Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

عصر حاضر کی تناظر میں عرف اور عادت کی شرعی حیثیت: ایک تجزیاتی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_936

Pages

190-202

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/100/93

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/100

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اسلام کی امتیازی خصوصیت اس کا نہایت جامع قانون حیات ہے جو اس کی ناگزیریت اور اس کے ایک منفرد عالم گیر نظام ہونے کی حیثیت کی دلیل ہے کہ یہ انسانی زندگی کے نہایت پیچیدہ مسائل کواپنے اصلی ڈھانچے میں کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر حل کرسکتا ہے۔ اس طرح یہ ایک بے مثال نظام حیات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔چنانچہ جدید دور کے نئے تقاضوں کے پیش نظر وہ مسلمان حکومتیں جو اپنے ممالک میں قانون اسلامی کو مکمل قانونی اور دستوری حیثیت دینا چاہتے ہیں،اور اپنے ممالک کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں، ان کے لیے قرآن مجید، حدیث نبوی مبارک، اجماع اور قیاس کے معروف قانونی وسائل کے علاوہ استحسان اور مصالح مرسلہ بھی اپنا مؤثر قانونی کردار بایں طور ادا کرتے ہیں کہ معاشرہ میں پہلے سے رائج وشائع رسوم وعادات کا قابل قدر لحاظ رکھاجاتا ہے ، کیونکہ اگر انھیں کلیۃً نظر انداز کردیا جائے تو انسانی معاشرہ ترقی وارتقاء کے بجائے تنزلی وجمود کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے۔چنانچہ انسانی معاشروں میں پہلے سے مروج عرف وعادات کا شریعت اسلامیہ میں لحاظ واعتبار مسلم ہے ۔ البتہ شریعت اسلامیہ نہایت متوازن اور مناسب طریقے سے ’جہاں اور جس قدر ضرورت ِ اصلاح ‘ کے اصول کے بنیاد پر رسوم ورواج اور عرف وعادات میں مکمل اصلاحی یا جزوی ترمیمی عمل اختیار کرکے حیات انسانی کو فطری راستے پر فطری طریقے سے گامزن کرنے میں مددکرتی ہے۔شریعت اسلامیہ چونکہ انسانیت کی نجات وفلاح کا ایک خالص نظام حیات ہے، اس لیے یہ ان رسوم کو جو اس کے اصولی مبادی سے متصادم ہوں ، حکمت بالغہ کے ذریعے ان کا متبادل فراہم کرنا بھی فراموش نہیں کرتی ہے اور اسی ہی حقیقت کو زیر نظر تحقیقی مضمون میں ثابت کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ عرف اور عادت اگرچہ مستقل دلیلِ شرعی نہیں ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کہ عرف کی رعایت شرعی نصوص کی تفسیراور مطلق کی تقییداور عام کی تخصیص تک ے لئے کی جاتی ہے اور عرف کی بناءپرکبھی قیاس کو ترک بھی کیا جاتا ہے۔اس لئے اس کی تعریف اور اقسام سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ اس س متعلقہ مسائل سے بھی بحث کریں گے۔

عرف کی لغوی تعریف

عرف اور عادت ایک ہی چیز ہے ۔عادت عود اور معاودۃ سے مأخوذ ہے،لغوی اعتبار سےاس کا معنی طریقہ،طرز اور کسی کام کے بار بارہونےیا کرنے کے ہیں۔ مأخوذة من العود أو المعاودة بمعنى التكرار، والعادة: اسم لتكرير الفعل أو الانفعال حتى يصير سهلاً تعاطيه كالطبع(۱)

عرف کی اصطلاحی تعریف

العرف: ما استقرت النفوس عليه بشهادة العقول، وتلقته الطبائع بالقبول(۲) جو عقول صحیحہ اورطبائع سلیمہ کے قبول کرنے سے دلوں میں جگہ حاٖصل کریں۔ العادة عبارة عما يستقر في النفوس من الأمور المتكررة المقبولة عند الطباع السليمة(۳)عادت عبارت ہے ان امور متکرر ہسے جو طبائع سلیمہ کو قابل قبول ہوں۔یعنی ہر اس فعل اور قول کو کہتے ہیں جس کا عام لوگوں میں رواج ہوگیاہو۔

عرف کی حجیت

عرف کے معتبر ہونے پر قرآن کریم سے دلائل

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجاهِلِين(۴)عرف کے حجت ہونے پر اس کو معتبر شرعی دلیل سمجھتےہیں۔ قال ابن الفرس: المعنى: اقض بكل ما عرفته النفوس مما لا يرده الشرع، وهذا أصل القاعدة الفقهية في اعتبار العرف وتحتها مسائل كثيرة لا تحصى(۵) لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ ما تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ(۶)

