Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 35 Issue 2 of Al-Idah

مسائل میراث حل کرنے کے قدیم اور جدید حسابی طریقوں کا تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

35

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_1115

Pages

71-94

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/44/38

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/44

Subjects

Inheritance Arithmetic Rules Inheritance Problems Awl Rad Inheritance Arithmetic rules Inheritance problems Awl Rad

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بلاشبہ دینِ اسلام اىک کامل ومکمل اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جس میں ایمانیات وعقائد کی بھی تفصیل ہے۔ جانی، مالی اور زبانی عبادات، معاشرت، معاملات اور قضاء وسیاست سے متعلق بھی تفصیلات موجود ہیں۔ یہ دین جہاں اور دیگر احکام میں ہمیں کسی اور کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑتا ، وہاں ترکہ ومیراث کی مستحقین میں تقسیم سے متعلق بھی حصص خود مقرر کرتا ہے، بلکہ میراث سے متعلق علم کو ایک الگ علم (علم الفرائض) سے تعبیر کرتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں میراث سے متعلق مسائل کے حل کے قدیم وجدید حسابی طریقوں سے بحث کی جاتی ہے۔ جس کے پڑھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں طریقوں سے یکساں نتیجہ اخذ ہوتا ہے اور قاری کے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ اصل مقصد کے حصول کے لئے مختلف غیر منصوص ذرائع میں سے اسہل اور آسان تر طریقے کو ترجیح دینا وقت کا تقاضا اور عین عقل مندی ہے۔

قرآن نے ورثاء کے حصص بیان کرکے مستحقین تک ان کے حصص پہنچانے کی اہمیت کو واضح فرمایا۔سورۃ النساء کی آیات میں مکمل اسلامی قانون وراثت کو سمودیاگیا ہے۔قرآن کے اعجاز کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے کہ چند آیات نے اسلام کے قانون وراثت کو جامع انداز میں بیان کیا اور قیامت تک پیش آنے والے بے شمار مسائل کاحل ان معدود آیات ہی سے ملے گی جب کہ سنت رسول اللہﷺ سے ان کی وضاحت میں مدد ملے گی ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے چندقواعد بھی بیان فرمائے ہیں مثلا:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ[1]

اسی طرح اخیافی بھائی بہنوں کے بارے میں ایک قاعدہ ہے:

فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ [2]۔

پہلی آیت میں نسبت تناسب کاذکر ہے کہ اولادکی میراث میں سے لڑکے اور لڑکی کے میراث کی نسبت 2:1ہوگی۔دوسری آیت میں اخیافی بھائی بہنوں کی بابت یہ تناسب 1:1 ہوگی یا اس کو ہم مساوات کے اصول کہہ سکتے ہیں۔اسی طرح مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِى بِهَا أَوْ دَيْنٍ[3]۔

اس آیت سے یہ امر مستفاد ہوتی ہے کہ تقسیم میراث قرض اور وصیت کو منہا کرنے کے بعد مابقیہ میں سے ہوگی۔حدیث میں وصیت کوثلث تک محدودکردیا گیا ہےتو ترکہ کا ثلث معلوم کرنا بھی یہاں سے ثابت ہوا۔اگر میت پر کوئی قرض نہ ہو تو مابقی دوثلث ورثاء کے حصص ہیں۔ورثاء میں بھی پھر قوی تر،قوی اور کمزور ورثاء ان آیات سے مستفاد ہوتے ہیں۔حاجب اور محجوب[4]بھی ان آیات نے ا شارۃ بیان کئے ہیں۔بعض ورثاء کے حصص متعین طور پر ذکر فرمائے کہ ان کو آدھا ،چوتھائی ،آٹھواں وغیرہ ملے گا ان ورثاء کو میراث کی اصطلاح میں اصحاب الفرائض کہتے ہیں ۔چنانچہ علامہ محمد بن محمد بن عبدالرشیدرقمطراز ہیں:

"وهم اللذین لهم سهام مقدرۃ فی کتاب الله تعالیٰ"[5]ترجمہ:"ذوی الفروض وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے قرآن میں مقررہ ہیں"

قرآن میں ایک انداز یہ بھی ہے کہ کسی وارث کا حصہ متعین طور پر ذکرکرکے چند دیگر کی حصص سے تعرض نہیں فرمایااس صورت میں جس وارث کاحصہ متعین طورپر ذکر نہیں کیا ان کو اصحاب الفرائض سے بچا ہوا مال ملے گاان کو میراث کی اصطلاح میں عصبات کہتے ہیں۔عصبات کی فنی تعریف علامہ موصوف نے اس طرح کیا ہے:

"والعصبة کل من یاءخذ ماابقته اصحاب الفرائض وعندالانفراد یحرزجمیع المال"[6]

ترجمہ"عصبہ ہروہ رشتہ دار ہے جو اصحاب الفرائض سے باقی ماندہ میراث لیتے ہیں اور اصحاب الفرائض کی عدم موجودگی میں تمام مال کو سمیٹ لیتےہیں۔"

مثلا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں والدین کے حصص بیان کرنے میں دو انداز اپنائے ایک دفعہ ماں اور باپ دونوں کا حصہ ذکر کیا:

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ[7]۔

اور دوسری دفعہ ماں کا حصہ بیان کرکے والد کے حصہ سے سکوت فرمائی:

فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ [8]

اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دوسری صورت میں ماں کا حصہ نکال کر باقی باپ کو ملے گا۔چونکہ ماں کا حصہ تہائی متعین کیااس لئے باقی دو تہائی باپ کا حصہ ہوگااس لئے ان آیات ہی سے رشتہ داروں کی میراث کے استحقاق کی بابت تقسیم خود بخود معلوم ہوئی۔ علاوہ ازیں ان آیات قرآنیہ میں اللہ تعالیٰ نے چھ اعداد کا تذکرہ ورثاء کے حصص کے طور پر کیا ہے۔ یہ چھ اعداد درج ذیل ہیں۔

1۔نصف(آدھا)۔اس کا تذکرہ قرآن میں درج ذیل مقامات میں آیا ہے۔

1۔وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ[9]

2۔وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ۔[10]

3۔يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ [11]

2۔ربع(چوتھائی)۔اس کاتذکرہ قرآن میں دودفعہ آیا ہے۔

1۔فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ۔[12]

2۔وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ۔[13]

3۔ثمن (آٹھواں)۔اس کاتذکرہ قرآن میں صرف ایک دفعہ آیا ہے۔

1۔فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔[14]

4۔سدس(چھٹا)۔اس کاتذکرہ قرآن میں ذیل کی آیات میں آیا ہے۔

1وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ[15]

2۔فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ[16]

3۔وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ[17]

5۔ثلثان(دوتہائی)۔اس کا ذکر ذیل کی آیات میں آیا ہے۔

1۔فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ[18]

2۔فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ[19]

6۔ثلث(تہائی)۔اس کاتذکرہ ان آیات میں آیا ہے۔

1۔فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ[20]

2۔فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ[21]

