Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 1 of Al-Idah

سوشل میڈیا کا استعمال اخلاقیات اور شریعت کے نکتہ نظر سے: ایک تفصیلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060034497_841

Pages

29-44

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/357/273

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/357

Subjects

Social Media Morality Islamic Sharia Humanity Social Media Morality Islamic Sharia Humanity

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ جہاں انسان کی زندگی میں اچھائیاں جگہ لے رہى ہیں وہاں برائیوں نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے ۔ انحطاط اور اخلاقی گراوٹ کے بہت سے زمانے گزرے ہوں گے، جس میں انسانیت کا ہر پہلو عروج و تنزولی کا شکار ہوا ہوگا ، لیکن دور حاضر میں سوشل میڈیا کے سلبى پہلو نے جس انداز میں اقدار کو پامال کیا ہے شاید انسانیت اس سے پہلے ایسے دور سےنہیں گزری ہوگی۔ سوشل میڈیا پر انسانی شکلوں کی بگاڑ، مخالفین پر طنز و تشنیع ،عزتوں کی پامالی اور بلا تحقیق باتوں کی تشہیر ،نامحرموں کے ساتھ بلا ضرورت گفت و شنید اور دوستی ایسے مسائل ہیں جن کا علاج موجودہ دور کے محققین کے پاس اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔

ملک میں زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے جن میں اکثریت سوشل میڈیا کے استعمال میں ایسی مگن ہے کہ دنیا و مافیہا سے بے خبرہے۔ اپنوں سے دوری بے گانوں سے یاری، سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ۔ اور اسلام نا محرم مردوں اور عورتوں کے اختلاط،میل ملاپ اور بات چیت کی ممانعت کرتا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر روزانہ لاکھوں مرد اور عورتیں باہمی روابط کو بڑھاتے ہیں۔ غیر اخلاقی اور فحش مواد نوجوان طبقے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ نوجوان طبقہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتا ہے لیکن ہم اپنے ہاتھوں اپنا مستقبل اندھے قاتل کے حوالے کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان اپنے آباء سے باغی اور سماجی قدروں کو روند رہے ہیں جو مناسب تربیت کی متقاضی ہے، سوشل میڈیا کا استعمال کیجیے اور ضرور کیجیے، لیکن تہذیب اخلاق اور اسلامی دائرہ کار میں رہتے ہوئے ۔

سوشل میڈیا یعنی فیس بک، ٹیوٹر، اسکائپ، وائبر، انسٹا گرام، یوٹیوب، میسنجرز آج ہر چھوٹا بڑا، بزرگ اور خواتین سب ہى سکساں استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک قلیل عرصے میں اپنی حیثیت منوائی ہے۔ پیغام رسانی کا سب سے تیز اور آسان ترین آلہ ہے۔ اور اس کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا الیکٹرونک پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ طاقت ور اور موثر ثابت ہواہے۔

فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بنانا:

فی نفسہ فیس بک پہ اکاؤنٹ بنانا جائز ہے اور اس میں وہی تفصیل ہے کہ اگر تبلیغ کے لئے بنائے تو نہ صرف جائز بلکہ باعث ثواب ہوگا اور صرف دنیاوی معلومات کے لئے تو جائز ہوگا۔ جبکہ اگر گناہ کے امور کے لئے ہو تو ناجائز ہوگا۔[1]

اکاؤنٹ کو کسی اور کی طرف منسوب کرنا :

عموما دیکھا جاتا ہے کہ بسا اوقات لوگ کسی مجہول یا فرضی نام سے اپنا آئی ڈی بناتے ہیں۔ کیا ایسا عمل جائز ہوگا یا نہیں؟

اس میں مقصد اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر کسی کو دھوکہ دینا ، فراڈکرنا اور تجسس وغیرہ مقصد نہ ہو تو جائز ہو گا ورنہ دھوکے کے زمرے میں آئے گا۔[2]اگر ابہام پیدا کرنا مقصود ہو تب بھی جائز نہیں ۔ اس لئے کہ احادیث میں آپ ﷺنےاس کو پسند نہیں فرمایا ۔[3] البتہ اگر شناخت ممکن ہو تب قابل مذمت نہیں ہے جیساکہ ملا علی قاری ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ لیکن اگر مقصود فراڈ، دھوکہ اور غلط نظریات کی ترویج ہو تو جائز نہیں ۔[4]اسی طرح اگر کسی تنظیم، ادارہ یا کسی مشہور فکر پر آئی ڈی بنائے تو ابہام نہ ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا ۔لیکن پھر ’’ About me‘‘ میں اس کی وضاحت ہونی چاہئے ورنہ غلط انتساب کا گناہ ملے گا۔ [5]

تصاویر اپَ لوڈ کرنا:

سوشل میڈیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے اہم مسئلہ تصویر کا ہے ۔کسی بھی جاندار کی تصویر کو بلا ضرورت چسپاں کرنا قباحت سے خالی نہیں البتہ اس کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں دو مکتبہ فکر ہیں ۔ ایک جواز اور دوسرا عدم جواز کا قائل ہے۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

