Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 29 Issue 2 of Al-Idah

حالت امن کے قواعد کلیہ: فقہائے کرام کی آراء کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

29

Issue

2

Year

2014

ARI Id

1682060034497_722

Pages

92-121

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/view/228/216

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/228

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

قواعدکلیہ کا مضمون اسلامی شریعت کا ایک ایسا اہم مضمو ن ہے کہ جس کے ذریعے شریعت کے احکام اورمعاملا ت کا ادراک بہت ہی آسان ہو جا تا ہے ۔چند الفاظ کے ذریعے مشکل سے مشکل معاملات میں عرق ریزی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔دنیا بھر کے قوانین میں قواعد کلیہ کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیاجاتا ہے ۔ فقہ اسلامی میں پائے جانے والے قواعد کلیہ کی تخریج اور استنباط چونکہ قرآن وسنت اور اس کے ذیلی مآخذو مصادر پر مبنی ہے اس لئے یہ قواعد کلیہ دنیا بھر کے قانونی ضابطوں پر فوقیت رکھتے ہیں ۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ:"الفقہ فرق وجمع"[1]"ایک جیسے احکام کو جمع کرنا اور ان کے درمیان پائے جانے والے فرق کو نمایا ں کرنا فقہ کہلاتا ہے"۔جبکہ بعض کے نزدیک"الفقہ معرفۃ النظائر"[2]"فقہ شرعی نظائر کو جاننے کا نام ہے"۔تو گویا فقہ کے بارے میں جو ارشاد گرامی ہے :’’من يريد الله به خيراً يفقه في الدين[3] وہ قواعد کلیہ کے متخصص علماء پر بھی منطبق ہوتا ہےاوروہ بھی اس فضیلت میں شامل ہوتےہیں۔ فقہ اسلامی میں قواعد کلیہ کی اہمیت و افادیت کے سلسلے میں القرافی ؒ(م ۶۸۴ھ/۱۲۸۵ء)لکھتے ہیں:

"وهذه القواعد مهمة فى الفقه عظيمة النفع وبقدرا النفع عظيمة النفع وبقدر لا لاحاطة بهما يعظم وبقدرا يعظم قدر قدر الفقه ويشرف ويظهر رونق الفقه ويعرف تتضح مناهج الفتاوي وتكشف تنافس العلماء وتفاضل الفضلاء وبرز القارح علی الجذع وحاز قصب السبق من فيها برع ومن جعل يخرج الفروع بالمناسبات الجزئية دون القواعد الکلية تناقضت عليه الفروع واختلفت وتزلزلت خواطرہ فيها واضطربت وضاقت نفسه لذلک وقنطت واحتاج الی حفظ الجزئيات التی لا تتناهى"[4]

یعنی فقہ اسلامی میں قواعد کلیہ کی بہت زیادہ اہمیت ہےکوئی فقیہ جتنا ان پر حاوی ہوتاہےاتنی ہی اس کی قدر و منزلت بڑھتی ہے ۔فتویٰ دینے میں مختلف اسلوب اس پر واضح ہوتے ہیں۔علماء ان میں مسابقت کرتے ہیں اور جو قواعد کلیہ کو چھوڑ کر جزئیات کی مناسبت سے احکام مرتب کرتا ہےاس پر فروعی احکام میں پائے جانے والے اختلافات مشتبہ ہو جاتے ہیں، اس کے خیالات مضطرب ہو جاتے ہیں اور وہ لا متناہی جزئیات یاد کرنے کا محتاج بن جاتا ہے۔اس کے مقابلے میں وہ شخص جو فقہی قواعد کو ضبط کرتا ہےوہ کثیر تعداد میں جزئیات یاد کرنے سےمستغنی ہو جاتا ہے ۔"

اپنی دوسری کتاب "الذخیرۃ" میں لکھتے ہیں"فان کل فقه لم يخرج علی القواعد فليس بشئی"[5] يعني"ہر وہ فقہ جس کی تخریج قواعد کے مطابق نہ ہوئی ہووہ کسی کام کی نہیں۔"

امام سیوطیؒ(م۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء)اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

"اعلم أن فن الأشباه والنظائر فن عظيم به يطلع على حقائق الفقه ومداركه ومآخذه وأسراره ويتمهر في فهمه واستحضاره ويقتدر على الإلحاق والتخريج ومعرفة أحكام المسائل التي ليست بمسطورة والحوادث والوقائع التي لا تنقضي على ممر الزمان"[6]

یعنی اشباہ ونظائر کا علم ایک عظم فن ہے۔اس سے فقہی حقائق، مفاہیم، مآخذ اور اسرارو رموز پر اطلاع ہوتی ہے اور اسی فن سےفقہی فہم میں مہارت اور اس کے مسائل کااستحضار رہتا ہے۔وہ مسائل جو ضبط تحریر میں نہیں آ سکتے اور ایسے حادثات وواقعات جو گردش زمانہ سے ختم نہیں ہوتےان کے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

مجلۃالاحکام العدلیۃ کے مرتبین نے جہاں مجلہ میں معاملات سے متعلقہ مسائل و احکام مرتب کیے،وہاںانھوں نےننانوے دفعات پر مشتمل قواعد کلیہ بھی بیان کیے ہیں جن کی اہمیت وافادیت کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

"ان المحققين من الفقهاء قد أرجعواالمسائل الفقهية الی قواعد کلية کل منها ضابط وجامع لمسائل کثيرة وتلک القواعد مسلمة معتبرة فی الکتب الفقهية تتخذ ادلة لأثبات المسائل وتفهمها فی بادئ الامر يوجب الاستئناس بالمسائل ويکون وسيلة لتقررها فی االأذهان "[7]

یعنی محققین فقہاء نے مسائل فقہیہ کو قواعد کلیہ کے تحت درج کیا ہے۔ان میں سے ہر ایک قاعدہ ایک ضابطہ ہےجو بہت سے مسائل کا جامع ہے۔یہ قواعد کلیہ فقہی کتب میں بڑ ے معتبر سمجھے جاتےہیں۔ مسائل کے حل کے لئے انھیں بطور دلیل مانا جاتا ہے ۔ ابتدائی طور پر مسائل سے مانوس ہونے اور انھیں ذہن نشین کرنے کے لئے یہ قواعد وسیلہ بنتے ہیں ۔

قواعد کلیہ چونکہ فقہی احکام و جزئیات پر مشتمل ہوتے ہیں اس لیے ان کے دائرہ کار اور وسعت پذیری میں فقہی ادب کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے۔انسانی زندگی کے جملہ شعبوں سے متعلق جیسے قرآن وحدیث اور کتب فقہ میں احکام پائے جاتے ہیں ایسے ہی ان احکام پر مشتمل قواعد کلیہ کا ذخیرہ بھی پایا جاتا ہے زمانے کی گردش کے ساتھ ساتھ ان دونوں شعبوں میں ترقی لازم و ملزوم ہے۔قرآن مجید ، کتب احادیث اور فقہاء کرام کی کتب میں بیان کردہ قواعد کلیہ کی ابواب بندی کی جائے تو انہیں فقہی احکام کی طرح بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن موضوع کی مناسبت سے اور صفحا ت کی تنگی کے پیش نظر علم السیر کے تحت حالت امن کےچند قواعدکلیہ کا فقہائےکرام کے استنباط اورتطبیقات کی روشنی میں مختصر جائزہ لیا جاتا ہے کیونکہ اسلام کے خارجہ تعلقات کی بنیاد امن ہے جنگ نہیں ہے نیز پوری دنیا کو اس وقت امن و صلح کی جو ضرورت درپیش ہے تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

مناسب ہوگا کہ ان قواعد کے اطلاق اور ان سے متعلق امور سے قبل قواعد کلیہ اور علم السیر کا مفہوم سمجھا جائے تا کہ ان کی عملی صورتیں اور تطبیقات باآسانی سمجھ میں آسکیں۔

قاعدہ کی لغوی تعریف:==

قاعدہ کی جمع "قواعد" ہے اور اسکا لغوی معنی مختلف مطالب کے ساتھ کیا گیا ہے۔متعدد علماء نے قاعدہ کا معنی اساس اور بنیا د (Base) بیان کیا ہے [8]صاحبِ تاج العروس امام زجاج ؒ کے حوالے سے قواعد کا مفہوم بیا ن کرتے ہوۓلکھتے ہیں :

"وقال الزجاج القواعد اساطين البناء التی تعمده"[9]"قواعد سے مراد عمارت کی وہ بنیادیں ہیں جن پر وہ عمارت قائم ہوتی ہے۔"

ابن منظور افریقی ؒ کے ہاں بھی اس سے مراد اساس اور بنیاد ہےوہ لکھتے ہیں :" وقواعد الهودج خشبات اربع معترضة فی اسفله ترکب عيدان الهودج فيها"[10]

" ھودج کےقواعدسے مرادنیچے کو لٹکی وہ چار لکڑیاں ہیں جن میں ہودج کی باقی لکڑیاں پیوست ہوتی ہیں۔"

اسی طرح قرآن مجید میں بھی لفظ "قاعدہ" اساس اور بنیاد کے معنی میں استعمال ہو ا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :

{وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ}[11]

"اور ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کیے جاتے تھے کہ) اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔"

{فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ}[12]

" خدا (کا حکم) ان کی عمارت کے ستونوں پر آ پہنچا اور چھت ان کے اوپر سے گر پڑی۔"

قاعدہ کی اصطلاحی تعریف:

علماء نے قاعدہ کی اصطلاحی تعریف مختلف الفاظ میں بیان کی ہے۔امام جرجانی ؒ کے الفاظ ہیں :

"فهي قضية کلية منطبقة علی جميع جزئياتها"[13]"قاعدہ سے مراد ایساکلی معاملہ ہے جسکا اپنی تمام جزئیات پر اطلاق ہوتا ہو"

امام تفتا زانی ؒقاعدہ کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

"حکم کلی ينطبق علی جميع جزئيات ليتعرف احکامها منها"[14]"ایساکلی حکم جو اپنی جزئیات پر اس طرح صادق آ تا ہو کہ اس سے اسکے تمام احکام معلوم ہوجائیں قاعدہ کہلاتا ہے"

محمد علی تھانوی ؒقاعدے کی تعریف تفصیل کے ساتھ بیا ن کرتے یوں لکھتےہیں:

"هى فی اصطلا ح العلماء تطلق علی معان مترادف الاصل والقانون والمسألة والضابطة والمقصدوعرف بانها امر کلی منطبق علی جميع جزئياته عند تعرف احکامها منه وانه يظهر لما تتبع موارد الاستعمالات ان القاعدۃ هی الکلية التی يسهل تعرف الجزئيات منها"[15]

"علماء کی اصطلاح میں لفظ قاعدہ کا اطلاق اصل ، قانون ،مسٔلہ،ضابطہ اور مقصد جیسے مترادف معانی پر ہوتا ہےاور اسکی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ ایسا کلی معاملہ ہے جو اپنے احکامات کی معرفت کے اعتبار سے اپنی تمام جزئیات پر صادق آتا ہے۔۔۔اور جو اسکے استعمالات کے موقع کی جستجو میں رہتاہے اس پر یہ واضح ہوتا ہے کہ قاعدہ ایسا کلی معاملہ ہے کہ اسکے ذریعے اسکے جزئیات کے احوال کی پہچان آسان ہوجاتی ہے۔"

امام حموی شارح الاشباہ والنظائر قاعدے کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:

"حکم اکثری لاکلی ينطبق علی اکثر جزئياته لتعرف احکامها منه "[16]

"قاعدہ حکم اکثری ہے نہ کہ کلی جسکا اپنی اکثر جزئیات پر اطلاق ہوتا ہو اور اس سے فقہی احکام معلوم ہوسکیں"

درر الحکام فی شرح مجلة الاحکام میں یو ں لکھا ہے:"ھو الحکم الکلی اوالاکثری الذی يراد به معرفة حکم الجزئيات"[17]

"قاعدہ وہ کلی یا اکثری حکم ہے جسکا مقصد یہ ہو کہ اسکے ذریعے جزئیا ت کا حکم معلوم کیا جاسکے۔"

امام تاج الدین سبکی ؒقاعدہ کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں :

"هی الامر الکلی الذی ينطبق عليه جزئيات کثيرة تفهم احکامها منها"[18]

"یہ وہ کلی معاملہ ہےجس پر ایسی بہت سی جزئیات کا انحصارہو جنکے ذریعے انکے احکام سمجھے جاسکیں"

قانون جدید میں قاعدہ کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

“Maxims: A tradational legal principle that has been frozen into a concise expression.”[19]

یعنی ایسا ایک قانونی اصول جوکہ متفقہ معنی کے لئےمحاور ہ کی حیثیت اختیار کرگیا ہو ۔

اس تعریف کے مطابق قاعدہ ویسے تو ایک محاورہ یاضرب المثل ہےمگر اسکی اہمیت کو اگر دیکھا جائےتو یہ ایک مکمل قانونی ضابطہ کی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر عدالتوں میں فیصلے بھی کئے جاتے ہیں ۔مذکورہ بالا تعریفات قاعدے کی عام اصطلاح کو واضح کرتی ہیں جبکہ یہ اصطلاح تمام علوم میں جاری ہوتی ہیں ۔ ان تعریفا ت میں جو چیز مشترک طور پر پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قاعدہ وہ اصول یا مقولہ (Maxim)ہے جس کے کہنے سے بہت سی باتیں اور شرعی احکام سمجھ میں آجائیں۔یہ تعریفات ان لوگوں کے لئے تو مفید علم ہیں جن کے ذہنوں میں پہلے سے قواعدکلیہ کا تصور موجود ہے لیکن جو لوگ فقہی قواعدکلیہ کا واضح تصور نہیں رکھتے ان کے لئے محض ان تعریفا ت سے فقہی قواعدکلیہ کا صحیح تصور حاصل کرنا بہت مشکل ہے ۔اسی وجہ سے بیسویں صدی کے مشہور و معروف فقیہ مصطفی احمدالزرقاءؒ(م۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء) نے قاعدہ کلیہ کی خود ایک تعریف وضع کی ہے جس سے قواعد کلیہ کی حقیقت و ماہیت اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہےوہ یوں لکھتے ہیں :

"اصول فقهيه کلية فی نصوص موجزة دستورية تتضمن تشريعة عامة فی الحودث التی تدخل تحت موضوعها"[20]

"قواعد کلیہ وہ عمومی فقہی اصول ہیں جنہیں مختصرا قانونی زبان میں مرتب کیا گیا ہو ،جن میں ایسےقانونی اور فقہی احکام بیا ن کیے گئے ہوں کہ جو اس موضوع کے تحت آنے والےحوادث و واقعات کے بارے میں ہوں۔"

السیرکا لغوی معنی:

ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کے خیال میں اسلام سے پہلے عربوں کے ہاں بین الاقوامی امور کی انجام دہی کے قواعد و ضوابط ان کے عرفی قانون(Customary Law) کا حصہ تو تھے لیکن ان کے ہاں اس کے لئے کوئی الگ سے قانونی نظام نہیں تھا۔ جب مسلمانوں نے ایک ریاست قائم کرلی اور اس ریاست کا ایک قانونی نظام قائم ہوا تو اس نظام کے اس حصہ کو جس کا تعلق جنگ ،صلح اور غیر جانبداری کے معاملات سے تھا "السیر "کا نام دیا گیاجیسا کہ وہ لکھتے ہیں:

“Although the pre islamic Arabs had their own international usages,yet they could not have elaborated them into a system.When Islam came and founded of its own,theearlist name given muslim writers to the special branch of the law dealing with war,peace and neutrality seems to have been Siyar.”[21]

لفظ" السیر"سیرۃ کی جمع سین کی زیراوریاءکی زبر کے ساتھ مستعمل ہے ۔لغت میں اس کے دومعنی کئے گئےہیں۔حالت اورطریقہ یا طرز عمل۔

۱۔حالت :

سیرت اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی جیسے کہا جاتا ہے:"فلان حسن السیرة فلان قبیح السیرة"[22]

"فلاں شخص کی حالت اچھی ہے اور فلاں کی بری ہے "قران مجید میں سیرۃ کا لفظ صرف ایک دفعہ وارد ہوا ہے جس میں حالت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{سنعيدها سيرتها الأولى }[23]

"ہم ابھی پھیر دیں گے اس کو پہلی حالت پر۔"بعض اوقات بیٹھنے کی ہیئت اور حالت کے لئے بھی "سیرۃ" کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔[24]

۲۔طریقہ یا طرز عمل:

اس کا دوسرا معنی طرز عمل اور رویہ (Way, Manner)بھی ہےخواہ وہ اچھا ہو یا برا،جیسے کہا جاتا ہے: "فلان محمود السیرۃوفلان مذموم السیرۃ"[25]

سیرکےاسی دوسرےمفہوم سےمتعلق کتب سیرت وحدیث میں بہت سی روایات پائی جاتی ہیں۔ابن ہشام(م۲۱۳ھ/۸۲۸ء) روایت کرتے ہیں:

"ثم امربلالا ان يدفع اليه اللوأءفدفعه اليه فحمدا لله تعالیٰ وصلی علی نفسه ثم قال خذہ يابن عوف اغزوا جميعا فی سبيل الله فقاتلوا من کفر با لله ولا تغلوا ولاتغدرواولا تمثلوا ولاتقتلوا وليدا فهذا عهدالله وسيرۃ نبيه فيکم"[26]پھر رسول اکرم ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ پرچم ان(حضرت عبد الرحمان بن عوف ؓ) کے حوالے کردیں انھوں نے حکم بجالایا۔آپ ﷺنے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیا ن کی پھر درود بھیجا اور فرمایا اے ابن عوف !اس پرچم کو تھام لو اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جہاد کرو جو اللہ تعالی کا انکا ر کرتے ہیں (دوران جنگ مال غنیمت میں)خیانت نہ کرنا ، کسی کو دھوکہ نہ دینا ، کسی کا مثلہ نہ کرنا اور نہ ہی بچوں کو قتل کرنا، یہ اللہ تعالی کا عہد ہے اور تمھارے لئے اس کے نبیﷺکا طریقہ کار۔

ابن حبیبؒ (م۲۴۵ھ/۸۶۰ء)بھی سیر کے لفظ کو سابقہ بادشاہوں کے رویےا ور طرز عمل کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :"وکانوا يصنعون فيهاويسيرون فيها بسيرۃ الملوک بدومة الجندل"[27] "اور وہ لوگوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں دومۃ الجندل کے بادشاہوں کا طرز عمل اختیار کرتے تھے"۔کتب حدیث میں بھی سیر کے اسی مفہوم کو اختیار کیا گیا ہے۔چنانچہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:

"قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم واستخلف ابوبکرفعمل بعمله وسار بسيرته حتی قبضه الله علی ذلک ثم استخلف عمر فعمل بعملهماوسار بسيرتهما حتی قبضه الله علی ذلک"[28]"حضور اکرم ﷺ کا انتقال ہوا تو ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے انہوں نے آپﷺجیسا عمل کیا اور آپ کے طریقہ کار کو اختیار کیا یہاں تک کہ اسی پر اللہ تعالی نے آپ ؓکی روح قبض کی پھر عمر ؓ خلیفہ بنائے گئےتو انہوں نے ان دونوں(رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ)کے طرز عمل کو اختیار کیا اور انہیں کے طریقہ کار کو اپنایایہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں بھی اسی پر موت دی۔"بہرحال السیر اور سیرت کے الفاظ قدیم دور سے عربی زبان و ادب میں طرز عمل اور طریقہ کار کے مفہوم میں مستعمل ہوتے رہے ہیں۔

السیرکااصطلاحی معنی:

السیر کے اصطلاحی معنی کے بارے میں امام سرخسیؒ(۴۹۰ھ/۱۰۹۷ء) [29]لکھتےہیں:

"اعلم إن السير جمع سيرة وبه سمي هذا الكتاب لانه بين في سيرة المسلمين في المعاملة مع المشركين من اهل الحرب ومع أهل العهد منهم من المستأمنين وأهل وأهل الذمة ومع المرتدين الذين هم اخبث الكفار بالانكار بعد الاقرار ومع اهل البغي الذين حالهم دون حال المشركين وان كانوا جاهلين وفى التاويل مبطلين""[30]

"جان لیجئے کہ لفظ "سیر"سیرۃ کی جمع ہے اور اسی نام سے یہ کتاب موسوم ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے اس طرز عمل کا بیان ہے جو وہ مشرکین میں سے اہل حرب کے ساتھ روا رکھتے ہیں نیز وہ جو معاہدین میں سے مستامنین او ر اہل ذمہ کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔اسی طرح مرتدین کے ساتھ جو اسلام کا اقرار کرنے کے بعد انکار کر بیٹھتے ہیں اور کفار میں سے خبیث ترین مخلوق بن جاتے ہیں اسی طرح اس میں باغیوں سے معاملہ کر نے کا ذکر ہوتا ہے جن کا حال مشرکین جیسا تو نہیں البتہ تاویل باطل کی بنا ء پر جاہل ضرور بن جاتے ہیں ۔"

مذکور ہ بالا تعریف اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک جامع تعریف کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں سیر کی حدوو و قیود کو متعین کردیا گیا ہے ۔ اس تعریف میں جہا ں دیگر اقوا م سے حالت جنگ میں مسلمانوں کے طرز عمل کا ذکر ہے تو دوسری طرف حالت امن میں معاہدات کرنے والی قوموں سے معاملا ت طے کرنے کا تذکرہ بھی موجود ہے جس سے معلوم ہو اکہ حالت جنگ وامن میں دیگر اقوام سے پیش آمدہ معاملات طے کرنا سیر کہلاتا ہے ۔ نیز مسلمانوں کا اگر کوئی گروہ ارتداد اختیار کرنے کے بعد یا بغاوت کے بعدکسی علاقے پرقبضہ کرکے اسلامی حکومت اور ریاست کے خلاف بر سر پیکار ہوجائے تو اسکے ساتھ جنگ کرنا یا دیگر معاملات طے کرنا اسی قانون سیر میں داخل ہے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ السیر کی اصطلاحی تعریف کچھ یو ں کرتے ہیں:

"اصطلاحی اعتبار سے سیر سے مراد مسلمانو ں کا وہ طرز عمل اور رویہ ہے جو ان کو غیر مسلموں سے تعلقات،جنگ وصلح،دوسری ریاستوں سے میل جولاور دیگر بین الاقوامی یا بین الممالک اداروں یا افراد سے لین دین میں اپنانا چاہیے۔"[31]

ڈاکٹرمحمد حمید اللہ ؒ بین الاقوامی اسلامی قانون کی تعریف کرتے ہوئے لکھتےہیں :

"یہ قانون اصل میں سلطنتوں کے آپس کے تعلقات کے متعلق ہوتا ہے۔"[32]

آپ اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

“The part of law and custom of the land and treaty obligations which amuslim de-fecto or de-juro state observes in the dealing with other de-fecto or de-juro states.”[33]

"کسی علاقے کے قانون، رسم و رواج اور معاہدات وغیرہ کے وہ التزامات جن کی ایکاسلامی ریاست کسی دوسری ریاست کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے پابندی کرتی ہے۔"

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ لکھتے ہیں:

“We have emphasized the point that what a Muslims state accepts as such is the Muslim International Law.”[34]

"ہم اس نقطے پر زور دے چکےہیں کہ بین الاقوامی تعامل کے وہ قواعد و ضوابط جنہیں اسلامی ریاست قبول کرچکی ہو وہ بین الاقوامی اسلامی قانون ہے۔"

السیر کے مفہوم سے متعلق آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ السیر کے لغوی معنی رویہ اور طریقہ کے ہیں ۔ اس اصطلاح کا استعمال جنگوں میں رسو ل اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے بیا ن کے لئے ہوا اور بعد میں رسو ل اللہ ﷺکی عمومی زندگی کو بیا ن کرنا بھی سیرت کہلایا جانے لگاچونکہ بین الاقوامی تعلقات کو منظم کرنے والے اسلامی قوانین سیرت رسو ل ﷺ سے ہی مستنبط ہیں اس لئے ان کے لئے فقہ اسلامی میں" السیر" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

بنیا دی کتب سیرکا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں ملک کے اندر اور باہر امن و امان کے قیام اور جنگ وصلح میں غیرمسلم ریاستوں اور قوموں سے معاہدات کے انعقاد کے لئے حکومت کا ایک ہی ادارہ تمام امور سرانجام دیتا رہاہے۔ جبکہ عصر حاضر میں سربراہ مملکت کی سرپرستی میں داخلہ ،خارجہ ، خزانہ اور دفاع وغیرہ کی وزارتیں اور ادارے تشکیل پاچکے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔

قواعدکلیہ اور علم السیر کےمفہوم کی وضاحت کے بعداب حالت امن سےمتعلق چند قواعدکلیہ کا فقہائےکرام کے استنباط اورتطبیقات کی روشنی میں مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔

حالت امن سے متعلق قوا عد کلیہ

پہلا قاعدہ:

"الذمی من اھل دارنا کالمسلم"[35]

"ذمی ہمارے وطن کے مسلمان کی مانند ہے۔"

لغت میں" ذمہ "کے معنی "عہد "کے ہیں ۔جیسے کہ امام جرجانی ؒ لکھتے ہیں۔

"الذمۃ :لغۃ العہد"[36]لغوی مفہوم کے اعتبار سے اہل ذمہ کو "اہل العقد "بھی کہا جاتا ہے ۔[37]جبکہ فقہی اصطلا ح میں "ذمی"اس غیر مسلم باشندے کو کہتے ہیں جس کی جا ن و مال ،عزت و آبرو اور عقید ے کے تحفظ کی ذمہ داری اسلامی ریاست نے اپنے اوپر لے رکھی ہو۔[38]

دلائل:

اہل ذمہ سے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ قرآن مجیداور سنت کے حسب ذیل دلائل سے مستنبط شدہ ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

{قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ}[39]"لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اس کو جس کو حرام کیا اللہ نے اور اس کے رسول نے اور نہ قبول کرتے ہیں دین سچا ان لوگوں میں سے جو کہ اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔"

رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں آیت مذکورہ کی روشنی میں ایک معاہدہ اہل تیما کے قبیلہ بنی عادی سے حسب ذیل الفاظ میں کیا تھا:

"بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذ ا کتاب من محمد رسو ل اللہ لبنی عادیا ان لہم الذمۃ وعلیہم الجزیۃ"[40]

"شرو ع اللہ تعالی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔یہ امان ہے محمد رسو ل اللہ ﷺ کی طرف سےبنی عادی کےلئے کہ مسلمان ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور وہ ادائے جزیہ کے ذمہ دار ہیں۔"

اس معاہدے میں عقد ذمہ اور جزیےکے علاوہ اہل ذمہ کے دیگر حقوق وفرائض کی وضاحت بھی موجود ہے۔

تطبیقات:

اسلام کے قانون سیر کے مطابق ذمیوں کی تین اقسام ہیں۔۱۔معاہدین۲۔مفتوحین۳۔موادعین

۱۔معاہدین:

معاہدین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ باہمی مشاورت اور مسلمہ شرائط کے تحت تعلقات کی نوعیت اور جملہ حقوق و فرائض کا تعین کرلیا ہو۔

۲۔مفتوحین:

مفتوحین سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسلمانوں سے باقاعدہ جنگ لڑی ہو اور شکست کھانے کے بعد اپنے مذہب پر برقرار رہتے ہوئے اسلامی ریاست کے شہری بن جائیں۔

۳۔ موادعین:

موادعین سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے جنگ کے دوران بعض شرائط کی بنیاد پر مسلمانوں سے صلح کر لی ہو اسلئے انھیں "اہل صلح "بھی کہا جاتاہے۔

