Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 32 Issue 1 of Al-Idah

شریعت اسلامی میں رسم و رواج کے ساتھ تعامل کا جائزہ: مختلف اسلامی ادوار کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060034497_877

Pages

119-143

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/141/133

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/141

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام کا مقصد اصلی بنی نوع انسان کے افکار کی اصلاح اور تعمیر ذات و کردار ہے۔اس کردار سازی کے عمل میں حسن معاشرت کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے جس کا تعلق براہ راست معاشرہ کے رسوم و رواج سے ہے ۔حضور اکرم ﷺ کاورود عرب معاشرے میں ہوا جس میں دنیا کے دیگر معاشروں کی طرح رسوم و رواج کی جڑیں انتہائی مضبوط تھیں ۔ بعثت کے بعد آپ ﷺ نے ان رسوم و رواج کی ضروری اصلاح کا آغاز کیا جو عرف وتعامل انسانی اقدار کے خلاف نہیں تھے انہیں برقرار رکھا گیا اور جو اعلیٰ انسانی اقدار کے خلاف تھے ان میں ضروری اصلاح کی اور اور ناقابل اصلاح ہونے کی صورت بنی تو عضو فاسد کی طرح اُس رواج کو انسانی فطرت کے خلاف قرار دے کر بالکلیہ ختم کیا گیا ۔

معاشرتی زندگی میں رسم و رواج کی اہمیت کے پیش نظر شرعی احکامات پر یہ مقالہ پیش کیا جاتا ہے جسے درج ذیل مباحث کے تحت پایہ تکمیل کو پہنچایا گیا ہے:

مبحث اول:رسم و رواج کی اہمیت : سماجی و مذہبی تناظر میں

مبحث دوم: استنباط احکام میں رسم و رواج کی اثر پذیری : دور نبوی و صحابہ کے تناظر میں

مبحث سوم: استنباط احکام میں رسم و رواج کی اثر پذیری: دور تدوین فقہ میں

مبحث چہارم: عصر حاضر میں استنباط احکام میں رسم و رواج سے استفادہ

خلاصہء بحث

مبحث اول:رسم و رواج کی اہمیت : سماجی و مذہبی تناظر میں:

ہر قوم کے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں رسوم و رواج کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اس کی تہذیب و ثقافت ، اخلاق و عادات ، مذہبی عقائد ، ذہنی رجحانات اور طرز معاشرت پر ان کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ کسی قوم کے ترقی یافتہ اور خوش حال یا زوال پذیر اورا فلاک زدہ ہونے میں رسوم و رواج کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں اور کسی معاشرہ کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کے لیے رسم و رواج کی اصلاح ناگزیر ہوجاتی ہے ۔ قومی ترقی اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لیے یہ لازمی ہے کہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق رسوم و رواج میں بھی تبدیلی کی جائے ، بری رسمیں چھوڑی جائیں اور اچھی رسمیں اختیار کی جائیں اور جو قوم اس اصول پر عمل نہیں کرتی اور اپنی جہالت، قدامت پرستی اور تنگ نظری کی بدولت بری رسموں پر آنکھ بند کرکے عمل پیرا رہتی ہے ، وہ اپنے معاشرہ کی اصلاح و ترقی میں خود ہی رکاوٹیں پیدا کرتی اور اپنے مستقبل کو تاریک تر بنا لیتی ہے [1]۔

کسی معاشرہ میں جس چیز کا رواج ہوجاتا ہے اور لوگ جس کام کو کرنے کے عادی ہوتے ہیں اس کووہ اچھا سمجھنے لگتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ وہ رسوم و رواج کو بھی محض عادت پڑجانے کی وجہ سے اچھا سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ رسم و رواج پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کی اچھائی اور برائی پر غور نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو اختیار کرنے میں اندھی تقلید کی جاتی ہے ۔ اس لیے لوگ ان کے خلاف ہر کام کو معیوب خیال کرتے ہیں اور رسم و رواج کی پابندی کرنے کا جذبہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ بہت ہی معیوب اور نقصان رساں رسموں پر بھی سختی سے عمل کیا جاتا ہے ۔ ان کو اس لیے برا نہیں کہا جاتا کہ سب لوگ ان برائیوں کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ روایات پر عمل اور تقلید کی وجہ یہ عادت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ بعض لوگ ایسے رسوم و رواج پر عمل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے جو خود ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ہوتے ہیں[2] ۔

پیغمبرﷺ کے زمانے سے لےکرآج تک کے زمانے پر محیط اس عرصے میں قانون ساز اداروں اور فقہاء نےاپنے زمانے اور معاشرے کے رسم و رواج کو سامنے رکھتے ہوئے مختلف قوانین واصول کو وضع کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تغییرزمانہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی رسم و رواج اور عادات میں تبدیلی ایک نا گزیر عمل ہے ۔ اس کا راز یہ ہےکہ شریعت اسلامی کا نزول اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے مصالح و حقوق کو منظم کرے ،کجی کو درست کرے ، تحریفات کا خاتمہ کرے اوراگر کسی بناء پر بھی سماجی سطح پر غلط اقدار رواج پانے لگیں تو ان کی اصلاح کر کے ان میں اعتدال پیدا کرے ۔ عرف اور رسوم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ وہ معاشرے، قبیلے یا جماعت وغیرہ میں ایسے تواتر اور تسلسل کے ساتھ رائج ہوتے ہیں کہ اس کو ترک کرنا ضرر اور مشقت کا سبب بنتا ہے اور یہ چیز اسلام کے عمومی مزاج"يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا[3]" کے عمومی مزاج کے خلاف ہےلہٰذا سماجی رسومات چونکہ قومی اقدار کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اس لئے شریعت انہیں انتہائی لائق توجہ سمجھتی ہے۔

انبیاء کے معاشرتی و سماجی زندگی کی اصلاح کے طریقہ کار کو دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انبیاء کرام کا بھی بعثت کے بعد یہ طریقہ رہا کہ جس قوم میں وہ مبعوث ہوئے ان کی عادات اور رسوم کو بھی مدّنظر رکھتے اور ان رسوم و رواج کو مصلحت کلیہ کے اصول پر پرکھتے چنانچہ جو رُسومات و عادات مفاد عامہّ کے موافق ہوتے ان کو برقرار رکھتے اور اگروہ عادات و رسوم مصلحت عامہ کے موافق نہ ہوتیں تو انبیاء کرام ان کی کسی حد تک اصلاح کر تے تاہم اس اصلاح میں بھی اس بات کو پیش نظر رکھا جاتا کہ اس ترمیم سے وہ عرف و رواج بالکل غیر مانوس نہ ہو جائیں بلکہ خرابیوں کو نکال کر ان کو شریعت میں تسلیم کے قابل بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اس بات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

"وَمَا كَانَ من بَاب الْعَادَات وَغَيرهَا، فَبيَّن آدابها ومكروهاتها مِمَّا يحْتَرز بِهِ عَن غوائل الرسوم، وَنهى عَن الرسوم الْفَاسِدَة، وَأمر بالصالحة، وَمَا كَانَ من مَسْأَلَة أَصْلِيَّة أَو عملية تركت فِي الفترة أَعَادَهَا غضة طرية كَمَا كَانَت، فتمت بذلك نعْمَة الله، واستقام دينه[4]

(اور جو امور عادات و رواج کے متعلق تھے، تو اس کے آداب بیان کئے اور اس کے وہ ناپسندیدہ جہات بیان کئے جس کی بدولت رسومات میں پڑجانے سے بچا جاسکے۔ برے رسومات سے روکا اور اچھے رسومات کا حکم دیا اور جو اعتقادی و عملی رسومات (انقطاع و حی/فقرۃ وحی) کے دور میں متروک ہو گئے تھے، انہیں نئے روپ میں اپنی اصلی شکل میں متعارف کرایا۔ اس طرح انسانیت پر اللہ کی نعمت کی تکمیل ہوئی اور اس کا دین قائم ہوا)۔

جج، مفتی حتیٰ کہ مجتھد کے لئے بھی عرف یا علاقائی رسم و رواج سے باخبر ہونا ضروری ہے ،چنانچہ علامہ ابن نجیمؒ فرماتےہیں:

"وَاعْلَمْ أَنَّ اعْتِبَارَ الْعَادَةِ وَالْعُرْفِ يُرْجَعُ إلَيْهِ فِي الْفِقْهِ فِي مَسَائِلَ كَثِيرَةٍ حَتَّى جَعَلُوا ذَلِكَ أَصْلًا"[5]۔ (جاننا چاہیے کہ عرف وعادت کا اعتبار ہوتا ہے، اس کی طرف فقہ میں بہت سے مسائل کے اندر رجوع کیا جاتا ہے یہاں تک کہ علماء نے اس کو ایک اصل (شرعی) قرار دیا ہے)۔