اب مشکلۃ البحث یہ ہےکہ ان اعداد کو کس مخرج سے نکالاجائے تاکہ قرآن کے ذکر کردہ حصص اسی مقدار میں مستحقین کو ملیں جس انداز سے قرآن نے ان کو ذکر کیا ہے مثلا اگر تین ،چار یا پانچ عدد لیا جائے تو ان سے یہ سارے حصص پورے نہیں نکلتے اس لئے چنداصول و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے جن کے تحت ایسے عدد کو مخرج کے طور پر لیاجائے جس سے کسی خاص مسئلے کے تمام حصص بآسانی متعین کئے جاسکے۔اسی طرح بعض اوقات ورثاء کی ایک قسم مثلا بیٹیوں کی تعداد پر ان کے ملے ہوئے حصوں کو تقسیم کرنے سے برابر حصص نہیں ملتی بلکہ کسر آئے گی اس لئے مخرج کو اس انداز میں پھیلانے کی ضرورت ہوگی کہ اس سے یہ تمام حصص بآسانی متعین کیے جاسکے اس عمل کو میراث کی اصطلاح میں تصحیح سے موسوم کیا جاتا ہے۔کسی مسئلہ میں یہ نوعیت بھی آجاتی ہے کہ موجود ورثاء میں قرآن کے ذکر کردہ طریق پر حصص دینے کے بعد مجموعہ حصص اس مجموعی مخرج سے بڑھ جاتے ہیں اوراس صورت میں پھر اس بڑھے ہوئے عدد سے ان ورثاء کو دئے گئے حصص قرآن کے ذکرکردہ حصص سے کچھ کم پڑتے ہیں اس کو میراث کی اصطلاح میں عول کہاجاتا ہے۔ صاحب سراجی تحریر فرماتے ہیں:

والعول ان یزادعلی المخرج شیئی من اجزاءه اذاضاق عن فرض [22]۔

ترجمہ:"عول سے مراد یہ ہے کہ جب اجزاء میں سے کوئی چیز مخرج سے بڑھ جائے جب کہ مخرج حصوں پر تنگ ہوجائے۔"

مسئلہ منبریہ میں ایک خاتون نے اس قضیے کے بارے میں پوچھا تھا توسیدنا علی رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ بیوی کاآٹھواں حصہ عول کی وجہ سے نواں بن گیا۔

عَنِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ فِي ابْنَتَيْنِ وَأَبَوَيْنِ وَامْرَأَةٍ قَالَ صَارَ ثُمُنُهَا تُسُعًا[23]

ترجمہ:"حارث سے روایت ہے وہ علی رضی اللہ عنہ سے دوبیٹیوں ،ماں باپ اور بیوی کے مسئلے کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیوی کا آٹھواں حصہ عول کرکے نواں بن گیا۔"

بعض دفعہ اس کے برعکس صورت بھی پیش آتی ہے یعنی ورثاء کوقرآن کے نصوص کے مطابق حصے دئے جاتے ہیں پھر بھی مفروضہ مخرج میں کچھ حصص باقی رہ جاتے ہیں یہ حصص دوبارہ چند رشتہ داروں میں ان کے حصص کے تناسب سے تقسیم کرنے ہوتے ہیں اس عمل کو اصطلاح میراث میں رد کا نام دیا جاتا ہے۔چنانچہ علامہ محمد بن محمد بن عبدالرشیدلکھتے ہیں:

الرد ضد العول:مافضل عن فرض ذوی الفروض ولامستحق له یرد علی ذوی الفروض بقدر حقوقهم الا علی الزوجین وهوقول عامة الصحابة رضی الله عنهم[24]۔

ترجمہ:"رد عول کی الٹ ہے،جب ذوی الفروض کو حصص دے کر کچھ اضافی ہوجائےاور ان اضافی حصص کے ورثاء میں سے کوئی مستحق موجودنہ ہوتو زوجین کے علاوہ ذوی الفروض کو ان کے حصص کے تناسب سے دوبارہ دیا جائے گا۔یہ جمہور صحابہ کی رائے ہے۔"

اب کن اصول وقواعد پر مذکورہ بالا امورکو انجام دیا جائے تاکہ فلسفہ قرآن پر حرف نہ آئے اور مستحقین اپنے حق سے محروم ہوکر مظلوم بھی نہ ٹھہرے۔اس کے لئے قدیم سے چلا آنے والا طریقہ تفصیلی طور پرسراجی نے بیان کیا ہے جو اب تک تمام مکاتب فکر میں رائج رہا ہے لیکن وہ طریقہ دقیق بھی ہے اور وقت طلب بھی ۔نیز ان اصول کو ہمہ وقت یاد رکھنا مشکل بھی ہے اس لئے بمصداق پیشنگوئی رسول اللہ ﷺجب تمرین نہ ہو تو بھول جاتے ہیں مزید برآں دور حاضر میں افراد امت کی وہ یادداشتیں اور صلاحیتیں بھی نہیں رہی چونکہ یہ طریقہ مسائل کے حل کے لئے صرف ایک وسیلے اورآلےکی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اگر ایسے جدید حسابی اصولوں کومتعارف کیا جائے جن سے یہی حصص بآسانی متعین ہوسکے اور اس میں وقت بھی کم لگے نیز یہ قواعد قابل حفظ بھی ہو جن سے خواص وعوام یکساں استفادہ کرسکے تو یہ اس علم ناپید کے احیاء کو مستلزم ہوگا اور حدیث کی تمثیل امر ہوکر اس علم کی تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری وساری ہوجائے گا اور کوئی یہ کہہ کر عذر کرنے کا مجاز نہ ہوگا کہ یہ علم مشکل ہے اور میرے دسترس میں نہیں ہے۔اسی طرح جب ایک شرعی مسئلے کے حل کےلئے آسان اور مشکل دوطریق ہو سکتے ہوتو سہل کو اختیار کرنا حکماء کی نشانی ہے کیونکہ مقصود مسئلے کاحل ہے اس لئے ذیل میں سراجی کے طریقے کی توضیح کرکے چند جدید اورآسان طریقوں کاتعارف اور تقابل پیش کیا جائے گا۔

میراث کے مسائل کےحل میں حساب کو بنیادی طورپرچار مراحل میں استعمال کیا جاتا ہے ۔اگر چہ بعض دیگر امور میں بھی اس کااستعمال ہے لیکن وہ استعمال انہی بنیادوں پر مبنی ہےوہ مراحل درج ذیل ہیں۔

1۔مسئلے کا مخرج متعین کرنے میں۔

2۔مسئلے کی تصحیح کرنے میں۔

3۔مسئلے میں اگر عول ہو تو اس کا حل نکالنے میں۔

4۔اگر مسئلے میں رد کی ضرورت ہو تو ورثاء پر حصص کو رد کرنے میں۔

اس لئے ان چار چیزوں کے اصول سب سے پہلے سراجی سے بیان کئے جائیں گے اور پھر معاصر طریقوں میں سے ان اصول کی وضاحت پیش کی جائے گی۔ ایک ہی صورت مسئلہ کو ان تمام طریقوں سے حل کرکے ایک تقابل بھی پیش کیا جائے گا کہ تمام طریقوں سے حل ایک جیسا نکلتا ہے البتہ کس طریق میں حل آسان فہم بھی ہے اوراس میں ضیاع وقت بھی نہیں ہے اور کس طریق میں دقت وضیاع وقت ہے۔

سراجی کے مطابق حصص کے مخارج بنانے کے اصول:

صاحب سراجی نے حصص کے مخارج بنانے کے لئے درج ذیل اصول بیان کئے ہیں اور یہی اصول تقریباتمام فقہی کتابوں نے بھی استعمال کئےہیں۔مصنف سراجیہ کے مطابق مخارج کو اختصاراً بیان کیا جاتا ہے۔قرآن میں چونکہ چھ حصوں کا تذکرہ ہے۔علامہ موصوف نے ان حصص کو دو قسموں میں منقسم کیا ہے۔پہلی قسم میں آدھا،چوتھائی آٹھواں حصہ ہے جب کہ دوسری قسم میں تہائی،دوتہائی اور چھٹا حصہ ہے۔ان دو قسموں میں تقسیم کرنے کی وجہ ان کے درمیان ایک خاص نسبت کا ہونا ہے کسی عدد کے آدھے کاآدھا اس عدد کی چوتھائی بنتا ہے اور کسی عدد کی چوتھائی کاآدھااس عدد کا آٹھواں حصہ بنتا ہے اسی طرح کسی عدد کے دو تہائی حصے کاآدھا اس عدد کا ایک تہائی بنتا ہے اور اس عدد کے ایک تہائی کاآدھا اس عدد کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔اس قسم کی نسبت کو تنصیف (آدھاکرنے)کانام دیا جاتا ہے اسی طرح اس کا الٹ کرنے سے جو نسبت آتی ہے اس کو تضعیف(دگنا کرنا) کہاجاتا ہے۔یعنی کہ کسی عدد کے آٹھواں کا دگنا اس عدد کا چوتھائی اور چوتھائی کا دگنا اس عدد کانصف بنتا ہےکسی عدد کے چھٹے حصے کادگنا اس عدد کاتہائی بنتا ہے اور کسی عدد کاتہائی حصہ اس عدد کا دوتہائی حصہ بنتا ہے۔[25]اس کےبعد مخارج کی بابت صاحب سراجی نے تین تقسیمیں کی ہیں۔

1۔ کسی مسئلے میں صرف ایک حصہ ذکر ہونے کی صورت میں مخرج اس عدد ہی کا مخرج ہوگا۔مثلا ربع(چوتھائی)کا مخرج چارہے،ثمن(آٹھواں)کا مخرج آٹھ ،ثلثان(دوتہائی) اور ثلث(تہائی)کا مخرج تین اور سدس کا مخرج چھ ہے۔البتہ نصف کا کوئی مخرج نہیں اس لئے اس کا مخرج دو قراردیاجائے گا[26]۔

2۔ایک ہی قسم میں سے دو یاتین حصوں کا آجانا:اس صورت میں چھوٹےعدد کا مخرج ہی ان سب کامخرج ہوگا۔مثلا نصف اور ربع میں سے چھوٹا عدد ربع ہے لہٰذا دونوں کا مخرج چار ہوگا نصف کے ساتھ ثمن آجائے تو پھر چھوٹا عدد ثمن ہے لہٰذا ان کا مخرج آٹھ ہوگا۔اسی طرح دوسری قسم میں بھی کیا جائےگا[27]۔

3۔ایک قسم سے بھی حصص آجائے اور دوسرے قسم سے بھی اس صورت میں تین قواعد ہیں۔

(الف)اگر پہلی قسم سے آدھا اور دوسری قسم سے ایک ،دو یا تینوں حصص آجائے تو ان سب کا مخرج چھ (6)ہوگا[28]۔

(ب)اگر پہلی قسم سے ربع اور دوسری قسم سے ایک یا زیادہ حصص آجائے تو ان کا مخرج بارہ(12) ہوگا[29]۔

(ج)اگر پہلی قسم سے ثمن اور دوسری قسم سے ایک یا زیادہ حصص آجائے تو ان کا مخرج چوبیس(24) ہوگا[30]۔

بحث:مذکورہ بالاقواعد پر نظر کیا جائے تو یہ ان اعداد کی ذواضعاف اقل ہے۔اس لئے اگر ان لمبی چوڑی قواعد کے بجائے ان تمام اعداد کی ذواضعاف اقل لی جائے اور اس کو مخرج ماناجائے تو معاملہ آسان بن جائے گااور ان اصول کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اسی ذواضعاف اقل والے طریقے کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی۔

مولانا شوکت علی قاسمی کا طریقہ مخارج:

مولانا شوکت علی قاسمی نے اعشاری نظام کی مدد سے مخارج کا تعین کیا ہے۔اس کاحاصل یہ ہے کہ تمام حصص کے لئے مخرج ایک ماناجائے اورایک (1)ہی میں تمام ورثاء کے حصص متعین کئے جائےپھر فی صد یازیادہ میں سے حصص متعین کرناآسان ہوگا۔اعشاری نظام کا طریقہ یہ ہے کہ چھ حصص بائیں طرف سے حساب کی رو سے اس طریقے سے لکھے جاتے ہیں۔

آدھا1/2,چوتھائی1/4,آٹھواں1/8,دوتہائی2/3,تہائی1/3,چھٹا1/6

اس لئے ان تمام میں سے اوپر والے عدد کو نیچے والے عدد پر تقسیم کیاجائے تو اس سے ایک میں مذکورہ حصہ آجائے گا۔مثلا:آدھا سے(5.)،چوتھائی سے (25.)، آٹھواں سے(125.)،دوتہائی سے(6667.)،تہائی سے(3334.)،چھٹاسے(1667.)آجائے گا۔ان کو 100 میں ضرب دینے سے فی صد حصہ آجائے گا[31]۔

بحث:مذکورہ طریقہ سراجی کے طریق سے آسان ہے البتہ اس کے لئے اعشاری نظام اور کیلکولیٹر کے استعمال کو سمجھنا ضروری ہے۔

سیدشبیراحمدکاکاخیل کا دریافت کردہ طریقہ:

علامہ موصوف نے قرآن میں مذکور حصص کا مجموعی ذواضعاف اقل لیا ہے جو 24 آتا ہے۔یہی 24 ہی تمام حصص کے لئے مخرج ہوگا چاہے اکیلے آجائے یا متعدد[32]۔

بحث:یہ مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے زیادہ سہل اور قابل حفظ ہے۔24 کا آدھا 12،چوتھائی 6،آٹھواں 3،دوتہائی16،تہائی 8اور چھٹا 4 ہیں۔

مولاناثمیرالدین کے دریافت کردہ طریقے کے مطابق مخرج:

آپ نے چونکہ کیلکولیٹر کے ذریعے میراث کو چند منٹوں میں حل کرنے اور کروانےکی کوشش کی ہے اس لئے ہر مسئلے کے لئے مخرج سو100 مقرر کیا ہے اس کو ہم فی صدی نظام حساب کہہ سکتے ہیں ۔سو 100 میں سے آدھا 50 چوتھائی25،آٹھواں5۔12 ،چھٹا66۔16،تہائی 33۔33اوردوتہائی 66۔66 حصے بنتے ہیں۔طریقہ یہ ہے کہ آدھا کرنے کے لئے سو کو 2 پر چوتھائی کے لئے چار پر ،آٹھواں کے لئے آٹھ پر چھٹا کے لئے چھ پر تہائی کے لئے تین پر اور دو تہائی کے لئے 3 پر تقسیم کرکے دو میں ضرب دی جائے گی۔

بحث :مولانا شوکت علی قاسمی اور اس طریق میں فرق یہ ہے کہ ان کانظام اعشاری ہے یعنی ایک میں ہر ایک کاحصہ جب کہ ان کانظام فی صدی کاحصہ، باقی طریقہ ایک جیسا ہے۔

سراجی کے طریقے کے مطابق عول:

صاحب سراجی نے فرمایا ہے کہ کل مخارج سات ہیں ۔2،3،4،6،8،12،24 ان میں سے چار میں عول نہیں ہوتاباقی تین میں عول ہوتا ہے۔6 کا عول دس تک جفت بھی ہوتا ہے اور طاق بھی۔12 کا عول 15 تک صرف طاق یعنی 13 اور 15 ہوتا ہے۔اور24 کا عول صرف 27 آتا ہے ۔البتہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک 24 کا عول 31 بھی ہوتا ہے۔اس کی وجہ ان کا محروم کا دوسروں کے لئے حاجب بننے کا قول ہے[33]۔

بحث:عول کے بعد ورثاء کے حصص اس بڑھے ہوئے عدد میں سے دئے جائیں گے مثلا۔پہلے چھ میں کسی کاحصہ آدھاتھا تو 3 حصے ہونگے اب عددسات ،آٹھ ،نو یا دس میں 3 حصے اس کا آدھا نہیں بلکہ حصے کم پڑ جائیں گے یہ کمی تمام ورثاء کی حصص میں یکساں آئے گی۔

