Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے اقوام متحدہ کا کردار |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_603

Pages

203-226

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/101/94

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/101

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.


آزادی، خود مختاری، امن وسلامتی اور عدل وانصاف انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے۔اس خواہش کی تکمیل کے لئے بین االمذاہب ہم آہنگی کے ماحول کوسازگار بنانا ضروری ہے اور عادلانہ ومنصفانہ روش اورایک مثبت انداز ِ فکر وعمل اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ عالمی امن اور آشتی کے دعوؤں سے عالمی رائے عامہ کااعتمادحاصل نہیں کیاجاسکتا۔اس سلسلے میں بین المذاہب ہم آہنگی پیداکرنے کے لئے اقوام متحدہ کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس مقالے میں عالمی امن واستحکام کے لئے اس کے رول کا جائزہ لیا گیا ہے۔

زمانہٴ امن اور جنگ دونوں مىں قىامِ امن کى ضرورت کا احساس کىا گىا ہے تاکہ اقوام عالم کے درمیان معاملات کو سلجھایاجائے۔ اس مقصد کے لیے کئی مرتبہ اجتماعات منعقد ہوئے اور گفت و شنید کا آغازکیا گیا اور با لآخر 18مئی 1899ء کو ہیگ کا نفر نس منعقد ہوئی جس کا مقصد اول اور کوشش یہ تھی کہ حالات ِحرب و ضرب پر پابندی لگا دی جائے اور ساتھ ساتھ تنازعات میں ثالثی عدالت کا قىام عمل مىں لانا تھا۔ لیکن فی الوقت کامیابی نہیں ہوئی تاہم یہ سلسلہ جاری رہا ۔ىہاں تک کہ دوسری ہیگ کا نفرنس 15جون، 1907ء منعقد ہوئی جس میں غیر فوجی علاقوں پر بمباری نہ کر نے کی سفارش کی گئی اور بحری جنگ میں غیر جانبدار ممالک کے حقوق و فرائض بھی متعین کئے گئے اور ساتھ یہ کہ اس کانفرس کے نتیجے میں ایک ثالث عدالت بھی معرض و جود میں آئی۔

لیگ آف نیشن کا مقصدِ قیام

پہلی جنگی عظیم کے بعد (28اپریل 1919 ء کو) لیگ آف نیشن وجود میں آئی۔ اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ دنیا میں امن وانصاف قائم کیا جائے اور معاہدات کی پابندی پر کڑی نظر رکھی جائے ۔

قیام امن وانصاف بلا شبہ بہت ہی نیک خواہش ہے اور انسانوں میں یہ خواہش اور جنگوں سے نفرت ازل سے موجود ہے، تاہم لیگ آف نیشن کے ہوتے ہوئے اس خواہش کی دھجیاں اڑائی گئی اور دوسری جنگِ عظیم ہوئی جس کے نتیجے میں انسانیت تباہی سے دوچار ہوئی کیونکہ لیگ آف نیشن کے پاس ایسا کوئی اختیار اور قوت نافذہ نہیں تھی، جس کی بنیاد پر جنگ کو روکا جاسکے۔ اس وجہ سے جنیوا کنونش (29جولائی 1929) کو منعقد کی گئی لیکن یہ ساری کا وشیں ثمر آور نہیں ہوئیں اور جنگی قیدیوں اور زخمیوں کے ساتھ وہی ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کیا گیا اور ظاہر یہ ہوا کہ لیگ آف نیشن کا مقصد جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ایک عالمی نظام کا قیام تھا جس کو اقوام عالم طوعاً و کر ہاً اپنائیں ( 1)۔

چونکہ امریکی سامراج میں یہودی عنصر غالب ہے، جس کی سرشت متکبرانہ ہے جو سارے عالم کے حق میں ۔ انا ربکم الاعلٰی۔ کے زعم میں مبتلا ہے ۔ اس کے مقابلے میں کوئی قوم کسی شمار و قطار میں نہیں آتی۔ لہٰذا جب امریکی سینٹ میں لیگ آف نیشن کا بِل پیش ہوا تو اس کى چوتھائی اکثریت نے اس کو مسترد کر دیا اور اس طرح امریکی نظام پر حاوی یہودیوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کے لئے صہیونی (Leage of Nation)کو ختم کرانے کے بعد خاموش نہیں بیٹھے بلکہ انھوں نے پہلے سے ہی تیار کر دہ منصوبے کے مطابق اقوام متحدہ نے کے قیام کا فیصلہ کر لیا،تاکہ جو کام لیگ آف نیشن ان کے لئے نہیں کر سکی وہ اقوام متحدہ انجام دید ىا(2)۔

1941ء میں امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیراعظم چرچل نے ایک معاہدے کے ذریعے ایک عالمی نظام اوردائمی امن کی دعوت دی اور جنوری 1942ء میں 25حلیف ملکوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کئے۔اس وقت سے اقوام متحدہ کی تعبیر کااستعمال شروع ہوالیکن امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ کے بجائے اس ادارے کوحلیف ممالک سے تعبیر کیا۔امریکی صدر نے جون 1944ء میں امریکی عوام کے سامنے اس ادارے کے قیام کاباقاعدہ اعلان کردیا پھر 1945ء میں سان فرانسسکو میں اقوام متحدہ کے چارٹر کااعلان کیاگیاتو اس پر پچاس ملکوں نے دستخط کئے(3)۔

اقوام متحدہ کا قیام منشوراور اغراض و مقاصد

بظاہرظلم وجبر اور فساد کی روک تھام اور امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لئے L.Nکی جگہ 26جون1945ء کو اقوام متحدہ (United Nation Organization) کے چارٹر پر دستخط کئے گئے ۔اقوام متحدہ 24اکتوبر 1945ء کو معرضِ وجودآئی۔ یہ چارٹر 26 صفحات پر مشتمل ہے جس میں تنظیم کے بنیاد ی اصول ، مقاصد ، تنظیمی ڈھانچے اور طریق کار کی وضاحت درج ذیل ہے۔

1۔ آئندہ نسلوںکو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔

2۔قوموں کے باہمی تنا زع کو حل کر نے کیلئے بین الاقوامی قوا نین بنانا ، تنازعات کو ان قوانین کے ذریعے حل کر وانا اور مثبت طورپر ایسے اقدامات کرنا جن سے امن کو لا حق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے ۔

3۔انسانوں کے بنیادی حقوق کے بارے میں یقین و احترام کی فضاء پیدا کرنا اور رنگ ونسل ،زبان ومذہب اور جنس کی بنیادپر امتیازات کے بغیر انسانی حقوق کو تسلیم کروانا۔

4۔بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے مثبت اقدامات کرنا۔

5۔باہمی آزادی و خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اقوام عالم کے درمیان اچھے تعلقات ودوستی کا فروغ اور اقوام عالم کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مدا خلت سے روکنا(4)۔

اقوام متحدہ کے اصول(Principles of United Nations

منشور کی دفعہ 2کے تحت یہ تنظیم مندرجہ ذیل اصولوں کوبنیادی حیثیت دے گی:

1۔تمام اراکینِ تنظیم کوحاکمیت کی مساوات حاصل ہوگی۔

2۔ تمام رکن ممالک اپنے فرائض کوبخوبی سرانجام دے کر اپنے تنازعات کاپرامن حل تلاش کریں گے تاکہ امن عالم کوکوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔

3۔ تمام اراکین بىن الاقوامى قانون کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی ریاست کی علاقائی سالمیت اورسیاسی آزادی میں مداخلت کریں گے۔

4۔ تمام اراکین اس عالمی تنظیم کی ہر ممکن مدد کریں گے اور اس کے فیصلوں کونافذکرنے میں تعاون کریں گے۔

5۔ غیراراکین ریاستیں بھی منشور کے مطابق امن عالم کے قیام کے لئے کار روائی کریں گی۔

6۔ منشور کے مطابق انجمن اقوام کوکسی ریاست کے داخلی معاملات میں مداخلت کااختیار نہیں ہے(5)۔

اپنے وجود ( 1945ء ) سے لے کر تا حال اقوام عالم کے بڑے بڑے واقعات کے پیش نظر لیگ آف نیشنز والی بات اس پر بھی پوری پوری صادق آتی ہے کہ:

اس ادارے کے پاس بھی کوئی ایسا اختیار اور طاقت نہیں کہ جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی بڑی قوت سے اپنی بات منواس کے۔

اقوام متحدہ کے ادارے، ضرورت واہمیت اور اس کے بارے میں سکالروں کی آراء

اقوام متحدہ کے کئی ایک ادارے ہیں جن میں جنرل اسمبلی،سلامتی کونسل،معاشی ومعاشرتی کونسل، تولیتی کونسل، بین الاقوامی عدالت انصاف اور سیکرٹریٹ شامل ہیں(6)۔