اس آیت کریمہ میں اس بات کا بیان ہے کہ کفارہ یمین میں دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے اب کىسا کھانا کھلانا ہوگا؟تو یہ بات عرف پر موقوف ہوگی۔فَإِنَّ أَصْلَهُ أَنَّ مَا لَمْ يُقَدِّرْهُ الشَّارِعُ فَإِنَّهُ يُرْجَعُ فِيهِ إلَى الْعُرْفِ، وَهَذَا لَمْ يُقَدِّرْهُ الشَّارِعُ فَيُرْجَعُ فِيهِ إلَى الْعُرْفِ، لَا سِيَّمَا مَعَ قَوْله تَعَالَى {مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ}(۷)۔

عرف کے معتبر ہونے پر احادیث مبارکہ سے دلائل

بعض علماءکرام اس حدیث سے دلیل اخذ کرتے ہیں جس میں یہ مذکور ہے کہ جو چیز مسلمانوں کے نزدیک اچھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جو اس کے ہاں قبیح ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبیح ہے۔ وقال عليه الصلاة والسلام -: «ما رآه المسلمون حسنا؛ فهو عند الله حسن، وما رآه المسلمون قبيحا؛ فهو عند الله قبيح(۸)۔لیکن علماء نے اس دلیل کو کمزور کہا ہے کہ یہ حدیث عبد اللہ بن مسعودؓ پر موقوف ہے۔اور اجماع کی حجیت پر دلیل ہے نہ کہ عرف پر۔جُزْءٌ مِنْ حَدِيثٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ بِلَفْظِ أَنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ فَاخْتَارَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاخْتَارَ لَهُ أَصْحَابًا فَجَعَلَهُمْ أَنْصَارَ دِينِهِ وَوُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، فَمَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدُ اللَّهِ حَسَنٌ، وَمَا رَآهُ الْمُسْلِمُونَ قَبِيحًا فَهُوَ عِنْدُ اللَّهِ قَبِيحٌ. قَالَ الْعَجْلُونِيُّ فِي كَشْفِ الْخَفَاءِ: وَهُوَ مَوْقُوفٌ حَسَنٌ، ثُمَّ نُقِلَ عَنِ الْحَافِظِ ابْنِ عَبْدِ الْبَرِّ أَنَّهُ رُوِيَ مَرْفُوعًا عَنْ أَنَسٍ بِإِسْنَادٍ سَاقِطٍ، وَالْأَصَحُّ وَقْفُهُ عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ.(۹)مگر یہ اجماع کا مستند عرف صحیح ہے پس اس حدیث کی دلالت عرف کی انواع پر ہوگی نہ کہ مطلق عرف پر اور سچی بات یہ ہےکہ عرف شریعت میں معتبر ہے اوراس پر احکام کی بنا کرنا درست ہے۔حقیقت میں یہ کوئی مستقل دلیل نہیں ہے۔اس لئے کہ یہ ان ادلہ کی طرف لوٹتاہے جوشرعامعتبرہیں۔

دوسری روایت جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال: أخبرني أبي، عن عائشة، أن هند بنت عتبة، قالت: يا رسول الله إن أبا سفيان رجل شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي، إلا ما أخذت منه وهو لا يعلم، فقال:خذي ما يكفيك وولدك، بالمعروف(۱۰)سیدنا ابو سفیان ؓ کے بارے میں اس کی بیوی نے شکایت کی کہ وہ مجھے پورا خرچ نہیں دیتا تو حضوراکرمﷺ نے فرمایا کہ اس کے مال سے عرف کے مطابق خرچ لیا کرو۔اسی وجہ سے ابن عابدین ؒ (۱۱)لکھتے ہیں

"والعرف في الشرع له اعتبار ... لذا عليه الحكم قد يدار"(۱۲)یعنی شریعت میں عرف کو اعتبار ہے اسی وجہ سے اس کے ساتھ حکم کا تعلق ہوتاہے۔ اسی طرح شارع نے ان عرفوں کی رعایت کرتے ہوئے جو عرب میں اچھے تھے، برقرار رکھا تجارت اور شراکت کی ان اقسام کو جو ان کے نزدیک صحیح تھیں جیسے مضاربت،بیع اور اجارہ کی وہ صورتیں جو فاسد چیزوں سے خالی تھیں۔نبی کریمﷺ کے زمانے میں لوگ مضاربت کرتے تھےپس آپﷺ نے ان کو برقرار رکھا اوربیع سلم کو مستثنیٰ پایا(بیع کے عام قوانین سے)اصل مدینہ کے اس پرعمل کی وجہ سے،اس عام نہی کی وجہ سے کہ جو چیز انسان کے پاس نہ ہو وہ اسے نہ بیچے اور بیع التمر بالتمر سے منع فرمایا(یعنی درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کی ٹوٹی ہوئی کھجوروں کے ساتھ)اور عرایا میں رخصت دی اور وہ یہ ہے کہ تر کھجوروں کی بیع ان کی درختوں پر اس کے مثل کھجوروں سے اندازہ کرنا۔ وروى عبادة بن الصامت قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم في عرايا النخل إذا كان نخلة أو نخلتان أو ثلاث بين النخل فيختلفون في حقوق ذلك فقضى أن لكل نخلة مبلغ جريدها حريمها وكانت تسمى العرايا وذلك إذا اختلف هو وصاحب النخل في حقوقها فيكون لصاحب العرايا ما لا يقوم نخله التي أعريها إلا به.(۱۳) بیع کی یہ قسم لوگوں کے درمیان متعارف تھی اور ان کو اس کی ضرورت تھی۔پس شارع کے یہ تصرفات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں کے مصالح میں عرف کی رعایت کی اور لوگوں کے معاملات میں اس کو باقی رکھا۔اور عرف فاسد کو رد کیا اور لغو قرار دیا۔جیسے متبنیٰ کے بارے میں جو رسم جاہلیت تھی اس کو باطل قرار دیا ۔

