Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

فقہ اسلامی میں قسامت کا تصور |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

36

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060034497_1009

Pages

117-128

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/28/22

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/28

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہ ایک بدیہی امر ہے کہ انسانی معاشرے سے جرم کو بالکلیہ ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم شریعت اسلامی ایک طرف لوگوں کو نیکی کی طرف راغب کرتی ہے، اچھے اعمال پر دنیوی اور اخروی فوائد کا ذکر کرتی ہے تاکہ لوگوں کا رجحان نیکی کی طرف بڑھے اور دوسری طرف منکرات سے منع کر تی ہے کبھی نصیحت کی صورت میں اور کبھی وعید کی صورت میں۔ حرمت جان کو اسلام نے بہت اہمیت دی ہے اور قرآن پاک میں اس حوالے سے کئی آیات موجود ہیں مثلاً

( اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص لازم کیا گیا ہے آزاد کے مقابلے میں آزاد اور غلام کے عوض غلام اور عورت کے عوض عورت پھر جس قاتل کو اس کے بھائی یعنی طالب قصاص کی جانب سے کچھ معاف کردیا جائے تو طالب دیت یعنی وارث مقتول کو بھلائی کی پیروی کرنی چاہئیے اور قاتل کو خوش دلی کے ساتھ اسے خون بہا ادا کردینا چاہیئے یہ حکم دیت و عفو تمہارے رب کی جانب سے آسانی اور مہربانی ہے پھر جو شخص اس آسانی کے بعد زیادتی کرے گا تو اس کو درد ناک عذاب ہوگا۔ اور اے صاحبان عقل اس حکم قصاص میں تمہاری زندگی ہے امید ہے کہ تم لوگ ناحق خون ریزی سے پرہیز کروگے۔1

اور

( اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے کہ وہ اس میں پڑا رہے اور اس پر اللہ تعالی کا غصہ ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے اللہ تعالی نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے2)

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔

( اور آپ اہل کتاب کو آدمؑ کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنادیجئے جب ان میں سے ہر ایک نے اللہ کے لئے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی ۔ اس پر دوسرے نے کہا میں ضرور تجھ کو قتل کردوں گا اس نے جواب دیا اللہ تعالی تو بس پرہیزگاروں ہی کے عمل قبول فرماتا ہے ۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کی غرض سے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کی غرض سے تجھ پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو جملہ مخلوقات کا رب ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ تو اپنے گناہوں کے ساتھ میرے قتل کا گناہ بھی حاصل کرلے پھر تو اہل دوزخ میں شامل ہوجائے اور یہ دوزخی ہونا ہی صحیح بدلہ ہے ظالموں کا ۔آخر کار اس دوسرے کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل آسان کردیا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا پھر وہ قاتل سخت نقصان اٹھانے والوں میں ہو گیا۔3

اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے۔

( اور جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہ کرو مگر کسی حق شرعی کے ساتھ اور جو شخص ناحق قتل کیا جائے تو ہم نے اس مقتول کے وارث کو قصاص کا اختیار دیا ہے پھر وارث کو خون کا بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ اس کو مدد دی گئی ہے۔4

اس حوالے بہت سی احادیث بھی مرو ی ہیں۔ مشہور تابعی طیسلۃ بن مَیّا سؒ سے روایت ہے۔ کہ (میں نجدات( خوارج) کے پاس تھا تو مجھ سے کچھ ایسے گناہ سرزد ہوئے جن کو میں کبائر میں سے شمار کرتاتھا۔ میں نے ان کا ذکر عبد اللہ بن عمرؓ سے کیا ۔ انہوں نےپوچھا کہ کونسے کونسے گناہ تم سے سرزد ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ فلان اور فلان۔ اس پر عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ یہ کبائر نہیں ہیں بلکہ کبائر یہ نو ہیں: اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، قتل ناحق، جہاد سے منہ موڑنا، پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال کھاناا، مسجد میں الحاد اختیار کرنا،ٹھٹھا بازی کرنا، اور اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے والدین کارونا5

اسی طرح ام درداء ؓ سے فرماتی ہے کہ میں نے ابودرداءؓ سے سنا کہ کہ اس نے کہا کہ میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ۔

( ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی ہر گناہ کو معاف فرمائے سوائے اس شخص کے، کہ جو مشرک مرا اور دوسرا وہ جس نے کسی مسلمان کو قصدا قتل کیا6

ابو سعید الخدری ؓ اور ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ اگر آسمان اور زمین والے کسی مسلمان کے خون(ناحق) میں شامل ہو جائے تو اللہ تعالی (سب ) کو جہنم میں اوندھے منہ ڈالیں گے7)

ایک طرف اسلام اگر انسانی جان کی حرمت پر زور دیتا ہے تو دوسری طرف اس بات کا بھی لحاظ رکھتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ کسی کے ہاتھ سے دوسرے انسان کا خون ہو جائے خواہ عمدا ہو یا خطاء تو ہر صورت میں اس کی جان رایئگان نہیں جانی چاہیئے اس لئے جو بھی قابل مواخذہ اور قابل تعزیر جرم کسی سے سرزد ہوتا ہے اسلامی نقطۂ نظر سے مجرم کو سزا دینا اس لئے ضروری ہوتا ہے تا کہ نظم معاشرہ میں خلل نہ آنے پائے اور جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ شریعت اسلامی نے اثبات جرم کے لئے مختلف طرق بتائے ہیں اور قاضی کو واضح احکامات دیئے ہیں کہ جب تک تم پر جرم کوئی روز روشن کی طرح عیان نہ ہو جائے کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔

ان طرق الاثبات میں شہادت 8، اقرار9 ، حلف 10، نکول (گریز از حلف)، قرائن 11، علم القاضی( قاضی کا واقعہ کے متعلق ذاتی علم)، کتاب القاضی الی القاضی (ایک قاضی کا دوسرے قاضی کو مکتوب لکھنا) وغیرہ کو فقہاء نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔

قتل کی صورت میں بھی انہی طرق الاثبات کا استعمال کیا جاتا ہیں تاہم بعض اوقات مقتول ایک ایسی جگہ پر پایا جاتاہے جہاں قاتل کا تعین مروجہ طرق الاثبات سے نہیں ہوپاتا تو اس صورت میں شریعت اسلامی نے قسامت کا حکم دیا ہے۔ زیر نظر مقالہ میں فقہ اسلامی کی روشنی میں قسامت کے احکام کا جائزہ لیا جائے گا۔

لغت میں قسامت قسم، صلح اور حسن و جمال کے معنوں میں آتا ہے۔12

جب کہ اصطلاح میں اس کی کئی تعریفات کی گئی ہیں ان میں چند حسب ذیل ہیں۔

احناف کے نزدیک قسامت سے مراد یہ ہے کہ جس محلہ میں مقتول پایا جائے وہاں کے پچاس افراد اللہ تعالی کے نام کی قسم کھائے کہ ہم نے نہ اس کو قتل کیا ہے اور نہ اس کے قاتل کے بارے میں ہمیں علم ہے۔13

مالکیہ کے مطابق قسامت سے مراد یہ ہے کہ اثبات خون(قاتل کے معلوم کرنے کے لئے) پچاس قسمیں یا ان میں سےبعض کا قسم کھانا ہے۔14

شوافع کے نزدیک قسامت سے مراد وہ قسمیں ہیں جن کو خون کے اولیاء پر تقسیم کیا جا تا ہے۔15

جب کہ حنابلہ کے نزدیک قسامت سے مراد وہ مکرر قسمیں ہیں جو مقتول کے حوالے سے دعوی قتل میں دی جاتی ہیں۔16

قسامت کا حکم

قسامت کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جمہور فقہاء کے نزدیک جب دعوی قتل کے ساتھ بینۃ یا اقرار نہ ہو اور لوث پایا جائے تو اس سے قصاص یا دیت ثابت ہوتا ہے۔ قسامت کی مشروعیت کی دلیل حسب ذیل حدیث ہے۔

