Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 2 of Al-Idah

تعلیل احادیث صحیحین: امام ابو حاتم وأبو زرعہ كی آراء كا تنقیدی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

تمہید:

اللہ جل شانہ نے امت محمدیہ علی صاحبہا افضل الصلوات و التسلیمات كو علم الاسناد كی خصوصیت سے سرفراز فرمایا ہے، جسكی بدولت رسول كریم ﷺ كی احادىث مباركہ كی صحت و سقم كا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ان امور كی انجام دہی كے واسطے اللہ تعالی نے ہر زمان و مكان میں اساطین امت پیدا كئے جنہوں نے روایات كی چھان بین كے لئے اپنی عمریں وقف كیں اوراحادىث رسول كریم ﷺ میں ملاوٹ شدہ ہر قسم كے اقوال كو باریك بینی كے ساتھ چھان كر ان كے بارے میں تنبیہ كی اور انہیں ذخیرہ احادىث سے نكال باہر كیا، جب كہ ان میں موجود علل كے بارے میں نشاندہی كی تا كہ امت مسلمہ كے دلائل شرعیہ ہر قسم كی جعلسازی سے پاك ہو كر سامنے آسكیں جن كے اوپر مختلف فقہی مسائل كی بناء ہے۔انہی جلیل القدر محدثین میں امام عبد الرحمٰن بن محمد ابن أبى حاتم ہیں جنہوں نے احادىث كی حفاظت كے سلسلے میں مختلف امور كی طرف توجہ فرمائی اور كتب تصنیف فرمائیں۔انہی كتب میں سے ایك مشہور كتاب "علل الحدیث" بھی ہے۔ جو كہ علل كے باب میں نہایت اہمیت كی حامل كتاب ہے اور اپنے ضخیم مواد كی بدولت ہر زمانے كے لوگوں كی توجہ كا مركز رہی ہے۔ كئی محققین نے اس كتاب كی مختلف متعدد جہات كو موضوعِ بحث بنا كر دادِ تحقیق سمیٹی ہے۔

اس كتاب كی اہمیت كو اجاگر كرنے كے لئے یہی كافی ہے كہ اس میں امام محمد بن ادریس ابو حاتم رحمہ اللہ اورامام ابو زرعہ كے تعلیلِ حدیث كے متعلق علوم انكے اقوال كی صورت میں شامل ہیں۔جیسا كہ كتاب كی صناعت اس طرف اشارہ كر رہی ہے كہ امام ابن ابی حاتم اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعہ سے كسی بھی حدیث كے بارے میں سؤال پوچھتے اور وہ اپنے علم اور مہارت كے مطابق اسكا جواب دیتے۔جبكہ احادىث معلولہ كی معرفت میں امام ابو حاتم و ابو زرعہ كا نام كسی تعارف كا محتاج نہیں۔انكی علم العلل میں مہارت، وسعت ِ نظر اور ممارست تامہ اس كتاب میں موجود روایات كی متعدد جہات سے تعلیل سے بخوبی واضح ہوتی ہے، كبھی موقوف یا مرسل روایت كی غلطی كی نشاندہی كے موقع پر جس میں تعلیل بالاتصال كی طرف اشارہ ہوتا ہے یعنی اس روایت كے مرفوع طریق كا صحیح ہونا مراد ہوتا ہے۔جبكہ كبھی مرفوع روایت كی غلطی كی نشاندہی كرتے ہوئے جس میں وہ تعلیل بالوقف كی طرف اشارہ فرماتے ہیں كہ ان طرق میں موقوف كو ترجیح حاصل ہے۔ كبھی راوی كو طریق جادہ كی وجہ سے غلطی لاحق ہوتی ہے تو اس كی تعلیل واضح كرتے ہیں، تو كبھی متن پر مختلف اطراف سے نقد كو تعلیل كے ضمن میں بیان كرتے ہیں، اس ضمن میں وسائلِ ترجیح وقرائن كو بروئے كار لاتے ہیں۔یہی ان ائمہ كی علل كے باب میں براعت كی واضح دلیل ہے۔جبكہ مذكورہ كتاب متعدد ائمہ كے مابین مذاكرہ حدیث و مجالس علمیہ كی وجہ سے بھی كافی اہمیت ركھتی ہے جس میں مختلف ائمہ اپنی اپنی روایات كو نقد كے لئے ایك دوسرے كے سامنے پیش كرتے ہیں اورحدیث كے باب میں علمی لطائف مستنبط كئے جاتے ہیں، اور محدثین كے ہاں یہ اصطلاح كافی معروف ہے اور نقد حدیث كے ضمن میں انتہائی اہمیت كی حامل ہے۔ اسی طرح اس كتاب كی خصوصیت یہ بھی ہے كہ علل كے میدان میں پہلی بار كسی بھی كتاب كو فقہی ابواب كی ترتیب پر مرتب كیا گیا۔

دوسری جانب صحتِ احادىث كے التزام میں صحیحین (بخاری و مسلم ) كی اہمیت بھی كسی سے ڈھكی چھپی نہیں، جبكہ انہوں نے اپنی صحیحین كی تصنیف كی بنیادی شرط ہی یہ ركھی تھی كہ ان میں وہ روایات ذكر كی جائینگی جو صحیح كی شرائط كو پورا كرتی ہوں۔ ائمہ محدثین كے نزدیك یہ شرائط پانچ ہیں جن میں نمایاں شرط "عدم علّت " ہے۔ یعنی باقی چار شرائط كے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے كہ اس روایت میں كسی بھی قسم كی كوئی علت نہ ہو۔ جبكہ امام ابن ابی حاتم نے اپنی كتاب علل الحدیث میں اپنے والد امام ابو حاتم اور اپنے استادابو رزعہ سے منقول اقوال كے ذریعے كئی ایسی احادىث میں علت كی نشاندہی كی ہے جو كہ صحیحین یا ان میں سے كسی ایك كتاب میں مذكور ہیں۔

زیر نظر مقالہ میں ان روایات کے بارے میں بحث كی گئی ہے جو كہ صحیحین یا ان میں سے كسی ایك كتاب میں موجود ہیں جبكہ امام ابو حاتم یا ابو زرعہ نے ان روایات كو معلول ٹھہرایا ہے۔ اور ان مخصوص روایات كے متعلق ائمہ كے اقوال كا مقارنہ كر كے راجح ترین جانب كو مختلف مؤیدات كے ذریعے نمایاں كرنے كی كوشش كی گئی ہے ۔اگر چہ مذكورہ موضوع پر اس سے پہلے بھی خامہ فرسائی كی گئی ہے جیسا كہ دكتور ابراہیم عبد اللہ خلیفہ نے "الأحادىث التي أعّلها أبو حاتم الرازي وأخرجها البخاري في صحيحه " كے عنوان سے تحقیق كی ہے لیكن چونكہ ابن ابی حاتم اور امام دارقطنی كی كتبِ علل كے ساتھ خصوصی مناسبت اور علم علل الحدیث سے شغف كی وجہ سے ہمیں مذكورہ تحقیق میں كچھ سقم محسوس ہوا اور اس سے مكمل اطمینان نہیں ہوا جبكہ انہوں نے تمام روایت كو موضوع بحث بھی نہیں بنایا، اگر چہ روایات كافی تعداد میں ہیں اور اسے كوئی سنجیدہ طالب علم اپنی مستقل تحقیق كا موضوع بھی بنا سكتا ہے، تا ہم، ہم نے ان میں سے كچھ روایات كو تحقیق كے دائرے میں لایا، اور اپنے تئیں اس بات كی كوشش كی كہ امام بخاری و مسلم اور امامین ابو حاتم و ابو زرعہ كے كسی بھی ایك روایت كے متعلق اختلاف كی تطبیق كی جا سكے اور ان میں موجود اختلافات كو علل الحدیث اور قرائن ترجیح كی روشنی میں حل كیا جاسكے،لہذٰا درج ذیل وجوہات كی بناء پر اس موضوع كو زیر بحث لایا گیا ہے:

1۔ بعض روایات كی د راسہ و تحقیق كے دوران دكتور ابراہیم عبد اللہ خلیفہ نے اپنی تحقیق میں كچھ امور مبہم چھوڑ دئے تھے اور جن كی نشاندہی از حد ضروری تھی، اس وجہ سے ہم نے اس موضوع كو زیر بحث لایا۔

2۔ كئی روایات ایسی پائی گئیں جو متن كے لحاظ سے انتہائی اہم تھیں تاہم ڈاكٹر عبد اللہ نے اپنی تحقیق میں ان كی طرف التفات نہیں فرمایا تھا۔

3۔ ڈاكٹر عبد اللہ نے اپنی تحقیق میں صرف ابو حاتم رازی كے تنقیدی اقوال كو زیر بحث لایا ہے جب كہ ہم نے اپنی تحقیق میں امام ابو حاتم كے ساتھ ساتھ ابو زرعہ كے تنقیدی اقوال كو بھی شامل ركھا ہے۔

4۔ فاضل محقق نے اپنی بحث میں صرف ان روایات كو زیر تحقیق ركھا ہے جو كہ صحیح بخاری میں موجود ہیں جب كہ ہم نے صحیح بخاری كے ساتھ ساتھ صحیح مسلم كو بھی شامل تحقیق كیا ہے۔