مولانا شوکت علی قاسمی کے طریق میں عول کی پہچان اور حل:

ان کے مطابق عول کی پہچان یہ ہے کہ مجموعی حصص ایک سے زیادہ بن جائے ۔اس کے حل کاطریقہ یہ ہے :

وارث کاحصہ بعدالعول=ا صل حصہ قبل العول ÷ مجموعہ حصص ۔یعنی کسی وارث کو عول سے پہلے جو حصہ ملا ہے اس کو تمام حصص کے مجموعے پر تقسیم کریں اس سے عول کے بعد اس کا حصہ آجائے گا[34]۔

سیدشبیراحمدکاکاخیل کے دریافت کردہ طریقے کے مطابق عول کی پہچان اور حل:

جب مجموعہ حصص 24 سے بڑھ جائے تو یہ اس مسئلے میں عول کی نشانی ہے۔اب عول کے حل کا طریقہ یہ ہے کہ ہر وارث کاحصہ عول کے بعد24 کے بجائے اس مجموعہ حصص میں لیا جائے گا مثلا ۔آدھا حصہ 24 میں سے 12 ہوتاہے لیکن جب عول واقع ہوئی تو اب یہ بارہ حصص اس زائد عدد مثلا 27 وغیرہ میں سے فرض کیا جائے گا[35]۔

بحث:اس طریق میں عول کی صورت میں کسی مزید عمل کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے نہایت آسان ہے۔

مولانا ثمیرالدین کے دریافت کردہ اصول برائے پہچان وحل مسائل عول:

جب مجموعہ حصص 100 سے بڑھ جائے تو اس سے پتہ چلے گا کہ مسئلہ میں عول ہوا ہے۔اس کا حل انہوں نے یہ بتایا ہے کہ جو مجموعہ حصص آجائے اس کافی صد لیا جائے گا ۔یعنی مجموعہ حصص 100 پر تقسیم کیا جائے تو یہ اس کافی صد بنے گا۔اس کے بعد ہر وارث کو ملے ہوئے حصے کو اس مجموعہ حصص کے فی صد پر تقسیم کیا جائے گا تو حصے کم ہو کر مجموعہ 100 بن جائیں گے اور یہی ہروارث کے عول کے بعد حصص ہونگے۔

بحث:عول کا مطلب بھی یہی ہے کہ جتنا مخرج بڑھ چکا ہے اس بڑھے ہوئے حصے کو تما م ورثاء پر اس کو تقسیم کرکے اس کے مطابق ان کے حصے کوکم کیا جائے[36]۔

سراجی کے مطابق رد کا پہچان اوراس کے حل کے لئے اصولوں کا بیان:

سراجی کے مطابق رد کی پہچان یہ ہے کہ ورثاء کے مجموعی حصص مخرج سے کم پڑجائے۔رد کے حل کے لئے انہوں نے طویل قواعد بیان کئے ہیں۔ابتداء میں ذوی الفروض کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔1جن پر رد نہیں ہوتی۔اور یہ زوجین ہیں۔2۔جن پر رد ہوتی ہیں۔یہ باقی دس ذوی الفروض ہیں۔اس کے بعد رد کے مسائل کو چار قسموں میں منقسم کیا ہے۔1۔کسی مسئلہ میں صرف وہ ذوی الفروض ہوں جن پر رد ہوتی ہیں اور ان کی ایک قسم ہو۔مثلا صرف بیٹیاں ہوں ۔2۔کسی مسئلہ میں وہ ذوی الفروض ہوں جن پر رد ہوتی ہیں اور ان کی متعدد اصناف ہو۔3۔کسی مسئلے میں ان ذوی الفروض کی ایک جنس ہو جن پر رد ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ زوجین میں سے کوئی ہوجن پررد نہیں ہوتی ہے۔4۔کسی مسئلہ میں ان ذوی الفروض کی کئی اجناس ہو جن پر رد ہوتی ہےاور ان کے ساتھ زوجین میں سے ایک ہو۔

ان مسائل کےحل کے لئے چارقواعد ذکر کئے ہیں۔1۔جب زوجین نہ ہو اور جن پر رد ہوتی ہیں ان کی ایک جنس ہو تو مخرج ان ورثاء کی تعدادکے مطابق ہوگی[37]۔

2۔اگر زوجین نہ ہو اور جن پر رد ہوتی ہیں ان کی کئی اجناس ہو تو مخرج ان کا مجموعہ سہام ہونگے۔

3۔زوجین میں سےایک ہو اور جن پر رد ہوتی ہیں ان کی ایک جنس ہوتوشوہر یا بیوی کے حصے سے مخرج بناکر ان کو حصہ دیاجائے گااس سے جو رہ جائے اگر وہ ان ذوی الفروض کی تعداد کے برابر ہوتویہی باقی ماندہ ان کودیاجائے گا۔اگر باقی ماندہ ان کی تعداد کے برابر نہ ہوتو پھر باقی ماندہ اور ان ذوی الفروض جن پررد ہوتی ہے کی تعداد میں نسبت دیکھی جائے گی اگر دونوں اعداد ایک دوسرے پر تقسیم نہ ہوسکتی ہو لیکن کوئی تیسرا عدد ان دونوں کو برابر تقسیم کرتا ہویا ان میں سے چھوٹا عدد بڑے عدد کاجزء ہوتو اس عددکو مخرج میں ضرب دیاجائے گا جو ان دونوں کی تقسیم سے آجائے یا بڑے عددکو چھوٹے عدد پر تقسیم کرنے سےآئی ہو۔اور اگر ان میں تبائن کی نسبت ہوتو جن پر رد ہوتی ہے ان کی کل تعداد کو مخرج میں ضرب دیاجائے گا۔اس عدد کو ورثاء کے حصوں میں بھی ضرب دیا جائے گا[38]۔

دوسراقاعدہ:زوجین نہ ہو اور جن پر رد ہوتی ہیں ان کی ایک جنس ہوتو مسئلہ ان ذوی الفروض کے حصوں سے بنایاجائے گا جن پر رد ہوتی ہے ۔مثلااگر مسئلے میں دوسدس ہو اور مسئلہ ردیہ ہو تو مخرج دو قراردیاجائے[39]۔

تیسراقاعدہ:زوجین میں سے ایک موجود ہو اور جن ذوی الفروض پر رد ہوتی ہے، ان کے کئی اجناس ہوتوزوجین کے حصے سے مسئلہ بناکردے اسے دیاجائے گاپھر اگر اس سے باقی ماندہ ان ذوی الفروض کی تعداد کے برابر ہوجن پر رد ہوتی ہے تو ان کو وہی باقی ماندہ دیاجائے گا۔البتہ اگر باقی ماندہ ان ذوی الفروض کی تعداد کے برابر نہ ہوتو پھر باقی ماندہ اور ان ذوی الفروض کی تعداد میں نسبت دیکھی جائے گیاگر ان میں توافق یاتداخل کی نسبت ہوتو ان ذوی لفروض کی تعداد کے وفق یا دخل تواس وفق یادخل کواس مخرج میں ضرب دیا جائے گا جس سے ابتدائی مسئلہ بنایا گیاتھااور اگر ان میں تبائن ہو تو ذوی الفروض جن پر رد ہوتی ہے کی کل تعداد کو اصل مخرج میں ضرب دیاجائے گا[40]۔

