Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 30 Issue 1 of Al-Idah

حضرت آدم علیہ السلام بائبل اور قرآن کى روشنى میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

30

Issue

1

Year

2015

ARI Id

1682060034497_724

Pages

67-86

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/195/187

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/195

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے تذکروں میں سب سے پہلاتذکرہ آدم علیہ السلام کاہے۔ قرآن مجیدمیں آپؑ کاذکرسورہ بقرہ ، سورہ آل عمران ،سورہ المائدہ ، سورہ الاعراف ، سورہ الاسراء ،سورہ الکہف اور سورہ طٰہٰ میں ہواہے۔ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نےبراہِ راست مٹی سے پیدا فرمایا ۔

اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کے ساتھ مشورہ :

آدمؑ کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اطلاع دی کہ وہ عنقریب مٹی سے ایک مخلوق پیداکرنے والاہے ،جوبشرکہلائےگی اورزمین پر میری خلافت قائم کرے گی۔فرشتوں نے کہاکہ اگرکوئی حکم ہوتوہم تیار ہیں،دوسری بات یہ ہے کہ یہ فسادات اورخونریزیاں کرے گی۔ایسی مفسدمخلوق کی پیدائش کی ضرورت کیا ہے؟تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ [1])

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے آدمؑ کی پیدائش پر یہ اعتراض اس لئے کیا کہ آپ ؑ کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے زمین پر جنات رہتے تھے، وہ زمین میں فساد اور خونریزی کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو مسلط کیا۔ انہیں مار مار کر جزیروں تک بھگا دیا۔جب اللہ تعالیٰ نے کہا: میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں توفرشتوں نے کہا !جنات کی طرح یہ انسان بھی زمین میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا !میں جوجانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے [2]۔

یہی بات ابن جریر،ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے العظمۃ میں ابوالعالیہؒ سے بھی نقل کی ہے [3]۔

تقابل :

قرآن مجید میں آدمؑ کی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کے ساتھ مشورے اور ان کی مخالفت کا ذکر ہے[4]،جب کہ بائبل میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

پیدائش:

آدم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نےبراہِ راست مٹی سے بغیرماں باپ کے پیداکیا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ[5]۔ جب ابلیس نے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کے استفسار پر اس نے کہا : أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ[6] ۔

مٹی سے پیدائش کا ذکر احادیث میں:

مٹی سے پیدائش کا ذکر احادیث میں کچھ اس طرح سے ہے:

ابن سعد نے طبقات،امام احمد نے اپنی مسند، ابوداؤد اورترمذی نے اپنی سنن ، ابن جریر نے اپنی تفسیر،ابوالشیخ نے العظمۃ ، حاکم نے اپنی مستدرک اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا؛ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو مٹھی بھرمٹی سے پیدا کیاجس میں تمام زمین کے ٹکڑوں کے اجزاء تھے۔اسی وجہ سے اولاد آدم مختلف شکلوں پر ہیں۔بعض ان میں سرخ ،بعض سفید،سیاہ،گندمی رنگ کے ہیں،بعض نرم، بعض سخت مزاج،بعض بدنیت اور بعض نیک سیرت ہیں[7]۔

یہی بات ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے[8]۔

تقابل:

قرآن اوربائبل دونوں اس بات پرمتفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے پیداکیا۔قرآن میں یہ تفصیل ہے کہ ہم نے آدم علیہ السلام کوچھانی ہوئی پکی مٹی سے بنایا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

(وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ([9])۔ جب کہ بائبل میں صرف یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نےآدم کوزمین کی مٹی سے بنایا اوراس کی نتھنو ں میں زندگی کادم پھونکااوروہ ذی روح ہوگیا[10]۔

تعلیم آدم ؑ :

چونکہ آدم ؑ کودنیا کی آبادکاری اور خلافت سپرد کرنا تھی ،لہٰذا آپؑ کو تمام دنیوی چیزوں کےعلم سے نوازا گیا۔پھر جب فرشتوں نےآپؑ کی تخلیق کاسبب اورآپ کے خلیفہ بنانے کی حکمت معلوم کرنا چاہا ،تو اللہ تعالیٰ نے خود انہیں یہ اجمالی جواب دیا کہ میں جوکچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔پھر ان کے سوال کاتفصیلی جواب دینے اور آدمؑ کی فضیلت ان کے دلوں میں بٹھانے کی غرض سے آپؑ کے سامنے فرشتوں سے پوچھاکہ تم ان اشیاء کے متعلق کیاعلم رکھتے ہو؟فرشتے چونکہ دنیوی خواہشوں اورضرورتوں سے بےنیازتھے،اس لیے ان کے علم سے بھی ناآشناتھے ۔توانہوں نےاپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے جواب دینے سے معذرت اختیار کیں۔پھر آدم ؑ کو اس کا جواب دینے کو کہا گیا۔تو آپؑ نےوہ سب کچھ بتادیا[11]۔جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ[12]"

بہرحال آدمؑ کوصفت"علم"سے اس طرح نوازاگیاکہ فرشتوں کے لیے بھی آپ ؑ کی برتری اوراستحقاقِ خلافت کے اقرارکےعلاوہ چارۂ کارنہ رہا،اوریہ ماننا پڑاکہ اگرہم زمین پرخلیفہ بنائے جاتے توکائنات کے بھیدوں سے ناآشنارہتے اورقدرت نے جوخواص اورعلوم کائنات کو ودیعت کی ہیں ان سے یکسرناواقف ہوتے ۔ بلاشبہ یہ صرف انسان ہی کے لیے موزوں تھا کہ وہ زمین پرخداکاخلیفہ بنے اوران تمام حقائق ومعارف اورعلوم وفنون سے واقف ہوکرنیابتِ الہٰی کاصحیح حق اداکرے۔

یہی سےڈارون کے نظریہ ارتقاء کی سختی سے تردید ہوتی ہے۔کیونکہ اس کی رو سے انسان کو موجودہ شکل وصورت اور عقل کئی جانوروں کے روپ سے گزر کر ملا ہے۔یعنی ابتدا میں یہ ایک خوردبینی جاندار تھا ، پھر اس سے ایک کیڑا بنا ، پھر اس سے مینڈک بنا ، پھر بندر وغیرہ۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کا دم گر گیا اور موجودہ انسانی شکل اختیار کرنے لگا-جیسا کہ درج ذیل تصویر سے ظاہر ہوتا ہے۔

File:Picture 255.png

حالانکہ آدمؑ ہی پہلے انسان تھے جن کی تخلیق براہِ راست مٹی سے کی گئی تھی،نہ کہ ارتقائی عمل کے نتیجے میں۔موجودہ انسانی شکل پر تھے۔پیغمبر اور ایک مہذب انسان تھے۔

تقابل:

قرآن میں آدم علیہ السلام کوخلیفہ مقررکرنے ،آپ کو مختلف چیزوں کاعلم دینے اورآپؑ کی فضیلت فرشتوںپرظاہرکرنے کوتفصیلی طورپرذکر کیا گیاہے ،جب کہ بائبل میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مخلوقات کو پیدا کرکے آدم ؑ پر پیش کیا۔آپؑ نے جس مخلوق کو جس نام سے پکارا ،وہ اس کا نام ہوگیا۔وہاں پر آپؑ کےخلیفہ ہونے اورآپ ؑ کی بہتری ظاہرکرنے کی کوئی بات نہیں ہے[13]۔

فرشتوں کا آدم ؑکوسجدہ کرنااورابلیس کاانکار:

آدمؑ کی فضیلت جب فرشتوں پر ظاہرہوئی تواللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سب اسے سجدہ کریں،فوراًتمام فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی۔ مگرابلیس نے تکبر کیا اور یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔قرآن مجید میں ارشاد ہے: (وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ ۔ قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [14]

دوسری جگہ ارشاد ہے: (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ[15]

ایک اور جگہ ارشاد ہے: (وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ۔ قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا[16]))۔

روایات میں مختلف قسم کی باتیں ابلیس کے بارے میں آئی ہیں مثلا :

بیہقی نے الشعب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ابلیس کا نام عزازیل تھا ۔یہ چار پروں والے معزز فرشتوں میں سے تھا ۔ لیکن بعد میں ابلیس بنا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر خیر سے محروم کر دیا۔انکارسے پہلے اس کا نام عزازیل تھا ۔زمین میں رہتا تھا۔ انتہائی عبادت گزارمگر بڑا ظالم تھا ،اسی وجہ سے اس میں تکبر پیدا ہوا ۔ قتادہؒ کہتےہیں کہ سجدہ آدم ؑ کو تھا اور اطاعت اللہ کی تھی۔اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو عزت بخشی تو ابلیس نے حسداًکہا! میں آگ اور یہ مٹی سے پیدا ہے۔ گناہ کا آغاز تکبر سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے دشمن نے آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے تکبر کیا [17]۔

تقابل:

مطالعہ قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کی پیدائش کےبعد فرشتوں پر آپؑ کی افضیلت ظاہر کی اورفرشتوں اورابلیس کی اطاعت ظاہرکرنے کے لیے سجدۂ تعظیمی کاحکم دیا،جسے فرشتوں نے قبول کیا اور ابلیس نے قبول نہیں کیا۔جب کہ بائبل میں نہ سجدہ کاذکرہے اورنہ انکارِابلیس کا۔

آدم علیہ السلام کادخول جنت اورحواء کی پیدائش:

آدمؑ کودنیا میں مٹی سے بنایاگیا،پھرجنت میں داخل کیاگیا ، وہاں پر آپؑ ایک عرصہ کے لئے تنہازندگی بسرکرتے تھے ۔آپ کے آرام وسکون کے لئے اللہ تعالیٰ نے حواء کو آپ ہی سےپیداکیا۔جیسا کہ ارشاد ہے: وخلق منہا زوجہا [18]). دوسری جگہ پر ہے: (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ([19])

نظم قرآن سےحواء کی پیدائش کی تفصیل نہیں ملتی،مگر صرف یہ بات ہےکہ آدم ؑہی سےحواءکوپیدا کیا گیا،البتہ روایات میں کچھ تفصیل ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔جیساکہ نبی کریمﷺ کا ارشادہے: «اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ، فَإِنَّ المَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ» [20]۔

بیہقی نے الاسماء والصفات میں سدی عن ابی مالک عن ابی صالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مرہ عن بن مسعودرضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ سے نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو جنت میں سکونت دی تووہ اکیلے ہونے کی وجہ سے وحشت محسوس کرتے۔ سونے سے اٹھنے پر دیکھاکہ اس کے سر کے قریب ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کی پسلی سے پیدا کیا تھا۔آپ ؑ نے پوچھا:تو کون ہے؟کہا:عورت۔پوچھا تجھے کس لیے پیدا کیا گیا ہے؟ کہا:تیرے سکون کے لیے۔فرشتوں نے کہا:اے آدم اس عورت کا نام کیا ہے؟آپ ؑ نے کہا:حواء۔فرشتوں نے کہا:اس کا نام حواء کیوں رکھا گیا ہے؟ فرمایا کیونکہ یہ زندہ شخص سے پیدا کی گئی ہے، اوریہ کہ یہ ہر زندہ شخص کی ماں ہے، [21]۔

تقابل:

قرآن مجید اور بائبل دونوں اس بات پرمتفق ہیں کہ حواء کو آدم ؑ ہی سے پیدا کیا گیا ۔قرآن میں یہ بات ا جمالی طورپر ہے،تفصیل احادیث اور دوسری روایات سے ملتی ہے کہ آدم کی پسلی سے پیدا ہونے والی عورت کا نام آپؑ نے حواء رکھا۔جب کہ بائبل میں یہ تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پرگہری نیندطاری کی،جب وہ سورہاتھا تواس نے اس کی دائیں طرف کی پسلیوں میں سے اوپروالی پسلی نکال لی اوراس کی جگہ گوشت بھردیا اور اسی سے حواء کو بنایا گیا۔آدم نے اسے ناری کہا کیونکہ وہ نر سے پیدا کی گئی تھی [22]۔

اسی طرح اس پربھی دونوں متفق ہیں کہ آدم وحواءکوجنت میں زندگی گزارنےکا کہا گیا۔اب وہ جنت کہاں پر تھی؟حقیقی جنت تھی یا دنیا میں مصنوعی طور پر بنائی گئی تھی؟ تو قرآن میں اس کی بھی کوئی تفصیل نہیں،مطلق جنت کا ذکر ہے۔جب کہ بائبل میں ہے کہ عرب کے مقام عدن میں اللہ تعالی نے ایک باغ لگایا، جس میں آپ نے آدم وحواء کو ٹہرایا[23]۔

مخصوص درخت کی حرمت:

اللہ تعالیٰ نے آدم اور حواء کونصیحت کے طورپرحکم دیا کہ جنت میں رہیں اوراس کی ہرچیزسے فائدہ اٹھائیں ،مگرایک درخت کومعین کرکے بتایا کہ اس کے پاس نہ جائیں،یعنی اسے نہ کھائیں۔ارشاد ہے: (وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِين [24])

دوسری جگہ ارشاد ہے: (وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ[25]).