مذکورہ بالا تینوں اقسام میں سے ہر ایک شخص کے لئے اگرچہ ذمی کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن احکام شرعیہ کے اعتبار سے ان میں تھوڑا بہت فرق موجود ہے جیسے مفتوحین اسلامی ریا ست سے وہی حقوق لینے کے حق دار ہوتے ہیں جو اسلامی ریاست اپنی طرف سے ان کے لئے طے کردے جبکہ اہل صلح اور معاہدین وہ حقوق بھی لینے کے حقدار بن جاتے ہیں جو انھوں نے معاہدے کےتحت ریاست سے اپنے لئے مخصوص کروالئے ہوں۔ جیسا کہ حضر ت عمر ؓ کے دور ِخلافت میں قبیلہ بنو تغلب نے ذمی بنتے وقت اپنے لئے بعض شرائط منظور کروالیں تھیں۔[41]مذکور ہ بالا قاعدے کے مطابق اسلامی ریاست میں مسلمانوں کیطرح ذمیوں کو جو حقوق حاصل ہوتے ہیں ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔

۱۔اسلامی ریاست میں ذمی کو مسلمان کی طرح جو سب سے پہلا حق حاصل ہو تاہے وہ اس کی جان کی حفاظت ہے۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق بلا وجہ کسی شخص کا قتل ساری دنیا کو قتل کردینے کےمترادف ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

{مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَنَّه مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا}[42]

" اسی سبب سے لکھا ہم نےبنی اسرائیل پرکہ جوکوئی قتل کرےایک جان کوبلاعوض جان کےیابغیرفسادکرنےکےملک میں توگویاقتل کرڈالااس نےسب لوگوں کواورجس نےزندہ رکھاایک جان کوتوگویازندہ کردیا سب لوگوں کو۔"

ایک اور آیت مبارکہ میں ارشاد ہے :

{وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ۭ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِه فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّه}[43]

" اور لکھ دیا ہم نے ان پر اس کتاب میں کہ جی کے بدلے جی اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کے بدلہ ان کے برابر پھرجس نےمعاف کردیاتووہ اس گناہ سےپاک ہوگا۔"فقہا ء کے نزدیک آیت مذکور ہ میں ذمی اور مسلمان جان کی حرمت کے اعتبار سے برابر ہیں لہذ ا ان کے قصاص میں ہمیشہ برابری کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے گا۔

"والذمي مع المسلم متساويان في الحرمة التي تكفي في القصاص وهي حرمة الدم الثابتة على التأبيد"[44]

اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے تو اس کا قصاص ویسے ہی لیا جائے گا جیسے کسی مسلمان کالیا جاتا ہے۔

ذمی کے قتل کے بار ے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

"من قتل قتیلا من أهل الذمة لم یجد ریح الجنة و ان ریحھا لیوجد من مسیرۃ اربعین عاما"[45]

"جس نے اہل ذمہ میں سے کسی شخص کو قتل کردیا تووہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھے گاحالانکہ اس کی خوشبوچالیس سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔"

اما م شافعی ؒ اپنی مسند میں ایک روایت نقل کرتے ہیں:"ان رجلا من المسلمین قتل رجلا من اھل الذمۃ فرفع ذلک الی رسول اللہ ﷺ فقال انا احق من اوفی بذمتۃ ثم امر بہ فقتل"[46]

"مسلمانوں میں سے ایک شخص نے ایک ذمی کو قتل کردیا تو اس کا مقدمہ رسو ل اللہ ﷺ کی عدالت میں پیش ہو ا تو آ پ ﷺ نے فرمایا میں ذمہ کو وفا کرنے کا ذیادہ حق دار ہوں پھر آپ ﷺ نے حکم جاری کیا اور قاتل کو قصاص میں قتل کردیا گیا۔"

حضر ت علی ؓ کے دور میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کیا تو آپ ؓنے قصاص میں اسےبھی قتل کرنے کا حکم جاری کیا ۔مقتول کے بھائی نے آکر عرض کیا "قد عفوت"میں نے خون معاف کیا۔آپ ؓ نے فرمایا "لعلهم هددوک او فرقوک او فزعوک" شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرایا دھمکایا ہے ۔ اس نے جواب میں کہا "لا ولکن قتله لا يرد علی اخی وعوضونی فرضيت"چونکہ اس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آئے گااور مجھے خون بہا دے دیا گیا ہے اس لئے میں اس سے راضی ہوں۔ تو آپ ؓ نے قاتل کو رہا کردیا اور ذمی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا"انت اعلم من کان له ذمتنا فدمه کدمناوديته کديتنا[47]یعنی تو خوب جانتا ہے کہ جو شخص ہمارا ذمی بن جائے تو اس کا خون ہمار ے خون کی مانند اور اس کی دیت ہماری دیت کی مانند ہوتی ہے۔

۲۔اسلامی ریاست میں مسلمان کی طرح ذمی کا دوسرا حق اس کے ما ل کی حفاظت ہے۔امام ابو یوسف ؒ ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ارقم ؓکو رسو ل اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں اہل ذمہ سے جزیہ لینے پر مقرر فرمایا ۔ جب وہ آپ ﷺ سےرخصت ہوکر جانے لگے تو آپ ﷺ نے انھیں اپنے پاس بلایا اور ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"الا من ظلم معاهدا او کلفه فوق طاقته او انتقصه او اخذ منه شيئا بغير طيب نفسه فانا حجيجه يوم القيامة"[48]

"خبردار جس کسی نے ذمی پر ظلم کیا یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اسے تکلیف دی یا اس کا نقصان کیا یا اس کی رضامندی کے بغیر اس کی چیز لی تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔"حضر ت علی ؓ کا قول ہے :"انما بذلو االجزية لتکون دماءھم کدمائنا وأموالهم کأموالنا"[49]

"ذمی جزیہ کی ادائیگی اسلئے کرتےہیں تاکہ ان کے خون ہمارے خون اور ان کے مال کی حفاظت ہمارےمالوں کی طرح ہوجائے ۔"

ابن قدامہؒ (م۶۲۰ھ/۱۲۲۳ء)لکھتے ہیں:"ان عصمة مال الذمی کعصمة مال المسلم بدليل قطع سارقة سواءکا ن مسلمااو ذميا ووجوب ضمانه وتحريم تملک ماله"[50]

"ذمی کے مال کا تحفظ مسلمان کے مال کی طرح ہے جس کی دلیل چور کا ہاتھ کاٹنا ہے خواہ اس میں کوئی مسلمان ملوث ہو دونوں کے لئے ایک جیسا ہی قانون ہےکہ اس کے مال کو ضائع کرنے والے پر تاوان لازم آتا ہے اور اس کے مال پر زبردستی قبضہ کرنا حرام ہے۔"

تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ذمی کا مال چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔[51]تجارت کےمعاملے میں ذمی کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی عام مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں۔ بلکہ ذمی اگر شراب اور سور کا کاروبار شروع کرے تو اسے یہ حق حاصل ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کی شراب یا اس کے سور کو نقصان پہنچائےتو اس پر تاوان لازم آئےگا۔ امام حصکفیؒ(م ۱۰۸۸ھ/۱۶۷۷ء) لکھتے ہیں:

"ویضمن المسلم قیمۃ خمرہ وخنزیرہ اذا اتلفہ"[52]"اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کی شراب اور خنزیر کو تلف کرے گا تو اس پر ضمان آئے گا۔"

۳۔اسلامی ریاست میں ذمی کو مسلمان کی طرح تیسرا حق اس کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔اگر کوئی مسلمان یا ذمی کسی ذمیہ عورت سے زنا کرے تو وہ اسی طرح کا مجرم تصور ہوگاجیسا کسی مسلمان سے زنا کرنےوالاہوتا ہے اور اس کی سزا وہی ہے جو کسی مسلمان سے زنا کرنے میں ہوتی ہے۔[53]

۴۔اسلامی ریاست کے قانون سیر میں ذمیوں سے سماجی تعلقات رکھنے میں کسی قسم کی تفریق نہیں رکھی گئی۔ بلکی انھیں قریب کرنے کے لئےخوش رکھنا، صلہ رحمی کرنا،تحفے تحائف دینا،خوشی غمی میں شریک کرناشریعت اسلامیہ میں مطلوب و مقصود چیز ہے اور ان سے اچھے کاموں میں تعاون کرنا شرعی حکم ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:

{لَا يَنْهٰكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ}[54]

" جن لوگوں نے تم سے دین کے بارےمیں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔"

حضر ت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کےزمانے میں ان کی والد ہ انھیں ملنے کے لئے مدینہ منورہ آئیں جو کہ مشرکہ تھیں۔تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی ملاقات کا پوچھاتو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "نعم صلی امک"[55]ہاں تم اپنی ماں سے صلہ رحمی سے پیش آؤ۔

غزوہ حنین کے غنائم میں سے رسول اللہ ﷺ نے صفوان بن امیہ کو تین سو اونٹ تحفے میں دئیے تھے جو اس وقت کافر تھے ۔"عن صفوان بن أمية : قال أعطاني رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم حنين وإنه لأبغض الخلق إلي فما زال يعطيني حتى إنه لأحب الخلق إلي"[56]

"خدا کی قسم حضور اکرم ﷺ نے مجھے جو عطافرمانا تھا وہ عطا فرمایا۔ آپ ﷺ لوگوں میں سے مجھے ناپسندیدہ ترین تھے پھرمیرے محبوب ترین شخص بن گئے۔"

الغرض مذکورہ بالا دلائل کی بنیاد پر مسلمان کی طرح ذمی کی دعوت قبول کرنا ،اس کے سلام کا جوب دینا، بیع وشراء کامعاملہ کرنا،بیماری میں عیادت کرنا اور وفات پر اس کے اعزہ سے تعزیت کرنامسلمان کے فرائض میں سے ہے۔