اقوام متحدہ کے بارے میں سیکرٹری جنرل تمام ریکارڈ اپنے پاس رکھتاہے ،نیز امن عالم کوبرقرار رکھنے اور تنازعات کوحل کروانے کے لئے اس کاکردار مؤثر ہوتاہے(7)۔

The money Masters کے مصنفین (Bill Still& Patrick SJ Carmack) اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

اصولاً بین الاقوامی بینکوں اور UNOجیسے بین الاقوامی اداروں کاتصور غلط نہیں ہے بلکہ ان کے قیام سے انسانی بھلائی کے کاموں میںمدد لی جاسکتی ہے بشرطیکہ یہ ادارے دنیا کی کمزور قوموں پر اپنی حاکمیت مسلط کرکے انہیں اپناغلام نہ بنائیں ۔دنیا کی مختلف قوموں پر مشتمل ایک عالمی برادری کاقیام بلاشبہ وقت کی ضرورت ہے مگر جس طرح کسی معاشرے میں خاندان کی ایک اہمیت ہوتی ہے اسی طرح عالمی برادری میں شامل مختلف قوموں کواپنی تہذیب اور تمدن کی رو سے اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی خدمت انجام دینے کی آزادی اور سہولت میسر رہنی چاہئے۔اس کے برعکس بین الاقوامی بینکوں UNاور عالمی عدالت اور WTOجیسے اداروں کاموجودہ ڈھانچہ واضح طورپر پوری دنیا کوچند افراد کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی خاطر استوار کیاگیاہے لہٰذا بہتر تویہ ہے کہ ان اداروں کوسرے سے ختم کردیا جائے یاپھر ان میں بنیادی اصلاح کی جائے( 8)۔

The money Mastersکے یہی مصنفین ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

عالمی حکومت کی بجائے قومی حکومتیں قائم رکھیں تاکہ عام ضروریات پوری کرسکیں اوراپنی تاریخی اور تمدنی حیثیت برقراررکھ سکیں ۔جس طرح خاندانوں کو برقراررکھناضروری ہے اسی طرح قوموں کوبرقرار رکھنابھی ضروری ہے۔UNO،ورلڈ بینک اور ورلڈ کورٹ کویاتوختم کردیاجائے یاان کی اس طرح اصلاح کی جائے کہ وہ قوموں کی آزادی ختم کئے بغیرمفید کام کرسکیں (9) ۔

اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی میں وینزویلا کے صدر۔ہوگو شاویز۔نے 20ستمبر2006ء میں تقریر کرتے ہوئے دنیاکے حالات کی روشنی میں اقوام متحدہ کی تنظیم نوکی تجویز پیش کی تھی اور کہاتھاکہ عالمی تضادات سے مؤثر اور شفاف طریقے سے نمٹنا چاہئے۔ہمیں اقوام متحدہ کوکسی اور جگہ لے جاناچاہئے(10)۔

ایک پاکستانی کالم نگار(عنصر محمود بھٹی)نے شاویز کی رائے کی تائید یوں کرتاہے:

اسی طرح اقوام متحدہ کاصدر مقام امریکہ میں ہونے سے بھی کافی قباحتیں پیداہوئی ہیں۔ اسی طرح اس تنظیم کے مالی معاملات میں امریکہ کاعمل دخل بھی کئی بیماریوں کاباعث بناہے اور اس طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے انتخاب پر بھی امریکہ براہ راست اثرانداز ہوتاہے (11)۔

قانون بین الاقوامکے مصنف محمد اقبال خان نے مجلس اقوام(LN) اور اقوام متحدہ(UNO) کاتقابلی جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ اور اس کے دیگر اداروں کی کامیابی اور ناکامی پر ان الفاظ میں تبصرہ کیاہے:

" اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کا سیاسی اکھاڑا ہے ایسا بہت کم دیکھاگیاہے کہ کسی معاملہ کو حق وانصاف کی روشنی میں حل کیاگیا ہو بلکہ ہر معاملے کاتصفیہ سیاسی بنیادوں پر ہوتاہے ۔یہ ادارہ بھی دوگروہوں میں تقسیم ہے ایک روسی گروہ ہے اور دوسراامریکی و برطانوی "(12)۔

سلامتی کونسل کے کردار اور نمائندگی پر بحث کرتے ہوئے مصنف آگے لکھتاہے:

سلامتی کونسل میں نمائندگی مساوات کی بنیادپر نہیں ہے بلکہ نشستوں پر اینگلوامریکی گروہ کاغلبہ ہے ۔پانچ بڑی طاقتوں کوویٹو (حق استرداد) حاصل ہے ۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ چھوٹی اور کمزور طاقتوںپر ظلم وستم ہوتے ہیں۔حقوق انسانی پے د ر پے پامال کئے جاتے ہیں لیکن اقوام متحدہ بے بس اور لاچار کھڑی منہ تکتی رہتی ہے اور اس کاسدباب نہیں کرسکتی،برعکس اس کے جہاں دوبڑی طاقتوں کامسئلہ پیش ہوتاہے تو ساری اقوام متحدہ حرکت میں آجاتی ہے۔بناء بریں اس ادارے سے بھی امن وانصاف کی توقعات پوری نہیں ہوئیں(13)۔

امریکی دانشور روں اور وینزویلا کے صدر اور دیگر کے بیانات سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ ان عالمی اداروں نے تاحال انسانیت کے غموں اورپریشانیوں کامداوانہیں کیابلکہ ان کی پریشانیوں میں اضافہ کررہے ہیں چونکہ یہ ادارے اپنے مقصد وجود کھورہے ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ ان کے بوجھ سے چھٹکاراحاصل کیاجائے۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور قیامِ امن کا تعلق اور اقوام متحدہ کی خدمات

اقوام متحدہ کے دستورالعمل کی شق نمبر39کے مطابق سلامتی کونسل پر دنیا میں امن وامان قائم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان ہی کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر اس ملک میں دخل اندازی کرے جہاں امن وامان کوتہ وبالا کیاجارہاہواوراس بات کا فیصلہ بھی سلامتی کونسل کے پاس محفوظ ہے کہ وہ دخل اندازی میں طاقت کااستعمال کرے یانہ کرے۔(14) کیونکہ امن عالم کو برقرار رکھنے اور تنازعات کوحل کروانے کے لئے اس کاکردار مؤثر ہوتاہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی جو بین الاقوامی امن وسلامتی کیلئے ضروری ہے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے کوششوں کا جائزہ اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ 31اگست2000ء میں اقوام متحدہ کے دفتر میں بین المذاہب مکالمے کے لئے ایک بڑی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پوری دنیا سے مذہبی راہنماؤں اور افرادنے شرکت کی۔

2۔ 22جون 2005ء کوبین المذاہب مکالمہ کے لئے ایک کونسل تشکیل دی گئی جس نے ایک پیپر بھی شائع کیا۔اس کونسل کے چئیرمین ہیرو سکورائے(Hiro Sakurai) بنائے گئے ہیں جواقوام متحدہ میں مذہبی تنظیموں (NGO's) کے کونسل کے صدر بھی ہیں(15)۔

3۔ ستمبر2005ء کواقوام متحدہ میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس کاموضوع یہ تھا: Because God did not creat the universe for us to have religion (۱۶)

4۔ 12نومبر ، 2008ء ہی کو اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں ایک خصوصی دو رو زہ اجلاس منعقد کیا گیا تھاجس میں بین المذاہب ہم آہنگی کے مو ضوع پر مباحثہ ہوا(17)۔

5 ۔ اسی طرح 13نومبر 2008ء کو سپین میں بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سعودی عرب کے فرمانروا(شاہ عبداللہ)نے بھی شرکت کی(18)۔

6۔اسی سال 2008ء کے ایک سیمینار اور کانفرنس بین المذاہب مکالمے کے عنوان سے اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی منعقد کی گئی جس میں پوری دنیا سے مذہبی اور عالمی لیڈروں نے شرکت کی۔

7۔2009ء کا سا ل بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے لئے اہمیت کاحامل ہے کیونکہ اس سال اقوام متحدہ نے مختلف ممالک میں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے نمائندے مقررکئے تھے (19)۔

8۔26اپر یل 2010ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے زیر صدارت بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک کا نفرنس منعقد کی گئی جس کے اختتام پر سکالروں اورماہرىن نے اقوام متحدہ میں interreligious council کے قیام پر زوردار قرارداد منظور کی (20)

9 ۔24اکتوبر2010ء میں مذہبی انتہا پسندی سے پیدا شدہ مسائل کی صورتحال پر بحث کے لئے جنرل اسمبلی کااجلاس ہوا اور بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیاگیا اور یہ کہاگیا کہ اقوام متحدہ ہر سال قراردادیں پاس کرتی ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی(21)۔

