Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

مستدلات شرعیہ کی روشنی میں بیعت کا ناقدانہ جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1116

Pages

227-240

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/102/95

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/102

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عہدرسالت میں اسلام قبول کرنےوالےرسول اللہﷺ کےہاتھ مبارک میں اپناہاتھ دےکراسلامی عقائد واحکام پرچلنےکاعہدکرتےتھے۔یہ مخصوص طریقہ بیعت کہلاتاہے۔

بیعت کےشرعی طریقوں میں بیعت علی الہجرہ ،بیعت علی الجہاد اوربیعت علی الاطاعہ معروف ومستند ہیں اورشرعی نصوص سےثابت ہیں ۔مابعد کےزمانے میں بیعت کی ایک اورقسم متعارف کرائى گئی جس میں ایک عام شخص کسی عالم مصلح یامرشد کےہاتھ پرتوبہ کرکےاس کےساتھ یہ عہد کرتاہےکہ آئندہ زندگی میں شریعت پرعمل کرےگا۔اس کےلیے باقاعدہ اصلاحی سلسلےرائج ہوئے جن میں چار بہت مشہور ہیں۔

بیعت کےاس نوع کےبارے میں رائے مختلف رہی ہے کہ یہ مشروع ہےیانہیں؟اسی طرح اگر جائز ہے تواس کی حیثیت کیا ہے؟فرض و واجب ہے یا سنت ومستحب۔اس مضمون میں اس مروجہ بیعت کی شرعی حیثیت تحقیقی انداز میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیعت کالغوی معنی

بیعت لغت میں عہد وپیمان کو کہتے ہیں۔کیونکہ بیعت اوربیع کامادہ ایک ہی ہے اوریہ دونوں باب مفاعلہ سے آتےہیں۔جیسے بیع سے متعلق یہ روایت ہے:

المتبایعان بالخیارمالم یتفرقا[1]. "بیع کرنےوالوں دونوں بائع و مشتری کو(مجلس عقد)سےالگ ہونےسےپہلے فسخ کااختیارحاصل ہے۔"

اور جب ا س سے بیعت ہوتو کہاجا تا ہے: تبایعوا علی الامر[2] "انہوں نے فلاں کام پرعہدکیا۔"

لسان العرب میں ہے کہ بیعت سے مرادعہدوپیمان ہے اور اس حدیث الاتبایعونی علی الاسلام[3] میں اس معنی پر استعمال ہواہے۔

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:

المبایعة عبارةعن المعاهدة سمیت بذلک تشبیها بالمعاوضة المالیة[4]. "یعنی بیعت معاہدہ سےعبارت ہے کیونکہ جس طرح مالی معاوضہ (بیع وشراء)جانبین سے ہوتاہے اسی طرح یہاں بھی عہد جانبین سے ہوتاہے۔"

اصطلاحی معنی

هو عبارة عن المعاقدة والمعاهدة کان کل واحد منهماباع ماعنده من صاحبه وأعطاءه خالصة نفسه وطاعته ودخیلة أمره[5].

"بیعت اس باہمی عقد اور عہد سے عبارت ہے جس میں ایک جو اس کے پاس ہو دوسرے کو دیتاہے اوراس کی اطاعت اور تابعداری کو اخلاص نفس کے ساتھ لازم پکڑتا ہے۔"

بیعت اس باہمی معاہدےکانام ہے جس میں ایک شخص کسی دوسرےشخص (صاحب طریقت)سےاپنی مطلق اطاعت اورحکم برداری کاعہدکرتاہے اوراس کے بدلے روحانی فیض حاصل کرنےکی کوشش کرتاہے۔

شریعت کی کسی بات کے لئے لوگوں سے عہد لیا جائے خواہ یہ عہد پوری شریعت کےبارے میں ہو یا کسی خاص بات سےمتعلق ہو۔ بیعت' اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا پختہ وعدہ ہے جو اللہ والے کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ سے کرتاہے[6]۔ان باتوں کاخلاصہ یہ ہوا کہ کوئی چیز کسی کو پیش کی جاتی ہے ,بدلے میں دوسری چیز لی جاتی ہے تو اس لین دین کو بیع کے نام سے پکارتے ہیں۔اسی طرح بندہ اپنے خیال سے تائب ہوتا ہے،اپنے اعضاء وجوارح کو بخوشی اور برضا ورغبت اللہ تعالیٰ کے حوالہ کردیتاہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کمر بستہ ہوجاتاہے تواس کے بدلے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرتاہے ۔اس رجوع الی اللہ کو بیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مروجہ بیعت ( توبہ) کا تاریخی پس منظر