تصاویر کی ابتدا مصوری و مجسمہ سازی سے ہوئی ہے جوکہ ترقی کے منازل طے کرتا ہوا، فوٹوکیمرہ اور سینما سے گذر تا ہوا اب ویڈیو گرافی تک پہنچا ہے ۔ تصاویر کی حقیقت جاننے کے لئے ماضی کی ارتقائی منازل کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔

زمانہ قدیم میں مصوری و مجسمہ سازی ایک مقبول فن رہا ہے ۔ قدیم تہذیبوں میں اس کا چلن اور اس کی باقیات ملتی ہیں ۔ مجسمہ سازی کے ذریعہ انسانوں ، حیوانات ، نباتات وجمادات کی منظر کشی کے نمونے عام طور پر دستیاب ہیں ، انسانوں اور حیوانوں کی مجسمہ سازی نے زمانہ قدیم میں خصوصی مقام حاصل کیا تھا ۔ شروع میں تو ،آرٹ اور فن کے نام پر اس کا بول بالا رہا ، لیکن بہت جلد اس فن نے انسانیت کو حیوانیت اور شہوانیت کی منتہىٰ تک پہنچا دیا،۔ قدىم اقوام میں اس فن نے اس وقت انتہائی خوفناک رخ اختیار کیا جب قوموں نے اپنے معبودوں اور خداؤں کو تراشنا شروع کیا ۔ خدا تراشنے کے فن نے آگے چل کر وہ ترقی حاصل کی کہ خداؤں اور دیوتاؤں کی پوری فوج تراش ڈالی گئی ۔ بت سازی کے اس نامعقول فن نے جب اپنے اثرات ظاہر کرنا شروع کئے تو شہوانیت کا عفریت بھی جاگا اور نتیجے کے طور پر فرضی دیویوں کی تراش خراش کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔ پھر تو غضب ہی ہوگیا ۔ دیوتاؤں اور دیویوں کے جسموں کے نشیب و فراز کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شرم گاہوں تک کی مجسمہ سازی کی گئی ۔ حد تو یہ ہے کہ دیو ی اور دیوتا کے مباشرت کے مناظر بھی تراش لئے گئے ۔

فن کے ان دیوانوں نے کیوپڈ(محبت کا دیوتا) اور کام دیوی (محبت کی دیوی) کی اختراع گڑھ کر ، ان کی فرضی شباہت کا انتہائی ہیجانی انداز میں بت بنا کر ان کی پوجا شروع کر دی اور قحبہ خانوں کو عبادت گاہوں میں تبدیل کر دیا ۔ یونان کی شاندار قدیم تہذیب اسی مقام پر انتہا کو پہنچی، جہاں زناکاری ایک مبارک فعل بن گیا تھا۔ دیگر قدیم اقوام کا بھی ایساہی حشر نظر آتا ہے۔ فنِ بت تراشی نے ہی خدا کو (غیر متشکل سے متشکل) کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ ہندوستان بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز رہاہے ، جہاں لا تعداد دیوی اور دیوتاؤں کی پوجا کی جارہی ہے ۔ حتیٰ کہ ان کی شرم گاہوں کی بھی عبادت (لنگ پوجا) کی جارہی ہے ۔ انہی خوفناک و باطل نتائج کی وجہ سے اسلام نے بت سازی کو حرام کر دیا ہے، پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے خانہ کعبہ سے ۳۶۰ بتوں کو ہٹا کر ہمیشہ کے لئے بت اور بت سازی کو حرام وباطل قراردیا ۔

ارتقاءِ فنِ مصوری :

فن مصوری کے ارتقاء پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ آرٹ و فن کے نام پر اس فن نے بھی وہی کردار ادا کیا ہے جو کہ مجسمہ سازی نے کیا ہے۔ مصوری نے نفسانیت اور شہوانیت کو نسبتاً زیادہ ہوا دی ہے ۔ اوائل میں خیالی محبوبہ اورمثالی ہیروئن کو صفحہ ِقرطاس پر اتارا جانے لگا، پھر اس کو نیم عریاں اور قریب العریاں کیا گیا ۔ صنف نازک کے حسن و دل کشی کی وہ پذیرائی ہوئی کہ ترقی پسند خواتین نے اپنے جسموں کو بے حجاب اور بلا شرط مصوروں کے سامنے کر دیا، اور مصوروں نے جب ان کو صفحہ قرطاس پر اتار کر قدردانوں کے زیر نگاہ کر دیا تو ایک نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد پڑ گئی۔ جہاں مساوات کے نام پر بے حیائی اور بد کاری کو ذاتی معاملہ قرار دیتے ہوئے انہیں بنیادی حقوق میں شامل کر لیا گیا ۔ مصوری کی روح جب فوٹو گرافی میں حلول کر گئی تو پھر زمانہ ایسے انقلاب سے دو چار ہوا کہ شرم وحیا، عفت و عصمت اور پاک دامنی و پاک بازی جیسے الفاظ ڈکشنری کے گوشوں میں سسکتے رہے ۔ عشق و محبت اور پیار کی قولی اور عملی طور پر ایسی منظر کشی ہوئی ہے کہ محبت اپنی شناخت و تشریح کی محتاج ہوگئی ہے :