جس درخت سے آپ دونوں کومنع کیا گیاتھا،وہ کیاتھا؟اس حوالے سے روایات مختلف ہیں۔بعض میں گندم، بعض میں انگور،بعض میں انجیر، بعض میں کھجور اور بعض میں لیموں کا ذکر ہے، مگر ان میں مشہور گندم اور انگوروالی روایات ہیں مثلا:

امام احمدنے الزہد ، ابن جریر، ابن ابی حاتم ،ابوالشیخ اور ابن عساکر ؒ نے کئی طرق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ ، وہب بن منبہ اور شعیب الجبائی سے نقل کیا ہے کہ جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو منع کیا وہ گندم تھا، جس کادانہ گائے کے گردے کی مقدارتھا۔مکھن سے نرم اور شہد سے میٹھا تھا۔ اس درخت کو الرعۃ کہا جاتا ہے اور ان کا لباس نور تھا [26]۔

ابن سعد، ابن جریراور ابن ابی حاتم نے ابن عباس اور ابن مسعودرضی اللہ عنہما ، قتادہ ؒ اور جعدہ بن ہبیرہ سے نقل کیا ہے کہ جس درخت سے منع کیاگیا وہ انگور کی بیل تھی[27]۔

تقابل:

قرآن اور بائبل دونوں میں یہ بات اجمالی طور پر ذکر کی گئی ہےکہ جس جنت میں آدمؑ اورحواء کو ٹہرایا گیا تھا اس میں ایک درخت تھا جس کے استعمال سے انہیں منع کیا گیا تھا۔مزید کوئی تفصیل نہیں ہے،قرآن میں الشجرۃ کا لفظ ہے،اگرچہ روایات میں گندم،انگور،انجیر،کھجور اورلیموں کی باتیں ہیں۔جب کہ بائبل میں ہے کہ اس باغ کے وسط میں"زندگی اور نیک وبد کی پہچان کاایک درخت"تھا،جس کے کھانے سے آدم وحواء کو منع کیا گیاتھا[28]۔

آدمؑ کاجنت سے اخراج اورزمین پرنزول:

آدم ؑ اور اس کی بیوی حواء،دونوں جنت میں آرام وسکون کی زندگی بسر کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ یہاں خوشی سے رہو،مگرابلیس تمہارا دشمن ہے۔یہ تمہیں ورغلاکر جنت سے نہ نکالیں۔ارشاد ہے:

(فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى ۔ إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَى ۔ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَى[29]).

آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو جنت سے نکل جانے کاحکم ملا اور اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کا مستحق بھی قرار دیاگیا۔اس کے دل میں آدم سے انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور موقعہ کی تلاش میں تھاکہ کسی طرح آدم وحوا ءکوجنت سے نکالنےمیں کامیاب ہوجائے ۔لہٰذا وہاں سےنکلتے نکلتےاس نے آدم وحوا ءسے کہا: "جس درخت سے تمہیں منع کیا گیاہے،یہ شجرۃ الخلد ہے۔ اس کاپھل کھاناجنت میں ہمیشہ آرام وسکون کاضامن ہے۔قسمیں کھاکران کوباورکرایا کہ میں تمہاراخیرخواہ ہوں،دشمن نہیں۔میں نے یہاں زندگی گزاری ہے مجھے ان تمام چیزوں کاپتہ ہے"۔

ابلیس کے کردار کو قرآن میں ان الفاظ میں ذکر کیاگیاہے:

فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ[30])

دوسری جگہ پر ہے: (فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى۔ فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى[31])

ایک اور جگہ پر ہے؛(فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ[32])

ان باتوں سے آدمؑ کے دل میں ایک سوچ اور وسوسہ پڑگیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ وسوسہ آپؑ کے دل میں مضبوط ہوتاگیا۔ایک وقت ایسا آیا کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے نصیحت کے طورپر جو حکم دیا تھا،وہ بھول گئے اور آخرکارجنت کے دائمی قیام اورقرب الہٰی کے عزم نے لغزش پیداکردی اورانہوں نے اس درخت کاپھل کھالیا۔اس کاکھانا ہی تھاکہ بشری لوازم ابھرنےلگے،دیکھاتوننگے ہیں اورجنتی لباس سےمحروم ہیں۔جلدی جلدی پتوں سے سترڈھانکنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ ممانعت کے باوجودیہ حکم عدولی کیسی؟آدم ؑنے ابلیس کی طرح مناظرہ نہیں کیااورنہ اپنی غلطی کوتاویلات کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی،بلکہ ندامت وشرمساری کے ساتھ اقرارکیاکہ غلطی ہوئی ۔لیکن اس کاسبب سرکشی نہیں ،بلکہ بھول چوک اس کاباعث ہے تاہم غلطی ہے اس لیے توبہ واستغفارکرتے ہوئے عفوودرگزرکاخواست گارہوں۔

اب وقت آگیاتھاکہ آدم ؑ خداکی زمین پر"حقِ خلافت" اداکریں۔اس لیے بہ تقاضائے حکمت یہ فیصلہ سنایاکہ تم اورتمہاری اولاد کوایک معین وقت تک زمین پرقیام کرناہوگا۔جب کہ تمہارادشمن ابلیس بھی اپنے تمام سامانِ عداوت کے ساتھ وہاں موجودرہےگااورتم کواس طرح ملکوتی اورطاغوتی طاقتوں کے درمیان زندگی بسرکرنی ہوگی ۔اس کے باوجوداگرتم اورتمہاری اولادمخلص بندے اورسچے نائب ثابت ہوئے توتمہارااصل وطن"جنت" ہمیشہ کےلیےتمہاری ملکیت میں دےدیاجائے گا۔لہٰذاتم اورحواء دونوں یہاں سے نکلو اورمیری زمین پرجاکربسواوراپنی مقررہ زندگی تک حقِ عبودیت اداکرتے رہو۔ارشاد ہے:(قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ۔ قَالَ فِيهَا تَحْيَوْنَ وَفِيهَا تَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ[33]).

دوسری جگہ ارشاد ہے: (وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ[34]).

ایک اور جگہ پرہے: قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ[35]).

آدمؑ نے جنت میں کتنا عرصہ گزارا؟ اس بارے میں روایات میں آتا ہے کہ عصر سے غروب شمس تک آپؑ جنت میں ٹہرے رہے،جو دنیوی حساب سے ۱۳۰ سال بنتے ہیں۔مثلا:

امام مسلم اورابوداؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:سب سے بہتر دن جمعہ کا ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا۔اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے،اسی دن جنت سے نیچے اتارے گئے، اسی دن ان کا وصال ہوا اور اسی دن اس کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہوگی[36]

یہی بات ابن عساکر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے [37]۔

امام احمدنے الزہدمیں حسن بصریؒ سے نقل کیا ہے کہ آدم ؑ جنت میں دن کا کچھ وقت ٹھہرے۔ وہ وقت دنیا کے ایک سو تیس (۱۳۰) سال کے برابر ہے[38]۔

زمین پرنزول کے بارے میں روایات میں یہ بات ہے کہ انہیں علٰیحدہ علٰیحدہ جگہوں پر اتار دیا گیا مثلا:

بیہقی نے البعث اور ابن عساکر نے ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہماسے نقل کیا ہے کہ آدم ؑ کو سب سے پہلے ہند کی زمین پر اتارا گیا اوراللہ تعالیٰ نے اس کے آب وہوا کو تروتازہ بنایا[39]۔

ابن سعد اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آدم ؑ کو ہند میں اور حواء کو جدہ میں اتارا گیا پھر وہ حوا کی تلاش میں نکلے حتی کہ مزدلفہ میں جمع ہوئے۔حواء مزدلفہ میں آدم ؑ کے قریب ہوئیں اسی لیے مزدلفہ کہلایا اور دونوں یہاں جمع ہوئے اس لیے اس کو جمعاء بھی کہا جا تا ہے[40]۔