نبی کریمﷺ سے مختلف قسم کی بیعتیں ثابت ہیں ۔مگرصحابہ کرامؓ کے زمانے میں بیعت خلافت اور بیعت جہاد کے سوا اور کسی بیعت کا ثبوت نہیں ملتا ۔اصل بات یہ ہے کہ جو فعل نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو تو کسی اور سے نقل کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ہاں خلفائے راشدین کے دورمیں خلیفہ وقت کے علاوہ دوسرے صحابہ کرامؓ اس لئے بیعت نہ لیتے تھے کہ کہیں بیعت خلافت کا شبہ نہ پڑجائے اور کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو جائے،چنانچہ صرف صحبت پر اکتفاءکیاجاتاتھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ بیعت خلافت میں بیعت توبہ شامل ہوتی تھی ۔ جب خلفائے راشدین کا دور ختم ہوا اور خلافت کا معاملہ امور مملکت کے انتظام وانصرام اورنظم ونسق تک سمٹ کر رہ گیا تو سلف صالحین نے بیعت توبہ والی سنت کو زندہ کیا[7]۔اس سلسلے میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ سے ثابت ہیں کہ جس طرح خلافت سپرد فرمائی اسی طرح باطنی نعمت بھی منتقل فرمائی اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھا، دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

ماصب الله فی صدری الا وقدصببته فی صدر أبی بکر[8]. " اللہ نے میرے سینے میں جو کچھ ڈالا میں نے اسے ابوبکرؓ کے سینے میں ڈال دیا۔ "

بیعت کا مقصد

بیعت کا مقصد اصلاح نفس اور اتباع رسول ہے جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہے:

عبد الله بن عمر، يقول: كنا نبايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يقول لنا: «فيما استطعت»[9].

"عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ سے ہم بات سننے اوراطاعت کرنےپربیعت کرتے تو آپ ﷺ فر مایاکرتے جہاں تک تمہاری بساط میں ہو۔"

بیعت سےمقصودشریعت کےاحکام پرعمل کرنااوراصلاح نفس ہے ۔اس سے ماوراء کوئی چیز نہیں ہے۔چنانچہ بیعت کامقصد کشف وکرامت کاحصول ،ترک دنیا یاشریعت سے الگ تھلگ کوئی راستہ ڈھونڈنا نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضامندی کے حصول کا ایک ذریعہ اور سبب ہے جس میں مرشد اورمرید دونوں منہمک ہوتے ہیں۔

قرآن کریم اور بیعت توبہ

بیعت کےجائز ہونے کے بارے میں درج ذیل آیات بطورِ ثبوت پیش کئےجاتےہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

1۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا[10].

"اور ہم نے پیغمبر بھی بھیجاہے اسی لئے بھیجاہے کہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کا حکم بنایا جائےاور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیھٹے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور اللہ سے بخشش مانگتے اور پیغمبر بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تواللہ کو معاف کرنے والے پاتے۔اس آیت میں (فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ)(وہ اللہ سے اسغفار کرتے)کے ساتھ (وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ)(ان کے لئے رسول اللہ ﷺبھی استغفار کرتے ہیں) اور آخر میں فرمایا (لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا)(یہ پاتے اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا )۔"

نتیجہ یہ نکلا کہ نبی کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ نبی رحمتﷺ بھی ان کے لئے استغفار کریں اور اس طرح ان کے گناہوں کی بخشش ہوجائے۔ اسی بیعت توبہ کانام آج بیعت طریقت ہے۔

2۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا [11].

"اے نبی! جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔پھر جو شخص عہد کو توڑے توعہدتوڑنے کا نقصان اسی کو ہے اور جو اس بات کو جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا ہے پوراکرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا۔"

3 ۔ بیعت رضوان کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا[12].

