Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

جنگی جرائم اسلام اور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_705

Pages

224-236

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/207/197

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/207

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جنگی جرائم کی تعریف:

جنگى جرائم سے مراد وہ افعال ہىں جو قانون (Jus Contra Bellum)کے مطابق جرائم شمار کئے گئے ہىں۔۱

نیور مبرگ ٹرائل رپورٹ 1950ء کے مطابق جنگی جرائم سے مراد جنگ کے قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ قتل و غارت گری، ناروا سلوک، سول آبادی یا مفتوحہ علاقے کی تباہی وبربادی ، جنگی قیدیوں کے قتل، یرغمالیوں کے قتل، لوگوں کی جائیداد کی لوٹ مار، اور شہروں ، قصبوں، دیہاتوں کی تباہی و بربادی تک محدود نہیں ہے۔ ٢

War crime, according to international law are serious violation of the laws or customs of war as defined by international customary law and international treaties. For example, the Lieber Code held that it was a "serious breach of law of war to force the subjects of the enemy into service for the victorious government and prohibited wanton violence committed against persons in the invaded country, "including rape, maiming and murder, all of which carried the penalty of death.".

بین الاقوامی مروجہ قانون اور بین الاقوامی معاہدات کی رو سے جنگی قوانین اور ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی کو جنگی جرائم سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر لائبر کوڈ کے مطابق یہ جنگی قوانین کی سنگین پامالی تھی کہ فاتح حکومت مفتوحین کو اپنی خدمت پر مجبور کرے اور ممنوعہ تشدد کو روا رکھے۔ اس کے علاوہ عصمت دری، مثلہ، قتل و غارت گری جن کی سزا موت ہے بھی شامل تھے۔ ٣

انسان جب سے اس دنیا میں آباد ہوا ہے۔ اسی وقت سے انسانی معاشرہ جنگوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ انسانی تاریخ کا کوئی دور جنگوں کے حالات اور انسانوں کے باہمی اختلافات سے خالی نہیں اور انسان کی یہ کوشش بھی ہمیشہ رہی ہے کہ جنگ و جدل اور اختلاف کو کچھ حدود و قیود کا پابند کیا جائے لیکن ہمیشہ ہی اخلاقی ضابطوں اور قوانین کو پامال کیا گیا اور ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا گیا جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اسلام نے آکر جنگ و جدل اور اختلافات کو کچھ حدود قیود کا پابند بنایا اور اس کے پیروکاروں نے ہمیشہ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پاس رکھا ہے اور رہتی دنیا کیلئے لازوال مثالیں چھوڑی ہیں۔ بین الاقوامی طور پر بھی امن و سلامتی کیلئے مختلف نوعیت کے معاہدات اور کنونشنز منعقد ہوئے ہیں۔ جن میں مختلف قوانین کو ترتیب دیا گیا ہے۔ لیکن ہمیشہ ہی ان قوموں نے اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے اور ایسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ الامان والحفیظ۔

ویسے تو تاریخ انسانی کے اوراق جنگی جرائم سے بھرے پڑے ہیں لیکن مختصراً عہد قدیم، عہد وسطیٰ اور عہد جدید کے چند جنگی جرائم کا تقابل اسلام اور بین الاقوامی قانون سے کیا جاتا ہے۔

1۔ مُثلہ:

قدیم عربوں کیلئے جنگ اور خونریزی بہت پسندیدہ بات تھی لوٹ ما ر اور غارت گری ان کا پیشہ تھا۔ جنگوں کے دوران شدید نوعیت کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جاتا تھا ان انسانیت سوز جرائم میں سے ایک جرم مُثلہ بھی ہے۔ دشمن کی نعشوں کی بے حرمتی، دشمن کے ناک، کان اور دیگر اعضاء کی قطع و برید، دشمن کے دل اور جگر وغیرہ کو چبانا اور کھوپڑی میں شراب پینا ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ ٤

قدیم عربوں کی طرح قدیم ایرانی جرائم کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ جنگی قیدیوں کو جنگلی جانوروں سے پھڑوا دیتے تھے۔ قتل کرکے انسانوں کی کھال کھنچوانا اور جیتے جی انسانوں کی کھال کھنچوانا ان کیلئے معمولی بات تھی۔ ٥

قدیم عربوں اور قدیم ایرانیوں کی طرح قدیم ہندوستانی بھی جنگی جرائم کے ارتکاب میں ان سے کم نہ تھے۔ زندہ آدمی کی کھال کھینچنا، اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کرنا، اعضاء کی قطع و برید، درندوں سے پھڑوانا، جانوروں کی کھالوں میں سی دینا ان کے معمولات میں شامل تھے۔ ٦

