Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 32 Issue 1 of Al-Idah

فلسفہ احکام میراث |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

32

Issue

1

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1011

Pages

49-75

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/138/130

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/138

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جیسا کہ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ میراث کا علم اللہ کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھنے والا علم ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوه، فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ ۱ علم میراث سیکھو، اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، اس لئے کہ یہ آدھا علم ہے،، ‘‘  اس علم کو علم الفرائض کا نام بھی اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے , یا اس وجہ سے کہ اس میں ورثاء کے حصے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمادیے ہیں ۔ 

علم میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ باقی تمام عبادات کو اللہ تعالیٰ نے اجمالاًبیان فرمایا ہے اور اس کی تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مبارکہ کے ذریعے بیان فرمائى ہیں ۔ جیسا کہ نماز کی فرضیت کا حکم تو اللہ نے دیا ہے ,لیکن اس کی باقی تفصیلات احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ اس کے اوقات کیا ہیں , فرض رکعات کتنى ہیں ,سنتىں کتنى ہیں , واجبات کتنى ہیں ,نوافل کتنے ہیں ,وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تفصیلی وضاحت بھی احادیث ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ لفظ ’’ صلاۃ ‘‘ سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ پانچ نمازیں ہیں ۔ اسی طرح زکاۃ کے بارے میں بھی فرضیت کا حکم تو قرآن نے دیا ہے , لیکن اس کا نصاب , اور مقدارِ زکاۃ کى تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں ۔ رمضان کے مہینے میں روزوں کا قرآن نےصرف یہ حکم دیا کہ:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۲ "اے مؤمنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ,تاکہ تم تقوی دار بنو"

لیکن روزے کی باقی ساری تفصیلات احادیث میں مذکور ہیں ۔ حج کے بارے میں اسی لئے آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

عن جَابِر يَقُولُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَقُولُ لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ ۳

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یوم النحرمیں اپنی سواری پر جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے ہوئے دیکھا کہ آپﷺ فرمارہے تھےمجھ سے حج کے احکام سیکھو,کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اس حج کے بعدپھر حج کرسکوں گا"

لیکن اس کے برعکس میراث کے قانون کی پوری تفصیلات قرآن کریم نے خود بتائی ہیں ,اور ذوی الفروض اور عصبات کے تمام حصوں کا تعین خود قرآن کریم نے کردیا ہے ,اور ان میں سے ہر ایک کا حصہ الگ الگ کرکے دیا ہے ۔ اور قانونِ میراث کے ساری تفصیلات کو ان تین آیتوں میں بیان فرمايا گیا ہے:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ۔ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ ۔ ۴

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۵

زمانہ جاہلیت میں وراثت صرف طاقتور مردوں کا حق ہوتا تھا یعنی عورتوں اور بچوں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا ,اس قانون کی بنیاد یہ تھی کہ جو جنگ نہیں لڑسکتا وہ میراث میں حصہ نہیں لے سکتا ۔ جیسا کہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں لکھا ہے , وہ فرماتے ہیں:

وكانت الوراثة في الجاهلية بالرجولية والقوة، وكانوا يورثون الرجال دون النساء، فأبطل الله عز وجل ذلك بقوله: (لِلرِّجالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّساءِ نَصِيبٌ) ۶

ترجمہ : “وراثت جاہلیت کے زمانہ میں صرف طاقتور مردوں کو ملا کرتا تھا ,اور عورتوں کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا ,تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے اس ظلم پر مبنی قانون کو باطل کردیا ‘‘

مردوں کا حصہ ہے اپنی کمائی مىں سے،اور عورتوں کا حصہ ہے اپنی کمائی میں سے،سنن النسائی الکبریٰ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے ,اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الإیمان میں ,إمام ابو عبدا للہ الحاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں،ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی نے سنن الدار قطنی میں اور امام نسائی نے السنن الکبریٰ میں بھی نقل کیا ہے  

عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تعلموا القرآن وعلموه الناس وتعلموا العلم وعلموه الناس وتعلموا الفرائض وعلموها الناس فإني امرؤ مقبوض وإن العلم سينقص حتى يختلف الاثنان في الفريضة فلا يجدان من يفصل بينهما ۷

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں , کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن سیکھو,اور اسے لوگوں کو سکھاؤ, علم سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ, میراث سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ, کیونکہ میں تم سے رخصت ہونے والا ہوں , اور بہت جلد وہ وقت آئے گا، کہ علم کم ہوجائے گا، حتّٰی کہ دو اشخاص کا میراث کے مسئلہ میں اختلاف پیدا ہوجائے گا، اور کوئی بھی نہیں ہوگا کہ ان کے درمیان صحیح فیصلہ کرسکے،، 

اسی طر ح امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث نقل کی ہے، اور یہی روایت دوسرے الفاظ میں المعجم الطبرانی میں بھی نقل ہوئی ہے ۔ 

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم- قَالَ : تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى وَهُوَ أَوَّلُ شَىْءٍ يُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِى ۸

“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کہ میراث کا علم سیکھو، اور اسے دوسرے لوگوں کو سکھاؤ، کیونکہ یہ آدھا علم ہے، اور یہ علم بھول جاتا ہے،اور میری اُمت میں سے سب سے پہلے اس علم کو واپس لیا جائے گا،، 

میراث کے علم سے بے خبری اور حد درجہ غفلت کا زیادہ بُرا اثر خواتین پر ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بہنوں کو لوگوں نے میراث کا حصہ دینا ہی بند کردیا، اور بڑے اطمینان او رخوشی کے ساتھ بیٹھ کر باپ کا ترکہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں، بہنیں موجود ہوتی ہیں، لیکن اُن کے دیکھتے دیکھتے،یعنی اُن کے سامنے اُن کا حصہ خود تقسیم کرتے ہیں،اور بہنیں اپنے باپ کی میراث سے عمر بھر کے لئے محروم ہوجاتی ہیں، اور ظاہر ہے اس ظلم کے نتیجے میں ان بہنوں کے بچے بچیاں بھی محروم ہی ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف بہنیں اس ظلم کا شکار نہیں ہیں بلکہ بہت ساری بیوائیں اور یتیم بچیاں اور بچے بھی اس ظلم کا شکار ہیں کہ ان کا حصہ طاقتور مرد ورثاء ہڑپ کرجاتے ہیں، یہ بالکل جاہلیت کے زمانے کی وہ شکل ہے،جیسے اُس وقت مرد اور پھر طاقتور مرد کو میراث کا حق پہنچتا تھا، جبکہ عورتوں اور بچوں کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا،بالکل اسی طرح آج ہمارے معاشرے میں بھی عورتیں تو مکمل طور پرمحروم ہوگئیں ہیں،لیکن ساتھ کمزور مرد یعنی بچپن میں یتیم ہونے والے بچے بھی اُن کے میراث کے حق سے محروم کردیے جاتے ہیں، اور وہ تمام اموالِ منقولہ اور غیرِ منقولہ جو اُن بچوں کے حصے میں آتے تھے، وہ سب یا تو آپس میں تقسیم کرکے بالکل کالعدم کردیتے ہیں،گویا وہ بچہ ان کے خاندان کا ہے ہی نہیں، اورنہ کبھی تھا ۔ اور یا یتیم کا مال بچپن ہی میں اُس پر خرچ کے نام سے خود ہڑپ کرجاتے ہیں،اور بڑا ہوکر اُس بے چارے کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ میرا بھی کوئی مال تھا ۔ 

پوتے کی وراثت کے مسئلے پر چونکہ اسلام کے خلاف ان دشمنانِ اسلام کو ایک بے بنىاد اور فرضی شوشہ ہاتھ آگیا، تو اس پر انہوں نے بڑا شور مچایا،لیکن مسئلہ تو صرف یتیم پوتے کا نہیں، پوتیوں کا بھی ہے، اور اُن یتیم بچوں اور بچیوں کا بھی ہے،اور ان بچوں اور بچیوں کی بیوہ ماں کابھی ہے،جسے کچھ بھی نہیں ملتا،بلکہ ستم پر ستم یہ کہ اُ س بیوہ کو تو یہ لوگ عدَّت گزرنے کے بعد بھی ایسا رکھتے ہیں،جیسے یہ اِن کے بھائی کے نکاح سے نکل کر خود بخود ان کے نکاح میں آگئی ہے ۔ اُس کو دوسرے نکاح کا بھی حق نہیں دیتے،اور اسے اپنی ناک کا مسئلہ سمجھتے ہیں،اور اس بیوہ کے یتیم بچوں،بچیوں کو اپنی میراث سمجھ کر آپس میں رىوڑىوں کی طرح تقسیم کردیتے ہیں، اور بعض دفعہ تو ایسے دردناک واقعات ہوئے ہیں،جن میں سے ایک آدھ واقعے کا میں خود بھی گواہ ہوں،کہ شوہر کی وفات کے چند دن بعدکسی بہانے یا ضرورت کے لئے اس بیوہ خاتون کو اپنے بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر بھیج دیا،اور واپسی پر اُس کے لئے اِس گھر کےدروازے بند کردیے، کہ دوبارہ اب وہ اس گھر میں قدم ہی نہیں رکھ سکتی ۔

تقسیم میراث کا فلسفہ:

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا

اس آیت کریمہ میں پانچ بنیادی مسائل کا بیان ہے:

۱۔ میراث ضرور تقسیم ہونی چاہئے خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو ۔ 

۲۔ میراث میں صرف مَردوں کا حصہ نہیں بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے ۔ 

۳۔ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال پر لاگو ہوگا خواہ وہ اموالِ منقولہ ہو یا غیر منقولہ ۔ 

۴۔ میراث کا حق اُس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص مال چھوڑ کر مرے ۔ 