"اے پیغمبر!جب مومن تم سے اس درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا اور جو صدق وخلوص ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کرلیا تو ان پر تسکین نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی۔"

4 ۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [13]

"اے پیغمبر!جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ نہ اللہ کے ساتھ شرک کریں گی، نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گى تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگو ۔بے شک اللہ بخشنے والا ، مہربان ہے۔"

احادیث مبارکہ اوربیعت توبہ

  1. سمعت أنسا رضي الله عنه، يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الخندق، فإذا المهاجرون، والأنصار يحفرون في غداة باردة، فلم يكن لهم عبيد يعملون ذلك لهم، فلما رأى ما بهم من النصب والجوع، قال:

«اللهم إن العيش عيش الآخره، فاغفر للأنصار والمهاجره» فقالوا مجيبين له:

نحن الذين بايعوا محمدا على الجهاد ما بقينا أبدا [14]."

"انسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ ٹھنڈی صبح کو نکلے اور مہاجرین اور انصار خندق کھود رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ!بہتر خیر تو آخرت والی ہے۔ لہذا انصار اور مہاجرین کو معاف فرمادیں ۔تو انہوں نے جواب میں کہا :

ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمدﷺ کی بیعت کی ہے۔جب تک رہیں گے ہمیشہ جہاد کرتے رہیں گے۔"

اس حدیث میں صراحۃ بیعت علی الجہاد کا ذکر ہے۔

  1. حدیث عبادة ما أخرجه احمد أنه جرت له قصة مع أبی هريرة عند معاویة بالشام فقال یا أباهریرة انک لم تکن معنا إذ بایعنا رسول الله علی السمع والطاعة فی النشاط والکسل وعلی الأمر باالمعروف والنهی عن المنکر وعلی ان نقول بالحق ولا نخاف لومة لائم وعلی أن ننصر رسول الله اذاقدم علینایثرب فمنعه ممانمنع منه انفسنا وازواجنا وابنائناولناالجنة فهذا بیعة رسول الله بایعناه علیها[15].

"حدیث عبادہ جسےامام احمدؒ نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ اس کی سیدنا ابو ہریرۃؓ کے ساتھ سیدنا معاویہؓ کے سامنے شام میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اے ابو ہریرۃؓ !آپ ہمارے ساتھ نہیں تھے جب ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی (احکام) سننے اور اطاعت کرنے پر (ہر حال میں)چستی وسستی میں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر اور اس بات پر کہ ہم حق کہیں گے اور کبھی ملامت کنندہ کی ملامت سے نہیں ڈریں گے اوراس پر کہ ہم نبی کریم ﷺ کی نصرت ومدد کریں گے جب کہ وہ یثرب میں تشریف فرماہوں پس ہم ان سے دور کریں گے اس چیز کو جس سے ہم اپنی جانوں اور اپنی بیویوں اور بیٹوں کو دور کرتے ہیں اور ہمارے لئے جنت ہوگی۔پس یہ نبی کریمﷺ کی وہ بیعت ہے جس پر ہم نے بیعت کی ہے۔"

  1. عن أبی مسلم الخولانی قال حدثنی الحبیب الامین اماهو الی الحبیب واما هوعندی فامین عوف بن مالک قال کنا عند رسول الله سبعة او ثمانیة أو تسعة فقال ألا تبایعون رسول الله!؟ وکنا حدیث عهد ببیعة قلنا قد بایعناک حتیٰ قالها ثلاثا فبسطنا أیدینا فبایعناه فقال قائل یا رسول الله! انا قدبایعنک فعلام نبایعک قال أن تعبدوا الله ولا تشرکوا به شیئا وتصلوا الصلوٰات الخمس وتسمعوا وتطیعوا واسر کلمة خفیفه قال ولا تسالوا شیئا قال فلقد کان بعض اولئک النفر یسقط سوطه فمایسثل احدا ان یناوله إیاه[16].

"سیدنا عوف بن مالکؓ سے روایت ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ہم نو، آٹھ ىا سات آدمى نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے ۔ہم نے ہاتھ پھیلائے اور عرض کیا کہ کس امر پر آپ کی بیعت کریں یا رسول اللہ؟ آپﷺ نے فرمایا ان امور پرکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ان کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور احکام سنو اور مانو اور ایک بات آہستہ فرمائی وہ یہ کہ لوگوں سے کچھ مت مانگو۔راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان حضرات میں سے بعض کی یہ حالت دیکھی کہ اتفاقا چابک گر پڑا تو وہ بھی کسی سے نہیں مانگنے کہ اٹھاکر دے دیں۔ "

  1. عن جریر بن عبدالله قال بایعت رسول الله علی إقام الصلوة وإیتاء الزکوة والنصح لکل مسلم[17].