دوسرا قاعدہ:

"الامر بیننا وبین الکفار مبنی علی المجازاۃ"[57]

"ہمار ے اور کفار کے درمیان تعلقات مجازات(برابری)کی بنیاد پرقائم ہونگے۔"

"مجازاۃ"جزا اور بدلے(Reciprocity)کو کہتے ہیں۔ ہر وہ بدلہ جس میں مساوات ا ور برابری کا مفہوم پایا جائے خواہ اس کا تعلق

اچھا ئی سے ہو یا برائی سے ہومجازات کہلاتا ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒ لکھتے ہیں:

"جزیتہ کذا بکذا یعنی میں نے فلاں کو اس کے عمل کا ایسا بدلہ دیا۔"[58]

دلائل:

مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ قرآن مجیداور سنت کے حسب ذیل دلائل سے مستنبط شدہ ہے۔

قرآن مجید میں جزا کا لفظ ان دونوں معنوں کو شامل ہے۔ فرمان الہی ہے:

{وَجَزٰهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِيْرًا}[59]

"اور انکے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کریگا"

اسی طرح برے اور غلط کام کے بدلے کے متعلق فرما ن الہی ہے:

{وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُه عَلَي اللّٰهِ }[60]

"اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کر دے تو اسکا بدلہ خدا کے ذمے ہے۔"

ایک دفعہ حضرت عمر ؓ سے ایک شخص نے عشر کے متعلق پوچھا:

"كم نأخذ من تجار أهل الحرب فقال كم يأخذون منا فقال هم يأخذون منا العشر فقال خذ منهم العشر فقد جعل الأمر بيننا وبينهم مبنيا على المجازاة"[61]یعنی ہم اہل حرب کے تاجروں سے کتنا ٹیکس وصول کریں؟آپ ؓ نے پوچھا وہ ہم سے کتنا وصول کرتے ہیں مذکور ہ شخص نے جواب دیا کہ وہ ہم سے عشر(دس فیصد)وصول کرتے ہیں تو آپؓ نے جواب دیا کہ تم بھی ان سے عشر ہی وصول کرو کیونکہ ہمارےاورکفارکےدرمیان تعلقات مجازات(برابری)کی بنیادپرقائم ہونگے۔ "

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مجازات کے اخروی اور اعتقادی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہری اور معاملاتی پہلو کو بھی واضح کیا ہے ۔ چنانچہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم مما لک سے جنگ اور مصالحت جیسے تمام معاملا ت اس اصول کے تحت حل کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ذیل کی آیا ت مبارکہ میں ارشاد باری تعالی ہے:

{وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ}[62]

" اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔"

{ اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ }[63]

" ادب کا مہینہ ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں، پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔"

{ وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭاِنَّه هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ }[64]

" اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سُنتا (اور) جانتا ہے۔"

{ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ}[65]

" جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔"

قرآن مجید کی مذکور ہ بالا آیا ت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم ممالک سے دو طرفہ تعلقات کے قیام میں جس چیز کو بنیادی حیثیت حاصل ہے وہ مساوات اور برابری کا اصول ہےجسے بین الاقوامی دنیا بھی ایک اہم اصو ل کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔[66]

تطبیقات:

۱۔ہر ملک اپنے عوام کی فلاح و بہبود اورترقی کے لئے دیگر ممالک سے تجارتی لین دین کرتا ہے۔تجارت کے اس لین دین میں غیر ملکی تاجروں پر اسی قاعدے کے تحت ٹیکس لگایا جاسکتاہے ۔یعنی جو ملک اسلامی ریاست کے تاجروں سے جس تناسب سے ٹیکس وصول کرے اور مراعات دےاسی تناسب سے اس ملک سے آنے والے تاجروں سے ٹیکس وصول کیا جائےگا اور مراعات دی جائیں گی۔

امام سرخسی ؒمذکورہ قاعدے کے تناظر میں لکھتے ہیں :

"إن كانوا يأخذون منا الخمس أخذنا منهم الخمس وإن كانوا يأخذون منا نصف العشر أخذنا منهم نصف العشر وإن كانوا لا يأخذون منا شيئا فنحن لا نأخذ منهم شيئا "[67]"اگر وہ ہم سے خمس (بیس فیصد )وصول کریں تو ہم بھی ان سے خمس(بیس فیصد )وصول کریں گے ۔اگر وہ ہم سے نصف عشر (پانچ فیصد)وصول کریں تو پھر ہم بھی ان سےنصف عشر(پانچ فیصد )وصول کریں گے۔ اگر وہ ہم سے کچھ بھی وصول نہ کریں تو ہم بھی ان سے کچھ وصول نہ کریں گے۔ "

البتہ اگر کسی ملک سے اسلامی ملک کے نئے نئے سفارتی تعلقات قائم ہوئے ہوں اور اس کے تاجر مال تجارت لے کرآجائیں اور معلوم نہ ہو کہ وہ ہمارے تاجروں کے مال پر کس شرح سے ٹیکس لیں گےتو اس صورت حال میں دنیا بھر میں رائج عام ٹیکس ہی لیا جائے گااور اگر کوئی ملک مسلمان تاجروں کے تھوڑے سے مال پر بھی ٹیکس لینا شروع کردے تو درج بالاقاعدے کے مطابق اسلامی ریاست اس ملک کے تاجروں سے ایسا ہی معاملہ کرے گی۔

"إن كانوا يأخذون من تجارنا من قليل المال وكثيره فكذلك نأخذ منهم من قليل وكثيره"[68]

۲۔اگر کوئی غیرمسلم ملک اسلامی ریاست سے سفارتی تعلقات قائم کرنایا توڑنا چاہےیا توڑنے کے بعد دوبارہ بحال کرنا چاہےتو اسلامی ریاست فریق ثانی کے رویے کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی نیز اسی قاعدے کے تحت سفارتی عملے کی تعداد، پروٹوکول اور دیگر مراعات بھی طے کی جائیں گی۔

۳۔یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہےکہ اسلامی ریاست صر ف معروف باتوں میں برابری اور مساوات کی پابند ہے ۔اگر کوئی غیرمسلم ملک اسلامی ریاست کے سفیر کے ساتھ دھوکا دہی کا معاملہ کرے تو پھر اسلامی ریاست کے لئے یہ جائزنہ ہوگاکہ وہ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے ۔اما م سرخسی ؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں:

"لا رخصة في غدر الأمان وما يفعلونه برسلنا بعد الشرط غدر منهم وبغدرهم لا يباح لنا أن نعذرهم بمنزلة ما لو قتلوا رهننا فإنه لا يحل لنا أن نقتل رهنهم"[69]

"امان کے معاملے پر دھوکہ دینے کی رخصت نہیں ہے اگر شرائط طے کرلینے کے بعد وہ ایسا کریں تو دھوکہ دہی ان کی طرف سے ہوگی،اس کے باوجود ان کے ساتھ غداری کا معاملہ کرنا ہما رے لئے جائز نہیں ہے۔یہ معاملہ اس طرح کا ہے کہ اگر وہ ہمارے "رہن" شدہ بندوں کو قتل کردیں تو ہمارےلئے جائز نہ ہوگا کہ ہم بھی ان کے رہن شدہ بندوں کو قتل کردیں۔"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم السیر کے مذکور ہ بالا قاعدے"الامر بیننا وبین الکفار مبنی علی المجازاۃ" کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرچکی ہے اور بین الاقوامی قانون(International Law)قرار دےچکی ہے کہ خود مختار ریاستوں کے باہمی تعلقات میں قاعدہ اور ضابطہ مساوات اور برابری ہے البتہ بین الاقوامی سطح پرمساوات اور برابری کا یہ پہلو قوت و اثر میں تونظر نہیں آرہا لیکن مرتبے اور قانونی حق میں ضرور موجود ہے۔ [70]

تیسرا قاعدہ:

"ان حرمۃ قتل المستامن من حق اللہ تعالی" [71]

"بے شک مستامن کےقتل کی حرمت اللہ تعالی کے حق میں سےہے۔"

دلائل:

مستامن سے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ قرآن مجیداور سنت کے حسب ذیل دلائل سے مستنبط شدہ ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

{ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَه}[72]

" اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سُننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔"

حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

"من قتل نفسا معاهدا لم يرح رائحة الجنة وا ن ريحها ليوجد من مسيرۃ أربعين عاما"[73]

"جس نے کسی معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھے گاحالانکہ اس کی خوشبوچالیس سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔"

تطبیقات:

۱۔اسلام کےقانون سیر کی رو سے جب کوئی شخص اسلام قبول کرے تو اسے اللہ تعالی کی طرف سےجان ومال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اسلامی ریاست کی حدود میں امان لےکر داخل ہونےوالے غیر مسلم کی جان کو اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی شریعت کی رو سے تحفظ حاصل ہے۔ کسی مسلمان کے لئے غیر مسلم مستامن کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ امان کےحوالے سے یہ حکم قرآن مجید سے ثابت شدہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

{ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَه}[74]

" اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سُننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔"

اس آیت مبارکہ میں مستامن کے لئے اسلامی ریاست (دار الاسلام )میں داخلے اور بحفاظت واپسی کا حکم واضح طور پر موجود ہے۔امان ایک معاہد ہ ہے جس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