" سہل بن حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن سہل اور محیصہ خیبر گئے اور وہ صلح کا دن تھا دونوں ایک دوسرے سے علحیدہ ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد محیصہ عبد اللہ بن سہل کے پاس اس حالت میں آئے کہ وہ خون میں لت پت تھا جس سے وہ فوت ہوگیا۔ تو محیصہ نے اسے دفن کیا پھر وہ مدینہ منورہ آئے ۔ اس کے بعد عبد الرحمان بن سہل، محیصہ ابن مسعود اور حویصہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عبد الرحمان نے بات شروع کی چونکہ وہ کم عمر تھا تو رسو اللہﷺ نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو (یعنی بڑے کو بات کہنے دو) تو محیصہ اور حویصہ نے بات کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آپ پچاس حلف اٹھاتے ہیں تو آپ قاتل سے قصاص لینے کے حقدار ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم کیسے حلف اٹھا سکتے ہیں کہ ہم نے قاتل کو نہیں دیکھا تو رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کیا یہود کو پچاس قسمیں دے کر بری کیا جائے ؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم کفار کی قسمیں کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟ اس کے بعد رسول اللہ نے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا کی۔17"

قسامت کی شرائط

1: مدعی علیہ کا مکلف ہونا: مدعی علی کا مکلف ہونا اس لئے شرط ہے تاکہ قسامت کا دعوی صحیح ہو سکے۔کیونکہ مجنون اور بچے پر قسامت جائز نہیں ہے۔ 18.

2: مدعی کا مکلف کا ہونا: مدعی اگر مکلف نہیں ہے تو وہ خود دعوی تو نہیں کرسکتا تاہم اس کی طرف سے اس کا ولی دعوی کرسکتا ہے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ دعوی کو اس وقت تک موقوف رکھا جائے جب تک بچہ عاقل نہ بن جائے البتہ اگر قتل کے وقت وہ بچہ یا مجنون ہو لیکن دعوی کے وقت مکلف ہو تو اس صورت میں اس کا دعوی قابل سماعت ہوگا۔19

3: مدعی علیہ کا متعین ہونا: احناف کے ہاں قسامت کی ایک شرط یہ ہے کہ قاتل معلوم نہ ہو کیونکہ قاتل کے معلوم ہونے کی صورت میں مقدمہ کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ 20 جب کہ جمہور کا یہ بھی کہنا ہے کہ جماعت ایسی نہ ہو جن کا قتل پر اکھٹا ہونا محال ہو 21

4: لوث کا پایا جانا:

لوث سے مراد وہ قرینہ ہے جس سے دل میں دعوی کی سچائی کا ظن غالب پیدا ہوجائے۔22

5: مقتول پر قتل کے اثرات کا پایا جانا:

اگر چہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم بعض فقہاء کے نزدیک مقتول پر قتل کے اثرات کا پایا جانا ضروری ہیں۔ کیونکہ اگر اس پر قتل کے اثرات نہیں پائے جاتے تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی موت طبعی طور پر واقع ہوگئی ہے۔ تاہم شوافع کے نزدیک مقتول پر خون یا زخم کے نشان کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔23

6: مقتول کا مسلمان ہونا:

اگر چہ مالکیہ کے نزدیک قسامت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ مقتول مسلمان ہو تاہم جمہور فقہاء کے نزدیک قسامت اس صورت میں بھی ہوگی اگر مقتول ذمی ہو ۔ جمہور کا مستدل عبد اللہ بن مسعود ؓ کی یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

( جس شخص نے کسی ذ می کو اذیت پہنچائی تو اس ذمی) کا خصم میں ہوں اور جس کا میں خصم ہو تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے خصم(فریق) ہونگا۔24

7: دعوی قتل میں قتل کی تفصیل:

فقہاء کے نزدیک ایک شرط یہ بھی ہے کہ دعو ی قسامت مفصل ہو اس میں کسی قسم اجمال اور ابہام نہیں ہونا چاہیئے۔25

8: مدعی علی کا انکار:

قسامت کی کارروائی اس وقت ہوگی جب مدعی علیہ (اگر ہو)قتل سے انکار کردے 26

9: قسم دلانے کے لئے انتخاب:

امام سرخسیؒ کے نزدیک مقتول کے ولی کے پاس یہ اختیا رہے کہ جن لوگوں پر قتل کا الزام ہے ان میں سے قسم دلانے کے لئے انتخاب کرے۔ 27