بہت سے مسائل میں اہل زمانہ کے عرف کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہےلہٰذا بسا اوقات متقدمین فقہاء کرام نے کسی مسئلہ میں کئی آراء ذکر کی ہوں اور اس میں ترجیحی قول کو نقل نہ کیا ہو تو اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے زمانے کے عرف کے مطابق کسی قول کا ذکر کیا ، ہم بھی اسی کو بنیاد بنا کر اپنے زمانے کے مطابق فتویٰ دیں گے چنانچہ شرح عقود رسم المفتی میں ذکر ہے:

"قد تغیرت احکامها لتغییر الزمان ، إما للضرورۃ، وإما للعرف و إما لقرائن الأحوال"[6]۔ (بدلتے زمانے کے ساتھ احکام بھی بدلتے ہیں ، ضرورت کی بنا پر، یا عرف و رواج کی بنا پر یا حالات کے تقاضہ و قرآن کی بنا پر)۔

الغرض زندگی کے ہر شعبے میں انسانی زندگی عرف و رواج کی پابند ہے اور اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ رسم و راج کے مطابق سخت سے سخت امرکے لئے انسان تیار رہتا ہے جبکہ رواج کے خلاف (چاہے کام آسان ہی کیوں نہ ہو) اس کے لئے بہت مشقت و تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے۔

مبحث دوم: استنباط احکام میں رسم و رواج کی اثر پذیری: دور نبوی و صحابہ میں

رسوم و رواج کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے بذات خود بعض رسوم و رواج جو کہ مکی یا مدنی زندگی میں سامنے آئے اور وہ اسلام کے عمومی مزاج سے نہیں ٹکراتے تھے تو ان کو ختم نہیں کیا بلکہ باقی رکھا۔ حد تو یہ ہے کہ خود آپﷺ نے بہت سے احکام عرب کے اس وقت کے معاشرتی رسوم و رواج کی بنیاد پر استوار اور باقی رکھے جن میں خرید وفروخت سے لےکر نکاح میں کفاءت تک کے امور شامل ہیں۔

صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اسلامی حدود کا دائرہ عرب دنیا سے کافی آگے پھیل چکا تھا اور نئے علاقوں کو فتح کرنے سے کئی قسم کی جدید رسوم اور عادات کا سامنا ہو رہا تھا چنانچہ حضرات صحابہ کرام نے بھی اپنے زمانے کے عرف و عادت کے بارے میں جناب نبی کریم ﷺ کی سنت کی اتباع کی اور صالح عرف و رواج پر عمل کرتے ہوئے فاسد رواج کوبالکلیہ ختم کرنے کی کوشش کی اور قابل اصلاح رواج کی اصلاح کر کے اس کو شریعت کے ہم آہنگ کیا۔ اس دور میں بہت سے ایسے مسائل ملتے ہیں جن میں آپﷺ یا صحابہ کرام نے مسائل کا استنباط عرف یا رسم و رواج سے کیا ہے، اس سلسلے میں ذیل میں چند نظائر پیش کئے جاتے ہیں :

1: آپ ﷺ کے پاس ابوسفیانؓ کی اہلیہ ہندہ بنت عتبہ حاضر ہوئیں اور عرض کیا :یا رسول اللہ! ابوسفیانؓ ایک کنجوس شخص ہے، وہ مجھ کو اور میری اولاد کوحسب ضرورت خرچہ نہیں دیتا۔ کیا میں ان کے مال میں سےان کو اطلاع دیئے بغیرکچھ لے سکتی ہوں؟ اس پر آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

"خُذِي مَا يَکْفِيکِ وَوَلَدِکِ بِالْمَعْرُوفِ"[7]۔ (اپنے اور اپنے بچوں کے لئے عرف ورواج کے مطابق جتنا کافی ہو اتنا لے لو )۔

اس حدیث کی تشریح میں علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے نان نفقہ اور خرچ میں رواج کے مطابق ہی مقدار کو جائز قرار دیا اور اس میں کسی خاص مقدار کو مقرر نہیں فرمایا جب کہ امام ابن تیمیہ ؒ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"فَأَمَرَهَا أَنْ تَأْخُذَ الْكِفَايَةَ بِالْمَعْرُوفِ وَلَمْ يُقَدِّرْ لَهَا نَوْعًا وَلَا قَدْرًا" [8]۔ (آپؐ نے ابوسفیانؓ کی بیوی کو حکم دیا کہ وہ بقدر ضرورت رواج کے مطابق شوہر کے مال میں سے لے، اور آپؐ نے اس لئے کسی خاص قسم کا خرچہ اور اس کی مقدار متعین نہیں فرمائی)۔

ابن قدامہؒ(المتوفى: 620ھ)بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہر انسان اپنے خاندان اور علاقے کےرواج کے مطابق اپنے خاندان والوں پرنان نفقہ اور دیگر اخراجات کرنے کا پابند ہے ، چنانچہ امیر آدمی اس وقت کے مطابق بافراغت کھانے پینے کے بندوبست کرنا کا پابند ہے، جو آدمی مالی لحاظ سےتہی دست ہو وہ کفایت(بقدر ضرورت ) کو معیار بنا کر خرچہ کرے گا اور متوسط آدمی درمیانہ رویہ اپنائے گا ، ان سب باتوں کا خلاصہ انہوں نے خود کیا :

" وَالصَّحِيحُ مَا ذَكَرْنَاهُ، مِنْ رَدِّ النَّفَقَةِ الْمُطْلَقَةِ فِي الشَّرْعِ إلَى الْعُرْفِ فِيمَا بَيْنَ النَّاسِ فِي نَفَقَاتِهِمْ، فِي حَقِّ الْمُوسِرِ وَالْمُعْسِرِ وَالْمُتَوَسِّطِ"[9]۔ (اور صحیح وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ نفع کے بارے میں مطلقاشریعت کا فیصلہ کرتے ہوئے مال دار، تنگ دست اور درمیانہ حال تینوں قسم کے افرادکے حق میں لوگوں کے درمیان نفع کے رواج کو دیکھا جائے گا)۔

2: بیع سلم(وہ بیع جس میں قیمت پہلے ادا کیا جائے اور مبیع(فروخت شدہ چیز)کو بعد میں خریدارکے حوالے کیا جائے) کابیع و شراء کے ضابطے کے مطابق جواز ممکن نہیں اس لئے کہ یہ" بیع ما لیس عندک " ہے یعنی ایسی چیز کا بیچنا ہے جو معاملہء بیع کے وقت بائع کی ملکیت میں ہے ہی نہیں لیکن قرآن و سنت میں اس کا جواز صرف اور صرف تعامل اور لوگوں میں اس کے متعارف ہونے کی وجہ سے درست قرار دیا گیا ہے۔قرآن میں ارشاد ہے: "يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ[10]

اس آیت میں إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ سے مراد بیع سلم ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس  سے مروي ہے[11] اور ابن جریر طبریؒ بھی جامع البیان میں اس سے مراد بیع سلم ہی لیتے ہیں [12]۔ بیع سلم کے بارے میں آپﷺ کایہ درج ذیل تعامل بدر الدین عینیؒ نے البنایہ میں ذکر کیا ہے:

" أنه عَلَيْهِ السَّلَامُ:نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم[13]"(آپﷺ نے اس چیز کی خرید و فروخت سے منع فرماےا جو کہ انسان کے پاس موجود نہ ہو لیکن بیع سلم میں اجازت دی)۔

صحیحین میں حضرت ابن عباسؓ سے بیع سلم کی اجازت بطور عرف ورواج مروی ہے:

قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَالنَّاسُ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ الْعَامَ وَالْعَامَيْنِ أَوْ قَالَ عَامَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةًشَکَّ إِسْمَاعِيلُ فَقَالَ مَنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ فَلْيُسْلِفْ فِي کَيْلٍ مَعْلُوم وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ[14]۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ اس وقت پھلوں میں ایک سال یا دو سال کی مدت پربیع سلم کرتے تھے یا یہ کہا کہ دو سال یا تین سال کی مدت پر سلم کرتے تھے(راوی اسماعیل کو شک ہوا،) آپؐ نےفرمایا: جو شخص کھجور میں بیع سلم کرے تو اسےچاہیے کہ معین ناپ اور مقررہ وزن میں ہو)۔

یہ طریقہ مکہ مکرمہ کے تجارتی رواج کے خلاف تھا، تاہم آپﷺ نےمدینہ تشریف آوری کے بعد مکہ کے رواج کو معیار قرار نہیں دیا بلکہ اہل مدینہ کے تعامل کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے رسم کو جائز قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خریدوفروخت، ناپ تول اور کاروبای معاملات میں ہر علاقے کے مخصوص رسم و رواج کو مدّنظر رکھا جائے گا ۔

یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ مفید ہوگا کہ امام بخاریؒ "بَابُ مَنْ أَجْرَى أَمْرَ الأَمْصَارِ عَلَى مَا يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ فِي البُيُوعِ وَالإِجَارَةِ وَالمِكْيَالِ وَالوَزْنِ، وَسُنَنِهِمْ عَلَى نِيَّاتِهِمْ وَمَذَاهِبِهِمُ المَشْهُورَ[15]" کے عنوان سے صحیح بخاری میں ایک باب لائے ہیں جس میں ان چند احادیث اور واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے میں رسم و رواج کو معاملات میں شرعی نکتہ نگاہ سے بڑی اہمیت دی جاتی تھی اور اس کی طرف علامہ ابن حجر ؒ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاہے: "مقصوده بهذه الترجمة إثبات الاعتماد على العرف "[16] (امام بخاری کا اس باب سے مقصد عرف پر اعتماد کو ثابت کرنا ہے)۔