اگرچہ ہم نے بھی اس موضوع كی تمام روایات كا احاطہ نہیں كیا ہے بلكہ انے والے باحثین كے لئے تحقیق كا نیا در وا كیا ہے جس كے نتیجے میں تمام روایاتِ مختلفہ كا مقارنہ اور دراسہ كرنے كے بعدكوئی بھی باحث اور طالب علم اس بات پر قادر ہو سكتا ہے كہ وہ مذكورہ موضوع كی روشنی میں ائمہ اربعہ (بخاری و مسلم اور ابو حاتم و ابو زرعہ ) كا تعلیل حدیث كا منہج متعین كر سكے، اللہ جل شانہ سے دعا ہے كہ اس بحث كے مكمل كرنے میں راہنمائی میسر رہے تا كہ روایات پر تنقیح سہل انداز میں ممكن ہو۔ امین۔

حدیث نمبر 1:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان عشرة أيام، فلما كان العام الذي قبض فيه اعتكف عشرين يوما"[1] اس سلسلے كی پہلی روایت ہے جو صحیح بخاری میں مذكور ہے اور امام العلل امام ابو حاتم نے اس پر نقد كیا ہے یہ روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ جس میں وہ حضور نبی كریم ﷺ كا عمل ذكر كرتے ہوئے فرماتے ہیں كہ" نبی كریم ﷺ ہر رمضان میں دس ایام كا اعتكاف فرمایا كرتے تھے، جس سال ان كی وفات ہونی تھی تواس سال بیس ایام كا اعتكاف فرمایا"، مذكورہ روایت كی سند كے بارے میں جب امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابو حاتم سے پوچھا تو انہوں نے اسكی سند كا تجزیہ كرتے ہوئے اس كے دوسرے طریق كی طرف اشارہ كرتے ہوئے اسی طریق كو صحیح قرار دیا جو كہ مرسل ہے[2]۔

اس حدیث كے دوسرے طرق كی طرف جب دراسہ كو توسیع دی گئی تو معلوم ہوا كہ وہ طریق جس كے بارے میں امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے سوال كیا تھا وہ بنیادی طور پر امام بخاری كا ذكر كردہ طریق تھا جو كہ یقینا موصول بھی تھا[3]، تاہم امام ابو حاتم نے اسے مرجوح قرار دیتے ہوئے ارسال كو ترجیح دی، جو كہ تحقیق طلب امر ہے كیونكہ امام بخاری كا كسی بھی حدیث كو اپنی صحیح میں ذكر كرنا اسكی مستند اہمیت كی طرف واضح اشارہ كرتا ہے۔لہذا یہاں دونوں جلیل القدر ائمہ كے درمیان اختلاف كی صورت میں ترجیح دیتے ہوئے كسی ایك كے قول كی تصویب كی جائے گی ۔

اس روایت كے باقی تمام طرق جمع كرنے سے معلوم ہوا كہ اس كا مدارِ سند "أبو حصین " ہے، جبكہ ابو حصین كے شاگرد ان سے یہ روایت نقل كرتے ہوئے آپس میں اختلاف كا شكار ہوئے ہیں، امام سفیان ثوری یہ روایت ابو حصین سے ارسال كے ساتھ ذكر كرتے ہیں جبكہ ابو بكر بن عیاش موصول ذكر كرتے ہیں۔ اسی موصول طریق كے بارے میں جب امام ابو حاتم سے پوچھا گیا تو انہوں نے اسے مرجوح قرار دیتے ہوئے ارسال كو ترجیح دی بلكہ اسے صحیح قرار دیا،جبكہ موصول روایت امام بخاری نے اپنی صحیح میں ذكر كی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ صحیح روایت ابو بكر بن عیاش كی ہے۔

تاہم دراسہ سے معلوم ہوتا ہے كہ امام بخاری اس روایت كی تخریج میں متفرد نہیں ہیں بلكہ امام احمد بن جنبل، امام دارمی، ابن ماجہ، وابو داؤد، نسائی، اور امام ابن خزیمہ نے بھی اس روایت كو اپنی اپنی كتب میں نقل كیا ہے[4]۔

لہذا معلوم ہوا كہ یہ امام بخاری كا تفرد نہیں ہے، دوسری جانب امام سفیان ثوری كی مرسل روایت امام ابن ابی حاتم كی علل الحدیث كے علاوہ كتب حدیثیہ میں كہیں نہیں مل سكی تاہم انكی متابعت میں اسرائیل كی روایت ملی جو كہ اسے مرسل روایت كرتے ہیں[5]۔

اختلاف اسناد و متون كی صورت میں عموما محدثین قرائنِ ترجیح كی طرف رجوع كرتے ہیں، اس صور ت میں ہم اگر قرائن ترجیح كو منطبق كرتے ہوئے كسی جانب كو راجح ٹھہرائیں تو معلوم ہوتا ہے كہ چونكہ یہ وصل و ارسال كا اختلاف ابو حصین كے شاگرد، ثوری اور ابوبكر بن عیاش میں واقع ہوا ہے ، تو قواعدِ علل كی رُو سے سب سے پہلے ابو حصین كے احوال كی تحقیق ضروری ہے تا كہ اختلاف كا منبع اور سبب دریافت كیا جا سكے، لیكن ابو حصین عثمان بن عاصم كے بارے میں مشہور و معروف أئمہ جرح و تعدیل كی مختلف زاویوں سے دی گئی گواہی اس بات پر منتج ہوتی ہے كہ اہل كوفہ میں سےأبو حصین كو احادىث كے باب میں امتیازی شان حاصل ہے جبكہ حفاظ ِ حدیث اس كی احادىث میں كہیں بھی اختلاف میں واقع نہیں ہوتے، تاہم اگر كوئی حافظِ حدیث كسی قسم كے اختلاف كا اظہار كرے بھی تو اس اختلاف كی نسبت اسی راوی كی طرف ہو گی نہ كہ ابو حصین كی طرف اسے منسوب كیا جائے گا[6]۔اس تفصیل كے بعد لازم ٹھہرتا ہے كہ قرائن ترجیح كو مد نظر ركھتے ہوئے انكے شاگرد ابو بكر بن عیاش اور سفیان ثوری كے درمیان موازنہ كیا جائے، تا كہ حقیقتِ حال كا وضوح ممكن ہو سكے۔

سفیان ثوری كی تبحر علمی اور جلالت شان كسی سے مخفی نہیں، اور ائمہ جرح و تعدیل كا ان كو توثیق و تعدیل كے اعلیٰ مراتب پر فائز كرنا ہی انكی احادىث نبویہ كے باب میں اہمیت كو واضح كرتا ہے[7]۔ جبكہ ابو بكر بن عیاش اگر چہ ثقہ راوی ہیں تاہم انكا ضبط بڑھاپے میں كچھ كمزور ہو گیا تھا[8]، غالبا یہی و جہ ہے كہ جسكی وجہ سے امام ابو حاتم نے ان كی موصول روایت پر امام سفیان ثوری كی مرسل روایت كو ترجیح دی۔

لیكن اسكے بر عكس امام بخاری نے اس موصول روایت كو ترجیح دیتے ہوئے اپنی "صحیح "میں ذكر فرمایا جو كہ اس روایت اور ابو بكر بن عیاش پر اعتماد كی واضح دلیل ہے۔ تاہم جیسا كہ ہم نے ذكر كیا كہ امام بخاری اسكو ذكر كرنے میں تنہا نہیں ہیں بلكہ باقی ائمہ حدیث بھی اس روایت كو موصول ذكر كرنے میں كسی قسم كی ہچكچاہٹ كا مظاہرہ نہیں فرماتے تو اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ابو بكر بن عیاش كی روایت مكمل طور سے مرجوح نہیں بلكہ اسكی ترجیح كے بھی اسباب موجود ہیں۔

فتح الباری كے مقدمہ میں حافظ ابن حجر ابو بكر بن عیاش كا تذكرہ كرتے ہوئے انكے اوہام كی طرف اشارہ فرماتے ہیں اور صراحتا كہا كہ صحیح بخاری میں انكی روایات متابعات كی موجودگی كی وجہ سے ممكن ہیں[9]، اسی بات كو امام عبدالرحمٰن المعلمی نے بھی اپنی كتاب میں واضح انداز میں ذكر فرمایا ہے كہ ابو بكر بن عیاش كے سوء حفظ كی وجہ سے امام بخاری نے بھی انكی روایات سے اجتناب كیا ہے لیكن جن روایات كی متابعت پائی جاتی ہے تو ابو بكر بن عیاش كی ایسی روایات وہ نقل كر دیتے ہیں[10]۔ لیكن روایات كے تتبع و استقصاء سے معلوم ہوتا ہے كہ ابو بكر بن عیاش كی مذكورہ روایت كا كوئی متابِع صحیح بخاری میں كہیں دوسری جگہ موجود نہیں، اور نہ ہی حافظ ابن حجر نے فتح الباری كے مقدمہ میں انكی روایات كے متابعات میں اس روایت كی كسی متابعت كی طرف اشارہ فرمایا ہے حالانكہ حافظ موصوف نے انكا ذكر فرماتے ہوئے ان كی كچھ روایات كے متابعات ذكر بھی كئے ہیں[11]۔لہذٰا یہ كہنا بے جا ہو گا كہ امام بخاری نے یہ روایت متابعت كی وجہ سے ذكر كی ہے۔