عہد وسطی میں بھی عہد قدیم کی طرح مثلہ کی رسم باقی رہی۔ مثلاً سقوط یروشلم کے دوران انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا۔ شہر کی گلیوں میں انسانی سروں ، ہاتھوں اور پیروں کے ڈھیر لگ گئے۔ ہیکل سلیمانی میں خون گھڑسواروں کے گھٹنوں تک جا پہنچا تھا۔ انسانی اعضاء خون میں تیر رہے تھے۔٧

سقوط بغدادکے دوران 1258ء میں تاتاریوں نے قتل و غارت گری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بغداد شہر میں لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان امیر کے جسم کی بوٹیوں کو اسی کے منہ میں ٹھونسا گیا۔ کئی جگہ لوگوں کو اپنا ہی گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ ٨

تیمور کو انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر خوشی ملتی تھی۔ اس نے ایران ، افغانستان، ہندوستان اور عراق میں بغداد پر حملوں کے دوران لاکھوں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنوائے۔ ٩

عہد جدید میں سقوط ڈھاکہ کے دوران ماوں کو اپنے بچوں کا لہو پینے پر مجبور کیا گیا۔ تشدد، اذیت، آنکھیں نکالنے، اعضاء کی قطع و برید اور عورتوں کی چھاتیاں کاٹنے جیسے المناک واقعات عام تھے۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے نوزائیدہ بچوں کو بھی پاش پاش کیا گیا۔ ١٠

صلیب پرست سربوں نے 1941ء میں بوسنیا کے مسلمانوں کا ان کے گھروں اور مسجدوں میں مثلہ کیا عورتوں کے سینوں کو کاٹا۔ حاملہ عورتوں کے پیٹ چیر کر بچوں کا مثلہ کیا۔ مردوں کے نازک اعضاء کو کاٹا اور کبھی ان کو کھولتے پانی میں ڈالا جاتا اور کباب کی طرح بھون دیا جاتا۔ ١١

9/11 کے بعد برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے دوران بودھوں نے بھی لاشوں کے مثلہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ٢١

اسلام نے دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی اور مثلہ کو سختی سے منع کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فوجوں کو روانہ کرتے وقت جو ہدایات دیا کرتے تھے ان میں خاص تاکید فرماتے کہ ولا تغدروا، ولا تمثلو ولا تقتلو ولیدا دھوکہ بازی نہ کرو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو۔ ١٣

بین الاقوامی عرف کی رو سے بھی Dum Dum Bullet دَم دَم گولی کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ کیونکہ یہ گولیاں بھی مثلہ کی طرح انسانی جسم کی چیر پھاڑ کر دیتی ہیں۔ ١٤

2۔ عصمت دری:

قدیم عرب کے نزدیک مفتوح قوم کی عورتوں کو بے حرمت کرنا، ان کو بے پردہ کرنا، بے دریغ عصمت دری اور ان کی تحقیر و تذلیل کرنا فاتح کیلئے قابل فخریات تھی۔ ١٥

صلیبی حملوں کا سلسلہ تقریباً ساڑھے تین سو سال جاری رہی۔ صلیبی جہاں جاتے تھے وہاں قتل و غارت گری، عصمت دری اور تباہی و بربادی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ 1218 ء میں تاتاریوں نے خوارزم شہر کی عورتوں کے لباس اتروا کر ان کا آپس میں مُکوں کا مقابلہ کروایا اور پھر ان کو تلواروں سے شہید کر دیا۔ ١٧

1492ء میں سقوط غرناطہ کے دوران اونچے گھرانوں کی مستورات، بیواوں اور شادی شدہ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی انہیں نیلام کیا گیا اور ذبح بھی کیا گیا۔ ١٨

عہد جدید میں جاپان میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے بعد جنگ کے اختتام پر ایک انتہائی مہلک اور تباہ کن بم جنرل میکارتھر کی صورت میں پہنچا۔ اس کی وجہ سے عورتیں، جوان لڑکیاں رسوائی، بے آبروئی کے اس لرزہ خیز اور روح فرسا دور سے گزریں جس کے تصور سے آج بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ ١٩

1857ء کی جنگ آزادی کے دوران انگریز فوجوں نے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو یہ انسان نما جانور عورتوں کی عصمت دری ان کے گھر والوں کے سامنے کرتے تھے۔ ہزاروں عورتوں نے کنووں میں ڈوب کر اپنی عزت بچائی۔٢٠

امریکہ کی بے حسی کی وجہ سے سربوں نے بوسنیا میں عصمت دری کے کیمپ قائم کیے۔ عورتوں کی عصمت دری ان کے خاندان کے لوگوں کے سامنے کی جاتی تھی۔ معصوم چار یا پانچ سال کی بچیوں کو بھی ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ عصمت دری کے بعد ان کی کھوپڑیاں پھوڑ کر زندہ ہی گہری کھائیوں میں پھینک دیاجاتا ۔ ٢١