10۔1تا7فروری2011ء مذہبی جارحیت اور انتہاپسندی کے خلاف بین المذاہب ہم آہنگی کاہفتہ منایاگیا جس کی سرپرستی اقوام متحدہ نے کی (22)۔

11۔اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی United religion initiativeکے نام سے ایک کونسل بنائی گئی تاکہ مذہبی شدت پسندی سے پیداشدہ مسائل کے حل کے لئے تمام مذاہب کے رہنمائوں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیاجاسکے۔

12۔اس سلسلے میں 18فروری2011ء کو مذکورہ کونسل کے زیر اہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کاہفتہ منائے جانے کا اعلان کیاگیا او ر اسی طرح 22تا28اکتوبر بھی اقوام متحدہ نے بین المذاہب ہم آہنگی کاہفتہ منانے کااعلان کیا تاکہ مذہبی انتہاپسندی کی حوصلہ شکنی کی جائے (23 )۔

13۔6مارچ 2001ء کو فلپائن کے شہر زمبینگو (Zimbango) میں اقوام متحدہ نے تمام مذاہب کے علماء اور رہنمائوں کی ایک کانفرنس منعقد کی تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کوفروغ دیاجائے۔

14۔دسمبر2011ء میں ایک بارپھر بین المذاہب ہم آہنگی کاہفتہ منایا گیا اور قطر کے شہر دوحہ (Doha)میں ایک کانفرنس کاانعقاد کیاگیا جس کی صدارت اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون نے کی اور امن اور برداشت کے لئے بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر زور دیا(24)۔

اس کے علاوہ بھی اقوام متحدہ نے کئی ایک مجالس ،کانفرنسیں ،سیمینارز ،بین المذاہب ہم آہنگی، انسانی حقوق، امن وسلامتی، برداشت اور مذہبی آزادی جیسے موضوعات پر منعقد کئے ہیں تاہم ان کاوشوں کے باجود عالمی طورپر امن روز بروز ناپید ہورہاہے اور سابقہ عالمی جنگوں جیسے غیر پسندیدہ بڑی لڑائی بھی نہیں لڑی گئی مگر انسان اس سے بھی زیادہ ہلاک ہورہے ہیں اورحقوق وقانون کی پامالیاں بھی زیادہ ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے خاص اداروں کے کردار کاخصوصی جائزہ درج ذیل اوراق میں لینے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ بدامنی اور پامالیٔ حقوق اور تشدد کی اصل وجوہات کیاہیں ۔

اقوامِ متحدہ اپنے مینڈیٹ کے آئینے میں

چونکہ اقوام متحدہ کوامریکی صدر روزویلٹ کے پروگرام کے تحت وجود میں لایاگیاہے اور سلامتی کونسل میں اگر چہ امریکہ کے علاوہ دوسرے بااختیار ممالک کی نمائندگی بھی شامل ہے تاہم اب تک کےUNOکے تاریخی تجزیہ سے پتہ چلتاہے کہ چلتی صرف امریکہ ہی کی ہے۔اپنے دستور کے مطابق اقوام متحدہ کودوسرے ممالک میں حالات کے مطابق دخل اندازی کامینڈیٹ دے دیاگیا ہے جوصرف امریکی مفادات کی دخل اندازی کامینڈیٹ بن کررہ گیاہے،جس کا جائزہ درج ذیل سطور میں پیش کر دیا گیا جارہاہے۔

1960ء میں افریقی ملک ۔کانگو۔کے سیاسی بحران کے دوران،اقوام متحدہ نے پہلی مرتبہ کسی ملک میں عسکری طورپر دخل اندازی کی،چنانچہ جب ۔چومبے۔ نے یہ اعلان کیاکہ کٹنگا کاصوبہ کانگو سے آزاد ہوکر رہے گا تو چومبے کوقتل کردیاگیا اور سلامتی کونسل نے پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی فوج کانگو بھیجنے کافیصلہ کیاجہاں نام نہاد ۔امن فوج۔ نے ہزاروں بے گناہوںکوقتل کیااور کٹنگاکے باشندوں پروحشت ناک مظالم کئے۔وہاں کے مواصلاتی مراکز کوتباہ کردیاگیاتاکہ بیرونی دنیاسے کوئی رابطہ قائم نہ ہونے پائے،ہسپتالوں اور اسکولوں کوبھی برباد کردیاگیا(25)۔

دوسری طرف طرفہ تماشا دیکھئے کہ 13فروری1975ء میں ترکی اور یونان کے درمیان جنگ کے دوران،یونان کے تین ہزار سے زائد افراد مار ے گئے کیونکہ یونان کی یہ تباہی امریکی مفادات کے مطابق تھی اسلئے انجمن اقوام متحدہ کی طرف سے ،جوامن کی پاسداری کے نام پر وجود میں آئی تھی ،کوئی دبائو نہیں ڈالاگیا(26)۔

اقوامِ متحدہ کے امن وانصاف اور حق وصداقت کے پیمانے اور معیارات دیکھئے کہ اقوام متحدہ میں امریکی صدر ٹرومین نے جوڑ توڑ سے تقسیم فلسطین کی قرارداد کے لئے دوتہائی ووٹوں کی کمی پوری کرادی جوناقابل عمل قراردیاگیاتھالیکن ابھی بحث جاری تھی کہ 14مئی1948ء کوبرطانیہ نے واشنگٹن ٹائم کے مطابق رات چھ بجے فلسطین سے دستکش ہونے کااعلان کیاجبکہ چھ بج کر ایک منٹ پر تل ابیب میں یہودیوں نے مملکت اسرائیل کااعلان کیا۔ دس منٹ بعد امریکہ اور پندرہ منٹ بعد روس نے اسے تسلیم کرلیاحالانکہ ابھی اقوام متحدہ نے یہودیوں کو ریاست قائم کرنے کامجاز نہیں بنایاتھا۔ اعلان کے وقت 6لاکھ سے زائد عرب بے گھر ہوچکے تھے اور یہودی اقوام متحدہ کی قرارداد کے برخلاف آدھے سے زیادہ بیت المقدس پر بھی قابض ہوچکے تھے(27)۔

لیکن اس کے باوجود اسے اقوام متحدہ کارکن بھی بنادیاگیااور اس وقت سے لیکر آج تک برطانیہ اور امریکہ اسرائیل کی سرپرستی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں(28)۔

بلکہ دونوں کے علاوہ اکثر مغربی ویورپی ممالک نے اسے ایک مضبوط ایٹمی ریاست بنانے میں بھرپور تعان کیاہے اور قوام متحدہ کی موجودگی میںروزبروز پھیلائو کے ساتھ ساتھ انسانی خون بھی چوس رہے ہیں اور اقوام عالم یہ تماشہ دیکھ بھی رہی ہے۔

امریکی دانشوروں (Bill Still $ Patrick SJ Carmack) نے صحیح کہاتھاکہ یہ بڑے عالمی ادارے اور عدالت انصاف چند افرادکے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں،ظلم وناانصافی اور جارحیت میں قانونی چارہ جوئی بہتر علاج ہے اور مناسب ذریعہ ہے مگر ایسی عدالتیں اب تک دنیامیں وجود میں نہیں آئیں جہاں طاقتور کے مقابلے میں کمزور کی شنوائی ہوسکے(29)۔

حالانکہ مستقل عدالت برائے بین الاقوامی انصاف اس لئے قائم کی گئی تھی تاکہ یہ بین الاقوامی تنازعات کوانصاف کی روشنی میں حل کرنے کے ساتھ ساتھ معاہدوں کی تشریح وتوضیح کی ذمہ داری بھی اداکرسکے۔

7دسمبر1975ء میں جب امریکی صدر فورڈ اور ان کے مشیر ہنری کسینجرنے تیمورنامی جزیرے کادورہ ختم کیاتو تین گھنٹے کے بعد ہی انڈونیشیائی فوج نے تیمور پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے دولاکھ کے درمیان افراد ہلاک ہوئے ،چونکہ یہ حملہ امریکی مفاد کے مطابق تھالہٰذا جب انڈونیشیا ئی حکومت کے خلاف پابندی لگانے پر اقوام متحدہ میں ووٹنگ ہوئی ،تو امریکہ نے حملہ آوروں کے حق میں ووٹ ڈالا جس سے انڈونیشیا کے حوصلے بڑھے اور جزیرے کے باشندوں پر نابالم بموں کی بارش کی، آسٹریلیا ئی پارلیمنٹ نے اس بحران کوایسی نسل کشی سے تعبیر کیا،جس کاارتکاب دوسری جنگ عظیم کے بعد کبھی نہیں کیاگیاتھا۔اسی وقت سے امریکی انتظامیہ کی طرف سے انڈونیشیا کی وقتاً فوقتاً اقتصادی امداد ہوتی رہی اور اربوں ڈالر انڈونیشیا کودیئے گئے، سابق صدر بل کلنٹن کے دور میں بھی 400ملین ڈالر دیئے گئے اور270ملین ڈالر کااسلحہ انڈونیشیا کوفروخت کیاگیالیکن جب انڈونیشیا کے ساتھ امریکہ کی ان بن ہوئی تو اسی تیمور جزیرے پر(جس پر امریکہ نے حملے کوجائز قراردیاتھا)انڈونیشیائی قبضے کونادرست قراردیاگیااور تیمور کے باشندوں کی بھرپور امدا د کی گئی،آخر کار اقوم متحدہ کے ذریعے تیمور میں ریفرنڈم کرانے کے بعد اس کوآزاد کرایاگیا(30)۔