أبو بكر بن عیاش كے احوال پر مزید غور كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ حافظ ابن حجر نے انكا ذكر كرتے ہوئے ان كے سوء حفظ كی طرف اشارہ كرنے كے بعد اس بات كا اضافہ كیا ہے كہ اگرچہ انكے حافظے میں خلل و اقع ہو گیا تھا لیكن انكی روایات اگر انكی كتاب سے لی گئی ہوں تو وہ صحیح ہیں[12]،اور یہی بات ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابو حاتم سے بھی ایك مقام پر نقل كی ہے[13]۔

اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے ہم یہ كہہ سكتے ہیں كہ امام بخاری كی اس روایت كو اپنی صحیح میں ذكر كرنے كا قرین احتمال یہ ہو سكتا ہے كہ انہیں یہ روایت انكی كتاب سے ملی ہو جس كے بارے میں ائمہ محدثین كا اتفاق ہے كہ وہ صحیح ہے۔یہی وجہ ہے كہ امام دارقطنی نے بھی اس طریق موصول كو صحیح قرار دیا ہے[14]۔ جبكہ امام بزار اور امام بیہقی كے طریق كار سے بھی اس بات كی طرف اشارہ ملتا ہے كہ یہی موصول طریق ہی صحیح ہے[15]۔تاہم یہ احتمال ہی ہے اس كی كوئی دلیل ہمیں متقدمین علماء كے ہاں كسی بھی كتاب میں نہیں مل سكی۔ والله أعلم بالصواب

حدیث نمبر 2:

اس سلسلے كی دوسری روایت بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كی ہے جس میں وہ نبی كریم ﷺ كا فرمان نقل كرتے ہیں، "من استلجج في أهله يمينا، فهو أعظم إثما"[16]، امام ابن ابی حاتم نے جب ابو حاتم سے اس روایت كے بارے میں سوال كیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے تفصیل سے اس کے باقی طرق كی طرف اشارہ فرمایا، جو وصل اور ارسال كے ساتھ مختلف كتب حدیثیہ میں مذكور ہیں۔

امام بخاری نے اس روایت كے موصول طریق كو اپنی صحیح میں جگہ دی جس سے معلوم ہوتا ہے كہ انكے نزدیك طریق موصولہ صحیح ہے، جبكہ ابو حاتم نے سوال كا جواب دیتے ہوئے مرسل روایت كو ترجیح دی[17]۔

دراسہ سے معلوم ہوا كہ اس روایت كا مدار "یحییٰ بن أبی كثیر " ہیں، جن سے روایت كرتے ہوئے انكے دو شاگردوں (معاویہ بن سلام، معمر بن راشد) میں اختلاف واقع ہوا، امام بخاری رحمہ اللہ نے معاویہ بن سلام كی روایت كو ترجیح دیتے ہوئے انكی موصولہ روایت كو اپنی صحیح میں ذكر فرمایا، جبكہ اسكے برعكس ابو حاتم نے معمر كی مرسل روایت كو صحیح ٹھہرایا[18]۔یہاں یہ بات بھی قابل ذكر ہے كہ یحییٰ بن سعید القطان كے مطابق محدثین كے نزدیك ابن ابی كثیر كی مرسل روایات كا كوئی مرتبہ نہیں ہے[19]۔ تاہم یہاں چونكہ معمر و معاویہ كا اختلاف ہوا ہے، لہذٰا ان دونوں كے احوال سے معلوم ہوتا ہے كہ اگرچہ دونوں ثقہ ہیں لیكن یحییٰ بن ابی كثیر كی روایات كے نقل كرنے كے بارے میں محدثین كے ہاں معاویہ بن سلام زیادہ قابل اعتبار ہیں[20]۔ اگرچہ امام ابو حاتم انكے مقابلے میں معمر كو ترجیح دیتے ہیں، لیكن بغور دیكھا جائے تو حقیقت یہی ہے كہ معمر بن راشد اگرچہ ثقہ ہیں تاہم انكی روایات مطلقا معتبر نہیں ہیں بلكہ كہیں كہیں انہیں وہم لاحق ہوتا ہے جیسے ثابت البنانی، سلیمان بن مہران اور ہشام سے انكی روایات كے بارے میں محدثین كے اقوال شاہد ہیں[21]۔ اور بصرہ میں انكی روایت كی گئی احادىث میں اوہام كی طرف تو خود امام ابو حاتم نے بھی اشارہ كیا ہے[22]۔ یہی وجہ ہے كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے معمر بن راشد كی روایت كو مرجوح قرار دیا اور انكے ارسال كو صراحتا انكی غلطیوں میں شمار كیا، بلكہ انہوں نے انكے متن كی غلطی كو بھی وضاحت كے ساتھ ذكر كیا[23]۔ دوسری جانب دیكھا جائے تو اما م بخاری اس موصولہ روایت كے ذكر كرنے میں تنہا نہیں ہیں بلكہ ائمہ حدیث میں سے ابن ماجہ، امام حاكم، بیہقی، طبرانی اور امام طحاوی بھی اس میں شامل ہیں[24]۔

ان تمام كبار علماء محدثین كے صنیع سے معلوم ہوتا ہے كہ امام بخاری كی ترجیح قابل اعتبار ہے اور امام ابن ابی حاتم كو اس روایت كی ترجیح میں وہم لاحق ہوا ہے۔

حدیث نمبر 3:

اس سلسلے كی تیسری روایت عائشہ رضی اللہ عنہا كی حدیث " كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله تعالى على كل أحيانه"[25]، ہے جسكے بارے میں امام ابو زرعہ رحمہ اللہ سے جب امام ابن ابی حاتم نے سوال كیا تو انہوں نے اس روایت كے تفرد كو زیر بحث لاتے ہوئے اسكو معلول قرار دیا،لیكن انہی كے مؤقف كو جب ابو حاتم كے سامنے پیش كیا گیا تو انہوں نے مذكورہ روایت سے استدلال پكڑتے ہوئے فقہی مسئلہ كا استنباط كیا جس سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كے نزدیك یہ روایت صحیح ہے[26]، اور یہی مؤقف امام مسلم كا بھی ہے جیسا كہ انہوں نے اپنی صحیح میں اس روایت كی تخریج سے ظاہر كیا ہے[27]۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے كہ یہ روایت امام مسلم كے علاوہ ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام احمد، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے بھی نقل كی ہے[28]۔

اگرچہ امام ابو زرعہ نے مذكورہ روایت كو تفرّد كی بناء پر معلّل قرار دیا ہے تاہم ہر تفرّد ضعیف نہیں ہوتا، بلكہ محدثین كے نزدیك صرف وہ تفرد معلول ہوتا ہے جسكے روایت كرنے والے اس حیثیت و مرتبے كے نہ ہوں جنكے تفردات كو قبول كیا جا سكے، لہذا اگر رواة حدیث تعدیل كے اعلیٰ مراتب پر ہوں تو انكے تفرد كو قبول كرنے میں محدثین كسی قسم كے تامل كامظاہرہ نہیں كرتے۔مذكورہ مسئلہ میں بھی یہی صورتحال ہے، خالد بن سلمہ اور عبد اللہ البہی اگرچہ حدیث كی روایت كے باب میں زیادہ معروف نہیں ہیں اور محدثین كی اصطلاح كے مطابق "قلیل الحدیث"سے تعبیر كئے جاتے ہیں، لیكن خالد بن سلمہ كو نقاد كی ایك بڑی تعداد نے ثقہ قرار دیا ہے سوائے امام ابو حاتم كے، انہوں نےاس كے بارے میں كہا كہ " شيخٌ، يُكتب حديثه "، اور جرح وتعدیل كے باب میں امام ابو حاتم كا تشدد معروف ہے۔جبكہ عبداللہ البہی كی توثیق میں ابن سعد و ابن حبان كا اتفاق ہے[29]۔ جبكہ ابو حاتم نے اسے بھی " مضطرب الحديث " كہا ہے[30]۔

اور ماہرین فن سے یہ بات مخفی نہیں ہے كہ امام ابو حاتم كے تشدد كے سبب انكی جرح كو امام ابن حبان كی توثیق پر مقدم نہیں كیا جا سكتا،خصوصا جب ابن حبان كی موافقت ابن سعد نے بھی كی ہو كیونكہ وہ نقدِ رجال میں معتدل معروف ہیں[31]۔یہاں ابن حبان كا تساہل بھی زیر بحث نہیں آنا چاہئے كیونكہ ان كا تساہل صرف مجاہیل كی توثیق میں معروف ہے ورنہ جرح میں وہ بھی متشدد مشہور ہیں[32]۔

لہٰذا مختصراً یہ كہ یہ دونوں راوی اگرچہ روایات كے باب میں معروف نہیں ہیں لیكن توثیق میں نقاد نے انكو مسترد نہیں كیا ہے، جو اس بات كی دلیل ہے كہ انہوں نے روایات كو مكمل ضبط كے ساتھ محفوظ كر كے اسكی ادائیگی كی۔یہی بنیادی سبب ہے كہ امام مسلم نے بھی انكی روایت كو قبول كرتے ہوئے اسے اپنی صحیح میں ركھا۔لہذٰا ابو زرعہ كا انكی روایت كو تفرد كی بناء پر ضعیف قرار دینا محل نظر ہے۔ جبكہ امام ابو حاتم باوجود ان دونوں كی تضعیف كے ان كی روایت سے استنباط فرما رہے ہیں جو اس بات كی طرف اشارہ ہے كہ روایت قابل احتجاج ہے اور امام ابو زرعہ كا اختلاف قابل التفات نہیں۔واللہ اعلم