تقابل:

قرآن اوربائبل دونوں اس بات پرمتفق ہیں کہ شجرممنوع کھانے سے آدمؑ اورحوا ءسے جنتی لباس لیاگیا اورآپ نےاپنی سترکوچھپانے کے لیے پتوں کااستعمال کیا۔ [41]۔ جب کہ بائبل میں ہے کہ شجرممنوع کھانے کے بعدجب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں توانہیں معلوم ہواکہ وہ ننگے ہیں، پس انہوں نے انجیرکے پتوں کوسی کراپنے لیے پیش بندبنالیے[42]۔

اب یہ بات کہ انہوں نے کس کے کہنے پر اس درخت کا پھل کھایا؟توقرآن میں ہے کہ ابلیس نے انہیں ورغلایا اور ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالاتھا۔جب کہ بائبل میں ابلیس کی جگہ سانپ کا تذکرہ ہے، کہ یہ بڑا چالاک تھا،اس نے اندر جاکر حواء سے بات کی، کہ اس درخت میں سے کھاوٗ، یہ زندگی کا درخت ہے۔اسے کھاکر تم ہمیشہ کے لئے جنت میں رہو گی اور تم میں خدائی صفت (نیک وبد کی پہچان)پیدا ہوگی۔حواء نے خود بھی اس میں سے کھایا اور اپنے شوہر آدمؑ کو بھی دیا[43]۔

قرآن اور بائبل دونوں میں یہ بات بھی اجمالی طور پر ذکر کی گئی ہے کہ شجرممنوع کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدمؑ اورحواء کو زمین پر اتار دیا۔کسی جگہ کا تعین نہیں کیا گیاہے۔البتہ تاریخی روایات میں مختلف جگہوں کے نام مذکور ہیں [44]۔

قبولیت دعا اورعصمت آدمؑ:

شجرممنوع کھانے کےبعدآدم و حواءسے جنتی کپڑے زائل کئے گئے۔انہوں نے اپنے آپ کوبرہنہ دیکھا تو بڑے پریشان ہوئے اور پتوں سے اپنی ستر کو چھپانے لگے۔اللہ تعالیٰ نے ان سےپوچھاکہ یہ تم سے کیا ہوگیا، میں نے تمھیں اس سے منع نہیں کیا تھا ،اور میں نے تمہیں کہا نہیں تھا، کہ یہ ابلیس تمہارادشمن ہے ،اس سے ہوشیار رہنا۔آدمؑ اور حواء اپنے کئے پر بڑے خفا اور پشیمان تھے۔ کہنے لگے : یا اللہ ہم سے زیادتی ہوئی ، ہم پر رحم فرما اور ہمیں معاف فرما۔جیسا کہ قرآن میں ہے۔

(وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلْ لَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُبِينٌ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ[45]

اللہ تعالیٰ نے آپؑ کا عذر قبول کرتے ہوئےفرمایاکہ تم نے بھول کی وجہ سے شجرممنوع سے کھایاہے ،لہٰذا یہ نافرمانی نہیں ۔ارشاد ہے

(ولقد عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا[46])۔ اللہ تعالیٰ کی استفسارپرانہوں نےاستغفارکے جوالفاظ کہے،یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں سکھائےتھے۔جن کی بنا پر آپ کا توبہ قبول ہوگیا۔جیسا کہ ارشاد ہے: (فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ[47])۔دوسری جگہ ارشاد ہے: (ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى[48])

آدمؑ پہلے انسان تھے۔آپ ایک مہذب ، عاقل شخص اورنبی تھے۔ آپ ؑ کی نبوت صحیح روایات سے ثابت ہے۔مثلا:

بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے آدم ؑ کے نبی ہونے کا پوچھا توآپﷺنے فرمایا! ہاں۔ آپؑ سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمائی تھی۔ پوچھا آدم ؑ اور نوح کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ فرمایا! دس صدیاں ۔پھر پوچھا ان میں سے رسل کتنے تھے؟ فرمایا تین سو پندرہ کا جم غفیر[49]۔

تمام انبیاء کرام کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ نبوت سے پہلے اوربعد دونوں حالتوں میں گناہ سے معصوم ہوتے ہیں۔ان سے گناہ کا ارتکاب نہیں ہوتا۔خلاف اولیٰ کا ارتکاب اگر ہوجائے تو اس پر بھی تنبیہ کی جاتی ہے۔امام ابوحنیفہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

والأنبياء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام كلهم منزهون عَن الصَّغَائِر والكبائر وَالْكفْر والقبائح وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطايا۔ انبیاء کرام سب کے سب گناہ کبیرہ، صغیرہ،کفر اور بیہودہ کاموں سے پاک ہوتے ہیں،کبھی کبھار ان سے لغزش اور خطا کاارتکاب ہوتا ہے[50]۔

امام بخاری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ آدم ؑ اور موسیٰ کا باہم مناظرہ ہواتو آدم ؑ موسیٰ پر غالب آگئے۔ موسیٰ نے کہا! تو آدم ہی ہے جس نے لوگوں کو ورغلا کر جنت سے نکالا۔ آدم ؑ نے کہا! تو ہی موسیٰ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت دے کر اپنی رسالت کے لیے منتخب کیا۔موسیٰ نے کہا! ہاں۔آدم ؑ نے کہاتو مجھے ایک ایسے امر پر ملامت کرتا ہے جو میری تخلیق سے پہلے مقدر ہو چکا تھا[51]۔

بات یہ ہے کہ آدمؑ سے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں ہواتھا کیونکہ آپؑ کوجو حکم دیاگیاتھا وہ نصیحت اور اعلام وخبرداری کے طورپرتھا، کیونکہ حیثیت کے حوالے سےحکم کے کئی اقسام ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک بھائی دوسرے بھائی ،یا ایک دوست دوسرے دوست سے نصیحتاکہتاہے کہ یہ کرو کامیاب ہوجاوٗگے،یہ نہ کرو نقصان اٹھا و گے۔یعنی آدمؑ کوآگاہ کیاگیاکہ جنت میں آزادی کے ساتھ کھاو پیو اور گھومو پھرو،یہاں پر آپ کو بھوک وپیاس اور بےپردگی کااحساس نہیں ہوگا،اور ابلیس کی دشمنی اور مکروفریب سے بھی آپ کو آگاہ کیاگیا۔اسی طرح آپؑ کونصیحت کی گئی کہ اس درخت میں سے نہ کھائیں ،یہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے۔