چوتھاقاعدہ:زوجین میں سے کوئی ایک ہو اور جن ذوی الفروض پر رد ہوتی ہے ان کی کئی اجناس ہوں۔تو جن پر رد ہوتی ہیں ان کا مسئلہ الگ اور جن پر نہیں ہوتی ان کاالگ بنایاجائے گا۔پھر اگر جن پر رد نہیں ہوتی ان کودینے کے بعد باقی ماندہ ا ور جن پر رد ہوتی ہیں ان کی تعداد میں ایک جیسی ہو تو یہی باقی ماندہ ان کودیاجائے گا اور یہی باقی ماندہ ہی ان ذوی الفروض کا مخرج قراردیاجائے گا جن پر رد ہوتی ہے۔اور اگر دونوں میں تماثل نہ ہو تو پھر ان دونوں مخارج کوآپس میں ضرب دیاجائے گا۔حاصل ضرب ہی دونوں مسئلوں کامخرج ہوگا۔حصص نکالنے کے لئے زوجین کے حصے کو ان ذوی الفروض کے مخرج میں ضرب دیا جائے گا جن پر رد ہوتی ہے ۔اور ان ذوی الفروض کے حصے کو زوجین کے مسئلے کی مخرج میں ضرب دیاجائے گا۔اس کو حسابی اصول میں معکوس ضرب کہاجاتا ہے[41]۔

بحث :ان قواعد پر نظر کیاجائے تو یہ کافی طویل بھی ہے جس میں وقت کافی لگتا ہے اور ان کو یاد کرنا مشکل بھی ہے یاد ہونے کے بعد بھول جانے کاامکان ہے اور اس کے استعمال میں تھوڑی سی غلطی سے مسئلے کا حل غلط نکلے گا۔اس کے مقابلے میں مولاناشوکت علی قاسمی اور ملک بشیر احمد کے طریقوں میں اختصار کے ساتھ آسانی بھی ہے ان پر ذیل میں بحث کی جاتی ہے۔

مولاناشوکت علی قاسمی کے دریافت کردہ اصول میراث کے مطابق رد کی پہچان اور حل:

ان کے مطابق رد کی پہچان یہ ہے کہ جب مجموعہ حصص ایک سے کم ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی کچھ حصے باقی ہیں جن کو دوبارہ ان ذوی الفروض پر لوٹانے کی ضرورت ہے جن پر ائمہ کے مطابق رد ہوتی ہیں جو زوجین کے علاوہ باقی دس ذوی الفروض ہیں۔رد کے مسائل کے حل کے لئے مولانا موصوف نے ان مسائل کو چار قسموں میں منقسم کیا ہے۔

1۔مسئلہ میں زوجین نہ ہواور جن پر رد ہوتی ہے ان کی ایک جنس ہو۔

2۔مسئلہ میں زوجین نہ ہواور جن پر رد ہوتی ہے ان کی کئ ا جناس ہو۔

3۔مسئلہ میں زوجین میں سے ایک ہواور جن پر رد ہوتی ہے ان کی ایک جنس ہو۔

4۔ مسئلہ میں زوجین میں سے ایک ہواور جن پر رد ہوتی ہے ان کی کئی ا جناس ہو۔

ان مسائل کے حل کے لئے مصنف نے صرف دو قاعدے ذکر کئے ہیں۔ان میں پہلا قاعدہ اس وقت استعمال کیا جائے گا جب مسئلہ میں کوئی شوہر یا بیوی نہ ہو۔وہ قاعد ہ یہ ہے:

وارث کاحصہ بعدالرد:کل حصص کامجموعہ/حصہ قبل الرد

دوسراقاعدہ تب استعمال کیاجائے گا جب ورثاء میں شوہر یابیوی موجود ہو۔قاعدہ یہ ہے:وارث کاحصہ بعدالرد:جن پررد ہوتی ہے ان کے کل حصص کامجموعہ/حصہ قبل الرد×شوہر یا بیوی سے باقی ماندہ حصہ[42]

بحث:سراجی کے طویل اور دقیق اصولوں کے بالمقابل یہ طریقہ نہایت مختصر اورآسان ہے۔

سیدشبیراحمد کاکاخیل کے دریافت کردہ طریق کے مطابق رد کے مسائل کی پہچان اورحل:

اس طریق میں چونکہ تمام مسائل کے لئے مخرج 24 ہے اس لئے اگر ورثاء کو ان کے مقررہ حصص دینے کے بعد ان کامجموعہ 24 سے کم ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اب کچھ حصص مزید باقی ہیں جن کو ان نسبی ذوی الفروض کو دوبارہ ان کے حصص کے تناسب سے دیاجائے گا جن پر رد ہوتی ہے۔ان مسائل کے حل کے لئے انہوں نے درج ذیل اصول بیان فرمائے ہیں۔

1۔اگر ذوی الفروض سببی(شوہر یابیوی) موجود نہ ہوں توذوی الفروض نسبی کے حصص کوبرقرار رکھتے ہوئے ان کے مجموعے کو کل سہام مانتے ہوئےمخرج قراردیاجائے گا اور یہ حصص تمام ذوی الفروض میں برابر تقسیم کریں گے۔

اس کو ہم مخرج کاسکڑناکہہ سکتے ہیں پہلے مخرج بڑاتھا اب چھوٹا ہونے سے ذوی الفروض کے حصص زیادہ ہوجائیں گے۔

2۔اگر مسئلہ میں زوجین میں سے بھی کوئی موجود ہواور جن پر رد ہوتی ہے وہ بھی موجود ہوں تو پھر:

الف)ذوی ا لفروض نسبی کے حصوں کامجموعہ نکال کر اس کو"ن"سے موسوم کریں۔

ب)ذوی الفروض سببی(شوہر یا بیوی)کے حصے کو24 سے منفی کرکے باقی ماندہ کو"س"سے موسوم کریں۔

ج)اب "ن"کو ذوی الفروض سببی کے حصوں میں اور "س"کوذوی الفروض نسبی کے سہام میں ضرب دیں۔تمام حصے رد کے مطابق آجائیں گے۔

د)کل حصص جو کہ 24 تھے ان کو "ن"سے ضرب دیں تو اس کاحاصل ضرب رد کے بعد کے حصص کے لئےمخرج ہوگا۔

بحث:اس طریق سے رد کے مسائل صرف "ن"اور"س"معلوم کرکے حل کئے جاسکتے ہیں جن میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی[43]۔

مولانا ثمیرالدین کے مطابق رد کی پہچان اور حل کاطریق کار:

جب مجموعہ حصص 100 سے کم ہوجائے تو یہ اس مسئلہ کے ردیہ ہونے کی پہچان ہے۔

اس کے حل کے لئے ان کے طریق کو درج ذیل اصول میں منحصر کیاجاسکتا ہے۔

1۔مسئلہ میں جن پر رد ہوتی ہے اس کی ایک جنس ہو ۔تو جو مابقی ہے اس کو دوبارہ ان پر برابر تقسیم کیاجائے گا۔مثلاایک بیٹی ہو تو سو میں آدھا حصہ دیا جائے گا جو کہ 50 ہے اب باقی 50 بھی ان پر رد کیاجائے گا ۔اس کی کل 100 حصص ہوجائیں گے ۔اگر 2 بیٹیاں ہو تو ان کو سو کی دو تہائی دی جائے گی جو 66۔66 ہے باقی 33۔33 بھی ان دو پر برابر تقسیم کرکےہرایک کو 66۔16 حصہ ملے گا اس طرح ایک بیٹی کوبھی 50 ملے گا اور دوسرے کو بھی تو کل 100 حصے بن جائیں گے۔

2۔مسئلہ میں دونوں قسم کے ذوی الفروض ہو یعنی جن پر رد ہوتی ہے اور جن پر ردنہیں ہوتی۔تواس کے لئےطریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تمام ورثاء کے حصص کو جمع کیاجائے پھر اس مجموعہ کو سو سے منفی کیا جائے۔پھر جن لوگوں پر رد کرنا ہے ان کے مجموعہ حصص پر اس منفی شدہ حصے کو تقسیم کریں۔اس سے جو جواب آئے اس میں ان ورثاء کے حصص کو ضرب دیں جن پررد کرنا ہے۔اس طرح رد کے بعد ان کے حصص آجائیں گے[44]۔

