Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

تعلیم المدنیت (شہریت کی تعلیم) اسلامی تناظر میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_639

Pages

132-138

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/96/89

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/96

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

موجودہ زمانے کو (Information age) یعنی خبر کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی خبر چھپی نہیں رہ سکتی نہ زیادہ عرصہ تک چھپائی یا دبا ئی جاسکتی ہے ہر خبر اپنا مثبت یا منفی تاثر رکھتی ہے۔ ہمارے معاشرے سے متعلق جو خبر عام ہوتی ہے، وہ عمومی طور پر منفی تاثر پھیلاتی ہے۔ اور جلد ہی پھیل جاتی ہے۔ ہمارا واسطہ آج کل ماضی قریب اور حال میں جن خبروں سے آتا رہا ہے وہ کچھ ایسی ہی ہیں کہ استاد نے تشدد کرکے طالب علم کا بازو توڑ دیا [1]، جج قتل کے الزام میں گرفتار[2] ، ڈاکٹر گُردوں کی غیر قانونی پیوند کاری کے الزام میں گرفتار[3] پولیس کا اعلیٰ ترین عہدہ دار کرپشن کے الزام میں گرفتار[4] وغیرہ وغیرہ۔ خبروں کا یہ لا متناہی سلسلہ مسلسل جاری ہے اور نہ صرف ہمارے معاشرے میں رہنے والے افراد کے دل و دماغ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کے اذہان بھی لا شعوری طور پر ایک گونہ احساسِ جرم اور مجرمانہ ذہنیت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پہ وجود میں آیا اور جس کی آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمان ہے ایسے معاشرے کے بارے میں اس قسم کا تاثر بیرونی دنیا میں یا معاشرے کے اپنے افراد کے ذہنوں میں منفی ہونا اور ایسی خبریں آنا یقیناًانتہائی سنجیدگی سے غور طلب ہے۔ نیز ماہرین تعلیم اور جملہ مقتدر حلقوں کے لیے آنے والے خطرات کی گھنٹی ہے۔

تعلیم المدنیت، شہری تعلیم یا Civic Education کی ضرورت جتنی آج ہے شاید ہی پہلے کبھی محسوس کی گئی ہو۔ ہمارا معاشرہ ارتقائی دور سے گزر رہا ہے جہاں ہمارے قدیمی نظامِ تربیت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ والدین اس معاشی ابتری کے دور میں پیسہ کمانے میں اس حد تک جتے ہیں کہ انہیں اپنی دیگر ذمہ داریوں کا کوئی احساس عمومی طور پر نہیں۔ اولاد کی تربیت کے حوالے سے انتہائی لا پرواہی برتی جا رہتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل ایک منجھدھار میں گھری ہوئی کشتی کی مانند ہے جس کے بچ نکلنے کے لیے کسی معجزے کا انتظار کیا جا سکتا ہے نہ کوئی فوری تدبیر کی جا سکتی ہے۔ 

ان تمام حقائق کی روشنی میں امید کی کرن اگر نظر آسکتی ہے اور توقع وابست کی جاسکتی ہے تو وہ ہمارے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام ہے جس پر ذمہ داری پہلے سے بہت زیادہ آچکی ہے اور اسی سے امید کی لو لگائی جا سکتی ہے ۔

سوک تعلیم کیا ہے؟

شہری تعلیم یا سوک تعلیم کی کوئی ایسی متفق علیہ تعریف سامنے نہیں آئی ، کہیں اسے اقدار کی تعلیم کیا گیا ۔ کہیں اچھا شہری بناے کی تعلیم کہا گیا[5]۔ (Kunzman) کنز مین نے 2005ء میں لکھا کہ سوک تعلیم کے سلسلے میں مذہب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مذہب ایک ذمہ دار شہری بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے[6]۔ 

اسلامی زاویہ

اسلام ان تعریفات سے بڑھ کر بات کرتا ہے۔ اسلام اچھا شہری بنانے کی بجائے اچھا انسان بنانے کی بات کرتا ہے جب فرد اچھا انسان بن جائے تو پھر وہ خود بخود اچھا شہری بھی یقیناًبنے گا کیونکہ ایسا شہری نہ صرف قانون کا احترام کرتا ہے بلکہ تمام فرائض کما حقہ ادا کرتا ہے۔ 