فقہاءکے نزدیک عرف کا مقام اوربعض مسلمہ قواعد کی توضیح

فقہاءنےعرف کو بہت بلند مقام دیاہے،ذیل میں چند قواعد ملاحظہ ہو:

۱۔العادۃ محکمة(۱۴)"یعنی عادت فیصلہ کن چیز ہے"واضح رہے کہ فقہاءکے ہاں عرف اور عادت ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے۔پس ان کا یہ کہنا کہ یہ بات عرف اور عادت سے ثابت ہے تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ عادت ان کے نزدیک عرف کے علاوہ کوئی چیز ہے بلکہ یہ عادت ہی عرف ہے اور عرف کے ساتھ عادت کا لفظ بطور تاکید کے استعمال ہوتا ہے،کسی نئے معنی کے لئے نہیں۔ واعلم أن اعتبار العادة والعرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلا، فقالوا في الأصول في باب ما تترك به الحقيقة: تترك الحقيقة بدلالة الاستعمال والعادة.كذا ذكر فخر الإسلام.فاختلف في عطف العادة على الاستعمال فقيل: هما مترادفان، وقيل: المراد من الاستعمال نقل اللفظ عن موضوعه الأصلي إلى معناه المجازي شرعا، وغلبة استعماله فيه، ومن العادة نقله إلى معناه المجازي عرفا۔(۱۵)

۲۔الثابت بالعرف کالثابت بالنص(۱۶) یعنی "جو چیز عرف سے ثابت ہے وہ نص سے ثابت ہونے کی مانند ہے"

۳۔التعيين بالعرف كالتعيين بالنص(۱۷)"جوعرف سے متعین ہوجائےاس کا تعین نص سے ثابت سمجھاجائےگا"

۴۔ ومن لم يدر بعرف أهل زمانه فهو جاهل(۱۸)" جو زمانہ کے عرف سے ناواقف ہوںوہ جاہل ہے"

اب جو عادت رواج پاتا ہےشریعت بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ہر معاشرے میں کچھ خاص طریقے ہوتے ہیں۔شریعت کسی معاشرتی رواج اور طور طریقے کو بلاوجہ نہیں روکتی ہا ں اس کا اصلاح ضرور کرتی ہے ذیل میں عرف کی اقسام بیا ن کی جا تی ہے

عرف عملی

عرف عملی سے مراد وہ اعمال ہیں جن کے لوگ عادی ہوں۔جیسے بیع تعاطی (۱۹)یعنی بغیر بیع کے معاہدےکے ایجاب وقبول کرنا،مہر کو معجل یامؤجل ادا کرنا،عام لوگوں کے حمام میں داخل ہونا اس میں ٹھہرنے کی مدت کی تعیین کے بغیر اور پانی کےاستعمال کی تعیین کے بغیر،گھر کے برتن اور جوتے کاریگروں سے بنوانا۔ اسی طرح کھانا مہمان کے سامنے رکھنا اور مہمان کا یہ خیال کرنا کہ اس میں سے اس کو کھانے کی اجازت ہے۔ كالاستصناع في كثير من الحاجات واللوازم، وكتأجيل جانب من مهور النساء، ودخول الحمام(۲۰)

عرف قولی

عرف قولی سے مراد وہ الفاظ ہیں جو لوگوں کے درمیان معروف ہوں۔اس طور پر کہ ان سے ایک خاص معنی مراد لیا جائے اور جو معنی اس کے وضع کردہ معنی کے علاوہ ہو جیسے کہ عرف میں لفظ ولد کا اطلاق لڑکے پر ہوتا ہےنہ کہ لڑکی پر،لفظ لحم [گوشت]کا اطلاق مچھلی کے علاوہ پر،لفظ دابہ کا اطلاق حیوانات میں سے چوپاؤں پر۔باوجود اس کے کہ یہ لفط دابۃ اصل میں ہر اس چیز کے لئے وضع ہے جو زمین پر رینگنے والی ہے۔