10: مقتول کا مقام قتل کا کسی کی ملکیت میں ہونا:

قسامت کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ مقام قتل کسی کی ملکیت میں ہو۔ اس لئے اگر مقتول کسی شارع عام یا کسی جامع مسجد کے قریب ہو تو اس صورت میں قسامت نہیں ہوگی۔ 28 البتہ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک اگر مقتول کسی ایسی جگہ پایا جائے جہاں عام لوگوں کی آمد و رفت ہو تو اس صورت میں تو قسامت نہیں ہوگی تاہم اگر اس علاقے میں اسی گاؤں کے لوگوں کی آمد رفت ہو تو پھر اس صورت میں اس کو لوث مانا جائے گا۔29

قسامت کا طریقہ

طریقہ قسامت کے حوالے سے فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک فریق کے نزدیک قسم اولیاء مقتول سے لی جائی گی جب کہ دوسرے فریق کے مطابق مدعی علیھم سے قسم لی جائی گی۔

شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے مطابق اولیاء مقتول سے قسم لی جائیگی ۔ ان کی دلیل حضرت حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے ۔ جس میں یہ الفاظ ہیں۔

" ہم نے اسے (یھود) کو نہیں دیکھا تو حلف کیسے اٹھائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو وہ (یہود) قسمیں کھا کر بری ہو جائیں گے۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ تو کافر قوم ہے تو اس مقتول کی دیت رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے دی) 30

اسی طرح امام مالک ؒ سے روایت ہے کہ آپ ؒ نے فرمایا: ( قسامت کے حوالے سے اس سنۃ میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور جس پر لوگوں کا تعامل آج تک جاری ہے وہ یہ ہے کہ قسم کی ابتداء ان لوگوں سے ہوگی جو کہ قتل عمد یا قتل خطاء کے مدعی ہوں31)

جب کہ دوسری طرف احناف یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ اولیاء مقتول مدعیان ہیں اور جن پر دعوی کیا جاتا ہے وہ مدعی علیہم ہیں اس لئے مدعیان پر قسم نہیں ہیں بلکہ ان پر گواہ پیش کرنے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ

( کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا (اس طرح سے) کہ قسم مدعی علیہ پر ہے۔32)

اسی طرح سعید بن مسیبؓ سے ایک روایت اس طرح بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہود سے پہلے قسمیں لی تھی اور ان کے ہاں مقتول کے پائے جانے کی وجہ سے ان پر دیت لازم کی تھی۔33

امام بخاری کی روایت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسم مدعی علیہم پر ہے ۔ حیث کے الفاظ یہ ہیں۔

( تم قاتل پر گواہ پیش کروگے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے گواہ نہیں ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پھر وہ قسم اٹھایئں گے اس پر انہوں نے کہا کہ کہ ہم یہود کی قسموں پر راضی نہیں ہیں تو رسو ل اللہ ﷺ کو یہ اچھا معلوم نہیں ہوا کہ اس مقتول کا خون رائیگان چلا جائے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کی اونٹوں میں سو اونٹ بطور دیت عطا فرمائے۔34)

اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ باقی عدالتی مقدمات کی طرح یہاں پر بھی رسول اللہ ﷺ نے مدعی علیہ پر قسم کو برقرار رکھا۔

احناف کی اور دلیل زیاد بن ابی مریم کی یہ روایت ہے۔

ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے بھائی کو فلان قبیلہ میں مقتول پایا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان میں سے پچاس لوگوں کو جمع کرو کہ وہ اس بات پر قسم اٹھائیں کہ انہوں اسے قتل کیا ہے اور نہ اس کے قاتل کو جانتے ہیں تو اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کہ میرا تو اس بھائی کے علاوہ کوئی دوسرا بھائی نہیں ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ آپ کے لئے سو اونٹ ہیں۔ تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قسامت میں قسم مدعی علیھم پر ہے جو کہ اہل محلہ ہیں نہ کہ مدعی کے لئے35)

