Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 2 of Al-Idah

خاندانی نظام کے استحکام میں رزق حلال کا کردار |
Al-Idah
Al-Idah

تمہید:

انسان کا اس دنیا میں زندہ رہنے کا دارومدار اس کی اپنی بنیادی ضرورتوں اور خواہشات کی تکمیل سے ہی ممکن ہے۔ اس غرض کی تکمیل کے لئے اسلام میں حلال رزق کمانے کی تاکید فرمائی گئی ہے جس پر قرآن و حدیث دونوں دال ہیں۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو جائز طریقہ سے معاشی خوشحالی حاصل کرنے پر ابھارتا ہے۔اور ناجائز ذرائع اور طریقوں سے حصول رزق کو حرام اور ناجائز قرار دیتا ہے ۔ رزقِ حلال کھانے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے جبکہ رزقِ حرام کھانے سے نیکی کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔ غذا جیسے انسانی جسم اور صحت پر اثر انداز ہوتی ہے ویسے ہی روج پر بھی اثر چھوڑتی ہے ، حلال خوری انسان کے اندر ایک روحانی قوت پیدا کرتی ہے، جو انسان کے دل و دماغ کو راہِ راست پر رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حلال کھانے والوں میں رشتوں کی اہمیت، خیر خواہی اور قدر زیادہ ہوتی ہے، جو درحقیقت ایک خاندان اور پھر مجموعی طور پر ایک معاشرے کو مضبوط کرنے کا باعث بنتی ہے۔اس مقالہ میں رزقِ حلال کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور خاندانی نظام کے استحکام پر اس کے اثرات وکردا ر کو بیان کیا جائے گا۔

تعارف:

اسلامی تعلیمات کے مطابق خالقِ کائنات نے سب بنیادی ضرورتیں ،سہولتیں، آسائشیں اور زیبائش کی چیزیں اس دھرتی میں پیدا کر رکھی ہیں۔جس کے حصول کے لئے انسان دن رات تگ ودو کرتا ہے ، سہولت اور آسائش پسند ی بھی انسانی مزاج کا حصہ ہے ،جس کے لیے وہ ہمیشہ بہتر کی تلاش میں رہتا ہے ۔چونکہ انسان فطرتا ً جذباتی اور جلد بازثابت ہوا ہے اس لئے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر وہ کچھ بھی کر گزرتا ہے ۔اس لئے اسلام نے حدود کی قیود لگا دی ہیں ، تاکہ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل اسلام کے دائرے میں کرسکے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون سے تجاوز نہ کرے۔ اسی طرح رزقِ حلال کمانے پر بھی اسلام نے بہت زور دیاہے ، کیونکہ زرقِ حلال کی بہت اہمیت ہے ۔ اس کا خاندانی نظام پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ خاندان سے کنبہ اور کنبہ سے قبیلہ اور قبیلہ سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ حلال کمانے والوں میں رشتوں کی اہمیت کا تقدس ، پاسداری اور عزت و احترام کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور یوں ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ کی تکمیل ممکن ہوجاتی ہے۔

رزقِ حلال کی اہمیت قرآن ا وراحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

قرآن میں رزقِ حلال کی بہت اہمیت بیان ہوئی ہے جیساکہ ارشادِ ربانی ہے کہ

” وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ“۔[1]

ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے گھوڑے،خچر اورگدھے تمہاری سواری کے لیے بنائے ہیں، اور زیب وزینت کی چیزیں بھی، اور ایسی چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنی ذاتِ پاک کے بارے میں سورۃ الرعد میں انسان سےفرماتا ہےکہ

” وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآَيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون“ [2]

ترجمہ: اور وہی (الله) ہے جس نے زمین کو بچھایا اور اس میں پہاڑ پیداکیے اور نہریں جاری کیں اور ہر طرح کے پھل دو دو قسم کے پیدا کیئے ۔

اللہ سبحانہ و تقدس نے انسان کی خاطر رزق کا بندوبست کیا ہےجیسا کہ فرمان ربانی ہے: ”رِّزْقًا لِّلْعِبَادِۙ“[3] ترجمہ: ’’بندوں کی روزی کے لئے‟۔

