Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

بیوی کے نفقے کاقضیہ: شرعی اور عصری (پاکستانی) قوانین کے تناظر میں ایک علمی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060034497_604

Pages

55-67

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/24/17

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/24

Subjects

Contract Compromise Maintenance Provision contract compromise maintenance provision.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلامی نقطہ نظر سے نکاح ایک ایسا عقد ہے جس کے نتیجے میں میاں بیوی کے باہمی حقوق ثابت ہوتے ہیں ۔بیوی کے حقوق میں سے ایک حق اس کی کفالت اور نان نفقہ کی فراہمی بھی ہے ۔بیوی اپنے خاندان کو چھوڑ کر خاوند کے ساتھ جینے کا عہد وپیمان کرکے ہر نوع کی مالی ذمہ داری سے مبراہوجاتی ہے ۔اگر ایک طرف بیوی اپنے گھر بار کی قربانی دے کر ایک اجنبی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا بار گراں اٹھائے اور دوسری جانب اسے کھانے کمانے کا ازخود بندوبست کرنے کا پابند رکھاجائے تو ایسا کرنا انصاف پر مبنی نہ ہوگا ۔اسی لیے اسلام نے جو خاندانی ضابطہ پیش کیا ہے اس کی روسےمرد اپنی بیوی کے جملہ کفالتی حقوق ادا کرنے کا قانونًا اور اخلاقًا ذمہ دار ہے۔ اس ضابطے کے تحت بیوی یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے نفقہ کا مطالبہ کرے اور اس حق کی وصولیابی کے لیے بوقت ضرورت قانونی راستہ اپنا ئے ۔زیر نظر مضمون میں اسلامی قوانین کے اندر موجود بیوی کے حق کفالت کا ثبوت اور سقوط تحقیقی انداز میں پیش کرکے عصری قوانین کے ساتھ اس کا تقابل کیا گیا ہے جس سے مذکورہ مسئلے کی جملہ جہتیں واضح ہوکر قارئین کو مفید معلومات فراہم ہوں گی ۔زیر نظر موضوع پر تبصرہ سے قبل مناسب ہے کہ بیوی کے نفقے کا مفہوم واضح کیا جائے ۔

نفقہ کا مفہوم

لفظ نفقہ نفق ینفق (باب نصر)سے اسم مصدر کا صیغہ ہے جس کی جمع نفاق اور نفقات آتی ہے۔عرب کہتے ہیں:

"نفقت الدراهم نفقا ای نفدت" "دراہم نفقہ ہوگئے یعنی خرچ ہوکر ختم ہوگئے ۔"

اسی طرح کہتے ہیں: "نفق الشيء نفقا ای فني." "چیز ختم یا فنا ہوگئی [1]۔"

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں : "النَّفَقَةُ اسمٌ لما يُنْفَقُ[2]""نفقہ اس چیز کا نام ہے جس کو خرچ کیا جاتا ہے ۔"

استدلال میں قران مجید کی یہ آیت پیش کرتےہیں: "وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ[3]""جو چیز تم خرچ کرتے ہو۔"

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ نفقہ میں لغتًا کسی چیز کے فنا ہونے یا خرچ ہونے کا معنی پایا جاتا ہے ۔

علامہ عبدالرحمٰن الجزیری نے نفقہ کی تعریف اس طرح کی ہے:

"فهو إخراج الشخص مؤنة من تجب عليه نفقته من خبز وأدم وكسوة ومسكن ونحو ذلك[4]" "کسی شخص کا اپنے زیر کفالت افراد کے مالی واجبات سے عہدہ برا ہونا ہے جس میں خوارک، پوشاک اور رہائش وغیرہ کی فراہمی شامل ہے۔"

بیوی کو نفقہ کی فراہمی کا ثبوت

شریعت کے مصادرمیں زوجہ کو نفقہ کی فراہمی ایک معلوم اور متفق علیہ مسئلہ ہے ۔جو شریعت کے اصلی مصادر سے ثابت ہے تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو ۔

قرآن مجید سے ثبوت

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ[5] "بچے کے والد پر دستور کے مطابق بیویوں کو نان نفقہ اور پوشاک دیناواجب ہے ۔"

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ[6] "چاہیے کہ مالدار اپنی وسعت کے مطابق اپنی بیوی پر خرچ کرے اور جس کی رزق میں تنگی ہے تووہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئےمال میں سے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے ۔"