سوک تعلیم یا شہریت کی تعلیم اور ہمارا مروجہ نظام تعلیم

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے مروجہ نظام تعلیم میں سوک تعلیم یا سوک شعور پیدا کرنے والے اسباق مختلف مضامین مثلاً انگریزی ، اُردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم وغیرہ میں شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے باوجود ہمارے طلبہ میں وہ شعور بہتر طور پر کیوں پیدانہیں ہو رہا۔ اس سوال کے ممکنہ جوابات میں سے دو واضح اور آشکار ہیں۔ 

اول یہ کہ ان اسباق کو عام اسباق کی طرح پڑھایا جاتا ہے آخر میں چند مشقی سوالات حل کرکے اساتذہ اور طلبہ اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ 

دوئم یہ کہ یہ اسباق سکول میں اور بیش تر پرائمری کلاسوں کے نصاب میں شامل ہیں اس عمر میں بچوں کے ذہن ان تصورات سے مکمل طور پر نا واقف ہوتے ہیں۔  جب ان باتوں کو برتنے سمجھنے کا وقت آتا ہے اس وقت تک طلبہ ان چیزوں کو فراموش کر چکے ہوتے ہیں ۔ لہذا یہ تمام اسباق شامل ہونے کے باوجود وہ فائدہ نہیں دے پاتے جو طلبہ کے رویوں اور زندگی کے مختلف ادوار میں ان کو جذباتی، سماجی و معاشرتی اور سیاسی طور پر بالغ کر سکیں۔

چین (China) میں ژیاؤ اور ٹونگ نے 2010ء میں اپنی تحقیق زیر عنوان "آج کی چینی جامعات میں سوک تعلیم دینے کے طریقے اور مقاصد کے ذریعے" اس نتیجے پر پہنچے کہ ثقافتی اور تاریخی ضروریات پوری کرنے کے لیے چینی جامعات کو سوک تعلیم کا ادھورا سبق مکمل کرانا چاہیے۔ جو کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نہیں چھیڑ ا جاتا ، ژیاؤ اور ٹونگ نے یہ بھی کہا کہ جامعات کا مقصدِ تعلیم یہ ہے کہ طلبہ کو ایسے انداز میں تعلیم دیں کہ وہ اقدار کی اہمیت کو سمجھیں اور اس تعلیم کے نتیجے میں ایسے تربیت یافتہ ہوں کہ اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے جذبات پر قابو رکھ سکیں[7] ۔

جانسن نے 2012ء میں اپنی تحریر بعنوان (سِوِک) شہریت کا سبق کے تحت لکھا کہ (White House) یہ موقف رکھتا ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف حصول روزگار نہیں ہونا چاہیے بلکہ تعلیم یافتہ افراد شہریت کے آداب اور مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں۔ اس رپورٹ کے مطابق طلبہ میں بنیادی سوک تعلیم کا فقدان پایا جاتا ہے اور مشکل سے 25% (یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل) امریکی طلبہ ملک کے سیاسی نظام جمہوری اصولوں، عالمی معاملات اور بطورِ شہری اپنی ذمہ داریوں سے آگا ہ ہیں[8]۔ 

ایسی ہی مختلف تحقیقات جو دنیا میں سوک تعلیم کے سلسلے میں ہورہی ہیں ، ان سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے طول و عرض میں ۔ ترقی یافتہ ممالک اور مغربی ممالک میں یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ صرف سائنسی ترقی اور جدید ہتھیاروں کا حصول کامیابی نہیں بلکہ اخلاقیات ، معاشرے اور حقوق و فرائض کا نظام مضبوط ہونا کامیاب انسان کی عکاس ہیں۔

سوک تعلیم کا اسلامی تناظر

جیسا کہ سوک تعلیم کو اقدار کی تعلیم بھی کہا جاتا ہے اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقدار کا ماخذ کیا ہے؟ عام طور پر اقدار کے ماخذ معاشرہ ، ثقافت، تاریخ اور مذہب سمجھے جاتے ہیں کہ ان ہی کے ذریعے اقدار ہمیں پہنچتی ہیں۔ 