سراجی کے مطابق تصحیح کے قواعد:

تصحیح سے پہلے اعداد کے درمیاں نسبت کو پہچانناضروری ہے۔کیونکہ ان نسبتوں پر تصحیح کے قواعد مبنی ہیں۔اعداد کے درمیان چار قسم کی نسبتوں میں سے کوئی ایک نسبت ہوگی۔

1۔تماثل:اس کا مطلب ہے کہ اعداد ایک جیسے ہوں۔مثلا۔تین اور تین ،چار اور چار وغیرہ۔

2۔تداخل :دو اعداد میں سے بڑا عدد چھوٹے عدد پر پورا تقسیم ہوتا ہویاچھوٹا عدد بڑے عدد کا جزء ہویا چھوٹے عدد کو اپنے ساتھ ایک یا کئی دفعہ جمع کیا جائے تو آخر میں بڑا عدد بنتا ہویا چھوٹے عدد کو بڑے عدد سے ایک یا کئی دفع منفی کیا جائے تو آخر میں چھوٹا عدد ہی حاصل ہوان اعداد کی آپس میں نسبت کوتداخل کہتے ہیں کیونکہ ان میں سے چھوٹا عدد بڑے عدد کے اندر داخل ہے۔

3۔توافق:دو اعداد ایک دوسرے پر تقسیم نہ ہو لیکن ان کے علاوہ کوئی عدد ان دونوں کو برابر تقسیم کرتا ہو۔اب اگر یہ تقسیم کرنے والا عدد 2 ہو۔تو اس نسبت کو توافق بالنصف اگر 3 ہو تو توافق بالثلث وغیرہ کہتے ہیں۔

4۔تبائن:دو اعداد نہ ایک دوسرے پر تقسیم ہو اور نہ کوئی اور عدد ان دونوں کوبرابر تقسیم کر سکتا ہو۔اعداد کے درمیان اس نسبت کوتبائن کہتے ہیں[45]۔

صاحب سراجی نے کسر کو دور کرنے اور ترکہ ورثاء میں برابر تقسیم کرنے کے لئے سات قواعد ذکر کئے ہیں جن میں بعض قواعد کی مثالوں میں اجراء کافی مشکل ہے۔قواعد اصل میں چھ ذکر کئے ہیں کیونکہ پہلے قاعدے کے مطابق کسرآتا نہیں اس لئے کسی عمل کی ضرورت ہی نہیں۔ذیل میں ان کاخلاصہ پیش کیاجاتا ہے۔

1۔اگر ایک جماعت(مثلا بیٹیوں کی گروہ) پر ان کے حصے برابر تقسیم نہ ہواور اس گروہ کی تعداد اور ان کو دیئے گئے حصوں میں توافق کی نسبت ہوتو اس گروہ کی تعداد کے وفق کو اصل مخرج یا اگر مسئلے میں عول ہے تو عول اور تمام ورثاء کے حصص میں ضرب دینے سے اس مسئلے کی تصحیح ہوجائے گی اور کوئی کسر باقی نہیں رہے گا[46]۔

2۔ایک ہی گروہ پر ان کے حصص برابر تقسیم نہ ہواور اس گروہ کی تعداد اوراس کو دیئے گئے حصص میں تبائن کی نسبت ہو تو پھر اس گروہ کی تعداد کو اصل مخرج یا اگر مسئلہ عائلہ ہے تو عول اورتمام ورثاء کے حصوں میں ضرب دینے سے اس مسئلے سے کسر دور ہوکر تصحیح ہوجائے گی[47]۔

3۔اگر ورثاء کی مختلف گروہوں پر ان کے حصص برابر تقسیم نہ ہو تو ان ورثاء کی تعداد اور ان کو دئیے گئے حصوں میں نسبتیں دیکھی جائے گی۔اگر ان میں تبائن کی نسبت ہوتو ورثاء کی کل تعداکو ایک طرف لکھ کر محفوظ کیاجائے گا۔اگر ان میں توافق یا تداخل ہوتو ان ورثاء کی تعداد کے وفق یادخل کو ایک طرف لکھ کر محفوظ کیاجائے گا۔پھر ان محفوظ کردہ اعداد میں ایک کی دوسری کے ساتھ نسبت دیکھی جائےاگر توافق کی نسبت ہے توایک عدد کے وفق کو دوسرے عدد کی کل میں ضرب دے کر حاصل ضرب اور تیسر ے عدد میں نسبت دیکھی جائے گی اگر ان میں بھی یہ نسبت ہو تو ایک کی وفق کو دوسرے کل عدد میں ضرب دے کر یہ سلسلہ آخری عدد تک جاری رکھاجائے گا پھر مجموعی حاصل ضرب کواصل مخرج یا اگر مسئلہ میں عول واقع ہے تو عول میں اور تمام ورثاء کے حصص میں ضرب دینے سے اس مسئلہ کی تصحیح ہوجائے گی[48]۔

4۔اگر کسر پہلے کی طرح کئی گروہ پر ہو اور محفوظ کردہ اعداد میں تداخل کی نسبت ہو تو ان میں بڑے عدد کو اصل مخرج یا عول اور تمام ورثاء کے حصص میں ضرب دینے سے اس مسئلہ کی تصحیح ہوگی[49]۔

5۔اگر کئی گروہوں پر کسر واقع ہورہی ہو اور ان کے محفوظ کردہ اعداد میں تبائن کی نسبت ہو تو کسی بھی ایک ایک عدد کودوسرے میں ضرب دے کر حاصل ضرب اور تیسرے عدد میں نسبت دیکھی جائے گی اگرتبائن ہے تو پھر ایک کودوسرے میں ضرب دے کر حاصل ضرب اور تیسرے عدد میں نسبت دیکھی جائے گی یہ سلسلہ آخر تک کرنے کے بعد حاصل ضرب کواصل مخرج اور تمام ورثاء کے حصص میں ضرب دینے سے مسئلے کی تصحیح ہوجائے گی[50]۔

6۔اگر کئی گروہوں پر کسر واقع ہورہی ہو اور ان کے محفوظ کردہ اعداد میں تماثل کی نسبت ہو تو کسی بھی عدد کو اصل مخرج اور تمام ورثاء کے حصص میں ضرب دینے سے مسئلے کی تصحیح ہوجائے گی[51]۔

بحث:یہ قواعد نہایت پیچیدہ اور مشکل ہیں اور اس کوسمجھنا اعداد کے درمیان چار قسم کے نسبتوں(تماثل،توافق،تداخل اور تبائن)کے سمجھنے پر موقوف ہیں ۔اس لئے وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے۔

مولاناشوکت علی قاسمی کے دریافت کردہ اصول کے مطابق تصحیح:

تصحیح کے قواعد کی ان کے ہاں ضرورت ہی نہیں پڑتی البتہ ورثاء کی اقسام کے اعتبار سے انہوں نے چند قواعد ذکر کئے ہیں جو ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔ورثاء کی تین قسمیں ممکن ہے۔

1۔صرف ذوی الفروض۔2۔صرف عصبات۔3۔ذوی الفروض اور عصبات دونوں۔

پھر جس مسئلہ میں عصبات ہو ان کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔

1۔وہ عصبات جن کا حصہ ایک جیسا ہوتا ہے۔2۔وہ عصبات جن میں مذکر کاحصہ مونث کے حصے کادگنا ہوتا ہے۔