سکھائے ہیں محبت کے نئے انداز مغرب نے حیا سرپیٹتی ہے عصمتیں فریاد کرتی ہیں 

مصور جس کا م کو برش، رنگ اور قرطاس کے ذریعہ طویل عرصے میں کرتا آرہا تھا، ویڈیوزنے اسی کام کو چٹکی میں حل کرنے کے محاور ے کو حقیقت کا جامہ پہناتے ہوئے صرف ایک ’’کلک‘‘ میں حل کر دیا۔ مصوری کی وہ تمام خرابیاں جو صدیوں میں بھی انتہا کو نہیں پہنچی تھیں ویڈیوز نے قلیل وقفے میں وہاں تک پہنچادیا ۔ 

ان تصاویر نے فو ٹو گرافی ، سینماا ورموبائل اسکرنیوں کے ذریعہ باقاعدہ انسانی دل و دماغ کو اس طرح اپنا فرماں بردار اور مطیع بنا لیا ہے کہ اس سے رہائی خواب نظر آتی ہے۔

لیکن ہر شئے کا ایک جائز اور مثبت پہلو بھی ہوتا ہے۔ فوٹو گرافی کے بھی مثبت پہلو ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً ضروری درجے میں شناختی کارڈ بنانا، چوروں، ڈکیتوں کی تصویروں کے ریکارڈ رکھنا، دوران جنگ تصاویر لینا نیز تعلیم و تربیت کے تحت تصاویر کا استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس کے ناجائز اور منفی پہلو اتنے زیادہ ہیں کہ شمار مشکل ہے ۔ مصوری اور ویڈیوزکے متعلق علمی اورفقہی اختلافات جو کچھ بھی ہوں، نتائج کے اعتبار سے فرق نہیں ہے، دونوں ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں ۔ احادیث میں جاندار کی تصویر سازی سے متعلق جو تنبیہ آئی ہے، اس کا اطلاق مصوری اور ویڈیوزدونوں پر ہوگا۔جیسا کہ حدیث شریف میں مذکور ہے ۔

قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔[6] اسی طرح جس گھر میں کتا ا ورتصویر ہو، رحمت کے فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے ہیں ۔[7]بلکہ مصوروں کے لئے یہ بھی وعید ہے کہ جاندار کی تصویر بنانے والے کو حکم ہوگا کہ اس میں جان ڈالو، جو ممکن نہ ہوگا۔[8]ان احادیث کی روشنی میں غور کیجئے کہ تصاویر کی کیا حیثیت بنتی ہے،؟ چہ جائے کہ مستقل متحرک تصاویر کو گھنٹوں تک مسلسل دیکھنا اور تفریح کے نام پر کھلی ہوئی بے حیائی دیگر منکرات کو رواج دینا ۔ حقیقت یہ ہے کہ تصاویر سے رغبت انتہائی خوفناک جسارت ہے اور کھلی ہوئی نافرمانی ہے۔(ب)صوتی پہلو:

سو شل میڈیا کا دوسرا فنی پہلو صوت یعنی آوازہے، جس کے تحت گفتگو، نغمہ و موسیقی، تقاریر، کمینٹری وغیرہ کی آوازیں آتی ہیں ۔ ریڈیو میں صرف آواز ہوتی ہے، سو شل میڈیا میں اضافی چیز تصویر ہے۔ٹیلی کاسٹ ہونے والے پرو گراموں میں مرد وخواتین دونوں کی آوازیں ہوتی ہیں ۔ ریڈیو پراناؤنسر کی صرف آواز ہوتی ہے ، جب کہ سو شل میڈیا اسکرین پر اپنی آواز کے ساتھ بہ نفس نفیس موجود ہوتا ہے ۔ اناؤنسر میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں ،جن کے لہجے میں لوچ اور مٹھاس کے علاوہ انداز گفتگو میں اعلیٰ درجے کا بانکپن ہوتا ہے ۔ انہیں خوبیوں کی بنیاد پر ان کا انتخاب عمل میں آتا ہے ۔ سو شل میڈیا اور فلموں میں حصہ لینے والی تمام خواتین میں یہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں، بلکہ ان خصوصیات کی مقدار کی بنا پر وہ ترقی کى منازل طے کرتی ہیں۔یہی حال مرد فنکاروں کا ہے۔ سو شل میڈیا میں آواز وتصویر اس طور پر یکجا ہوتے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے جائزہ لینا مشکل امر ہے ۔

سو شل میڈیا پروگراموں کے مقاصد:

آج کل سو شل میڈیا پر ٹیلی کاسٹ ہونے والے مختلف نوعیت کے پروگراموں کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے چار اہم مقاصد ہیں ۔

(الف) سو شل میڈیا برائے تفریح:

(ب) سو شل میڈیا برائے ذرائع ابلاغ

(ج) سو شل میڈیا برائے تعلیم وتربیت و معلومات

(د) سو شل میڈیا برائے تجارت

ان چاروں مقاصد کا فرداً فرداً جائزہ لینا ضروری ہے ۔

(الف) سو شل میڈیا ، برائے تفریح:

تفریح ہر زمانے میں انسانوں کی زندگی کا اہم جزرہا ہے ۔ قدیم تہذیبوں میں بھی تفریح مختلف اور حیرت انگیز انداز میں موجود نظر آتی ہے ۔ قدیم یونانی اور رومن تہذیبوں میں ایک طرف تفریح کے ذرائع گھوڑ سواری، گھو ڑ دوڑ، فن سپہ گری تھے تو دوسری جانب نغمہ و موسیقی ، رقص وسرود کی محفلیں اور شراب و شباب بھی تفریح کے وسائل تھے، ساتھ ساتھ فلو ریڈانام کا ایک کھیل بھی انتہائی مقبول تھا جس میں برہنہ خواتین کی دوڑ ہواکرتی تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی جدید تہذیب کے نام پر وہی سب کچھ ہورہاہے جو قدیم جاہلیت اور نفس پرستی کا نتیجہ تھا۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی آڑمیں خواتین کا بے حجابانہ شمع محفل بننا، ایسے لباسوں کا استعمال جن میں زیادہ سے زیادہ جسم و حسن کی دل کشی نمایاں ہو ، سمندر کے کنارے اور سوئمنگ پول پر بر سر عام خواتین کا مردوں کے دوش بدوش (بلکہ کئی قدم آگے) انتہائی مختصر لباس میں غسل و بھاگ دوڑ، مختلف کھیلوں، فٹ بال، ٹینس، ہاکی ،کبڈی ، کرکٹ، تیرا کی اور دوڑ کے نام پر خواتین کا تقریبا عریاں ہو کر حصہ لینا، خواتین کی ترقی پسندی کی علامت گردانی جارہی ہے ۔ آج کے دور نے عورتوں میں یہ مزاج بنایا کہ وہ باہر آکر مردوں کی طرح کمائیں جس کے نتیجے میں بے شمار نئے نئے مسائل پیدا ہو گئے اور ان میں ایک مسئلہ وہ ہے جسے عر یانیت (pornography)کہا جاتا ہے اور سو شل میڈیا نے اس کی ترویج میں جو کردار اداکیا ہے وہ تعارف کے محتاج نہیں ہے ۔

اس کو انسائیکلو پیڈ یا بر ٹا نیکا میں یوں بیان کیا گیا ہے ۔

PORNOGRAPHY: the representation of erotic behaviour, as in books, pictures, or films, intended to cause sexual excitement. pornographic matter has fallen under legislative prohibition in most countries in the word on at least one of the following assumptions: (1) pornography will ! end to deprave or corrupt the morals of youth, or of adults and youth: (2) consumption of such matter is a cause of sexual crimes.[9] 

عریانیت سے مراد عشق و محبت کے مناظر پیش کرنا ہے،خواہ کتابوں میں یا تصویروں میں یا فلم میں جن کا مقصد جنسی جذبہ بھڑ کانا ہو۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں عریاں مواد قانونی ممانعت کا موضوع بن رہا ہے اس کی وجہ حسب ذیل دو مفروضے ہیں۔ (۱) عریاں مواد جوانوں یا نوجوانوں اور بالغوں دونوں کے اخلاق کے بگاڑنے والا ہے۔ (۲) اس طرح کی چیزوں کا استعمال جنسی جرائم پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

غرض کہ تفریح، نفس پرستی و شہوت پرستی کا دوسرا نام ہے ۔ دنیا بھر میں رائج اسی نوعیت کی تمام خرافات و قبیحات کے مناظر اور افعال کو تفریح کے تحت آج سوشل میڈیا پہ ڈال دیا گیا ہے،گویا کہ دریا کو کوزہ میں بند کر لیا گیا ہے ۔ اور سینمادنیا بھر میں بہترین اور ارزاں تفریح کے لقب سے اپنے کرم فرماؤں کے دلوں پر حکمرانی کرتا چلا آرہا ہے ۔ لیکن سو شل میڈیا کی آمد نے سینما ہال کی مرکزیت کو بھی ختم کر دیا ہے ۔ جو لوگ عزت و شرافت، حرام و حلال اور ذلت کے خوف سے سینما ہال تک پہنچنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے، اب وہ بھی سوشل میڈیا کے فتنوں میں ایسے گھر چکے ہیں جن سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے۔

جہاں تک فلموں اور ڈراموں کا تعلق ہے اس کو تو اتنی شہرت حاصل ہے کہ تعارف کی حاجت نہیں، اس میں بہت سے مرد و عورت کے کردار ہوتے ہیں جو معاشرے میں موجود مختلف حیثیتوں سے عصمت ، عفت، شرافت ، پاکیزگی، اخلاق، پردہ اور پاک دامنی وشرم وحیا وغیرہ جیسے الفاظ کابرسر عام کھل کر مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ حالانکہ اس سلسلے میں خدا وندی احکام انتہائی واضح ہیں ۔

قرآن مقدس سب سے پہلے مرد و زن کے تعلقات کے سلسلے میں محرم و نا محرم کی قید لگاتا ہے، اور محرموں کی ایک مستقل فہرست جاری کرتاہے ، جن کی جانب شہوت سے نگاہ ڈالنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ نہ ان سے شادی کی جاسکتی ہے ۔ ان کے علاوہ تمام عورتیں نامحرم ہیں ، ان سے شادی کی جاسکتی ہے، لیکن ان میں سے جن کی شادی ہوچکی ہے وہ حرام ہیں ۔

اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو تمہاری مملوک ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کر دیا ہے اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں ، یعنی یہ کہ تم ان کو اپنے مالوں سے چاہو اس طرح سے تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو۔[10] اس سے بھی زیادہ وعید آئی ہے کہ اور زنا کے پاس بھی مٹ پھٹکو، بلاشبہ یہ بری بے حیائی اور بری راہ ہے۔[11] نکاح کے بغیر مرد وزن کے درمیان تعلقات کو زنا کہا گیا ، جو بے حیائی اور گمراہی ہے ۔محرموں اور نامحرموں کے بارے میں مردوں وعورتوں کو قرآن ہدایت جاری کرتا ہے:

”آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔۔۔ مگر اپنے شوہروں پر ۔۔۔“[12]مسلمان عورتوں کو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کے آداب بیان کرتے ہوئے قرآن کافرمان تو یوں ہے:

”اے نبی! اپنی بیویو ں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگٹ ڈال لیا کریں اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچانی جائیں گی اور ان کو ستایا نہ جائے گا“۔[13]

اس آیت میں مسلمان خواتین کے لئے پردہ کرنا ان کی شناخت اور شرافت قرار دیا گیا ہے:

اجنبی اور غیر محرم عورتوں کے حسن اور زینت کو دیکھ کر لطف اندوز ہونے کو آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے ۔ اس کے متعلق حدیث ہے۔

’’حضرت جریرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ غیر محرم عورتوں پر اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا نظر پھیر لو ۔“[14]

حضرت بریدہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا:۔۔۔ اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر معاف ہے مگر دوسری نظر کی اجازت نہیں۔‘‘[15]

نبی ﷺ نے فرمایا:۔۔۔’’ جو شخص کسی اجنبی عورت کے محاسن پر شہوت کی نظر ڈالے گا، قیامت کے روز اس کی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘[16]

ان کے علاوہ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آنکھیں زنا کرتی ہیں، ان کا زنا نظر ہے ، ہاتھوں کا زنا دست درازی ہے ، پاؤں کا زنا ، زنا کی طرف چلنا ہے اور زبان کا زنا گفتگو ہے اور دل کا زنا، زنا کی خواہش و تمنا ہے ۔

مندرجہ بالاآیات واحادیث کی بنیاد پر ہر ایک مسلمان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ سینما ہال کے پردے پر یاسو شل میڈیا کى اسکرین پر غىر محرم عورتوں کو ایک دو نظر کیا مستقل بیٹھ کر گھنٹوں گھورگھور کر دیکھنا اور لطف حاصل کرنا کس قماش کی تفریح اور کتنا فحش اور اخلاق سوز فعل ہے ۔ اس کا مرتکب ہو کر مسلمان اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دیتے ہیں اور اپنی آنکھوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈلوانے کے سزاوار ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے آدمی حقیقی زنا کا ارتکاب نہیں کرتا لیکن زنا کی دوسری تمام قسموں کا مرتکب یقیناًہوتا ہے ۔

حالانکہ ضرورتاً نا محرموں کو دیکھنا اور ہاتھ لگانا جائز ہے، مثلاً ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا، شادی کی غرض سے منسوبہ کو دیکھنا، ڈوبتی ہوئی یا جلتی ہوئی جوان عورت کو گود میں لے کر بچانا وغیرہ۔ لیکن دونوں صورتوں میں نیتوں میں بڑا فرق ہے ۔

جو کچھ گھٹنے کے اوپر ہے وہ چھپانے کے لائق ہے اور جو کچھ ناف سے نیچے ہے وہ چھپانے کے لائق ہے۔[17]جبکہ عورتوں سے متعلق ستر کا حکم ہے ۔جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے سوائے چہرے اور کلائی تک جوڑ ہاتھ کے ۔[18]

یہ حکم مردوں اور عورتوں کے لئے عام ہے ۔ ستر کا یہ حصہ ایک دوسرے کے سامنے کھولنا حرام ہے بجز شوہر و بیوی کے۔

اس سلسلے میں مزید رہنمائی کی جاتی ہے۔حدیث شریف میں آیا ہے۔کوئی مرد کسی مرد اور کوئی عورت کسی عورت کو برہنہ نہ دیکھے ۔[19]

بلکہ شریعت میاں بیوی کو مزید خبردار کرتی ہے، حالانکہ دونوں کا ستر ایک دوسرے کے لئے حلال ہے۔ 

جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے تو اس کو چاہیے کہ ستر کا خیال رکھے، بالکل گدھے کی طرح ننگے نہ ہو جائیں ۔[20]

اس کے برعکس جو ان اصول پر عمل نہىں کرتىں ایسی عورتوں کے متعلق جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو بھی ملاحظہ کیجئے ۔ 

ارشاد نبوی ﷺ ہے۔جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہیں اور دوسروں کو رجھا ئیں اور خود دوسروں پر رجھیں اور بختی اونٹ کی طرح ناز سے گردن ٹیڑھی کرکے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بو پائیں گی۔[21]