حدیث نمبر 4:

اس سلسلے كی اگلی روایت نبی كریم ﷺ كا یہ ارشاد مبارك ہے "الامام ضامن، والمؤذن مؤتمن، اللهم ارشد الائمة، واغفر للمؤذنين "، جب امام ابو حاتم نے یہ روایت ذكر فرمائی تو انہوں نے اسكے دوسرے طریق كی طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمایا كہ سلیمان بن مہران الاعمش نے یہ روایت ابو صالح كے طریق سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كی مسند میں ذكر كی ہے۔ جبكہ یہی روایت محمد بن ابی صالح، اپنے والدابو صالح كے طریق سے عائشہ رضی اللہ عنہا كی مسند میں سے ٹھہراتے ہیں۔تاہم امام ابو حاتم نے امام اعمش كی روایت كو ترجیح دی[33]،اور امام ابو زرعہ نے بھی انكی موافقت كی ہے[34]، لیكن امام بخاری رحمہ اللہ نے عائشہ رضی للہ عنہا كی روایت كو صحیح قرار دیا [35]اور امام دارقطنی نے بھی اسی قول كی تائید كی ہے[36]۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے كہ اس روایت كا مدار " ابو صالح" پر ہے، جو كہ محدثین كے نزدیك ثقہ راوی ہیں[37]، جبكہ ان كے شاگردوں كے درمیان روایت كے مخرج میں اختلاف واقع ہواہے، امام اعمش اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت كرتے ہیں[38] اور محمد بن ابی صالح اسے عائشہ كی روایت ٹھہراتے ہیں[39]۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كی روایت كے باقی طرق كا استقصاء كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ امام اعمش كو اس روایت كے نقل كرنے میں شك لاحق ہوا ہے، كبھی وہ ابو صالح سے براہ راست روایت كرتے ہیں جیسا كہ اوپر گزر چكا اور كبھی مبہم راوی كے واسطہ سے ذكر كرتے ہیں جیسا كہ امام احمد، ابو داؤد اور ابن خزیمہ كی روایات سے واضح ہوتا ہے[40]۔ تاہم امام ابن خزیمہ روايتِ اعمش ذكر كرنے كے بعد صراحتا فرماتے ہیں كہ محمد بن ابی صالح جیسے سینكڑوں سےایك اعمش مجھے زیادہ محبوب ہے[41]۔

لیكن قرائن سے معلوم ہوتا ہے كہ اسی شك كی بنیاد پر امام بخاری نے اعمش كی روایت كو مسترد كیا اور امام ترمذی كے سوال كے جواب میں محمد بن ابی صالح كی روایت كو راجح قرار دیا[42]۔لیكن امام اعمش كے شك كے باوجود انكی موصول روایت كی متابعت سہیل بن ابی صالح كر رہے ہیں، جو كہ امام ابو حاتم اور دیگر ائمہ كی ترجیح كی حتمی اور یقینی بنیادہے[43]۔

ان دونوں روایات كی مذكورہ ممكنہ تعلیل كی وجہ سے بعض ائمہ محدثین اس جانب گئے ہیں كہ نہ ابو ہریرہ كی روایت ثابت ہے اور نہ ہی عائشہ رضی اللہ عنہا كی، جیسا كہ امام ترمذی نے امام علی ابن المدینی كا قول نقل كیا ہے[44]، لیكن ابن المدینی كی یہ رائے قابل التفات نہیں ہے كیونكہ سہیل بن ابی صالح كے علاوہ ابو اسحاق السبیعی بھی محمد بن ابی صالح كی متابعت كر رہے ہیں[45]۔ حسبِ عادت امام ابن حبان نے دونوں روایات كے درمیان تطبیق كی كوشش كرتے ہوئے یہ رائے اختیاركی كہ ابو صالح كا عائشہ و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم دونوں سے یہ روایت سننے كا احتمال ہے[46]۔

تاہم تمام طرق كی دراسہ اور تحقیق، امام اعمش كی روایت كے متابعات اور دیگر ائمہ علل كے تائیدی اقوال سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں كہ امام ابوحاتم و ابو زرعہ كا قول صحیح ہے جبكہ امام بخاری كی ترجیح دی گئی روایت مختلف جہات سے مرجوح ہے ۔ واللہ اعلم

حدیث نمبر 5:

اس سلسلے كی اگلی روایت جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں ذكر كیا جو كہ صحتِ روایت پر دلالت كر رہی ہے جبكہ امام ابو زرعہ نے اسے وہمِ راوی قرار دیتے ہوئے اسكی تضعیف كی، وہ روایت " أعطى النبي صلى الله عليه وسلم أبا سفيان - يوم حنين - وصفوان بن أمية، وعيينة بن حصن، والأقرع بن حابس، مئة من الإبل "[47]، ہے اور اسكے متوازی دوسری سند ذكر فرما كر اسے قابل اعتماد گردانا۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے كہ دونوں اسانید صحیحین یا ان میں سے كسی ایك كتاب میں موجود ہیں، پہلی سند جو عمر بن سعید كی اپنے والد سعید بن مسروق بطریق عبایہ بن رفاعہ بن رافع سے مروی ہے[48]، جبكہ دوسری سند سفیان بن سعید كی اپنے والد سعید سے بطریق ابن ابی نعيم مروی ہے[49]۔

ان دونوں میں سے پہلے طریق كے بارے میں امام ابو حاتم فرماتے ہیں كہ یہ طریق صحیح نہیں ہےاور اسكی غلطی كو "عمر بن سعید" كی طرف منسوب كرتے ہوئے دوسرے طریق كو جو اسی عمر كے بھائی سفیان ثوری سے مروی ہے، اسے صحیح قرار دیا۔

دراسہ سے معلوم ہوتا ہےكہ مدارِ سند "سعید بن مسروق" راوی ہیں، اور ان سے روایت كرنے والے دونوں راوی، عمر بن سعید اور سفیان بن سعید، انہی كے فرزند ہیں، جو دو مختلف روایتیں نقل كر رہے ہیں۔اور دونوں ثقات میں سے ہیں[50]۔لیكن سفیان ثوری مشہور و معروف امام ہیں جن كا مرتبہ جرح و تعدیل كے ائمہ كے نزدیك انكے بھائی سے نسبتازیادہ ہے، جبكہ ان كی متابعت كرنے والے "عمارة بن القعقاع" ثقہ راوی بھی ہیں[51] ۔

غالبا یہی وجہ ہے كہ امام ابو حاتم نے سفیان ثوری كے مرتبہ اور عمارة بن القعقاع كی متابعت كو مد نظر ركھتے ہوئے انہی كی روایت كو صحیح قرار دیا اور عمر بن سعید كی روایت كو تفردِ راوی كی وجہ سے مسترد كر دیا، لیكن دیگر ائمہ نے مطلقا تفرد كی بناء پر عمر بن سعید كی روایت كو مرجوح نہیں ٹھہرایا، بلكہ دونوں روایات كو صحیح قرار دیا، كیونكہ دونوں طرق سے صحیح منقول ہونے كا احتمال ہے۔لہذٰا مذكورہ مسئلہ میں امام ابو حاتم كی ترجیح قابل اعتماد نہیں، اگرچہ انہوں نے اس معاملے میں قرائن ترجیح كو استعمال كرتے ہوئے طریقِ سفیان ثوری كو راجح قرار دیا ہے، واللہ اعلم۔

حدیث نمبر 6:

اگلی روایت جس میں امام بخاری اور امام ابو زرعہ كا اختلاف واقع ہوا ہے وہ " أن النبي ﷺ قال يوم بدر: هذا جبريل، أخذ برأس فرسه، عليه أداة الحرب"ہے، مذكورہ روایت امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابراہیم بن موسیٰ سے بطریق عكرمہ، عبد اللہ بن عباس سے نقل كی ہے[52]، جس كے بارے میں امام ابو زرعہ سے پوچھنے پر انہوں نے اسے مرجوح قرار دیا، اور سند میں عبد اللہ بن عباس كے ذكر كو ابراہیم بن موسیٰ كا وَہَم جانا۔ لہذٰا امام ابو زرعہ نے روایت كے ارسال كو راجح ٹھہرایا[53]۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے كہ مدارِ سند "عبد الوہاب بن عبد المجید " ہیں، جو كہ ائمہ جرح و تعدیل كے نزدیك ثقہ راوی ہیں[54]، جبكہ ان كے تلامذہ كے مابین اس سند كے اتصال و ارسال میں اختلاف واقع ہوا، ابراہیم بن موسیٰ اسے موصول ذكر كرتے ہیں،جبكہ ابو بكر بن ابی شیبہ ان سے مرسل روایت نقل كرتے ہیں[55]۔ ابراہیم بن موسیٰ اور ابو بكر دونوں محدثین كے ہاں قابل اعتماد ہیں[56]۔