اگر کسی نے کہا : حلف لا يأكل اللحم، فأكل لحم سمك، فلا يحنث. إذا وكله بشراء دابة، وكان معروفاً بينهم أنه الفرس، أو ذات الحوافر، لم ينصرف هذا المطلق إلا إلى المتعارف بينهم(۲۱) اور عرف اپنے دونوں قسموں قولی اور عملی میں اس وقت عام ہوتاہے جب یہ تمام ملکوں میں ایک ہی طرح رائج ہو اور ان ممالک کے تمام لوگ اس پر عمل کرتے ہوں۔اور کبھی یہ خاص ہوتا ہے اس وقت جب یہ صرف ایک ملک میں رائج ہودوسرے میں نہ ہو یا کسی پیشہ یا صنعت کے ساتھ خاص ہو،جیسے اذی،سب اور شتم کا دارومدار اس علاقے کے رواج پر ہوتا ہے۔ہوسکتاہے کہ ایک علاقے میں وہی الفاظ سب وشتم اور اذی کے لئے استعمال ہوتے ہوں جو دوسرے علاقے میں اس کے لئے استعمال نہیں ہوتے۔اب اس کو ذکر کرنا ہے کہ حقیقت متعذر ہونے کی صورت میں یا مہجورہ کی صورت میں اس علاقے کے رواج پر عمل کرنا ہوگایعنی جو اس علاقے میں متعارف مطلب ہوگا اسی پر محمول ہوگا۔جیسے کسی نے قسم کھائی کہ میں اس درخت سے نہیں کھاؤں گا تو یہ اس کے پھلوں پر منحصر ہوگا۔اسی طرح کسی نے قسم کھائی کہ میں دار فلاں میں قدم نہیں رکھوں گا تو اس جگہ کے رواج پر محمول ہوگا اور دخول سے کنایہ ہوگا۔

حلف لا يأكل من هذه الشجرة، فينصرف إلى ثمرها إن كان لها ثمر، وإلا فلثمنها، صوناً لكلام العاقل عن الإلغاء؛ لأنه يتعذر إرادة المعنى الحقيقي. لو حلف ألاَّ يضع قدمه في دار فلان، فينصرف إلى الدخول بأي وجه كان، راكباً، أو ماشياً، أو حافياً أو منتعلاً؛ لأنه هو المتعارف لا المعنى الحقيقي، وهو مباشرة القدم، دخل أم لم يدخل؛ لأنه مهجور عرفاً، والعرف قاضٍ على الوضع حتى لو تكلف ووضع قدمه ولم يدخل لا يُعدّ شيئاً، ولا يحنث؛ لأنه لم يتعذر المعنى الحقيقي هنا، لكنه مهجور عرفاً وعادة، فيأخذ حكم المتعذر، وتترك الحقيقة، ويصار إلى العرف والعادة.(۲۲)

عرف اپنے اقسام کے اعتبار سے دو قسم پر ہوتا ہے۔

(۱)عرف صحیح۔ (۲)عرف فاسد۔

عرف صحیح

وہ جو شرعی نصوص میں کسی کے مخالف نہ ہو،نہ کوئی شرعی معتبر مصلحت اس سے فوت ہو اور نہ یہ کسی غالب خرابی کے حصول کا ذریعہ ہو۔جیسے لوگوں میں مشہور ہے کہ عقد نکاح میں لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے اور ان میں مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔اسی طرح وہ کپڑے جو لڑکی کو منگنی میں دئیےجا تے ہیں اور دوسری اشیاء جو عورت کو دی جاتی ہےوہ ہدیہ کہلاتی ہیں وہ مہر میں داخل نہیں ہوتىں۔

عرف فاسد

وہ جوکسی نص کے مخالف ہو،یا اس سے نقصان ہوتاہویا کوئی مصلحت ضائع ہوتی ہو جیسے لوگوں میں ناجائز معاملات عام ہیں۔مثال کے طور پر سود پر قرض لینا،جوئے میں رقم لگانا،تاش کھیلنا اور گھوڑوں کی دوڑ میں پیسے لگا کرحصہ لینا ۔ إذا وافق العرف والعادة الدليل الشرعي فيجب مراعاته وتطبيقه؛ لأن العمل في الحقيقة بالدليل الشرعي لا بالعرف وإنما يستأنس بالعرف فقط.ثانياً: إذا خالف العرف الدليل الشرعي فالنظر إلى ذلك من أوجه:

الوجه الأول:أن يخالف العرف الدليل الشرعي من كل وجه، وهو ما يعبر عنه بمصادمة النص، ويلزم من اعتبا العرف ترك النص، فهذا لا شك في رده وعدم اعتباره(۲۳)۔