دوسری طرف UNOمیں اسرائیل کے خلاف 700سے زائد قراردادیں پاس ہوچکی ہیں لیکن اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوا اس کے برعکس فلسطین اکیلاہوگیااور اس پر قبضہ ہوگیا۔ابھی امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پاس ہونے لگی توہم ویٹو کردیں گے(31)۔

ان ہی بے ضابطگیوں کی وجہ سے مغربی سکالر وںPaul T and Groom A.J.R led)) نے صحیح کہاہے:

اقوام متحدہ کے رول نے1980ء کے عشروں کے بعد پلٹا کھایاہے ۔لیگ آف نیشن کی طرح اقوام متحدہ کی Crediblity بھی اس وقت صفر ہوکے رہ گئی جب یہ ادارہ امریکہ ،یورپی یونین اور مستقل ممبران کے ہاتھوں بری طرح ہائی جیک ہوگیا (32)۔

امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اقوام متحدہ کی ناکامی کے حوالے سے ایک سکالر رقمطراز ہے:

نیٹو کاقیام1949ء میں ہوااور دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کاادارہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد قائم ہوا۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ نیٹو کے قیام سے پہلے ہی دنیامیں ایک ایسا ادارہ وجود میں آچکاتھا جوکہ بین الاقوامی تنازعات کوحل کرتا اور عالمی طاقت کے توازن کوبرقرار رکھتالیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس تنظیم نے اپنے مقاصد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔اگر یہ تنظیم صحیح طورپر اپنے فرائض انجام دیتی تو کسی اور تنظیم کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔سرد جنگ کے بعد ناکامی کی وجہ اس کاحق تنسیخ(Veto Power) نظرآتاہے جن ممالک کویہ حق حاصل ہے وہ اس تنظیم کوانصاف سے کام نہیں لینے دیتے۔

اقوام متحدہ اگر کسی مسئلے پر ایکشن لینے کافیصلہ کرتی بھی ہے تو کوئی نہ کوئی ویٹوپاور اسے منسوخ کروادیتی ہے یہاں پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والامحاورہ صادق آتاہے۔جس طرح نیٹو میں امریکہ حاوی نظرآتاہے بالکل اسی طرح اقوام متحدہ کے فیصلوں کادارومدار بھی امریکہ پر ہوتاہے ۔اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ سرد جنگ کے فوراً بعد امریکہ نے جب 1991ء میں عراق کے خلاف کارروائی کی تو وہ بالکل غیرقانونی تھی۔اس کارروائی کے لئے امریکہ نے دوسرے نیٹو رکن ممالک مثلاًفرانس ،برطانیہ ،جرمنی ،ترکی اور یونان پر دبائو ڈلا کہ وہ اس میں حصہ لیں(33)۔

لندن سے شائع ہونیوالے معروف اخبار گارڈین نے 17-11-1991کوعراق کے خلاف جنگ کے بارے میں یہ سرخی لگائیعظیم مغالطوں پر مبنی جنگ کالم نگار (رچرڈ فاک جوانٹرنیشنل لاء پرنس یونیورسٹی امریکہ میں پروفیسر ہیں) نے لکھا:

اقوام متحدہ کی طرف سے سخت ردعمل کایہ مطلب نہیں کہ اس نے امریکہ کوجنگ کرنے کااختیار دے دیاہے یاامریکہ کوپوری طرح کھیل کھیلنے کی چھٹی دے دی گئی ہے جیسا کہ اس کی طرف سے تاثر دیاجارہاہے ۔بہتر ہوگا کہ جنگ کی اجازت نہ دی جاتی ،سلامتی کونسل کو اس بحران میں شروع سے آخر تک ایک نگران کاکردار اداکرناچاہئے تھا۔یہ یقینا درست ہے کہ اقوام متحدہ نے امریکہ کواس بحران میں محدود مداخلت کامینڈیٹ دیاہے۔۔۔تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے دیئے گئے اس مینڈیٹ کے متعلق کئی اہم سوال ذہنوں میں کلبلارہے ہیں،آیا اقوام متحدہ اپنے چارٹر اور امن وانصاف کے ان مقاصد کی تکمیل میں واقعی مخلص ہے جن کے لئے اس کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔اس تشویش کے علاوہ یہ پریشان کن تاثر بھی پایاجاتاہے کہ اقوام متحدہ حقیقتاً امریکی خارجہ پالیسی کی آلہ کار بن کر رہ گئی ہے۔اس امر سے قطع نظر کہ خلیجی بحران کااونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے اس قضیہ میں اقوام متحدہ نے اپنی ساکھ کوپہلے ہی مشکوک بنالیاہے۔حقیقت میں جنگ چھیڑنے کا یہ اجازت نامہ اقوام متحدہ کے اس بنیادی مقصد سے سراسر متصادم ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کوجنگ کی تباہ کاریوں سے بچائے گی(34)۔

مقالہ نگار نے آگے چل کر اقوام متحدہ کے اس دوغلے پن کو بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ خلیجی بحران مشرق وسطیٰ کے استحکام کے لئے ایک فریب ہے ،فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرنے کاتو کیاذکر ہے۔واشنگٹن نے ان کے مطالبات پر غور کرنے کے لئے امن کانفرنس کی تجویز کو صرف ایک لفظLinkage کی بنا پر مسترد کردیا۔ اس کااصرار ہے کہ اس مسئلے کوکویت کے قضیہ سے وابستہ نہیں کیاجاسکتا،جب کہ امریکہ کواقوام متحدہ کی مشینری کے استعمال پر مکمل کنٹرول حاصل ہے جو اس ادارہ کی آزادانہ کارکردگی اور اس کے مستقبل کے لئے خوش آئندنہیں کیونکہ اب امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور اور اقوام متحدہ کی مالی امداد کرنے والا اہم ذریعہ ہے۔۔۔جبکہ مغرب نے اسرائیل فلسطین تنازعہ کی بابت سالہاسال سے غیرمتوان اپروچ کوسینے سے لگارکھاہے(35)۔

اس صورتحال کے پیش نظر یہ درست ہے کہ ایک ہی علاقے کے بارے میں اقوام متحدہ کامتضاد کرداریہ یقین دلادیتاہے کہ امن وامان کی حفاظت کے خاطروجود میں آنے والا یہ ادارہ صرف اور صرف امریکہ اور اس پر خفیہ حکومت کرنے والے یہودیوں کی خواہشات کوپوراکرتاہے،خواہ اس کے لئے بدامنی اور جنگ کے حالات ہی کیوں نہ پیداکرناپڑے(36)۔

مصنف نے آگے سلامتی کونسل کے کردار کویوں بیان کیاہے:

عراق کے بعد متفقہ طورپر سلامتی کونسل سے قرارداد منظور کراکے افغانستان کی طالبان حکومت پر چڑھائی کی گئی،انسانی تاریخ نے بدترین نسل کشی کامشاہدہ کیا، ہزاروں افراد(لاکھوں) کو موت کی نیند سلادیاگیا اور امریکہ کی پٹھو حکومت افغانستان پر مسلط کردی گئی(37)۔

اقوام متحدہ کے کردار کے حوالے سے ایک اور سکالر ( فیض احمد شہابی )لکھتاہے:

امریکہ کاایک الگ نیوورلڈ آرڈر ہے جس پر وہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے عمل پیراہے۔یہ امپریل ازم کے بجائے کیپیٹل ازم کابھیس بدلا ہوا ہے۔UNOاور اس کے ذیلی ادارے امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر کے پشت پر ہیں۔اب روس سمیت G-8بھی اس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے(38)۔