مذکورہ آیتوں کےسیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تذکرہ دوران عدت نفقہ کا ہورہا ہے کہ اسی حالت میں عورت کے لیے نفقہ ثابت ہے تاہم اس سے بوجہ دلالت نص منکوحہ کے لیے نفقہ کا وجوب خود بخود معلوم ہوتا ہے ۔

خداوند قدوس نے مرد کوخاندان کانگران بنایا ہے جس کا سبب من جملہ دوسرے اسباب کے عورتوں کی کفالت کرنا بھی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

"الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ[7]" "مرد عورتوں کے اوپر نگران ہیں اسی وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس وجہ سے کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں ۔"

سنت رسول ﷺ سے ثبوت

احادیث نبویہ میں بھی بیوی کے گھریلو اخراجات مرد کے ذمے لازم ٹھہرائے گئے ہیں ۔حجۃ الوادع کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّة و َكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ[8] "اور ان بیویوں کا تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ تم اچھے طریقے سے ان کےخوراک اور لباس کا انتظام کرو۔"

اسی طرح ارشاد فرمایا: والرجل راع على أهل بيته ومسئول عنهم[9]" "اور مرد اپنے اہل وعیال کا نگہبان ہے اور اس بارے میں اس سے پوچھا جائے گا ۔"

بیوی کے لیے حق نفقہ کی حیثیت رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے جس میں آپ علیہ السلام نے ابوسفیان ؓ کی زوجہ کو یہ اجازت مرحمت فرمائی :

خذي ما يكفيك وولدك، بالمعروف[10]"ابوسفیان کے مال میں سے تم اتنا لے سکتی ہو جو تمہارے اور تمہارے بچے کے لیے معروف طریقے کے مطابق کافی ہوسکتا ہو ۔"

علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں :

"وَفِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى وُجُوبِ النَّفَقَةِ لَهَا عَلَى زَوْجِهَا[11]" حدیث مذکورہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ نفقہ مرد پر واجب ہے۔

علامہ ابوبکر کاسانی ؒ فرماتے ہیں :

" یہ حدیث نفقہ کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ آپ علیہ السلام نے ابوسفیانؓ کی زوجہ کو بغیر اس کی اجازت کے بقدر ضرورت لینے کااذن فرمایا ۔عبارت مع ترجمہ ملاحظہ ہو:

ولو لم تكن النفقة واجبة؛ لم يحتمل أن يأذن لها بالأخذ من غير إذنه[12]

"اگر نفقہ واجب نہ ہوتا تو اس کا احتمال نہ ہوتا کہ آپ علیہ السلام اسے بلا اجازت لینے کا حکم فرمائیں ۔"

آپ علیہ السلام نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مرد اپنے صدقے کی ابتداء اپنے زیر کفالت افراد ہی سے کرے چنانچہ ارشاد فرمایا :

"وابدأ بمن تعول[13]""اور ان لوگوں سے ابتداء کرو جس کی تم کفالت کرتے ہو ۔"

اس کے برعکس آپ علیہ السلام نے ایسا کرنا بڑ ا جرم بتایا ہے کہ آدمی اپنے اہل وعیال کا نان نفقہ روک کر انہیں فاقوں میں دھکیل دے ۔ارشاد نبوی ہے :

كفى بالمرء إثما أن يحبس، عمن يملك قوته[14] "کسی شخص کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ بس ہے کہ وہ اپنے ماتحت افراد کی روزی روک دے ۔"

ایک صحابی نے جب اپنے تمام مال کو صدقہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ علیہ السلام نے صرف تہائی مال میں اس کو اجازت دے دی اور فرمایا :

"إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس[15]" "آپ اپنے ورثاء کو اس حالت میں چھوڑ دیں کہ وہ آسودہ حال ہوں یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ دو جو لوگوں سے بھیک مانگنے پر مجبور ہوں ۔"

اجماع امت سے ثبوت

علامہ ابن قدامہ نے نفقہ کے وجوب پر اجماع نقل کیا ہے ۔فرماتے ہیں : "فَاتَّفَقَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى وُجُوبِ نَفَقَاتِ الزَّوْجَات عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ[16]" "اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ شوہروں پر بیویوں کا نان نفقہ واجب ہے ۔"