یہ حدیث فلم اور سو شل میڈیا کے تحت ٹیلی کاسٹ ہونے والے جملہ پروگراموں میں شرکت کرنے والی تمام خواتین کے کردار کا پوسٹ مارٹم ہے ۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے ۔بنی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی ایسی عورت کا ہاتھ چھوئے گا ،جس کے ساتھ اس کا جائز تعلق نہ ہو تو اس کی ہتھیلی پر قیامت کے روز انگارہ رکھا جائے گا۔[22]

مردوں اور عورتوں کو قرآن نے زبان اور آواز کے فتنے سے بھی خبردار کیا ہے ۔ نظر کے بعد شیطان کاتیر زبان ہے ۔ عموما ًآواز میں حلاوت ، لہجے میں بانکپن اور انداز گفتگو میں مٹھاس ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے جن کےدل کے چور ہوتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ اگر تمہارے دل میں خوف ہے تو دبی ہوئی زبان میں سے بات نہ کرو کہ جس شخص کے دل میں ( بد نیتی ) کی بیماری ہو وہ تم سے امیدیں وابستہ کرئے گا ، بات کرو سیدھے سادے طریقے سے کرو۔[23]

سو شل میڈیا پر پیش ہونے تمام پروگرامز کا اگر غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے اور آرٹ اور جدیدیت کا بھوت سوار نہ ہو تو ہر شخص یہ نیتجہ اخذ کر سکتا ہے کہ اس میں بے حیائی کا بول بالا ہے ، خواہ کتنے بھی فائدے ہوں ۔ 

سورۃ نور میں ارشاد بای تعالیٰ ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے درد ناک عذاب ہے دینا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔[24]

انتہائی غور کرنے کا مقام ہے کہ سو شل میڈیا کے جملہ پروگرامز یقیناًکھلی ہوئی بے حیائی اور فاحشات کی اجتماعی طور پر اشاعت اور فروغ میں عملی طور پر شرکت کرنی ہے ،جب کہ اس میں شامل لوگوں کے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں دردناک سزا تجویز کی گئی ہے ۔ ان تمام حقائق سے نظریں چرا کر سو شل میڈیا کی تفریح میں مست رہنے والے اہل ایمان کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا؟ جبکہ قرآن کا مدعا یہ ہے۔اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے ۔[25]

سو شل میڈیا کی سیریل ویڈیوز کے متعلق عام طور پر دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ ان کی کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں اور ان میں سماجی مسائل کو پیش کر کے ان کا حل دیا جاتا ہے، اچھوں کا اچھا انجام اور بروں کا برا انجام دیکھایا جاتاہے، وغیرہ وغیرہ ۔ ان دلائل میں کوئی وزن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ برائی کو برائی سے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ چوری کی خرابی بتانے کے لئے چوری کر نے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چوری کی برائی سے ہر خاص و عام واقف ہے ۔ عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کی خرابی سمجھانے کے لئے عملی طور پر عورتوں کو چھیڑ کر دکھانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان مناظر کی نمائش کا مقصد کچھ اور ہی ہو تاہے ۔ فلم ساز اچھی طرح جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور سینما بین کیا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ ریپ (زنا بالجبر) جو کہ انتہائی گھناؤ نا فعل ہے ، اس کی خرابی سے ہر کوئی متفق ہے ، لیکن فلمی مزاج کے تحت ریپ کا منظر انتہائی مقبول عام منظر ہے اور فلمی کہانی افسانے کا ضروری حصہ ہے ۔ یہ مناظر سینما بینوں کے حیوانی اور شہوانی خواہشوں کی تسکین کے لئے نکتہ عروج ہیں ۔ یہی وہ منتہا ہے جو پوری فلم اپنے نتیجے کے اعتبار سے مرتب کرتی ہے ۔ مسلسل ریپ کے مناظر کی منظر کشی کر کے فلم ساز ریپ کے متعلق کیا پیغام دیتا ہے؟ اخبارات ورسائل کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ریپ کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ ہمارا نوجو ان اس فلمی پیغام کو علمی طور پر انجام دے کر تفریح کے اعلیٰ منازل طے کر رہا ہے ۔ چوری ، ڈکیتی وریپ کے مجرمین کے یہ بیان بھی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں کہ یہ افعال انہوں نے ویڈیوز سے سیکھے ہیں ۔ ہمارے کم عمر بچے اس ماحول میں بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور منکرات میں پھنس کر اپنا مستقبل برباد کررہے ہیں ۔