اگر جمہور اور احناف کی دلائل کا موازنہ کیا جائے تو اس سے بظاہر احناف کی رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ شریعت کا عام اصول یہ ہے کہ قسم مدعی علیہ پر ہوتاہے تو اس قاعدہ کا یہاں پر اطلاق بھی مناسب ہوگا اور دوسرا یہ کہ احادیث اور آثار بھی احناف کی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ واللہ اعلم البتہ یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے کہ جمہور کے نزدیک قسم تو مدعی پر ہے جب کہ احناف کے نزدیک مدعی علیہ (علیھم) پر ، تو اگر وہ قسم لینے سے نکول کریں تو پھر مقدمہ کی نوعیت کیا ہوگی؟۔ اس حوالے سے جمہور کا موقف یہ ہے ایسی صورت حال میں جب کہ قسم اٹھانے سے مدعی(مدعیان) انکار کریں تو پھر مدعی علیہان سے قسم اٹھانے کے لئے کہا جائے گا۔اور جب وہ قسم اٹھائیں گے تو وہ بری الذمہ ہوجائینگے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں۔(اگر ولی فسم اٹھانے سے انکار کرے تو پھر قسم مدعی علی کی طرف پھیرا جائے گا۔36

تاہم امام احمدؒ کے مطابق اگر مدعی علیہان قسم بھی اٹھا لے پھر بھی وہ دیت ادا کرنے پابند ہونگے۔ 37

یہی رائے احناف کی بھی ہے ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ جب ان سےکہا گیا کہ کیا ہم قسمیں بھی اٹھایئں اور مال بھی دے تو حضرت عمر رضی اللہ عنیہ نے فرمایا کہ ہاں۔38

اگر مدعی علیہان بھی قسم لینے سے انکار کردیں تو اس صورت میں احناف کے نزدیک ان کو قسم اٹھانے تک قید میں رکھا جائے گا جب تک وہ قسمیں نہ اٹھائیں۔39 شوافع کے نزدیک مدعی علیھم کا قسم سے انکار کی صورت میں اب قسم مدعیان سے لی جائی گی خواہ قتل کی نوعیت عمد کی ہو یا خطا ء 40جب کہ حنابلہ کے نزدیک مدعی علیہم سے صرف اس صورت میں حلف اٹھانے کے لئے کہا جائے گا جب مدعیان حلف اٹھانے سے انکار کریں اور دوسرا یہ کہ مدعیان اس بات پر راضی ہو کہ مدعیان علیہم قسم اٹھائیں تاہم اگر مدعیان ان سے یعنی مدعیان علىہم سے قسم اٹھانے پر راضی نہ ہوں تو اس صورت میں مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائی گی۔لیکن اگر مدعی علیہم بھی حلف اٹھانے سے انکار کریں تو اس صورت میں ان سے ایک روایت کے مطابق ان کو قسم اٹھانے تک قید میں رکھا جائے گا اور دوسری روایت کے مطابق ان کو قید میں نہیں رکھا جائے گا 41

قسامت کے نتائج

کیا قسامت کی کارروائی کے بعد قصاص لی جائی گی یا دیت ہو گی؟ اس حوالہ سے احناف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ قسامت کی وجہ سے قصاص میں شبہ پیدا ہوتا ہے اس لئے چاہے دعوی قتل عمد کا ہو یا قتل خطا کا ہر دو صورتوں میں دیت ہی ہو گی 42۔

البتہ یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ سہل بن حثمہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ

کہ کیا تم قسم اٹھا کر قاتل کے قصاص کے حقدار بننا چاہتے ہو43 تو اس حوالے سے امام سرخسی ؒ کا یہ کہنا ہے کہ حدیث میں و تستحقون دم صاحبکم کا الفاظ حدیث کا حصہ معلوم نہیں ہوتے کیونکہ محدثین کا ان الفاظ کے بارے میں رائے یہ ہے کہ یھاں سہل بن حثمہ کو وہم ہوا ہے لیکن اگر ان الفاظ کو حدیث کا حصہ مان بھی لیا جائے تب بھی یہ حکم نہیں ہے بلکہ علی سبیل الانکار ہے کہ تم پھر بھی یعنی قسم اٹھا کر بھی قصاص کے حقدار نہیں ہو سکتے۔ 44