2: سیرت میں رسم ورواج کی بنیاد پر قرار دئے جانے عمل کی ایک اور مثال دیت علی العاقلہ کی ہے،قدیم معاشروں میں خون کا بدلہ خون ممکن نہ ہوتا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد جنس دلا دیا جاتا ۔ البتہ بنی اسرائیل میں خون بہا کا یہ دستور نہ تھا۔ اسلام نےعرب قدیم معاشروں کے رواج کو جائز قرار دیا۔ حضرت عباس نے قرآن حکیم کی آیتیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی"[17] کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں بھی خون بہا قبول کر لیا جائے۔ دیت علی العاقلہ کا معاملہ بھی عرب معاشرے میں ابتداءََ رواج پذیر تھا اور آپ ﷺ نے بھی اس رواج کو برقرار رکھتے ہوئے دیت علی العاقلہ کا حکم برقرار رکھا اور اس کے مطابق فیصلے بھی فرمائے ، اس سلسلے میں ایک روایت ہے:

"اقْتَتَلَتْ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَی بِحَجَرٍ فَقَتَلَتْهَا فَاخْتَصَمُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةَ عَبْدٍ أَوْ وَلِيدَةٍ وَقَضَی بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَی عَاقِلَتِهَا"[18]

(بنوہذیل کی دو عورتیں لڑ پڑیں تو ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مار کر جان سے مار ڈالا، دونوں طرف کے لوگوں نے مقدمہ نبیﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ ﷺنے فیصلہ فرمایا کہ اس کے جنین کی دیت ایک غلام یا باندی کا غرہ (تاوان) ہے اور عورت کی دیت کے بارے میں فیصلہ فرمایا کہ وہ قاتلہ کے عاقلہ پر ہوگی)۔

3: سیرت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے آپ ﷺ کسی بھی تنازع کی صورت میں فیصلہ فرمانے میں بھی رسم و رواج کو ملحوظ نظر فرماتے تھے چنانچہ ایک انصاری نے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حرہ نامی ندی سے سیرابی کے متعلق جھگڑا کیا جس سے کھجور کے درختوں کو سیراب کیا جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

" سْقِ يَا زُبَيْرُ فَأَمَرَهُ بِالْمَعْرُوفِ ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَی جَارِکَ "[19]

(اے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زمین سیراب کر لے چنانچہ سیرابی کے رائج دستور کے مطابق ان کو حکم دیا کہ اپنے پڑوسی کیلئے چھوڑ دیں)۔

4: قسم کے کفارہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے" فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ [20]چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کھانے کی مقدار اور اس کی کیفیت و کمیت کو مطلق رکھا ہے جس کا مطلب درمیانی درجہ ہے ، اس مفہوم پر عرف کے مطابق ہی عمل کرنا ممکن ہے چنانچہ ہرآدمی اپنے سماج اور معاشرت کے مطابق مساکین کو کھانا کھلائے گا، اس بات کا ذکر ابن تیمیہ ؒ ان الفاظ میں کرتے ہیں :

" أَنَّ ذَلِكَ مُقَدَّرٌ بِالْعُرْفِ لَا بِالشَّرْعِ؛ فَيُطْعِمُ أَهْلَ كُلِّ بَلَدٍ مِنْ أَوْسَطِ مَا يُطْعِمُونَ أَهْلِيهِمْ قَدْرًا وَنَوْعًا۔۔ وَهُوَ مَذْهَبُ دَاوُد وَأَصْحَابِهِ مُطْلَقًا. وَالْمَنْقُولُ عَنْ أَكْثَرِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِين"[21]

(کھانے کی یہ مذکورہ مقدار رواج کے مطابق ہے نہ کی شرعی لحاظ سے۔ لہذا کھانے کی نوعیت اور مقدار میں ہر شہر کے رواج کے مطابق متوسط کھانا کھلایا جائے گا۔ یہی امام داؤد اور اکثر صحابہؓ و تابعینؒ سے منقول ہے)۔

5: رسم و رواج کے فقہی اعتبار کی ایک مثال عقد استصناع بھی ہے یعنی آرڈر پر کوئی چیز بنوانا ۔ قواعد شرعیہ کا تقاضا تو یہ ہے کہ پیشگی آرڈر پر مال کی خریدوفروخت جائز نہ ہو اس لئے کہ اس میں معدوم کی بیع ہے لیکن عرف و رواج میں لوگوں کے تعامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی اجازت دی گئی ہےچنانچہ بدائع والصنائع میں علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں :

"فَالْقِيَاسُ: أَنْ لَا يَجُوزَ؛ لِأَنَّهُ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْإِنْسَانِ، لَا عَلَى وَجْهِ السَّلَمِ، وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَ الْإِنْسَانِ، وَرَخَّصَ فِي السَّلَمِ[22]۔

(قاعدہ و قانون کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ بیع جائز نہ ہو کیونکہ یہ ایسی چیز کی خرید وفروخت ہے جو بوقت بیع موجود نہیں، اور نہ ہی اِسے بیع سلم کی طرح قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے اس چیز کے بیع سے روکا ہے جو انسان کے پاس موجود نہ ہو۔ اور اجازت خاص طور پر بیع سلم میں دی ہے)۔

عملی زندگی میں ایسی صورت حال كا بھی کبھی سامنا ہوتا ہے کہ ایک جگہ علاقائی رسم و رواج ایک ہوتا ہے جب کہ دوسرے علاقے اور طبقے میں رواج کچھ اور ہوتا ہے۔ایسی حالت میں شریعت نے مقامی طور پر علاقائی رواج کو ہی معتبر مانا ہے جیسا کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنے اوپر بُدنہواجب کر لیا ہے۔ کیا اس کی طرف سے گائے کی قربانی کی صورت میں نذر پوری ہو جائے گی ؟ ابن مسعود ‍ؓ نے پوچھا کہ جس آدمی نے نذر مانی ہے اس کا تعلق کس قبیلہ سے ہے؟ تو اس نے عرض کیا کہ بنو رباح سے، جس پر ابن مسعود ؓ نے جواب دیا کہ چونکہ بنو رباح اونٹ پالتے ہیں نہ کہ گائے ،اس لئے ان کے عرف میں بدنہ سے اونٹ ہی مراد ہو گا لہٰذا اس کی نذر کو پوری کرنے کی یہی صورت ہے کہ وہ اونٹ کی قربانی کرے۔اس واقعہ پر مولف شرح سیر الکبیر فرماتے ہیں :

" وَالْحَاصِلُ أَنَّهُ يُعْتَبَرُ فِي كُلِّ مَوْضِعٍ عُرْفُ أَهْلِ ذَلِكَ الْمَوْضِعِ فِيمَا يُطْلِقُونَ عَلَيْهِ مِنْ الِاسْمِ" [23]۔ (حاصل کلام یہ ہے کہ ہر علاقے میں اُسی علاقے کا رواج معتبر ہوگا کہ وہ کسی چیز کو جس نام سے پکاریں)۔

مبحث سوم : استنباط احکام میں رسم و رواج کی اثرپذیری :دورتدوین فقہ میں :

اسلامی قانون سازی اور فقہ کے ارتقاء، وسعت اور ہمہ گیری میں عرف و عادت کے لحاظ کا ایک بڑا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ فقہاء کے استنباط مسائل اور اقوال میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن کا تعلق براہ راست معاملات ،معاشرت، اور دیگر عائلی قوانین و احکام سے ہے ۔ عرف و رواج کی اسی اہمیت کی وجہ سے اصحابِ فقہ و اجتہاد کے لئے زمانے کے عرف سے باخبر رہنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔حضرات صحابہ کرام ؓ کے بعد تابعین کا دور شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد کے ادوار میں محدثین و فقہاء کا سنہری دور شروع ہوتا ہے جن میں اسلامی علوم کی تدوین کا کام تیزی سے پھیلا ہے۔علامہ ابن عابدین ؒ رسم رواج اور عرف کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"قالوا فی شروط الاجتهاد: أنه لا بد فیه من معرفة عادات الناس، فکثیر من الأحکام تختلف باختلاف الزمان لتغیر عرف أهله ولحدوث ضرورۃ أو فساد أهل الزمان بحیث لوبقی الحکم علی ما کان علیه اوّلا، للزم منه المشقۃ والضرر بالناس، ولخالف قواعد الشریعة المبنیة علی التخفیف والتیسیر ودفع الضرر والفساد"[24]

