Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

سرکاری مناصب و ذرائع کا ذمہ دارانہ استعمال: تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_837

Pages

108-132

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/167/159

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/167

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

موضوع کا تعارف:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے اصول و ضوابط موجود ہیں۔ رسول کریمﷺ کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

" لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرً"1

تم کو پیغمبراللہ کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اُس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روزِ قیامت (کے آنے ) کی اُمید ہو اور وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتا ہو.

اسلام خالق کائنات کی طرف سے تمام انسانیت کے لئے رہنمائی دیتا ہے۔ یہ ہمیں دوسری تمام مخلوق سے ممتاز کرتا ہے ۔یہ ہمیں مقاصد زندگی کا تعین کرنے اور ہمیں ہماری تقدیر پر ایمان لانا سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں ذاتی زندگی میں معاشرتی، سماجی، معاشی ،اخلاقی و روحانی طریق کے لئے رہنمائی کرتا ہے۔ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم قانون فطرت کے مطابق پُر امن رہیں اور بدامنی سے احتراز کریں۔ امن اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت کو ماننے سے جبکہ افراتفری قانونِ فطرت سے انحراف کرنے سے آتاہے ۔ا سلام دین فطرت ہے۔ معاشرہ میں امن حاصل کرنے کے لئے اسلام مسلمانوں پر زور دیتا ہے کہ سیدھے راستہ پر چلیں اور برائیوں سے دور رہنے کے لئے اکٹھے کام کریں۔2

اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست وحکومت کی اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انبیاء کرام علیہم السلام وقت کی اجتماعی قوت کو اسلام کے تابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار خدا اور صرف خدا کے لئے خالص ہوجائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے۔ ان میں سے ہر ایک کی پکار یہی تھی کہ:

"وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُوداً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ أَفَلاَ تَتَّقُونَ "3

اس کا مفہوم اور تسلسل یہ ہے کہ قوم عاد کی طرف اُن کے بھائی ہود کو بھیجا ، انہوں نے کہا کہ بھائیو! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم ڈرتے نہیں؟

اور ان میں سے ہر ایک نے خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے اپنی قوم سے مطالبہ کیا کہ:" فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ " (تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو )

فکر اسلامی میں ریاست و حکومت کی اہمیت کا اندازہ اِس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ خالقِ ارض وسماوات اپنے نبی کریمﷺ کو یہ دُعا سکھاتا ہے کہ :

" وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا"5

’’اور کہو کہ اے اللہ ! مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کرنا اور (مکے سے ) اچھی طرح نکالنا اور اپنے ہاں سے زور و قوت کو میرا مددگار بنانا‘‘

اور جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ"6

’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور اُن پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (یعنی قواعدِ عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور لوہا پیدا کیا اس میں (اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدہ بھی ہیں اور اس لئے کہ جو لوگ بن دیکھے اللہ اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں اللہ ان کو معلوم کرلے بیشک اللہ قوی ، غالب ہے‘‘

قرآن پاک میں ہے کہ ہم نے ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجے:

"هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ " 7

’’وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اُسے اور سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو براہی لگے‘‘

قرآن مجید میں عدل و انصاف کرنے کا حکم ہے:"وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ"8 (اور جو فیصلہ نہ کریں اُس قانون کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے وہی کافر ہیں۔

اسلام اور حکومت و ریاست دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اُس کی نگہبان ہے ۔جس عمارت کی بنیادنہ ہو وہ گِر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لُوٹ لیا جاتا ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے۔

"الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ"9

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘

ریاست کا ادارہ انسانی سماج کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر منظم اجتماعی زندگی کا تصور مشکل ہے۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کے لئے ہدایت و رہنمائی دیتا ہے۔ اسلام حکومت و سیاست میں کسی تفریق کا رواد ارنہیں۔ وہ پوری زندگی کو خدا کے قانون کے تابع کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے حکومت کو بھی اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے اور ریاست کو اسلام کے قیام اور اس کے استحکام کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ روش دنیا اور آخرت دونوں میں عتاب الٰہی کی موجب ہے کہ کچھ احکام الٰہی کو تو تسلیم کیا جائے اور کچھ دوسرے احکام سے صرف نظر اور روگردانی اختیار کی جائے، خواہ خواہش اور نفس کی اندرونی و حشت کی بنا پر یا کسی بیرونی دباؤ یا مرعوبیت کی وجہ سے۔ دین اور ریاست و حکومت کا اتنا ہی قریبی تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ اگر ریاست و حکومت اسلام کے بغیر ہوں تو ظلم اور بے انصافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں ’’چنگیزی‘‘ رونما ہوتی ہے اور اگر اسلام ریاست و حکومت کے بغیر ہو تو اس کا ایک حصہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے اور خدا کا دین حکمرانی اور غلبہ کے بجائے غلامی اور مغلوبیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست حکومت کو اسلامی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور مکمل طور پر حکومت اسلام کی پابند ہو۔

اطاعت رسول ﷺ اور اولی الامر کی اطاعت فرض ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً" 10

’’مومنو! اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں اُن کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اُس میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ(کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے‘‘

سرکاری ملازمین کے انتخاب و تعیناتی کا اسلامی طریقہ کار:

حکومت کے عہدے اور مناصب حصول عزت و جاہ اور کسب دنیا کے نہایت کامیاب ذریعے خیال کیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے نہ صرف ان کے حصول کی جدوجہد جائز سمجھی جاتی ہے، بلکہ اس راہ میں صحت مندانہ مساعی کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

مناصب کے متعلق اسلامی تصور:

اسلام نے دنیا کے اس رجحان عام کے بالکل برعکس ان عہدوں اور مناصب کو حقوق کی فہرست میں شمار کرنے کی بجائے، امانت کی حیثیت دی ہے۔ اس وجہ سے ایک صحیح اسلامی ماحول کے اندر یہ عہدے اور مناصب چاہنے اور طلب کرنے کی چیز نہیں سمجھے جاتے۔

جو لوگ آخرت کی زندگی، قیامت کی باز پرس اور جزا و سزا کے قائل ہوں وہ خودحتی الامکان ان سے دور ہی رہیں گے اور اگر یہ ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی تو پھر اس بات کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دىں گے کہ قیامت کے دن یہ ذمہ داری اس کے لئے ندامت و رسوائی کا سبب نہ بنے۔ اس حقیقت کو حضور پاکﷺ نے حضرت ابو ذر غفاریؓ کو سمجھایا تھا جب انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حکومت کے کسی عہدے کے لئے درخواست کی تھی۔روایت کا متن کچھ یوں ہے:

"عَنْ أَبِى ذَرٍّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ تَسْتَعْمِلُنِى قَالَ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِى ثُمَّ قَالَ «يَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّكَ ضَعِيفٌ وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْىٌ وَنَدَامَةٌ إِلاَّ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا وَأَدَّى الَّذِى عَلَيْهِ فِيهَا"11

"حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور پاکﷺ سے درخواست کی کہ مجھے حکومت کے کسی عہدے پر مقرر کیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے جواب دیا: ابو ذر یہ ایک بھاری امانت ہے اور تم ایک کمزور آدمی ہو۔ قیامت کے دن یہ امانت ندامت اور رسوائی کا سبب بنے گی۔ مگر اس شخص کے لئے جو اس حق کے ساتھ اس کو اُٹھائے اور اس سلسلہ میں ا س پر جو ذمہ داریاں عائد ہوں اُن کو ادا کرے"