جب کہ اس حوالہ سے امام مالک ؒ اور امام احمدؒ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دعوی قتل عمد کا ہے تو قسامت کی صورت میں قصاص ہو گا۔ 45 وہ اپنی دلیل میں وہی سہل بن حثمہ ک حدیث بیان کرتے ہیں جس میں بیان ہو ا ہے کہ کیا تم قسم اٹھا کر قاتل کے قصاص کے حقدار بننا چاہتے ہو؟ وہ اپنی رائے کی تائید میں یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں۔

( تمہارے پچاس آدمی ان کے ایک شخص کے خلاف قسمیں کھائیں، تا کہ وہ اپنی گردن کی رسی دے۔ تو اس پر انہوں نے کہا کہ جس امر کا ہم نے مشاہدہ نہیں کیا تو اس پر ہم کیسے حلف اٹھا سکتے ہیں46۔؟)

تا ہم جانبین کی آراء کے تقابلی جائزہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس رائے میں زیادہ وزن پایا جاتا ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ قسامت سے قصاص نہیں بلکہ دیت واجب ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہرحال قسامت میں کوئی بھی چشم دید گواہ نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ لوث کی بنیاد پر ساری کارروائی کی جاتی ہے۔ تا ہم یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے قصاص ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس کی ضرورت کیا ہے ؟تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ بہر حال یہ اہل محلہ اور اہل قریہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ماحول پر نظر رکھے تا کہ کوئی مشتبہ یا جرائم پیشہ شخص اس علاقہ میں جرائم کے ارتکاب سے باز رہے۔ واللہ اعلم

حوالہ جات

1۔البقرۃ: 178- 179

2۔ النساء:94

3۔ المائدۃ: 28- 30

4۔ الاسراء: 4

5۔ البخاری، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ، أبو عبد الله ، الأدب المفرد بَابُ لِينِ الْكَلَامِ لِوَالِدَيْهِ، بیروت، دار البشائر الإسلامية،1989

6۔ أبو داؤد سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني السنن، كِتَاب

الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ بَابٌ فِي تَعْظِيمِ قَتْلِ الْمُؤْمِنِ، بیروت، المكتبة العصرية س ن

7۔ الترمذیِ ، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، ، ابو عيسى ، السنن، أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر1975 م

8۔ شہادت: سے مراد حاکم کی مجلس عدالت میں لفظ شہادت کے ساتھ اثبات حق کے لئے صادق شخص کی خبر دینا ہے۔دیکھئے مزید تفصیل لے لئے

البابرتیِ محمد بن محمد بن محمود، أكمل الدين أبو عبد الله ابن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين الرومي (المتوفى: 786هـ)، العناية شرح الهداية 7: 364 دار الفكر س ن

9۔ اقرار: سے مراد کسی شخص کا اس بات کی خبر دینا کہ کسی دوسرے شخص کا اس پر حق ہے۔

د. وَهْبَة الزُّحَيْلِيّ الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ 8: 224 دمشق، دار الفكر، س ن

10۔حلف سے مراد کسی چیز یا حق کے اثبات یا نفی کو اللہ تعالی کے ذاتی یا صفاتی نام سے مؤکد بنانا ہے۔ دیکھئے الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ ،8: 199

11۔ قرینہ سے مراد ہر وہ ظاہری علامت ہے جو کسی مخفی چیز کے ساتھ مقارن ہوتا ہے جو اس کی (حقیقت)پر دلالت کریں۔ دیکھئے الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ ،8: 257

12۔ الهروي، محمد بن أحمد بن الأزهري الهروي، أبو منصور ، تهذيب اللغة، باب القاف والسین، 8: 321 بیروت، دار إحياء التراث العربي، 2001م

13۔ الکاسانی ، علاء الدين، أبو بكر بن مسعودبن أحمد الحنفي ، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 7: 286 ، بیروت، دار الكتب العلمية، 1986م

14۔ الحطاب، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن محمد بن عبد الرحمن الطرابلسي المغربي، الرُّعيني المالكي (المتوفى: 954هـ)، مواهب الجليل في شرح مختصر خليل، 6: 269 بیروت، دارالفکر 1992م