(اجتہادکے شرائط میں فقہاءیہ شرط بھی بیان کرتے ہیں کہ اجتہادمیں لوگوں کی عادات کوسمجھناضروری ہے، کیونکہ زمانے میں تبدیلی کے ساتھ بہت سے احکام تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اِس کے متعدد وجوہ ہو سکتے ہیں، مثلاً: اس زمانے کے لوگوں کے رسم و رواج کی تبدیلی ضرورت کا اقتضا، یا لوگوں کے احوال میں اِس بنا پر کسی خرابی کا اندیشہ کہ حکم اگر پہلی صورت پر باقی رہا تو اُن کے لیے ضرر اورمشقت کا باعث اور ہماری اُس شریعت کے قواعد کے خلاف ہو گا جو آسانی ، سہولت اور دفع ضرر پر مبنی ہے)۔

اس کے علاوہ معاملات میں رواج کی اہمیت کے حوالے سے فقہاء نے قواعد بنائے ہیں اور عرف سے ثابت شدہ مسئلے کو بھی اسی مسئلے کے برابر قرار دیا ہے جو کسی اور دلیل ِ شرعی سے ثابت ہو ،چنانچہ علامہ سرخسی ؒ فرماتے ہیں "أَنَّ الثَّابِتَ بِالْعُرْفِ ثَابِتٌ بِدَلِيلٍ شَرْعِي"[25] (جو چیزیں عرف سے ثابت ہوں ان کی شرعی حیثیت نص سے ثابت شدہ مسئلے کی طرح ہے)۔

الف: فقہ اربعہ میں رسم و رواج کا مقام:

فقہاء اربعہ میں امام شافعی ؒ کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ دیگر ائمہ کے مقابلے میں عرف ورواج کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تاہم اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ امام شافعیؒ بالکلیہ عرف کا انکار کرتے ہیں ۔ اس کی بہت سی مثالیں خود شوافع کی کتب میں موجود ہیں جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں:

"اعلم أن اعتبار العادۃ و العرف رجع إِلیہ فی الفقہ فی مسائل لا تعد کثرۃ"[26]

(آپ جان لیں کہ فقہ میں لوگوں کے روزمرہ عادت و رواج کا فقہی مسائل میں اتنا زیادہ اعتبار کیا گیا ہے کہ کثرت کی بنیاد پر وہ مسائل شمار نہیں کئے جا سکتے)۔

مذکورہ ادعاء کے بعد علامہ سیوطیؒ نے اس کی کثیر تعداد کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بہت سے مسائل کا تذکرہ کیا بھی ہے جن میں سےحیض کی عمر، بلوغ، انزال، طہر کی غالب اور اکثر مقدار، نماز کی منافی افعال، قلت اور کثرت کی مقدار، ردّ عیب کے مسائل، باغ میں گرے ہوئے پھل کھانا،کرائے پر سواری لینا،ہدیہ کو قبول کرنا یا واپس لوٹا دینا، اور بہت سے مسائل شامل ہیں ۔

حنابلہ کی رائے:

حنابلہ میں امام ابن قیم جوزی ؒ (المتوفى: 751ھ) کی توضیحات اس موضوع میں بہت وقىع ہیں۔ آپ حالات، زمانے ، علاقے اور عادات میں تبدیلی کی وجہ سے فتویٰ میں بھی تبدیلی کے بارے میں ایک مکمل فصل لائے ہیں جس کی تمھید میں عرف و عادات کی اہمیت کے بارے میں انتہائی جامع اور مانع انداز میں کلام فرمایا ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی احکام میں اصل مقصد ہی یہ ہے کہ زمانے اور حالات کو مد نظر رکھ کر شرعی احکام کو بیان کیا جائے ۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ مشقت اور حرج سے بچ سکیں گے ، اسلامی احکام میں عدل، مصلحت ، رحمت اور حکمت کا یہی تقاضا اور مطلوب ہےکیونکہ ہر وہ مسئلہ جو رحمت، مصلحت اور حکمت سے خالی ہو وہ شریعت ہو ہی نہیں سکتا اگرچہ اس کو تاویل کر کے شریعت میں داخل ہی کیوں نہ کر دیا جائے چنانچہ اُن کے الفاظ یہ ہیں :

"فإن الشريعة مبناها وأساسها على الحكم ومصالح العباد في المعاش والمعاد، وهي عدل كلها، ورحمة كلها، ومصالح كلها، وحكمة كلها؛ فكل مسألة خرجت عن العدل إلى الجور، وعن الرحمة إلى ضدها، وعن المصلحة إلى المفسدة، وعن الحكمة إلى البعث؛ فليست من الشريعة[27]".

"شریعت کی بنیاد اور اساس معاش و عادات میں حکمت اور مصلحت پر ہے اور ایسا کرنا سراسر عدل رحمت مصلحت اور حکمت ہے۔ ہر وہ مسئلہ جو عدل کی بجائے ظلم، رحمت کی بجائے ضد اور مصلحت و حکمت کی بجائے فساد پر مبنی ہو اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا"۔

احناف ؒ کی رائے:

شرعی احکام کے استنباط میں احناف نے عرف و عادت کو بہت معتبر مانا ہے ان میں احناف ؒ کا شمار بہت زیادہ ہے ۔ابن نجیم مصریؒ (المتوفى: 970ھ)نے اپنی کتاب ’’الاشباہ والنظائر‘‘ میں عرف و عادت پر تقریبا دس عنوانات کا تذکرہ کیا ہے جن میں مختلف انداز سے عرف و عادت کا مقام، اہمیت اور اس سےمتعلق احکام کا ذکر کیا ہے جس سے احنافؒ کے ہاں عرف و عادت کا مقام و مرتبہ واضح ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ اس کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

"واعلم أن اعتبار العادة والعرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلا، فقالوا في الأصول في باب ما تترك به الحقيقة: تترك الحقيقة بدلالة الاستعمال والعادة."[28]

(یہ بات جان لینی چاہیے کہ مسائلِ فقہیہ میں ایک بڑی تعداد ایسے مسائل کی ہے جن میں رسم ورواج کا اعتبار کیا گیا ہے یہاں تک کہ فقہاء نے اس کو بھی ایک دلیل کےطور پر مان لیاہے۔چنانچہ فقہاء جن وجوہات کی وجہ سے حقیقی معنیٰ کو ترک کرتے ہیں ان میں سے ایک رواج میں اس کا استعمال اور عادت بھی ہے)۔

اس سے بڑھ کر احناف کے قول کے مطابق قاضی اور مفتی کے لئے عرف سے انحراف کرنا جائز ہی نہیں ہے ، اس کی تائید میں علامہ شامی ؒ نے فرمایا ہے:

"لیس للمفتی ولا للقاضی أن یحکمان علی ظاہر المذهب، ویترکا العرف وهذا صریح فیما قلنا أن المفتی لا یفتی بخلاف عرف زمانه."[29]

"مفتی اور قاضی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ عرف کو چھوڑ کر ظاہر الروایہ کے مطابق فیصلہ کریں، اور یہ ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ مفتی اپنے رواج کے رواج کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا"۔

مالکیہ کی رائے :

مالکیہ کے معروف امام قرافی(المتوفى: 684ھ) نےاپنی کتاب الفروق میں عرف و عادت پر کافی تفصیلی بحث کی ہے، جو پوری کتاب میں پھىلى ہوئی ہے ۔ اس بحث میں عرف کی اقسام (عرف قولی ، عرف فعلی ، عرف شرعی ، عرف زمانی اور عرف لغوی) کو الگ الگ بیان کیا اور جگہ جگہ ان کی مثالیں بیان فرما کر فرداًفرداً ان حکم بھی بیان کیا ہے، اس دوران عرف قولی و فعلی کے مابین فرق کو بھی بیان کیا گیا ہے[30]۔

فتویٰ دینے میں رسم و رواج کو مدّنظر رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں :

"فإذا تغيرت العادة أو بطلت، بطلت هذه الفتاوى، وحرمت الفتوى بها لعدم مدركها فتأمل ذلك، بل تتبع الفتاوى هذه العوائد كيفما تقلبت كما تتبع النقود في كل عصر." [31]

"جب کوئی عادت بدل جائے یا ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ وہ فتاویٰ بھی ختم ہو جائیں گے(جو اس عادت کی بنیاد پرصادر کئے گئے تھے) اس لئے کہ اب عادت کے بدلنے سے وہ وجہ ختم ہو چکی ہے، بلکہ فتاویٰ اُس عادت کے تحت ہی ہوں گے جس طرف وہ عادت جائے گی جیسا ہر زمانے میں کرنسی کامعاملہ ہے۔ "

اس کے علاوہ الموافقات میں بھی علامہ شاطبي نے تفصیلی گفتگو کی ہے، چنانچہ ایک مقام پر علاقے کے مختلف ہونے کی صورت میں عادت کے اختلاف کی وجہ سے حکم کی تبدیلی کو جائز قرار دینے کی مثال سر کو ننگا رکھنے یا نہ رکھنے سے دی ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ مغربی ممالک میں سر ننگا رکھنا آداب کے خلاف شمار نہ ہوگا جب کہ مشرقی ممالک میں اس کے خلاف حکم ہوگا ۔