اللہ تعالیٰ کی امانت:

صرف یہی نہیں کہ اسلام نے ان عہدوں اور مناصب کو امانت قرار دیا ہے بلکہ ان کو خدا کی امانت قرار دیا ہے۔ عام دنیاوی حکومتوں میں اول تو یہ امانت کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور اگر کہیں کوئی دھندلا سا تصور ہے بھی تو وہ قومی امانت کا ہے۔ اس وجہ سے جہاں قومی حمیت پر زور ہوتی ہے یا قوم کے احتساب کا اندیشہ قوی ہوتا ہے ، وہاں تو امانت داری کو ظاہر داری ایک حد تک برت لی جاتی ہے لیکن جہاں یہ حس قومی یا احتساب کا کھٹکا موجود نہ ہو وہاں ہر طرح کی خیانت کے لئے ہاتھ پاؤں بھی آزاد ہوجاتے ہیں اور ضمیر بھی بالکل بے حس ہوجاتا ہے۔ لیکن اسلام نے ان کو خدا کی امانت قرار دے کر ان کی نگرانی کے لئے دہرے پہرے بٹھا دیے ہیں۔ قوم کی نگاہیں چوک سکتی ہیں لیکن خدا کی نگاہ سے کوئی مخفی سے مخفی خیانت بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔ وہ خیانتوں اور بدعنوانیوں کو دیکھتا بھی ہے اور امانتداروں میں جس حد تک خلوص یا ریا کاری ہے ان کو اچھی طرح پرکھتا بھی ہے۔ اسی خلوص اور ریا کے لحاظ سے وہ ہر عمل کی قیمت ٹھہرائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ اس دوہرے احتساب کا یہ اثر ہے کہ جن عہدوں اور مناصب کے لئے جاہلی نظاموں میں بڑے بڑے مقابلے ہوتے ہیں اور ہر شخص ان کو جیتنے کی ہوس میں سب کچھ برتنے کے ارادے سے میدان میں اُترتا ہے، ایک صحیح اسلامی ماحول کے اندر اس کے قبول کرنے والے بڑی مشکلوں سے ڈھونڈنے پر ملتے ہیں۔ ان اسامیوں کے لئے پی سی ایس قسم کی کثیر المصارف امتحانات مقابلہ رکھے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کے شوق و طلب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر بالآخر اُمیدواروں کے حق کا فیصلہ قابلیت کی کسوٹی کے بجائے رشوت اور سفارش ہی کے معیارات سے کرناہوتا ہے۔ان اسامیوں کے لئے اس ماحول میں جہاں اسلامی ذہنیت نشوونما پاچکی وہ اہل اشخاص کی منتیں کی جاتی ہیں۔ تب کہیں جا کر لوگ کانٹوں کے تاج پہننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ذیل میں ہم چند حدیثیں درج کرتے ہیں جن سے اندازہ ہوسکے گا کہ دنیا کے بازاروں کی اس سب سے زیادہ محبوب و مطلوب اور گراں جنس کی قدرو قیمت کا اسلامی بازار میں کیا حال ہے:

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

من ولی القضا ذبح بغیر سکین12 جس کو منصب قضاپر فائزکیا گیا وہ گویا بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔

ایک اور روایت میں ہے:

عن معقل بن یسار عن النبی صلى الله عليه وسلم قال: مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ 13

’’سیدنا معقل بن یسارؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مسلمان رعیت پر حاکم ہوا پھر اگر وہ ان (مسلمانوں) کے ساتھ خیانت کی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کرادے گا‘‘۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتْ الْفَاطِمَة 14

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے آپ ﷺنے فرمایاکہ ایک زمانہ آئے گا کہ تم لوگ امارت (سرداری) کی حرص کروگے حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا سبب ہوگی یہ کیا ہی اچھی دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری دودھ چھڑانے والی ہے یعنی اس کا آغاز نہایت دلکش اور لذیز لیکن اس کا انجام اپنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے نہایت ہولناک ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ یہ سارے ڈران لوگوں کے لئے ہیں جو کسی عہدہ کی ذمہ داریاں اس کو اٹھانے کے بعد ادا نہ کریں۔ رہے وہ لوگ جو ان کی ذمہ داریاں ٹھیک ٹھیک ادا کرین تو ان کے اجر و ثواب کی بھی حد نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ :

قال رسول الله ﷺ إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللَّهِ عَلَى مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ عَنْ يَمِينِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِى حُكْمِهِمْ وَأَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا.15

"عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو لوگ انصاف کرتے ہیں اللہ عزوجل کے پا س منبروں پر ہوں گے پروردگار کے داہنی طرف اور اس کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں (یعنی بائیں ہاتھ میں جو داہنے سے قوت کم ہوتی ہے یہ بات اللہ تعالیٰ میں نہیں کیونکہ وہ ہر عیب سے پاک ہے) اور یہ انصاف کرنے والے لوگ ہیں جو حکم کرتے وقت انصاف کرتے ہیں اور اپنے با ل بچوں اور عزیزوں میں انصاف کرتے ہیں اور جو کام ان کو دیا جاوے اس میں انصاف کرتے ہیں"

اسی طرح ایک اور حدیث ہے:

عَنْ أَبِى ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:يَا أَبَا ذَرٍّ إِنِّى أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّى أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِى لاَ تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلاَ تَوَلَّيَنَّ مَالَ يَتِيمٍ 16

"ابوذر سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا ! اے ابوذر میں تجھ کو ناتواں پاتا ہوں اور میں تیرے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں مت حکم کردو آدمیوں کے بیچ میں اور مت بندوبست کر یتیم کے مال کا (کیونکہ احتمال ہے کہ یتیم کا مال بیجا اٹھ جائے یا اپنی ضرورت میں آجاوے اور مواخذہ میں گرفتار ہو"

اسی تسلسل میں مندرجہ ذیل روایت بھی پیش کی جا سکتی ہے:

لَا تَسْأَلْ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا 17

“اپنے لیے منصب مت طلب کرنا، اگر تمہاری طلب اور کوشش سے تمہیں منصب دیا گیا تو تم اس کے حوالے کر دیے جاؤگے لیکن اگر تم کو بغیر کوشش اور طلب کے یہ منصب اور عہدہ دیا گیا تو اس کی انجام دہی کے لئے تمہاری مدد کی جائے گی”

نبی کریمﷺ فرماتے ہیں:

عن مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ قال سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ 18

“سیدنا معقل بن یسارؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، فرماتے تھے کہ جس بندے کو اللہ نے رعیت کا حاکم بنایا پھر اس نے اپنی رعیت کی خیر خواہی کیساتھ نگہبانی نہ کی تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھے گا”

لیکن اس کے باوجود اوپر کی وعیدوں سے جو شخص واقف ہوگا وہ اپنے آپ کو خود کسی طرح اس بات کے لئے پیش کرے گا کہ اس کو بغیر چھری کے ذبح کردیا جائے۔

سرکاری مناصب امانت اور ذمہ داری ہیں حق نہیں:

یہ اصول بھی قرآن و سنت سے اخذ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ"19 (اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے خیانت مت کرو۔ تم اپنی امانتوں میں خیانت کرتے ہو اور تم جانتے ہو)

رسول اللہﷺ نے اس ضمن میں فرمایا:

"فاذا ضيعت الامانة فانتظر الساعة) قيل يا رسول الله كيف اضاعتها؟ قال (إذا وسد الامر الى غير أهله فانتظر الساعة"20