وجوب نفقہ کے اسباب

فقہاء نے نفقہ کے وجوب کے تین اسباب بیان کیے ہیں ۔علامہ عبدالرحمٰن الجزیری فرماتے ہیں :

"وأما أسباب وجوبها فثلاثة الزوجية والقرابة والملك[17]""نفقہ کے واجب ہونے کے تین اسباب ہیں۔ زوجیت ( نکاح )،قرابت (رشتہ داری )اورملکیت ۔"

چوں کہ زیر مطالعہ مضمون کا تعلق زوجہ کے نفقے سے ہے اس لیے پہلی قسم پر تبصرہ شامل ہوگا ۔

احناف کا موقف

احناف کے نزدیک عورت کے لیے اس وقت نفقہ ثابت ہے جب صحیح نکاح کے ساتھ مرد کے عقد میں آئی ہو اور مرد کے ساتھ رہنے پر رضامند ہو۔امام ابوبکر کاسانی نے فرمایا ہے :

"سبب وجوبها استحقاقا لحبس الثابت بالنكاح للزوج عليها[18]" "نفقہ کے وجوب کا سبب نکاح کے ضمن میں ثابت شدہ استحقاق حبس ہے جو مرد کو عورت پر حاصل ہوتا ہے ۔"

اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے نتیجے میں عورت مرد کے گھر آکر بسنے پر رضامند ی اختیار کرلیتی ہے جس کو استحقاق حبس (ٹھہرانے کا حق ) کہتے ہیں جو مرد کو عورت پر حاصل ہوجاتا ہے ۔

شوافع کی رائے

شوافع کی رائے بھی احناف جیسی ہے ۔ان کے ہاں بھی نفقہ کا سبب وجوب عورت کا مرد کے لیے تسلیم نفس اور حق استمتاع سونپنا ہے ۔امام شافعیؒ اپنی مشہور کتاب الام میں فرماتے ہیں :

"وَيُنْفِقُ عَلَى امْرَأَتِهِ غَنِيَّةً كَانَتْ أَوْ فَقِيرَةً بِحَبْسِهَا عَلَى نَفْسِهِ لِلِاسْتِمْتَاعِ بِهَا[19]" "اور مرد عورت پر خرچ کرے گا خواہ وہ عورت مالدار ہو یا نادار بسبب اس پابندی کے جو عورت نے مرد کو فائدہ حاصل کرنے کے لیے اختیار کرلی ہے ۔"

مالکیہ کا نقطہ نظر

فقہ مالکی کے مشہورعالم علامہ ابن رشدنے امام مالک کی رائے نقل کی ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے: "عورت نفقہ کی حقدار اس وقت بنتی ہے جب نکاح کا مقصد پورا ہو جس کے لیے مردوعورت کا بالغ ہونا ضروری ہے[20] ۔"

اس موقف کے مطابق نابالغ اور مریض عورت کے لیے حق نفقہ ثابت نہیں ہے ۔

حنابلہ کا استدلا ل

حنابلہ کا موقف بھی قریب قریب دوسرے فقہاء جیسا ہے ۔فرماتے ہیں :

"أَنَّ الْمَرْأَةَ مَحْبُوسَةٌ عَلَى الزَّوْجِ، يَمْنَعُهَا مِنْ التَّصَرُّفِ وَالِاكْتِسَابِ، فَلَا بُدَّ مِنْ أَنْ يُنْفِقَ عَلَيْهَا، كَالْعَبْدِ مَعَ سَيِّدِهِ[21]."

"عورت مرد کے ساتھ پابند ہے جس کی بنا پرہر قسم تصرف اور کسب وکار سے رکی ہوئی ہے تو ضروری ہے کہ اس پر خرچ کیاجائے جس طرح ایک نوکر اپنے مالک کے ساتھ رہتاہے ۔"

اہل ظواہر کا قول

ان کی رائے کے مطابق ہر قسم کی عورت کے لیے نفقہ ثابت ہوتا ہے خواہ اس سے مقاصد نکاح پورے ہوچکے ہوں یا نہیں۔امام ابن حزم فرماتے ہیں :