" كشف الرأس، فإنه يختلف بحسب البقاع في الواقع، فهو لذوي المروءات قبيح في البلاد المشرقية، وغير قبيح في البلاد المغربية، فالحكم الشرعي يختلف باختلاف ذلك، فيكون عند أهل المشرق قادحا في العدالة، وعند أهل المغرب غير قادح.'[32]

(سر ننگا رکھنے کا تصورعلاقے کے اختلاف سے بدل جائے گا، مشرقی ممالک میں یہ قبیح متصور ہوگا، نہ کہ مغربی ممالک میں،چنانچہ علاقائی رسم ورواج کی بنیاد پر بھی مسئلہ کا حکم بدل جائے گا۔ اور اسی وجہ سے سر ننگا رکھنے کا شرعی حکم بھی تبدیل ہوگا پس مشرقی ممالک میں یہ آداب و مروت کے خلاف شمار ہو گا اور مغربی ممالک میں نہیں)۔

ب: تدوین فقہ میں رسم و رواج کی اثر پذیری :احکامات ِ مستنبطہ کے تناظر میں :

فقہہ اسلامی کی تدوین میں عرف ، رسم و رواج کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہےجس کی درخشاں مثالیں فقہی اثاثے میں جا بجا ملتی ہیں جن میں سے کچھ نظائر یہاں پر پیش کئے جاتے ہیں:

  1. مفقود الخبر شخص کی بیوی کے بارے میں احناف کا ظاہر الروایہ مسلک انتہائی محتاط اور سخت ہے جو کہ 90سال سے لے کر 120 سال ہے۔[33] یعنی مفقود الخبر شوہر کی بیوی اتنے عرصے تک انتظار کرے گی، اگرچہ مفتیٰ بہ روایت کےمطابق یہ معاملہ قاضی کی رائے پر چھوڑ دیا جائے گاجو غور و فکر کے بعد مصلحت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا [34]۔ تاہم ظاہرالروایہ کی صورت میں 90-120 سال کا انتظار کرنا پڑے گا جب کہ اس کے بر عکس امام مالک ؒ کے نزدیک ایسی عورت محض چار سال انتظار کرے گی اور اس کے بعد وہ دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں احوال اور عرف کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ نوجوان عورتوں کے بارے میں احناف کے قول پر عمل کرنا مشکل ہے چنانچہ آج کل بھی اسی قول کو اپنایا جاتا ہے۔
  2. مختلف ادوار میں اشیاء کی مقدار معلوم کرنے کے مختلف طریقے رائج رہے ہیں ۔دورِ رسالت میں بعض اشیاء میں لوگوں کاکاروباری رواج یہ تھا کہ اس کی خرید و فروخت کیل (غلّہ کے ماپ تول کا عمل) کے ذریعے کرتے تھے جب کہ بعض اشیاء کی خرید و فروخت تول کر کی جاتی تھی ۔شریعت نے اس معاملے میں بھی زمانے کے رواج کو ملحوظ خاطر رکھ کر ان اشیاء کے مکیلی اور موزونی ہونے کو برقرار رکھا ،چنانچہ ہدایہ میں ہے:

" وكل شَيْء نَص رَسُول الله عَلَيْهِ السَّلَام على تَحْرِيم التَّفَاضُل فِيهِ كَيْلا فَهُوَ مَكِيل أبدا وَإِن ترك النَّاس الْكَيْل فِيهِ، مثل: الْحِنْطَة وَالشعِير وَالتَّمْر وَالْملح، وكل مَا نَص على تَحْرِيم التَّفَاضُل فِيهِ وزنا فَهُوَ مَوْزُون أبدا وَإِن ترك النَّاس الْوَزْن فِيهِ، مثل: الذَّهَب وَالْفِضَّة، ومالم ينص عَلَيْهِ فَهُوَ مَحْمُول على عادات النَّاس."[35]

"جو اشیاء جس میں حضور ﷺنے کیلی ہونے کی صورت میں تفاضل کو حرام قرار دیا تھا وہ ہمیشہ مکیلی ہوں گی اگرچہ لوگوں نے اس میں کیل کرنا چھوڑ دیا ہو مثلاََ گندم، نمک ۔ جو اور کھجور وغیرہ اور جو چیزیں موزونی تھیں وہ موزونی ہی رہیں گی ۔ جن اشیاء پر نص وارد ان کو لوگوں کی عادت پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ لوگوں کے تعامل پر فیصلہ کیا جائے "

فقہ اسلامی کے سرخیل اور اپنے وقت کے قاضی جناب امام ابو یوسف ؒ سے منقول ہے کہ وہ منصوص علیہ کے خلاف بھی عرف کا اعتبار کرتے تھے اس لئے کہ دور نبوی میں کسی چیز کے مکیلی یا موزونی ہونے کا حکم عادت اور عرف ہی کی بنیاد پر حکم دیا گیا تھا اور جب عادت بدل گئی تو حکم بھی بدل جائے گا[36]۔

حالیہ زمانے میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں بعض پھل درجن کے حساب سے خریدے اور بیچے جاتے ہیں جب کہ عرب ممالک میں ان کی خرید و فروخت تول کر کی جاتی ہے۔ حج و عمرہ کے موقع پر یا پہلی دفعہ دیار عرب میں جب کوئی پاکستانی کیلے یا مالٹے تول کی بنیاد پر خریدتا ہے تو تعجب کا شکار ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے ملکی رسم و رواج کے خلاف ہے، اسی طرح اگر کوئی عرب بھائی پاکستان میں ان چیزوں کو درجن کے حساب سے بیچتا اور خریدتا دیکھے تو یقیناً وہ بھی تعجب کا شکار ہوگا لیکن ان دونوں اشخاص کو اپنے علاقائی عرف کی بنیاد پر دوسرے رواج کو غلط کہنے اور اپنے ہی رسم پر اصرار کا حق تو نہیں دیا جائے گا۔

  1. مال یتیم میں تصرف کے بارے میں جتنے معاملات ہیں ان میں بھی رواج کا بڑا عمل دخل ہے جس میں ایک مضاربت کا مسئلہ ہے ۔حنفیہ کے مطابق اس مال کو مضاربت پر دینے کا اختیار وصی کو حاصل ہے لیکن چونکہ بعد کے ادوار میں امانت و دیانت میں کمزوری عام ہو گئی ہے اس لئے فقہاء نے فتویٰ دیا کہ یتیم کے مال میں وصی کو بھی خود مضاربت کا اختیار نہیں ہےچنانچہ علامہ ابن عابدینؒ فرماتے ہیں :" أن الوصی لیس لہ المضاربۃ بمال الیتیم فی زماننا."[37]
  2. قرآن کی تعلیم ، اذان ، اقامت ، امامت اور درس و تدریس کا شمار عبادات میں ہوتا ہے جن کی ادائیگی اخروی اجرو ثواب کا باعث ہے لہذٰا اصل کی رو سے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے چنانچہ متقدمین کا فتویٰ اسی پر تھا لیکن بعد میں اسلامی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سےعام طور پر بیت المال کا درواز ہ اس قسم کےدینی کام کرنے والوں کے لئے بند کر دیا گیاجس سے اس بات کا خدشہ پیدا ہوگیا کہ اگر یہ لوگ معاش کے لئے زراعت یا تجارت شروع کر دیں تو اس سے دین کا ضیاع ہوگا ۔،چنانچہ متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ امامت اور تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینا جائز ہے ۔ علامہ شامیؒ رد المحتار میں فرماتے ہیں:

"وَهَذِهِ الْمَسْأَلَةُ مِمَّا أَفْتَى بِهِ الْمُتَأَخِّرُونَ عَلَى خِلَافِ أَصْلِ الْمَذْهَبِ لِلْعِلَّةِ الْمَذْكُورَةِ كَمَا أَفْتَوْا بِنَظِيرِ ذَلِكَ فِي مَسْأَلَةِ الِاسْتِئْجَارِ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ مُخَالِفِين لِأَصْلِ الْمَذْهَبِ، لِخَشْيَةِ ضَيَاعِ الْقُرْآنِ."[38]

(اس مذکورہ مسئلہ میں بیان کردہ سبب کی وجہ سے متاخرین علماء کرام نےاصل مذہب کےبرعکس فتویٰ دیا جیسا کہ اسی وجہ سے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کے مسئلے میں قرآن کے ضائع ہونے کے خوف کی وجہ سے اصل مذہب سے ہٹ کر فتویٰ دیا گیا )۔

  1. عرف عام اور تعامل کی بنیاد پر حضرات فقہاء کرام نے مزارعت کے جواز پر صاحبین کے قول پر فتویٰ دیا ہے حالانکہ امام ابو حنیفہ ؒ اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے جب کہ صاحبین ؒ اس کے جواز کے قائل تھے اور متاخرین فقہاء نے اسی پر عمل کرتے ہوئے اختیار کیا .اس جواز کے جہاں اورکئی دلائل ہیں وہیں ایک دلیل عرف و تعامل بھی ہے جس کا لحاظ متاخرین نے کیا ۔موسوعہ فقہیہ الکوتیہ میں اس کی طرف درج ذیل الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:

" فَالْمُزَارَعَةُ شَرِيعَةٌ مُتَوَارَثَةٌ، لِتَعَامُل السَّلَفِ وَالْخَلَفِ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ نَكِيرٍ."[39]

(مزارعت کے لئے زمین دینا سابقہ ادوار سےمسلسل جاری شرعی عمل ہے۔ اسلاف اور مابعد کے لوگ بغیر کسی تردید کے اس پر عمل کرتے آرہے ہیں)۔

  1. عمدۃ القاری میں علاقائی رسم و رواج کے معتبر ہونے کے سلسلے میں حسن بصری ؒ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے،انہوں نے سواری کے لئے ایک گدھا اجرت پر لینا چاہا اور مالک سے اس کی اجرت معلوم کی جو کہ اس وقت دو دانق (اس وقت کا مروجّہ پیسہ)طے ہوئی ۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ تشریف لائے اور کرایہ طے کئے بغیر گدھے کو سواری کے لئے لے گئے اور پہلی اجرت کو ہی بنیاد بنا کر اس کے عرف و تعامل کے مطابق کرایہ ادا کر دیا ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے انہوں نے اپنے زمانے کے رسم و رواج ہی کی بنیاد پر فقہی ایک مسئلہ کا استنباط کیا [40]۔
  2. مکان کی خریداری کے سلسلے میں خیار رؤیت ساقط ہونے کے بارے میں ائمہ ثلاثہ کا قول یہ ہے کہ گھر کے صحن اور کمروں کا ظاہری حصّہ دیکھنے سے یہ خیار ساقط ہو جائے گا کیونکہ ان کے زمانے میں لوگوں میں ایک ہی طرح کے گھر بنانے کا رواج تھا لہٰذا ظاہری حصہ دیکھنا کافی تھا لیکن جب یہ رسم و رواج تبدیل ہوا اور گھروں کے طرز ِ تعمیر میں تبدیلی آئی تو اس وقت کے علماءنے امام زفرؒ کے قول پر فتویٰ دینا شروع کر دیا جس کے مطابق گھرکی خریداری میں اندرونی حصہ بھی دیکھنا ضروری ہے اور متاخرین نے اسی پر فتویٰ دیا شروع کر دیا چنانچہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں :

"وقال زفر: لا بد من رؤية داخل البيوت، وهو الصحيح، وعليه الفتوى. "[41] (امام زفرؒ فرماتے ہیں کہ گھر کا اندرونی حصہ دیکھنا ضروری ہے ، یہی صحیح ہے اور فتویٰ بھی اسی پر ہے)۔

  1. اگر ایک آدمی قرآن کی قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کے پاس چار ماہ تک نہیں جاؤں گا تو یہ ایلاء شمار ہوگا یا نہیں؟ ۔ اس میں فقہاء مقدمین اور متاخرین کا اختلاف ہے، چنانچہ متقدمین اس کو ایلاء نہیں سمجھتے تھے جب کہ متاخرین کے ہاں یہ قسم شمار ہو گی کیونکہ پہلےادوار میں قرآن کی قسم کا رواج نہیں تھا اور بعد کے ادوار میں لوگ قرآن کی قسم بھی کھانے لگے۔ آج کے دور میں بھی ایسا ہی ہے،لہٰذا رواج کے بدل جانے کی وجہ سے قسم مراد لی جائے گی اور وہی معنی مراد لیا جائے گا جو عرف میں مشہور ہو،شمس الائمہ سرخسیؒ اس مسئلہ کے بارے میں اپنےزمانے کا عرف و رواج بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وَإِذَا قَالَ وَالْقُرْآنِ لَا أَقْرَبُك لَا يَكُونُ مُولِيًا؛ لِأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَتَعَارَفُوا الْحَلِفَ بِالْقُرْآنِ، وَالْمُعْتَبَرُ فِي الْأَيْمَانِ الْعُرْفُ."[42]

(اور جب شوہر کہے کہ قرآن کی قسم! میں تیرے قریب نہ ہوں گا تو یہ ایلاء نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں میں قرآن کی قسم کا رواج نہیں، اور قسم کے سلسلے میں رواج کا اعتبار ہے)۔

یہ بات بطور خاص ملحوظ نظر رہے کہ جن مسائل کا استنباط رسم و رواج کی بنیاد پر کیا گیا ہے انہیں عمومی طور پر استحسانی مسائل کہتے ہیں اور ایسے مسائل کی ایک وافر تعداد کتب فقہیہ میں موجود ہے کہ ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ مسائل قیاس سے نہیں بلکہ استحسان سے ثابت ہیں۔

مبحث چہارم :عصر حاضر میں استنباط احکام میں رسم و رواج سے استفادہ :

اجتہادی مسائل میں ہر زمانہ کے رسم و رواج کی رعایت ضروری ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے فقہاء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ عرف کی وجہ سے احکام بدل جائیں گے کیونکہ تمام اجتہادی احکام اگر ہمیشہ اپنے حال پر باقی رہیں اور عرف و رواج کی وجہ سے تبدیل نہ ہوں تو یہ لوگوں کی مشقت و ضرر کا باعث بنیں گے جو کہ شریعت کے فلسفہ ء یسر و تخفیف کے منافی ہے۔

فقہ اسلامی میں جن مسائل کی بنیاد عرف ، رسوم و رواج پر ہو تو عرف کے بدلنے سے اس سابقہ جزئیات پر اصرار معقول نہیں ہو گا کیونکہ رسوم و رواج مخصوص حالات کی پیداوار ہوتے ہیں اور خاص ضروریات کے تحت ایک کام کیا جاتا ہے اور لوگ اس کو حالات و ضروریات کے مطابق مفید پاکر اس پر عمل کرنے لگتے ہیں ،یہ عمل رفتہ رفتہ اجتماعی اور پھر روایتی شکل اختیار کرلیتا ہے اور آخر کار معاشرہ کی اجتماعی قوت کی بدولت اس کو رسم یا رواج کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ۔جو کام مخصوص حالات میں مفید ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے اس کا ہر حالت میں مفید ہونا ضروری نہیں ہوتا اور بسا اوقات حالات میں ایسی تبدیلی ہوجاتی ہے کہ یہ کام کرتے رہنے سے الٹا نقصان پہنچ جاتا ہے ، رسم و رواج کا بالکل یہی حال ہے ، حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور یہ نہایت ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق رسم و رواج میں بھی تبدیلی ہوتی رہے کیونکہ تبدیلی نہ ہونے سے اچھی رسمیں بھی رفتہ رفتہ بری ہوجاتی ہیں ۔ موجودہ معاشرے میں جو بری رسمیں پائی جاتی ہیں ممکن ہے کہ اس زمانے کے حالات میں جب ان کا آغاز ہوا تھا وہ بہت اچھی اور مفید ہوں لیکن آگے چل کر حالات بدل جانے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق رسموں میں مناسب تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے یہ رسمیں بری ہوگئیں اور ان سے فائدہ کے بجائے نقصان پہنچنے لگا ۔ اب اگر ان رسموں پر آنکھ بند کرکے بدستور عمل کیا جائے گا تو اس کا نتیجہ لازمی طور پر معاشرہ کے حق میں تباہ کن ہوگا[43]۔

خیر القرون اور اس کے بعد فقہاء و محدثین کے زمانے میں جس طرح رسم ورواج کے مطابق احکام میں تبدیلی کی گئی اسی طرح کا معاملہ معاصر علماء نے بھی کیا اور آج کل کے دور میں بھی کثیر تعداد میں ایسے مسائل موجود ہیں جن کا حکم بیان کرنے میں علماء نےمعاصر رسم و رواج کو سامنے رکھا چنانچہ معاصر عالم دین صالح بن محمد فرماتے ہیں :

"إذا جاء حكمٌ من الشرع، أو اسمٌ عُلِّق به حكم شرعي، ولم يُحَدّ، لا في الشرع، ولا في اللغة؛ فإنه يُرْجَع حينئذ إلى العرف ويكون مُحَكَّما، وهو ما يشير إليه الفقهاء بقولهم: (العرف مُحکَم)"[44]

(جب کوئی ایسا شرعی حکم آجائے جس پر دوسرا شرعی حکم معلّق ہو اور وہ شرعی یا لغوی طور پر محدود نہ ہو تو اس صورت میں عرف کی طرف حکم کی نسبت ہو گی ۔ اس صورت میں عرف محکم متصور ہوگا اسی کی طرف فقہاء نے العرف مُحَكَّمٌکہ کر اشارہ کیا ہے)۔

عصر حاضر میں احکام کے سلسلے میں معاصر رسم و رواج کے اعتبار کے بارے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