" من قتل نفسا معاهدا لم يرح رائحة الجنة وا ن ريحها ليوجد من مسيرۃ أربعين عاما "[75]

"جس نے کسی معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھے گاحالانکہ اس کی خوشبوچالیس سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔"

امام شیبانی ؒ اس سلسلےمیں لکھتےہیں:

"فقد کان رسول الله ﷺ يکتب فی کل عهد وفاءلاغدرفيه"[76]

"حضور اکرم ﷺ ہرمعاہدے میں لکھا کرتے تھےکہ اس معاہدےمیں وفاشعاری ہوگی دھوکا نہ ہوگا۔"

چوتھا قاعدہ:

"عبارۃ الرسول کعبارۃ المرسِل"[77]

"سفیر کی بات سفیر بھیجنے والے کی بات کی مانند ہے۔"

سفیر دو ملکوں اور قوموں کے درمیان تعلقات استوار کرنےمیں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے اسلئے اسلام کے قانون سیر میں وہ نہا یت عزت و تکریم کا مستحق ہے۔مذکورہ بالا قاعدے کے مطابق سفیر کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اور معاہدات کی وہی حیثیت ہوگی جو اس کے بھیجنے والے کے اقدامات و معاہدات کی ہوتی ہے ۔

دلائل:

سفیر سےمتعلق مذکورہ بالا قاعدہ کلیہ قرآن مجیداور سنت کے حسب ذیل دلائل سے مستنبط شدہ ہے۔

قرآن مجید میں اس کردار کی نظیر وہ آیا ت مبارکہ ہیں جن میں اللہ تعالی نےحضر ت محمد ﷺکی اطاعت کو اپنی اطاعت اور آپ ﷺ کے افعال کو اپنے افعال قرار دیا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:

{ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا }[78]

" جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بیشک اس نے خدا کی فرماں برداری کی۔"

{ اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ}[79]

" جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔"

قرآن مجید میں ملکہ سبا کےان سفیروں کا بھی ذکرموجود ہے ۔جو اس نے حضر ت سلیمان ؑ کے پا س تحفےدے کر بھیجے تھے۔جن کی بات چیت کو آپ نے ملکہ اور اس کی قوم کی بات قراردیتے ہوئے اعلان جنگ کردیا تھا۔اس سفارت کا ذکر کچھ یو ں ہے:

{وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَا اٰتٰـنِي اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّا اٰتٰكُمْ بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَا اَذِلَّةً وَّهُمْ صٰغِرُوْنَ }[80]

" اور میں انکی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ تم ہی اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو گے۔ اس کے پاس واپس جاؤ ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس کے مقابلے کی انکو طاقت نہ ہو گی اور انکو وہاں سے بے عزت کر کے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے۔"

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جتنے بھی سفیر باہر سے آتے تھےآپ ﷺان سے بھیجنے والوں کا نمائند ہ سمجھ کر بات کرتے تھے۔اپنے سفیروں کو دیگر ممالک کے بادشاہوں کی طرف اسی حیثیت سےبھیجا کرتے تھے۔السرخسیؒ (م۴۹۰ھ/۱۰۹۷ء)اس ضمن میں لکھتے ہیں :

"أن النبي صلى الله عليه وسلم كان مأمورا بالتبليغ إلى الناس كافة ثم كتب إلى ملوك الآفاق وأرسل إليهم من يدعوهم إلى دين الحق وكان ذلك تبليغا تاما منه صلى الله عليه وسلم"[81]"نبی کریم ﷺساری انسانیت کی طرف تبلیغ کےلئے مامور تھے۔آپ ﷺ نے دنیا کے بادشاہوں کی طرف خطوط اور سفیر بھیج کر انھیں دین حق کی دعوت دی اس طرح یہ دعوت آپ ﷺ کی طرف سے تبلیغ تام ہوگئی۔"

تطبیقات:

۱۔اگر سفیر دوران جنگ دشمن کے کسی ایک فر د یا پورے شہر کو امان دے دے تو وہ امان درست ہوگی اور اسے سربراہ مملکت کی امان تصور کیا جائے گا۔امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ/۸۰۵ء)لکھتے ہیں:

"فإذا أرسل أمير العسكر رسولا إلى أمير حصن في حاجة له فذهب الرسول وهو مسلم فلما بلغ الرسالة قال : إنه أرسل على لساني إليك الأمان لك ولأهل مملكتك فافتح البابوأتاه بكتاب افتعله على لسان الأمير أو قال ذلك قولا وحضر المقالة ناس من المسلمينفلما فتح الباب دخل المسلمون وجعلوا يسبونفقال أمير الحصن : إن رسولكم أخبرنا أن أميركم أمننا وشهد أولئك المسلمون على مقالتهم فالقوم آمنون يرد عليهم ما أخذ منهم"[82]"اگر امیر لشکر کسی ضرورت کے لئے دشمن کے امیر قلعہ کی طرف اپنا مسلمان سفیر بھیجے۔وہ اگر یوں کہے کہ امیر نے مجھےیہ پیغا م دے کر بھیجا ہے کہ تمھیں اور تمھاری رعایا کو اما ن ہے لہذا قلعہ کا دروازہ کھول دو اور امیر کی طرف سے جھوٹا خط بھی نکال کر دے یا زبانی ہی ایسی بات کرے جبکہ وہا ں مسلمان بھی حاضر ہوں ۔دروازہ کھلنے پر اسلامی فوج قلعے میں داخل ہوکر انھیں گرفتا ر کرے دوسری طرف امیر قلعہ دعوی کرے کہ ہمیں تمہارے سفیر نے خبر دی تھی کہ تمہار ا امیر ہمیں امان دے چکا ہے اور گواہی کے طور پر ان مسلمانو ں کو بھی پیش کردے تو یہ سب لوگ مأمون قرار پائیں گے اور ان سے چھینا گیا مال واپس لوٹایا جائے گا۔"

السرخسی ؒمذکورہ بالاعبارت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"عبارة الرسول كعبارة المرسل فكان أمير العسكر أمنهم"[83] "قاعدہ ہے کہ سفیر کی بات بھیجنے والے کی بات ہوتی ہے گویا کہ امیر لشکر نے انہیں امان دی۔"

جہاں تک سفیر کے جھوٹ بولنے کا تعلق ہے تو یہ امیر لشکر کی ذمہ داری تھی کہ وہ سفارت کاری کے لئے ایسے جھوٹے شخص کا انتخاب ہی نہ کرتا۔جیسا کہ امام سرخسیؒ کا قول ہے :"الواجب علی المرسل أن يختار لرسالته الأمین دون الخائن والصادق دون الکاذب"[84]"مرسل پر واجب ہے کہ وہ اپنی سفارت کے لئے خائن کی بجائے امین اور جھوٹے کی بجائے سچے آدمی کا انتخاب کرے۔"

۲۔سفیر کے ایسے کردار جس سے دو ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوں،معاہدات ٹوٹیں اور تعلقات خراب ہو کر جنگ کی نوبت آجائے تو اسے سفیر کے منفی اور ناپسندیدہ کردار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ایسی صورت حال میں شرعی حکم یہ ہے کہ عجلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے بلکہ صبروتحمل کے ساتھ اصل صورت حال معلوم کی جائے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:

{يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ}[85]"مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔"

اس آیت مبارکہ کے شان نزول کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺنے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو بنو المصطلق سے صدقات لینے کے لئے سفیر بنا کر بھیجا۔بنو المصطلق کو خبر ہوئی تو وہ خوشی سے رسول اللہﷺ کے سفیر کے استقبال کے لئے بستی سے باہر نکل آئے،ادھر ولید بن عقبہ نے لوگوں کو اپنی طرف آتے دیکھ کر سمجھا کہ شاید وہ انہیں مارنے یا قتل کرنے کے لئے نکلے ہیں اس لئے وہ راستے سے ہی واپس لوٹ آیا اور آکر رسول اللہ ﷺکو یہ اطلاع دی کہ بنوالمصطلق مرتد ہو گئے ہیں اور انہوں نے صدقات دینے سے انکار کر دیا ہے۔یہ خبر سن کر رسول اللہ ﷺکو تشویش لاحق ہوئی اور ان سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔اسی دوران بنوالمصطلق کو بھی یہ خبر پہنچ گئی تو انہوں نے فورا ایک وفد رسول اللہﷺکی خدمت میں بھیجا جنہوں نے اصل صورت حال واٖضح کی۔[86]

امام محمد ؒاس مسئلے کے تناظر میں لکھتے ہیں:

"ولو جاء رسول أميرهم بكتاب مختوم إلى أمير العسكر : إني قد ناقضتك العهد فليس ينبغي للمسلمين أن يعجلوا حتى يعلموا حقيقة ذلك لأن الكتاب محتمل"[87]"اگر امیر لشکر کے پاس دشمن کا سفیر سر بمہر خط لائے جس میں یہ لکھا ہو کہ ہم نے تجھ سے کیا ہوامعاہد ہ توڑ دیا ہے تو ایسی صور ت میں اصل حقائق معلوم ہونے تک مسلمانو ں کے لئے عجلت کا مظاہر ہ کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ خط کے غلط ہونے کا احتما ل موجود ہے"

الغرض اسلا م کے بین الاقوامی سفارتی نظام میں دو ملکوں کے درمیان تعلقات استوار کرتے وقت دشمن ملک کے سفیر کی ہر بات کو اس کے بھیجنے والے کی بات سمجھ کر تسلیم کیا جاتا ہے تاہم اگر وہ تعلقا ت منقطع کرنےکی بات کرے تو پھر اصل حقائق معلوم ہونے تک اس کی بات کو تسلیم کرنا درست اقدا م نہیں ہوگا۔