۵۔ قریب ترین رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر محروم ہوگا ۔ علم میراث کے قانون کے اس شِق سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ میراث کے قانون میں مقامى قاری کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر قائم قامی کا سلسلہ شروع ہوجائے تو پھر ہر مىت کے قائمقام تقسیم میراث کے وقت حاضر ہوجائیں گے او راپنے اپنے رشتہ دار کے قائم مقام بن جائیں گے، مثلاً برادر نسبتى آئیں گے او راپنى متوفى بہن کے قائمقام بن کر اُس کا حصہ وصول کرنے کا مطالبہ کریں گے ۔ چھوٹے بچوں کی ماں اُن کا حق مانگنا شروع کردیں گی، اور میراث میں زندہ ورثاء کو کچھ بھی نہیں ملے گا، بلکہ قائمقام سارا ترکہ لے جائیں گے، جس سے میراث کا قانون ایک پراگندہ اور غیر معقول قانون بن جائے گا ۔ 

تقسیم میراث کے احکام شرعیہ کا فلسفہ تین بنیادی اصولوں پر مبنی ہے:

۱۔ قرابت یعنی رشتہ داری: پہلا حق قریبی رشتہ داروں کا ہے، تو میت کے قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم ہونگے۔ یعنی میت کے وہ رشتہ دارسب سے پہلے حقدار ہوں گے جن کے اور میت کے درمیان کوئی اور رشتہ دار حاجب (حائل)نہ ہو۔

۲۔ ضرورت: یعنی اللہ نے میراث کے حصے حسب ضرورت مقررکئے ہیں تو لڑکوں کی ضرورت زیادہ ہے ۔اسلئے کہ لڑکیوں کا خرچہ والدین کی ذمہ داری ہے او ر اُن پر کمانا لازم نہیں ہے اور شادی کے بعد شوہر پر نفقہ لازم ہے ۔ اسی طرح عورت والد اور شوہر دونوں سے حصہ لیتی ہے اور نان نفقہ کی ذمہ داری اس پر کچھ بھی نہیں ہے ۔ 

اسی طرح میت کی اولادکی ضرورتیں اس کے والدین سے زیادہ ہوتی ہیں اس لئے میراث میں ان کا حصہ زیادہ مقرر ہوا ۔ 

۳۔ تقسیمِ دولت: اسلام نے ایسا انتظام کیا ہے کہ دولت خاندانوں میں تقسیم ہوجائے اور چند ایک ہاتھوں میں جمع نہ رہے ۔ یعنی ارتکاز دولت نہ ہو، جیسا قرآن نے فرمایا : كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۱۷ "تاکہ وہ (مال)تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے" اسی غرض کے لئے تقسیم میراث کا قانون دیا فهو العليم الحكيم ـ

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مولانا سید ابو الأعلیٰ مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے، جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہئے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں ۔ قرآن مجیدمیں اس پالیسی کو صرف بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا گیا ہے بلکہ اِ سی مقصد کے لئے سود حرام کیا گیا ہے، زکاۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں سے خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا ہے، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں، جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے، میراث کا ایسا قانون بنایا گیاہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمّت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اُن کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے، جسے خیرات نہیں بلکہ اُن کا حق سمجھ کر ہی ادا کرنا چاہئے، اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے،کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لئے صرف کیا جائے ‘‘ (۱۸)

کسی کے مرجانے کے بعد اس کامال درج ذِیل ترتیب سے خرچ اور تقسیم کیا جائے گا۔1-سب سے پہلے اس مال سے اس میت کى تکفین اور تدفین کا انتظام کیا جائے گااور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا، اس کی حکمت اور فلسفہ یہ ہے کہ ممکن ہے، مردے کے ورثاء اس کی تدفین کا خرچہ اپنے مال سے برداشت نہ کررہے ہو ں، او ر اس کے مرتے ہی اس کا مال سارے کا سارا اُن ورثاء کے قبضے میں چلا گیا ہو، اور ورثاء کے علاوہ اور کوئی نہ ہو جو یہ خرچہ برداشت کرے،تو میت کے اپنے مال کے ہوتے ہوئے بھی اُس کی تکفین وتدفین کے مسائل پیدا ہونگے، اگر چہ یہ عمومی بات نہیں ہے، لیکن پھر بھی ایسی صورتیں پیش آسکتی تھیں، اسلئے اسلام نے یہ قانون دیا کہ مردے کی تکفین وتدفین کے سارے ضروری اخراجات مردے ہی کے مال سے ادا ہونگے، اسلئے اسلام نے ساتھ یہ بھی حکم دیا کہ تکفین اور تدفین میں غیر ضروری چیزیں شامل نہیں کی جاسکتیں مثلاً: کفن کا کپڑا ضرورت سے زیادہ خریدنا تاکہ ائمہ حضرات کو اس میں سے حصہ دیا جائے یا جائے نماز خرید کر تقسیم کرنا ۔ اسقاط اور صابن وگڑ، یا کھانے اور حلوہ کی دیگیں تقسیم کرنا جو بدعت بھی ہے لیکن مردہ کے مال سے اس پر خرچ کرنا بہت زیادہ قبیح اور شنیع ہوجاتا ہے۔ اس کی ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ یہ چونکہ انسانی فطرت ہے کہ جب کسی کے گھر میں کوئی مر جائے، تو وہ خود بھی کھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا،چہ جائیکہ و ہ دوسروں کو کھلانا شروع کردے، اس لئے اسلا م نے یہ حکم دیا ہے کہ تین دن تک مردے کے رشتہ دار اور پڑوسی سب اُس کے لئے اور اُس کے مہمانوں کے لئے اگر ہو ں، کھانے پینے کا بندوبست کریں،اور خود بھی پس ماندگان کے ساتھ تعزیت کے لئے اُن کے پاس جاکر بیٹھیں، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا : 

اصْنَعُوا لآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَقَدْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ ۱۹

ترجمہ :‘‘جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانے کا بند وبست کرو، اسلئے کہ اُن پر غم آیا ہے، جس نے اُن کو کھانے سے بے پرواہ کردیا ہے،، البتہ میت کی وصیت کے بعد اس کے قضا روزوں اور نمازوں کا فدیہ دینا ثابت ہے لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں جو مروج ہے ۔ یہ تو بدعت ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے مرجانے کے بعد اُس کے چھوڑے ہوئے مال کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ چونکہ یہ مال اب اس مردے سے ورثاء کی طرف منتقل ہوگیا ہے، اور ورثاء میں بیوہ یا بیوائیں بھی ہیں، اسی طرح ممکن ہے یتیم بھی موجود ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ورثاء موجود ہی نہ ہو ں، اس لئے موجود ورثاء یا با اختیار وارث کو اس مال کی حفاظت کرنی چاہئے، تا وقتیکہ یہ اپنے مالکوں کے حوالے ہوجائے، اس کے بعد وہ اپنے مال میں جس طرح چاہے جائزتصرف کرسکتے ہیں ۔ 

حضرت حمدون قصار رحمہ اللہ کا ایک دوست بسترِ مرگ پر آخری سانسیں لے رہا تھا کچھ اور لوگ بھی موجود تھے، جونہی دوست نے آخری سانس لی، آ پ نے فورًاچراغ بجھا دیا ۔ لوگوں نے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا : اس وقت تک تو ہمارے دوست کا مال تھا لیکن اب اس چراغ کا تیل یتیموں کا مال اور ان کی امانت ہے اس لئے بجھا دیا ۔ 

2۔ دوسرے نمبر پر اس مال سے میت پر واجب الادا قرضے ادا کئے جائیں گے بشرطیکہ میت نے موت سے پہلے خود وصیت کی یا اس قرض کا وثیقہ موجود ہو ۔ یہ اس لئے کہ چونکہ قرض کے عوض یہاں جتنا مال موجود ہے وہ مردے کا مال ہے ہی نہیں، بلکہ اُس کی حیثیت امانت کی ہے، جو قرض خواہ کو ادا کردی جائے گی ۔ اس کی ایک حکمت یا فلسفہ یہ بھی ہے، کہ قرض کا معاملہ مردے کے ترکہ کے ساتھ متعلق کردیا،تاکہ اگر مردے کے مال سے قرض پورا نہ ہو تو زندہ ورثاء پر یہ قرض ادا کرنا لازم نہیں ہے، بے شک ورثاء اگر اپنی مرضی سے ادا کرنا چاہے تو کوئی پابندی بھی نہیں ہے، اور اس کا اُن کو اجر ملے گا، لیکن اگر وہ ادا نہ کرنا چاہے تو کوئی اُن کو مجبور نہیں کرسکتا ۔ اور اگر پورا مال قرض میں ختم ہوگیا،تو قصہ ختم ہوگیا اور اگر مال قرض سے کم پڑ گیا تو پورے ترکہ کو قرض خواہوں کے قرضوں کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا، اُس کی وصیت باطل ہوجائے گی، اور ورثاء محروم ہوجائیں گے، یعنی گویا قرض خواہ اُس کے وارث بن گئے۔ ہاں اگر ورثاء اپنی مرضی سے پورا قرض یا اُس میں سے کسی کا کچھ حصہ ادا کرنا چاہے تو اُن کو اس احسان کا اجر ملے گا اور دوسری طرف مردے کا ذمہ بھی عند اللہ فارغ ہوجائے گا ۔

یہ حکم، کہ قرض مردے ہی کے مال سے ادا ہوگا،اور ورثاء پر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہے،اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر قرض کی ادائیگی ورثاء پر لازم ہوتی، تو بے شمار لوگ قرض کے مدعی بن کر آجاتے اور ورثاء کو تنگ کرنا شروع کردیتے کہ میت پر ہمارا اتنا قرض تھا وہ ہمیں ادا کردو۔اور عین ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ورثاء سے ناراض ہو او روہ اُن کو تنگ کرنے کے لئے لوگوں کو قرض کے وثیقے دیدیں،کہ فلاں فلاں کا مجھ پر اتنا اتنا قرض ہے،اور ورثاء اس کو ادا کرنے کے پابند ہوں گے ۔ اس لئے شریعت نے ورثاء پر یہ ذمہ داری نہیں رکھی ہیں کہ وہ میت کے قرضے ادا کرتے رہیں ۔ ہاں اگر یہ قرض کسی فیکٹری یا کاروباری ادارے کے وکیل کے طور پر اُس نے لیا ہے تو پھر وہ فیکٹری یا ادارہ اس قرض کی ادائیگی کا پابند ہوگا،اگر چہ وہ وکیل فوت ہوگیا ہو جس نے یہ قرض لیا تھا ۔ کیونکہ یہ قرض اُس نے اپنے لئے نہیں لیا تھا بلکہ درحقیقت یہ قرض اس فیکٹری یا ادارے نے لیا ہے او روہ قائم ہے ۔ 