"وَيُنْفِقُ الرَّجُلُ عَلَى امْرَأَتِهِ مِنْ حِينِ يَعْقِدُ نِكَاحَهَا دُعِيَ إلَى الْبِنَاءِ أَوْ لَمْ يُدْعَ[22]" "اور مرد اپنی بیوی پر خرچ کرے گا جب اس سے نکاح ہوچکا ہو خواہ خلوت ہوچکا ہو یا نہیں ۔"

نفقہ کی نوعیت

نفقہ میں مندرجہ ذیل اشیاء شامل ہیں ۔

خوراک

اس میں بیوی کو کھانا کھلانا یا اس کی قیمت دینا شامل ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ[23] "بچے کے والد پر دستور کے مطابق بیویوں کو نان نفقہ اور پوشاک دیناواجب ہے ۔"

تفسیر قرطبی میں لکھا ہے :

"الرزق في هذا الحكم الطعام الكافي[24]" "اس قرانی حکم میں رزق سے مراد اتنی خوراک ہے جو عورت کے لیے کافی ہوسکتی ہو۔"

لباس

عورت کو اتنا لباس فراہم کرنا ضروری ہے جو عرفًااورشرعًا اس کے پہننے کی ضرورت پوری کرے ۔

رہائش

عورت کے لیے رہائش کا بندوبست کرنا بھی نفقہ میں شامل ہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

"أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ[25]" "عورتوں کواپنی حیثیت کے مطابق اس جگہ بساؤ جہاں تم خود بستے ہو اور انہیں ضرر مت پہنچاؤ تاکہ تم انہیں تنگی میں ڈالو۔ "

امام ابوبکر کاسانی ؒ فرماتے ہیں :

"والأمر بالإسكان أمر بالإنفاق لأنها لا تصل إلى النفقة إلا بالخروج والاكتساب[26]"

"سکونت دلوانے کا حکم درحقیقت نفقہ دلوانا ہے کیوں کہ وہ نفقہ کو حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے گی اور کام کاج کرے گی (چوں کہ کام کاج سے اسے مبرا کردیا گیا لہٰذاگھر کے اندر سکونت پذیر ہونے کے ناطے خاوند اس کے نفقے کا بندوبست کرے گا)۔"

مزید فرماتے ہیں :

"وقوله عز وجل ولا تضاروهن لتضيقوا عليهن أي لا تضاروهن في الإنفاق عليهن فتضيقوا عليهن النفقة فيخرجن أو لا تضاروهن في المسكن فتدخلوا عليهن من غير استئذان فتضيقوا عليهن المسكن فيخرجن[27]"

"اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ انہیں ضرر مت پہنچاؤ تاکہ تم انہیں تنگی میں ڈالوکا مطلب یہ ہے کہ انفاق کے حوالے سے انہیں تنگی میں مبتلا نہ کرو کہ اس کا نان نفقہ روک کر انہیں نکلنےپر مجبور کرو یا ان کی سکونت میں تنگی پیدا کرو اور وہ نکلنے کے لیے مجبور ہوں ۔"

نفقہ کی مقدار

نفقہ کی ادائیگی وقت اور حالت کے تابع ہے جس کی مقدار متعین نہیں ہے ۔شریعت کے مصادر

میں اس حوالے سے جو وضاحت موجود ہے اس کے مطابق نفقہ کی ادائیگی میں عرف وعادت کو بنیا د بنایا جائے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ[28] "بچے کے والد پر دستور کے مطابق بیویوں کو نان نفقہ اور پوشاک دیناواجب ہے ۔"

مندرجہ بالا قرآنی آیتوں مىں معروف کا ایک مطلب امام قرطبی نےاس طرح ذکر کیا ہے :

"أي بالمتعارف في عرف الشرع من غير تفريط ولا إفراط[29]" "یعنی وہ جو عرف شرع میں متعارف ہو اور اس میں کوئی افراط وتفریط نہ ہو ۔"

نفقہ مرد کےاوپر دو طریقوں سے لازم ہوسکتا ہے جس میں ایک قضاء یعنی فیصلہ ہے اور دوسرا رضامندی ہے۔

فقہ حنفی کی مشہور کتاب الدر المختار میں لکھا ہے : والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا[30] "نفقہ کا تعین حاکم کے فیصلہ یا باہمی رضامندی سےہوسکتا ہے ۔"