1۔اگر کسی مسئلہ میں وہ عصبات ہوں جن کا حصہ ایک جیسا ہو تو ان کے لئے فارمولہ 1تقسیم کل عصبات کی تعداد ۔مثلااگر 4 بیٹے ہیں تو ہر ایک کاحصہ 1تقسیم 4 ہوگا۔

2۔اگر عصبات میں مختلف قسم ہو جن میں مذکر کو مونث کادگنا دیا جاتا ہو اس میں مذکر دو مونث کے برابر رکھ کر کل تعداد معلوم کی جائے ۔پھر 1تقسیم کل تعداد سے مسئلہ حل ہوگا۔مثلا 2بھائی اور 2 بہنیں ہیں تو 2 بھائی 4 بہنوں کے برابر ہونگےاسی طرح کل تعداد 4 جمع 2چھ ہوجائے گی۔تو ہر ایک کاحصہ 1تقسیم چھ سے معلوم کیاجائے گا۔

3۔اگر مسئلہ میں عصبات اور ذوی الفروض دونوں آجائیں تو درج ذیل اصول اپنائے جائیں گے۔

1۔ذوی الفروض کے نیچے ان کے حصے لکھ کر اعشاروں میں ان کاحصہ معلوم کیاجائے۔

2۔ذوی الفروض کے تمام حصص کو جمع کرکے اس کومجموعہ حصص کہے۔

3۔مجموعہ حصص 1 سے منفی کرکے باقی ماندہ اقرب عصبہ کودیاجائے۔

ترکہ کی تقسیم کے لئے یہ فارمولہ استعمال کیا جائے۔

ترکہ میں وارث کاحصہ:وارث کااعشاری طریقہ سے حاصل شدہ حصہ×کل ترکہ[52]

سیدشبیراحمدکاکاخیل کے دریافت کردہ اصول تصحیح:

جن ورثاء پر کسر واقع ہوتی ہے۔ان کی تعداد کاذواضعاف اقل معلوم کریں گے ۔پھر اس ذواضعاف اقل کو سارے ورثاء کے سہام میں ضرب دے کر ان کے حاصل کوان ورثاء کی تعداد پر تقسیم کریں گے تو کسر نہیں آئے گی اور تصحیح ہوجائے گی[53]۔

تصحیح کا اس طریق میں ایک ہی قاعدہ ہے اور وہ بھی نہایت آسان اس لئے اگر اس طریقے کو اپنایا جائے تو بہت سارے الجھنوں سے نجات ملے گی۔

اب ایک مسئلہ ردیہ جس میں تصحیح کی ضرورت بھی ہے اور ایک مسئلہ عائلہ تینوں طریقوں کے مطابق حل کیا جاتا ہے تا کہ تینوں طریقوں کا طریقۂ حل سامنے آجائے۔

مولانا ثمیرالدین کے طریقے میں تصحیح کے اصول:

اس طریقے میں تصحیح کی ضرورت ہی نہیں پڑتی[54]۔

مخرج،عول ،رد اور تصحیح کے ایک ہی طرح مسئلے کا چاروں طریقوں سے حل:

1440

40

مسئلہ8باقی 7 مسئلہ6رد5

میت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4بیویاں9بیٹیاں 6دادیاں

سدس ثمن ثلثان

14 1

5287

180 1008 252

1000 روپے میں ہر گروہ کا حصہ:

1000 روپے مىں 4 بىوىوں کا حصہ:125= 180/1440×1000 روپے۔

1000 روپے مىں 9 بىٹىوں کا حصہ: 700= 1008/1440×1000روپے

1000 روپے میں 6دادیوں کاحصہ :175= 252/1440×1000 روپے

1000روپے میں 1بیوی کاحصہ :31.25= 125/4 روپے

1000روپے میں1بیٹی کاحصہ :77.77=700/9 روپے

1000روپے میں 1دادی کاحصہ :29.16=175/6 روپے

اسی مسئلہ ردیہ کو مولاناشوکت علی قاسمی کے اعشاری نطام کی روسے حل پیش کرتے ہیں:

6 دادیاں 9 بیٹیاں 4بیویاں
6÷1 3÷2 1÷18
.1667 .6667 .125
(.1667+.6667)=.8334 جن ذوی الفروض پر رد ہوتی ہے ان کے حصص کا مجموعہ مجموعہ
1-.125=.875

بیوی سے باقی ماندہ حصہ:

مسئلہ میں بیویاں بھی ہیں اور ان کے علاوہ جن پررد ہوتی ہیں وہ ذوی الفروض بھی ہیں اس لئے درج ذیل فارمولہ استعمال ہوگا مجموعہ حصص 1 سے کم ہیں اس لئے مسئلہ ردیہ ہے

وارث کاحصہ بعدالرد:جن پررد ہوتی ہے ان کے کل حصص کامجموعہ/حصہ قبل الرد×شوہر یا بیوی سے باقی ماندہ حصہ

بىٹىوں کا رد کے بعد کا حصہ:.667x.875/.834=.700

بیٹیوں کارد کے بعد حصہ: .167x.875/.834=.175

1000روپے میں 4بیویوں کاحصہ: 125=.125x1000روپے

1000روپے میں 9بیٹیوں کاحصہ:700=.700x1000 روپے

1000روپے میں 6دادیوں کاحصہ:175=.175x1000روپے

فی کس حصہ:

ایک دادی کاحصہ ایک بیٹی کاحصہ ایک بیوی کاحصہ
175/6=29.16 روپے 700/9=77.77 روپے روپے 125/4=31.25

سیدشبیراحمدکاکاخیل کے طریق پر مندرجہ بالا مسئلے کاحل:

کل حصص 6دادیاں 9بیٹیاں 4بیویاں ورثاء
23 4 16 3 حصص
(نسبی ذوی الفروض کے حصص کا مجموعہ)16+4=20 ن
24-3=21(سببی ذوی الفروض کے حصے کو 24سے منفی کرنا) س
24×20=480 4×21=84 16×21=336 3×20=60 "ن"کو ذوی الفروض سببی کے حصوں میں اور "س"کوذوی الفروض نسبی کے سہام میں ضرب دیا
4,9,6=36 ورثاء کی تعداد کا ذواضعاف اقل
480×36=

17280

84×36=

3024

336×36=

12096

60×36=2160 ورثاء کے حصص کو ذواضعاف اقل میں ضرب دیا
کل:1000 3024×1000/17=

280

12096×

1000/17280=700

2160×1000/17280=125 1000روپے میں ہر گروہ کا حصہ
  175/6=

29.16

700/9=

77.77

125/4=31.25 فی کس حصہ
  6دادیاں 9بیٹیاں 4بیویاں
کل سدس ثلثان ثمن
95.82 16.66 66.66 12.5
100-95.82=4.18مابقی
66.66+16.66=83.32
    4.18/83.32=.0502 مابقی کو من یرد علیہم کے مجموعی حصص پر تقسیم کرکے رد کاایک حصہ معلوم کیا
4.18 16.66×0.0502=.836 66.66×.0502=3.344 بیٹیوں اور دادیوں کے رد کے حصص
  16.66+.836=17.5 66.667+3.344=70 رد کے بعد بیٹیوں اور دادیوں کے مجموعی حصص
17.5+70+12.5=100 تمام ذوی الفروض کے حصص کا مجموعہ
کل 6دادیوں کاحصہ 9 بیٹیوں کاحصہ 4بیویوں کا حصہ
1000 17.5/100×1000=175 70/100×1000=700 12.5/100×1000=125
  ایک دادی کاحصہ ایک بیٹی کاحصہ 1یک بیوی کاحصہ
  175/6=29.16 روپے 700/9=77.77 روپے 125/4=31.25روپے