3۔ تیسرے نمبر پر میت کی وصیت اس مال سے پوری کی جائے گی لیکن وصیت کے لئے شرائط ہیں جن کی پابندی ضروری ہوگی:

۱۔ یہ وصیت میت کے مال کے ایک تہائی حصے سے زیادہ نہ ہو، یعنی کوئی بھی شخص اپنے مال کے تیسرے حصے سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا،اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ضرور بالضرور ایک تہائی کی وصیت کرے ۔بلکہ یہ آخری حد ہے کہ اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ۔ اگر کسی نے ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی تو اُس میں سے صرف ایک تہائی کو ادا کیا جائے گا،باقی ورثاء کے لئے رہ جائے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تمہارا اپنی اولاد کو مالدار چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ پھرلوگوں سے مانگتے پھریں ۔

۲۔ یہ وصیت ناجائز نہ ہو، اس لئے کہ ناجائز وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم میں کوئی آدمی ساٹھ سال اللہ کی اطاعت کرتا رہتا ہے پھر موت کے وقت ضرررسان وصیت کرتا ہے جس کی وجہ سے دوزخ ان کے لئے واجب ہوجاتا ہے ۔اس میں یہ بات بھی ملحوظ نظر رکھنی چاہئے کہ وصیت میت نے خود کی ہو، جعلی وصیت قابل قبو ل نہ ہوگی، دنیا میں ایسی وصیت کبھی چل بھی سکتی ہے، لیکن اللہ کے حضور یہ وصیت قابل قبول نہ ہوگی ۔ 

3۔ وصیت ذوی الفروض کے لئے نہیں کی جاسکتی، آ پﷺ نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِى حَقٍّ حَقَّهُ فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ اللہ تعالیٰ نے میراث کے ہر حقدار کو اس کا پورا حق دے دیا ہے اس لئے وارث کے لئے کوئی وصیت جائز نہیں،، ذوی الفروض وہ لوگ ہیں جن کے لئے قرآن میں حصے مقرر ہیں ۔ عصبات وہ لوگ ہیں جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لیتے ہیں ۔

فلسفہ ممانعتِ وصیت برائے ورثاء:

چونکہ میراث کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے ایسے عدل کے ساتھ کی ہے،کہ اس میں کسی کا حق رہا نہیں، چھوٹے بڑے اور مرد وعورت سب کو اس کا پورا پورا حصہ مل گیا ہے، مذکورہ حدیث میں اس کی انتہائی اچھی وضاحت موجود ہے،یعنی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اُس کے مورث کے ترکہ میں اُس کا حق پورا پورا دے دیا ہے، اس لئے وارث کے لئے کسی اور وصیت کا حق کسی کو بھی نہیں ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایسی تقسیم کردی کہ اب کسی وارث کے لئے مزید کچھ دینے کی وصیت کی گنجائش ہی نہیں رہی، اور یہی وارث کے لئے وصیت کی ممانعت کا فلسفہ ہے، کہ میت کے ترکہ میں جو اُس کا حق بنتاتھا،وہ پورے کا پورا اُس کو مل چکا ہے اور اب اس میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے ۔اس عادلانہ تقسیم کے باوجود وارث کے لئے وصیت کرنا اللہ کى تقسیم پر عدم اعتماد اور عدم رضامندی کے مترادف ہوگا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقسیم ایسے عدل اور حکمت پر مبنی تقسیم ہے کہ اس میں کسی مظلوم کا کوئی اعتراض،یا کسی کمزور کی کوئی شکایت نہیں رہی،اور نہ روئے زمین پر کسی اور دین کے لئے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کی کی گنجائش رہی ہے ۔ 

4۔ چوتھے نمبر پر ورثاء ہیں کہ بقیہ مال ورثاء میں اللہ کی طرف سے ان کے مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

قرآن کریم کی سورۃ النساء کی تین آیات کریمہ جو اس مضمون کے شروع میں لکھی گئی ہیں، ان میں میراث کی تقسیم کا پورا بیان موجودہے، اور علم میراث پر آج دنیا میں جتنی بڑی بڑی ضخیم کتابیں موجود ہیں،وہ انہی تین آیتوں کی تشریح و توضیح ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے کلام میں کتنی جامعیت ہے،کہ انتہائی مختصر بیان میں کتنی تفصیلی تقسیم اور پھر انتہائی عدل کے ساتھ ہر حق دار کو اپنا حق پہنچا کر کی ہے، اور یہ تقسیم ایسی زبردست طریقے پر کی گئی ہے کہ آج تک دنیا کے کسی مذہب وتہذىب کے پاس اس جیسا نظام موجود نہیں ہے،بلکہ میراث کی تقسیم کا اگر دنیا میں کوئی نظام ہے تو وہ یہی قانون ہے، جسے قرآن نے بیان فرمایا ہے ۔ 

چھ قسم کے ورثاء کی عدم محرومیت کا فلسفہ

وارثوں میں 6 قسم کے لوگ کبھی بھی محروم نہیں ہونگے۔

۱۔ باپ ۲۔ ماں ۳۔ بیٹا ۴۔ بیٹی ۵۔ شوہر ۶۔ بیوی

اس کی حکمت اور فلسفہ یہ ہے کہ میراث کا قانون قُرب اور بُعد پر مبنی ہے، یعنی اگر کسی میت کے قریبی ورثاء موجود ہونگے تو دور کے ورثاء محروم ہوں گے، اور یہاں یہ چھ ورثاء ایسے ہیں، جن کی موجودگی میں یہی میت کے سب سے زیادہ قریب ہیں،اور ان سے زیادہ کوئی قریب نہیں ہے،یعنی میت اور ان کے درمیان کوئی حاجب نہیں ہے،جس کی موجودگی میں ان میں سے کوئی محروم ہوجائے ۔

اولاد سے چھ قسم کے لوگ مراد ہیں : ۱۔ بیٹا ۲۔ بیٹی ۳۔ پوتا ۴۔ پوتی ۵۔ پڑپوتا ۶۔ پڑپوتی میراث کے قانون میں ’’ اخوۃٌ سے مراد دو یا دو سے زیادہ بھائی بہن دونوں مراد ہیں، خواہ وہ حقیقی ہوں یا علاتی یا اخیافی۔

حقیقی بہن بھائی : جو ماں باپ دونوں میں شریک ہوں، اس کو عینی بھائی بھی کہتے ہیں، اردو میں سگا بھائی کہتے ہیں ۔ 

علاتی بہن بھائی: جو صرف باپ میں شریک ہوں اور انکی مائیں الگ ہو۔ اردو میں اسے سوتیلا بھائی کہتے ہیں۔ 

اخیافی بہن بھائی: جو صرف ماں میں شریک ہوں اور ان کے باپ الگ ہوں۔ 

اخوۃٌ میں حقیقی،علاتی اور اخیافی سب کی شمولیت کا فلسفہ:

اس کی حکمت اور فلسفہ یہ ہے کہ چونکہ اولاد اس شخص کی شمار کی جاتی ہے، جس سے وہ پیدا ہوئی، تو حقیقی بھائی بہن کی تو بات بالکل واضح ہے کہ ان کے ماں باپ دونوں ایک ہی ہیں، لیکن علاتی بہن بھائی کا چونکہ باپ شریک ہے، اس لئے وہ بھی ایک دوسرے سے میراث لیتے ہیں، لیکن حقیقی بہن بھائی چونکہ اقرب ہیں اس لئے اُن کی موجودگی میں علاتی محروم ہونگے، لیکن حقیقی بہن بھائی کی غیر موجودگی میں پھر علاتی بہن بھائی اپنا حصہ لیں گے، خواہ وہ ذوی الفروض کی حیثیت سے ہو یا عصبہ کی حیثیت سے، اسی طرح چونکہ اخیافی بہن بھائیوں کی ماں ایک ہے،اس لئے وہ اس ماں کے ترکہ میں سب شریک ہوں گے، باپ اگر چہ ایک نہ ہو، لیکن جہاں تک ماں کے ترکہ کا تعلق ہے،اُس میں اس ماں کے بطن سے پیدا ہونی والی ساری اولاد بطور اخیافی بہن بھائی مقررہ شرائط کے ساتھ اپنامقررہ حصہ لیں گے ۔

قانونِ میراث میں عاق کی کوئی حیثیت نہیں

میراث میں عاق کی کوئی حیثیت نہیں، مورث کے مرنے کے بعد وہ اپنا مقرر حصہ ضرور لے گا کیوں کہ یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ہے ۔ اس لئے کہ میراث کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے، اور اُس کے فیصلوں کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا، خواہ باپ ہی کیوں نہ ہو ۔ تو جس کو اللہ نے قرآن کریم میں حصہ دیا ہے، کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ حصہ اُس سے واپس لے لے ۔ اس لئے آج کل عدالتوں میں جو عاق نامہ بنتا ہے، شرعی لحاظ سے اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،او رنہ اُس پر عمل کیا جائے گا ۔ البتہ اپنی زندگی میں اگر باپ اپنے مال کے بارے میں شریعت کے مطابق کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے،یعنی کسی کو کچھ دیتا ہے او ر کسی کو نہیں دیتاتو اسے اس کا اختیار ہے، اگر چہ مناسب تو یہی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ زندگی میں بھی اپنی اولاد میں فرق نہیں کرنا چاہئے،بلک اُن کو برابر برابر دینا چاہئے ۔

Death Duty) حکومت کوئی موت ٹیکس مقرر نہیں کرسکتی ):