اسلام نے مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت و عزت کی حفاظت کا خاطر خواہ انتظام کیا ہے اور عصمت دری اسلام کی نگاہ میں جرم عظیم ہے۔ لونڈیوں کی تقسیم سے پہلے ان سے قربت کرنے کوزنا شمار کیا گیا ہے اور جماع کیلئے اسے ایک ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔ البتہ اسے آزاد کرکے نکاح بھی کیا جا سکتا ہے۔ ٢٢

بین الاقوامی قوانین لائبر کوڈ، ہیگ کنونشنز اور جینوا کنونشنز میں جنگ کے دوران عصمت دریRape کو جنگی جرم تسلیم کیا گیا ہے۔

Violation of the prohibition of rape and other forms of sexual violence have been widely condemned by states and international organization. 23

3۔ اسیران جنگ سے سلوک:

عہد قدیم میں عرب میں جنگی قیدیوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا اور بسا اوقات جذبۂ انتقام میں ان کو انتہا درجہ کی اذیتیں دے دے کرمارا جاتا تھا۔ جنگ اُوارہ کا واقعہ مشہور ہے کہ بنی شیبان کے جتنے اسیران منذر بن امراو القیس کے قبضہ میں آئے ان سب کو کوہ اُوارہ کی چوٹی پر بٹھا کر قتل کرنا شروع کیا اور کہا کہ جب تک ان کا خون بہہ کر پہاڑوں کی جڑ تک نہ پہنچ جائے گا قتل کا سلسلہ بند نہ کروں گا۔ ٢٤

قدیم روم میں یہ قانون تھا کہ لا تعداد قیدیوں کو سکھلائے ہوئے درندوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا تھا اور ان کا مقابلہ کروایا جاتا یہ ان کی پسندیدہ تفریح تھی اور کبھی قیدیوں کو درختوں سے باندھ کر ان کے اوپر نشانہ بازی کے تجربات کیے جاتے تھے اور وہ مر جاتے تھے۔ ٢٥

ٍتیمور نے 1383ء میں سیستان کا رخ کیا اس دوران 2 ہزار افراد گرفتار ہوئے ان کو چونے اور مٹی میں زندہ گاڑ دیا گیا اور ان پر منارے کھڑے کر دئیے اس کے بعد کٹے ہوئے انسانی سروں کے مینار بنائے گئے۔ ٢٦

بین الاقوامی انسانی حقوق کا شوروغل بلند کرنے والوں نے عہد ِ جدید میں قیدیوں سے ایسا ظالمانہ اور سفاکانہ رویہ اختیار کیا کہ الامان والحفیظ۔ 1995ء ـ 1992 ء کے دوران سربوں نے بوسنیائی مسلمان قیدیوں کے سروں کو ٹریکٹر کے ریڈی ایٹر کے ذریعے پاش پا ش کیا ایک قیدی کے اعضاء اور گوشت کاٹ کر دوسرے کو کھانے پر مجبور کیا جاتا قیدیوں کو برہنہ کرکے ان کے اوپر آگ پھینکی جاتی اور ڈرل مشین کے ذریعے قیدیوں کے سینوں میں سوراخ کئے جاتے۔ ٢٧

1968ء میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کو دوران تفتیش سفاکانہ مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے جسموں کو سگریٹ سے داغا جاتا، اعضائے مخصوصہ پر راڈ لگائے جاتے۔ آنکھوں پر پٹی کئی دن تک بندھی رہتی۔ کتوں سے کٹوایاجاتا۔برقی جھٹکے لگائے جاتے۔ خواتین قیدیوں کو برہنہ کرکے ان پر تشدد کیاجاتا تھا۔٢٨

بگرام جیل اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کو سور کا گوشت کھانے کو دیاجاتا ۔ قیدیوں کے سروں کو پانی میں ڈبویاجاتا۔ الیکٹرک چیئر پر بٹھایا جاتا۔ زہریلے ٹیکے لگائے جاتے، قیدیوں پر مرچوںکا محلول پھینکا جاتا۔ نعوذ باللہ قرآن مجید کو قیدیوں کے سامنے پیروں سے روندا جاتا۔ ٢٩

2003ء میں عراق کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو ابو غریب جیل میں برہنہ کرکے ان کے نازک اعضاء پر کرنٹ لگایاجاتا۔ مردوں کے منہ پر عورتوں کے انڈرویئر چڑھائے جاتے۔ کتوں کے پٹے گلے میں ڈال کر گھسیٹا جاتا۔ غلاظت کھانے پر مجبور کیاجاتا، ایک دوسرے سے شرمناک فعل کرنے پر مجبور کیاجاتا ۔ ٣٠