15۔ الشربيني، شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشافعي ، مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 5: 378 دار الكتب العلمية، 1994م

16۔ا بن قدامة، أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسي ثم الدمشقي الحنبلي، (المتوفى: 620هـ)، المغني، 8: 487 مكتبة القاهرة، 1968م

17۔ النسائی، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني،السنن، كِتَابُ الْقَسَامَةِ باب ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ فِيهِ مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1986

18۔ البهوتى، منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس البهوتى الحنبلى ، دقائق أولي النهى لشرح المنتهى المعروف بشرح منتهى الإرادات، 3: 329 عالم الكتب 1993م

19۔ مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 5: 380

20۔ ایضا

21۔ الرملي، شمس الدين محمد بن أبي العباس أحمد بن حمزة شهاب الدين ، نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج، 7: 387 بیروت، دارالفکر، 1984م

22۔ النووي، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف ، روضة الطالبين وعمدة المفتين، 10: 10 بیروت، المكتب الإسلامي، 1991م

23۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 7: 286

24۔ البغدادی ،أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب ، تاريخ بغداد وذيوله، 8: 367، بیروت دار الكتب العلمية، 1417 هـ

25۔ نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج، 7: 387

26۔ بدائع الصنائع: 7: 289

27۔ السرخسي، محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة ، المبسوط، 26: 106 بيروت، دار المعرفة، 1993م

28۔ ابن نجیم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد، : البحر الرائق شرح كنز الدقائق، 8: 445 دار الكتاب الإسلامي س ن

29۔ روضة الطالبين وعمدة المفتين، 10: 10

30۔ النسائی، أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني،السنن، كِتَابُ الْقَسَامَةِ باب ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ فِيهِ مكتب المطبوعات الإسلامية – حلب، 1986

31۔مالك بن أنس بن مالك بن عامر الأصبحي المدني ، المؤطا، كتاب القسامة بیروت، مؤسسة الرسالة، 1412 هـ

32۔ سنن الترمذی: أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَابُ مَا جَاءَ فِي أَنَّ البَيِّنَةَ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينَ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔

33۔ المرغینانی، علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني ، أبو الحسن برهان الدين ، الهداية في شرح بداية المبتدي، 4: 497، بیروت، دار احياء التراث العربي

34۔الصحیح للامام البخاری: كِتَابُ الدِّيَاتِ، بَابُ القَسَامَةِ

35۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، 7: 286 ، بیروت، دار الكتب العلمية، 1986م

36۔الیمنی، أبو الحسين يحيى بن أبي الخير بن سالم العمراني اليمني الشافعي ،البيان في مذهب الإمام الشافعي، 13: 230جدة، دار المنهاج، 2000 م

37۔ ا بن قدامة، أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسي ثم الدمشقي الحنبلي ، المغني 8: 487 مكتبة القاهرة 1968م

38۔ بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 7: 291

39۔الهداية في شرح بداية المبتدي 4: 497

40۔ الشربيني، شمس الدين، محمد بن أحمد الخطيب الشافعي ، مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 5: 387 بیروت، دار الكتب العلمية، 1994م

41۔ الخرقي، أبو القاسم عمر بن الحسين بن عبد الله الخرقي ، متن الخرقى على مذهب ابي عبد الله أحمد بن حنبل الشيباني 1: 130 دار الصحابة للتراث، 1993م.

42۔ المبسوط، 26: 106 بيروت، دار المعرفة، 1993م

43۔ سنن النسائی، كِتَابُ الْقَسَامَةِ باب ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ فِيهِ مكتب المطبوعات الإسلامية– حلب، 1986

44۔ المبسوط، 26: 108

45۔ الفقہ الاسلامی: 7:718)

46۔ النیسابوری، مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري، المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، كِتَابُ الْقَسَامَةِ وَالْمُحَارِبِينَ وَالْقِصَاصِ وَالدِّيَاتِ، بَابُ الْقَسَامَةِ، بیروت، دار إحياء التراث العربي، س ن

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...