اگر کسی میت (مرد، عورت )کا کوئی وارث نہ ہو، تو ایسی صورت میں حکومت، اُس مال یا جائیداد کا وارث بن سکتی ہے، یعنی اس مردے کے ترکہ کا سارا مال قومی خزانہ میں جمع کیا جائے گا۔ جس کا کوئی وارث نہ ہو ۔ یہ اس لئے کہ اقرباء کی غیر موجودگی میں پھر سب سے زیادہ قریب حکومت اور قومی خزانہ ہے، جو اس شخص کی زندگی میں اس کے تمام اُمور کی دیکھ بال کرتی تھی، اس کو سیکورٹی فراہم کرتی تھی، اور اس شخص کی زندگی میں وہ تمام سہولیات بہم پہنچاتی تھی جو اس کی ضرورت تھی ۔ اس لئے اس کے مال کے سب سے پہلے حقدار تو اس کے اپنے نسبی رشتہ دار ہیں، لیکن نسبی رشتہ دار کی غیر موجودگی میں اب سب سے قریب بلکہ اقرب حکومت ہے، جو بقیہ مال سارا لے گی ۔ لیکن ورثاء کی موجودگی میں حکومت میت کے ترکہ پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرسکتی، اس لئے کہ یہ حصہ اللہ تعالیٰ نے نہیں مقرر کیا ۔  موانعِ میراث اور فلسفه ممانعت:

تین چیزیں مانع میراث ہیں ۱۔ غلامی ۲۔ قتل ۳۔ اختلافِ دین

۱۔ غلامی: یہ اس لئے کہ چونکہ غلام خود اور اُس کی ملکیت میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کا سب اُس کے آقا کا ہے، اس وجہ سے غلام نہ میراث لیتا ہے اور نہ اس کا مال میراث ہوتا ہے،کیونکہ اس کا جو کچھ بھی ہے وہ پورے کا پورا اِس کے آقا کا ہے،اور ظاہر بات ہے کہ آقا کاغلام کے ساتھ کوئی نسبی، یا سببی یا رضاعی رشتہ نہیں ہے، تو غلام کو اگر میراث میں حق مل جائے گا تو وہ پورے کا پورا آقا کے پاس جائے گا، اور وہ اس حق کا حق دار نہیں ہے، تو غلام کو میراث میں حق دینے سے میراث غیرِ وارث کے ہاتھ منتقل ہوجائے گا۔ 

۲۔ قتل: یعنی اگر کسی وارث نے اپنے مورث کو قتل کردیا تو اس قاتل کو مقتول کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ملے گا، نبی کریم صلی اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : الْقَاتِلُ لاَ يَرِثُ.۲۱ قاتل اس لئے میراث کے حق سے محروم ہوجاتا ہے کہ اگر اس کے میراث کے حق کو ساقط نہ کیا جائے، تو لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا شروع کردیں گے، اس لئے کہ مال کی محبت لوگوں کو اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے، اور پھر وہ اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں تک کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے، جیسے کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کے لئے بھائی نے بھائی کو،بھتیجے نے چچا کو، چچا نے بھتیجے کو، ماموں نے بھانجے کو اور بھانجے نے ماموں کو قتل کردیا ہے ۔اس کے نتیجے میں صلہ رحمی کا نام ونشان ہی مٹ جائے گا، امن وامان ختم ہوجائے گا،اور ہر شخص اپنے ورثاء سے خطرے میں رہے گا کہ کسی بھی وقت یہ مجھے قتل کرسکتے ہیں ۔ اللہ کے اس قانون کو اگر غور سے دیکھا جائے تو خود بخود محسوس ہوگا، کہ یہ قانون دراصل انسانیت کے تحفظ کا قانو ن ہے، اگر یہ قانون نہ ہوتا تو ہر گھر اور خاندان کے اندر اپنے ہی ورثاء سے لوگ بدگمان ہوتے اور یہ اعتماد اُٹھ جاتا کہ یہ لوگ میری حفاظت کریں گے، بلکہ یہ گمان غالب ہوتا کہ ان قریبی رشتہ داروں نے موقع پاتے ہی مجھے قتل کردینا ہے ۔ اور پھر ہر ایک اپنے ورثاء کو قاتل کی نظر سے دیکھتا،کوئی تصور نہیں کرسکتاکہ اس جیسى صورتحال میں انسانی زندگی کی کیا حالت ہوتی ۔ فالحمد لِله علی نعمة الإسلام۔

اختلافِ دین:

اختلاف دین موانع میراث میں سے ہے، یعنی مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں ہو سکتا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عن أسامة بن زيد رضي الله عنهما أن رسولَ الله صلى الله عليه وسلم قال :«لا يرثُ المسلمُ الكافرَ، ولا الكافرُ المسلمَ »۲۲ ترجمہ : مسلمان كافر كا وارث نہىں ہوسكتا، نہ كافر مسلمان كا وارث ہو سكتا ہے۔

اس میں بعض لوگوں کی رائے کا اختلاف بھی نقل ہوا ہے جیسے صحابہ کرام میں حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی رائے ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا لیکن مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے، لیکن جمہور علمائے اُمت کی رائے یہ ہے کہ حدیث مشہور کی رو سے مسلمان کافر کا وارث نہیں بن سکتا ۔ اور کافروں کے جتنے بھی فرقے ہیں وہ سب چونکہ ایک ہی ملت ہے، اس لئے خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی یا مشرک ہو۔ ان میں سے کوئی بھی مسلمان کا وارث تو بالا تفاق نہیں بن سکتا ۔ کیونکہ میراث کا قانون اللہ کا مسلمانوں پر عظیم احسان ہے، اور اس احسان سے وہی لوگ استفادہ کر سکتے ہیں جو اسلام کے قلعے میں داخل ہو ۔ کوئی بھی غیر مسلم خواہ وہ پہلے سے غیر مسلم چلا آرہا ہے یا ابھی مرتد ہوا ہو وہ اسلام کے کسی قانون سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ وہ اس خاندان کافرد ہی نہیں رہا، حضرت نوح علیہ السلام سے اللہ نے اُن کے کافر بیٹے کنعان کے بارے میں صاف صاف فر مادیا کہ: ’’ قَالَ يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ‘‘(۲۳) ترجمہ: جواب میں ارشاد ہوا كہ اے نُوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہُوا کام ہے۔

اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

"یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے . اس جواب کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑ ے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ ہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اُس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نہیں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رکن ہو تو ہوا کرے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نسل والے غارت کر دیے جائیں، بلکہ یہ کفرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے"۲۴

تو جب اُس کےرشتے کی اہلیت ہی ساقط ہو گئی تو میراث میں حصہ داری کی اہلیت خود بخود ساقط ہو گئی۔ ہاں اگر مورث وارث کا غلام تھا تو پھر اُس غیر مسلم مورث کا مال یہ وارث لے سکتا ہے اس لئے کہ یہاں میراث کے قانون کے مطابق وہ یہ مال نہیں لیتا بلکہ اس غلام کا مال پہلے بھی غلام کا نہیں تھا، بلکہ اس مالک کاہی تھا تو یہ اُس نے اُس غلا م کامیراث نہیں لیا ہے بلکہ اپنا مال لیا ہے جو غلام کے پاس تھا۔

البتہ مر تد کے بارے میں یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان رشتہ دار سے میراث نہیں لے سکتا، لیکن مرتد کے میراث کے بارے میں اختلاف ہے کہ اُس کا مال اُس کے مسلمان وارث کو بطور میراث دیا جائے گا یا نہیں۔ احناف کی رائے یہ ہے کہ دیا جائے گااور صحابہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ کی یہی رائے ہے۔ اس رائے کی حکمت یہ ہے کہ چو نکہ مر تد نے اپنا سارا مال اسلام ہی میں کمایا ہے اور بحیثیت مسلمان مال کمانے اور تجارت کرنے کے تمام اسلامی حقوق اس کو حاصل رہے ہیں اس لئے اب اتداد کے بعد وہ یہ مال اہل کفر کے پاس نہیں لے جا سکتا۔ اور تاریخی اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ کفار مکہ نے بھی حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو اُن کا مال نہیں دیا تھا اور وہ تنہا بغیر اپنے مال کے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

اس روایت کو محمد بن حبان أبو حاتم البُستي نے اپنی کتاب صحيح ابن حبان اور حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر، تفسیر ابن کثیر میں اور سید قطب شہید رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں نقل کیا ہے، صحیح ابن حبان کی روایت کو یہاں پیش کرنے پر اکتفاءکیا جاتا ہے:

عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ۲۵، أَنَّ صُهَيْبًا حِينَ أَرَادَ الْهِجْرَةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ لَهُ كُفَّارُ قُرَيْشٍ : أَتَيْتَنَا صُعْلُوكًا، فَكَثُرَ مَالُكَ عِنْدَنَا، وَبَلَغْتَ مَا بَلَغْتَ ثُمَّ تُرِيدُ أَنْ تَخْرُجَ بِنَفْسِكَ وَمَالِكَ، وَاللَّهِ لاَ يَكُونُ ذَلِكَ، فَقَالَ لَهُمْ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَعْطَيْتُكُمْ مَالِي أَتُخَلُّونَ سَبِيلِي ؟ فَقَالُوا : نَعَمْ، فَقَالَ : أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُمْ مَالِي، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : رَبِحَ صُهَيْبٌ، رَبِحَ صُهَيْبٌ.۲۶

ترجمہ: ابو عثمان النھدی روایت کرتے ہیں کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو کُفارِ قریش نے اُن سے کہا کہ تم یہاں جب آئے تھے تو تمہارے پاس کچھ بھی نہیں تھا، یہاں ہمارے پاس رہ کر تم اتنے زیادہ مال کے مالک بن گئے،اب تم اس پورے مال کو لے کر خود بھی اس کے ساتھ یہاں سے نکل جانا چاہتے ہوں۔ اللہ کی قسم !یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ سن کر صہیب رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا کہ اگر میں اپنا سارا مال تمہیں دے دوں، تو پھر میرا راستہ چھوڑوگے؟ اُنہوں نے کہا: ہاں۔ صہیب رضی اللہ عنہ نے(صحابہ سے) کہا : میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنا پورا مال اُن کے حوالے کیا۔ یہ بات نبی کریم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو پہنچ گئی، تو آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: صہیب نے نفع کمایا۔ صہیب نے نفع کمایا۔