اسلام میں جنگوں کے دوران دشمن کے جتنے افراد قیدی بنتے ان سے حسن سلوک کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ان سے ایسا سلوک روا رکھا جاتا تھا کہ بعض قیدی مسلمان بھی ہوجاتے تھے۔ قیدیوں کے قتل کو منع کیا گیا۔ اسلام میں قیدی عورتوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم کی گئیں۔ بین الاقوامی قانون میں بھی قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قیدیوں کے ساتھ سلوک کے معاملے کو ہیگ کنونشن 1907ء اور جنیوا کنونشنز 1929 ء اور 1949ء میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اس قانون پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا جیسا کہ مذکورہ بالا مثالوں سے ظاہر ہے۔ ٣١

4۔ عبادت گاہوں کی بے حرمتی:

غیر قوموں نے جنگ کے دوران ہمیشہ عبادت گاہوں کے تقدس کو پامال کیا ہے۔ ان کو جلایا ہے، ڈھایا ہے اور ان کے اندر غیر شرعی افعال کا ارتکاب کیا ہے۔ مثال کے طور پر

٭خسرو پرویز نے 645ء میں بیت المقدس فتح کرکے نوے ہزار انسانوں کا قتل عام کیا۔ عبادت گاہوں کو جلایا پھر اس کے جواب میں ہرقل نے ایران پر حملہ کیا تو ارمیان کو صفحہ ہستی سے مٹا کے رکھ دیا۔٣٢

٭١٣٢ھ میں بنو امیہ کے قتل عام کے دوران دمشق کی جامع مسجد کو اصطبل بنایا گیا قبروں کو اکھیڑ کر لاشوں کو کوڑے مارے گئے۔ لاشوں کو صلیب پر لٹکایاگیا۔ ان کے اوپر چمڑے کے دسترخوان لگاکر کھانے کھائے گئے۔ ٣٣

٭1220ء میں چنگیز خان نے بخارا کی جامع مسجد کی بے حرمتی کی، قرآن مجید کے بکسوں میں گھوڑوں کو چارا ڈالا، شہر لوٹ کر اسے آگ لگا دی، حاکم شہر کے کانوں میں پگھلا ہوا تانبا ڈلوایا گیا جس سے وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ ٣٤

٭چنگیزی لشکر نے لائبریریوں کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا۔ قرآن مجید کے مقدس اوراق کو گھوڑوں کے سموں کے نیچے روندا۔ مسجد میں شراب نوشی کی گئی اور عورتوں کی عصمت دری ان کے رشتہ داروں کے سامنے کی گئی۔ ٣٥

٭1568ء میں رام راج نے احمد نگر پر چڑھائی کی۔ مساجد میں خنزیر کاٹے گئے۔ ان کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا۔ قرآن مجید جلائے گئے۔ ٣٦

اسلام عبادت خانوں کی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتا چاہے وہ کسی بھی دین و مذہب کے پیروکار کے معبد ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے. " وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا " سورة الحج:٤٠

اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی جہاں اللہ تعالیٰ کا نام کثرت سے لیاجاتا ہے سب ڈھائے جا چکے ہوتے۔ ٣٧

بین الاقوامی قانون کے مطابق ایسی پابندیاں عائد کی گئی ہیں کہ جن کے مطابق فتح شدہ شہر پر کوئی بمباری نہ کی جائے۔

ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی نہ کی جائے اور شہر پر کاروائی سے پہلے اسے نوٹس دیاجائے۔ ٣٨

5۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کا قتل:

قدیم عرب جب اسیران کو قتل کرتے تھے تو عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرتے تھے اور آگ میں جلا دیتے تھے ۔ بچوں کو نشانہ لے کر تیروں سے ہلاک کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ ٣٩

٭Will Durant کے مطابق سقوط یروشلم کے دوران عورتوں کو خنجروں سے ہلاک کیا گیا۔ شیر خوار بچوں کو کھمبوں سے ٹکرا کر ان کی گردنوں کو توڑا گیا۔ یہودیوں کو ان کے کنیسہ میں زندہ جلایا گیا۔ ٤٠

٭1154ء میں ترکان غزنے نیشا پور کو عورتوں، بچوں اور علماء و صلحا کی لاشوں سے بھر دیا۔ لائبریریوں کو جلادیا اور باغات اور کھیتوں کو اُجاڑا۔ 41

٭1258ء میں ہلاکو نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مردوں ، عورتو ں، بچوں اور بوڑھوں کا قتل عام کیا گیا۔ ہر طرف خون کے پرنالے جاری ہوئے اور لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ٤٢

٭عہد جدید میں 1821ء میں یونانیوں نے ترکوں کا قتل عام شروع کیا، عورتوں، مردوں اور بچوں کو قتل کیا گیا۔ مائیں شیر خوار بچوں کو سینوں سے لگائے اپنی برہنگی چھپانے کیلئے سمندر میں کود پڑتی تھیں۔ انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا اور بچوں کو چھین کر چٹانوں سے ٹکرا دیاجاتا تھا۔ ٤٣