اصولِ علل و قواعد كی رُو سے قرائن ترجیح كے انطباق كی صورت میں ابراہیم بن موسیٰ كی روایت قابل ترجیح ہے، كیونكہ ابراہیم بن موسیٰ كے بارے میں امام ابن ابی حاتم انہی امام ابو زرعہ كا قول نقل كرتے ہوئے رقمطراز ہیں كہ میرے نزیك ابراہیم بن موسیٰ، ابو بكر بن ابی شیبہ سے زیادہ حافظ ہیں اور زیادہ قابل ِاعتماد ہیں، جبكہ ان كے كلام سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے كہ وہ ضبط كے ساتھ ساتھ كتابت كو بھی ملحوظ ركھتے تھے[57]۔

ایسی صورت میں امام ابو زرعہ كا ابو بكر بن ابی شیبہ كی روایت كو ترجیح دینا سمجھ سے بالا تر ہے، جبكہ امام بخاری كا اس معاملے میں صنیع مكمل طور سے قواعد كے عین مطابق ہے۔ لہذٰا معلوم ہوا كہ روایتِ مذكورہ میں اختلاف كی صورت میں امام بخاری كا طریق قابل التفات و اصول ترجیح كے عین مطابق ہے، واللہ اعلم۔

حدیث نمبر 7:

اس سلسلے كی اگلی روایت جابر بن عبد اللہ كی دو روایتیں ہیں فرماتے ہیں نبی كریم ﷺ نے فرمایا، " رحم الله عبدا إذا باع سمحا، إذا اقتضى سمحا، إذا اشترى سمحا "[58]، اور دوسری روایت رسول كریم ﷺ كا یہ قول مبارك ہے ، " كل معروف صدقة "[59]، ان دونوں روایات پر امام ابو حاتم نے "منكر" كا اطلاق كیا ہے جس سے ان روایات كا ضعف عیاں ہوتا ہے جبكہ امام بخاری نے دونوں روایات كو اپنی صحیح میں ذكر كیا ہے جو كہ واضح تعارض پر دلالت كر رہا ہے۔امام بخاری ان روایات كے ذكر كرنے میں تنہا نہیں ہیں بلكہ پہلی روایت امام بخاری كے علاوہ امام احمد، امام ابن ماجہ، امام ترمذی اور ابن حبان نے بھی ذكر كی ہے[60]، جبكہ دوسری روایت امام بخاری كے علاوہ امام ابن حبان نے بھی ذكر كی ہے[61]۔

تحقیق سے معلوم ہوتاہے كہ روایت كا مدار "محمد بن المنكدر" پر ہے، جو كہ بذات خود ثقہ راوی ہیں[62]۔ جبكہ دونوں روایات ان سے "ابو غسان محمد بن مطرف" روایت كرتے ہیں جو كہ محدثین كے نزدیك قابل اعتماد ہیں[63]۔ لہذٰا دونوں روایات میں كسی قسم كا سقم نہیں پایا جاتا سوائے راوی كے تفرّد كے، اور غالبا اسی تفرد كو مد نظر ركھتے ہوئے امام ابو حاتم نے دونوں روایات پر منكر كا حكم لگایا ہے۔ بصورت دیگر ائمہ كے نزدیك روایت كے صحیح ہونے میں كسی قسم كا كوئی اختلاف نہیں پایا جاتا، لہذٰا امام ابوحاتم كی ترجیح قابل التفات نہیں ہے، خصوصا جب كہ پہلی روایت میں میں ابو غسان كی متابعت بھی موجود ہے، جو كہ "زید بن عطاء" راوی ہے[64]، جو كہ خود محدثین كے ہاں مقبول كے مرتبہ پر ہیں[65]، واللہ اعلم۔

حدیث نمبر 8:

اگلی روایت جس میں امام ابو حاتم اور امام بخاری كا اختلاف واقع ہوا ہے وہ مقدام بن معدیكرب t كی روایت ہے جس میں وہ نبی كریم ﷺ سے نقل كرتے ہیں، " كيلوا طعامكم، يبارك لكم فيه"[66]، روایتِ مذكورہ كے بار ے میں جب امام ابن ابی حاتم نے ابو حاتم سے سوال پوچھا تو انہوں نے روایت كا تحلیلی تجزیہ كرتے ہوئے اس طریق كو ترجیح دی جس میں ایك راوی "جبیر بن نفیر" حذف ہے۔

درحقیقت مذكورہ روایت "ثور بن یزید" خالد بن معدان كے واسطے سے جبیر بن نفیر كے ذكر كے ساتھ مقدام سے نقل كرتے ہیں[67]، جبكہ بحیر بن سعد اسی طریق كو نقل كرتے ہیں، لیكن جبیر بن نفیر كو اس میں سے ساقط كرتے ہوئے روایت كو مقدام بن معدیكرب سے نقل كرتے ہیں[68]۔

ان دونوں طرق میں سے امام ابو حاتم ، ثور بن یزید كے طریق كو راجح قرار دیتے ہیں، جبكہ امام بخاری كے صنیع سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ طریق ثانی، جس میں سے جبیر بن نفیر ساقط ہیں، كو ترجیح دیتے ہیں۔

امام ابو حاتم اگر چہ "ثور بن یزید" كی روایت كو راجح قرار دیتے ہیں تاہم ثور بن یزید كی مذكورہ روایت جو عبد اللہ بن المبارك سے انكے شاگرد "ابو الربیع الزہرانی" نقل كرتے ہیں ، اور جبیر بن نفیر كا ذكر واضح انداز میں كرتے ہیں، لیكن اسی روایت كا دوسرا طریق جو عبد الرحمن بن مہدی، ابن المبارك سے نقل كرتے ہیں، اس میں وہ ابو الربیع كی مخالفت كرتے ہوئے "جبیر بن نفیر" كو حذف كرتے ہیں[69]۔

عبد اللہ بن المبارك كے شاگردوں میں اختلاف كی صورت میں قواعدِ علل كی رو سے عبد الرحمٰن بن مہدی كو یقینی طور سے فوقیت حاصل ہوتی ہے[70]، لہذٰا یہاں بھی انہی وجوہات كو دیكھتے ہوئے امام بخاری نے ابن مہدی كی روایت كو ترجیح دیتے ہوئے اپنی صحیح میں اس كا ذكر كیا، جبكہ وہاں ولید بن مسلم، ابن المبارك كی متابعت بھی كر رہے ہیں، امام ابو نعیم نے بھی ثور بن یزید كی روایت جو حذفِ جبیر كے ساتھ منقول ہے، كو ذكر كرتے ہوئے اسپر صحت كا حكم لگایا ہے[71]۔

اگرچہ امام ابو حاتم كی روایت كے بارے میں حافظ ابن حجرؒ یہ فرماتے ہوئے اسكی تائید كرتے ہیں كہ "ثور بن یزید" كی روایت" مزید فی متصل الاسانید" كے قبیل سے ہے، تاہم مذكورہ بالا وجوہات كی بناء پر امام بخاری ؒ كی روایت كو ترجیح حاصل ہے، جو كہ حذفِ جبیر بن نفیر كے ساتھ ہے، واللہ اعلم۔

حدیث نمبر 9:

اگلی روایت جس میں امام ابو حاتم اور امام بخاری كا اختلاف واقع ہوا ہے وہ "إن هذا القرآن سبب، طرفه بيد الله، وسبب طرفه بأيديكم، فتمسكوا به، فإنكم لن تضلوا " ہے، مذكورہ روایت اگرچہ امام بخاری نے صراحتا اپنی صحیح میں ذكر نہیں كی، لیكن امام بیہقی ﷫ نے امام بخاری كا قول نقل فرمایا ہے كہ اس روایت كا مرسل طریق ہی صحیح ہے [72]۔

تفصیل اس تحقیق كی كچھ اس طور سے ہے كہ امام ابو حاتم نے مذكورہ روایت كے تین طُرُق ذكر فرماتے ہوئے ان میں سے ایك طریق كی صحت كی طرف اشارہ فرمایا، جو كہ نافع بن جبیر سے بطریق "ابو اسامه " بواسطہ عبد الحمید بن جعفر اور مسلم بن أبی حرة، مرسل مروی ہے[73]، جبكہ باقی دو طرق میں سے پہلا طریق ابو شُریح سے بطریق "ابو خالد الأحمر " بواسطہ عبد الحمید بن جعفر اور سعید المقبری ، موصولا مروی ہے[74]، اور دوسرا طریق نافع بن جبیر سے بطریق "لیث بن سعد" بواسطہ سعید المقبری مرسل مروی ہے[75]، امام بخاری نے اسی "لیث بن سعد" كے طریق كو صحیح قرار دیا، جیسا كہ امام بیہقی كا قول گذر چكا۔جبكہ امام ابو حاتم نے ابو اسامہ كے طریق كو صحیح قرار دیا، غالبا انكے مد نظر عبد الحمید بن جعفر كے دو شاگردوں كا اختلاف تھا، جس میں سے یقینی طور سے ابو اسامہ حماد بن اسامہ قابل اعتماد ہیں، كیونكہ انكے مقابلے میں ابو خالد الاحمر اس درجے كے راوی نہیں ہیں كہ اختلاف كی صورت میں ابو اسامہ پر انہیں ترجیح دی جائے[76]، لیكن دوسری طرف امام لیث بن سعد چونكہ باقی دونوں سے مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہیں [77]، لہذٰا امام بخاری نے اس طریق میں انہیں مد نظر ركھتے ہوئے اسے راجخ قرار دیا۔ جبكہ امام بیہقی ﷫ كے صنیع سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ بھی اسی كے قائل ہیں، اور امام مناوی نے بھی انكی تائید كرتے ہوئے لیث بن سعد كے ارسال كو راجح قرار دیا ہے[78]۔ لہذٰا امام بخاری كی ترجیح قابل قبول ہے، جبكہ امام ابن حجر نے دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے یہ قول اختیار فرمایا ہے كہ امام بخاری كا ترجیح دینا "نافع بن جبیر" كی روایت كے ساتھ خاص ہے، اور انكا یہ حكم ابو شریح كی روایت كے مذكورہ اختلاف كی طرف متعدی نہیں ہو گا[79]، اس سے معلوم ہوا كہ ابو شریح كی روایت كا لیث بن سعد كی روایت سے كوئی سرو كار نہیں ہوگا، بلكہ دونوں طرق اپنی اپنی جگہ درست قرار دئے جائیں گے، تاہم ایسی صورت میں بھی امام ابو حاتم كا پہلے دونوں طرق، جو ابو خالد الاحمر اور لیث سے مروی ہیں، كو مطلقا فاسد قرار دینا خطا سے خالی نہیں، واللہ اعلم۔