اسی طرح عرف حقیقت میں ان ادلہ کی طرف لوٹتاہے جن کا شریعت نے اعتبار کیا ہے۔جیسے اجماع،مصالح مرسلہ اور ذرائع،پس جوعرف اجماع کی طرف لوٹتاہے اس کی مثال استصناع یعنی آرڈر پر مال بنوانااور حمام میں داخل ہونا۔اسی طرح جب عرف لوگوں کو مشقت اور تنگی سے نجات دیتا ہو اور سہولت میسر کرتا ہوں۔اسی بات کی طرف مبسوط سرخسی میں اشارہ کیاگیاہے۔اس میں ہے کہ جو چیز عرفاًثابت ہو وہ حقیقتا ایک شرعی دلیل کے طور پر ثابت ہوتی ہے اس لئے کہ ظاہری عادت سے روگردانی واضح تنگی اور حرج ہے۔ لأن الثابت بالعرف ثابت بدليل شرعي ولأن في النزوع عن العادة الظاهرة حرجا بينا، وإن كان شرطا لا يقتضيه العقد.(۲۴)۔اس کے ساتھ علماءکرام نے عرف کو دلیل بنایا ہے اور اپنے اجتہاد میں اس کا اعتبار کیا ہے جیسے ماقبل میں ابن عابدینؒ کا قول ذکر کیا گیا ہے۔

عرف کے معتبر ہونے کی شرائط

عرف کے معتبر ہونے اور اس پر احکام کی بنیاد رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہیں:

[۱]۔ اول یہ کہ عرف شریعت کے کسی حکم (نص) کے خلاف نہ ہو۔اگر وہ عرف کسی نص کے خلاف ہو تو اس عرف کو ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا۔جیسے کسی ملک میں سود کھانے کا رواج (عرف) ہو تو یہ عرف کسی صورت جائز نہ ہوگا۔یا اگر کسی مقام پر شراب نوشی کا رواج ہو تو ایسے عرف کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور شریعت میں اس کاکوئی اعتبار نہ ہوگا۔اور مخالف نہ ہونے کی صورت میں اس عرف کو درست قرار دیا جائے گا۔جیسے لوگوں کے درمیان یہ بات معروف ہے کہ امانت رکھنے والے آدمی کو امانت حوالہ کرنے کی اجازت ہے اس دوسرے شخص کو جس کو عادت کے مطابق حوالہ کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح امانت رکھنے والے کی بیوی،اولاد اور اس کے خادم اور اسی کی دوسری مثال منقولہ مال کا وقف کرنا اور وہ تمام شرائط جو ان عقود کو شامل ہیں کہ جن پر عرف صحیح کا فیصلہ ہوتا ہے۔لأنه متعارف بين الناس ومن الشرائط في العقود ما يجوز العرف(۲۵)۔

[۲]۔عرف غالب اور مشہور ہو:

یعنی اس کی عادت عام ہو اس معنی کے ساتھ کہ کوئی اس کا مخالف نہ ہویا مطلب یہ ہے کہ یہ عرف عام لوگوں کے درمیان عام اور شائع ہو اور ان کے اندر یہ عرف اکثر پایاجاتا ہو،مراد یہ ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والے بہت کم ہوں۔غلبہ اور اطراد ان دونوں کا اعتبار اس وقت ہوتاہے جب یہ عرف اہل عرف کے درمیان پایا جائے ۔

[۳]۔سوم یہ کہ وہ عرف جس پر کسی تصرف کو محمول کیا جائےوہ عرف اس معاملہ کے ہوتے وقت موجود ہو بایں طور کہ وہ عرف تصرف کے وقت سے پہلے وجود میں آئےپھر اس کے زمانے تک جاری رہے اور اس کے وجود سے ملا ہواہو اور ضروری ہے ان دلائل کی تفسیر جو اوقاف ،وصیتوں،بیع کے معاملات اور شادی کی دستاویزات سے متعلق ہوں اور جو شرائط اور اصطلاحات پائی جائیں ان معاملہ کرنے والوں کے زمانہ کو اس عرف کے مطابق ان کو سمجھا جائے گا ،نہ کہ اس عرف کے مطابق جو ان کے بعد پیدا ہواہو۔اگر کوئی شخص اپنی زمینی آمدنی علماء اور طلباء پر وقف کرےاور وہ عرف وقف کرنے کے وقت قائم ہوایسے علماء کے ساتھ جو امور دین کے خبرگیری رکھتے ہوں نہ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسری شرط ہو اور طلباء سے مراد علم دین کے طالب علم ہوں پس وہ آمدنی انہی علماء پر خرچ ہوگی اور ان علماء کے لئے سند کے حصول کی شرط نہ ہوگی جب کہ اس کے اور عرف میں سند کے حصول کو ضروری سمجھا جائے۔اسی طرح یہ آمدنی صرف علم دین پڑھنے والے طلباء پر خرچ ہوگی اگرچہ بعد میں عرفاً اس کا اطلاق عام ہو یعنی دینی اور دنیاوی علوم دونوں پر اطلاق ہوگا(۲۶)۔