مختلف پرچوں واخباروں میں آج کل سو شل میڈیا مخالف مضامین نظر آنے لگے ہیں ۔ ایک نئی سو شل میڈیا تہذیب کا رونا رویا جارہا ہے ، بینائی پر سو شل میڈیا دیکھنے کے بری اثرات سے باخبر کیا جارہا ہے ۔ اور بھی دیگر خرابیاں بیان کی جارہی ہیں، لیکن یہ آوازیں اتنی ہلکی اور پست ہیں کہ سو شل میڈیا کے دھماکہ خیز حسن و دل کشی کے سامنے نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہیں۔ ۔اس میں شک نہیں کہ سو شل میڈیا کو مثبت انداز میں بھی اپنایا جارہا ہے ۔ تبلیغ دین کے لئے بھی اس کا استعمال ہورہا ہے۔ مثلا دینی موضوع پر بنی سی ڈىز اور مختلف ویب سائٹس آج کل موجود ہیں۔ جن میں علمائے اسلام اور نصرانیوں کے علماء کے درمیان مناظروں میں اسلام کی حقانیت کو پر اثر انداز میں پیش کىا جاتا ہے ۔ لیکن ان میں بھی کیمرہ متعدد بار شریک جلسہ خواتین کے چہرے پر مرکوز نظر آتا ہے، جو بلا ضرورت ہے ۔

تا ہم کچھ حضرات وہ تصاویر جو موبائلز، یا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کى جاتى ہیں ان کے جواز کے قائل ہیں ۔

جو لوگ تصویر سازی کو جائز قرار دیتے ہیں وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں ۔

۱۔ "بناتے ہیں اس کے لئے جو کچھ چاہتا ہے قلعے اور تصویریں اورلگن جےسے تالاب اور دیگیں چولہوں پر جمی ہوئیں"۔[26]

اس آ یت میں صراحت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جناب سے تصویریں بنواتے تھے ، معلوم ہوا کہ تصویر سازی جائز ہے ، ورنہ ایک جلیل القدر نبی یہ کیوں کرواتے ؟

۲۔ دوسری دلیل: نبی علىہ السلام کى تمام احادیث کا مصداق جسم دار تصاویر ( مجسمے ، مورتى) ہیں، کپڑے کاغذ وغیرہ پر نقش شدہ تصویر اس بحث سے خارج ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں جہاں تصویر پر اتنی وعیدیں مذکور ہیں وہان نقشی تصویر کو الا رقما فی الثوب ( مگر جو کپڑے پر نقش ہو ) کے الفاظ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔[27]

۳۔ تیسری دلیل : ان تمام احادیث کی علت صحابہ کرام ؓ کے قلوب سے بت پرستی کے آثار ونشانات مٹانا تھے ۔جو نئے نئے شرک سے اسلام میں آئے تھے، لہذا جب عقیدہ توحید ان حضرات کے رگ و پے میں رچ بس گیا اور بتوں سے انھیں طبعی نفرت پیدا ہو گئی تو اس نوع کی تمام احادیث ازخود منسوخ ہو گئیں ، جیسے ابتداء اسلام میں خاص خاص مقاصد کے پش نظر کتوں کو مارنے حکم صادر کیا گیا ، شراب کے مخصوص برتن توڑنے کاحکم فرما یا گیا اور قبروں پر جانے کی ممانعت کی گئی مگر رفتہ رفتہ جب یہ مقاصد پورے ہو گئے تو یہ تینوں حکم منسوخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ بھی آجکل مختلف دارالافتاء نے فتویٰ دیا ہے کہ سوشل میڈیا کى تصاویر، دوسرى تصاویر کے حکم میں نہیں ہىں بلکہ یہ ’’عکس‘‘ ہے اور عکس کی حرمت کا کوئی بھی مکتبہ فکر قائل نہیں لیکن یہ بات بھی ضروری ہے کہ جس کا باہر دیکھنا جائز نہیں ان کا عکس میں دیکھنا بھی جائز نہیں ہے بحر حال دونوں قسم کے مسالک کے باوجود بھی حتی الامکان تصاویر سے بچنا احوط ہے۔

دوستی کی درخواست قبول کرنا :

سوشل میڈیا پہ وقتا ً فوقتاً مختلف قسم کے پیغامات آتے رہتے ہیں اور ان میں بعض دفعہ دوستی کا پیغام بھی آتا ہے ۔ اس صورت حال میں اس بندے کے کوائف دیکھ فیصلہ کیا جاتا ہے اگر بظاہر اس میں کسی قسم کی غیر اخلاقی بات نہیں پائی جاتی اور شرعی لحاظ سے بھی کوئی رکاوٹ بھی نہیں مثلاً نامحرم نہیں تو اجازت ہوگی ورنہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ اگر بعد میں ایسا معلوم ہوجائے کہ بندہ درست نہیں تو ان فرینڈ کیا جانا ضروری ہوگا۔ نیز یہی تفصیل دوستى کا پىغام بھىجنے میں بھی ہے۔کسی اجنبیہ عورت کے ساتھ چیٹینگ کرنا بھی ازروئے شریعت درست نہیں جیساکہ مشہور روایت ہے کہ” خبردار کوئی کسی عورت کے پاس تنہائی میں نہ جائے کیونکہ اُ نکے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے“۔[28]علامہ کاسانی فرماتے ہیں:۔”چونکہ غیر محرم خاتون کیساتھ تنہا ئی میں ہونا فتنے کا سبب بن سکتا ہے ا سلئے جائز نہیں ہے“۔[29] اور یہ فتنہ سوشل نیٹ ور کس میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

سوشل میڈیا پر تعلیمی یا مفید پروگرامز یا فورم میں شرکت کرنا :