حدیث نمبر 10:

اس سلسلے كی اخری روایت جس میں امام ابو حاتم كا صحیحین یا دونوں میں سے كسی ایك كی روایت پر تعلیل كا حكم محلّ نظر واقع ہوا ہے وہ " ضرب النبي ﷺ مثل الصلوات الخمس كمثل نهر على باب أحدكم يغتسل منه كل يوم خمس مرات " [80]ہے، جب امام ابن ابی حاتم نے اپنے والد سے اس بابت دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا كہ حفاظ محدثین كرام اس روایت كا وہ طریق نقل كرتے ہیں جو "عبید بن عمیر" سے بطریق امام اعمش بواسطہ ابو سفیان مروی ہے، اور اسی طریق كو امام ابو حاتم نے صحیح ٹھہرایا ہے[81]۔

باقی رہا وہ طریق جو امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل كیا ہے وہ جابر ؓسے بطریق امام اعمش بواسطہ ابو سفیان موصولا مروی ہے[82]۔ گویا كہ امام مسلم اس طریق كو اپنی صحیح میں ذكر كرتے ہوئے اسے ہی راجح قرار دے رہے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے كہ مذكورہ روایت كے طرق میں امام سلیمان بن مہران الاعمش ؒ كے اصحاب میں اختلاف واقع ہوا ہے، كچھ اصحاب اس روایت كو مسند جابر میں سے شمار كرتے ہیں جن میں محمد بن حازم، محمد بن فضیل، عمار، یعلیٰ بن عبید، اور ابن نمیر شامل ہیں[83]۔ جبكہ كچھ باقی اسے مسند عبید بن عمیر میں سے گردانتے ہیں جن میں وكیع بن الجراح، امام ثوری اور ابو معاویہ شامل ہیں[84]۔

ایسی صورت میں علم العلل كے اصول و ضوابط كو بروئے كار لاتے ہوئے یہ فیصلہ كرنا قطعی مشكل نہیں ہے كہ كونسا طریق صحیح ہے، اختلافِ راوی كی صورت میں اس شاگرد كو ترجیح دی حاتی ہے جو اپنے شیخ كے ساتھ ملازمت تامہ ركھتا ہو، كتب كی مراجعت سے یہ بات واضح ہوتی ہے كہ امام اعمش كے شاگردوں میں اختلاف كی صورت میں امام ثوری كو ترجیح حاصل ہوتی ہے[85]، اسكے علاوہ یہاں مذكورہ روایت میں ابو معاویہ اور وكیع كا اختلاف واقع ہوا ہے، جبكہ ترجیح كی صورت میں ائمہ محدثین كے ہاں بات مزید پیچیدگی اختیار كرجاتی ہے جب كچھ محدثین ابو معاویہ كو مقدم كرتے ہیں اور كچھ امام وكیع كو، جیسے امام یعقوب بن شیبہ اور عبد الرحمٰن بن مہدی كے اقوال سے ثابت ہوتا ہے۔ بلكہ امام یعقوب بن شیبہ كے اپنے اقوال اس بارے میں تضاد كا شكار ہیں۔

یہاں متعدد قرائن كی رُو سے امام ابو حاتم كا قول صحیح نظر آتا ہے :

1۔ امام سلیمان بن مہران الاعمش كے شاگردوں كے درمیان اختلاف كی صورت میں محدثین امام ثوری كی روایت كو ترجیح دیتے ہیں، جیسا كہ گزر چكا۔

2۔ اگرچہ ابو معاویہ ایك طریق میں امام وكیع كی مخالفت كرتے پائے گئے ہیں تاہم دوسرے مقام (امام بخاری كی خلق افعال العباد) پر وہ امام وكیع كی متابعت كر رہے ہیں ۔

3۔ امام وكیع بن الجراح اس طریق كے لانے میں "سلوك غیر جادة" كے مرتكب واقع ہوئے ہیں۔

ان تمام قرائن كو مد نظر ركھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں كہ قواعد كی رُو سے امام ابو حاتم كا قول صحیح ہے، واللہ اعلم۔

خلاصۂ بحث:

علمِ علل كے جلیل القدر ائمہ (امام ابو زرعہ وأبو حاتم ) كے اقوال كی تحقیق، خصوصا امام بخاری ومسلم كی روایات كے بارے میں انكے زاویہ نظر كو بنظر غائر پركھنے كے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں كہ امام ابو حاتم و ابو زرعہ اگرچہ علل كے میدان میں امتیازی شان ركھتے ہیں، لیكن امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ كی آراء كے تنقیدی جائزہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ابو حاتم وأبو زرعہ رحمہما اللہ علم العلل میں اختلاف اسانید كے سلسلے میں قرائن ترجیح كو مطلقا بروئے كار لاتے ہیں، اور اصول كو ظاہری اعتبار سے لاگو كرتے ہیں، جبكہ شیخین خصوصا امام بخاری ؒ دقت ِ تحقیق كو مد نظر ركھتے ہیں، اور قرائن ِترجیح كے علاوہ دوسرے امور بھی زیر بحث لاتے ہیں، یہی وجہ ہے كہ زیر تحقیق مقالہ میں امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ كی ذكر كردہ آراء قابل ترجیح رہیں اور انكے اقوال مضبوط دلائل پر قائم رہے، تاہم جہاں كہیں امام بخاری یا امام مسلم كا قول مذكورہ دونوں ائمہ كے اقوال سے منافی سامنے آتا ہے لیكن وہ صحیحین میں وہ روایت موجود نہ ہو، تو اس میں پھر امام ابو حاتم كے اقوال قابل قبول نظر آتے ہیں۔

زیر نظر مقالہ كی تكمیل سے یہ بات بھی سامنے آئی كہ تفرد راوی كے بارے میں امام ابو حاتم كا منہج باقی محدثین سے یكسر مختلف معلوم ہوتا ہے، تاہم اس معاملے میں مزید تحقیق كی ضرورت ہے تا كہ یہ بات واضح طور سے سامنے آ سكے كہ یا تفرد راوی مطلقا امام ابو حاتم كے نزدیم مرجوح ہے یا یہ موضوع مزید كسی قسم كی تفصیل كا متقاضی ہے۔

امام ابو زرعہ كے اقوال سے بھی یہ مترشح ہوتا ہے كہ وہ بھی قواعد ترجیح كے اطلاق كے قائل ہیں جیسا كہ ان كے پیشرو ابو حاتم كا مسلك ہے۔

كہیں كہیں امام مسلم كے اقوال ( جہاں انہوں نے امام بخاری سے تفرد اختیار كیا ) كے مرجوح ہونے سے یہ معلوم ہوا كہ امام بخاری كی صحیح كا مرتبہ انكے اختیار كئے گئے اصول اور قواعد كی رُو سے یقینا امام مسلم سے بڑھ كر ہے، اور یہی وجہ ہے كہ امام ابو حاتم كی بعض ترجیحات كے مقابلے میں امام مسلم كے اقوال دلائل كی رو سے ضعیف معلوم ہوئے۔اس لحاظ سے ہم یہ كہہ سكتےہیں كہ علم العلل میں امام ابو حاتم كا مرتبہ امام مسلم سے بڑھ كر ہے۔

تجویز :

مذكورہ بحث كی روایات كی چھان بین اور تحقیق و تفتیش كے بعد راقم كی رائے اور تجویز یہ ہے كہ اس موضوع پر مزید تحقیق ممكن ہے كیونكہ كئی روایات ایسی صحیحین میں موجود ہیں جن كے بارے میں امام ابن ابی حاتم نے امام ابو حاتم وأبو زرعہ كے تنقیدی اقوال اپنی كتاب علل الحدیث میں ذكر كئے ہیں۔اور ان پر ابھی تك كوئی كام نہیں ہو سكا، بلكہ صحیحین كے علاوہ جو صحاح كی كتب(ابن حبان اور ابن خزیمہ اور ضیاء مقدسی كی كتب ) ہیں ان میں مذكورہ روایات كو بھی امام ابو حاتم اور ابو زرعہ نے تختہ مشق ٹھہراتے ہوئے ان پر علل حدیث كے قواعد و ضوابط كا اطلاق كیا ہے، جن كی تحقیق و دراسہ انتہائی ضروری ہے، لہذٰا علم علل الحدیث كے باحثین اور محققین كے لئے یہ ایك تحقیق طلب موضوع بن سكتا ہے كہ وہ اس بارے تحقیق كر كے امام ابو حاتم اور ابو زرعہ كی تعلیلِ حدیث كے منہج كو واضح كر سكیں اور امام بخاری اور امام مسلم كے منہج كے ساتھ مقارنہ كے بعد چاروں ائمہ كے مناہج كی خصوصیات اور امتیازات كو شائقین كے سامنے لا سكیں۔

وصلى الله على النبي المصطفي.