یوں تو اقوام متحدہ کے بہت سے ذیلی ادارے وجود میں آئے لیکن خاص طورپرUDHRکاتذکرہ ضروری ہے کیونکہ اس کاتعلق براہ راست انسانی حقوق سے ہےUniversal Declaration of Human Rightsاقوام متحدہ کاایک ایسا ادارہ ہے جس کی شقوں کے مطابق کسی بھی انسان کوچاہے وہ دنیامیں کہیں بھی ہو اس کاتعلق کسی بھی رنگ، مذہب،قوم یازبان سے ہو، اسے تمام طرح کی قومی آزادی اور حق خود ارادیت حاصل ہوگا اور اس ادارے کامقصد دنیا میں آزادی ،انصاف اور امن کوقائم رکھناہے(39)۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کیااقوام متحدہ اپنے ہی بنائے ہوئے قواعد وضوابط پر عمل پیراہے؟۔

اس کاجواب(بزبان حال اور قال) گوانتاناموبے کے فوجی لوہے کے پنجروں میں بند سیکڑوں دہشت گردوں کے وہ ٹی وی اخباری بیانات اور دوسرے انٹرویوز ہیں جوانہوں نے رہائی پانے کے بعد دیئے ہیں جس کی رو سے ان سے غیرانسانی سلوک کیاگیا ہے اور وہ ایسے سخت روحانی عذاب سے گزرے کہ فوجی اہل کار ان کے سامنے قرآن کریم پھینک کر اس پر پیشاب کیا کرتے۔شعائر اسلام کامذاق اڑاکر نمازیوں کے سامنے فحش جنسی حرکات میں لگ جاتے اور اس پر مستزاد یہ کہ دوران تفتیش نوجوانوں کی داڑھیوں پر خاتون فوجیوں کے مخصوص دنوں کی غلاظت مل دی جاتی اور قیدیوں کے پنجروں میں لگے کموڈوں کی غلاظت ایک ڈرم میں جمع ہو جاتی جس میں قرآن مجید بھی پھینک دیاجاتا(40)۔

حقوق نسواں کے حوالے سے اقوام متحدہ کاعجیب تماشاہے،ایک طرف خواتین کے حقوق کے نام پر بے شمار کانفرنسوں کاانعقاد کرتارہاہے اور جب کسی مسلمان ملک میں کوئی خاتون (مثلاً آسیہ بی بی جیسی) توہین رسالت یاکسی اور جرم کی مرتکب ہوجاتی ہے اور قانون کے شکنجے میں آجاتی ہے تو اقوام متحدہ اور ان کے حواری این جی اوز آسمان کوسرپر اٹھالیتے ہیں لیکن جب یہ حقوق ایک مظلوم اور بے کس وبے آسرا لکھی پڑھی مسلمان خاتون (ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسوں )کے ہوں تو ان کو بے گناہی کے باجود (2003ء تا2008ء) بغیرکسی ثبوت کے قید وبند کے بعد 86سال قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے ایسے میں نہ تو اقوام متحدہ کے انصاف وامن کے اداروں اور نہ کسی این جی اوز کے نمک خوروں نے کوئی زحمت گواراکی کیونکہ کسی بے فائدہ مظلوم کے لئے آواز بلند کرنے کے نتیجے میں ان کوکیاملے گا جبکہ دوسرے بے جا اور غلط پروپیگنڈا کرنے والے کیسوں میں ان کو بھاری فنڈز ملتے ہیں لہٰذا یہ شور اور پروپیگنڈا کسی کے حقوق کے لئے نہیں فنڈز اور ڈالر کے ہضم کرنے کے واسطے ہوتاہے ورنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی انسان ہے اور اس کے حقوق کا تقاضا ہے کہ خدمت کے یہ دعویدار اس کے لئے بھی آواز بلند کریں لیکن ایسانہیں ہوا۔

کیاانسانوں کوآہنی پنجروںمیں بندکرناانسانی حقوق کی خلاف ورزی میں نہیں آتا؟ ۔آیا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ذمہ داریوں میں یہ نہیں آتا کہ وہ کمزور انسانوں کے حقوق کی بھی پاسداری کرے اور کمزوروں کےاو پر ظلم وجبر کوروکے؟۔

اس تناظر میں یوسف الخبّاز کی نے صحیح کہاہے کہسلامتی کونسل ہی ہمیشہ سے سامراجی قوتوں کے مفاد میں کام کرتی ہے، اور بارہا ایسا ہواہے کہ اقوام متحدہ کواسلام دشمنوں نے استعمال کیاہے اور تیسری دنیاکے مفادات کے خلاف یہ ادارہ استعمال ہوتا رہا ہے(41)۔

اس تاریخی تجزیہ کی روشنی میں اگر یہ کہاجائے کہ اقوام متحدہ میں مفادات کی سیاست چلتی ہے تو غلط نہ ہوگا ۔کیونکہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کوویٹو کاجوحق حاصل ہے جو دراصل جنگل کے قانون کے زیادہ مشابہ ہے ،سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کویہ حق ملاہے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر کسی بھی قرارداد کومسترد کردے خواہ اس سے امن وسلامتی کاجنازہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔امریکہ نے 1970ء تا1990ء ویٹو کایہ حق غلط ،60مرتبہ استعمال کرکے اپنی مرضی دنیاپرمسلط کرنے کی کوشش کی ہے(42)۔

ڈارفور ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں چراگاہوں پر لڑائی کوئی انہونی بات نہیں تاہم یہاں امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کے مفادات تھے تو انسانی حقوق کی پامالی کاایک زبردست طوفان بدتمیزی کھڑاکرکے سوڈانی صدر عمر البشیر کومجرم قرار دیکر عالمی عدالت انصاف نے 4مارچ2009ء کوا ن کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے لیکن دوسری طرف ہندوستان میں پوری کی پوری بستیاں جلائی گئیں مثلاً احمد آباد،گجرات وغیرہ لیکن یہی ادارے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج انجمن اقوام متحدہ ہویاسلامتی کونسل ،ان کی حقیقت ایک خاموش تماشائی کی رہ گئی ہے ۔خلیجی جنگ کے بعد پابندیوں کے باعث عراق میں پانچ لاکھ بچوں کی ہلاکت،1986ء میں لبنان میں اسرائیل کے ذریعے 17500شہریوں کی تباہی ، 1996ء میںقانا' نامی ایمبولینس پر میزائل سے حملہ، امریکہ کے اتحادی اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا کامہاجر بستیوں میں قتل وغارت،لوٹ مار اور عصمت دری کابازار گرم کرنا،اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون کے اشاروں پر صابرہ اور شتیلہ کے مہاجر کیمپوں میں ہزاروں بے گناہوں کاقتل عام، چیچنیا، کوسوو،الجزائر،افغانستان،کشمیر وغیرہ میں لاکھوں مسلمانوں کی تہ تیغی اور برما کے روہنگیامسلمانوں کا بہیمانہ قتل اور اقوام متحدہ میں ظالموں کے خلاف کئی طرح کی قرارداد پاس نہ ہونا، اس ادارے کی فعالیت کومشکوک کرتی ہے(43)۔

لبنان کی تباہی کے بعد اقوام متحدہ کاجنرل سیکرٹری (سابقہ کوفی عنان 2006ء میں)حالات کاجائزہ لینے اور یہاں لبنان میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کے لئے دورے پر تھے کہ اسی وقت اس کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ حب الوطنی سے لبریز ترانوں کی دھن پر بلڈوزر ملبہ ہٹارہے تھے اور لوگوں کے ہاتھوں میںحسن نصراللہ کی تصویر والے کی چین تھے۔پریشان کن صورت اس وقت پیدا ہوئی جب ایک ادھیڑ عمر خاتون نے کوفی عنان کو پکار کرکہا کہ تم اور تمہاری اقوام متحدہ جہنم میں جائو اب یہاں تم کیالینے آئے ہو۔ کیا ہماری بربادی کاتماشادیکھنے آئے ہو،جب وہ تباہ شدہ عمارتوں کامعائنہ کرنے کے لئے اپنی گاڑی سے باہر آئے تو ہزاروں مشتعل عورتوں ، بچوں اور جوانوں نے انہیں برابھلاکہا اور ان پر فقرے کسے ۔لبنان کے اس بحران نے اقوام متحدہ کی پوزیشن کوکافی حد تک مشکوک بنادیا۔یہ تنظیم بنائی تو دنیا کے مسائل کوحل کرنے کے لئے گئی تھی لیکن اس وقت خود ایک مسئلہ بن چکی ہے (44)۔

سرب ظالموں نے پچیس ہزارمسلمانوں پر مشتمل سربرانیکا کاشہر دودنوں میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اور دیگر عالمی قوتوں کی موجودگی میں اس طرح خالی کیاکہ ایک اندازے کے مطابق اس کے چھ ہزار سے زائد مرد جن کی اکثریت 20سے 40 سال کی عمر پر مشتمل تھی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔اقوام متحدہ کے قائم کردہ پناہ گزین کیمپوںمیں مسلمانوں کے سر ہتھوڑوں سے کچل دیئے گئے ،پلوں کے اوپر اور دریا کے کناروں پر مسلمانوں کولٹاکر ذبح کردیاگیا۔ شہر کے بڑے بڑے تندوروں میں مسلمانوں کوزندہ جلایاگیامگر اقوم متحدہ ،سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف وغیرہ کے نام نہادوں کے دلوں میں انکے خلاف اقدام کرنے کے لئے حرکت پیدانہیں ہوئی(45)۔