اسلام کے مقابلے میں مغربی تصور سِوِک تعلیم اسی بناء پر محدود نظر آتا ہے کہ وہ سوک تعلیم کو صرف ایک اچھا اور ذمہ دار شہری بنانے تک محدود رکھتا ہے اور اس کے خیال میں سوک تعلیم کا مقصد اور محوریہ ہے کہ ایک فرد اچھا اور ذمہ دار شہری ہو جو قانون کی پاسداری کرے اور معاشرے میں ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرے۔ فی زمانہ یہ ایک بڑی بات ہے کہ ایک شخص ان خوبیوں سے آراستہ ہو لیکن اسلام اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہے اور وہ نہ صرف سوک تعلیم بلکہ تعلیم کا مقصد ایک آدمی کو انسان بنانا خیال کرتا ہے۔ اسلامی تصور تعلیم اور مقصد تعلیم ایک اچھا انسان بنانا ہے۔ اور اچھا انسان اچھے کام کیمرے کی آنکھ کے خوف سے نہیں کرتا ۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے رُک جاتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ 

سِوِ ک تعلیم کی مختلف جہتیں اسلامی تناظر میں درج ذیل ہیں۔ 

۱۔ شہری زندگی

۲۔ معاشرتی زندگی

۳۔ مزدور کی عزت اور کسب حلال

۴۔ پودوں اور جانوروں کے حقوق 

۵۔ صحت و صفائی

۶۔ قانون کی حکمرانی 

۷۔ ذاتی اور خاندانی زندگی

۸۔ انسانی حقوق 

یہ تمام جہتیں سوک تعلیم کے اسلامی تناظر کی بھر پور عکاسی کرتی ہین۔ اور بتاتی ہیں کہ اسلام میں سوک تعلیم کا تصور انتہائی جامع اور آفاقی ہے۔ 

اسلام اور سوک تعلیم کا تصور کس حد تک متعلق ہیں اس کا اندازہ ذیل میں دی گئی چند آیات اور احادیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ بِالْوَالِدَينِ اِحْسَاناً: اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو [9]۔

آج کل کے مادی دور میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اولاد کا والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا تعلق نہیں بلکہ دن بدن یہ تعلق کمزور ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو سہولیات پہنچانے کی خاطر ہر جائز و ناجازئز راستہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے لیے مال و دولت جمع کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ لیکن یہی اولاد بعد میں والدین کو اپنے ساتھ رکھنے یا اُن کی خدمت سے بیزار نظر آتی ہے۔ جبکہ اللہ پاک نے اولاد کو تلقین کی ہے کہ والدین کے حق میں یوں دُعا کریں۔ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ’’اور کہو کہ اے اللہ ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے چھوٹے ہوتے ہوئے مجھ پر کیا‘‘[10]۔

ولا تقتلوا أولادکم خشية إملاق، اور اپنی اولاد کو نا داری کے اندیشے سے قتل مت کرو[11]۔آج کے دور میں آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں والدہ اپنے بچوں کے ساتھ دریا میں کو د گئی بھوک کے خوف سے اور اخراجات کے پورے نہ ہونے کے غم میں ۔ کہیں والدین بچوں کو فروخت کر رہے ہیں ناداری اور غربت کی وجہ سے ۔ یہ سب مایوسی اور یاس کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ کا حکم ہے۔ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ: اور اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو[12] اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف اخلاقی امراض اور بیماریوں کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ 

وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ ’’اور وعدہ پورا کرو[13]۔ 

لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ ’’کوئی گروہ یا (شخص) دوسرے کا مذاق نہ اُڑائے‘‘[14]۔

وَلَا تَجَسَّسُوا ’’اور ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو‘‘[15]۔ 

وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ’’اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو‘‘[16]۔ 

اور اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں نسل پرستی اور بسانیت اور اس کی بنیاد پر فخرو غرور کا مظاہرہ کرنے والوں کو یاد دلایا کہ (إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى) اورم نے تم ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف خاندانوں اور قبائل میں سے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کر سکو۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے[17]۔ 