خاتمہ ٔبحث:

٭لغت میں قاعدہ کے معنی اساس اور بنیا د کے ہیں جس کی جمع قواعد ہے۔ جبکہ فقہی اصطلاح میں قواعدکلیہ وہ فقہی اصول ہیں جنہیں مختصر قانونی زبان میں اس طرح مرتب کیا گیا ہو کہ ان میں اپنے موضوع سے متعلقہ آنے والے تمام شرعی احکام شامل ہوں ۔

٭قو اعد کلیہ سے فقہ کی فہم اور شریعت اسلامیہ کے اسرار اور رموز کا علم حاصل ہوتا ہے ۔قواعد کلیہ کو یاد کرنے والے علماء کی قدرو منزلت بڑھ جاتی ہے۔اس کے ازبر ہونے سے کثیر تعداد میں جزئیات یا د کرنے سے نجات مل جاتی ہے ۔

٭اسلامی ریا ست میں ذمی کو جان ،مال،عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے بلکہ ان سے سماجی تعلقات رکھنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔

٭مسلمانوں اور کفار کے درمیان تعلقات برابری اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہوں گے جس میں تجارتی اور سفارتی تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔

٭مستامن یعنی امان کے کر اسلامی ملک میں آنے والے شخص کو اسلامی شریعت جان،مال ،عزت اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔

٭سفراء ملکوںاورقوموں کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں اسلئے اسلام کے قانون بین الممالک میں وہ بہت عزت وتکریم کے مستحق قرار پاتے ہیں اور انکی بات کو بھیجنے والے کی بات سمجھا جاتا ہے۔

٭ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں علم السیر کے متعلق حالت امن کےقواعدکلیہ کے حوالے سے جامع و مانع کام کرکے ایک کتاب چھاپی جائے ۔

حوالہ جات

  1. حواشی وحوالہ جات

    ۔الزرکشی، بدر الدین ،محمد بن بہادر بن عبد اللہ،ابی عبد اللہ (م ۷۹۴ھ/۱۳۹۲ء)المنثور فی القواعد ،تحقیق تیسیر فائق احمد محمود،کویت، وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیہ،۱۴۰۵ھ،۱ /۶۹