غالباً مغربی دنیا کے اس جانبدارانہ رویے کودیکھ کر L.Nکے قیام کے وقت صحیح تجزیہ کرکے اقبال نے کہاتھا (فارسی اشعار کامفہوم )

چندکفن چوروں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک تنظیم بنالی

علامہ اقبال کے کہے ہوئے اشعار سچ ثابت ہوئے اور مفادپرستوںکی یہ یونین دوسری جنگ عظیم کوروکنے میں یکسر ناکام ہوگئی۔۔۔اور دوسری جنگ عظیم کی خاک سے اقوام متحدہ نے جنم لیا اور رکن ممالک نے کوشش کی کہ لیگ آف نیشنز کے تلخ تجربات کونہ دہرایاجائے اور اقوام متحدہ بڑی حد تک اس مقصد میں کامیاب بھی رہی ہے(46)۔لیکن اس کامیابی کا تذکرہ وہ ہے جوسابقہ اوراق میں گزرگیا۔نہ صرف علامہ اقبال بلکہ خود مغربی شنا سائوں نے بھی قیام امن، اور تخفیف اسلحہ کے اس دھوکے کوبھانپ لیاتھا ،اس سلسلے میںسیدمودودی نے 1899ء کے ہیگ کانفرنس میں شریک امریکی نمائندےمسٹر ہولس کاان کوششوں کے باب میں تبصرہ ان الفاظ میں نقل کیاہے۔

ہر شخص جوسادہ لوحی کی بناء پر تخفیف اسلحہ کی تجویزوں سے توقعات وابستہ کئے بیٹھاہے یایہ امید رکھتاہے کہ ایک بین الاقوامى عدالت عالیہ ایک بین الاقوامى پولیس کے ساتھ قائم ہوگی اور اس کے فیصلے دنیاپر نافذ کرائے جائیں گے اس کوآخر میں یقینا مایوس ہوناپڑے گا(47)۔

صرف یہی نہیں کہ جمعیت اقوام (LN) سے لوگ مایوس ہوگئے بلکہ آج یہی مایوسی اقوام متحدہ سے بھی پوری دنیامیں دیکھی جاسکتی ہے کہ مہذب قوانین جنگ اور اسیران جنگ کے تمام ضابطے جوموجودہ(بیسویں صدی) دور میں پامال ہوکر ہوامیں بکھیردیئے گئے اور عراق وافغانستان اور دنیاکے دیگر حصوں میں امریکی دہشت گردی کے نام سے گوانتاناموبے اور دیگر زندانوں میں مہذب انسانوں نے غیرمہذب انسانوں کے ساتھ جوکچھ کیااس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیاہے۔

امریکہ کی مخالفت کرنیوالے ممالک کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور امریکی حلیفوں کے سرپر ہاتھ رکھنے کی اسی دوہری سیاست نے اقوام متحدہ کے کردار کومشکوک اور ناقابل اعتبار بنادیااور دنیاکے سامنے یہ آشکارا کردیاہے کہ اقوام متحدہ امریکہ اور صیہونیوں کی غلام ہے، جوایک ایسی نیم حکومت کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کوکسی بھی ملک کے داخلی وخارجی معاملات میں دخل اندازی کامکمل حق ہے ،اب اس نیم حکومت کے عالمی حکومت بننے میں صرف اتنی دیرہے کہ مقامی حکومتوں کاخاتمہ کردیاجائے اور پوری دنیا میں اس ادارے کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کردیئے جائیں۔اسی حقیقت کی ترجمانی بطروس غالی نے یوںکی ہے:

اقوام متحدہ کاادارہ ایک طرح سے عالمی نظام حکومت کے قیام میں خشت اول کی حیثیت رکھتاہے (48)۔

اقوام متحدہ کے کردار کے نئی جہتوں کا جائزہ

گزشتہ واقعات کی روشنی میں اور موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں قوام متحدہ کے کردار کی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں،خود مغربی مفکرین اس تناظر میں کیاسوچتے ہیں ان کی ایک جھلک درج ذیل پیراوؤں میں مختصراً بیان کیاجاتاہے:

بعض مفکرین (49)کاخیال ہے کہ اقوام متحدہ کواس صورت میں کردار اداکرناپڑتاہے جہاں انتہائی درجے انسانی بحران یاکسی ریاست کی سیاسی اور انتظامی مشینری مشکل طورپر Collapsکرے اور اقوام متحدہ کوبطور سرپرستی (Trusteeship) یاپولیس مین کاکردار اداکرناپڑجائے۔اس قسم کی صورتحال نے UNOکوایک ریاستی تشکیل جسےStatehoodکہاجاسکتاہے ،دی ہے،چونکہ اقوام متحدہ کے اس Roleکوعملی شکل ترقی یافتہ اقوام ہی دے چکی ہے۔انہوں نے بحرانوں کوبعض اوقات حل کرنے کی بجائے علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کاذریعہ بنایا جس سے نہ صرف Statusکی اپنی خود مختاری مشکوک ہوگئی بلکہ انسانی حقوق بری طرح پامال کئے گئے (50)۔

1۔نمیبیا ،کمبوڈیا اور انگولا میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی انتخابات (51)۔

2۔اقوم متحدہ کی ٹیموں کی پاکستان میں Fair and Free Electoinsکے عمل کی نگرانی۔

3۔صدر صومالیہ میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی خوراک کی سپلائی بعد میں UNOمیرینز کا جنرل عدید کے خلاف نبردآزما ہونااور موغادیشو میں خون کی ہولی کھیلنا(52)۔امریکی ہوائی جہازوں نے موغادیشو پر القاعدہ کوبہانہ بناکر حملہ کیااور درپردہIslamic Courts Unionکی استیصال کررہے تھے۔یوگوسلاویہ کی جنگ میں اقوام متحدہ نے نیٹو کواپنے مسلح نمائندے کے طورپر کام کرنے کوکہا اور استعمال کرنااور کوسوو کی جنگ کوامریکہ نے مکمل طورپر اقوام متحدہ کے بغیر ہی لڑنے کافیصلہ کرلیااور بلاشرکت غیرے نیٹو کے استعمال کی راہ اختیار کی جس میں فرانس بھی شامل تھا(53) ۔

4۔IMFاور ورلڈبینک کاریاستوں میں آزادانہ طورپر Project Managementاور متعلقہ ریاست کوشامل نہ کرنا۔ اسی کی دہائی سے (1980ء میں) اقوام متحدہ کی پروردہ ایجنسیوں اور NGO,s کاترقیاتی کاموں کو انجام دینااور مقامی حکومتوں کی نگرانی سے انکار(54)۔

5۔ 1990ء میںUNDP،کاOfficialاورNon officialترقیاتی فنڈز کووصول کرنا لیکن اسے فلسطینیوں کے انتظام وانصرام کے لئے اپنی صوابدید اور ترجیحات سے صرف کرنااور کسی فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی کو قبول نہ کرنا۔

6۔ خلیجی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی انسپکشن ٹیم کاعراق کے کونے کونے کوچھان مارنااور ایٹمی ودیگر تباہی والے ہتھیار کوتلاش کرنالیکن اس کے باوجود عراق کوتباہی کے منہ میں دھکیلنا۔

7۔ خلیجی جنگ کے فوراً بعد عراق پر پہلے Oil Embargoاوراس کے بعد Oil for Foodکے لئے خوراک کی فراہمی اور نتیجتاً لاکھوں بچوں کی ہلاکتیں (جیساکہ گزرگیاہے) ۔

8۔برہان الدین ربانی کوبطور صدر افغانستان قبول کرناحالانکہ طالبان کے مقابلہ میں اس کی یہ حیثیت تھی کہ نہ ذاتی پوسٹل ایڈریس اور نہ کرسی صدارت کے لئے کوئی جگہ،جبکہ طالبان کوافغان عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں مثالی امن کے قیام ، پوست کاخاتمہ اور وار لارڈز کوغیرمسلح کرنے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت کو The Most brutal Ragime of the Worldقراردینا۔

9۔امریکہ اور NATOکا9/11کے واقعہ کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی ہدایت اور قرارداد کے بغیر عراق اور افغانستان میں حکومتوں کاتختہ دھڑام کرنا(55) اور "War and Terror" قراردینا،جسے اب بھی اقوام متحدہ کی درپردہ تائید حاصل ہے۔