اس لئے مرتد کے ارتداد سے پہلے کا کمایا ہوا مال اُس کے مسلمان قریبی رشتہ داروں کا حق ہو گا۔ البتہ ارتداد کے بعد جو مال وہ کمائےگا، اُس میں مرتد کے مرنےکے بعداُس کے مسلمان ورثاء کا کوئی حق نہیں ہوگا۔

غیر مسلم کو میراث سے منع کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ میراث کا قانون مسلمانوں کےلئے ہے اس لئے کوئی غیر مسلم میراث کے حق سے استفادہ نہیں کر سکتا ۔

یہاں یہ بات بھی یا در کھنے کی ہے کہ جو شخص کسی اپنے مسلمان رشتہ دار کے فوت ہونے کے وقت غیر مسلم تھا اور مورث کے فوت ہونے کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوا۔ اُس کا اس مورث کے میراث میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اس لئے کہ جب میراث کا حق قائم ہو اتھا اُس وقت یہ حق دار نہیں تھا۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر اس طرح میراث کا حق اس کو دیا جائے تو اس طرح کوئی بھی غیر مسلم اپنے مسلمان مورث کے فوت ہو جانے پر میراث کا حصہ وصول کرنے کے لئے اسلام قبول کرئے گا اور حصہ وصول کرنے کے بعد واپس مرتد ہو جائے گا۔ اور پھر یہ فرق نہیں ہو سکے گا کہ آیا یہ شخص واقعی دل سے اسلام قبول کر رہا ہے یامیراث کے لئے محض زبانی اسلام قبول کر رہا ہے۔

غیر مسلم سے میراث کے حق کے بارے میں چونکہ ایک اختلافی رائے موجود ہی ہے کہ مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ دار سے اپنا حصہ لے سکتا ہے اس سلسلے میں راقم کے اپنے مطالعے کا نچوڑ یہ ہے کہ چونکہ میراث کا قانون مسلمانوں کے لئے ہے اور اس کی تنفیذ بھی مسلمانوں پر ہی ہو گی، اس لئے غیر مسلم وارث اپنے مسلمان مورث سے میراث کا مقرر ہ حصہ تو نہیں وصول کر سکتا، لیکن مورث کااپنی حیات میں اسی غیر مسلم رشتہ دار کو اپنے مال میں سے اس کی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے کسی بھی وقت کچھ دینے کی کوئی ممانعت راقم کے علم میں نہیں آئی ہے۔ بلکہ قرآنی احکامات سے تو اس کی تائید معلوم ہوتی ہے جیسے والدین کے بارے میں قرآن نے حکم دیا کہ اُن کی شرک والی بات نہیں ماننی لیکن فرمایا :

وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا۲۷

ترجمہ: لیکن اگر وہ تجھے مجبور کریں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے، جسے تو نہیں جانتا، تو ان کی بات ہرگز نہ مان، مگر دنیا میں اُن کے ساتھ نیک برتاؤکرتا رہ۔

اور نیک برتاؤمیں ان کی ضروریات ِ زندگی پر مال خرچ کرنا سب سے پہلے ہے۔ حدیث کے الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں ’’ لا يرثُ المسلمُ الكافرَ، ولا الكافرُ المسلمَ‘‘ کہ مسلمان کافر سے میراث نہیں لے سکتا اور کافر مسلمان سے میراث نہیں لے سکتا ۔

تو یہاں ممانعت میراث کی ہے، اور اس کی وجہ جیسے بتائی گئی کہ یہ میراث کے قانون کے مطابق حصہ لینا اور دینا صرف مسلمانوں کےلئے ہے اس لئے میراث کی لین دین کے لئے تو دونوں یعنی وارث اور مورث کا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔

اس لئے اس حدیث کی روشنی میں میراث کے لین دین تو قطعی ممنوع ہے کیونکہ حدیث بالکل واضح ہے، لیکن جہاں تک میراث کے علاوہ دوسرے مال کا تعلق ہے تو اُس میں اس طرح کی لین دین جائز ہے اور اس کی مثال سورۃ ممتحنہ کا اسلام قبول کرنے والی اور اسلام سے مرتد ہونے والی عورتوں کے لئے اُن کے مہر کا قانون ہے فرمایا: وَاسْأَلُوا مَا أَنْفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنْفَقُوا ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔۲۸ ترجمہ:اور جو مہر تم نے اپنی کافر بیویوں کو دیے تھے وہ تم واپس مانگ لو اور جو مہر کافروں نے اپنی مسلمان بیویوں کو دیے تھے انہیں وہ واپس مانگ لیں۔

اس لئے حدیث کی رو سے یہ مسلم اپنے غیر مسلم رشتہ داروں سےحق میراث کا مطالبہ تو نہیں کر سکتا، اور ظاہر بات ہے میراث کا حق تو کسی کے مر جانے کے بعد قائم ہوتا ہے،تو اگرزندگی میں کوئی غیر مسلم اپنے مال میں سے کوئی حصہ کسی مسلمان رشتہ دار یا غیر رشتہ دارکو دے رہاہے، تو اس کے لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔

ممانعت کے اس قانون کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ چونکہ عموماً غیر مسلم لوگ اپنے مسلمان رشتہ دار کو کچھ بھی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو اگر میراث کا حق اُن سے لینا ضروری کر دیا جاتا تو یہ ایک فتنہ بن جاتا اور بار ہا لڑائی جھگڑوں تک نوبت پہنچ جاتی اور ممکن تھا کہ میراث کی وجہ سےقومی جنگوں تک نوبت پہنچ جاتی، اس لئے ممانعت کا یہ قانون بندوں پر اللہ کی رحمت اور اُس کے عظیم احسانات کا مظہر ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ بعض اہل علم نے یہاں اس ممانعت کے قانون کی تفصیلات میں یہ بات بھی تحریر فر ما دی ہے کہ مسلم کافر کا وارث نہیں بن سکتا اور کافر مسلم کا ۔ لیکن کفار آپس میں ایک دوسرے کے وارث بن سکتے ہیں۔ یعنی یہودی نصرانی کا وارث بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے شیخ محمد علی الصابونی نے اپنی کتاب "المواريث في الشريعة الإسلامية " میں تحریر فرمایا ہے:

وَأمَّا مَا عَدَا الإسلامِ فَهُو مِلَّةٌ وَّاحِدَةٌ، فَالنَّصرَانِيُّ يَرِثُ اليَهُودِيَّ، وَاليَهُودِيَّ يَرِثُ قَرِيبَهُ النَّصرَانِيَّ، وَهكَذَا، لِأنَّ الكُفرَ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ (فَمَا ذَا بَعدَ الحَقِّ إلَّا الضَّلَال؟) فَالكُفَّارُ يَتَوَارَثُ بَعضُهُم مِن بَعضٍ،مَهمَا اختَلَفَت أديَانُهُم، وَتَعَدَّدَت نِحلَتُهُم، لِأنَّهُم جَمِيعًا مُّلَطَّخُونَ بِنِجَاسَةٍ وَّاحِدَةٍ ـ۲۹

ترجمہ: " اور جو اسلام کے علاوہ دوسرے دین ہیں، تو وہ سب ایک ہی ملت ہے، اسلئےنصرانی یہودی کا وارث بن سکتا ہے، اور یہودی اپنے نصرانی رشتہ دار کا وارث بن سکتا ہے، اور اسی طرح باقی ادیان والے بھی۔ کیونکہ کفر ایک ہی ملت ہے ۔(حق کے علاوہ تو باقی سب گمراہی ہی ہے) تو سارے کفار ایک دوسرے کے وارث بن سکتے ہیں، اگر چہ ان کے دین الگ الگ ہو، اور ان کے فرقے زیادہ ہوں۔ کیونکہ یہ سب ایک ہی گندگی سے آلودہ ہیں"

راقم کو اس بحث سے شدید اختلاف ہے اور وہ اس لئے کہ قانون میراث صرف مسلمانوں کے لئے ہے، رہے غیر مسلم، تو اُن کا اس قانون، یا اس کے دفعات اور جواز وعدم جواز سے کیا تعلق ؟یعنی وہ لے سکتے ہیں یا نہیں لے سکتے، اور یہودی، اپنے قریبی نصرانی سے یا نصرانی یہودی سے مطالبہ کر سکتا ہے یا نہیں، اس سے اسلام کو کوئی غرض نہیں ہے، چہ جائیکہ ہم اُن کے لئے جواز وعدم جواز کے قوانین وضع کر تے رہىں۔ اگر چہ کفار میں سے جب کوئی مرتا ہے، تو اُس کا مال کسی نہ کسی طریقہ سے تقسیم تو ہوگا، لیکن اسلام کاقانونِ میراث، یا اس کے دفعات، یا اس کے اصطلاحات کو کفار کے مال کی تقسیم کے لئے استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اور یہ جو حدیث میں آیا ہے۔

عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا يتوارث أهل ملتين۳۰ "دو دینوں والے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے "

یا جیسے علامہ ابن الاثیر نے جامع الاصول میں دوسرے لفظ کے ساتھ ذکر کیا ہے: وعن جابر رضي الله عنه أن رسولَ الله صلى الله عليه وسلم قال : «لا تَوَارُثَ بين أهلِ مِلَّتين»۳۱ اس سے مراد اہل کتاب اور مسلمان ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے۔اس لئے اس حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث لا يرثُ المسلمُ الكافرَ، ولا الكافرُ المسلمَ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اسی طرح محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی نے بلوغ المرام کی شرح " سبل السلام " میں بھی لکھا ہے اور خوب اچھی وضاحت فرمائی ہے ۔