"جب امانت ضائع ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا۔ امانت کا ضائع ہونا کیسا ہے؟۔ آپﷺ نے فرمایا جب ذمہ داری کسی غیر اہل کے سپرد کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو"

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس کسی کو بھی مسلمانوں کا کوئی منصب سونپا گیا وہ قیامت کے دن اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا حساب دے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

"وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ"21 (اور ان سے کہیے کہ کام کرو کہ اللہ اور اس کا رسول اور مومنین اس کو دیکھنے والے ہیں)

اسلامی نظام حکومت میں مناصب اور عہدے سماجی اور معاشرتی اہمیت کے حامل افراد میں ان کے حق کے طور پر تقسیم نہیں کیے جاتے اور نہ ہی ایسے اسباب کو اہمیت دی جاتی ہے جن کا کارکردگی سے براہ راست تعلق نہ ہو۔ کیونکہ اسلامی نظام حیات سماجی اونچ نیچ کا قلع قمع کرتا ہے۔ اس کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔ برتری کا معیار عمل اور صلاحیت ہے۔ اس لیے منصب کی ذمہ داری کا بوجھ صرف اسی پر ڈالا جاتا ہے جو امانت و دیانت سے اپنے منصب کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اسلام تمام سماجی ، نسلی اور لسانی تعصباب سے بالاتر ہو کر مناصب حکومت کے لیے مناسب افراد کے تعین کا سبق دیتا ہے۔22

حدیث میں آتا ہے کہ دو افراد نے رسول اللہ ﷺ سے منصب حکومت کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

"انا والله لا نولى على هذا العمل اخدا ساله والا احد حرص عليه"23(اللہ کی قسم ہم اس عمل پر کسی ایسے کا تقرر نہیں کریں گے جن سے اس کو طلب یا اور نہ ہی ایسے کو ج اس کا خواہش مند ہو)

پس حکومت کے عہدے اجتماعی ذمہ داریاں اور امانتیں ہیں۔ یہ کسی کا حق نہیں ہے بلکہ جن لوگوں میں ان کی ادائیگی کی صلاحیت ہے صرف انہی کے ذمے لگائے جائیں گے جو کہ قیامت کے دن جوابدہ ہوں گے۔

سرکاری ملازمین کے لیے تحائف وصول کرنے کی حرمت کے بیان میں :

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حدیث انتہائی اہم ہے۔

عن أبی موسی رضی الله تعالی عنه قال دخلت علی النبی صلی الله عليه سلم أنا ورجلان من بنی عمی فقال أحد الرجلین یا رسول الله أمرنا علی بعض ما ولاك الله عزوجل وقال الأخر مثل ذلك قفقال أنا والله لا نولی علی هذا العمل أحدا سأله وأحد حرص عليه. 24

حضرت ابوموسیؓ سے روایت ہے کہ دو آدمی میرے چچا کے بیٹوں میں سے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو ان دو آدمیوں میں سے ایک نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ملک عطا کیا ہے ان میں سے کسی علاقے کے معاملات ہمارے سپرد کردیں اور دوسرے نے بھی اسی طرح کہا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کی قسم ہم اس کام پر اُس کو مامور نہیں کرتے جو اس کا سوال کرتا ہو یا اس کی حرص کرتا ہو.

ایک اور روایت کچھ یوں ہے۔

"عن أبى حميد الساعدى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على الصدقة بسواد كثير فجعل يقول هذالك وهذا اهدى إلى فذكر نحوه قال عروة فقلت لا بهى حميد الساعدي استعمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال من فيه إلى أدنى" 25

ابو حمید الساعدیؓ سے روایت ہے ہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو صدقہ کی وصولی کے لیے عامل مقرر فرمایا۔ وہ کثیر مال لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا: یہ تمہارے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔ عروہ کہتے ہیں میں نے ابوحمید ساعدیؓ سے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث (خود) سنی ؟ تو انہوں نے کہا : آپ ﷺ کے منہ مبارک سے میر ے کانوں نے سنا.

علاوہ ازیں مندرجہ ذیل روایت بھی اس موضوع پر بہت اہم ہے۔

"عن عدى بن عميرة الكندى رضي الله تعالى عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من استعملناه منكم على عمل فكتمنا مخيطا فما فوقه كان غلولا يأتى به يوم القيامة قال فقام إليه رجل اسود من الأنصار كانى انظر إليه فقال يا رسول الله " اقبل عن عملك قال وما لك قال سمعتك تقول كذا وكذا قال وانا قوله الان من استعملناه منكم على عمل فيجي بقليله وكثيره فما أوتي منه أخذ وما نهى عنه انتهى"26

"عدی بن عمیر کندیؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس آدمی کو ہم کسی کام پر عامل مقرر کریں اور اس نے ہم سے ایک سوئی یا اس سے بھی کسی کم چیز کو چھپا لیا تو یہ خیانت ہوگی اور وہ قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا۔ تو آپ ﷺ کے سامنے ایک سیاہ رنگ کا آدمی انصار میں سے کھڑا ہوا گویا میں اُسے ابھی دیکھ رہا ہوں ۔ تو اُس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے کیا ہے؟ اُس نے عرض کیا: میں نے آپﷺ کو اس اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں ابھی بھی یہی کہتا ہو کہ تم میں سے جس کو ہم کسی کا عامل مقرر کریں تو اُسے چاہیے کہ وہ ہر کم اور زیادہ چیز لے کر آئے ۔ پس اس کے بعد اسے جو دیا جائے وہ لے لے اور جس چیز سے اُسے منع کیا جائے اُس سے رُک جائے".

حکومتی مناصب کے لیے اہلیت:

امور ریاست میں اہلیت کی بنیاد پر عہدہ دیا جانا کہ جو شخص ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ منصب قضاء کے لیے فہم و فراست کا ہونا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قال عليه وانکم تغتصمون الی ولعل بعضکم ان یکون الحسن من بعض فمن قفیت له بشئی من حق أخيه فلا یا خذہ انما أاقتطع له قطعة من النار 27

میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمے لاتے ہو اس میں ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے معاملہ کو زیادہ رنگ امیری کے ساتھ پیش کرے اور میں اسی سے مطمئن ہوکر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو یاد رکھوکہ حقیقت حال تو صاحبِ معاملہ ہی کو معلوم ہوتی ہے اگر حقیقت میں وہ اس صورت میں اس کو جو کچھ دوں گا وہ اُس کا حق نہیں ہوگا بلکہ وہ جہنم کی آگ کا ایک ٹکڑ ا ہوگا.

اہم مناصب کے لیے مطلوبہ صلاحیت:

شارع کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ جتنا اہم کام یا جتنی اہم ذمہ داری ہوگی تو اسکی مناسبت سے زیادہ شرائط کا پایا جاناضروری ہوتا ہے یہ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ جو چیز زیادہ اہم ہے اُس کا حصول بھی اتنا ہی مشکل و پیچیدہ ہوتا ہے اس کے حصول کے لیے زیادہ رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ وزیر کی بہ نسبت کسی افسر یا سیکرٹری تک پہنچنا آسان ہوتا ہے۔ اس طرح سر براہ مملکت کی بہ نسبت کسی وزیر سے ملاقات کرنا آسان ہوتا ہے۔ 

وهي عادۃ الله فی خلقه وفی شرعة (28)

(اور اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق اور شرعیت کے بارے میں ہی قانون ہے)

سرکاری عہدوں کے لیے اہلیت کا معیار :

ان کے لیے پیمانہ ایمانداری اور طاقتور ہونا ہے۔

" قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ"29

’’ایک لڑکی بولی کہ ابا ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانت دار (ہو)‘‘

دفتری امور کو چلانے کے لیے اہلیت اور معیار ضروری ہے جو کہ مختلف دفاتر کے لیے مختلف ہے جہاں تک ایمانداری کا تعلق یہ اسلامی قانون میں معاملات کو ذمہ داریوں کو اللہ کے خوف اور مثبت کے لیے ہے نہ کہ لوگوں کے ڈر اور ان کو خوش کرنے کے لیے ہے۔

ریاست کو اپنے افسران کے نجی اورشخصی کاروبار سے روکنا چاہیے۔

ریاست کے لیے اسلامی قانون کے تابع افسران کو منع کرنا چاہیے کہ وہ ان امور میں حصہ لیں سوائے جن کے اسلامی شرعیہ ان کو اجازت دیتی ہو.