٭1947ء میں ستر لاکھ مہاجرین گرتے پڑتے پاکستان پہنچے، انہوں نے معصوم بچوں کا قتل، لاشوں کی قطع و برید اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی ٤٤

٭برما میں 9/11 کے بعد مسلمانوں کی نسل کشی میں تیزی آئی ۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں درختوں کے ساتھ باندھا جاتا ان کے ہاتھوں میں کیل ٹھونکے جاتے۔ مثلہ بھی کیا جاتا ۔ ٤٥

اسلام میں فوجوں کی روانگی کے وقت جنگی برتاو کے متعلق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاص ہدایات سے بہرہ مند فرماتے۔ ان ہدایات پر بعد میں خلفائے راشدین عمل پیرا رہے۔ خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر کے ساتھ یزید بن ابی سفیان کو روانہ کیا اور درج ذیل ہدایات دیں۔

عورتوں کو مت مارنا، بچوں کو نہ مارنا، بوڑھوں کو نہ مارنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، کسی بستی کو نہ اُجاڑنا وغیرہ۔ اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ افعال سے پاک کر دیا تھا۔ ٤٦

بین الاقوامی قانون نے بھی ایسے افراد جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔

International law determines that the citizens who are not regular members of an army are not considered as fighters, and hence should not be inflicted with harm. 47

6۔ کیمیاوی گیس و ممنوعہ ہتھیار:

٭ارتھ شاستر عہد قدیم کے ہندوستان کی پرانی قانون کی کتاب ہے۔ اس میں دشمن کو ختم کرنے کیلئے انتہائی مہلک تراکیب کو بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر دشمن کے علاقے میں زہریلی اشیاء کی فروخت، نابینا سانپوں ، چھپکلی، پوتی کیٹ اور گومار کو پیس کر مہلک دھواں چھوڑنا وغیرہ۔ ٤٨

٭عہد جدید میں جنگ عظیم دوم کے دوران دنیا گیس کی ان بڑی بڑی بھٹیوں کو دیکھ کر حیران رہ گئی جہاں مظلوموں کی لاشوں کے ڈھیر پڑے تھے۔ ٤٩

٭عراق نے کردوں کے خلاف نیپام بم، کیمیائی بم اور زہر آلودہ گیسوں کا استعمال کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عورتیں، بچے، بوڑھے ، گھروں اور بازاروں، سڑکوں ، سکولوں اور ہسپتالوں میں ایسے مار دئیے گئے جیسے اسپرے کرکے حشرات الارض کو ختم کر دیا گیا ہو۔ ٥٠

٭امریکہ نے افغانستان پر حملے کے دوران 5 لاکھ سے زیادہ بم گرائے اور کارپٹ بمبنگ کے علاوہ ڈیزی کٹر کو بے دردی سے استعمال کیا اس بم کی وجہ سے ایک آتشیں ہیولہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ڈیڑھ کلو میٹر کی رینج میں ہر چیز کو جلا دیتا ہے۔٥١

٭1984ء میں بھارتی فوج نے سکھوں کا قتل عام کیا اور اکال تخت پر زہریلی گیس کے کنستر پھینکے ۔گیس سے اگر کوئی بچ نکلتا تو اسے گولیوں سے بھون دیاجاتا تھا۔ بند کمروں پر ہینڈ گرینڈ اور زہریلی گیس کے بم استعمال کیے گئے۔٥٢

٭سربوں نے بوسنیا کے خلاف زہریلی Gases کے چیمبرز بنائے ان میں بیک وقت دو ہزار ہلاک کئے جا سکتے تھے۔٥٣

٭انٹرنیشنل قانون کی رو سے زہریلی گیس کا استعمال ہیگ کانفرنس منعقدہ 1899 ء کے فیصلے کے خلاف ہے۔ 1930ء کے تخفیف اسلحہ کے معاہدے میں زہریلی گیس کے استعمال کو واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ادلے کے بدلے اور جوابی کاروائی کے طور پر بین الاقوامی قانون میں اس کی اجازت ہے۔ اسلامی اصولوں میں بھی اس کے استعمال کی گنجائش ملتی ہے۔ لیکن یہ کاروائی اسلامی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ٥٤

Whereas the use in war of asphyxiating, poisonous or other gases, and of all analogous liquids, materials or devices, has been justly condemned by the general opinion of the civilized world. 55

7۔ پھانسیاں:

دور جدید نے جنگ کے دوران دشمن کو ختم کرنے کے نت نئے طریقے متعارف کروائے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کیا ہے۔ مثلاً پھانسی کا عمل۔

