثر برسراقتدار طبقہ نے انسان کی آزادیِ فکر و عمل اور اس کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں انتہائی غلط رویہ اختیار کیا جس کا صحیح مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے ردِّ عمل میں حقوق انسانی کا موجودہ تصور ابھرا۔ اس میں مذہب کے حقیقی رول کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اللہ کے جو پیغمبر دنیا کے مختلف گوشوں میں اور مختلف زمانوں میں آئے ان کی کیا تعلیمات تھیں ، ان کو جب اقتدار ملا تو ان کا کیا رویہ رہا اور انسانیت کس طرح فلاح سے ہم کنار ہوئی ہے؟ یہ چیز کہیں زیر بحث نہیں آتی۔ جیسے یہ طے کر لیا گیا ہو کہ مذہب سے ہٹ کر یا مذہب کو نظر انداز کر کے گفتگو کی جائے گی۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کوئی معروضی یا غیر جانب دارانہ مطالعہ ہے، صاف بات ہے کہ یہ جانب دارانہ مطالعہ ہے۔ جس میں پہلے سے طے کر لیا گیا ہے کہ مذہب کا حقیقی کر دار زیر بحث نہیں آئے گا، بلکہ اسے نظر انداز کیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے ارٹیکل نمبر ۲٦ کے پہلے فقرے میں لکھا گیا ہے

Everyone has the right to education. Education shall be free

یعنی دنیا کے ہر شخص کو تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا مکمل حق ہے، اسی طرح اسی ارٹیکل کے تیسرے فقرے کے اندر آیا ہے

Parents have a prior right to choose the kind of education that shall be given to their children.

یعنی والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ کہ وہ اپنی اولاد کے لیے تعلیم وتربیت کا انتخاب کریںِ اور اسی طرح ارٹیکل نمبر ۲٦ کے تیسرے فقرے میں لکھا ہے۔

Education shall be directed to the full development of the human personality and to the strengthening of respect for human rights and fundamental freedoms[20].

کہ تعلیم وتربیت ایسی ہونی چاہیے کہ اس سے انسان کی شخصیت نکھر جائے اور اسی طرح تعلیم وتربیت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں انسانی حقوق اور آزادیوں کا لحاظ رکھا گیا ہو۔

اسی طرح آرٹیکل نمبر ١۵ ہر شخص کے لیے کسی بھی علمی اور ثقافتی سرگرمی مىں برابر شریک ہونے اور مستفید ہونے کا حق فراہم کرتا ہے۔

درجہ بالا اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے کئ اہم چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسلامی نقطہ نظر سے اس قسم کے معاہدات اور اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان معاہدات کی پاسداری کرنا ایک شرعی امر ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے ِ: "وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ"[21]. یعنی نیکی اور تقوی کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و دشمنی میں ایک دوسرے سے تعاون مت کرو۔

اسلامی نقطہ نظر:

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام نے نہ صرف انسانیت کے لیے چودہ سو سال پہلے یہ حقوق مقرر کئے بلکہ ان حقوق کی ادائیگی کی بھی ضمانت دی۔ چنانچہ ان حقوق کو فرض کا درجہ دیا گیا۔

اسلامی نقطہ نظر سے انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہی میں ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کا محض اس وجہ سے خون بہا دیا کہ اس کی قربانی اللہ کے دربار سے رد ہو گئی اور اس کے بھائی کی قربانی نے شرف قبولیت حاصل کر لیا۔ لیکن چونکہ اس کا ضمیر زندہ تھا۔ اسے بعد میں اس پر ندامت بھی ہوئی[22]۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ظلم و زیادتی کو نہ روکا جائے تو ایک بھائی کے ہاتھ دوسرے بھائی کے خون سے رنگین ہوسکتے ہیں ، اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ ظلم و زیادتی کا ہر حال میں خاتمہ ہو اور کسی کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ دوسرے کو جور و ستم کا نشانہ بنائے۔ اس کے لیے اس نے ایک جامع اور مکمل قانون پیش کیا ہے۔ اس سے عدل و انصاف کے تقاضے ہر پہلو سے پورے ہوتے ہیں اور انسان کو وہ تمام حقوق ملتے ہیں جو اسے فی الواقع ملنے چاہئیں اور جن کی ضرورت کل کی طرح آج بھی ہے۔ یہ قانون متمدن دنیا کے بڑے حصہ پر صدیوں تک نافذ رہا ہے اور دنیا اس کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔

چنانچہ ان حقوق سے دستبردار ہونا بھی اسلامی نقطہ نظر سے جائز نہیں، اقوام متحدہ کے چارٹرڈ میں اگرچہ ان حقوق کا تذکرہ تو کیا گیا ہے تاہم عملی طور پر ان حقوق کے نفاذ کے لیے کسی قسم کی سنجیدہ کاوش نہیں کی گئی۔ چنانچہ ایک عرصہ تک یہ قوانین سرد خانےمیں پڑے رہے، تاہم ١۹۵۰ ء میں یورپی یونین نے ان قوانین کی نفاذ کے لیے الگ کمیشن کی بنیاد رکھی۔ اسلام میں معاملہ ابتداء سے اس کے برعکس رہا ، چنانچہ اسلامی نقطہ نظر سے خلیفہ وقت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے اور نادہندگان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔

دوسری طرف جمہوری حلقوں میں ان حقوق کا کسی حد تک نفاذ ممکن ہوا ، تاہم سیکولر اور غیر جمہوری ملکوں نے اس قسم کے حقوق کو خوب پامال کیا۔ چنانچہ تعلیمی وتربیت کے حوالے سے والدین کو یہ حق دیا گیا ہےکہ وہ اپنی اولاد کی جس طرح چاہے تعلیم وتربیت کا بندوبست کرے لیکن سیکولر معاشروں میں والدین کو یقینا اس حق سے محروم ہونا پڑا۔ کیونکہ ان ملکوں میں طالب علموں کو ایک مخصوص فکر کی تعلیم دی جاتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ یورپی کمیشن کی یوم تاسیس کے موقع پر مشہور یورپی فلسفی پروفیسر ٹٰیکن نے صراحت کے ساتھ یہ کہہ دیا۔ کہ اب یہ امر لازمی ہے کہ بچوں کے بچپن کو غیر جمہوری قوتوں سے آزاد کیا جائے[23].