[۴]۔یہ کہ ایسا کوئی قول یا عمل نہ ہو جو عرف کے خلاف فائدہ دیتا ہو۔جیسا کہ جب بازار میں عرف قیمت کے قسط وار ادا کرنے پر ہو مگر متعاقدین اس بات پر متفق ہوں کہ نقد ادا ہو یا اس بات پر عرف ہو کہ مال کی برآمدگی کا خرچ خریدار پر ہے جب کہ متعاقدین اس بات پر متفق ہوں کہ یہ بائع پر ہوگا۔یا یہ عرف ہو کہ زمین کی رجسٹری کرنے کا خرچہ مشتری پرہے مگر طرفین اس بات پر اتفاق کرلیں کہ بائع پر ہوگا،تو ان تمام صورتوں میں عرف پر عمل نہیں ہوگا۔اور اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز عرف کے بغیر ثابت ہو،تو عرف ثابت نہیں ہوگااگر اس کے خلاف کوئی شرط لگا دی جائے۔(۲۷)

عرف تطبیق احکام کامرجع ہے

حادثات اور جزئی واقعات پر احکام کی تطبیق لوٹنے میں اعتبار کیا گیا ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ گواہی قبول ہونے کے لئے عدالت کی شرط ضروری ہے۔دلیل ارشاد ربانی ہے۔وأشهدوا ذوي عدل منكم(۲۸)اور عدالت فقہاء کے نزدیک ایک ملکہ ہے جو ملکہ والے آدمی کوتقویٰ اور مروت پر قائم رہنے پر ابھارتی ہے۔جو چیز مروت میں مخل ہے وہی چیز عدالت میں بھی باعث نقصان ہے اور جو چیز مروت میں مخل ہے وہ زمانہ اور مکان کے بدلنے کی وجہ سے بدلتی رہتی ہے۔جیسے نفقہ کے بارے میں مطلقا آیا ہے۔وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف(۲۹)تو نفقہ مقرر کرنے کی مقدار کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ نص اس کے بارے میں مطلق ہے اس میں مقدار کی تعیین نہیں ہے۔

وَلَا دَلَالَةَ فِيمَا ذَكَرَهُ هَذَا الْقَائِلُ عَلَى نَفْيِ وُجُوبِهَا; لِأَنَّ إيجَابَهَا بِالْمَعْرُوفِ لَا يَنْفِي وُجُوبَهَا; لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ مَعْنَاهُ الْعَدْلُ الَّذِي لَا شَطَطَ فِيهِ وَلَا تَقْصِيرَ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} وَلَا خِلَافَ فِي وُجُوبِ هَذَا الرِّزْقِ وَالْكِسْوَةِ وقَوْله تَعَالَى: {وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} بَلْ الْمَعْرُوفُ هُوَ الْوَاجِبُ(۳۰)

یعنی اگر کوئی عورت نفقہ کی زیادتی کا مطالبہ کرے تو اس جیسی عورتوں سے اس کا نفقہ زیادہ نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر شوہر نفقہ کم کردے اس سے جو عرف اور عادت میں موجود ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کو عرف کے مطابق نفقہ دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اسی طرح وہ امور جو شارع کی جانب سے واجب ہیں مگر ان کی مقدار مقرر نہیں کی تو ان کی مقدار کی تعیین کی لئے عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

زمانہ کی تبدیلی کی وجہ سے احکام میں تبدیلی کا قضیہ

وہ احکام جو عرف اور عادت پر مبنی ہوں وہ عادت کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔یہی فقہاء کا مقصد ہے کہ زمانہ کے بدلنے کی وجہ سےاحکام بدلنے کا انکا رنہیں کیا جا سکتا۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جو احکا م عرف اور رواج کی وجہ سے مرتب ہوتے ہیں وہ انہی کے سا تھ گھومتے ہیں جیسے بھی وہ گھومیں۔

أَنَّ لْأَحْكَامَ الْمُتَرَتِّبَةَ عَلَى الْعَوَائِدِ تَدُورُ مَعَهَا كَيْفَ مَا دَارَتْ. وَتَبْطُلُ مَعَهَا إذَا بَطَلَتْ كَالنُّقُودِ فِي الْمُعَامَلَاتِ وَالْعُيُوبِ فِي الْأَعْرَاضِ فِي الْبِيَاعَاتِ وَنَحْوِ ذَلِكَ فَلَوْ تَغَيَّرَتْ الْعَادَةُ فِي النَّقْدِ وَالسِّكَّةِ إلَى سِكَّةٍ أُخْرَى لَحُمِلَ الثَّمَنُ فِي الْبَيْعِ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى السِّكَّةِ الَّتِي تَجَدَّدَتْ الْعَادَةُ بِهَا دُونَ مَا قَبْلَهَا وَكَذَلِكَ إذَا كَانَ الشَّيْءُ عَيْبًا فِي الثِّيَابِ فِي عَادَةٍ رَدَدْنَا بِهِ الْمَبِيعَ فَإِذَا تَغَيَّرَتْ الْعَادَةُ وَصَارَ ذَلِكَ الْمَكْرُوهُ مَحْبُوبًا مُوجِبًا لِزِيَادَةِ الثَّمَنِ لَمْ تُرَدَّ بِهِ وَبِهَذَا الْقَانُونِ تُعْتَبَرُ جَمِيعُ الْأَحْكَامِ الْمُرَتَّبَةِ عَلَى الْعَوَائِدِ وَهُوَ تَحْقِيقٌ مُجْمَعٌ عَلَيْهِ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ لَا خِلَافَ فِيهِ(۳۱)