٭1857ء کی جنگ آزادی کے دوران دہلی میں پھانسیوں کے گھاٹ قائم کیے گئے۔ رسّہ درخت میں باندھ کر پھندا بے گناہوں کے گلوں میں ڈال کر اسے کافی دیر تک تڑپنے کیلئے چھوڑ دیاجاتا تھا ۔ ٥٦

٭پھانسی پانے والوں کو ہاتھی پر سوار کرکے درخت کے نیچے لایا جاتا اس کے گلے کو درخت کی شاخ سے مضبوطی سے باندھ دیاجاتا اور ہاتھی کو نیچے سے ہٹا دیاجاتا اس طرح انتہائی تکلیف سے جان نکلتی تھی اور انسانی جسم انگریزی ہندسے 8 یا 9 کی شکل بن جاتے تھے۔پھانسی سے قبل ان کے جسم پر سور کی چربی ملی جاتی تھی۔ ٥٧

٭پھانسی سے ملتا جلتا عمل ایئرٹائٹ کنٹینرز میں بند کرکے لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ افغانستان میں دوستم کے کارکن قیدیوں کو Containers میں بند کر دیتے۔ اکثر قیدی کنٹینرز میں ہی دم توڑ جاتے یہ کنٹینرز چلتی پھرتی قبریں تھیَ ٥٨

٭اٹالین نے لیبیا میں اپنی آمد کے موقع پر تقریبا 20 ہزار افراد کو پھانسی دی۔ ان میں اکثر خواتین کو برہنہ کرکے پھانسی پر لٹکایا۔ اطالوی فوجیوں نے عورتوں کی عصمت دری بھی کی۔ ٥٩

اسلام نے دوران جنگ اپنے پیرو کاروں کو ایسے وحشیانہ افعال سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ کیونکہ اسلام میں جنگ کا مقصد دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچا کر شر سے دور کر نا ہے۔ بین الاقوامی قانون جنیوا کنونشن 3 منعقدہ 1949ء میں جنگی قیدیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

Under the jurisdiction of military law, summary execution is still illegal in almost all major treaties such as Geneva Convention and Hague Convention. 60

نتائج :

انسانوں نے ہمیشہ جنگ کے مختلف مراحل کو قواعد و ضوابط کا پابند کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن تاریخی حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانوں نے اپنے بنائے ہوئے قوانین کی کبھی پاسداری نہیں کی۔ اس کے برعکس اسلام نے انسانوں کو ایسا قانون جنگ دیا ہے۔ جس کو ایک بالاتر قوت نے وضع کیا ہے۔ مسلمانوں کو کبھی ان قوانین میں ترمیم کا اختیارنہیں دیا گیا لیکن اگر مسلمانوں کی طرف سے کبھی ان قوانین کی خلاف ورزی بھی ہو تو اسلامی قانون نہیں بدلتا۔

آج کل بین الاقوامی قانون کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ناپائیدار اور ناقابل اعتماد ہے۔ قومیں اپنے اغراض و مقاصد کے تحت ان قوانین میں ردّوبدل کرتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قوانین کو ترتیب تو دیاجاتا ہے لیکن ان قوموں کے فوجی گروہ ان کو تسلیم نہیں کرتے اور اصل قانون جنگ وہ ہوتا ہے جس کو فوجیں میدان جنگ میں وضع کرتی ہیں۔

گزشتہ مباحث پر نظر ڈالنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی تہذیب ملک گیری، توسیع تجارت، حصول مال و زر، جہانگیرانہ لوٹ ماراور غرض تمام حیوانی خواہشات کی تکمیل کیلئے جنگ کو جائز سمجھتی ہیں جبکہ اسلام اپنے پیرو کاروں کو صرف جنگ کے مہذب طریقہ ہی نہیں بتاتا بلکہ جنگ کے مقاصد کا تعین بھی کرتا ہے۔

حوالہ جات :

۱۔تشرىحى لغط، اردو سائنس بورڈ، اپر مال روڈ، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۹۱۲

٢.L.N. Tandon, International Law, Mansoor Books lahore, 2011, p-634

٣.www.britannica.com/EBchecked/topic/635621/war_crime

٤.رضوی، واجد، سید، پیغمبر رحمتۖ، مقبول اکیڈمی انار کلی لاہور، ٢٠٠٠ء، ص ١٤٧ـ١٤٨

٥.مودودی، ابو الاعلیٰ ، سید، الجہادفی الاسلام، ترجمان القرآن لاہور، ٢٠٠٦ء، ص ٢٠٥ـ٢٠٩

٦.رضوی، واجد، سید، رسول اللہۖ میدان جنگ میں، مقبول اکیڈمی انار کلی لاہور، ٢٠٠٥ء، ص ٢٧٢

٧.سباعی، مصطفےٰ، اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلو، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ٢٠٠٦ء، ص ١٥٣