 

حوالہ جات:

  1. ۔ ابو عبد الله البخاری، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، تحقیق محمد زہیر، ط: 1، 1422ھ، دار طوق النجاة، 3/ 51 حدیث نمبر 2044۔
  2. ۔ دیكھئے : ابن أبي حاتم، ابو محمد عبد الرحمن بن محمد، العلل لابن أبي حاتم، تحقیق: فریق من الباحثین بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحمید و د/ خالد بن عبد الرحمن الجریسی، مطابع حمیضی، ط: 1، 1427 ھـ 3/ 35۔
  3. ۔صحیح بخاری3/ 51 حدیث نمبر 2044۔
  4. ۔دیكھئے بالترتیب: ابو عبد الله الشیبانی، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، تحقیق شعیب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون - إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركی، ط: 1، 1421 ھـ، مؤسسہ رسالہ - 2/ 336، ابو محمد الدارمی، عبد الله بن عبد الرحمن، سنن دارمی، تحقیق حسین سلیم أسد، ط: 1- 1412ھ، دار المغنی۔ السعودية، حدیث نمبر 1907، ابن ماجه القزوینی، ابو عبد الله محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، دار إحیاء الكتب العربية- حدیث نمبر 1769، ابو داود السجستاني، سلیمان بن الأشعث، سنن أبي داود بإشراف فضیلة الشیخ صالح بن عبد العزیز، دار السلام للنشر و التوزیع الریاض، ط: 1، 1420ھـ حدیث نمبر 2466، ابو عبد الرحمن النسائي، أحمد بن شعیب بن علي الخراساني، السنن الكبرى، تحقیق : حسن عبد المنعم شلبی، مؤسسة الرسالة۔ بیروت، ط: 1، 1421 ھـ ، حدیث نمبر 3329، ابو بكر ابن خزیمة، محمد بن إسحاق بن المغیرة، صحیحُ ابن خُزَیمة، تحقیق الدكتور محمد مصطفى الأعظمي - المكتب الإسلامي، ط: 3، 1424 ھـ. حدیث نمبر 2221۔
  5. ۔دیكھئے : ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع، الطبقات الكبرٰی، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، ط: 1، 1410ھ، دار الكتب العلمية۔ بیروت 2/ 150۔
  6. ۔ملاحظہ ہو: ابو الحجاج المزی، یوسف بن عبد الرحمن، تهذیب الكمال فی أسماء الرجال، تحقیق د. بشار عواد معروف، مؤسسہ الرسالہ– بیروت، ط: 1، 1400ھـ.19/403۔
  7. ۔ مزید تفصیل كے لئے ملاحظہ ہو : تهذیب الكمال فی أسماء الرجال 11/154۔
  8. ۔ دیكھئے : تهذیب الكمال فی أسماء الرجال 33/129۔
  9. ۔ ابن حجر العسقلاني، أحمد بن علي، فتح الباری شرح صحیح البخاری، تحقیق فؤاد عبد الباقي، دار المعرفة۔ بیروت، ط: 1379ھ، 1/455۔
  10. ۔المعلمي الیماني، عبد الرحمن بن یحییٰ، التنكیل بما فی تأنیب الكوثری من الأباطیل، المكتب الإسلامي۔ ط: 2، 1406ھ، 2/779۔
  11. ۔ تفصیل كے لئے ملاحظہ ہو :، حافظ ابن حجر كی فتح الباری 1/455۔
  12. ۔ ابن حجر العسقلاني، أحمد بن علی، تقریب التهذیب، تحقیق: محمد عوامة، دار الرشید۔ سوریا۔ ط: 1، 1406 ھ، 1/624۔
  13. ۔ابن أبي حاتم، عبد الرحمن بن محمد. الجرح والتعدیل ط: 1، طبعہ مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، حیدر آباد دكن،9/350۔
  14. ۔ الدارقطني، ابو الحسن علي بن عمر بن أحمد، العلل الواردة فی الأحادیث النبویة، تحقیق وتخریج: محفوظ الرحمن زین الله السلفی دار طیبہ۔ الریاض، ط: 1 1405 ھـ 15/138۔
  15. ۔ ابو بكر البزار، أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، تحقیق: محفوظ الرحمن زین الله، وعادل بن سعد وصبری عبد الخالق الشافعی، مكتبہ العلوم والحكم۔ المدینہ المنورة، ط: 1، 2009م 15/392، ابو بكر البیهقی، أحمد بن الحسین، السنن الكبرى، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، دار الكتب العلمية۔ بیروت، ط: 2، 1424ھ، 4/516۔
  16. ۔ صحیح بخاری 8/ 160 حدیث نمبر 6626۔
  17. ۔ تفصیل كے لئے ملاحظہ ہو: علل الحدیث 4/ 156۔
  18. ۔ مرسل روایت كے لئے ملاحظہ ہو: ابو بكر الصنعاني، عبد الرزاق بن همام، المصنف، تحقیق حبیب الرحمن الأعظمي، المكتب الإسلامی۔ بیروت، ط: 2، 1403 ھ، 8/ 497۔
  19. ۔ دیكھئے : تهذیب الكمال 31/ 509۔
  20. ۔ تهذیب الكمال 31/ 509۔
  21. ۔ دیكھئے : تهذیب الكمال 28/303۔
  22. ۔ دیكھئے : الجرح و التعدیل 8/ 116۔
  23. ۔ تفصیل كے لئے ملاحظہ ہو: فتح الباری 11/519۔
  24. ۔ انكی روایات بالترتیب: سنن ابن ماجة 1/ 683، ابو عبد الله الحاكم، محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدوية بن نُعیم، المستدرك على الصحیحین، تحقیق : مصطفى عبد القادر عطا - دارالكتب العلمية۔ بیروت، ط: 1، 1411ھـ. 4/ 334، سنن بیہقی 10/ 58، ابو القاسم الطبراني، سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر، المعجم الأوسط، تحقیق : طارق بن عوض الله بن محمد، و عبد المحسن بن ابراهیم الحسیني، دار الحرمین۔ القاهرة، 5/ 54،أبو جعفر الطحاوي، أحمد بن محمد، شرح مشكل الآثار، تحقیق شعیب الأرنؤوط، مؤسسہ رسالہ، ط: 1، 1415 ھ، 2/144۔
  25. ۔ النیسا بوری، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، تحقیق : محمد فؤاد عبد الباقی، دار إحیاء التراث العربي بیروت، ط: 1، 1375هـ 1/ 194 حدیث نمبر 755۔
  26. ۔ علل الحدیث 1/585۔
  27. ۔ صحیح مسلم 1/ 194 حدیث نمبر 755۔
  28. ۔ انكی روایات بالترتیب: سنن أبی داؤد حدیث نمبر 18، الترمذی ابو عیسى، محمد بن عیسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، سنن الترمذی، تحقیق وتعلیق: أحمد محمد شاكر ومحمد فؤاد عبد الباقی، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابی الحلبی۔ مصر، ط: 2، 1395 هـ حدیث نمبر 3384، ابن ماجہ حدیث نمبر 302، مسند أحمد 6/ 70 حدیث نمبر 24914، صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 207، ابو حاتم البستی، محمد بن حبان بن أحمد، الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، ترتیب: الأمیر علاء الدین علی بن بلبان الفارسی، تحقق: شعیب الأرنؤوط - مؤسسہ الرسالہ، بیروت، ط: 1، 1408 ه.حدیث نمبر 801۔
  29. ۔ ان كے احوال كے لئے دیكھئے بالترتیب: تهذیب الكمال 16/241، اور 8/83۔
  30. ۔ علل الحدیث 1/77۔
  31. ۔ ابو عبد الله الذهبی، شمس الدین محمد بن أحمد قایماز، ذكر من یعتمد قوله فی الجرح والتعدیل، تحقیق عبد الفتاح ابو غدة، دار البشائر۔ بیروت، ط: 4، 1410ھ، ص: 172۔
  32. ۔ ابو الحسنات، محمد عبد الحی اللكنوی، الرفع والتكمیل فی الجرح والتعدیل، تحقیق عبد الفتاح ابو غدة، مكتب المطبوعات الإسلامیة۔ حلب، ط: 3، 1407 ھ، ص: 173۔
  33. ۔ علل الحدیث 2/61۔
  34. ۔ ابن حجر العسقلانی، أحمد بن علی، تهذیب التهذیب، ط: 1، 1326 ھ، 9/157۔
  35. ۔ ملاحظہ ہوسنن ترمذی 1/ 402 حدیث نمبر 207۔