سرکاری عہد یدار کو نجی کاروبار کرنے اور جائیداد حاصل کرنے سے احتیاط برتنی چاہیے تاکہ وہ اپنے اختیارات اثرو رسوخ کے ذریعہ کوئی ناجائز فائدہ حاصل کریں۔ اسی لیے جناب عمر بن الخطابؓ اپنے گورنروں کی نگرانی کرنے اور دیکھتے کہ انہوں نے کوئی جائیداد اپنی ملازمت کے دوران تو نہیں حاصل کی۔ ان میں سے ایک نے عمرؓ سے کہا ’’میں نے کاروبار کیا اور منافع کمایا‘‘ عمرؓ نے جواب دیا، ’’ہم نے آپ کو کاروبار کرنے نہیں بھیجا ۔‘‘ 

اوصاف تقرری، اہلیت تقرری:

سرکاری ملازمین کی تقرری اور اہلیت کے مختلف اصول علماء اسلام نے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہیں۔

۱۔ مکمل اہلیت: 

اس اصول کی اسلام انتظامیہ میں بنیادی حیثیت ہے۔ اسلام اس بات کا حریص ہے کہ موزوں شخص کو موزوں عہدے پر مقرر کیا جائے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا۔ 

’’إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ‘‘

’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے تم کو سپرد کرو امانتیں، اہل امانت کو ۔ اور جب فیصلہ کرو تم لوگوں کے مابین تو فیصلہ کرو عدل کے ساتھ‘‘

علماء اور مفسرین کا اس بات پر اتفاقق ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی منصب کسی کو اہلیت کے سوا نہ سونپا جائے۔ رسول اکرمﷺنے اس اصول کی اہمیت کا تعین اس وقت فرمادیا جب آپ نے اپنے صحابی ابوذر الغفاری (م ۳۲ ھ/ ۶۵۲ء) کو مناصب حکومت میں سے کسی منصب پر فائز کرنے سے انکار کر دیا ۔ آپ ﷺ نے ان پر فرمایا:

یا ابا ذرائنک ضعیف وانها امانة وانها یوم القیامة وندامة الامن خذ بحقها وأدی الذی عليه فيها.31

"اے ابوذر! آپ اس ضمن میں کمزور ہیں یہ امانت ہے اور قیامت کے دن ندامت اور پیشمانی کا باعث ہوگی۔ سوائے اس کے لیے جو اسے اہلیت کی بنا پر حاصل کرے گا اور اس کا حق ادا کرے گا)

نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

"یا عبدالرحمن بن سمرۃ لا تسأل الامارۃ فالک ان اعطیتها عن مساله وکلت اليها وان اعطیتها عن غیر مساله انت عليها "32

"عبدالرحمن بن سمرہ سے حضورﷺ نے فرمایا) اے عبدالرحمان بن سمرہ امارت کی درخواست نہ کرو، کیونکہ اگر وہ تمہیں مانگنے پر دی گئی تو خدا کی طرف سے تم کو اُسی کے حوالہ کر دیا جائے گا۔ اور اگر وہ تمہیں بے مانگے ملی تو خدا کی طرف سے تم کو اس کا حق ادا کرنے میں مدد دی جائے گی"

آنحضور ﷺ کے اس فیصلہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مناصب حکومت پر تعین کا حق صرف ان لوگوں پر ہے۔ جو ان کی ادائیگی مطلوبہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ۳۳ مطلوبہ صلاحیت کا اندازہ عملی کارکردگی سے ہوتا ہے۔ ۳۴ اس لیے ولی الامر کے لیے لازمی ہے ہ سرکاری مناصب کے لیے صرف ان لوگوں کا انتخاب کریں جو ان کی ادائیگی کے اہل ہیں 35

تعین کے لیے امید وار ہونا چاہیے یا نہیں :

طلب کرکے عہدے پانے والے خدا کی مدد سے محروم ہیں:

عہدوں کے امانت اور آزمائش ہونے کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مدد فرماتا ہے۔ جو خود تو ان سے بھاگتے ہیں لیکن اس کے باوجود کسی عہدے کے لیے پیش کرتے اور اس سے ڈرنے اور بھاگنے کے بجائے درخواستیں دے کر اس کو اپنے گھر بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جو آزمائش وہ اپنی طرف سے بندوں پر ڈالتا ہے اس میں ان کی مددفرماتا ہے، اور اگر وہ اس سے ٹھیک ٹھیک عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی اس کوشش میں ان کو کامیابی بھی عطا فرماتا ہے۔ لیکن کسی آزمائش میں ڈالے جانے کے لیے کوئی شخص اگر اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے۔ تو وہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور مدد فرمانے کے بجائے بالکل غیر جانبدار ہو کر دیکھتا ہے۔ کہ جس ذمہ داری کی اس نے اتنے شوق سے اٹھایا ہے اس کو کس حد تک سنبھالتا ہے۔ اور کیا بناتا ہے۔ 

نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

اناو الله لا نولی علی عملنا هذا احدا سئاله او حرص عليه. 36

بخدا ہم اپنی اس حکومت کا منصب کسی ایسے شخص کو نہیں دیتے جو اس کا طالب ہو یا اس کا حریص ہو)

ان اخونکم عندنا من طلبه 37 (تم میں سب سے بڑھ کر خائن ہمارے نزدیک وہ ہے جواسے خود طلب کرے)

ان لا نستعمل علی عملنا من ارادہ 38 (ہم اپنی حکومت میں کسی ایسے شخص کا عامل نہیں بناتے جو اس کی خواہش کرے)

ذمہ داری کا احساس:

اللہ کے صالح بندے ہمیشہ عہدوں اور ذمہ داریوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان پر اس قسم کا کوئی بوجھ ان کی خواہش کے خلاف ڈال دیا گیا ہے۔ تو ان کی ساری زندگی اس بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ سب سو رہے ہیں، وہ جاگ رہے ہیں سب بے فکر ہیں وہ سب کے لیے فکر مند اور غمگین ہیں۔ سب اپنی اور اپنے بال بچوں کی خوشیوں کے اسباب فراہم کرنے میں منہمک ہیں۔ اور وہ ساری خدائی کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے ہوئے نہ رات کے سکون سے آشنا ہیں، نہ دن کی دلچسپیوں سے۔ یہاں ہم ان لوگوں کے احساسات کا ایک ہلکا سا عکس پیش کرنے کی کوشش کریں گے جو ان ذمہ داریوں کی صحیح اہمیت سے واقف تھے اور قوم کی طرف سے جو خدمت ان کے سپرد کی گئی تھی اس کو مومنا نہ دیانت کے ساتھ ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس سے اندازہ ہو سکے گا کہ جن بستروں پر لیٹ کر دنیا نے عیش کے مزے لوٹے ہیں، انہی بستروں پر خدا کا احساس رکھنے والے بندوں میں کیسی بے چین راتیں گزاری ہیں۔ 