انسان کے لئے وسائل ِرزق اس زمین پر موجود ہیں قرآنی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے كہ ہر شخص خود جدوجہد کر کے ان وسائل تک رسائی حاصل کرے پھر ان سے اپنی ضروریاتِ زندگی اور جائز خواہشات پوری کرے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ ”فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ“[4]. ترجمہ: ’’ادائیگی نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جاؤ اور اﷲ کا فضل یعنی رزق تلاش کرو ‘‘۔ مزید فرماتے ہیں کہ

’’اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ“۔[5]

ترجمہ: ’’ اﷲ کے سوا جن کو تم پوجتے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں ،اس لیے اﷲ سے ہی (اس کے حکم مطابق) رزق تلاش کرو۔‘‘

”وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِۙ “۔[6]

ترجمہ: ’’ اور کتنے دوسرے لوگ(بھی قابل تعریف ہیں) جو اﷲ کے فضل یعنی رزق تلاش کرنے کیے لیے زمین میں سفر کرتے ہیں‟۔

اللہ تبارک وتعالیٰ چاہتا ہے کہ اللہ کے بندے اول فریضہء عبادت کی ادائیگی کریں اور پھراس کے بعد رزقِ حلال کے حصول کے لئے جدوجہد کریں اور اللہ ایسے بندو ں کو پسند فرماتا ہے جو رزق کے حصول کے لئے زمین میں جدوجہد کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر انہیں سفر بھی کرنا پڑے تو اعراض نہیں کرتے۔

نبی اکرمؐ نے رزقِ حلال کمانے کا درس دیا ہے اور محنت سے کمائے ہوئے رزق کو پسند فرمایا ہے۔آپ ؑ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ ”طلب کسب الحلال فريضة بعد الفريضة“۔[7] ترجمہ: فرض عبادت کے بعد طلب حلال رزق اہم فریضہ ہے۔

ایک روایت میں ہے: ’’وَابْتَغِ عَلَى نَفْسِكَ وَعِيَالِكَ حَلالا، فَإِنَّ ذَلِكَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ‘‘[8] ترجمہ: اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو یہ بھی جہاد فی سبیل اﷲہے۔

ایک اور روایت ہے کہ’’ مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ‘‘.[9]

ترجمہ: اپنے ہاتھ سے كسب كی گئی کمائی سے بہتر كوئی رزق نہیں ، اورحضرت داؤد علیہ السلام بھی کما کر کھاتے تھے

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓانبیاء کرام کی معیشت یوں بیان کرتے ہیں: ’’حضرت داؤ د علیہ السلام زرہیں بنایا کرتے تھے، حضرت آدم ؑزراعت کرتے تھے ، حضرت نوح ؑبڑھئی تھے، حضرت ادریس ؑدرزی ، جبکہ حضرت موسیٰ ؑبکریاں چراتے تھے ‘‘[10] رزقِ حلال کی اہمیت پر یہ روایت بھی دال ہے کہ:”انبیاء سب بکریاں چراتے تھے۔صحابہ کرام نے پوچھا : اے اﷲ کے رسول ! کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا :ہاں میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ۔حدیث کے راوی سوید کہتے ہیں :آپ ؑ ہر بکری ایک قیراط (۸۔۱ رتی سونا)کے عوض چراتے تھے‟۔[11]

اﷲ تعالیٰ کے آخری پیغمبر بھی محنت اور مزدوری کرتے تھے یعنی اجرت پر بکریاں چراتے تھے جو اسلام میں رزق حلال کی اہمیت اور عظمت پر دال ہے۔ یہ آپ ؑ کی سیرت کا ایک حصہ ہے اور آپ ؑ کے اس عمل میں امت کے لیے درس ہے کہ محنت میں عظمت ہے جبکہ بیکار بیٹھنے یا دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں رسوائی ہے۔

اسلام میں رزقِ حلال کمانے کی تاکید:

اسلام رزق ِ حلال کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو رزقِ حلال کی تاکید کرتاہے کیونکہ معاشی خوشحالی انسان کے عقیدہ ،ایمان، اخلاق اوررویہ پر مثبت اثر چھوڑتی ہے جبکہ معاشی بدحالی اس کے برعکس انسانی عقیدہ، اخلاق ، اور رویہ پر منفی اثرات مر تب کرتی ہے۔ عقیدہ کی حفاظت شریعہ کے بنیادی مقاصد میں سےہے جس کی خاطر اسلام نے رزق حلال کی تاکید اور ترغیب دی ہے جو معیشت کی بہتری اور خوشحال زندگی کا ضامن ہے۔

معاشی بدحالی کی وجہ سے انسان کے عقیدہ ،ایمان، اخلاق اور کردار، فکر اور فہم پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔نبی اکرمؐ فرماتے ہیں کہ ” کاد الفقر أن يکون کفرا‟[12] ’’بھوک اور بدحالی انسان کو کفر کے قریب پہنچادیتی ہے ‘‘ ۔ آپ ؐبھوک اور بدحالی کو مصیبت سمجھتے تھے اور اس سے بچنے کے لیے ہمیشہ اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگا کرتے تھے جیسا کہ آپ ؑ کی ان دعائوں سے ظاہر ہے ’’اللهم إني أعوذبك من الکفر والفقر‟۔[13] ’’ یا اﷲ !میں کفر اور بھوک اور بدحالی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ‘‘۔ اور ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ’’اللّهمّ إنّي أعوذبك من الفقر والقلة والذلة “[14] ’’یا اﷲ! میں بھوک اور بدحالی ،قلت یعنی مال کی کمی اور ذلت سے تیری پناہ مانگتا ہوں‟۔

بدحالی اور بھوک انسان کے ایمان ، عقیدہ، اخلاق اورطرزعمل کے علاوہ افکار پر بھی برا اثر چھوڑتی ہے ، امام محمد بن حسن شیبانی کے بارے میں آتا ہے کہ’’ ایک مرتبہ ان کی خادمہ نے ایک علمی نشست میں انہیں مطلع کیاکہ گھر میں آٹا وغیرہ ختم ہو گیا ہے ، تو آپؒ نے فرمایا:’’ اﷲ تمہیں ہلاک میں ڈال دے ! تم نے مجھ سے چالیس فقہی مسائل بھلا دئیے‟۔[15]

رزقِ حلال کا خاندانی نظام کے استحکام پر اثرات:

اسلام ایک کامل دین ہے جس میں حلال وحرام سے متعلق واضح احکامات بیان کئے گئے ہیں اگر شریعت كے اصول وضوابط کے مطابق حصولِ رزق کے لئے تگ و دو کی جائے گی تو وہ رزقِ حلال میں شمار ہوگا ۔ جیسا کہ ” نبی اکرمؐ فرماتے ہیں: کہ اللہ تعالیٰ خود طیب ہے اور وہ اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو طیب ہو۔۔۔۔اس کے بعد آپ نے اس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرے، اس کے بال پراگندہ اور خود غبار آلود ہو وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر یارب یارب کہے مگر اس کی حالت یہ ہو کہ اس کا کھانا، پینا، لباس اور غذا ہر چیز حرام ہو تو اس کی دُعا کیسے قبول ہو‘‘[16]

اب ان واضح احکامات کے بعدبھی اگر انسان راہِ حق سے بھٹک جائے اور حلال و حرام کی تمیز فراموش کردے تو اس مرحلے پر انسان ہی قصور وار ہوا کیونکہ اسے صحیح اور غلط کے بارے میں بتادیا گیا ہے۔اگر وہ درست راستہ زندگی گزارنے کے لئے اپنائے گا تو ایک کامیاب زندگی گزارے گالیکن اگر وہ اپنے لئے غلط راستے کا انتخاب کرے گا تو ناکام و نامراد زندگی گزارے گااور دنیا وآخرت دونوں میں ہی ذلیل وخوار ہوگا۔