یہ حکم تکلیفی نہیں تھا،کیونکہ جنت میں آپؑ مکلف ہی نہیں تھے۔ اس کی مثالیں عربی زبان میں بہت زیادہ ہیں ،مثلا؛اللہ تعالیٰ ابلیس اورکافروں سے کہتاہے؛ {واستفزز من اسْتَطَعْت مِنْهُم بصوتك وأجلب عَلَيْهِم بخيلك ورجلك وشاركهم فِي الْأَمْوَال وَالْأَوْلَاد وعدهم} اور {اعْمَلُوا مَا شِئْتُم} یہ وعید اور تہدید کے احکامات ہیں،تکلیفی نہیں ہیں۔کیونکہ اگر یہ تکلیفی ہوتے تو پھر ابلیس اور کافر ان پر عمل کرنے میں نیک اور فرمان بردار شمارہوتے،حالانکہ ان پرعمل کرنے کی صورت میں تو وہ گناہگار شمار ہوتے ہیں۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ آخرت تو دار تکلیف نہیں ہے،وہاں کے اوامر اور نواہی تو ایسے ہوتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ موٗمنوں کوبشارۃ حکم دیتے ہیں ؛ ادخُلُوا الْجنَّة أَنْتُم وأزواجكم تحبرون} یا {ادخلوها بِسَلام آمِنين} اور کافروں کوسختی کے لئے حکم دیتے ہیں؛ فادخلوا أَبْوَاب جَهَنَّم خَالِدين فِيهَا فبئس مثوى المتكبرين اورحقارت اورشرمندگی کے طور پر حکم دیتے ہیں؛ {اخسؤوا فِيهَا وَلَا تكَلمُون}، خلاصہ کلام یہ ہے کہ آدمؑ کی نہی منع کرنے اور کراہت کے طور پر نہیں تھی،بلکہ نصیحت اورآگاہی کے طور پر تھی۔

اب یہ بات کہ آپؑ کے بارے میں یہ جو عصیٰ، غوٰیٰ اور ظلم نفسه کے الفاظ آئے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوگا کہ جب جنت میں آپؑ کی تکلیف ثابت نہیں،تو پھر ان الفاظ سےلغوی معنیٰ مراد لیا جائے گا، اصطلاحی نہیں۔تو معصیۃ کی لفظی معنی عدم الِامْتِثَال یعنی اس حکم پر عمل نہ کرنا ہے، یہ عمل نہ کرنا ارادۃ ہو یا غیر ارادی طورپر۔ اور ظلم النفس کا معنیٰ ہے غبنها وبخسها فِي مَنَافِعهَا،لكَونه وضع الْفِعْل فِي غير مَوْضِعه ۔یعنی اس نے اپنے منافع میں کمی اور کوتاہی کی،کیونکہ اس نے نامناسب جگہ پرکام کیا۔ اسی طرح غوٰیٰ کا معنی ہے أَدخل على نَفسه الضَّرَر،یعنی اس نے اپنے اوپر ضرر اورنقصان لے آیا۔جیسا کہ کہاجاتاہے؛ غوى الفصيل إِذا رضع فَوق حَده من اللَّبن فبشم ،یعنی فصیل نے اپنے اوپر زیادتی کی، جب وہ حدسے زیادہ دودہ پی کر بیمار ہوجاتا ہے۔ تو آدمؑ کے بارے میں ان الفاظ سےیہی لفظی معنی مراد ہوں گے ،کہ اس نے غیرارادی طور پر حکم عدولی کی، اور اس نے شجرممنوع میں سے کھاکر اپنے فائدے میں کوتاہی کی،اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالا۔

اسی طرح ان آیات {فأزلهما الشَّيْطَان عَنْهَا فأخرجهما}، {فدلاهما بغرور} سے شیطان کا قصد اور اس کا آدمؑ کو وسوسہ دینا مراد ہوگا، نہ کہ آدم کا ابلیس سے وسوسہ اور اس کی بات کو قبول کرنا۔کیونکہ شیطان کبھی انبیاء کرام کو وسوسہ دیتا ہے،مگر وہ اس سے قبول نہیں کرتے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے کہاکہ جب آپ کو شیطان کوئی وسوسہ دیتا ہے تو مجھ ہی سے پناہ مانگو، جیساکہ ارشاد ہے؛{وَإِمَّا يَنْزغَنك من الشَّيْطَان نَزغ فاستعذ بِاللَّه} اور {وَقل رب أعوذ بك من همزات الشَّيَاطِين وَأَعُوذ بك رب أَن يحْضرُون}۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب تکلیف ثابت نہیں ،تو پھر وجوب ونہی اور نیکی وبدی کا بھی کوئی تصور نہیں ،جس پر کوئی شرعی مدح و ذم یا سزا وجزا مرتب ہوجائے۔

اس قصے میں بہتر قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کوتکلیف کے طور پر نہیں بلکہ آگاہی اور نصیحت کے طورپر منع کیاتھا۔پھر شیطان نے آپؑ کو حسداورمکروفریب سے وسوسہ دیا،جسے آپ ؑنے قبول نہیں کیا۔پھر اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے اپنے حکم اورشیطان کے وسوسےکو بھلادیا۔پس آپؑ نےنصیحت اوروسوسہ سے غفلت کی بناء پراس درخت میں سے کھایا۔پس جب بھول تھی،تو بھول میں نبی اور غیر نبی میں کوئی فرق نہیں ،اس میں سب برابر ہوتے ہیں۔اور تمام ائمہ کے ہاں یہ بات اتفاقی ہے کہ بھول جانے والے پرشرعا کوئی مواخذہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قول {وَلَقَد عهدنا إِلَى آدم من قبل فنسي وَلم نجد لَهُ عزما}اس بات کی دلیل ہے کہ آپؑ بھول گئے تھے۔یعنی ہم نے درخت کے معاملہ میں آپؑ کو ایک حکم دیا،پس آپ بھول گئے اور اس درخت میں سے غیرارادی طور پر کھایا،اور اسی طرح اس نہی اورنصیحت کو قصدا نہیں چھوڑا۔

پس یہ بات نکل آئی کہ آدمؑ نے بھول کی وجہ سے اس درخت میں سے کھایا،اور اس نصیحت کو بھلانے پر آپؑ کو ملامت کیاگیا۔اگر آپؑ احتیاط کرتے تو اس نصیحت کو نہ بھول جاتے۔ [52]

ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ آدمؑ سے کوئی گناہ ہوا ہی نہیں تھا۔بلکہ آپؑ ایک پیغمبر اور گناہ سے پاک تھے۔اس سے نصاری کے عقیدہ کفارہ پر رد ہوگیا۔جس کی رو سے آدمؑ کے گناہ کی وجہ سے اس کی تمام اولاد (انسان) گناہگار پیدا ہوتی ہے۔عیسیؑ کی مصلوبیت پچھلے تمام انسانوں کی اس فطری گناہ کے لئے کفارہ ہوگیا ، اور آئندہ لوگوں میں سے جو عیسیٰؑ پر ایمان لائے گا تو اس کے لئے بھی کفارہ ہوگا۔

تقابل:

جنت سے نکال کر زمین پر اتارنا اور آپؑ کو استغفار کے کلمات دینے کی ساری تفصیل قرآن میں مذکور ہے،جب کہ بائبل میں آدم علیہ السلام کی قبولیت دعا کا تذکرہ نہیں ہے۔