حضرت ابو بکرؓ نے جب حضرت عمرؓ کو خلافت کے لیے نامزد فرمایا تو ان کو بلا کر مندرجہ ذیل نصیحت فرمائی۔

(میں تم کو ایک نصیحت کرتا ہوں۔ اگر تم اس کو یادر کھو گے تو موت سے زیادہ کوئی چیز تم کو مجبور نہ ہوگی اور وہ لازماً آنی ہے اور اگر تم اس کو بھلا دو گے تو موت سے زیادہ کوئی چیز تمہارے نزدیک مبعوض نہ ہوگی، حالانکہ تم اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے ۔ تم پر اللہ تعالیٰ حقوق دن میں ہیں۔ جن کو وہ رات میں نہیں قبول فرمائے گا۔ اور وہ نفل نہیں قبول کرے گا جب تک تم فرائض نہ ادا کر لو گے۔ ہلکی میزان دراصل ان لوگوں کی ہے جن کی میزان قیامت کے روز اس وجہ سے ہلکی ہو کہ انہوں نے دنیا میں باطل کی پیروی کی جو ہلکا اور بے وزن ہے۔ اور جس میزان میں باطل رکھا گیا ہے اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ ہلکی ہے۔ اور بھاری ہو کر انہوں نے دنیا میں حق کی پیروی کی جو بھاری ہے۔ اور جس میزان میں صرف حق رکھا گیا ہے اس کے لیے یہی زیبا ہے کہ وہ بھاری ہے اگر تم نے میری یہ نصیحت بھلا دی تو کوئی غائب تم کو موت سے زیادہ مبغوض نہ ہوگا اور تم اس سے بھاگ نہ سکو گے. 39

اسما ء بنت عمیسؓ (حضرت ابو بکرؓ کی بیوی) سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے یہ بھی فرمایا:

(میں اپنے پیچھے جو عظیم الشان ذمہ داری چھوڑ کر جا رہا ہوں اس کو سامنے رکھ کر میں نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ تم نے رسول اکرم ﷺ کی صحبت اُٹھائی ہے۔ اور دیکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ کس طرح اپنی ذات پر ہم کو اور اپنے بیوی بچوں پر ہمارے بیوی بچوں کو ترجیح دیتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کے بخشے ہوئے عطیوں کے حصہ میں سے ہم حضور ﷺ ہی کے بیوی بچوں کو ہدیے بھیجتے تھے۔ اور تم نے میری بھی صحبت اٹھائی ہے اور یہ دیکھا ہے کہ میں نے اپنے پیشتروکی کس طرح پیروی کی ہے۔ والله مانمت فحلمت، ولا همت فسهوت وانی لعلی السبیل مازغت۔ خدا کی قم میں بھی غافل ہو کے نہیں سویا کہ مجھے خواب نظر آتے اور نہ ہی میں نے ہوا میں قلعے بنائے کہ میں بھٹکتا ، میں سیدھے راستہ قائم رہا۔ اس سے کج نہیں ہوا۔ اور سب سے پہلی چیز جس سے ، اے عمر! میں تم کو ڈراتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر نفس کی ایک خاص طرح کی خواہش پوری کر دی جاتی ہے تو پھر وہ دوسری کے لیے پاؤں پھیلاتا ہے۔ رسول ﷺ کے صحابہؓ میں سے ان لوگوں سے ہوشیار رہنا جن کے پیٹ طرح طرح کے ارمانوں سے پھولے ہوئے ہیں اور جن کے دماغ اونچی اونچی فضاؤں میں پرواز کرتے ہیں بس خبردار تم وہ شخص نہ بننا اور اس بات کو خوب یادرکھو کہ جب تک تم اللہ سے ڈرتے رہو گے، یہ لوگ تم سے ڈرتے رہیں گے اور جب تم سیدھے راستے پر رہو گے یہ لوگ تمہارے لیے سیدھے رہیں گے 40

(حضرت عمرؓ کو خنجر مارا گیا۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیر المومنین، جنت کی بشارت قبول کیجئے۔ جس وقت لوگوں نے کفر کیا آپ نے اسلام قبول کیا۔ جس وقت لوگوں نے انحضرت ﷺ کا ساتھ چھوڑا آپ نے ان کے ساتھ ہو کر جہاد کیا، رسول ﷺ جس وقت دنیا سے رخصت ہوئے آپ کی موت شہادت کی موت ہو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے سب کچھ سننے کے بعد فرمایا، جو کچھ کہا ہے ذرا اس کو پھر دہرانا، میں نے تعمیل ارشاد کی۔ انہوں نے میری پوری بات سننے کے بعد فرمایا، اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ زمین میں جتنا سیم وزر بھی ہے اگر وہ سارے کا سارا مجھے مل جائے تو میں ظاہر ہونے والے دن کے ہول سے بچنے کے لیے فدیہ میں دے دوں گا .41

اس زمانے میں جو سختیاں حضرت عمرؓ نے اپنی جان پر بار برداشت کیں اور جو سختیاں اپنے بیوی بچوں پر ڈالیں ان کے بہت سے واقعات ابن سعد نے ’’طبقات ‘‘ میں روایت کئے ہیں۔ 

"ایک مرتبہ ان کے سامنے گھی میں پکا ہوا گوشت لایا گیا۔ اس کے کھانے سے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان دونوں میں سے ہر ایک بجائے خود سالن ہے پھر اس کی کیا ضرورت تھی!"

’’ایک شخص سے پینے کے لیے پانی مانگا۔ اتفاق سے اس کے پاس شہد موجود تھا۔ اس نے وہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس کو واپس کر دیا کہ میں اس قیامت کے روز حساب میں شامل نہیں کرانا چاہتا۔‘‘

’’اپنے بچوں میں سے کسی کے ہاتھ میں خربوز ے کی ایک پھانک دیکھ لی۔ اس کے پیچھے بھاگ کر امیرا لمومنین کے فرزند تم خربوزے اُڑارہے ہو اور اُمت محمد یہ تباہ ہو رہی ہے! بچہ روتا ہوا گھر سے بھاگا۔ جب ان کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ یہ خربوزہ ایک کف دست کھجور کی گٹھلیاں دے کر خریدا گیا ہے۔ تب کہیں جا کر مطمئن ہوئے۔‘‘

’’ایک عورت کو دیکھا کہ راشن میں جو آٹا اور گھی اس کو ملا ہے اسے ملا کر کچھ بنا رہی ہے۔ لیکن اس سے بن نہیں رہا ہے۔ فرمایا اس طرح نہیں اس طرح بناؤ اور یہ کہہ کر اس کے پاس بیٹھ کر خود بنانے لگے۔‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ راویت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو دیکھا کہ گھی برتن اور آٹے کی بوری لیے ہوئے ہیں۔ اتنے میں کچھ بھوکے لوگ نظر آئے تو ان کو خود بٹھا کر کھلا یا. 42