رزق حلال و حرام کے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لئے قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں بارہا رزقِ حلال کی تاکید فرمائی گئی ہے جیسا كہ اوپر گزر چكا ۔ کیونکہ رزق کے اثرات انسانی زندگی پر ولادت کے بعد سے نہیں بلکہ ولادت سے قبل شروع ہوجاتے ہیں جو اولاد کی تربیت پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے والدین کو حلال روزی کمانے کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔ کیونکہ اولاد کی پیدائش سے ہی والدین کے کندھوں پر بہت بڑی ذمہ داری آجاتی ہے۔جیساکہ ان کی تعلیم و تربیت اور نفقہ وغیرہ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ مادی غذا کے ساتھ روحانی غذا کا بھی بندوبست ہونا چاہیئے۔ جب والدین اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلائیں گے تو اس کا اثر ان کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ان کی روحانی صلاحیتوں پر بھی مرتب ہوگا اور اولاد نیک صالح پروان چڑھے گی جو والدین کے لئے دین و دنیا کی راحت کا سامان ہوں گے۔ کیونکہ نیک صالح اولاد والدین کے ساتھ ساتھ خاندان کے دیگر بزرگوں کی عزت و احترام کا بھی خیال رکھے گی جس سے خاندانی نظام مستحکم ہوگا۔حضرت عبداللہ بن مبارک بہت بڑےفقیہ اور محدث گزرے ہیں ۔جب ان کا انتقال ہوا تو کسی نے انہیں خواب میں دیکھا اور حضرت سے پوچھا کہ موت کے بعد کیسا معاملہ ہوا تو حضرت عبداللہ بن مبارک  نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے جنت دے دی ہے لیکن میرے پڑوس میں جو لوہار تھا اسے بلند مقام ومرتبہ ملا ہے اس بات پر وہ شخص حیران ہوا اور صبح اس لوہار کی بیوی سے جاکر ملا اور دریافت کیا کہ تیرا خاوند ایسا کونسا عمل کرتا رہا کہ اسے جنت میں عبداللہ بن مبارک سے بھی بلند مقام ملا ہے ۔لوہار کی بیوی نے بتایا کہ کوئی خاص عمل نہیں کرتا تھا جب رات کے آخری شب عبداللہ بن مبارک تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہوتا تھا تو وہ (لوہار) کہتا تھا کہ کاش اے رب العزت میرے زرق میں بھی کشادگی ہوتی تو میں بھی تہجد کے لئے بیدار ہوتا اور تیرے سامنے سر کوجھکتا اور دوسرا اس کا یہ معمول تھا کہ جب دوکان پر کام کرتا اور اس دوران اذان ہوتی تو ہتھوڑا پھینک کر نماز کے لئے جاتا اور کہتا کہ اللہ نے پکارا ہے ۔لوہار کی بیوی نے کہا کہ بس یہی دو اس کے معمول تھے اور اس کے علاوہ کوئی خاص نہیں۔[17] ایک موقع پر ” نبی اکرمؐ نے اپنے اصحاب سے اولاد کی تربیت کے ضمن میں ارشاد فرمایا : اپنے بچوں کی، ماں کے رحم ہی سے تربیت کرو۔ اصحاب کو حضرت کے اس کلام کو سن کر بہت تعجب ہوا، سوال کیا: کس طرح اس بچے کی تربیت کریں کہ جو ابھی دنیا میں بھی نہیں آیا ہے؟ نبی اکرمؐ نے جواب دیا: اس کی ماں کو حلال و پاک غذا کھلاؤ۔پس اگر ماں کی غذا اور باپ کے نطفے میں مال حرام موجود ہو تو شیطان اس بچے میں حصہ دار ہوجاتاہے؛ اس لیے کہ شیطان انسان کو راہ الٰہی سے منحرف اور نابود کرنے کے لیے بہت سے جال رکھتا ہے کہ جن میں سب سے پہلا اور آسان جال انسان کے رزق و روزی کو حرام و نجس کرنا ہے۔ پہلا ہی حرام لقمہ کھانے سے انسان کے وجود اور اس کے گھرانے میں شیطان کے قدم آجاتے ہیں اور ان کے تمام وجود کو گندہ اور ان کی زندگی کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتاہے۔[18] نبی اکرمؐ فرماتے ہیں: وہ شخص خوش بخت ہے کہ جس کی سعادت کی بنیاد شکم مادر ہی میں رکھی گئی ہے اور بد بخت وہ شخص ہے کہ جس کی شقاوت کی بنیاد اس کی ماں کے پیٹ ہی میں رکھی گئی ہے۔ لہذا وہ غذائیں کہ جو انسان، جنین کی صورت میں اپنی ماں کے پیٹ میں حاصل کرتا ہے اور اسی طرح ماں کا حلال و حرام کی رعایت کرنا، بچے کی سعادت و شقاوت پر بہت زیادہ اثر اندازہوتا ہے.[19]