مثال نمبر1: قرآن و حدیث کی رُو سے فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے لیکن شریعت اور لغت میں اس کی تعریف میں خرچے کی عددی حد مقرر نہیں ہے کہ کتنے روپے خرچ کرنے والا فضول خرچ کہلائے گا ۔ چنانچہ اس کاہر علاقے میں حد بندی کا علم وہاں کے رسم و رواج اور عرف کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ۔ اس معاملے میں چونکہ ہر جگہ اور طبقے کے عرف میں تبدیلی پائی جاتی ہے اس لئے جس علاقے کے عوام الناس میں جس عمل میں جوچیز اسراف مانی جائے گی وہ اسراف شمار ہوگی۔ [45]

مثال نمبر2: اگر بائع اور مشتری کسی زمین کا سودا کریں تو چونکہ موجودہ زمانے کا رواجی مفہوم یہی ہے کہ جب لفظ "زمین" بولا جاتا ہے تو اس سے زمین اور زمین کے اوپر جو کچھ ہےوہ مراد ہوتا ہے اس لئے اگر بائع اور مشتری بیع کے دوران یہ شرط نہ بھی لگائیں تب بھی وہ زمین کی بیع میں داخل ہوگا۔ [46]

مثال نمبر3: عصر حاضر میں احکام کے استنباط کے سلسلے میں معاصر رواج کا اعتبار کرنے میں بطور مثال Warranty کے معاملے کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے چنانچہ آج کل بعض افراد یا کمپنیاں اشیاء فروخت کرنے کے لئے ایک مخصوص مدت تک اس کے خراب ہونے کی صورت میں نقصان کے تلافی کی ذمّہ قبول کرتی ہیں جسے Warrantyکہتے ہیں اور لوگ وہ اشیاء اس شرط پر خریدتے ہیں کہ کمپنی یا فرد اُس مقررہ مدت میں اس کی خرابی کے ضامن ہوں گے۔ اس مسئلے کا اگر شرعی طور پر جائزہ لیاجائے تو بظاہر یہ عقد درست معلوم نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ بیع اور شرط ایک ساتھ پائے جا رہے ہیں اور آپ ﷺ نے بیع اور شرط ایک ساتھ جمع کرنے سے منع فرمایا ہے[47]۔

شریعت یہ چاہتی ہے کہ خریدو فروخت کے معاملہ میں ایسی کوئی شرط نہ لگائی جائے جو معاملہ بیع کے اصل تقاضوں کے خلاف ہو، کیونکہ بیع کے ذریعہ خریدار سودے کا مکمل مالک ہوجاتا ہے اور وہ اس میں ہر طرح کے تصرف کا مجاز ہے، اب اگر بیچنے والا ایسی کوئی شرط لگادے جس سے خریدار کے اس تصرف کے اختیار پر کسی قسم کی پابندی عائد ہوتی ہو تو یہ شرط نامناسب سمجھی جاتی ہے اور معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدو فروخت کے ساتھ شرط لگانے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر کوئی شرط عرف و رواج کا درجہ حاصل کر لے تو پھر معاملہ کے ساتھ ایسی شرط عائد کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔فقہاء نے اس طرح کے معاملات کو عرف کی بنیاد پر جائز قرار دیا ہے، فتاوی ٰدارالعلوم دیوبند میں لکھا ہے:

" یہ دراصل محض تبرع کی شکل ہے اور بیع وشرا میں مبیع کے سلسلہ میں گارنٹی یا وارنٹی دینے کی طرح ہے، پس یہ جائز ہے۔"[48]

مثال نمبر4: قرآن کا ادب ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ ایمان کا تقاضا بھی ہے تاہم اس ادب کے مظاہرے کےطریقہ کار علاقے کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتے رہتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں عرب میں بعض روایات ایسی ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں ان کا تصور بھی محال ہے، لہٰذا اس رسم و رواج کی تبدیلی کی وجہ سے ادب کا معیار بھی مختلف ہو گا۔ کفایت المفتی میں اسی بات کاذکر ان الفاظ میں ہے:

"اگر کسی صورت کو عر ف ِعام میں بے ادبی قرار دیا جائے تو وہ بے ادبی ہو گی"۔[49]

اگر علاقائی رسم و رواج کو مدّنظر نہ رکھا جائے تو شاید حرمین شرفین میں قرآن مجید کو صفِ نماز پر رکھنے یا ہاتھ میں کسی عام کتاب کے انداز سے لے کر مسجد میں چلنے یا مسجد میں عرب نو جوانوں کو اپنے موبائل فون پرتلاوت کلام پاک کرتے دیکھ کر ہمارے پاکستانی بھائی اسے ادب سے نا بلد قرار دیں۔ اسی طرح برصغیر کے کسی فرد کا بزرگ کے ہاتھ چومنے کو کوئی عرب شہری دیکھ کر سخت حکم لگا دے۔

مثال نمبر5: تملیک اور ہبہ میں لغوی اعتبار سے عموم خصوص کی نسبت ہے چنانچہ تملیک عام اور ہبہ خاص ہے یعنی ہر ہبہ میں تملیک ہے لیکن ہر تملیک ہبہ کا نتیجہ نہیں لیکن موجودہ زمانے کے عادت و رواج کے مطابق یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادفات بن کر ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ اسی لئے آج کے دور میں جب لفظ تملیک بولا جائے گا تو اس سے بھی ہبہ ہی متصور ہو گااسی کے بارے میں فتاویٰ حقانیہ میں مذکور ہے کہ اگر بیٹے باپ کو اپنی تنخواہ سے ہر ماہ رقم دیں تو المعروف کالمشروطکے تحت وہ باپ کی ملکیت ہو گی اور یہ ہبہ ہو گا۔[50]

مثال نمبر6: مہر کے بغیر نکاح درست نہیں ہے اور اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ واجب ہے ۔ نکاح کے وقت اس کا ذکر کرنا بھی علماء کے ہاں اسی طرح سے ضروری ہے لیکن بوقت نکاح مہر کی تعجیل یا تاجیل کا ذکر نہ ہو تو اس صورت میں مہر کا فیصلہ معاصر رسم و رواج کے مطابق ہوگا [51]۔چنانچہ جس علاقے یا خاندان میں مہر کے بارے میں تعجیل کا رواج ہووہاں مہر اسی وقت ادا کیا جائے گا اور جہاں تاجیل کارواج ہو وہاں اس میں تاخیر کی جاسکتی ہے ۔

مثال نمبر7: روٹی اور آٹا بظاہر اموال ربویہ میں سے ہیں اور قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو گن کر بطور قرض لینا جائز نہ ہو اور یہی امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے لیکن موجودو دور میں روٹی گن کر بیچی جاتی ہے اور اگر دو نانبائیوں کو آپس میں بطور قرض لینے کی ضرورت ہو تو گن کر ہی دیتے ہیں۔ گھریلو طور پر بھی گھروں میں عدد کے طور پر لینا دینا ہو سکتا ہے لہٰذا امام محمد ؒ نے اپنے دور میں لوگوں کا تعامل دیکھتے ہوئے آٹے اور روٹی کی لین دین کو بطور قرض جائز قرار دیااور آج بھی یہی قول مختار ہے[52]۔

مثال نمبر8: عام طور پر ٹیلرنگ سنٹر یا کسی اور کارخانے میں ایک ملازم کچھ عرصے کے بعد سیکھنے کے عمل سے گزر کر اپنے مالک کا معاون یا کاریگر بن جاتا ہے ۔اس صورت میں اُس کاریگر کو مال کی تیاری میں کس حد تک منافع میں شریک کیا جائے گا اس بارے میں بھی اس وقت کے رواج سے مدد لی جائے گی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اس لئے کہ ان معاملات میں کاروباری رواج ہی معتبر مانا جاتا ہے ۔

مثال نمبر9: موجودہ زمانے میں ہوٹلوں میں کھانے وغیرہ کے لئے بوفے سسٹم Buffet System رائج ہے جس میں ایک مخصوص رقم کے عوض مختلف انواع کے کھانے ایک ساتھ رکھے ہوتے ہیں ۔کھانے کی مقدار پر کوئی پابندی نہیں ہوتی اور کوئی بھی آدمی اس میں اپنی مرضی سے جتنا چاہے کھا سکتا ہے۔ اس مسئلہ کو اگر فقہی آراء کے معیار پر پرکھا جائے تو اس کے جواز کا قول کرنا ممکن نہیں اس لئے کہ یہ مجہول کی بیع ہے یعنی ہوٹل والا ایک نامعلوم مقدار بیچ رہا ہےکیونکہ معلوم نہیں کہ کھانا کھانے والا اس بوفے سسٹم میں کون کونسے کھانے کھائے گا اور کتنی مقدار مىں کھائے گا اور مجہول کی بیع ناجائز ہے لیکن اس مسئلہ کو کتابوں میں بیان کردہ فقہی جزئیہ" حمام میں نہانے" پر قیاس کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ کہ جس طرح حمام میں نہاتے ہوئے پانی اور صابن وغیرہ کی مقدار متعین نہیں کی جاتی اور جاری رسم و رواج کی بنا پر اس کو جائز کہا جاتا ہے۔[53] اسی طرح یہاں بھی رواج کالحاظ رکھتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔

خلاصہ بحث:

اس مقالہ/مضمون میں بیان کردہ مباحث کی تلخیص درج ذیل نکات کے تحت بیان کی جا سکتی ہے:

  1. اسلام دین فطرت ہے جس میں انسانی فطرت اور ہر علاقے کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کا بھرپور لحاظ رکھا گیا ہے۔
  2. مختلف علاقوں کے بسنے والے انسانوں کے اطوار، رسم و رواج کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے ان کوبالکلیہ نظرانداز نہیں کیا اور نہ مکمل آزاد چھوڑا،بلکہ ایک حد تک اس کی تہذیب و ضروری ترتیب کی۔
  3. شریعت میں کسی ایک علاقے کے رسم و رواج کو دوسرے علاقے کےرسم و رواج پر غلبہ نہیں دیاگیا بلکہ ہر علاقے اور زمانے کے عرف (رسم و رواج) کا اعتبار کرتے ہوئے سب کو برابر حیثیت دی گئی ہے ۔
  4. کسی ایک زمانے کے عرف و رواج پر مبنی احکامات کو مابعد ادوار کے لئے (جب کہ وہ سابقہ رواج باقی نہ رہا ہو)باقی قرار دینے پر اصرارکرنا شریعت کے اصولی مزاج سے موافقت نہیں رکھتا۔
  5. کسی ایک علاقے کے رسم و رواج کی دوسرے علاقے سے موافقت نہ ہونے کے باوجود اس دوسرے علاقے میں اصرار کرنا معیوب قرار دیا جا سکتا ہے۔
  6. تعلیمات اسلامی کی تعبیر و تشریح کا مسئلہ ہو یا فتویٰ نویسی کا عمل ہو، بہر دو صورت علاقائی رسم ورواج پر گہری نظر رکھنی چاہیے ورنہ فقہی جزئیات ناقابل عمل اور جمود کا شکار ہو جائیں گی۔

حواشى وحوالہ جات:

حوالہ جات

  1. ۔پاکستانی مسلمانوں کے رسوم و رواج، شاہد حسین رزاقی، ادارہ ثقافت اسلامیہ ،لاہور، طبع:2010،ص:20
  2. ایضا ،ص:21
  3. ۔ الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه (صحيح البخاري)، ج: 1،ص: 25،حدیث: نمبر 69، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،دار طوق النجاة
  4. ۔حجة الله البالغة، ج: 1،ص: 218، أحمد بن عبد الرحيم بن الشهيد وجيه الدين بن معظم بن منصور(شاه ولي الله الدهلوي) (المتوفى: 1176هـ)، دار الجيل، بيروت، لبنان،1426 هـ- 2005ء
  5. ۔الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ،ج: 1، ص: 79، زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ)، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1419 هـ - 1999 ء
  6. ۔ شرح عقود رسم المفتی ص 72 ،مکتبہ دار الطیٗبہ
  7. ۔صحيح البخاري،ج:3،ص: 79،حدیث:2211
  8. ۔مجموع الفتاوى،ج: 34،ص: 86، تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)، مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية،1416هـ-1995ء
  9. ۔المغني لابن قدامة،ج: 8،ص:198، أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسی (المتوفى: 620هـ)، مكتبة القاهرة
  10. ۔ البقرۃ :282
  11. ۔تفسير الماتريدي (تأويلات أهل السنة)،ج 2ص 274، محمد بن محمد بن محمود، أبو منصور الماتريدي (المتوفى: 333هـ)، دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان، :1426 هـ - 2005 ء
  12. ۔جامع البيان في تأويل القرآن،ج:6، ص:43، محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ)، مؤسسة الرسالة، 1420 هـ - 2000 ء
  13. ۔البناية شرح الهداية،ج: 8، ص: 329، أبو محمد محمود بن أحمد بن موسى بن أحمد بن حسين الغيتابى الحنفى بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1420 هـ - 2000ء
  14. ۔صحيح البخاري، ج:3، ص: 85، حدیث: 2239 بَابُ السَّلَمِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ،صحیح مسلم ج 3ص 1227 باب السلم
  15. ۔ایضا، ص: 78
  16. ۔: فتح الباري شرح صحيح البخاري،ج: 4،ص: 406، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، دار المعرفة - بيروت، 1379
  17. ۔البقرۃ:178
  18. ۔سنن أبي داودوال،ج: 4،ص: 192، بَابُ دِيَةِ الْجَنِينِ ، أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المكتبة العصرية، صيدا - بيروت
  19. ۔صحيح البخاري، ج: 3،ص: 111،حدیث: 2359
  20. المائدۃ : 89
  21. ۔مجموع الفتاوى، ج: 35،ص: 350
  22. ۔بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،ج: 5،ص: 3، علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ)، دار الكتب العلمية، 1406هـ - 1986ء
  23. ۔شرح السير الكبير،ج: 1،ص: 1803، محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)، الشركة الشرقية للإعلانات،1971ء
  24. ۔۔مجموعة رسائل ابن عابدين، ج:2،ص: 125 ، علامہ سید محمد امین افندی ابن عابدین
  25. ۔المبسوط،ج: 13،ص: 14، محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)، دار المعرفة - بيروت، 1414هـ - 1993ء
  26. ۔الأشباه والنظائر،ج:1،ص: 90
  27. ۔إعلام الموقعين عن رب العالمين،3:ج،ص: 11، محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد شمس الدين ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ)، دار الكتب العلمية -ييروت،1411هـ - 1991ء
  28. ۔الْأَشْبَاهُ وَالنَّظَائِرُ عَلَى مَذْهَبِ أَبِيْ حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ،ج: 1،ص:79
  29. ۔ شرح عقود رسم المفتی، ص: 40
  30. ۔ أنوار البروق في أنواء الفروق، ج:1،ص:187، أبو العباس شهاب الدين أحمد بن إدريس بن عبد الرحمن المالكي الشهير بالقرافي (المتوفى: 684هـ)، عالم الكتب
  31. ۔ایضا، ص:288
  32. ۔الموافقات، ج:2،ص:489، إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي الشهير بالشاطبي (المتوفى: 790هـ)، دار ابن عفان، 1417هـ-1997ء
  33. ۔الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ ،ج: 6،ص: 4875، أ. د. وَهْبَة بن مصطفى الزُّحَيْلِيّ، أستاذ ورئيس قسم الفقه الإسلاميّ وأصوله بجامعة دمشق - كلّيَّة الشَّريعة،ل، دار الفكر، سوريَّة، دمشق
  34. ۔ایضا،ج: 10،ص: 7892
  35. ۔متن بداية المبتدي في فقه الإمام أبي حنيفة،ج:1،ص: 139، علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ)، مكتبة ومطبعة محمد علي صبح، القاهرة
  36. رسائل ابن عابدین ، ج: 2، ص: 118
  37. ۔مجموعة رسائل ابن عابدين ،ج: 2،ص: 126
  38. ۔رد المحتار على الدر المختار، ج: 6، ص: 788، ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ)، دار الفكر، بيروت، ، 1412هـ - 1992ء
  39. ۔الموسوعة الفقهية الكويتية،ج: 37،ص: 51،وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الكويت، (1404 -تا 1427 هـ) ، دارالسلاسل، الكويت
  40. ۔ایضا،ج: 12،ص: 17
  41. ۔الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار،ج: 1،ص: 405، محمد بن علي بن محمد الحِصْني المعروف بعلاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ)، دار الكتب العلمية، 1423هـ- 2002ء
  42. ۔المبسوط،ج: 7،ص: 24
  43. پاکستانی مسلمانوں کے رسوم و رواج،ص:23
  44. ۔مجموعة الفوائد البهية على منظومة القواعد الفقهية،ج 1ص 93، أبو مُحمَّدٍ، صالحُ بنُ مُحمَّدٍ بنِ حسنٍ آلُ عُمَيِّرٍ، الأسمريُّ، القحْطانيُّ، دار الصميعي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية، 1420 هـ - 2000 ء
  45. ۔نفس المصدر
  46. ۔ایضا، ج:1، ص: 94
  47. ۔العرف الشذي شرح سنن الترمذي،ج: 3،ص: 34، محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى: 1353هـ)، دار التراث العربي -بيروت، 1425 هـ - 2004 ء
  48. ۔ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند انڈیا ، سوال نمبر:55698، فتویٰ آئی ڈی 1479-1517/N=1/1436-U، تاریخ اجراء9 نومبر 2014ء
  49. ۔ کفاية: المفتی، ج: 1، ص:126،مفتی محمد کف: اللہ دیلوی، دارالاشاعت، اردو بازار کراچی، جولائی 2001ء
  50. ۔ فتاویٰ حقانیہ، ج: 6، ص: 373، کتاب الھبہ ،مولانا عبد الحق، جامعہ دارالعلوم حقانيه،اکوڑہ خٹک ، 2010ء
  51. ۔ ایضا، ج: 4، ص: 363
  52. ۔رد المحتار على الدر المختار، ج:5، ص: 185
  53. ۔فتاویٰ عالمگیری(الفتاوى الهندية)، ج: 4، ص: 472، لجنة علماء برئاسة نظام الدين، دار الفكر،1310 هـ
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...