٨.ابن کثیر، عماد الدین، ابو الفداء، علامہ، تاریخ ابن کثیر، نفیس اکیڈمی کراچی، ١٩٨٧، جلد ١٣، ص٢٤٥ـ٢٤٩

٩.محمد افضل ، میاں، سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک، الفیصل ناشران لاہور، ٢٠٠٨، ص ٥٤ـ٨٩

١٠.محمد افضل، میاں ، سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک، الفیصل ناشران لاہور، ٢٠٠٨، ص ٥٣٣ـ٥٤٨

١١.انصاری ، محمد الیاس، مقدمۂ بوسنیا، فیروز سنز لاہور، ١٩٩٥ء، ص ٥٣

١٢.سرور، ملک احمد، عالمی افق پر ایک طائرانہ نظر، ماہنامہ ضیائے آفاق ستمبر ٢٠١٢ء لاہور، ص ٤١ـ٤٤

١٣.ظفر، عبدالرؤف، ڈاکٹر، اسوۂ کامل، ادارہ نشریات لاہور، ٢٠٠٩ء، ص ٦٢٣

١٤.الزحیلی، وہبہ، ڈاکٹر، بین الاقوامی تعلقات، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد، ٢٠١٠ء، ص ٦٤

١٥.مودودی، ابو الاعلیٰ، سید، الجہاد فی الاسلام، ترجمان القرآن لاہور، ٢٠٠٦ء، ص ١٩٨ـ١٩٩

١٦.نقش، عبدالغنی، اسلامی جنگیں، شعیب پبلی کیشنز کراچی، ٢٠٠٥ء، ص ١٧١ـ١٧٣

١٧.سراج، منہاج، طبقات ناصری، اُردو سائنس بورڈ لاہور، ٢٠٠٤ء، ص ١٨٥ء، جلد ٢

١٨.محمد افضل، میاں ، سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک، الفیصل ناشران لاہور، ٢٠٠٨، ص ١٤٥ـ١٤٦

١٩.جعفری، رئیس احمد، مولانا، اسلام اور عدل واحسان، ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور، ١٩٧٧ء، ص ١٥٣

٢٠.رضوی، خورشید مصطفی، جنگ آزادی 1857ء، الفیصل ناشران لاہور، ٢٠٠٣ء، ص ٣٧٧ـ٣٧٨

٢١.انصاری ، محمد الیاس، مقدمۂ بوسنیا، فیروز سنز لاہور، ١٩٩٥ء، ص ٥٤ـ١٠٧

٢٢.لاہوری، مبشر حسین، حافظ، اسلام میں تصور جہاد، دعوت و اصلاح سنٹر لاہور، ٢٠٠٣ء، ص ٢٤٢ـ٢٤٣

٢٣. www.icrc.org/customary_ihl/eng/docs/v1_cha_chapter32_rule93

٢٤.مودودی، ابو الاعلیٰ ، سید، الجہادفی الاسلام، ترجمان القرآن لاہور، ٢٠٠٦ء، ص ٢٠٠

٢٥.قادری ، شمیم حسین، سید، اسلامی ریاست، علماء اکیڈمی محکمۂ اوقاف پنجاب لاہور، ١٩٨٤ء، ص ٤٢٤

٢٦.بدخشانی، مقبول بیگ، پروفیسر، تاریخ ایران، مجلس ترقی ادب لاہور، ١٩٧١ء، ص ٢٩٠

٢٧.انصاری ، محمد الیاس، مقدمۂ بوسنیا، فیروز سنز لاہور، ١٩٩٥ء، ص ٧٢ـ٦٥

٢٨.ندوی، سید حبیب الحق، پروفیسر، فلسطین اور بین الاقوامی سیاسیات، اکیڈمیہ ، یونیورسٹی آف کراچی،

١٩٧٦ء، ص ٦٣٢ـ٦٣٤

٢٩.کرناز، مراد، گوانتاناموبے میں ظلم و ستم کے پانچ سال، راحیل پبلی کیشنز، کراچی، ٢٠٠٩ء، ص ١٤٨ـ١٦٢

٣٠.علی آصف ، 11 ستمبر سے ابو غریب جیل تک، ادارہ منشورات اسلامی لاہور، ٢٠٠٤ء، ص ١٧٣ـ١٧٩

٣١.الزحیلی، وہبہ، ڈاکٹر، بین الاقوامی تعلقات، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد، ٢٠١٠ء، ص ١٠٦ـ١٠٩

٣٢.ظفر، محمود احمد، حکیم، پیغمبر امنۖ، مکی دارالکتب لاہور، ٢٠٠٩ء، ص ٧٤

٣٣.ابن کثیر، عماد الدین، ابو الفداء، علامہ، تاریخ ابن کثیر، نفیس اکیڈمی کراچی، ١٩٨٧، جلد ١٠، ص٥٩ـ٦٠