وذهب الجمهور إلى أن المراد بالملتين الكفر والإسلام فيكون كحديث "لا يرث المسلم الكافر"۳۲ ترجمہ: اور جمہور کی رائے یہ ہے کہ "ملتین " سے مراد کفر اور اسلام ہے۔تو یہ اُس حدیث کی طرح ہے، کہ مسلمان کافر سے میراث نہیں لے سکتا۔

ہاں مسلمان اپنےرشتہ دار ذمی کافر کا میراث لے سکتا ہے اور ذمی مسلمان کا میراث نہیں لے سکتا، اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر اس کی ممانعت ہوتی تو اُس ذمی کا مسلمان رشتہ دار اسلام چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا کیونکہ مال عموماً لوگوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا ہے۔

میراث کے حصے او راُن کا فلسفہ :

۱۔ مرد کو عورت سے دُگنا حصہ ملے گا۔یہ صورت اس وقت ہوگی کہ میت کی اولاد میں بیٹے اور بیٹیا ں دونوں موجود ہوں ۔ 

یہاں لوگ یہ سوال کرتے ہیں،کہ لڑکی کو کیوں لڑکے کا آدھا حصہ ملا ہے، اس کا فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس مضمون کے شروع میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ تقسیم میراث کا فلسفہ ضرورت بھی ہے کہ جس کی ضرورت زیادہ ہے اُس کو زیادہ حصہ دیا گیا ہے،اور جس کی ضرورت کم ہے اُس کو کم دیا گیا ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد پر بہت ساری ذمہ داریاں رکھی ہیں، جو عورت پر نہیں رکھی گئیں۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو عورت کے تمام اخراجات سمیت بچوں کے تمام اخراجات، اُن کی تعلیم، علاج،رہائش، حتی کہ رشتہ کے وقت مرد نے عورت کو مہر بھی ادا کرنا ہے جو عورت کا اپنا ہے اور کوئی اس میں اُس کے ساتھ شریک نہیں ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو مالی ذمہ داریاں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ نے مرد کے حوالے کی ہے، اور عورت کو نہ صرف یہ کہ کمانے کی کوئی ذمہ داری نہیں دی ہے بلکہ اُس کے اپنے اخراجات کا بوجھ بھی اُس پر نہیں رکھا،اور وہ بھی مرد کے حوالے کیا،یعنی عورت کے نان نفقہ، کپڑے، علاج،حسب طاقت رہائش اور دوسری سامانِ ضرورت کی ساری ذمہ داریاں مرد کے حوالے کی ہے،اگر چہ عورت خود مالدار کیوں نہ ہو۔ اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ مرد کی ضرورتیں زیادہ ہے اور عورت کی ضرورتیں کم ہیں، او ر جو کم ضرورتیں ہیں وہ بھی مرد کے حوالے ہیں ۔ یہاں اگر کوئی اعتراض آسکتا ہے تو وہ مرد کی طرف سے آنا چاہئے کہ اُس پر ذمہ داریاں زیادہ ڈالی گئیں ہیں اور حصہ کم دیا گیا ہے، جبکہ عورت پر ذمہ داریاں نہیں ڈالی گئیں بلکہ اُس کی اپنی ضرورتیں مرد کے حوالے کی گئیں اور حصہ زیادہ دیا گیا ہے ۔ 

ایک مثال سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجائے گی، کہ مثلاً ایک شخص فوت ہوگیا اور اس کے ورثاء میں سے صرف ایک بیٹا اور ایک بیٹی رہ گئے، اور اس متوفّٰی نے مبلغ تین لاکھ روپے کا ترکہ چھوڑا، تو میراث کے قانون کے مطابق اس کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ لڑ کے کو دو لاکھ روپے ملے گا اور لڑکی کو ایک لاکھ روپے ملے گا ۔ اب جب ان دونوں کے رشتے ہونے ہیں، تو لڑکے نے اپنی بیوی کو مثلاً کم ازکم دو لاکھ روپے مہر ادا کردیا،اور اس کے ساتھ شادی کے دوسرے اخراجات بھی اُس نے برداشت کرنے ہیں، جو مہر کی رقم سے کہیں زیادہ ہونگے، دوسری طرف اس لڑکی کے ساتھ جو شادی کرے گا تو وہ اس کو مثلاً دو لاکھ روپے ادا کرے گا،جو اس کی اپنی ملکیت ہوگی اور شادی کے اخراجات میں سے اس پر کو ئی بوجھ بھی نہیں ہے۔ پھر دیکھیں تو لڑکا اپنی بیوی کے تمام مذکورہ اخراجات بھی برداشت کرے گا جبکہ اس لڑکی کے یہ اخراجات اس کے ہونے والے شوہر کی ذمہ داری ہے ۔غور کیا جائے تو یہاں مرد کا مال مسلسل کم ہوتا جارہا ہے،اور روزمرہ کے اخراجات بھی اُس کے ذمے ہیں،جبکہ عورت کا مال اپنی جگہ محفوظ ہے، جس سے شوہر کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا،الا یہ کہ وہ خود برضا ورغبت شوہر کو اپنے حق مہر میں سے کچھ یا پورا معاف کردے، یا اپنے مال میں سے خود بہ طیب خاطر کچھ اُس کو دیدیں، بلکہ عورت کا مال بڑھ رہا ہے اب یہاں دیکھا جائے تو عورت کو مراعات ہی مراعات دی گئی ہیں جبکہ مرد کو ذمہ داریاں ہی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ اب ہر ذی عقل اگر غور کرے تو یہاں عورت کو زیادہ سہولتیں اور مراعات دی گئی ہیں،جس کے نتیجے میں عورت ہمیشہ لیتی ہے دیتی کچھ نہیں، فائدہ اُٹھاتی ہے لیکن نقصان سے بری الذمہ،اور اپنا مال ہمیشہ جمع کرتی ہے خرچ کچھ نہیں کرتی، نہ وہ مرد کے ساتھ تکالیف اور مشکلات میں شریک ہوتی ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کی تقسیم کا فلسفہ سارے کا سارا عورت کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے، جبکہ عورت چیخ رہی ہے کہ مجھے آدھا حصہ دیا گیا ہے،اور مجھ پر ظلم کیا گیا ہے ۔ یہ دراصل قرآن وسنت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔

اب دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے جو تقسیم کی ہے، وہ کس طرح عدل اور باریک بینی پر مبنی ہے ۔ ظاہر بین نگاہیں جو بھی دیکھیں،لیکن یہاں تو عورت ہی کے مفاد کو اہمیت دی گئی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی اس تقسیم کی حکمت اور فلسفہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ۔ فتدبر ۔

۲۔ اگر میّت کى اولاد میں صرف دو یا زیادہ لڑکیاں ہوں تو ان سب کو(ثُلُثان) دوتہائی ملے گا جس کو وہ سب آپس میں برابر تقسیم کرینگی۔

دو بیٹیوں کو دو تہائی ملنے کا فلسفہ یہ ہے کہ چونکہ ایک بیٹی کو ایک بیٹے کے ساتھ ثُلُث ملتا ہے تو ایک بیٹی کودوسری بیٹی کے ساتھ بطریق اولیٰ ثُلُث ملے گا، کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی سے زاید ہے تو جب بیٹے کی وجہ سے اس کا حصہ ثُلُث سے کم نہیں ہوا تو دوسری بیٹی کی وجہ سے کیسے کم ہوسکتا ہے ؟اس لئے دو بیٹیوں کا حکم تو بدیہی بات ہے، سوال اگر آسکتا تھا تو وہ دوسے زیادہ بیٹیوں کے حصے کے بارے میں آسکتا تھا تو اس کے لئے فرمایاکہ دو سے اوپر کے لئے بھی ثُلُثان کا حصہ ہوگا، اس سے زیادہ نہیں ہوگا۔ 

۳۔ اگر میّت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اسکو تمام میراث کا نصف ملے گا۔یہ اس لئے کہ اولاد کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے، اور میراث کی تقسیم کا فلسفہ اسی ضرورت پر مبنی ہے، اور جب اولاد میں سے کوئی اور موجود نہیں ہے تو بیٹی جو اولادمیں میت کے سب سے زیادہ قریب ہے، اس لئے اس کو نصف بطور ذوی الفروض ملے گا، اور عصبہ کی غیر موجودگی میں یقیہ نصف بھی اس کو بطور عصبہ ملے گا ۔ 

۴۔ اگر میّت کی اولاد بھی موجودہو اور والدین بھی زندہ ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔یہ اس لئے کہ اگر باپ کو اس وقت ذوی الفروض میں حصہ نہ ملے، اور مال پورے کا پورا دوسرے ورثاء میں تقسیم ہو تو پھر والد کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ مثلاً ورثاء میں میت کے بیٹے بیٹیاں شامل ہیں،توذوی الفروض کے حصوں کے بعد بقیہ ترکہ پورے کا پورا (للذکر مثل حظ الأنثیین ) کے قاعدے کے مطابق اولاد میں تقسیم ہوجائے گا اور باپ کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا ۔اور اصل کی طرف سے باپ سے زیادہ قریبی کوئی اور نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے حاجب بن سکے ۔ تو اگر اُس کو ذوی الفروض میں حصہ نہ دیا جائے تو حاجب کی غیر موجودگی کے باوجود باپ محجوب ہوجائے گا ۔ ہاں اولاد کی غیر موجودگی میں چونکہ باپ کے لئے یقیناًکافی حصہ بچ جاتا ہے، اسلئے میت کی اولاد نہ ہو تو اُس کے باپ کو ذوی الفروض میں حصہ نہیں ملے گا،اور بقیہ پورا ترکہ اُس کو بطور عصبہ ملے گا ۔

۵۔ اگر میت کا باپ زندہ نہ ہو اور دادا زندہ ہو تو اس صورت میں باپ کا حصہ داد ا کو ملے گا ۔ یہ حصہ اُس کو اس لئے نہیں ملتا کہ وہ باپ کا قائم مقام ہے،بلکہ باپ کی غیر موجودگی میں دادا اقرب یعنی میت کے سب سے زیادہ قریب ہے۔اور باپ کا حجب ختم ہوگیا ہے۔ اس لئے وہ باپ کا حصہ بطور اقرب لے گا نہ کہ بطور قائم مقام ۔ قائمقامی کی تفصیل پوتے کی وراثت کی تفصیل میں آگے آرہی ہے ۔ 