اور یہ عرف کے ساتھ باطل ہوجاتے ہیں جب وہ باطل ہوں۔جیسے سکے کی معاملات میں تجارتی مال خرابی اور عیب کا ہونا اور ایسی دوسری صورتیں۔اگر نقدی سکہ کا رواج بدل جائے اور ایک سکہ دوسرے سکہ کی جگہ لےلے۔تو بیع میں بطور ثمن اس سکہ کا اعتبار ہوگا جو عادت کی وجہ سے نیا رائج ہو، نہ کہ پرانے سکہ کا۔اور اسی طرح جب کپڑے میں خرابی عیب شمار ہوتی ہو تو اس مبیعہ کو اس عیب کی وجہ سے لوٹایاجا سکتا تھا۔پس جب عادت بدل جائے اور اس عیب کو پسند کیا جانے لگا اور وہ قیمت کی زیادتی کا موجب بھی ہوتو اس کو لوٹایانہیں جائے گااور یہ قانون معتبر سمجھا جائے گاان تمام احکام میں جو عرف اور عادت کی وجہ سے مرتب ہوجائے۔اور تمام علماء کا اس پر اجماع ہے اور اس قانون کی رعایت کی جائے گی فتووںمیں ہر زمانہ کے اندر پس جب کبھی نیاعرف پیداہوگا اس کااعتبار ہوگا اورجب وہ ساقط ہوگاتواس کا حکم بھی ساقط ہوجائےگا۔

خلاصہ بحث

عرف کی استعمال کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں:

(۱) عرف قولی (۲) عرف فعلی

پھرعرف کے شرعی اعتبار سے مقبول ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے فقہاء نے مزید دو قسمیں بیان کی ہیں:

(۱) عرف صحیح (۲) عرف فاسد۔اس کے بعدعرف کے لئے جو شرائط ہیں ان کا تذکرہ زیر نظر تحقیقی کاوش میں کیا گیا ہے،اس لئے کہ عرف مستقل شرعی دلیل نہیں بلکہ معاون کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے لئے حدود اور قیود وضع کی گئی ہیں ۔ امام ابو یوسف ؒ نے اس فقیہ کے قول کو معاملات میں مفتی بہ گردانا ہے جس کے پاس لوگوں کی عملی زندگی اور ان کے رسم و رواج سے خوب اگاہی حاصل ہو۔ امام محمؒد انگریزوں کے احوال کی تفتیش کے لئے ان کے پاس جاتے اور ان کے یہاں رائج طریقۂ کار سے واقفیت حاصل کیا کرتے۔ لہذا شریعت مطہرہ میں عرف و رواج کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، بشرط یہ کہ شریعت اسلامیہ سےکسی صریح حکم سے متصادم نہ ہو۔

نتائج بحث

?اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے،قیامت تک آنے والے مسائل کا حل اس میں موجود ہے۔

?اسلام دین فطرت ہےجس میں فطرت انسانی کا بھرپور لحاظ رکھا گیا ہےاورتقاضائے انسانیت کی کامل رعایت اس میں موجودہے.

?انسانی عادات واطوار،عرف ورواج کی اہمیت کے پیش نظر اسلام نے رسم ورواج اور عرف وعادت کو نہ بالکل آزادچھوڑا اورنہ نظر انداز کیا ہے۔بلکہ اس کی حدبندی کی ہے اور اصول وقواعد بیان کر کے لوگوں کے لیے آسانیاں اور سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیےراستہ آسان کیا ہے

?عرف اور عادت مستقل شرعی دلیل نہیں بلکہ معاون دلیل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

?رسم ورواج کو شریعت اعتبار دیتا ہےبشر طیکہ اس کا تعارض کسی شریعی دلیل سے نہ ہو۔

?زمانے کے عرف اور رواج سے علماءکرام اور مفتیان حضرات کاآگاہ ہونا لازمی ہے۔کیونکہ فتویٰ اہل زمانہ کے عرف کے مطابق دیاجائے گا ۔

?عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئےمعاشرے کے برے اور اچھے رسم ورواج کے مابین فرق کرنا،اور اسی کے مطابق فقہی جزئیات کو نکالنااس وقت علمائے امت کی ذمہ داری ہےتاکہ صحیح اور غلط کا فرق بھی واضح ہو سکےاور لوگوں کو آسانی بھی مل جائے۔

حواشی و حوالہ جات

(۱)دکتور محمد صدقی بن احمد،الوجیزفی ایضاح قواعدالفقہ الکلیۃ۱/۲۷۳، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۴۱۶ھ۔

(۲)علی بن محمد بن علی الجرجانی،کتاب التعریفات۱/۱۴۹،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۱۴۰۳ھ۔

(۳)زین الدین بن ابراہیم بن نجیم الحنفی،الاشباہ والنظائر ۱؍۷۹،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۹ھ۔