٣٤.بدخشانی، مقبول بیگ، پروفیسر، تاریخ ایران، مجلس ترقی ادب لاہور، ١٩٧١ء، ص ٢٢٢ـ٢٢٧

٣٥.ہیر لڈلیم، چنگیز خان، مترجم عزیز احمد، فکشن ہائوس لاہور، ٢٠١٠ء، ص ١١٦ـ١١٨، ١٣٧

٣٦.فرشتہ ، محمد قاسم، تاریخ فرشتہ، المیزان ناشران لاہور، ٢٠٠٨ء، ج٢، ص ٦٢٦ـ٦٢٧

٣٧.لاہوری، مبشر حسین، حافظ، اسلام میں تصور جہاد، دعوت و اصلاح سینٹر لاہور، ٢٠٠٣ء، ص ٢٤٣

٣٨.الزحیلی، وہبہ، ڈاکٹر، بین الاقوامی تعلقات، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد، ٢٠١٠ء، ص ٧٣

٣٩.نعمانی ، شبلی، علامہ، سیرة النبیۖ، الفیصل ناشران لاہور، ص ٣٥٢ـ٣٥٣

٤٠.اسرار الحق، اسلام اور مغرب کا تصادم، بیت الحکمت لاہور، ٢٠٠٧، ص

٤١.ابن خلدون، عبدالرحمن، علامہ، تاریخ ابن خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی، ٢٠٠٣ء ج٧، ص ١٤٣ـ١٤٦

٤٢.ابن کثیر، عماد الدین، ابو الفداء، علامہ، تاریخ ابن کثیر، نفیس اکیڈمی کراچی، ١٩٨٧، جلد ١٣، ص٢٤٥ـ٢٤٩

٤٣.ندوی ، مسعود علی، مولانا،تاریخ اسلام، نیشنل بُک فائونڈیشن اسلام آباد، ص ٤٢ـ٤٣

٤٤.محمد علی، چودھری، ظہور پاکستان، مکتبہ کارواں لاہور، ص ٣١٣ـ٣١٤، ٣٤٦

٤٥.سرور ، ملک احمد، عالمی افق پر ایک طائرانہ نظر، ماہنامہ ضیائے آفاق، ستمبر ٢٠١٢ء لاہور، ص ٤١ـ٤٤

٤٦.مالک بن انس، امام، مؤطا امام مالک، کتاب الجھاد، باب النھی عن قتل النساء والوالدان، نعمانی کتب خانہ لاہور، ٢٠٠٦ء، رقم الحدیث ٩٥٩ـ٩٦٠

٤٧.www.dawanet.com/nonmuslim/intro/index.html

٤٨.چانکیہ، کوتلیہ، ارتھ شاستر، مترجم سلیم اختر، نگارشات لاہور، ٢٠٠٢ء، ص ٥٢٧ـ٥٦١

٤٩.مہر غلام رسول، مولانا، تاریخ تہذیب، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ص ٩٠٦

٥٠.آزاد، عباس احمد، قومی آزادی کی تحریکیں، شاہکار بُک فائونڈیشن کراچی، ١٩٩٢ء، ص ١٩٧

٥١.خورشید احمد ، پروفیسر، امریکہ مسلم دنیا کی بے اطمینانی، منشورات لاہور، ٢٠٠٢ء، ص ٢١٣

٥٢.ساگر، طارق اسمٰعیل، مکتی باہنی سے آپریشن بلیو اسٹار تک، ساگر پبلی کیشنز لاہور، ٢٠١٠ء، ص ١٨٩ـ١٩٢

٥٣.انصاری ، محمد الیاس، مقدمۂ بوسنیا، فیروز سنز لاہور، ١٩٩٥ء، ص ٤٩

٥٤.الزحیلی، وہبہ، ڈاکٹر، بین الاقوامی تعلقات، شریعہ اکیڈمی اسلام آباد، ٢٠١٠ء، ص٦٢ـ٦٥

٥٥.www.avalon.law.yale.edu/subject-menus/lawwar.asp

٥٦.محمد شفیع، میاں، پہلی جنگ آزادی، مکتبہ جمال لاہور، ٢٠٠٨

٥٧.رضوی، مصطفےٰ خورشید، جنگ آزادی 1857ء ، الفیصل ناشران لاہور، ٢٠٠٣ء، ص ١٣٥ـ١٣٦

٥٨.علی آصف ، 11 ستمبر سے ابو غریب جیل تک، ادارہ منشورات اسلامی لاہور، ٢٠٠٤ء، ص ١٢٢ـ١٢٣

٥٩.قادری ، اخلاق احمد، تاریخ انقلابات عالم، مشتاق بک کارنر لاہور ٢٠١٠ء، ص ٣٧٤

٦٠.www.en.wikipedia.org/wiki/summary-execution

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...