اولاد کی تربیت میں حلال و پاک روزی کے فوائد:

”امیر المؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں:کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا:’’لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ جَسَدٌ غُذِیَ بِحَرَامٍ“.[20] ترجمہ: ”وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی غذا حرام سے ہے‘‘۔ جس جسم کی پرورش حرام رزق سے کی گئی ہو وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا کیونکہ رزقِ حرام سے جو گوشت اور خون بنتا ہے وہ بھی حرام ہی ہوتا ہے اور حرام رزق کھانے سے انسان میں بہت ساری برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ بزرگوں اور والدین کی نافرمانی، جھوٹ، چوری ، بے ایمانی، حسد، نفرت، دغا وفریب وغیرہ جب ایک انسان بہت ساری برائیوں کا مرتکب ہوگا تو وہ بھلا جنت میں کیونکر داخل ہوگا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ تقویٰ کی پہلی سیڑھی حلال رزق کمانا ہے اس لئے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ رزقِ حلال کمانے کا حکم دیا گیا ہے جب اولاد کو رزقِ حلال كھلایا جائے گا تو اولاد ( جو انسان کا کل سرمایہ ہوتا ہے جس کے لئے انسان دن رات محنت کرتا ہے ) فرماں بردار ، نیک صالح اور والدین کے لئے راحت کا سبب بنے گی ۔ جبکہ حرام کمائی انسان میں اندرونی شکستگی، پشیمانی، ندامت اور دیگر مختلف عوامل پیدا کرتی ہے۔ انسان وقت کے ساتھ بے ضمیر اور بے حس ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ دل پر ایک بہت بڑے گناہ کا بوجھ محسوس کرتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس حلال رزق کمانے والا بظاہر محنت و مشقت زیادہ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی روح اور ضمیر مطمئن رہتا ہے اس کے دل پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا اور ایسا شخص اپنی اولاد کے سامنے حلال روزی کمانےکے فوائد اور اس کے اثرات کا تذکرہ ہر وقت کرتا ہے جس سے بچوں کے ذہن میں حلال رزق کے فوائد بیٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔

خلاصہ:

اسلام نے طیبات اور پاک رزق کو حلال اور جائز قراردیا ہے۔ حلال كھانے سے نیکی کی توفیق پیدا ہوتی ہے اور گناہ اور معصیت کے امور سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ انسان اچھے کردار اور رویوں کا خوگر بن جاتا ہے۔ اور ہمہ وقت معصیت خداوندی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی اعمال خواہ عبادات ہوں یا معاملات سب کی قبولیت کو رزق حلال سے مشروط کیا گیا ہے اور حرام خوری سے اجتناب کو سعادت اور تقوی کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر پورا معاشرہ سکون، اطمینان اور خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔ اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے گا اور بندہء مومن خود کو حرام اور ناجائز سے بچائے تو اس کی زندگی پر اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گےاور اولاد فرماں بردار اور سعادت مند ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی، قلبی و نفسیاتی سکون نصیب ہوگا، دل نور ایمانی سے منور ہوگا ، ترقی و کامرانی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی۔رزقِ حلال کے متلاشی کی روح پاکیزہ ہوتی ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ حق کی قبولیت کا جذبہ رکھتا ہے۔یہ تمام امور وہ ہیں جو معاشرے میں ایک خاندان کے استحکام کے لیے لازم ہیں جس کی بدولت ایک خاندان میں استحکام آ تا ہے ، اور خاندانی نظام مضبوط ہوتا ہے،اور جب خاندان مستحکم ہوگا تو معاشرہ مستحکم اور خوشحال ہوگا ۔ جبکہ دوسری صورت میں زندگی منفی خیالات کا گہوارہ بن جائے گی اور بے برکتی کا عمل دخل زیادہ ہوجائے گا اوراولاد نافرمان ہوگی ، اللہ کی خوشنودی سے محروم رہے گا ، قلبی اور نفسیاتی سکون نصیب نہیں ہوگا، ترقی و کامرانی کی راہیں معدوم ہوجائیں گی، دعاؤں میں قبولیت کی تاثیر نہیں رہے گی اور حق گوئی کا حوصلہ ختم ہوجائے گا۔ اور خاندانی نظام پارہ پارہ ہوجائے گا، اسی طرح معیشت کی سرگرمیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام خاندان کے استحکام، خوشی اور سکون میں اس کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