(۴)سورۃ الاعراف۷/۱۹۹۔

(۵)جلال الدین سیوطی،الاکلیل فی استنباط التنزیل۱؍۱۳۲،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۰۱ھ۔

(۶)سورۃ المائدۃ۵ /۸۹

(۷)عبد الحلیم بن عبد السلام،ابن تیمیہ،الفتاوی الکبریٰ لابن تیمیہ۴؍۱۹۹،دارالکتب العلمیہ،۱۴۰۸ھ۔۔

(۸)علاءالدین،ابوبکر بن مسعودبن احمد کاسانی،بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع۵؍۳،دارالکتب العلمیہ،۱۴۰۶ھ۔

(ٍ۹)ابو الحسن،علی بن ابی علی آمدی،الاحکام فی اصول الاحکام۴؍۱۵۶،المکتب الاسلامی،بیروت دمشق۔

(۱۰)محمد بن اسماعیل بخاری،الجامع الصحیح البخاری۷؍۶۵[حدیث۵۳۶۴]،دار طوق النجاۃ،۱۴۲۲ھ۔

(۱۱)ابن عابدین،محمد امین بن عمر بن عبد العزیز،حسینی،دمشقی،۱۲۴۴ھ کو پیدا ہوئے۔آپ بہت بڑے عالم تھے،آپ طرابلس میں قضاء کےعہدےپر ۱۲۹۲۔۱۲۹۵تک رہے۔۱۳۰۶ھ میں وفات پاگئے۔آپ کی تصانیف میں قرۃ عیون الاخبار، الدر المختار،معراج النجاح شرح نور الایضاح،الھدایۃ العلائیۃاور ایک رسالہ زلۃ القاری کے نام سے شامل ہیں۔(الاعلام للزرکلی۶؍۲۷۰)۔

(۱۲)ابن عابدین، محمدامین بن عمربن عبدالعزیزعابدین،دمشقی، ردالمختارعلیٰ الدر المختار ۳؍۱۴۷، دارلفکر بیروت،طبعۃالثانیہ۱۴۱۲ھ۔

(۱۳)یوسف بن موسیٰ بن محمد،المعتصر من الختصر من مشکل الآثار۲؍۲۲،عالم الکتب،بیروت،بدون تاریخ

(۱۴)جلال الدین سیوطی ،الاشباہ والنظائر۱؍۷،دارلکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ۔

(۱۵)الاشباہ والنظائرلابن نجیم۱؍۷۹۔

(۱۶)محمد عمیم الاحسان،قواعد الفقہ۱/۷۴،صدف پبلیشرز،کراچی،۱۴۰۷ھ۔

(۱۷)محمد مصطفیٰ الزخیلی،القواعد الفقہیۃ وتطبیقاتھا فی المذاھب الاربعۃ۱/۳۴۵، دارالفکر،دمشق،۱۴۲۷ھ۔

(۱۸)ردالمختارعلیٰ الدر المختار۳؍۶۰۲۔

(۱۹)وعن محمد أن بيع التعاطي كما يثبت بقبض البدلين يثبت بقبض أحدهما، وقال صدر القضاة وغيره: إن بيع التعاطي بيع وإن لم يوجد تسليم الثمن.(بدر الدین عینی،البنایۃشرح الہدایۃ۸؍۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۲۰ھ۔

(۲۰)القواعد الفقہیہ وتطبیقاتھا فی المذاہب الاربعۃ۱؍۳۰۲،

(۲۱)القواعد الفقہیہ وتطبیقاتھا فی المذاہب الاربعۃ۱؍۳۳۸۔

(۲۲)القواعد الفقہیہ وتطبیقاتھا فی المذاہب الاربعۃ۱؍۳۳۶۔

(۲۳)محمد صدیقی بن احمد،الوجیزفی ایضاح القواعد الفقہ الکلیۃ۱؍۲۸۲،موسسۃالرسالۃ،بیروت،۱۴۱۶ھ۔

(۲۴)شمسالائمۃ،محمدبن احمد،سرخسی،المبسوط۱۳؍۱۴۔۱۵،دارالمعرفۃ،بیروت،۱۴۱۴ھ۔

(۲۵)المبسوط،۱۲؍۱۹۶۔

(۲۶)سید عبد الکریم زیدان،الوجیز فی اصول الفقہ ص۳۱۶،مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور۔

(۲۷)دکعورصالح بن غانم السدلان، القواعد الفقہیۃ الکبریٰ وما تفرع عنھا،ص۳۵۷، دار بلنسیۃ للنشر والتوزیع،۱۴۱۷ھ۔

(۲۸)سورۃ الطلاق۶۵/۲۔

(۲۹)سورۃالبقرۃ۲/۲۲۳۔

(۳۰)احمد بن علی،الجصاص،احکام القران۱؍۲۰۰،دار الکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۵ھ۔

(۳۱)شہاب الدین احمد بن ادریس المالکی،الفروق للقرافی۱؍۱۷۶،علم الکتب،بدون تاریخ۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...