۶۔ اگر میّت کی کوئی اولاد نہ ہو تو ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، اور اگر میت کے بہن بھائی موجود ہوں تو پھر ماں کو چھٹا حصہ ملے گا باقی پورا باپ کو ملے گا۔یہاں میراث کے مسئلے کا ایک راز اور فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے،جس سے اللہ تعالیٰ کے علیم اور لطیف وخبیر ذات ہونے کا اچھی طرح یقین ہو جاتا ہے کہ یہاں بہن بھائیوں کی وجہ سے ماں کاحصہ کم ہوا لیکن بہن بھائیوں کو کچھ بھی نہ ملا ۔ حالانکہ عقل کا تقاضا یہ تھا کہ بھائی اور بہنوں کی وجہ سے جب ماں کا حصہ کم ہوگیا تو یہ حصہ پورا یا اس میں سے کچھ بھائیوں کو ضرور مل جاتا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ماں سے کم ہونے والا حصہ پورے کا پورا باپ کو منتقل کیا گیا،اور انسانی عقل بے مایہ حیران رہ گئی ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم حکمت کارفرما ہے وہ یہ کہ یہاں ضرورت کو دیکھا گیا ہے، یعنی بھائیوں کی موجودگی کی وجہ سے ماں کا حصہ کم نہیں کیا گیا بلکہ بھائیوں کی موجودگی کی وجہ سے باپ کی ضرورت زیادہ ہونےکی وجہ سے ماں کے حصہ سے باپ کو منتقل کیا گیا کیونکہ میت کے ان بھائیوں کی پوری ذمہ داری باپ پر ہے، اُس نے ان کی شادیاں کرانی ہیں، ان کے نان نفقہ کی ذمہ داریاں باپ کے ذمے ہیں، ان کے معاش اور کاروبار وغیرہ شروع کرانے کی پوری ذمہ داری بھی انہی کے ذمہ ہے،جبکہ ماں کے ذمے ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اس لئے باپ کو ماں کی نسبت زیادہ حصہ دیا گیا ہے ۔ میراث کے قانون میں صرف باپ ایسا وارث ہے کہ اس کو ذوی الفروض میں بھی حصہ ملتا ہے اور پھر ان سے بچا ہوا بھی بطور عصبہ لیتا ہے ۔ باپ کے علاوہ جتنے بھی ذوی الفروض ہیں وہ جب ایک دفعہ بطور ذوی الفروض حصہ لے لیتے ہیں تو دوبارہ بطور عصبہ پھر حصہ نہیں لے سکتے ۔ 

۷۔ اگر میت کی ایک بیٹی ہے تو اس کو کل ترکہ کا نصف ملے گا، لیکن اگر اس کی پوتی یا پوتیاں موجود ہوں تو ان کو چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ بیٹااور پوتا نہ ہو۔ایک بیٹی کے ساتھ پوتی کو بھی چھٹا حصہ ملتا ہے کہ چونکہ بیٹیوں کا زیادہ سے زیادہ حصہ ثلثین ہے، یعنی دو تہائی حصہ، تو جب بیٹی کو نصف حصہ مل گیا تو ثلثین میں چھٹا حصہ باقی ہے، اور اولاد میں دوسری بیٹی نہیں ہے تو پوتی اقرب ہے، جو یہ چھٹا حصہ لے گی تاکہ عورتوں کا دو تہائی کا حصہ مکمل ہوجائے،اسی وجہ سے اس کو میراث کے قانون میں مسئلہ تکملۃ الثُّلُثین کہتے ہیں ۔ اسی طرح یعنی اسی فلسفہ کے تحت اگر صرف پوتی موجود ہے تو وہ آدھا حصہ لے گی لیکن اگر پڑپوتی یا پڑپوتیاں موجود ہیں تو ان کو چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ بیٹا، بیٹی،پوتا اور پڑپوتاموجود نہ ہو ۔

۸۔ بیوی کے مال میں شوہر کا آدھا حصہ ہے اگر بیوی کی اولاد نہ ہو۔ اگر بیوی کی اولاد ہو، خواہ وہ اولاد اس موجودہ شوہر سے ہو یا اس سے پہلے والے شوہر سے ہو، تو شوہر کے لئے چوتھا حصہ ہے۔شوہر (میّت) کے مال میں بیوی کا چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ شوہر کی اولاد نہ ہو،اور اگر شوہر کی اولاد ہو،خواہ اس بیوی سے ہو یا دوسری بیوی سے،توپھر بیوی کا آٹھواں حصہ ہے ۔ ہاں ! اگر شوہر نے اپنی بیوی کو مہر ادا نہیں کیا تھا تو وہ قرض میں داخل ہے ۔ 

یہاں اس تقسیم میں شوہر اور بیوی دونوں کو جو حصہ دیا گیا ہے،اس میں بھی ضرورت کا فلسفہ کارفرماہے، کہ چونکہ مرد کی ضرورت زیادہ ہے،اور عورت کی ضرورت کم ہے تو یہاں بھی دیکھا جائے تو مرد،یعنی شوہر کو نصف اور چوتھائی، جبکہ عورت کو چوتھائی اور آٹھواں حصہ دیا گیا ہے، یہاں بھی للذکر مثل حظ الأنثیین کے اُصول کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے ۔ 

۹۔ اگر میت کی اولاد، باپ، دادا میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو پھرحقیقی بہن کی باری آتی ہے، دو یا زیادہ بہنوں کو ثلثان اور ایک کو آدھا ملے گا ۔ بشرطیکہ حقیقی بھائی نہ ہو۔یہ اس لئے کہ اب یہ حقیقی بہن میت کے سب سے زیادہ قریب ہے، اوراگراولاد، باپ، دادا اور حقیقی بھائی، بہن موجود نہ ہوں تو پھر علاتی بہن کو اسی ترتیب سے حصہ ملے گا، جس ترتیب سے حقیقی بہن کو ملاتھا، بشرطیکہ علاتی بھائی نہ ہو۔ کیونکہ نسب کے لحاظ سے اب وہ میت کے اقرب ہے ۔ 

میاں بیوی کو سببی ذوی الفروض کہتے ہیں اس لئے کہ ان کا حصہ نکاح کے سبب سے ہے اور باقی کو نسبی ذوی الفروض کہا جاتا ہے ۔ 

اس فرق کا اثر یہ ہے کہ جب ذوی الفروض سے بچے ہوئے ترکہ کے لینے کے لئے عصبات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو تو وہ مال صرف نسبی ذوی الفروض میں واپس دوبارہ تقسیم کیا جائے گا، سببی کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا ۔

  ورثاء کے جتنے حصے ہیں، نصف، ثلث وغیرہ، تو یہ مردے پر موجود قرض اور وصیت پر عمل کے بعد بچے ہوئے مال میں ہے نہ کہ پورے مال میں ۔

قرض وصیت پر مقدم ہے:

یہ اس لئے کہ چونکہ قرض میت پر موت سے پہلے تھا اور اس کا ادا کرنا فرض ہے، اور اس فرض کا مطالبہ بھی موجود ہے کہ قرض خواہ اس کو مانگ رہا ہے ۔ جبکہ وصیت ایک عطیہ ہے، نہ کہ فرض ۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ وصیت مردے نے اپنے مال سے دینے کی کی ہے، تو اب اُس کا مال اگر بچا ہی نہیں تو وصیت خود بخود باطل ہوجائے گی، اور وصیت باطل کیوں نہ ہوگی، جب قرض کی ادائیگی میں سارا مال ختم ہوجاتا ہے تو ورثاء بھی محروم ہوجاتے ہیں، تو موصی لھم کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، کہ وہ اپنے لئے ہونے والی وصیت کا مطالبہ کریں ۔ اس لئے قرض کو مقدم رکھا گیا ہے اور وصیت اس کے بعد ہے، کیونکہ اگر وصیت کو پہلے پورا کیا جائے گا تو پھر قرض داروں کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا، اور نفل کو فرض پر مقدم کیا جائے گا، جو کسی صورت جائز نہیں ہے، اس کے بعد بقیہ ترکہ کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور حکیم کو کوئی بھی کام حکمت ارو فلسفہ سے خالی نہیں ہوتا، اس لئے اسکے احکام بھی حکمت پر مبنی ہوتے ہیں لہٰذا کسی انسان کے سمجھ میں آنا یا نہ آنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلوں اور قوانین کی کوئی حکمت نہیں ۔ بات اس حکمت کو سمجھنے کی ہوتی ہے ۔ 

پوتے کی وراثت کا مسئلہ اور اس کی حکمتیں:

حق وراثت موت کے بعد ثابت ہوتا ہے نہ کہ موت سے پہلے، اس اُصول کی رو سے میراث میں صرف اُن لوگوں کا حصہ ہوگا جو مورث کی وفات کے وقت زندہ ہوں ۔

دوسر ا بنیادی اصول یہ ہے کہ حق میراث قرب اور بعد کی بنیاد پر ہوتا ہے جیسے قرآن نے فرمایا:’’ مما ترک الوالدان والأقربون ‘‘ تو الأقرب فالأقرب حقدار ہوگا اور بعید تر محروم ہوگا۔ پوتے کی وراثت کے بارے میں معترضین کی دلیل یہ ہے کہ جیسے باپ کی غیر موجودگی میں دادا وارث ہوتا ہے تو اسی طرح بیٹے کی غیر موجودگی میں پوتا اس کے قائم مقام کی حیثیت سے وارث ہونا چاہئے یہ اعتراض باطل ہے، اس لئے کہ یہ تب صحیح ہوتا کہ جب ایک آدمی بیک وقت تین،چار آدمیوں کا بیٹا ہوتا او ر ان میں سے ایک کے مرجانے سے دادا کو حصہ پہنچتا۔ یا پھر ایک آدمی کی زندگی میں اس کی ساری اولاد فوت ہوجانے پر اس کے پوتوں کو حصہ نہ ملتا میراث میں قائم مقامی (Representation)نہیں بلکہ قرب وبعد کااعتبار ہے، تو اگر مردہ کی براہ راست اولاد موجود ہے تو بالواسطہ اولاد کو حصہ نہیں ملے گا۔ اگر قائم مقامی کے اصول کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے میراث کا پورا قانون پراگندہ اور غیر معقول بن جائے گا ۔