 

حوالہ جات:

  1. ۔ سورۃ النحل: آیت 8
  2. ۔ سورۃ الرعد : آیت 3
  3. ۔ سورۃ ق :آیت 11
  4. ۔ سورۃ الجمعہ: آیت 10
  5. ۔ سورۃ العنکبوت :آیت 17
  6. ۔سورۃ المزمل :آیت 20
  7. ۔البيهقی، السنن الكبرى بیروت،مؤسسہ الرسالہ ( 6 / 128) شعب الإيمان - دار النشر: دار الكتب العلميہ - بيروت - 1410، الطبعۃ: الأولى ( 18 / 251).
  8. ۔ الطبرانی، المعجم الكبير -باب صفوان بن أميہ۔ مكتبہ الزهراء - الموصل - 1404 - 1983، الطبعہ: الثانيہ۔ (7 / 47، حديث رقم: 7191)
  9. ۔ بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل ،صحیح البخاری ، كتاب البيوع باب كسب الرجل وعملہ بيده، دارلکتب العلمیہ ، بیروت، 2004،1 ٫ (7/235، حديث رقم: 1930).
  10. ۔ ابن حجر: فتح الباري، كتاب البيوع ، باب كسب الرجل وعمله بيده ، قاھرہ، دارالریان للتراث۱۹۸۷ع ط2،( 4/358، حديث رقم : 1931)
  11. ۔ بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل ،صحیح البخاری ، کتاب الاجارہ باب رعی الغنم علی قراریط ،( 1/301، حدیث رقم : ۲۱۰۲).
  12. ۔ التبريزي الخطیب، محمد بن عبد الله الخطيب، مشكواة المصابيح، المكتب الإسلامي - بيروت - 1985، الطبعة: الثالثة (3/95).
  13. ۔ النسائی، احمد بن شعیب ، سنن النسائی، كتاب الاستعاذة باب الاستعاذة من شر الكفر . دارالکتب خانہ، بیروت، (2/316 ، ح 5390 ).
  14. ۔ابوداؤد، سنن ابو داؤد،باب في الاستعاذة . دارلکتب العلمیہ ، بیروت، 2005،( 1/216 ح1320).
  15. ۔ الدكتوريوسف القرضاوي مشکلة الفقر وکيف عالجها الإسلام، مصر، مکتبة وهبة 1986م ط۔ 10،ص14
  16. - مسلم، الصحيح ، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب۔ دار إحياء التراث العربي - بيروت، حدیث 2393۔
  17. - https://www.urdunews.com/node/16.11.2019
  18. - مسلم ،الصحيح، ( 1/336).
  19. - دیکھیں الطبرانی ، المعجم الصغير - (ج 2 / ص 414 ح 774) - اور البزار ، البحر الزخار ـ مسند البزار - (ج 4 / ص 339 ح 1296). مؤسسة علوم القرآن، مكتبة العلوم والحكم - بيروت، المدينة - 1409، الطبعة: الأولى.
  20. - البزار، البحر الزخار، (1/50- ح 33).
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...