  2. ۔ السیوطی، عبد الرحمان بن ابی بکر،جلال الدین،(م ۹۱۱ھ/۱۵۰۵ء) الاشباہ والنظائر،بیروت،لبنان ،دار الکتب العلمیۃ،۱۴۰۳ھ ،ص ۶،(ترقیم الشاملۃ)
  3. ۔ البخاری،محمد بن اسماعیل،(م۲۵۶ھ/۸۷۰ء)الجامع الصحیح،بیروت، دار ابن کثیر،۱۴۰۷ھ/ ۱۹۸۷،کتاب العلم،۱/۳۹،ح ۷۱؛ ترمذی ،محمدبن عیسی، ابو عیسی،(م۲۷۹ھ/۸۹۲ء)سنن الترمذی،تحقیق احمد محمد شاکر،بیروت، لبنان،دار احیاء التراث العربی،س۔ن،کتاب العلم،باباذا اراد اللہ بعبد خیرا فقہہ فیالدین،۵/۲۸،ح۲۶۴۵
  4. ۔القرافی،احمدبن ادریس الصنھاجی،شہاب الدین ،(م۶۸۴ھ/۱۲۸۵ء)الفروق أو انوار البروق فی انواء الفروق،تحقیق خلیل المنصور،بیروت،لبنان،دار الکتب العلمیۃ،۱۴۰۸ھ،۱/۶ ۔۸
  5. ۔القرافی ،احمد ادریس الصنھاجی،الذخیرۃ،تحقیق محمد حجی،بیروت،لبنان،دارا لغرب ،۱۹۹۴ء،۱/۵۵
  6. ۔ السیوطی،الاشباہ والنظائر،ص۶
  7. ۔مجلۃالاحکام العدلیۃ،کراچی،نور محمد کارخانہ تجارت کتب،س۔ن،م/۱،ص۱۶
  8. ۔الراغب الاصفہانی ،الحسین بن محمد، ابی القاسم،(م۵۰۲ھ/۱۱۰۹ء)مفردات القرآن اردو،ترجمہ مولانا محمد عبدہ،لاہور،شیخ شمس الحق،س۔ن،مادہ ق ع د، ص۲/۸۶۱
  9. ۔الزبیدی،محمد مرتضی الحسینی،السید،تاج العروس من جواہر القاموس،تحقیق مجموعہ من المحققین،دار الھدایۃ،س۔ن،۹/۶۰
  10. ۔ابن منظور ،لسان العرب،دار احیا ء التراث العربی ،بیروت ،لبنان،۱۹۸۸ء،۳/۳۵۷
  11. ۔القرآن، البقرہ۲: ۱۲۷
  12. ۔القرآن،النحل ۱۶ :۲۶
  13. ۔الجرجانی ،علی بن محمدالشریف،(م۸۱۶ھ/۱۴۱۳ء)التعریفات،لاہور،مکتبہ حقانیہ، ص۱۲۱
  14. ۔تفتازانی،سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد اللہ،(م۷۹۳ھ/۱۳۹۰ء)التلویح الی کشف حقائق التنقیح علی التوضیح،بیروت ،دار الکتب العلمیۃ،۱۴۱۶ھ،۱ /۳۵
  15. ۔تھانوی، محمد اعلی بن علی ،(م ۱۱۵۸ھ)کشاف اصطلاحات الفنون،بیروت ،لبنان،مکتبہ لبنان ناشرون، ۱۹۹۶ء،۲/۴۴۴۔۴۴۶
  16. ۔غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر،۱/۶۳
  17. .علی حیدر ،دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام،بیروت،دار صادر ،س۔ن،۱/۱۷
  18. ۔سبکی ،تاج الدین،عبد الوھاب بن علی بن عبد الکافی ،(م۷۷۱ھ/۱۳۶۹ء)الاشباہ والنظائر،بیروت، دارالکتب العلمیہ،۱۴۱۱ھ،۱/۲۱
  19. ۔ Black’s Law Dictionary, Bryen A Garner,West,Eight Edition,1999, p: 1000
  20. ۔الزرقاء،مصطفی احمد ،(م۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء)المدخل الفقہی العام،بیروت،دار الفکر،۱۳۸۷ھ/۱۹۶۸ء، ۲/۹۴۷
  21. ۔تفصیل کےلئے دیکھیے: Dr.HamidullahMuhammad,TheMuslim Conductof State, Sh. Ashraf, Lahore,p.9
  22. ۔الراغب الاصفہا نی،مفردات القرآن اردو،مادہ س ی ر،۱/۵۱۰
  23. ۔القرآن،طہ ۲۰ :۲۱
  24. ۔ابن الھمام،کمال الدین محمد بن عبد الواحد(م ۶۸۱ھ) شرح فتح القدیر،بیروت، لبنان،دار الفکر،س۔ن،۵/۴۳۴
  25. ۔الجرجانی،التعریفات،ص۸۹؛قلعہ جی،محمد رواس،ڈاکٹر،معجم لغۃ الفقہاء،کراچی،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ،س۔ن،ص۲۵۳ ؛الرازی،محمد بن ابی بکر بن عبد القادر،(م۶۶۶ھ/۱۲۶۸ء)مختار الصحاح،تحقیق محمو د خاطر،بیروت،مکتبہ لبنان ناشرون ،۱۴۱۵ھ ،ص۳۲۶
  26. ۔ابن ہشام،عبد الملک بن ہشام، ابو محمد ، (م۲۱۳ھ/۸۲۸ء)السیرۃ النبویۃ،تحقیق طہ عبدالرؤف سعد،بیروت ، دار الجیل،۱۴۱۱ھ، ۶/۴۴
  27. ۔ابن حبیب،محمد،(م۲۴۵ھ/۸۵۹ء)،کتاب المحبر،حیدرآباد ،دکن،س۔ن،ص۲۵۶
  28. ۔الھیثمی،نور الدین،علی بن ابی بکر(م۸۰۷ھ/۱۴۰۵ء)مجمع الزوائدومنبع الفرائد، بیروت، لبنان،دارالفکر،۱۴۱۲ھ،۵/۳۲۱
  29. ۔السرخسی کا نام ابو بکر احمد بن ابی سھل، شمس الأئمہ کے نام سے معروف ہیں۔خراسان میں پیدا ہوئے۔فقہ حنفی کے بہت بڑے فقہیہ، اصولی،متکلم،محدث،مناظراورمجتہدتھے۔ آپکی تصنیفات میں"المبسوط،شرح سیرالکبیر"وغیرہ زیادہ مشہور ہیں(الزرکلی،خیر الدین(م۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء)الاعلام قاموس تراجم لاشہر الرجال والنساء من العرب والمستعربین والمستشرقین،بیرو ت ،لبنان،دار العلم للملایین،۲۰۰۲ء،۵/۳۱۵)
  30. ۔السرخسی،شمس الدین،احمد بن ابی سھل،ابی بکر(م ۴۹۰ھ/۱۰۹۷ء)المبسوط،بیروت،دار المعرفۃ،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳ء،۱۰/۲
  31. ۔غازی،محمود احمد ڈاکٹر،خطبات بہاولپور(۲ )اسلام کا قانون بین الممالک،اسلام آباد، شریعہ اکیڈمی،۲۰۰۷ء، ص۶۰
  32. ۔حمید اللہ محمد، ڈاکٹر(۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱ء)خطبات بہاولپور،اسلام آباد،ادارہ تحقیقات اسلامی، ۲۰۱۰ء،ص۱۲۶،پیرہ۱۳۸
  33. .دیکھیے: Dr.Hamidullah The Muslim Conduct of State,p-3
  34. .دیکھیے: Dr.Hamidullah The Muslim Conduct of State,p.2-3
  35. ۔السرخسی،محمد بن احمد بن ابی سہیل،ابی بکر،(م۴۹۰ھ/۱۰۹۷ ء) شرح السیر الکبیر،تحقیق ابی عبد اللہ محمد حسن اسماعیل ،بیروت،دارالکتب العلمیہ،۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء،۱/۲۳۹
  36. ۔الجرجانی ،علی بن محمدبن شریف(م۸۱۶ھ/۱۴۱۳ء)التعریفات،ملتان،مکتبہ حقانیہ،س۔ن،ص ۷۸؛قلعہ جی،محمد رواس،ڈاکٹر،معجم لغۃ الفقہاء،کراچی،ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیۃ، س۔ن، ص۲۱۴
  37. ۔الرازی،محمدبن ابی بکربن عبدالقادر،(م۶۶۶ھ/۱۲۶۸ء)مختار الصحاح،تحقیق محمو د خاطر، بیروت، مکتبہ لبنان ناشرون ،۱۴۱۵ھ، ص۲۲۶
  38. ۔قلعہ جی، معجم لغۃ الفقہاء،ص۲۱۴
  39. ۔القرآن،التوبۃ۹: ۲۹
  40. ۔ابن سعد،محمدبن سعدبن منیع،ابو عبد اللہ الذھری،(م۲۳۰ھ/۸۴۵ء)الطبقات الکبری،تحقیق احسان عباس، بیروت،۱۹۶۸ء،۱/۲۷۸؛حمید اللہ ،محمد،ڈاکٹر(۱۴۲۴ھ/۲۰۰۱ء)مجموعۃ الوثائق السیاسیۃللعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ،بیروت،دار النفائس،۱۴۰۷ھ/۱۹۸۷ء،۱/۹۸
  41. ۔ان کی ایک شرط منظور ہوئی تھی کہ ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گاجس کے بدلے میں وہ زکوۃ سے دو گنا ٹیکس ادا کریں گے۔ (السرخسی،المبسوط،۲/۱۷۹)
  42. ۔القرآن،المآئدہ۵ :۳۲
  43. ۔ القرآن،المآئدہ ۵ :۴۵
  44. ۔القرطبی،محمدبن احمد بن ابی بکر،ابو عبداللہ(م۶۷۱ھ/۱۲۷۳ء)الجامع لاحکام القرآن،تحقیق سمیرالبخاری،ریاض،دارعالم الکتب،۱۴۲۳ھ/۲۰۰۳ء،۲ /۲۴۶
  45. ۔النسائی،احمد بن شعیب،ابو عبد الرحمن ،(م۳۰۳ھ/۹۱۵ء)السنن،بیروت،دار الکتب العلمیۃ،۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء، کتاب القسامۃ،باب تعظیم قتل المعاہد،۵/۲۲۵،ح۸۷۴۲
  46. ۔الشافعی، محمد بن ادریس،ابو عبد اللہ،(م۲۰۴ھ/۸۱۹ء)المسند،بیروت،دارالکتب العلمیۃ،س۔ن،کتاب الدیات و القصاص،ص۳۴۳،ح۱۵۸۴
  47. ۔الشافعی،المسند،ص۳۴۴،ح۱۵۸۵؛الزیلعی،عبداللہبنیوسف الحنفی،(م۷۶۲ھ/۱۳۶۱ء)نصبالرایہ،تحقیق محمد عوامہ،بیروت،مکتبۃ الریان لللطباعۃوالنشر،۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء،۴ /۳۳۷
  48. ۔ابو یوسف، یعقوب بن ابراہیم الانصاری(م۱۸۲ھ/۷۹۸ھ)کتاب الخراج،تحقیق عبد الرؤف سعد،قاہرہ،المکتبۃ الازھریۃ للتراث،س۔ن،ص۱۳۹
  49. ۔ابن نجیم ، البحر الرائق شرح کنز الدقائق،۸ /۳۳۷
  50. ۔ابن قدامہ،عبد اللہ بن احمدالمقدسی،(م۶۲۰ھ/۱۲۲۳ء)المغنی فی فقہ الامام احمد بن حنبل،بیروت،لبنان،دارالفکر،۱۴۰۵ھ،۱۲/۳۲۰
  51. ۔السرخسی، المبسوط، ۲۶/۱۳۲؛ابن نجیم،البحر الرائق،۸/۳۳۷
  52. ۔الحصکفی، محمد بن علی بن محمد الحصینی،علاؤ الدین(م ۱۰۸۸ھ/۱۶۷۷ء)الدر المختار،۴/۱۷۰
  53. ۔المرغینانی،علی بن ابی بکر،ابو الحسن،(م۵۹۳ھ/۱۱۹۷ء)الھدایہ شرح بدایۃ المبتدی،لبنان ،بیروت،المکتبۃ الاسلامیہ،س۔ن،۲/۱۰۳
  54. ۔ القرآن،الممتحنہ۶۰: ۸
  55. ۔البخاری،الجامع الصحیح،کتاب الھبۃ وفضلہا،باب الھدیۃ للمشرکین،۲/۹۲۴،ح۲۴۷۷
  56. ۔تالیف قلب کے لئےکفار کو مال دینے کے حوالے سے اگرچہ علماء کے درمیا ن اختلاف پایا جاتا ہے لیکن وقت کے تقاضو ں کو سامنے رکھتے ہوئےاگر امام مناسب سمجھے تو وہ ایسا کرسکتاہے ہے۔امام شافعی ؒ کے نزدیک امام کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ۔(الترمذی،محمد بن عیسی،ابو عیسی،(م۲۷۹ھ/۸۹۲ء) الجامع الصحیح،تحقیق احمد محمد شاکر،بیروت،دار احیاء التراث العربی،س۔ن،۳/۵۳)
  57. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۵/۲۸۵
  58. ۔الراغب الاصفہانی ،مفردات القرآن اردو،ترجمہ مولانامحمدعبدہ،مادہ ج ز ی،۱/۱۸۲
  59. ۔القرآن،الدھر۷۶: ۱۲
  60. ۔القرآن،الشوری۴۲: ۴۰
  61. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۵/۲۸۶
  62. ۔القرآن،البقرۃ۲: ۱۹۰
  63. ۔القرآن،البقرۃ۲: ۱۹۴
  64. ۔القرآن،الانفال۸: ۶۱
  65. ۔القرآن،الممتحنہ ۶۰: ۸۰
  66. ۔دیکھیے: Openheim’s, Internationa lLaw, Longmans, Green and Co.London, 1952, vol.1, p.238
  67. ۔السرخسی، شرح السیر الکبیر،۵/۲۸۵
  68. ۔السرخسی، شرح السیر الکبیر،۵/۲۸۷ ۔۲۸۶؛المرغینانی،الھدایۃشرح بدایۃ المبتدی،۱/۱۰۶؛ابن عابدین،محمد امین بن عمر بن عبد العزیز،(م۱۲۵۲ھ/۱۸۳۶ء)رد المحتار علی الدر المختار ،بیروت،دار الفکر،،۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء،۲/۳۱۴؛ابننجیم،زین الدین بن ابراہیم بن محمد،(م۹۷۰ھ/۱۵۶۳ء)البحر الرائق شرح کنز الدقائق،بیروت،لبنان،دار المعرفۃ،س۔ن،۲/۲۵۰
  69. ۔السرخسی، شرح السیر الکبیر،۵/۶۹
  70. ۔تفصیل کےلئے دیکھیے: Openheim’s, International Law,vol.1 ,p.238
  71. ۔السرخسی،شرح السیرالکبیر،۲/۴۸
  72. ۔القرآن،التوبہ۹: ۶
  73. ۔البخاری،الجامع الصحیح،کتاب الجہاد والسیر،باب اثم من قتل معاہدا بغیرجرم،۳/۱۱۵۵،ح۲۹۹۵
  74. ۔القرآن،التوبہ۹: ۶
  75. ۔البخاری،الجامع الصحیح،کتاب الجہاد والسیر،باب اثم من قتل معاہدا بغیرجرم،۳/۱۱۵۵،ح۲۹۹۵
  76. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۴/۲۵۲
  77. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۲/۴۳، ۲/۱۱۱
  78. ۔القرآن،النساء۴: ۸۰
  79. ۔القرآن،النساء۴۸: ۱۰
  80. ۔القرآن،النمل۲۷: ۳۵۔۳۷
  81. ۔السرخسی،المبسوط ،۲۵/۳۱؛شرح السیر الکبیر ،۱/۲۵۱
  82. ۔الشیبانی،السیر الکبیر،۲/۴۳۔۴۴
  83. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۲/۴۳
  84. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۲/۴۳
  85. ۔القرآن،الحجرات۴۹: ۶
  86. ۔الطبری،محمد بن جریربن یزید،جامع البیان عن تاویل آی القرآن،تحقیق احمد محمد شاکر،بیروت،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء،۲۲/۲۸۶
  87. ۔السرخسی،شرح السیر الکبیر،۲/۴۷
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...