چوں کہ وقتاً فوقتاً ادائیگی اور حساب کتاب کرنے میں تنگی ہے ۔اسی لیے فقہاء نے ماہ بماہ ادا کرنے کو ترجیح دی ہے,فرماتے ہیں :

ويفرض لهانفقةكل شهروتسلم إليها[31]"اور نفقہ ما ہانہ حساب سے عورت کو اداء کیا جائے گا۔"

نفقہ کے وجوب کا انحصار

نفقہ دلوانے میں زوجین میں سے کس کی مالی حیثیت کو بنیاد بنایاجائے گا شوہر یا بیوی ؟اس حوالے سے قرآن وسنت سے قریب تر رائے یہ ہے کہ اس میں مرد کی مالی حیثیت پر انحصار ہو۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

"لينفق ذو سعة من سعته ومن قدر عليه رزقه فلينفق مما آتاه الله[32]" "چاہیے کہ مالدار اپنی حیثیت کے مطابق اور جس کی روزی تنگ ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے میں سےخرچ کرے۔ "

نفقہ دینے میں زوج کے حال کو دیکھا جائے گا۔اگر وہ صاحب وسعت ہے تو اپنی فراخی کے مطابق خرچہ دے گا ۔تنگ دست ہونے کی صورت میں اپنی استطاعت کے برابر نفقہ فراہم کرے گا ۔اس میں اسراف اور بخل سے کام نہیں لے گا اور میانہ روی پر عمل کرے گا ۔جیسا کہ فرماتے ہیں :

وهومقدربكفايتهابلاتقتير ولا إسراف[33] "نفقہ اتنا مقرر کیا جائے گا جس سے عورت کی کفایت ہوسکے بغیر کسی بخل اور اسراف کے ۔"

نفقہ کی عطائیگی میں کوتاہی

حق واجب ہونے کے ناطے بیوی کے نان نفقہ سے پہلو تہی کرنا بڑا ظلم ہے ۔نان نفقہ مرد کےذمے بیوی کا قرض ہے جو ثابت ہونے پر بہر صورت واجب الاداء ہے:

"وَمَنْ مَنَعَ النَّفَقَةَ وَالْكِسْوَةَ وَهُوَ قَادِرٌ عَلَيْهَا فَسَوَاءٌ كَانَ غَائِبًاأَوْحَاضِرًا هُوَ دَيْنٌ فِي ذِمَّتِه يُؤْخَذُ مِنْهُ أَبَدًا وَيَقْضِي لَهَا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ مَوْتِهِ وَمِنْ رَأْسِ مَالِهِ يُضْرَبُ بِهِ مَعَ الْغُرَمَاءِ لِأَنَّهُ حَقٌّ لَهَا فَهُوَ دَيْنٌ قِبَلَهُ[34]."

"اور جس کسی نے بیوی کا نفقہ روک دیا اور وہ اس کے دلونے پر قادر تھا تو وہ جہاں کہیں بھی ہو وہ اس کے ذمے قرض ہوگااور اس سے خواہ مخواہ وصول کیا جائے گا۔ خاوند کی حیات میں اوراسی طرح وفات کے بعد ادا ہوگا۔ اس کے سرمائے میں سے دوسرے قرض خواہوں کی طرح منہا کیا جائے گا ۔"

عصری قانون میں نفقہ کا تذکرہ

عصری قانون میں نان نفقہ کی فراہمی کو خاوند کی ذمہ داری بتایا ہے جس کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے :

"The husband is bound to maintain his wife (unless she is too young for matrimonial intercourse) so long as she is faithful to him and obeys his reasonable order[35]."

"خاوند اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نفقہ کا بندوبست کرے الّا یہ کہ عورت بوجہ صغر سنی حقوق زوجیت کی اہل نہ ہو ۔اس کے ساتھ جب تک عورت مرد کے ساتھ وفاداری نبھائے اور اس کے جائز ہدایات پر عمل پیرا رہے تب تک وہ نفقہ لینے کی اہل ہے۔"