سوشل میڈیا پر تعلیمی یا مفید پروگرامز یا فورم میں شرکت کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔جیساکہ روایت میں ہے:

" حکمت کی بات مومن کی گمشدہ متاع ہے وہ اسِے جہاں پاتا ہے اس کا حقدار ہوتا ہے۔"[30]

سوشل میڈیا سے جو مسائل پیدا ہوئے انہىں اسلامی تناظر میں دیکھنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے کہ عموما لوگوں کا دھیان اس طرف نہیں جاتا کہ ان مسائل کا تعلق بھی ہمارے دین اور شریعت سے ہے۔ جبکہ در حقیقت ان سب مسائل کا مذہب سے گہرا تعلق ہے۔

حوالہ جات

  1. ۔القرآن ،المائدۃ آیت 2
  2. ۲۔عبد الله بن محمد بن إبراهيم أبي شيبة العبسي أبو بكر ،مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث:۲۱۹/۲۹۷۴۲۲ کتاب البیوع والاقضية باب ما ذکر فی الغش، الناشر: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر، سنة النشر: 1428 - 2008
  3. ۔ القزويني، محمد بن يزيد بن ماجه أبو عبد الله ، سنن ابن ماجہ، کتاب الادب ۔باب الاستیدذان، داراحیاء الکتب العربية، رقم الحديث: 9190، ۲۰۰۹ء
  4. ۔قاری علی بن سلطان محمد القاری معروف ملا علی، مرقاۃ المفا تیح شرح مشکاۃ المصابیح رقم الحدىث:۴۱۱۰، کتا ب الادب۔ باب الاستئذان، دار الکتب العلمية، بیروت 2001ء
  5. ۔مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث۲۱۹/۲
  6. ۔ سنن ابن ماجہ، کتاب الادب ۔باب الاستیدذان، دار احیاء الکتب العربية، رقم الحدث: ۹۱۹۰، ۲۰۰۹ء۔
  7. ۔ صحیح البخاری، للامام ابی عبداللد اسماعیل البخاری دارالیمامة ،بیروت ، 1987م، 14707ھ، ۵/۲۲۲۰، حدىث ۵۶۰۵ و مسلم ۳/۱۶۷۰، حدىث نمبر۲۱۰۹۔
  8. ۔حیح مسلم للامام ابی الحسین مسلم بن الحجاج ، المکتبۃالاسلامىة، استنبول، ۱۹۵۵م، ۱۳۷۴ھ، ۳/۱۶۶۵، حدىث نمبر۲۱۰۶
  9. ۔The Encyclopedia Britannica,8/127
  10. ۔ القرآن 4: 24
  11. ۔ القرآن 17: 32 
  12. ۔ القرآن24: 30،31
  13. ۔القرآن32: 59
  14. ۔سنن ابی داؤد للامام ابی داؤد سلیمان فی الفتن ، دار احیاء اتراث العربی بیروت ،باب ما یو مر به من غض البصر، 3؍49، حدیث نمبر2141
  15. ۔ابوداؤد، باب ما یومر به من غض البصر، 3؍49، حدیث نمبر2142
  16. ۔الدرايه فی تخریج أحادیث الهادية 2/225، حدیث نمبر 949، مکتبۃ رشیدیہ کوئٹہ
  17. ۔سنن الدارقطنی،الامام علی بن عمر أبی الحسن الدار قطنی البغدادی ،دار المعرفۃ ،بیروت،1386ھ
  18. ۔شعب الایمان ، احمد بن الحسىن البیہقی ، دار الکتب العلمیۃ بیروت، 1410ھ، 6/156 ، حدیث نمبر7796
  19. ۔یعقوب بن اسحاق مسند ابی عوانہ 1/238 حدیث نمبر807 دار المعرفہ بیروت 1998م
  20. ۔ابن ماجہ 1/618 حدیث نمبر1921 
  21. ۔مسلم 4/2192، حدیث22128.
  22. ۔نصب الراية لاحادیث الهادية لعلی المرغینانی ، عبد اللہ بن یوسف الحنفی، 6/240، دارالحدیث مصر 1457ھ 
  23. ۔القرآن 53:33 
  24. ۔القرآن23:24
  25. ۔القرآن24: 31
  26. ۔البخاری 2/881 ، باب من کرہ القعود علی الصور )
  27. ۔ ) 294/ المعجم الاوسط رقم ۔ 2020 باب من اسمہ ابراہیم )
  28. ۔البخاري، باب المسك (7/ 96)، رقم: (5534)، ومسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب استحباب مجالسة الصالحين، ومجانبة قرناء السوء (4/ 2026)، رقم: (2628
  29. ۔لا یحل لرجل أن یخلو بها لاّن فیه خوف الفتنة والوقوع فی الحرام – 2(71) دارالکتب العلمية ( / ) بدائع الضائع ۔کتاب الاستحسان 722.
  30.  ۔الترمذي ابو عيسى  سنن الترمذي  ۔ باب ماجاء في فضل الفقه علی العبادۃ رقم 2/2011، الناشر: دار الغرب الإسلامي، سنة النشر: 1996
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...