اس بات کو نظر انداز کرنے سے آج ہمارے ملک میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم مختلف جنگیں رونما ہوچکی ہیں یا مختلف علاقوں میں اسی بنیاد پر لاوا پک رہا ہے۔ حضورپاک ﷺ نے اپنے عمل اور کردار اور سنت واحادیث کی صورت میں ان اصولوں کو مزید واضح کر دیا آپﷺ نے فرمایا ۔

المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده ۔ مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں[18]۔ حضورپاکﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ۔ لا تحقرن من المعروف شيئا ولوأن تلقی أخاك بوجه طليق نیکی میں کسی چیز کو حقیر اور کم نہ سمجھو چاہے وہ اپنے (مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہو[19]۔

الطهور شطر الإيمان ۔ صفائی نصف ایمان ہے[20]، یہ حدیث تو زبان زدِ عام ہے۔ ایک اور جگہ حضور نبی ﷺْ نے فرمایا ۔ کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعيته ۔ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے یعنی اگر کوئی بڑا ہے تو اس سے چھوٹے کے متعلق ، پوچھا جائے گا۔[21]والد سے اسکے اہل وعیال کے بارے میں بادشاہ سے اسکے زیر اثر علاقے کے بارے میں اسی طرح دفتر کے افسر سے اس کے ماتحت لوگوں کے حوالے سے الغرض اس طریقے سے ہر شخص کے حقوق و فرائض دونوں کا تحفظ بھی کر دیا گیا اور فرائض کے بارے میں متنبہ بھی۔ ان آیات و حدیث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ اسلام حقوق و فرائض کی ادائیگی کے بارے میں کتنی گہرائی اور باریک بینی کا متقاضی ہے۔ 

انسانی معاشرہ روز بروز مادی ترقی کی منازل تیزی سے طے کر رہا ہے ۔ لیکن اخلاقی انحطاط اور انسانی اقدار کی زبوں حالی بھی آشکار ہیں۔ آج کے دور میں انسانی دنیا بالعموم اور مسلمان بالخصوص فلاح و کامیابی کا راستہ اسلامی تصورتعلیم کو نظر انداز کرکے طے کرتے نظر نہیں آسکتے ۔ 

ان تمام مشکلات اور مسائل کا حل سوک تعلیم کا ایک ایسا مربوط اور ہمہ جہت پروگرام ترتیب دینا ہے جس سے طلبہ کی ہمہ جہت تربیت ہو، ایک مسلمان کے لیے یہ تمام امور اور سوک تعلیم کی مختلف جہتوں پر عمل پیرا ہونا اختیاری نہیں لازمی ہے۔

حوالہ جات

  1. Express Tribune, 2011
  2. Nation.com.pk/ Karachi, March, 2014
  3. Pakistantoday.com/ Lahore, March, 2014
  4. Medicallicenseverification.com, 2011
  5. Pakistan Criminal records, 2012
  6. Kunzman, R (2005). Religion, Politics and Civic Education. Kunzaman (2005) Journal of Philosophy of Education online library.wiley.com
  7. Xiao, P and Tong (2010) Aims and Methods of Civic Education in Today's Universities of China, Asian and social sciences  6(4) 44-48.
  8. . Johnson, F (2012). A Civic Lesson, National Journal Education Experts Blog, Jan. 2012, http://education.nationaljournal.com/2012.
  9. . بنی اسرائیل : ۲۳
  10. . بنی اسرائیل : ۲۴
  11. . بنی اسرائیل:۳۱
  12. . سورۃ الزمر : ۵۳
  13. . سورۃ بنی اسرائیل: ۳۴
  14. . 1لحجرات: ۱۱۱
  15. . الحجرات: ۱۲
  16. . الحجرات:12
  17. . الحجرات: 13
  18. . صحىح البخاری ، كتاب الایمان ، حدیث رقم۔ 10
  19. . صحيح مسلم ، کتاب البر ولصلہ، حدیث نمبر ۔ 2626
  20. . صحىح مسلم کتاب الطھارہ ، حدیث نمبر۔ 223
  21. . صحىح بخاری، کتاب الجمعۃ ، حدیث نمبر۔ 893
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...