قحط کی شدت کے نو مہینوں میں یہ معمول رہا کہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر گھر میں داخل ہوئے آخر تک گریہ وزاری میں مشغول رہتے اور دعا کرتے کہ اس امت کی تباہی میرے ہاتھوں نہ ہو۔ لیکن جب یہ دعا قبول نہ ہوئی اور آسمان سے پانی کی ایک بوند بھی نہ ٹپکی تو اپنے عمال کو لکھا کہ ایک معین دن میں لوگوں کو لے کر نکلو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اس قحط کو دور فرمائے۔ خود بھی لوگوں کو لے کر نکلے۔ سر پر نبی ﷺ کی چادر مبارک تھی۔ نماز کی جگہ پہنچ کر سب نے خوب رورو کے دعائیں کیں۔ حضرت عمرؓ خود اس قدر روے کہ ان کی داڑھی تر گئی۔ عباسؓ بن عبدالمطلب پہلو میں کھڑے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور آسمان کی طرف اٹھا کر کہا، اے اللہ ہم تیرے رسول ﷺ کے چچا کو تیرے حضور سفارشی بناتے ہیں۔ حضرت عباسؓ نے بھی خوب رو رو کے دعا کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی. 43

عہدے پر تقرری کا اختیار ریاست کو تفویض کیا گیا ہے:

ریاست اہل ترین لوگوں کا انتخاب کرے گی وہی ان کو اختیارات سونپے گی وہی عہدے داروں کی اہلیت کے مطابق انہیں ترقی کے مناصب عطا کرے گی۔ رہا فرد! تو وہ عہدے کے لیے کوشش نہ کرے ۔ ایسا کرنے والا اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہے۔ اللہ کا دست سفقت اس سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ سخت تاکید پیشہ وارانہ اہلیت کے افراد کو تنبیہ کی غرض سے کی گئی ہیں اس سے حکومتی اور اصحاب اختیار پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موزوں ترین اصحاب کا انتخاب کریں۔ 

اسلامی انتظامی قواعد، تقرری اہلیت ، اوصاف تقرری کی رو سے

مناصب کا طلب کرنا منع ہے اسکی دلالت میں آنحضور ﷺ کا فرمان ہے۔ حضر ت ابوموسی الاشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ میں آنحضورﷺ کے پاس حاضر ہوا جبکہ میرے ساتھ دو آدمی بھی تھے، ان میں سے ایک نے آپﷺ سے عرض کیا:

یا رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمرنا علی بعض ما ولاک الله تعالیٰ، وقال الآخر مثل ذلک فقال النبی:انا والله لا نولی هذا العمل احداً ساله او أحداً حرص عليه.44

’’اے اللہ کے رسول ﷺ ہمیں کسی منصب پر فائز کریں اور دوسرے شخص نے بھی یہی بات کی اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا‘‘: ’’ہم اس کام پر کسی ایسے شخص کا تعین نہیں کریں گے جو اس کو طلب کرے یا اس کا لالچ کرے۔

منصب قضاء بھی اسی حدیث کے ذیل میں ہی آتا ہے کیونکہ یہ حکومتی مناصب میں سے ایک اہم منصب ہے آنحضور ﷺ کا ایک فرمان قضاء کے بارے میں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

من طلب القضاء وسفان عليه وکل اليها ومن لم یطلبه ولم ستعن عليه انزل الله ملکا یسدده. 45

( جس نے قضاء کا منصب طلب کیا اور سفارش کیا بنیاد پر اُسے یہ منصب دے دیا گیا تو اس منصب کی تمام ذمہ داری اسی کے سر ہے۔ اس کے مقابلے میں جس قاضی کو اہلیت کی بناء پر یہ منصب دے دیا گیا تو اللہ تعالیٰ اس کی تائید کے لیے فرشتہ بھیجتا ہے جو اسکی مدد کرتا ہے)

ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :

دو آدمیوں کے درمیان بطور قاضی فیصلہ کرنا مجھے ستر سال عبادت سے زیادہ مرغوب ہے۔ سیاست الملوک میں عدل کی اہمیت ہے موسی بن یوسف نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:

ان العدل سراج الدولة فلا تطفئ سراج العدل برسیح الظلم، فان ریح الظلم اذا عصفت قصفت، ریح العدل اذا هبت ربت ومن شروط الامارۃ العدل فی الاحکام 46

"عدل کسی بھی ریاست کا چراغ ہے عدل کے چراغ کو ظلم کی آندھی سے نہ بجھاؤ۔ ظلم کی آندھی سب کچھ تباہ کر دیتی ہے جبکہ عدل کی ہوا ثمر آور ہوتی ہے احکام میں عدل حکومت کی بنیادی صفات میں سے ہے"

عدلیہ کی آزادی کا تصور اسلامی معاشرے میں اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ معاشرہ میں اہل حل وعقد اور حکومت سے ذمہ دار افراد اس آزادی کو یقینی بنانے کے لیے سرکاری ملازمین جدوجہد کرتے ہیں العتبی روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم المہدی نے ان کو ہدایت کی:

"اگر مجلس قضا میں آپ کو کسی سے تنازعہ ہو جائے تو ہر گز یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ آپ نے اس پر آواز بلند کی یا اس کی طرف اشارہ کیا ، بلکہ یہ ضروری ہے کہ آپ کا ارادہ ٹھیک ہو اور راستہ مقرر شدہ ہو۔ کوشش کرو کہ مجالس قضاء میں لوگوں کو ان کے حقوق ملیں" 47

سیاست شرعی کا قاعدہ کلیہ ہے کہ انہی لوگوں کو فرائض منصبی سونپے جائیں گے جن میں انہیں ادا کرنے کی صلاحیت ہوگی 48

خلفاء راشدین ولاۃ اور قضا کے یقین کے موقع پر قوت وامانت کی شرط کا لحاظ کرتے تھے اسی لیے حضرت عمر بن الخطابؓ کے متعلق قول ہے کہ : هذا والله القوی الامین. 49

قضاء کے متعلقہ شرائط کے وجود کو یقینی بنانے کے لیے حکومت وقت یا خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ قضاق کے تقرر کے لیے ان کی صلاحیتوں کو جاننے کے لیے اختیار لیں تاکہ اس منصب پر وہی جائز ہو جو اس کا حق دار ہو 50

اسلامی نظام قضاء میں تقرری کے لیے امتحان کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں اس لیے حکومت وقت اس موقع پر جو مناسب طریقہ ہو اختیار کر سکتی ہے شرط صرف یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب ہو جو عدل و انصاف کر سکیں ۔ اس ضمن میں فقہا کا کہنا ہے کہ (خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ قضاء کے منصب پر اس کے اہل شخص کا تقرر کرے 51.

اسلام سرکاری مناصب کے لیے دوڑ دھوپ کو پسند نہیں کرتا :

اسلامی اصولوں کی رو سے مناصب حریص لوگوں کو نہیں دیئے جاتے بلکہ اس کی وجہ سے تقرری سے بھی منع کیا جا سکتا ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے:

انا والله لا نولی من ساله ولا من حرص عليه52 جس نے کسی منصب پر تقرری طلب کی یا اس لالچ کیا تو اسے ہم اس منصب پر نہیں لگائیں گے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ مناصب عامہ امانتیں ہیں اور اگر یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائیں جو ان کے اہل نہیں تو وہ ان میں خیانت کرتے ہیں۔ کیونکہ السیاسۃ الشریعہ میں کہا جاتا ہے کہ:

فاذا ائثمن الرجل الخائن علی وضع الامانات کان کمن استدعی الذئب علی الغنم 53

"خائن شخص کو امانتوں کی جگہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے بیڑ یئے کو بکریوں کی رکھوالی کے لیے لگا دیا جائے"

حکومتِ نبوی کے شہری نظم و نسق کے شعبہ میں افسروں اور حکام کی اوصاف تقرری:

حکومتِ نبوی کے شہری نظم و نسق کے شعبہ میں افسروں اور حکام کی تقرری کی سب سے پہلی شرط و صفت اسلام پر پختہ عقیدہ تھا کہ اس کے بغیر تقرری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس کے بعد دوسری اہم ترین شرط صلاحیت ولیاقت تھی اور یہ اتنی اہم اور ہمہ گیر شرط تھی کہ اس کے سامنے سبقت اسلام اور خدمات دینی بھی مان پڑھ جاتی ہیں۔ سبقت اسلام یا دینی معلومات بذات خود اہم ترین خصوصیات ہیں اور دین ومذہب کے باب میں ان سے بہتر اور کوئی صفت نہ ٹھہرے لیکن انتظام وانصرام میں انتظامی لیاقت، سیاسی تدبر، دنیاوی سوچ وبوچ، معاملہ فہمی اور حالات ومواقع کی واقفیت وغیرہ زیادہ اہم تھیں اور ان کی رعایت نبویﷺ انتظامیہ میں ہمیشہ اور بھرپور کی گئی تھی۔اس لئے متاخر مسلمانوں اور نوجوان صحابہ کو اکابر صحابہ اور سابقین کرام پر اکثر وبیشتر ترجیح دی گئی تھی۔

علاقائی و قبائلی رعایت بھی وجہ تقرری بن سکتی تھی لیکن اس کی حیثیت ہمیشہ ثانوی ہی رہی جہاں تک سماجی قدرومنزلت اور خاندانی جاہ وعزت کا تعلق ہے تو نبوی انتطامیہ میں اور دوسری شعبوں کی مانند اس کا قطعی سوال نہیں پیدا ہوتا جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے۔رشتہ داری، قرابت و خاندانی تعلق نہ تو تقرری کی بنیاد بنتے تھے اور نہ تقرری میں مانع ہی تھے۔حکومت نبوی کی اساس صلاحیت اور لیاقت کی اوصاف پر رکھی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہرشعبہ ومحکمہ میں پوری طرح مثالی اور کامیاب ثابت ہوئی۔مقابلے کا امتحان (پبلک سروس کمیشن ۔ اتھارٹیز) اسلامی طریقہ کار :

مختلف سرکاری عہدوں پر اہل لوگوں کو فائز کرنا مملکت اسلامیہ کا فرض ہے اسی لیے (اولی الامر) سربراہ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مختلف عہدوں کے اہل لوگوں کی تلاش شروع کرے۔ لیکن ساتھ ساتھ لوگوں کو اسلام مختلف سرکاری عہدوں کے لیے حریص ہونے سے بھی منع کرتا ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام نظم و نسق میں تقرری خود طلب کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ اس سے تو منع کیا گیا ہے۔ 

اسلامی نظام حکومت میں استحقاق کے بغیر سرکاری مناصب طلب کرنے سے منع اس لیے فرمایا گیا ہے کہ سربراہ حکومت اپنے ہاں محدود لوگوں میں سے جن کو وہ جانتا ہو آزادی سے مناسب افراد کا انتخاب کر سکے۔ اس قسم کی مثال ایسے ہے جیسے وزیراعظم نے پارلیمنٹ کے ممبران میں سے اپنے وزراء کا انتخاب کرنا ہو اور وہ ان ارکان کی صفات کو جانتا ہو تو ممبران کے لیے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے لیے لابی کریں بلکہ وزیراعظم کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مناسب افراد کا انتخاب اپنی کابینہ کے لیے کرے بغیر اس کے کہ وہ لوگ اپنے آپ کو امیدوار کے طور پر پیش کریں۔ 

لیکن جب کسی عہدے کے لیے بہت زیادہ تعداد ہو اور حکومت ان کی صلاحیتوں کو نہ جانتی ہو تو ایسی صورت میں نظام اسلامی کسی منصب کے لیے امیدوار بننے سے منع نہیں کرتا جب لوگوں کی بہت بڑی تعداد میں سے کوئی اپنے آپ کو امیدوار کے طور پر پیش کرتا ہے تو وہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنی صلاحیتوں سے آگاہ کر سکے۔ اور یہ بتا سکے کہ کن صفات کی بنا پر وہ منصب حاصل کرنے کا حق دار ہے۔54

قرآن پاک کے الفاظ میں حضرت یوسف ؑ نے کہا:

" قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَآئِنِ الأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ"55 (زمین کے خزانوں کی نگرانی میرے ذمہ لگادو میں ان کی حفاظت کرنے والا اور علم رکھنے والا ہوں)

حضرت یوسف اپنی صلاحیتوں سے آگاہ تھے۔ اس لئے انہوں نے ایسے بادشاہ کے سامنے ان کا اظہار کرنا مناسب جانا جو اس سے آگاہ نہ تھا۔ اسی بناء پر علماء اسلام نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ جب مناصب غیر اہل لوگوں کو سونپے جارہے ہوں تو اہل افراد کو اپنی صلاحیتوں سے حکومت کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ کوئی منصب ایسے شخص کے سپرد نہ ہو جو اہل کا اہل نہ ہو۔ اس ضمن بعض شوافع کاکہنا ہے کہ جن لوگوں میں انتہاد کی شرائط مکمل ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ حکومت کو اس سے آگاہ کردیں اور قضا قاضی کا خطبہ دین۔ ان میں سے بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ ان کے لئے ضروری ہے جب کہ معاملات ان لوگوں کے ہاتھ میں آجائیں جو اس کو ادا نہ کرسکتے ہوں۔

سرکاری ملازمین کی موجود دور میں تقرری السياسة الشرعیہ کی روشنی میں:

سول سروس کی تشکیل اور پبلک سروس کے ذریعے اہلکاروں کے انتخاب کے لئے ہر ملک میں مختلف قوانین اور ضابطے ہیں۔ ان میں بعض قواعد تمام ممالک میں یکساں ہیں اور بعض قواعد مختلف تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی روایات کی بناء پر منفرد اور متمیز ہیں۔ اسلامی نظام حکومت میں مملکت کے مختلف داخلی اور خارجی امور کو چلانے کے لئے اہلکاروں اور کارندوں کی تعینی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ سیاسۃ شریعہ میں اس کام کے لئے ضروری قواعد اور اصول بیان کردیئے گئے ہیں 56

اسلامی شریعہ میں ایک عہدہ کیلئے طلبگار ہونیا کوئی اچھا نہیں گنا جاتا اور یہ حاکم وقت کا فرض ہے کہ سرکاری دفاتر کیلئے اہل تر لوگوں کی تلاش کرے۔

موجودہ دور میں یہ معیار کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اہم دفاتر ، امور، ملٹری لیڈر شپ، بہت سے انتظامی امور کے سربراہوں کیلئے اعلی قابلیت معیار کے لوگوں کو چناؤ کرے اس کے لئے اسلامی کوائف اصول وضوابط اہلیت کا اطلاق کرے۔ باقی دفاتر کے لئے ممکنہ حد تک متعلقہ حکومتی ذمہ داریوں کوصحیح اشخاص کا انتخاب کرنا چاہیے ۔

پس اس کے لئے ایک مربوط نظام ہوجس میں تعلیمی معیار اور کم از کم مطلوبہ معیارات طریقہ انتخاب میں ملبوش خاطر رکھی جائے مطلقہ اہلیت معیار اور تقرری کیلئے امیدواران کی ایمانداری اہلیت ان کی تعلیمی سرٹیفکیٹ سے عیاں ہو چیک کرے۔