مثلاً : اگر ایک شخص کے دو بیٹے تھے اور وہ اس کی زندگی میں فوت ہوگئے، ان میں سے ایک کا صرف ایک بچہ تھا اور دوسرے کے چار۔ قرآنی قانون کے روسے ان کا برابر حصہ ہے جبکہ قائمقامی کے قانون میں چونکہ یہ اپنے اپنے باپ کا حصہ لیتے ہیں اس لئے پورے ترکہ سے آدھاحصہ ایک کو ملے گا اور آدھا حصہ چاروں کو ملے گا ۔ اسی طرح اگر قائمقامی کا اصول صحیح مان لیا جائے تو پھر ہر کسی کو قائمقامی کا حق ملنا ضروری ہے جیسے، ساس، سسر، سالے، مرے ہوئے چھوٹے بچوں کی ماں،یہ سب پھر کیوں قائم مقامی کے حق سے محروم ہونگے؟ 

اگر تمام مرے ہوئے لوگوں کے بچے یا دوسرے رشتہ دار اپنے اپنے متوفّٰی رشتہ دار کے قائمقام بن جائیں گے تو موجودہ براہ راست ورثاء کوکیاملے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پوتا اپنے باپ کا وارث ہے نہ کہ دادا کا، ورنہ پھر زندہ بیٹوں کے بیٹے کیوں محروم ہیں ؟ یعنی اگر ایک پوتا حصہ لیتا ہے، تو دوسرے پوتے کیوں محروم ہیں، باپ کا ہونا اور نہ ہونا تو الگ بات ہے، پوتا ہونے میں تو وہ سب اس کے ساتھ شریک ہیں،تو اُن کو کیوں حصہ نہیں ملتا،اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک استثنائی صورت ہے، جس کا حل شریعت نے وصیت کی صورت میں نکالی ہے ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے ترکہ کا وارث ہے اور وہ ایک ہی دفعہ ہوسکتا ہے کیونکہ باپ ایک ہوتا ہے، اس لئے جب اس پوتے کا اپنا باپ مرا تھا تو یہ اس کا وارث تھا اب دوسری دفعہ یہ اسی طرح دادا کے ترکہ سے باپ کے حصے کا وارث کیسے بن سکتا ہے ؟ جو لوگ پوتے کی وراثت میں یتامیٰ کا نام لے کر جذباتی قسم کی اپیلیں کرتے ہیں انہیں اس پوتے کے بیوہ ماں پر کیوں رحم نہیں آتا ۔یہی لوگ لاولد بیٹوں کی بیویوں کی میراث کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے ؟ جن قوموں میں پوتا سرے سے ہوتا ہی نہیں وہ کیسے اعتراض کرسکتے ہیں، کہ پوتے کو حصہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ اگر کسی خاندان میں خصوصا جہاں Joint family system ہوتا ہے،کسی باپ کے پاس وفات کے وقت کچھ بھی نہیں تھا بلکہ سارا مال دادا کی ملکیت میں تھا تو ایسے ہی پوتے / پوتوں کے لئے وہ اپنے مال کے ایک تہائی حصے کی وصیت کرسکتا ہے ۔ 

اسی طرح معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مرجاتے ہیں لیکن ان کا کوئی مال نہیں ہوتا، اور ان کے بچوں کے لئے ترکہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

حواشی وحوالہ جات:

۱۔ القزوینی،، ابوعبد اللہ، محمد بن یزید، ابن ماجہ، ۷۲۳ھ، سنن ابن ماجہ، ج ۴، ص ۲۳۔

۲۔ القرآن، سورۃ البقرہ، ۱۸۳

۳۔ امام مسلم، ابو الحسین، مسلم بن حجاج بن مسلم، القشیری، النیسابوری، الجامع الصحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، بیروت، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، ج۲، ص ۴۹۳۔  

۴۔ القرآن، سورۃ النساء، ۱۱، ۱۲۔

۵۔ القرآن، سورۃ النساء، ۱۷۶۔

۶۔ القرطبی، ابو عبد اللہ، محمد بن احمد، الانصاری، 671ھ، الجامع لأحكام القرآن، تفسير القرطبي، دارالكتاب العربي، بيروت، 2008م، 1429هـ، ج 5، ص77

۷۔ النسائی، ابو عبد الرحمن،احمد بن شعیب بن علی، ۳۰۳ھ، السنن الکبریٰ، تحقیق حسن عبد المنعم، ج ۶، ص ۹۷۔

۸۔ البیہقی، ابوبکر، احمد بن الحسین بن علی، ۴۵۸ھ، السنن الکبریٰ، ج ۶، ص ۲۰۸۔

۹۔ الدارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن، ابو محمد، ۲۵۵ھ، سنن الدارمی، حدیث اکادمی، فیصل آباد، ۱۴۰۴ھ، ج ۲، ص ۲۴۷۔ 

۱۰۔ الدارمی، عبد اللہ بن عبد الرحمن، ابو محمد، ۲۵۵ھ، سنن الدارمی، حدیث اکادمی،فیصل آباد، ۱۴۰۴ھ، ج ۲، ص ۲۴۷۔ 

۱۱۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر، عبد اللہ بن محمد، العبسی، الکوفی، ۲۳۵ھ، مصنف بن ابی شیبہ، ج ۱۱، ص ۲۳۴۔۱۲۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر، عبد اللہ بن محمد، العبسی، الکوفی، ۲۳۵ھ، مصنف بن ابی شیبہ، ج ۱۱، ص ۲۳۴۔۱۳۔الخراسانی، سعید بن منصور، ۲۲۷ھ، سنن سعید بن منصور، دارلکتب العلمیۃ، بیروت، ج ۱، ص ۹۶۔۱۴۔ امام مسلم، ابو الحسین، مسلم بن حجاج بن مسلم، القشیری، النیسابوری،الجامع الصحیح مسلم، دار الجیل،

بیروت، ج ۲، ص ۲۰۱۔ 

۱۵۔ ابن ابی شیبہ، ابو بکر، عبد اللہ بن محمد، العبسی، الکوفی، ۲۳۵ھ، مصنف بن ابی شیبہ، ج ۱۱، ص ۲۳۵۔

۱۶۔ البیہقی، ابوبکر، احمد بن الحسین بن علی، ۴۵۸ھ، السنن الکبریٰ، ج ۶، ص ۲۰۹۔

۱۷۔ القرآن الکریم، سورۃ الحشر، 6

۱۸۔ مودودی، مولانا سید ابو الأعلیٰ، تفہیم القرآن، ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ایڈیشن پنجدہم، ج5،

ص393،حاشیہ ۱۹۔ ابن ماجہ، ابو عبد اللہ، محمد بن یزید القزوینی273ھ، سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، ج2، ص537

۲۰۔ ابوداؤد، سلیمان بن اشعث، السجستانی، الأزدی، سنن ابی داؤد، باب ما جاء فی الوصیۃ للوارث، ج2،ص127

۲۱-ابن ماجۃ، سنن ابن ماجۃ، ت محمد فؤاد عبدا لباقی، با ب میراث القاتل، ج 2،ص913

۲۲- ابن لأ ثیر، الإمام أبی السعادات، مبارك بن محمد، الجزری 606ھ، جامع الأصول من احادیث الرسول، تحقیق : محمد حامد الفقی، رئاسة ادارات البجوث العلمية والإ فتاء والدعوۃ والارشاد، السعودية، 1370ھ،1950م، ج 10، ص 366

۲۳-القرآن، هود، 46

۲۴-مودودی،مولانا سید ابوالاعلیٰ،1979ء، تفہیم القرآن،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور،1985ء،ج 2، ص342ـ343

۲۵-ان کا اصل نام عبد الرحمن بن مل بن عمرو بن عدى بن وهب بن ربيعہ بن سعد الکوفی ہے، أبو عثمان ان کی کُنیت ہے، یہ بصرہ میں بھی رہ چکے ہیں،سن وفات 95ھ ہے، کبارتابعین میں سے ہیں، انہوں نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانے پائے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے

زمانہ خلافت میں اپنے وطن سے مدینہ ہجرت کی،اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور اُس کے بعد کے جنگوں میں شامل رہے ہیں، بعض روایات اس طرح بھی ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ میں اسلام لائے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ بخاري - مسلم - أبو داود - ترمذي -نسائي اور ابن ماجہ نے ان کی روایتیں نقل کی ہیں، علامہ ابن حجر نے ان کو ثقہ اور عابد قرار دیا ہے۔ علی بن المدینی اور ابو زرعہ نے بھی ثقہ قرار دیا ہے۔

۲۶-ابن حبان،الحافظ، ابو حاتم،محمد بن حبان، بن احمد، التمیمی، البُستی، 354ھ،صحیح ابن حبان، المسند الصحیح علی التقاسیم والانواع، دار ابن حزم، بیروت، 1433ھ، 2012م، ج 4،ص271

۲۷-القرآن، لقمان، 15

۲۸-القرآن، الممتحنة،10

۲۹-الصابونی، الشیخ، محمد علی، المواریث فی الشریعة الاسلامية فی ضوء الکتاب والسنة، دارالقلم دمشق 1409ھ، 1989م ص43-44

۳۰-الترمذي، أبو عيسى،محمد بن عيسى بن سورة،297ھ، الجامع الصحيح سنن الترمذي، دار عمران بيروت، 1381ھ،1962م، ج 4، ص 424ـ

۳۱ابن لأ ثیر، جامع الأصول من احادیث الرسول، ج 10، ص 366

۳۲الصنعانی، محمد بن اسماعیل، الا میر،سُبُل السلام، شرح بلوغ المرام 1421ھ، داربن الجوزی، السعودية،ج 5، ص261

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...