قانون پر تبصرہ

زیر نظر قانونی ضابطہ نفقہ کے حوالے سے شریعت کے مجموعی روح کی ترجمانی کرتا ہے کہ مرد اپنی بیوی کو حق نفقہ دینے کا قانونًا پابند ہے۔ اسی طرح عورت نفقہ کا استحقاق رکھتی ہے اگر وہ خاوند کی جائز حدود کے اندر اطاعت کرے ۔البتہ اس قانون میں صغیرہ کے لیے نفقہ کے سقوط کا ذکر ہے جو فقہ مالکی کا موقف رہا ہے ۔جمہور فقہاء ہر اس عورت کے لیے نفقہ کے استحقاق کے قائل ہیں جو خاوند کے ساتھ رہائش اختیار کرے خواہ وہ عورت کم عمر ہو یامریض، جیسا کہ اوپر کے پیرائے میں واضح کیا گیا ہے ۔

نفقہ کی ادائیگی کے لیے قانونی چارہ جوئی

عصری قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ متاثرہ عورت اپنے نفقہ کی بازیابی کے لیے قانونی راستہ اپنا سکتی ہے ۔عبارت مع ترجمہ ملاحظہ ہو :

"If the husband neglects or refuses to maintain his wife without any lawful cause, the wife may sue him for maintenance[36]."

"اگرخاوند بیوی کو نفقہ دینے سے بغیر کسی معقول وجہ کے لاپرواہی اختیار کرے یا اس سے انکار کرے تو بیوی نفقہ کی فراہمی کا دعوی عدالت میں دائر کرسکتی ہے ۔"

نفقہ کا سقوط

اوپر کی ساری تفصیل سمیت بعض احوال میں عورت کانان نفقہ ساقط کیا جاتا ہے ۔شرعی اور عصری قانونی مآخذ میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔

بیوی کا بغیر شرعی عذر کے شوہر کا حق حبس نہ ماننا یا شوہر کے گھر سے بغیر اجازت کے نکلنا بیوی کے حق نفقہ کو ساقط کردیتا ہے۔

فقہ حنفی کے مشہور محقق علامہ ابن عابدین شامی ؒ کچھ اس طرح وضاحت فرماتے ہیں :

خارجة منبيته بغیر حق وهي الناشزة[37] ان اسبا ب میں سے ایک جن کی بنا پر عورت نان نفقہ کی مستحق نہیں بنتی ایک بلا وجہ خاوند کے گھر سے نکلنا ہے اور یہی عورت پھر ناشزہ کہلاتی ہے ۔

امام راغب اصفہانی ؒفرماتے ہیں :

بغضهالزوجهاورفع نفسهاعن طاعته وعينهاعنه إلى غير[38] "عورت کااپنے خاوند سے بغض رکھنا ،اپنی تئیں بڑی سمجھ کر خاوند کی اطاعت نہ کرنا اور اسے چھوڑ کر کسی اور کی طرف میلان اختیار کرنا ہے۔"

علامہ ابن رشد ؒ نے جمہور علماء کی رائے ذکر کرکے واضح کیا ہے کہ ناشزہ نفقہ کی مستحق نہیں ۔فرماتے ہیں:

الناشزةفالجمهورعلى أنهالاتجب لهانفقة[39] "جمہور کی رائے یہ ہے کہ ناشزہ کے لیے نفقہ واجب نہیں ہے۔"

ملکی قانون میں بیوی کے سقوط نفقہ کی جو تفصیل ذکر ہے اس کو نیچے کی سطور میں ترجمہ سمیت درج کیا جاتا ہے:

"But he is not bound to maintain a wife who refuses herself to him, otherwise disobedient, unless the refusal or disobedience is justified by non-payment of prompt dower or she leaves the husband’s house on account of his cruelty[40]. "

"لیکن مرد اس صور ت میں بیوی کو نفقہ دلوانے کا پابند نہیں جب وہ مرد کے لیے تسلیم نفس سے انکار کرے یا شوہر کی نافرمانی کی مرتکب ٹھہرے ۔البتہ اگر عورت کے انکار یا عدم اطاعت کا جوازموجود ہو کہ اس کا حق مہر معجل شوہر کی جانب سے ادا نہ ہو یا اس کے ظلم سے تنگ آکر اس کا گھر چھوڑ گئی ہو تو پھر اس صورت میں حق نفقہ ساقط نہ ہوگا ۔"