10۔ حال ہی(ڈاکٹر مرسی کے حکومت کے آغاز) میں مصر میںجمہوریت کی طرف بڑھنے والی جمہوری اسلامی اور سیاسی قوتوں کے لئے مشکلات پیداکرنے والوںکی پشت پناہی اور فوجی حکمرانوں کی حکومت حوالگی میں لیت ولعل خاموشی اور درپردہ فساد وافتراق پھیلانے والی غیرسرکاری NGO,sکے دفاتر کے چھاپوں پر امریکی اور برطانوی حکومتوں کاغیرضروری واویلاکرنا، (56)۔

جبکہ اقوام متحدہ کے اپنے رجسٹرڈ ادارے موجودہیں ،آخر یہ غیرسرکاری ادارے کس مقصد کے لئے کام کررہے ہیں؟۔

تبصرہ

ان جیسی مثالوں اور واقعات وحالات کے پیش نظر اس کے علاوہ اور کیاکہاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ سیاسی عالمگیریت کے "Planning & Mangement"کاحصہ ہے۔اقوام متحدہ خود اور اس کی سپیشلائزڈ ایجنسیاں ،امریکہ اور یورپی یونین کے ہاتھوں یرغمال رہی ہے،بلکہ ان کے کرتوتوں کے لئے بعض اوقات (بلکہ اکثر اوقات) قانونی جواز فراہم کرتی رہی ہے مثال کے طورپر:

٭انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد(Human Assistance)

٭حکومتوں کی بحالی(Rehabilitation of Government)

٭امن فوج اور اس کاکردار(Peace Keeping Missions)

٭انسانی حقوق کاتحفظ اور اس کااطلاق(Human Rights & its Enforce ment)

٭ اسلحہ کاعدم پھیلاو(Arms Control)

اوران امور پر ترقی پذیر ممالک اور خصوصاً عالم اسلام کے ا ندر پچھلی نصف صدی سے جاری خون ریزی اور حق خودارادیت کی تحریکوں کومنطقی انجام تک پہنچانے اور کشمیر،فلسطین،چیچنیا،بوسنیا،عراق اور افغانستان وغیرہ کے سلگتے مسائل پر خاموش تماشائی کاکردار اداکررہاہے(57)۔

ایک طرف عراق وافغانستان میں خیالی ایٹمی اور جراثیمی ہتھیاروں کازبردست ڈھنڈورا پیٹاگیا اور اس بنیاد پر دونوں ممالک کو ہرقسم کے مہلک ہتھیاروں اور تباہی پھیلانے والے بموں سے کھنڈر بنادیا گیا اور لاکھوں بے گناہ انسان ان بموں،میزائلوں اور بھوک وافلاس سے ہلاک کئے گئے۔

صدام حسین اور ان کے ساتھیوں سمیت8لاکھ سے زائد عراقی اس عراق فریڈم امریکی وار میں ہلاک کئے گئے، جنگ کے باعث 47لاکھ لوگ بے گھر جبکہ پچاس لاکھ بچے یتیم ہوئے جبکہ امریکہ نے اس جنگ پر 20کھرب ڈالر پھینک دیئے،صرف عراق پر ماہانہ اوسطاً 6.2ارب ڈالر اڑاتا رہااور یہ بھی صرف عراق کوامن فراہم کرنے کے لئے جبکہ عراق سے انخلاء کے بعد بھی بموں اور دھماکوں کاسلسلہ جاری ہے(58)۔

جبکہ افغانستان کے مختلف انسانیت سوز واقعات میں انتہائی بے دردی ،سفاکی اور وحشیت سے انسانیت کوذلیل کرکے ہلاکت سے دوچار کردیاگیا،خواہ کنٹینروں میں دم گھٹنے سے ہزاروں اموات ہوں،قلعہ جنگی یا شبرغان جیل کے واقعات فاجعہ اور غیرانسانی کارروائیاں ہوں،صرف اس ایک کارروائی میں 600طالبان میںسے صرف 60زندہ بچ گئے اور دشت لیلیٰ میں کنٹینروں میں اجتماعی نسل کشی جیسے واقعات خود ایک مغربی معائنہ کار( (Bil' Hugland جوجنوری میں بوسٹن کے فنریشنر کے ساتھ شبرغان جیل کے حالات اور قیدیوں کی حالت زار دیکھنے گیاتھا)نے نہایت دردمندی سے بیان کئے ہیں(59)۔

پوراافغانستان لاشوں،ہڈیوں،مختلف انسانی اعضائ، اور انسانی باقیات و آثار عجائب گھر کی تصویر پیش کررہاہے ۔ یہ سب کچھ جہاں اقوام متحدہ کے مختلف دفاتر اور کارندے ہیں سے مخفی ہورہاہے ؟۔کیایہ ہے انسانی حقوق ،عزت واحترام اور آزادی اور امن وسلامتی اور ترقی کی کہانی جومہذب دنیاغیرمہذب انسانوں کے ساتھ روا رکھی ہوئی ہے(العیاذ باللہ)۔

جبکہ دوسری طرف ایٹمی ہتھیار ومہلکات کے کم کرنے کاڈھنڈورا پیٹنے والے خود اس سے آگے اور کیاکچھ کررہے ہیں۔

اسلام اخبار کاایک کالم نگار لکھتاہے:

امریکہ بہت بڑے ماسیوآرڈیننس ائیربلاسٹ بم(MOAB) مواب تیارکرچکاہے۔جسے بموں کی ماں بھی کہاجاتاہے ۔مواب 21ہزار پونڈ وزنی بم ہے جس میں9 ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مادہ ہوتاہے۔ مواب اتنابڑاہے کہ اسے کسی مال بردار طیارے کے ذریعے ہی فضا میں لے جانااور وہاں ہدف پر گرانا ممکن ہوسکے گا یہ ایک نفسیاتی بم ہے جوہولناک دھماکہ کے ذریعے دشمن کی صفوں میں دہشت پھیلائے گا۔

مواب کامقابلہ کرنے کے لئے روس نے بھی ایک بہت بڑا بم تیار کیاہے جواضافی قوت کاحامل تھرمیوبارک بم((A.T.B.I.P کہلاتاہے۔اسے بموں کے باپ کانام بھی دیاگیاہے۔روس کے ڈپٹی آرمڈ فورسز چیف آف سٹاف الیگزینڈر روکشن کے حوالے سے بتایاگیاہے کہ یہ ہر جاندار شے کوبھاپ بناکر اڑادے گا اور زمین میں 900فٹ نصف قطر کاگڑھاڈال دے گا (60)۔

علاوہ ازیں اس کالم میں کئی اور خطرناک قسم کے میزائل کاذکر بھی ہے جس کی 10منٹ میں رفتار600میل جبکہ بعض کی رفتار550میل فی گھنٹہ ہے لیکن اس سے کسی کوخطرہ نہیں ۔ایک طرف اپنے تحفظ میں غلیل اور پتھر سے مقابلہ کرنیوالا ہے جو دہشت گرد ہے جبکہ دوسری طرف میزائل،بم، جہاز اور ڈرون طیاروں سے حملہ کرنے والے ہیں جوکسی صورت دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ہیں۔

ڈاکٹرسلومی نے اقوام متحدہ کی پالیسی کے بارے میں دوبااثر امریکی پالیسی سازوں کارویہ ان الفاظ میں نقل کیاہے :

اقوام متحدہ کو ہمارے اس پیدائشی حق کی توثیق کرنی چاہئے کہ ہم نئے خطرات کابھی اپنے ہی زوردار طریقے سے دفاع کاحق رکھتے ہیں جتناکہ ہم پرانے خطرات کے دفاع کاحق رکھتے تھے۔۔۔اگر عالمی ادارہ ایسا نہ کرے تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ پر اس کی اتھارٹی مسترد کردینی چاہئے(61)۔

اقوام متحدہ کی توصیف وتنقید کو ملے جلے انداز میں ڈاکٹر سلومی یوں بیان کرتاہے :

اقوام متحدہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اور تیسری (سرد ) جنگ کے دوران اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود عالمی امن اور بین الاقوامی استحکام کوکسی نہ کسی حد تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہی،اس کی خامیوں میں سے ایک خامی یہ تھی کہ اس عرصے کے دوران علاقائی فوجی جھڑپوں میں براہ راست اور بالواسطہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دوسری جنگ عظیم کے دوران مارے جانے والوں کی کل تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔اس کاایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ امریکی دباؤ سے کبھی آزاد ہوسکی ،نہ اس کی خارجہ پالیسی کی راہ میں رکاوٹ بن سکی(62)۔

یہ اس شخص کی گواہی ہے جوخود اس معاشرے کاحصہ ہے لیکن بعض انسان ضمیر کی حق گوئی سے مجبور ہوتے ہیں ان میں ایک ڈاکٹر ایم اے سلومی بھی ہے جس نے NGO,sکوعالمی تیغ زن قراردیا۔کہتے ہیں:

ان پر کنٹرول کرناپڑے گا یاان کاکردار محدود کرناہوگا(63)۔

اقوام متحدہ کے دوہرے معیارات اور متعصبانہ رویے کی یہ حالت ہے کہ اگر اسرائیلی اپنے عقوبت خانوں میں بند فلسطینیوں پر بری طرح جسمانی تشدد کریں،جسموں کوسگریٹوں سے داغیں، گالی گلوچ کریں،دھمکیاں دیں ،کئی دنوں تک ان کے سروں کوڈھانپ کررکھ دیں، بھوکارکھیں، تابوت نماسیلوں میں بند کریں،جسم کوبل دے کر بیڑیاں ڈال دیں، جسم کے نازک حصوں پر ہر طرح اذیت ناک تشدد کریں،بجلی کے جھٹکے دیں،شکنجوں میں جکڑدیں،سونے نہ دیں اور کسی قسم کی طبی سہولت سے بھی محروم کریں۔ملاقاتی خواتین کی ہر طرح بے حرمتی کرکے ننگا کریں، ان سے چھیڑخانی بھی کریں، فحش اور غیرانسانی حرکتیں ان سے کریں۔ ان کے بچوں میں ایڈز زدہ خون کے انجکشن لگادیں اور کئی طرح سے فلسطینیوں کے انسانی واسلامی حقوق کوبری طرح پامال کردیں تو اقوام متحدہ اور ان جیسے بے ضمیر اداروں کے بس میں نہیں کہ وہ اسرائیل کے ان انسانیت سوز پامالی حقوق رویے کی مذمت کرسکے اور ان سے بازپرس کرکے اس کے خلاف کارروائی کرے(64)۔

حواشی وحوالہ جات

1۔www.un.org/doc/meetings/2005/22june2005.

2۔www.lighthousetrailsresearch.comhtmil.

3۔ www.voanews.com/english & www.acomonworld.com.

4۔. www.csmonito.com

5۔www.en.wikipedia.

6۔www.parliamentofrelegion.org.

7۔www.peacetoour.org.

8۔محمد ایوب خان ،کرنل (ر) ،ڈاکٹر،قرضوں کی جنگ،ص:48،49 ، انجمن خدَّام القرآن لاہور،2009ء۔

(ترجمہ:The Money Mosters by:Bill Still & Patrick SJ Carmack )

9۔ ایضاً ص: 44-43۔

10۔ ہفت روزہ ایشیا،ص: 13، 26اکتوبر تایکم نومبر2006ء۔

11۔عنصر محمود بھٹی، یورپی یونین نئی عالمی طاقت،ص: 369 ، عکاس پبلی کیشنز اسلام آباد،اگست2009ء۔

12۔خان ،محمد اقبال ، ایڈوکیٹ ، قانون بین الاقوام،ص: 115، منصور بک ہائوس لاہور، سن اشاعت ندارد۔

13۔ ایضاً۔

14۔قانون،بین الاقوام،ص: 99، 98۔

15۔ یاسر ندیم(مولانا):گلوبلائزیشن، ص: 139۔دارالاشاعت :کراچی۔ 2004ء ۔

16۔ایضاً،ص: 141،142۔

17۔ ندوی، نذر الحفیظ،مولانا، مغربی میڈیا اور اس کے اثرات،ص: 49،50، مجلس نشریات اسلام: کراچی۔2001ء۔

18۔ڈوگر،شاہد محمود،کون کیاہے؟ص: 360 ، ڈوگر پبلشرز لاہور، 2011ء ، ایضاً: قانون بین الاقوام،ص:107 ۔

19۔ قانون بین الاقوام،ص: 109۔

20۔ ایضاً،ص: 108۔

21۔ کون کیاہے؟ ص: 361۔

22۔ ایضاً۔

23۔ گلوبلائزیشن اور اسلام/143۔

24۔ مائیکل بگنن مارڈنٹ، امریکاالمستبدة،الولایات المتحدہ وسیاسة السیطرة علی العالم/26۔ ایحاد الکتاب العرب :دمشق ۔ 2001ء۔

25۔مغربی میڈیا/50۔

26۔گلوبلائزیشن اور اسلام،ص: 144۔

27۔ ملک ،امجدحیات ،نیوورلڈ آرڈر،ص: 244،245 ، نیو چوبرجی پارک لاہور،1991ء۔

28۔ سیال،عمرحیات عاصم ،ڈاکٹر،عالم اسلام خطرات وامکانات،ص: 70،ندوة العلم کراچی،جنوری2008ء۔

29۔ دیکھئے:قرضوںکی جنگ،ص: 49،52۔

30۔امریکاالمستبدہ، ص: 96۔

31۔ مفتی ابولبابہ، شاہ منصور، قبلہ اول کفار کے حصار میں،ص: 364۔ادارة الانوار: کراچی۔1428ھ ۔

32۔ Paul T and Groom A.J.R led, The United nation at the millennim, A detailed accound of UNO.

33۔ معار ف مجلہ تحقیق، ص: 77،78،ادارہ معارفِ اسلامی،کراچی،جنوری۔جون 2011ء۔

( بحوالہ Shah, Syed Imdad, Nato role in Europe and beyond :Implication for the Muslim World 2005-6.)

34۔ ساگر، طارق اسماعیل ،صیہونیت اور عالم اسلام،ص: 38،39 ، مکتبہ القریش: قذافی مارکیٹ لاہور۔1995ء۔

35۔ ایضاً، ص: 42،43۔

36۔ گلوبلائزیشن اور اسلام،ص: 145،146۔

37۔ ایضاً۔

38۔شہابی ،فیض احمد،عیسائی یہودیNGO,sگٹھ جوڑ،ص:23، ادارہ معارف اسلامی: لاہور۔2005ء ۔

(بحوالہ Imperial America : The Bush Assault on the world order, by John. )

39۔ Universal Declaration of Human Rights. www. Hrccr .org/doc/ universal_md Dcl.html

40۔ ترجمان القرآن، ص: 34،35،جون2005ء۔

41۔ ترجمان القرآن، ص: 78،79، فروری2008ء۔

42۔ گلوبلائزیشن اور اسلام، ص : 148۔

43۔ ترجمان القرآن، ص: 62،63جون2005ء۔

44۔ ایشیاء ص: 7 ، 21تا13دسمبر2006ء۔

45۔ تفصیلا ت کے لئے دیکھئے:راقم الحروف کامقالہ :عصر حاضر اوربین المذاہب ہم آہنگی: برائے پی ایچ ڈی،شعبہ اسلامیات، نمل،2012ء ، ص: 282 ۔

46۔ عنصر محمود بھٹی ،نئی عالمی طاقت، ص: 367۔

47۔ مودودی ،ابوالاعلیٰ(سید)، الجہاد فی الاسلام، ص: 488، ادارہ ترجمان القرآن: لاہور،2007ء۔

(بحوالہ ٹائمز ،مورخہ یکم اگست1999ء)۔

48۔ بطرس غالی،عالمی حکومت ،مطبوعہ1997ء،مغربی میڈیا،ص: 85 ، گلوبلائزیشن،ص: 199۔

49۔ مثلاً Hertz J.H & Paul : َ

50۔ Paul T.The U.N & Intervention with in states P :10-13, Hortz J.H, Globalization of politics, P: 347-352.

51۔ As per article 2(7) of the UN chapter, which authori UN to intervence in any state on place of humanitarian Assistance. A highly constrovercial articale.

52News, Jan 10,2007.

53۔ شاہد سجاد،روزنامہ اوصاف(آف سنڈے میگزین) 6اپریل 2003ء۔

54۔Pane T. Justice with in states, P: 18.

55۔ As a "Regime change US & US direct forcible intervention with in states.

56۔ روزنامہ اسلام،کراچی،دسمبر2001ء۔

57۔ مقدس اللہ،عالمگیریت اسلامی تناظر میں،ص: 217،218،پی ایچ ڈی ،مقالہ :جامعہ پشاور،جون2007ء۔

58۔ دیکھئے:روزنامہ اسلام،21دسمبر2011ء۔

59۔ امریکہ ،دنیاکاسب سے بڑادہشت گرد،ص: 261-238۔

60۔ روزنامہ اسلام، 5 جنوری2012ء۔

61۔ Balantinc books, 2004. David Frum & Richard Perle, an End to Evil, P: 233,

62۔سلومی،ایم اے(ڈاکٹر)، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے معصوم شکار،ص:45۔مترجم:محمدیحییٰ خان۔،نگارشات ،پبلشرز: لاہور۔2008ء۔

63۔ ایضاً، ص: 32۔

64۔تفصیلات کے لئے دیکھئے:محمد متین خالد،حقوق انسانی کی آڑ میں،ص:124تا127، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان،2003ء۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...