نتایجِ بحث:

اس بحث کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ اسلام میں انسانی حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور یہ کہ اسلام میں ایک انسان بحیثیت انسان قابلِ احترام اور انسانی حقوق کا مکمل حقدار ہے اور یہ حق اسلام نے انسانیت کو ساڑھے چودہ سو سال پہلے نوازا ہے ، اور ساتھ ساتھ ان حقوق کى ادائىگى کے حوالہ سے اىک مربوط مىکنزم متعارف کراىا ہے۔ عالمی مواثیق میں گو کہ انسانی حقوق کے حوالے کافی مثبت چیزیں موجود ہیں ، تاہم اسلام نے تمام حقوق کا احاطہ کیا ہے، اگر کوئی غیر مسلم مسلمان کے حقوق پامال کرے تو جواب میں مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ ان کے حقوق کو پامال کریں، کیونکہ بحیثیتِ مسلمان اسلام اس وقت بھی ہمیں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر انسان کے لیے حقوق ہوتے ہیں اور ان حقوق کے عوض ہر انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی اسلام نے عائد کر رکھی ہیں۔

اہم تجاویز :

اس بحث کے نتائج کی روشنی میں چند تجاویز پیشِ کی جاتی ہیں، جن پر مزید تحقیقی اور عملی کام کی اشد ضرورت ہے، تاکہ انسانی حقوق کے حوالے معاشرہ میں آگاہی پیدا کی جاسکے۔

  1. پاکستان کے تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق سے متعلقہ مواد کی جانچ پڑتال کے لیے ایک خصوصی نصابی کمیٹی تشکیل دی جائے اور نصاب میں شامل انسانی حقوق سے متعلقہ مواد میں کافی شافی حد تک اضافہ کیا جائے۔
  2. پاکستان کے جملہ مدارس کے منتظمین کو اعتماد میں لے کر مدارس کے نصاب میں انسانی حقوق سے متعلق نصاب سازی کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
  3. پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والے تمام پروگراموں کے لیے انسانی حقوق سے متعلق ایک منظم ضابطہ اخلاق وضع کیا جائے تاکہ نوجوان نسل کو تخریبی اور انتہاپسندانہ رویوں سے بچا کر انسانی حقوق سے متعلق آگاہی کو ترویج دی جائے۔
  4. انسانی حقوق سے متعلق آگاہی کے تناسب کی جانچ پڑتال کی غرض سے پاکستان میں ایک تحقیقی سروے کیا جائے، تاکہ اس کی روشنی میں آگے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے۔

 

References

  1. ==. ابن منظور، محمد بن مكرم - لسان العرب –دار المعارف، مصر 1989
  2. . البقرة:42
  3. الأسطل، إسماعيل- حقوق الانسان في الشريعة والقانون- الجامعة الإسلامية غزة ط61 ص15.
  4. الأسطل والمرجع السابق ص19.
  5. جريدة الرياض شمارہ نمبر -13/10/2003م.
  6. الزحيلي، وهبة- الفقه الإسلامي وأدلته 4/14، دار الصادر، بيروت، 1995
  7. درويش ، محمد فهيم ، الشرعية الدولية لحقوق الانسان بين سيادة السلطة وحكم القانون، القاهرة، 2007، ص ـ 5
  8. نبيل عبد الرحمن ناصر الدين، ضمانات حقوق الانسان وحمايتها وفقا للقانون الدولي والتشريع الدولي، الإسكندرية ، 2006، ص ، 9
  9. الدواليبي، محمد – الندوات العلمية حول الشريعة الإسلامية وحقوق الإنسان في الإسلام- الرياض مطابع العصر بدون ت ص91.
  10. الممتحنة: 8
  11. الدواليبي سابقہ مرجع ص93
  12. الزمر: 9
  13. الهيثمي، نور الدين علي بن أبي بكر، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ج1، ص326 –دار الفكر- بيروت 1412.
  14. القزويني، محمد بن يزيد. سنن ابن ماجه 1/228، دار الصادر، بيروت، لبنان، 1990
  15. البخاري، محمد إسماعيل ، صحيح البخاري 5/4795 تحقيق مصطفى البغا بيروت – ابن كثير، اليمامة ط3 1407.
  16. الدارمي، عبدالله بن عبدالرحمن أبو محمدو سنن الدارمي ج1 باب الفتيا وما فيه في الشدة تحقيق فؤاد أحمد زرملي وخالد السبع. ص72- - دار الكتاب العربي، بيروت ط1 1407هـ
  17. النساء 59
  18. الأعراف 74
  19. المحمصاني، صبحي – أركان حقوق الإنسان في الشريعة الإسلامية والقوانين الدولية الحديثة-
  20. http://www.un.org/en/documents/udhr/#atop
  21. النساء 59
  22. المائده: 27
  23. مجلة حقوق الإنسان الأوروبية – المجلد السادس 1973م ص479.
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...