نتائج البحث

مندرجہ بالاتحقیق کی روشنی میں ثابت ہوتاہے کہ نان نفقہ کی فراہمی عورت کاحق ہے اورمرد کےکندھوں پرایک ذمہ داری ہے جس سے عہدہ برا ہونےکےلیے شرعاً اوراخلاقاً ہرطرح جواب دہ ہے۔عورت کااستحاق نفقہ اس اطاعت کی وجہ سے ہے جو وہ اپنے اختیارسےخاوند کےساتھ رہنے پررضامندی کی صورت میں بجالاتی ہے ۔اگرعورت نکاح کےنتیجے میں آنےوالے خاوند کےحق اطاعت کوتسلیم نہ کرےیابغیر کسی معقول سبب کےخاوند کےساتھ رہنے کی پابند نہ رہے توپھراس کااستحقاق نفع ساقط ہوگا۔نفقہ میں خاوند کی مالی حیثیت کاانحصارہوگا۔نفقہ کی وصولی کےلیے بیوی قانونی چارہ جوئی کرسکتی ہے اورقانون کےراستے سے اس حق کی فراہمی کو ممکن بناسکتی ہے ۔پاکستانی قوانین میں مذکورہ ضابطہ شرعی اصولوں کےعین مطابق ہے۔

 

حوالہ جات

  1. محمد بن مکرم بن منظور افریقی، لسان العرب10: 357،دارصادر بیروت 1414ھ
  2. امام راغب اصفہانی ،المفردات فی غریب القرآن1: 819،دارالقلم بیروت1412 ھ
  3. سورۃ البقرۃ270:2
  4. عبدا لرحمن الجزیری،الفقہ علی المذاہب الاربعۃ 4: 485،دارالکتب العلمیہ بیروت 1424ھ
  5. سورۃ البقرۃ 2: 2
  6. سورۃ الطلاق65: 7
  7. سورۃ النساء34:4
  8. سورۃ البقرۃ 2: 233
  9. محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح بخاری، کتاب الجمعۃ،باب الجمعۃ فی القری حدیث(893)دارطوق النجاۃ،1422ھ
  10. صحیح بخاری کتاب النفقات باب اذا لم ینفق الرجل حدیث(5364)
  11. علامہ ابن قدامہ المقدسی ،المغنی 8: 195، مکتبۃ القاہرۃ 1388ھ
  12. علامہ ابوبکر کاسانی ،بدائع الصنائع 8: 144دارالکتب العلمیہ بیروت 1406ھ
  13. صحیح بخاری کتاب الزکاۃ، باب لا صدقۃ الا عن ظہر غنی، حدیث(1426)
  14. مسلم بن الحجاج القشیری،صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ،باب فضل النفقۃ علی العیال ،حدیث(2359)دارطوق النجاۃ(س۔ن)
  15. صحیح بخاری کتاب الجنائز باب رثاء النبی ﷺحدیث(1295)
  16. المغنی 8: 195
  17. الفقہ علی المذاہب الاربعۃ 4: 485
  18. بدائع الصنائع 8: 145
  19. امام محمد بن ادریس شافعی، الام 5: 94، دارالمعرفۃ بیروت 1410ھ
  20. علامہ ابن رشد اندلسی، بدایۃ المجتہد وغایۃ المقتصد 3 :77، دارالحدیث القاہرۃ 1425ھ
  21. المغنی 8: 195
  22. علامہ ابن حزم الاندلسی الظاہری، المحلى بالآثار9: 249،دار الفكر بيروت (س۔ن)
  23. سورۃ البقرۃ 2: 233
  24. ابوعبداللہ محمدالقرطبی،تفسیر القرطبی(الجامع لاحکام القرآن)3: 163،دارالکتب المصریہ،قاہرہ،1384ھ
  25. سورۃ الطلاق65: 7
  26. بدائع الصنائع4: 15
  27. نفس مصدر
  28. سورۃ البقرۃ 2: 233
  29. تفسیر القرطبی3: 163
  30. الدرالمختار 3: 495
  31. الاختیار لتعلیل المختار 4:4
  32. سورۃ الطلاق 65: 7
  33. الاختیار لتعلیل المختار 4:4
  34. بدائع الصنائع9: 253
  35. Sir Danish Fadunji Mulla,Principles of Muhammadan Law,p.339 Mansoor Book Depot Lahore
  36. Ibid p.340
  37. الدر المختار 3: 576
  38. مفردات 1: 806
  39. بدایۃ المجتہد2: 55
  40. Principles of muhammadan Law p.341
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...