ان مقاصد کے حصول کیلئے اعلی ترین معیار، کسی بھی قسم کے اثر و رسوخ کو ملحوظ خاطر نہ لائے۔ بلکہ نہایت مناسب اعلی معیاری تقرریاں ضرورت کے مطابق کی جائے جس امیدوار میں اہلیت معیار جو کہ تقرری کے لئے ضروری ہو اگر نہیں تو بلاشبہ بیشک وہ کوئی قریبی دوست ہو اس کو ملازمت نہ دی جائے۔اختیارات گورنروں اور امور مملک چلانے والوں کے پاس ایک امانت ہے۔ ان کو اس کا لحاظ و پاسداری کرنا چاہیے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے۔اللہ تعالی کے احکامات اور اسلامی شرعیہ کیمطابق سرکاری ملازم کا انتخاب کیا جائے نہ کہ کوئی عزیز رشتہ دار ہوں جبکہ مطلوبہ اعلی معیار اہلیت کو نظر انداز کیا جائے۔ یہ اعتماد اور مناصب دونوں کا ضیاں ہوگا حضرت محمدﷺ نے فرمایا’’ جب ایک اعتماد ضائع ہوتا ہے اور حساب کے دن پر‘‘ اس طرح آپ ؐ سے پوچھا گیا کہ یہ کس طرح ضائع ہوگا۔آپؐ نے فرمایا کہ جب اعلی عہدیدار ان حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں کو اعتماد کھو دیں(57)

تاریخ اسلام میں خلفاء وحکام کی لوگوں دادرسی کیلئے لوگوں سے ملنے کیلئے ایک دن مختص کرتے تھے کام میں وسعت ہوتی گئی تو مقامی حاکم ڈپٹی کمشنر بھی اس عمل میں شامل ہوتا ہے۔

تاریخی ارتقاء کے بعد اس ادارے نے جو ہیئت اختیار کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارہ عوام پر سرکاری ملازمین کی زیادتیوں کے ازالے کے لئے ہے۔ عالم، مرتشی اور بدعنوان ملازم کے بارے میں حاکم کو اطلاع دے کر انصاف طلب کرنا رعایہ کا حق ہے اسی حق کے حصول کیلئے یہ ادارہ اسلامی تصور عدل کی عکاسی کرتا ہے۔

آج كل کے دور میں ولایت مظالم کا احیاء ہو جائے تو نہ صرف عوام کی مشکلات میں کمی ہوسکتی ہے بلکہ عدالتوں میں مقدمات بھى کم ہوسکتے ہیں۔

حوالہ جات

1۔سورہ الاحزاب،آیت ۲۱

2۔Sarwar Ghulam, Islam: Beliefs and Teachings (Dawa Academy IIU, Islamabad, Aftab Alam, Printing Press Lahor, November 1992) P 13, 14

3۔سورہ اعراف، آیت ۶۵

4۔سورہ الشعراء،آیت ۱۶۳

5۔ سورہ بنی اسرائیل، آیت۸۰

6۔سورہ الحدید،آیت۲۵

7۔سورہ الصف،آیت۶۱

8۔سورہ المائدہ،آیت۴۴

9۔سورہ الحج،آیت۴۱

10۔سورہ النساء،آیت۵۹

11۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھیۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ،حدیث نمبر۴۷۱۹

12۔سنن ابو داود،کتاب القضاء الاقضیۃ،باب فی طلب القضاء،حدیث نمبر۳۵۷۱

13۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام،باب من اشرعی رعیۃ فلم ینصح، حدیث نمبر ۲۲۲۰

14۔ایضا، باب مایکرہ من الحرص علی الامارۃ، حدیث نمبر۲۲۰۰

15۔ صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب کراھیۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ،حدیث نمبر۴۷۲۱

16۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ،حدیث نمبر۴۷۲۱

17۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام،باب ما یکرہ من الحرص علی الامارۃ، حدیث نمبر ۴۷۳۰

18۔صحیح بخاری، کتاب الاحکام،باب من اشرعی رعیۃ فلم ینصح، حدیث نمبر ۲۲۰۱

19۔سورہ الانفال،آیت۲۷

20۔صحیح بخاری،کتاب العلم،باب فصل العلم،حدیث نمبر۵۹

21۔سورہ التوبۃ،آیت۱۰۵

22۔سنن ابو داود،ص۴۴

23۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب نھی عن طلب الامارۃ والحرص علیھا، حدیث نمبر ۱۷۳۳

24۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ ،باب تحریم ھدایا العمال،حدیث نمبر ۴۷۳۸

25۔ایضا،حدیث نمبر۴۷۴۲

26۔ایضا،حدیث نمبر۴۷۴۳

27۔ شہاب الدین احمد بن ادریس قذافی، قاضی اور انتظامیہ کے دائرہ ہائے کار، ص۵۵

28۔ایضا،ص۶۳29۔سورہ القصص،آیت۲۶

30۔سورہ النساء،آیت۵۸

31۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب کراھیۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ، حدیث نمبر ۱۷۲۵

32۔صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب نھی عن طلب الامارۃ والحرص علیھا، حدیث نمبر ۱۷۱۵

33۔شرح النووی صحیح مسلم،کتاب،ج۲،ص۲۱۰

34۔ ابو رکبۃ حسن عبداللہ،التنظیم الاداری فی الفکر الاسلامی، ص۳۰

35۔ابن تیمیہ،السیاسۃ الشرعیہ،ص۱۱

36۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام، یکرہ من الحرص علی الامارۃ،حدیث نمبر ۴۷۳۴

37۔سنن ابو داود،کتاب الامارۃ،باب ، فی طلب القضاء ، حدیث نمبر۳۵۷۷

38۔کنزل العمال،ج۶،ص۲۰۶۔

39۔امین احسن اصلاحی،اسلامی ریاست،ص۲۷۵،۲۷۷

40۔امام ابو یوسف،کتاب الخراج،ص۶،۷

41۔ایضا،ص۷،۸42۔طبقات ابن سعد، ج5،ص72

43۔امین احسن اصلاحی،اسلامی ریاست،ص۲۷۹

44۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام،باب یکرہ من الحرص علی الامارۃ،حدیث نمبر ۴۷۳۰

45۔سنن ابو داود،کتاب الاقضیۃ،باب فی طلب القضاء التشرالیہ، حدیث نمبر۳۵۷۸

46۔محمد بن یوسف،واسطۃ السلوک فی سیاسۃ الملوک،ص۲۳۔

47۔عبدالوھاب خلاف، السلطات الثلاث فی الاسلام، مجلۃ القانون والاقتصاد،ص۸۵۵۔

48۔محمد المبارک،نظام الاسلام، الحکم والدولۃ،ص۹۵۔

49۔ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،ج۳،ص۵۶

50۔الماوردی،تسھیل النظروتعجیل الظفر،ص۱۹۶

51۔حسینی،الادارۃ العربیۃ،ص۳۳۳۔

52۔صحیح بخاری،کتاب الاحکام،باب ما یکرہ من الحرص علی الامارۃ،حدیث۴۷۳۰

53۔الطرطوسی، ابوبکر بن الولید،سراج الملوک،ص۸۶۔

54 ۔kamali Muhammad Hashim, Siyasah Shariyah or the Political of Islamic Government, The American Journal of Islamic Social Sciences, V. 6, P 196

55۔سورہ یوسف،آیت۵۵

56۔ایضا۔

57۔صحیح بخاری،کتا ب ا لعلم،حد یث۵۹،ص۱۔۳۳

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...