اسی طرح قرآن میں یہ بھی صریح فرمایاگیا ہے کہ یہ آدم علیہ السلام کی بھول تھی ،نہ کہ نافرمانی اورہم نے اس کی طرف سے گناہ کرنے کاکوئی عزم نہیں دیکھاتھا۔ جب کہ بائبل میں آدم علیہ السلام کی بھول کوگناہ کہاگیاہے اورپھرآپؑ کی عصمت بھی بیان نہیں کی گئی ہے۔بلکہ وہاں پر ہے کہ سانپ حواء اور آدم تینوں کی خوب مذمت بیان کی گئی ہے [53]۔

رہائش:

آدمؑ کی رہائش کے بارے میں مورخین نے مختلف قسم کی روایات نقل کی ہیں۔کہتے ہیں کہ آپؑ کو ہند کی زمین پر اتارا گیا۔یہاں تنہائی کی زندگی گزارتے رہے اور حج کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ جاتے۔اسی طرح ایک دفعہ حج کے لئے گئے تھے کہ مزدلفہ کے مقام پراپنی بیوی حواء سے ملاقات ہوئی،اسے پہچان لیا اوراپنے ساتھ ہند لےآیا۔

تقابل:

قرآن اور بائبل دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ آٓدم وحواء جنت سے نکالنے کے بعد زمین پر اتار لئے گئے،مگر آگے کوئی تفصیل نہیں کہ کہاں ان کا نزول ہوا اور آگے کی زندگی انہوں نے کہاں پر گزاری۔اگر چہ تاریخی روایات سے پتہ چلتاہے کہ آدمؑ کو ہند اور حواء کو جدہ میں اتار دیاگیا اور کچھ عرصہ بعد دونوں مزدلفہ کے مقام پر مل گئے اور بقیہ زندگی آپ نے ہند میں گزاری۔

اختلاف قابیل وہابیل:

آدمؑ کی ابتدائی اولادمیں شیث ؑ کے علاوہ قابیل اور ہابیل کے نام مشہور ہیں۔ان دونوں کا آپس میں ایک لڑکی سے نکاح کے بارے میں اختلاف پیداہوگیا،جو بعد میں شدت اختیار کرکے ہابیل کے قتل پر منتج ہوا۔قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کے ان دونوں صاحبزادوں کانام ذکرنہیں کیا،صرف ابنی(آدم کے دوبیٹے)کہہ کرمجمل چھوڑدیاہے اورپھر ان کے قصے کی طرف اشارہ کیاگیاہے [54]۔

امام احمدبن حنبلؒ نے اپنی مسند میں ا بن مسعودؓسے آپﷺ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ قیامت تک جتنے بے گناہ قتل ہوتے ہیں ان کا کچھ گناہ قابیل کے ذمہ ہوگا[55]

تقابل:

قرآن عزیزنے حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں صاحبزادوں کانام ذکرنہیں کیاصرف ابنی(آدم کے دوبیٹے)پر اکتفاء کیا۔جب کہ باقی پوری تفصیل احادیث صحیحہ کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے ۔جیساکہ مشہورہے کہ قابیل اور ہابیل دونوں کاآپس میں حسدواختلاف لڑکی اورقربانی کی قبولیت پرپیدا ہوگیا تھا۔ جب کہ بائبل میں آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کا بھی ذکرہے کہ ایک کانام قائن تھاجوزمیندارتھااوردوسرےکاہابل تھاجوکھیتی کرتاتھا۔کچھ زمانہ بعد دونوں نے دربارالہٰی میں قربانی پیش کی جس میں ہابل کی قبول اورقائن کی قبول نہ ہوئی۔اس وجہ سے قائن کاہابل کے ساتھ حسدپیداہوگیااوروہ اسے کھیتی میں لےجاکرقتل کرڈالا[56]۔

قرآن میں ہابیل کے قتل کرنے کے بعددفنانے ،کوے کاسبق دلانے اورقابیل کے عاجزہونے کاواقعہ تفصیلاًمذکورہے ۔جب کہ بائبل میں صرف قتل کابحث پایاجاتاہے اورہابل کے قاتل کوسات گنا بدلہ دینے کاقول بھی موجودہے[57]۔

وفات:

ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چھکنا ہوتا ہے،آدم علیہ السلام کوبھی آخر کارموت کاذائقہ چھکنا پڑا۔اسی طرح جب آپ ؑکی عمر نو سو ساٹھ سال ہوئی تو فرشتے آئے۔آپؑ نے پوچھا کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا! تمہاری روح قبض کرنا چاہتے ہیں۔آدم ؑنے کہا میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں ۔فرشتوں نے کہا!چالیس سال تو آپ نے اپنے بیٹے داوود ؑ کو دئیے تھے؟ آدم ؑنے کہا میں نے تو کسی کو کچھ نہیں دیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا!آدم ؑاور آپ کی اولاد نے انکار کیا ،وہ اور اس کی اولاد دونوں بھول گئے[58]۔

تقابل:

قرآن میں جس طرح آدم علیہ السلام کی دیگرواقعات تفصیل سے مذکورہیں،اسی طرح موت کا واقعہ مذکورنہیں،اگرچہ تاریخی روایات میں کافی تفصیلات موجودہیں۔ جب کہ اس کےبرعکس بائبل میں آدم علیہ السلام کی موت کی خبرکچھ تفصیلی انداز میں ذکر کی گئی ہے،کہ جب آدم ایک سوتیس برس کےہوئےتب آپ کے ہاں آپ کی مانندایک بیٹاپیداہوا۔آپؑ نے اس کانام سیت رکھا۔سیت کی پیدائش کے بعدآدم آٹھ سو برس جیتے رہے اورآپ کے ہاں اوربیٹے اوربیٹیاں پیداہوئیں۔آپؑ پورے نوسوتیس برس تک زندہ رہےاورپھرمرگئے[59]۔

نتائج:

۱۔آدمؑ پہلے انسان تھے۔آپ کی تخلیق کسی ارتقائی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ مٹی سے براہِ راست کی گئی تھی۔

۲۔آپؑ ایک مکمل اور مہذب انسان تھے۔لہٰذا ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی کوئی حقیقت نہ رہی۔

۳۔آدمؑ پہلے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے پیغمبر بھی تھے۔

۴ ۔انبیاء کرام گناہ سے پاک ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقیدہ کفارہ بے اصل ہوگیا۔

۵ ۔قرآن میں آدمؑ کے بارے میں جو عصٰی، غوٰی اور ظلم نفسہ وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں ، وہ لغوی معنیٰ پر محمول ہیں۔

۶ ۔آدمؑ جنت سے نکالنے کے بعد ہند کی زمین پر اتارے گئے۔ ۹۳۰ برس زندگی گزارنے کےبعد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