  36. ۔ العلل الواردة فی الأحادیث النبویة 14/391۔
  37. ۔ تهذیب التهذیب 3/219۔
  38. ۔ مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 1838، مسند حمیدی حدیث نمبر 1069، مسند أحمد 2/ 284 حدیث نمبر 7805، 2/ 363 حدیث نمبر 9472، 2/ 461 حدیث نمبر 9943، 2/ 472 حدیث نمبر 10100، سنن ترمذی حدیث نمبر 207، صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 1528۔
  39. ۔ یہ روایت ملاحظہ ہو: مسند إسحاق بن راہویہ 2/541 حدیث نمبر 1124، مسند أحمد 6/ 65 حدیث نمبر 24363، تاریخ كبیرللبخاری 1/78، علل الكبیر للترمذی 92، الضعفاء الكبیر للعقیلی 4/ 435، مسند أبی یعلٰی 4562، شرح مشكل الآثار حدیث نمبر 2195، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 1671۔
  40. ۔ تفصیل كے لئے ملاحظہ ہو : مسند أحمد 2/ 382 حدیث نمبر 8958، سنن أبی داؤد حدیث نمبر 518 صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 1529۔
  41. ۔ صحیح ابن خزیمہ 3/16 حدیث نمبر 1531۔
  42. ۔ ملاحظہ ہوسنن ترمذی 1/ 402 حدیث نمبر 207۔
  43. ۔ دیكھئے : مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 1839، ابو بكر بن أبی شیبة، عبد الله بن محمد بن ابراهیم بن عثمان، الكتاب المصنف فی الأحادیث والآثار تحقیق كمال یوسف الحوت، مكتبہ الرشد۔ الریاضـ ط: 1، 1409ھ- 1/ 224 حدیث نمبر 2352، مسند أحمد 2/ 419 حدیث نمبر 9418، صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 1531، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 1672۔
  44. ۔ سنن ترمذی 1/ 402 حدیث نمبر 207۔
  45. ۔ مسند أحمد حدیث نمبر 8896 اور 67106۔
  46. ۔ صحیح ابن حبان 4/559حدیث نمبر 1671۔
  47. ۔ تفصیل ملاحظہ ہو نیچے مكمل تخریج كے ساتھ۔
  48. ۔ صحیح مسلم 3/ 107 حدیث نمبر 2407، اور 2408، جبكہ إمام مسلم اس میں متفرد نہیں بلكہ مسند حمیدی حدیث نمبر 416، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 4827 میں بھی یہ روایت موجود ہے۔
  49. ۔ ملاحظہ ہو: مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 18676، مسند أحمد 3/ 4 حدیث نمبر 11021 و 11287 و 11671 و 11716، صحیح بخاری 4/ 137 حدیث نمبر 3344 اور 6/ 67 حدیث نمبر 4667 صحیح مسلم 3/ 110 حدیث نمبر 2415، سنن أبی داؤد حدیث نمبر 4764، سنن نسائی 5/ 87۔
  50. ۔ دیكھئے بالترتیب : تقریب التهذیب 1/ 413 اور 1/ 244۔
  51. ۔ تقریب التهذیب 1/ 409۔
  52. ۔ صحیح بخاری 5/ 81 حدیث نمبر 3995 اور 5/ 94 حدیث نمبر 4041۔
  53. ۔ علل الحدیث 3/ 347۔
  54. ۔ تقریب التهذیب 1/ 368۔
  55. ۔ مصنف ابن أبی شیبة 14/ 358 حدیث نمبر 37822۔
  56. ۔ دیكھئے بالترتیب : تقریب التهذیب 1/ 94 اور 1/ 320۔
  57. ۔ الجرح والتعدیل 2/ 137۔
  58. ۔ ملاحظہ ہو : صحیح بخاری 3/ 57 حدیث نمبر 2076۔
  59. ۔ صحیح بخاری 8/ 11 حدیث نمبر 6021۔
  60. ۔ ملاحظہ ہو : صحیح بخاری 3/ 57 حدیث نمبر 2076، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 2203، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 4903۔
  61. ۔ صحیح بخاری 8/ 11 حدیث نمبر 6021، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 3379۔
  62. ۔ تقریب التهذیب 1/ 508۔
  63. ۔تقریب التهذیب 1/507۔
  64. ۔ ملاحظہ ہو : مسند أحمد 3/ 340 حدیث نمبر 14713، سنن ترمذی حدیث نمبر 1320،
  65. ۔ تقریب التهذیب 1/ 224۔
  66. ۔روایت ملاحظہ ہو : صحیح بخاری 3/ 88 حدیث نمبر 2128۔
  67. ۔سنن كبریٰ للبیہقی 6/ 52 حدیث نمبر 11163، مزید تفصیل كے لئے فتح الباری 4/ 345۔
  68. ۔روایت ملاحظہ ہو : مسند أحمد 4/ 131 حدیث نمبر 17309، صحیح بخاری 3/ 88 حدیث نمبر 2128، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 4918، اگرچہ اس روایت سے جبیر بن نفیر ساقط ہے لیكن یہ بھی "ثور بن یزید" سے ہی مروی ہے جو كہ تخریج سے واضح ہے۔ جبكہ بحیر بن سعد كی مذكورہ روایت جو بقیہ سے مروی ہے، وہ ہمیں كتب حدیثیہ میں نہیں مل سكی البتہ بقية بن الولید كی مشہور روایت جبیر بن نفیر كے حذف كے ساتھ موجود ہے لیكن وہ مسند مقدام میں سے نہیں بلكہ مسند أبي أیوب أنصاری سے ہے۔ملاحظہ ہو : مسند أحمد 4/ 414 حدیث نمبر 23508، 23509، سنن بیہقی 6/ 52۔
  69. ۔ سنن كبریٰ للبیہقی 6/ 52 حدیث نمبر 11161۔
  70. ۔ تهذیب الكمال 17/ 443۔
  71. ۔ ابو نعیم الأصبهانی، أحمد بن عبد الله بن أحمد، حلية الأولیاء و طبقات الأصفیاء، دار سعادة۔ مصر، 1394ھ، 5/ 217۔
  72. ۔ ابو بكر البيهقی، أحمد بن الحسین، شعب الإیمان، تحقیق د۔ مختار أحمد، مكتبہ رشد۔ ریاض، ط: 1، 1423ھ، 3/ 338 حدیث نمبر 1792۔
  73. ۔ علل الحدیث 4/ 579۔
  74. ۔ روایت ملاحظہ ہو : مصنف ابن أبی شیبہ 10/ 481 حدیث نمبر 30628، مسند عبد بن حمید حدیث نمبر 483، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 122، شعب الإیمان 3/ 338 حدیث نمبر 1792، المعجم الكبیر للطبرانی 22/ 188 حدیث نمبر 491۔
  75. ۔ شعب الإیمان 3/ 338 حدیث نمبر 1792۔
  76. ۔ ابو أسامہ كے أحوال كے لئے : تقریب التهذیب 1/177، اور ابو خالد الأحمر تقریب التهذیب 1/ 250۔
  77. ۔ ملاحظہ ہو: 1/464۔
  78. ۔ المناوی، زین الدین محمد بن تاج، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، مكتبہ تجاریہ۔ مصر، ط: 1، 1356 ھ، 7/ 12۔
  79. ۔ ابن حجر العسقلانی، أحمد بن علی، المطالب العالية بزوائد المسانید الثمانية، تحقیق د۔ سعد بن ناصر، دار العاصمة للنشر والتوزیع۔ ط: 1، 1420ھ، 14/ 393۔
  80. ۔ صحیح مسلم 1/ 463 حدیث نمبر 283۔
  81. ۔ علل الحدیث 2/ 297۔إمام ابن أبی شیبہ نے یہ طریق اپنی مصنف میں ذكر كیا ہے مصنف ابن أبی شیبہ 2/ 160 حدیث نمبر 7654۔
  82. ۔ صحیح مسلم 1/ 463 حدیث نمبر 283۔
  83. ۔مصنف ابن أبی شیبہ 2/160 حديث نمبر 7650، مسند أحمد 2/ 426 حدیث نمبر 9501 و 3/ 317 حدیث نمبر 14461 و 3/ 305 حدیث نمبر 14326 و 3/ 357 حدیث نمبر 14914، سنن دارمی حدیث نمبر 1288، صحیح مسلم 2/ 132 حدیث نمبر 1468، مسند أبی یعلیٰ حدیث نمبر 1941، صحیح ابن حبان حدیث نمبر 1725۔
  84. ۔ روایت ملاحظہ ہو : مصنف ابن أبی شیبہ 2/ 160 حدیث نمبر 7654۔ اور إمام بخاری كی خلق أفعال العباد حدیث نمبر 614۔ إمام مروزی نے اپنی كتاب "تعظیم قدر الصلاة" حدیث نمبر 91 میں نقل كی ہے۔
  85. ۔ زین الدین، عبد الرحمن بن أحمد، شرح علل الترمذی، تحقیق د۔ ہمام عبد الرحیم سعید، مكتبہ منار۔ أردن، ط: 1، 1407 ھ، 2/716۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...