مذکورہ بالا مسئلہ میں مخارج ،تصحیح اور رد کے اصول تینوں طریقوں کے مطابق استعمال ہوئے اور جواب سب کا ایک جیسا آیا۔اس سے معلوم ہوا کہ مآل ایک ہے صرف راستے کافرق ہے ۔ایک مثال عول کی بھی تین طریقوں سے پیش کیاجاتاہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس میں بھی جواب ایک ہی ملتاہے۔اس کے لئے مشہور مسئلہ منبریہ ہی لیتے ہیں جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منبر پر خطبہ کے دوران پوچھا گیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ ہی بداہۃ جواب دیا۔کہ اس کا آٹھواں حصہ عول کی وجہ سے نواں حصہ بن گیا۔

مسئلہ24عول27

میت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیوی 2 بیٹیاں باپ ماں

سدس سدس ثمن ثلثان

3 16 4 4

اگر کل ترکہ1000روپے ہو تو

بیوی کا حصہ: 3/27×1000=111.11

بیٹیوں کا حصہ: 16/27×1000=592.59

باپ کا حصہ: 4/27×1000=148.14

ماں کا حصہ: 4/27×1000=148.14

شوکت علی قاسمی کے طریقے کے مطابق حل:

ماں باپ 2بیٹیاں بیوی
1/6=.1667 1/6=.1667 2/3=.6667 1/8=.125
مجموعہ 1سے زیادہ ہے اس لئے مسئلہ عائلہ ہے .167+.167+.667+.125=1.1251 مجموعہ حصص
.1667/1.1251=. 1481

ماں کاعول کے بعد حصہ

.167/1.1251=.1481باپ کا عول کے بعد حصہ: .667/1.1251=.5925 بیٹیوں کا عول کے بعد حصہ: =.125/1.1251= .111

عول کے بعد بیوی کا حصہ:

.1481×1000=148.16 .1481×1000=148.16 .5925×1000=592.56 .111×1000=111.11

سیدشبیراحمدکاکاخیل کے طریقے کے مطابق حل:

ماں باپ 2بیٹیاں بیوی
1/6 1/6 2/3 1/8
4 4 16 3
3+16+4+4=27 مجموعہ حصص
(4/27)×1000=148.14 (4/27)×1000=

148.14

(16/27)×1000=

592.59

(3/27)×1000=111.11

مولانا ثمیرالدین کے طریقے کے مطابق مندرجہ بالا مسئلہ عائلہ کاحل:

ماں باپ 2بیٹیاں بیوی
1/6=16.66 1/6=16.66 2/3=66.66 1/8=12.5
مجموعہ 100سے زیادہ ہے اس لئے مسئلہ عائلہ ہے 16.66+16.66+66.66+12.5=112.48

مجموعہ کی فی صد: 112.48/100=1.1248

مجموعہ حصص
16.66/1.1248=14.81 ماں کاعول کے بعد حصہ 16.66/1.1248=14.81

باپ کا عول کے بعد حصہ:

66.66/1.1248×=59.26

بیٹیوں کا عول کے بعد حصہ:

12.5/1.1248=11.11

عول کے بعد بیوی کا حصہ:

14.81/100×1000=148.11

روپے

14.81/100×1000=

148.11 روپے

59.26/100×1000=592.6 روپے 11.11/100×1000=111.1 روپے

پس حاصل یہ ہوا کہ ورثاء کے حصص تو اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں ،جن میں تبدیلی وترمیم کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ البتہ انہی مقرر شدہ حصص کی صحیح ادائیگی سے متعلق مسائل کے حل کے لئے کوئی مخصوص طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا۔ بالفاظ دیگر مقاصد تو متعین ہیں لیکن ان کے حصول کے ذرائع متعین نہیں ہیں، بلکہ یہ معاملہ امت کی عقل سلیم پر اعتماد کر کے ، اس کی صلاحیتوں پر چھوڑا ہے۔ یہ اسلام کی آفاقیت کی ایک دلیل بھی ہے اور اس میں امت کے لئے سہولتیں ہیں۔ لہذا وقت وتوانائی کی بچت اور غلطی کے امکان کو کم کرنے کی خاطر میراث سے متعلق مسائل کے حل کے لئے اگر جدید ذرائع اور ریاضی کے کلیات سے استفادہ کیا جائے تو اس سے دین کے اصل روح پر ضرب نہیں پڑے گی ، بلکہ مقاصد تک رسائی میں آسانی ہو گی۔

حوالہ جات

  1. سورۃ النساء11:4
  2. سورۃ النساء12:4
  3. سورۃالنساء11:4
  4. حجب کا لغوی معنی روکناہے۔اصطلاح میں کسی خاص وارث کا دوسرے وارث کی وجہ سے کل یابعض سہام سے محروم ہونا حجب کہلاتا ہے۔کل سہام سے محروم ہونا حجب حرمان اور بعض سہام سے محروم ہوناحجب نقصان کہلاتا ہے۔(جس وارث کے سہام کم یا ختم ہوجاتے ہیں اس کو محجوب اور جس کی وجہ سے کم یاختم ہوجاتے ہیں اس کو حاجب کہتے ہیں) الجرجانی،علی بن محمد،التعریفات،باب الحاء،ج1،ص111،دارالکتاب العربی۔بیروت،1405ھ)
  5. سراج الدین،محمد بن محمد بن عبدالرشید،السراجی فی المیراث،ص4،فاروقی کتب خانہ۔اکوڑہ خٹک،س۔ن
  6. نفس مصدر
  7. ۔ سورۃ النساء : 11
  8. سورۃ النساء11:4
  9. سورۃ النساء12:4
  10. سورۃ النساء11:4
  11. سورۃ النساء176:4
  12. سورۃ النساء11:4
  13. سورۃالنساء12:4
  14. سورۃالنساء12:4
  15. سورۃالنساء11:4
  16. سورۃالنساء11:4
  17. سورۃالنساء12:4
  18. سورۃالنساء11:4
  19. سورۃالنساء176:4
  20. سورۃالنساء11:4
  21. سورۃالنساء12:4
  22. السراجی فی المیراث،ص19
  23. سنن دارقطن،ج5،ص120،حدیث نمبر(4063)،موسسۃ الرسالۃ،س۔ن
  24. السراجی فی المیراث،ص27
  25. السراجی فی المیراث،باب مخارج الفروج،ص17
  26. نفس مصدر،ص18
  27. نفس مصدر
  28. نفس مصدر
  29. نفس مصدر
  30. نفس مصدر ،ص19
  31. قاسمی،مولاناشوکت علی،اسلام کاقانون وراثت،ص66،ادارہ فرقان۔صوابی،1431ھ۔2010ء
  32. کاکاخیل،سیدشبیراحمد،میراث کاآسان حساب ،ص1427،16ھ
  33. السراجی فی المیراث،ص19-20
  34. اسلام کاقانون وراثت،ص95،94
  35. میراث کاآسان حساب،ص23
  36. ثمرۃ المیراث،ص63
  37. السراجی فی المیراث،ص27
  38. السراجی فی المیراث،ص28
  39. نفس مصدر
  40. نفس مصدر
  41. نفس مصدر،ص29
  42. اسلام کاقانون وراثت،ص101
  43. میراث کاآسان حساب،ص29
  44. مولانا،ثمیرالدین،ثمرۃالمیراث،ص40-45،مدرسہ ثمرۃ العلوم۔انڈیا،2011ء
  45. السراجی فی المیراث،ص21،20
  46. السراجی فی المیراث،ص22
  47. نفس مصدر
  48. نفس مصدر،ص23
  49. نفس مصدر
  50. نفس مصدر
  51. نفس مصدر،ص22
  52. اسلام کاقانون وراثت ،ص72۔75
  53. میراث کاآسان حساب،ص23
  54. ثمرۃالمیراث،ص8
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...