حوالہ جات

  1. سورۃ البقرۃ۲: ۳۰
  2. أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله )405ھ ، المستدرك على الصحيحين،کتاب التفسیر،باب من سورہ بقرہ،رقم ۳۰۳۵ ، دار الكتب العلمية , بيروت ،الطبعة: الأولى، 1411ھ / 1990ء
  3. أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبري (المتوفى: 310ھـ)، جامع البيان في تأويل القرآن)تفسیر الطبری(،سور ہ بقرہ،آیت ۳۰،رقم۶۰۲، مؤسسة الرسالة ، بیروت ،الطبعة الأولى، 1420 ه/ 2000 ء۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد ابن أبي حاتم (المتوفى: 327ھ) ،تفسير القرآن العظيم (تفسیر ابن ابی حاتم)،سور ہ بقرہ،آیت ۳۰،رقم۳۲۰ ، مكتبة نزار مصطفى الباز - المملكة العربية السعودية، الطبعة: الثالثة ،1419 ھ۔أبو محمد عبد الله بن محمد المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369ھ) ، العظمۃ، کتاب،جز ۴،باب صفۃ ابتداء الخلق،جز۴، ص۱۳۶۵ ، دار العاصمة – الرياض ،الطبعة: الأولى، 1408ھ۔
  4. سورۃ البقرۃ۲: ۳۰
  5. سورۃ آل عمران۳: ۵۹
  6. سورۃ الاعراف ۷: ۱۲
  7. أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع المعروف بابن سعد (المتوفى: 230ھ ، الطبقات الكبرى(طبقات ابن سعد)،باب ذکر من ولد رسول اللہ،ج۱،ص۲۶ ، دار صادر – بيروت ، الطبعة: الأولى، 1968ء۔ مسند احمد،کتاب اول مسند الکوفیین،باب حدیث ابی موسیٰ الاشعری،رقم ۱۹۵۹۷۔ أبو داود سليمان بن الأشعث السَجِسْتاني (المتوفى: 275ھـسنن ابی داؤد،کتاب السنۃ،باب فی القدر،رقم ۴۶۹۵، المكتبة العصرية، صيدا – بيروت،(س۔ن)۔ محمد بن عيسى بن سَوْرة الترمذي(المتوفى: 279ھـ) ،سنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن،باب سورہ بقرہ،رقم ۲۹۵۵ ، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة: الثانية، 1395 ھ/ 1975ء۔ تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت۳۱،رقم۶۴۵۔ العظمۃ لابی الشیخ،جز ۵،باب قدر الارض فجاء منھم الاحمر والابیض،ج۵،ص۱۵۴۴ ۔مستدرک،کتاب التفسیر،باب من سورہ بقرہ،رقم ۹۰۳۷۔ أحمد بن الحسين أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458ھ، الاسماء والصفات،للبیہقی،جز۲،باب ماجاء فی اثبات الوجہ،رقم ۷۱۵ ، مكتبة السوادي، جدة - المملكة العربية السعودية ، الطبعة: الأولى، 1413ھ/1993ء ۔ یہ صحیح روایت ہے۔صحیح وضعیف سنن ابی داؤد،ج۱۰،ص۱۹۳،رقم ۴۶۹۳
  8. تفسیر الطبری ، سورہ بقرہ،آیت ۳۱،رقم ۶۴۴۔ أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (571ھ) ،تاریخ دمشق ، حرف الالف، باب آدم نبی اللہ یکنیٰ ابا محمد ، رقم ۵۷۸ ، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع بیروت ، 1415 ھ/ 1995ء ۔طبقات ابن سعد،باب ذکر من ولد رسول اللہ،ج۱،ص۲۶۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۱، رقم۳۷۱۔مستدرک،کتاب التفسیر،باب سورۃ طہ،رقم ۳۴۳۶۔ الاسماء والصفات، بیقہی، کتاب بدء الخلق،باب ان اللہ عز وجل خلق آدم یوم الجمعۃ،رقم ۷۸۶۔
  9. سورۃ الحجر۱۵: ۲۸
  10. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۲،آیت ۷،مطبعہ وسن طباعت نامعلوم۔
  11. أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير(المتوفى: 774ھ)،قصص الانبیاء:۲۷-۲۸ ، مطبعة دار التأليف – القاهرة ، الطبعة: الأولى، 1388 ھ/ 1968ء۔
  12. سورۃ البقرۃ ۲: ۳۱-۳۳
  13. بائبل عہدنامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب ؛ ۲ ، آیات ۱۹ ، ۲۰
  14. سورۃ الأعراف ۷: ۱۱-۱۲
  15. سورۃ البقرۃ ۲ : ۳۴
  16. سورۃ الاسراء۱۷: ۶۱-۶۲
  17. أبو بكر عبد الله بن محمد المعروف بابن أبي الدنيا (المتوفى: 281ھ) ،مکائد الشیطان ،باب ھل کان ابلیس من اشراف الملائکہ،رقم ۷۲ ،مطبعہ وسن اشاعت نامعلوم۔ تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت ۳۴،رقم۶۸۶۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۴،رقم۳۶۲۔أحمد بن الحسين بو بكر البيهقي (المتوفى: 458ھ،شعب الایمان،کتاب الایمان بالملائکہ،باب فی معرفۃ الملائکہ،رقم ۱۴۶ ، مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض، الطبعة: الأولى، 1423 ھ/2003 ء۔
  18. سورۃ النساء ۴: ۱
  19. سورۃ الروم ۳۰: ۲۱
  20. محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري ، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه (صحیح البخاری)،کتاب احادیث الانبیاء،باب خلق آدم صلوٰة عليه وذريته،حدیث(۳۳۳۱)،دار طوق النجاة، بیروت ۱۴۲۲ھ/۲۰۰۱ء۔ مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري (المتوفى: 261 ، المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم(صحیح مسلم)،کتاب الرضاع،باب الوصیۃ بالنساء،رقم ۳۷۲۰ ، دار إحياء التراث العربي ،بيروت۔
  21. طبقات ابن سعد،باب ذکر حواء،ج۱،ص۳۹۔تاریخ دمشق،کتاب من النساء،باب حواء ام البشر،رقم ۹۳۲۸،۶۹ ۱۰۲۔تفسیرالطبری،سورہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۷۱۰۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۳۷۳۔ الاسماء والصفات،بیہقی، جز۲،باب ماذکر فی الساق،رقم ۸۲۰۔
  22. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۲،آیات ۲۱ و ۲۲
  23. بائبل ،عہدنامہ قدیم،کتاب پیدائش،باب ۲ ،آیات ۹ ، ۱۶ و ۱۷
  24. سورۃ البقرۃ ۲: ۳۵
  25. سورۃ الاعراف ۷: ۱۹
  26. أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني (المتوفى: 241ھ ،الزھد ،کتاب زھد لقما،باب ایضا،۵ ص ۔ ۴۸ ، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الأولى، 1420ھ/ 1999ء۔ تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۷۱۸۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۳۷۸ ۔العظمۃ لابی الشیخ،جز۵،باب فقال لہ جبریل مایبکیک،ج۔۵،ص۱۵۸۳۔ تاریخ دمشق،حرف الالف،باب آدم نبی اللہ،رقم ۵۷۸،ج۷،ص۴۰۳۔
  27. طبقات ابن سعد،باب ذکر من ولد رسول اللہ ، ص ۳۴۔ تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵، رقم۷۳۰۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۳۷۷۔
  28. بائبل عہدنام قدیم، کتاب پیدائش، ۲ : ۹ اور ۳ : ۳
  29. سورۃ طہٰ ۲۰: ۱۱۷-۱۱۹
  30. سورۃ الأعراف ۷: ۲۰-۲۱
  31. سورۃ طہٰ ۲۰: ۱۲۰-۱۲۲
  32. سورۃ البقرۃ۲: ۳۶
  33. سورۃالأعراف۷: ۲۴-۲۵
  34. سورۃالأعراف۷: ۲۴
  35. سورۃ البقرۃ۲: ۳۸
  36. صحیح مسلم،کتاب الجمعہ،باب فضل یوم الجمعۃ،رقم ۲۰۱۴۔ سنن ابی داؤد،کتاب الصلوٰۃ ،باب فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ،رقم ۱۰۴۸۔
  37. أبو بكر عبد الرزاق بن همام الصنعاني (المتوفى: 211ھ ، تفسیر عبدالرزاق،سور ہ بقرہ،آیت ۳۵،رقم۳۸ ، دار الكتب العلمية – بيروت ، الطبعة: الأولى، 1419ھ۔ مستدرک،کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیا ولامرسلین،باب ذکر آدم ؑ ،رقم۳۹۹۳۔ الاسماء والصفات للبیہقی،جز۲،باب ماذکر فی الساق،رقم ۸۱۷۔ تاریخ دمشق لابن عساکر،حرف الالف،باب آدم نبی اللہ ،رقم ۵۷۸،ج۷،ص۳۸۷۔
  38. الزھد لامام احمد،کتاب زھد آدم،باب ایضا،ج۱،ص۴۷۔
  39. تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت ۱۲۷،رقم۲۰۴۲۔تفسیر ابن ابی حاتم،سور ہ بقرہ،آیت ۳۶،رقم۳۹۳۔مستدرک،کتاب تاریخ المتقدمین،باب ذکر اٰدمؑ ،رقم۳۹۹۴۔ أحمد بن الحسين أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458ھ ، البعث والنشور للبیہقی،کتاب قول اللہ تعالیٰ یاٰدم اسکن،باب اطیب ریح الارض الھند،رقم ۱۶۹ ، مركز الخدمات والأبحاث الثقافية، بيروت، الطبعةالأولى،1406ھ/ 1986ء۔ تاریخ دمشق،حرف الالف،باب اٰدم نبی اللہ ،۵۷۸،ج۷،ص۴۳۸
  40. طبقات ابن سعد،باب ذکر حواء،ج۱،ص۳۹۔ تاریخ دمشق،کتاب من النساء،باب حوا ام البشر،
  41. سورۃ طہٰ ۲۰ : ۱۲۱
  42. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۳ ، آیت ۷ ۔
  43. بائبل عہدنامہ قدیم،کتاب پیدائش،باب ۳ ، آیات ۱ تا ۷
  44. بائبل عہدنامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب ۳ ، آیت ۲۳
  45. سورۃ الأعراف۷: ۲۳
  46. سورۃ طہٰ۲۰: ۱۱۵
  47. سورۃ البقرۃ۲: ۳۷
  48. سورۃ طہٰ۲۰: ۱۲۲
  49. مسند احمد،کتاب مسند الانصار،باب حدیث ابی امامہ الباہلی،رقم ۲۲۳۴۲ ۔ محمد بن حبان(المتوفى: 354ھ صحیح ابن حبان،کتاب التاریخ،باب بدء الخلق،رقم ۶۱۹۰ ، مؤسسة الرسالة – بيروت ، الطبعة: الثانية، 1414ھ/ 1993ء۔مستدرک،کتاب التفسیر،باب من سورۃ البقرہ،۳۰۳۹۔ الاسماء والصفات للبیہقی،جز اول،باب ماجاء فی صفۃ القول، رقم ۴۴۰۔ تفسیر ابن ابی حاتم،سورہ فرقان،آیت ۳۸،رقم ۱۵۹۶۹ المعجم الکبیر،حرف الصاد،باب صدی بن عجلان،رقم ۷۵۴۵۔یہ صحیح روایت ہے۔السلسلۃ الصحیحہ،۹ ص ۔ ۶۹رقم ۳۲۸۹۔
  50. امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، الفقہ الاکبر، ۱: ۳۷ ، مكتبة الفرقان الإمارات العربية، الطبعة: الأولى،1419ھ/ 1999
  51. صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیاء،باب وفاۃ موسیٰ ،رقم ۳۲۲۸۔ صحیح مسلم،کتاب القدر،باب حجاج اٰدم وموسیٰ،رقم ۶۹۱۸ ۔سنن ترمذی،کتاب القدر،باب حجاج اٰدم و،وموسیٰ،رقم ۲۱۳۴۔سنن نسائی،کتاب التفسیر،باب سورہ اعراف،رقم ۱۱۱۸۶ ۔مسند احمد ،کتاب مسند المکثرین،باب مسند ابی ہریرہ،رقم ۲۷۳۷۵۔ الاسماء والصفات،للبیہقی،جز اول،باب ماجاء فی اثبات صفۃ الرسول،رقم ۴۱۵۔سنن ابی داؤد ،کتاب السنہ،باب فی القدر،رقم ۴۷۰۳۔سنن ابن ماجہ،کتاب افتتاح الکتاب فی الایمان،باب فی القدر،رقم ۸۰۔ تفسیر ابن ابی حاتم،سورہ طہ،آیت ۱۲۶،رقم ۱۴۴۱۸۔الآجری،محمد بن الحسین،الشریعہ،باب الایمان بان اللہ تعالیٰ قدر علیٰ آدم،ج۱،ص۱۷۲،مطبع انصار السنۃ ،قاہرہ، ۱۹۵۰ء۔
  52. ابن خمير علي بن أحمد السبتي ، تنزيه الأنبياء عما نسب إليهم حثالة الأغبياء ۱ :۶۶- ۷۷ ،دار الفكر المعاصر،لبنان،1411 ھ۔
  53. بائبل عہدنامہ قدیم، کتاب پیدائش، باب۳ ، آیات ۱۲ تا ۱۹
  54. سورۃ المائدۃ۵: ۲۷ ۔۳۱۔ا بن کثیر،ابوالفداء اسماعیل بن عمر،البدایہ والنہایہ۱: ۹۳، دار إحياء التراث العربي، بیروت ، 1408ھ/ 1988ء۔
  55. مسنداحمد،مسندالمکثرين من الصحابة،مسندعبداللہ بن مسعودؓ۶ : ۱۳۶، رقم۳۶۳۰ ۔
  56. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۳، ۸-۱۰
  57. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۳، ۱۶
  58. تفسیر الطبری،سور ہ بقرہ،آیت ۳۱،رقم۶۴۴۔الاسماءوالصفات للبیہقی،جز ۲،باب ما ذکر فی الساق،رقم ۷۷۳۔ تاریخ دمشق لابن عساکر،حرف الالف،باب آدم نبی اللہ یکنی ابا محمد،رقم ۵۷۸۔
  59. بائبل،عہدنامہ عتیق،کتاب پیدائش،باب۵،۳-
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...