" جریر بن عبداللہ نے فرمایاکہ میں نے نبی کریم ﷺ سے آپ کی بات سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی ۔پس آپ نے مجھے تلقین فر مائی کہ جہاں تک ہوسکے مسلمانوں کی خیرخواہی کرتارہوں۔"

ان آیات اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے بیعت علی الایمان اور بیعت علی الاسلام کے علاوہ تمسک بالکتاب والسنۃ ،شرک وبدعت سے اجتناب ،اعمال حسنہ واسلامی ارکان کو صحیح معنوں میں اداکرنے ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ،صبر واستقامت پر عمل پیرا ہونے ،تقوٰی اختیار کرنے اور فسق وفجور سے احتراز کرنے ،پچھلے گناہوں سے توبہ اور آئندہ کے لئے گناہ نہ کرنے کا عزم کرنے وغیرہ امور پر بیعت فرمائی ہے۔

اقسام بیعت

بیعت کی جن اقسام کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سےہے:

بیعت اسلام

جب کوئی شرک وکفر سے بیزار ہو کر دین اسلام میں داخل ہونا چاہتا تھا تو نبی اکرمﷺ ان سے بیعت لیتے تھے۔ جیسے احادیث میں آیاہے:

عن جابر بن عبد الله أن أعرابیا بایع رسول الله ﷺ فأصاب الأعرابی وعک بالمدینة فأتی الأعرابی إلی رسول الله ﷺ فقال یا رسول الله أقلنی بیعتی فأبی رسول الله ﷺ ثم جاءه فقال أقلنی بیعتی فأبی ثم جاءه فقال أقلنی بیعتی فأبی فخرج الأعرابی فقال رسول الله ﷺ انما المدینة کالکیر تنفی خبثهاویصنع طیبها[18].

"جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہﷺ سے اسلام پر بیعت کی۔چنانچہ اسےمدینہ میں بخار آنے لگاتو آکرآپﷺ سے کہنے لگا : یا رسول اللہ ﷺ میری بیعت واپس کر دیجیے تو آپ نے انکار فرمایا۔پھر اعرابی باہر نکل گیاتو رسول اللہﷺ نے فرمایابے شک مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے جو گندگی کو نکالتی اور پاکیزگی کو رہنے دیتی ہے۔"

اس کے علاوہ کئی روایات سے ثابت ہے کہ ہجرت سے قبل حج کے موقع پر مدینہ طیبہ کے لوگوں نےحاضر ہوکر آپﷺ کے ہاتھ پربیعت کی،جو بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ سے مشہور ہیں ۔

ہجرت پر بیعت

مکہ مکرمہ میں جب مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوگئی اور مسلما ن کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تو انہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی ۔ آپ ﷺ نے اس پر بھی مسلمانوں سے بیعت لی تھی اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔

عن جابر قال جاء عبد فبایع النبی ﷺعلی الهجرة ولم یشعر أنه عبد فجاء سیده یریده فقال له النبی ﷺ بىعه فاشتراه بعبدین اسودین ثم لم یبایع احدابعد حتی یسثله اعبد هو[19].

"سیدنا جابرؓ نے فرمایاکہ ایک غلام نے آکر نبی کریمﷺ سے ہجرت پر بیعت کی اور یہ معلوم نہ ہوا کہ غلام ہے۔اسے لے جانے کے لئے اس کا مالک آگیا۔نبی کریمﷺنے اس سے فرمایاکہ یہ میرے ہاتھ بیچ دو۔پس آپﷺ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خریدلیا اوراس کے بعد کسی سے بیعت نہیں لیتےیہاں تک کہ اس سے پوچھ لیتے کہ غلام ہے یا آزاد۔ "

جہاد پر بیعت

رسول کریمﷺنے حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرامؓ سے عہد لیا تھا کہ اگر لڑائی کی نوبت آئی تومیدان سےپیچھےنہیں ہٹیں گے جب تک زندہ رہیں, دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں گے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ[20]."اے پیغمبر!جب مومن تم سے اس درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہوا۔"

حدیث مبارک میں آیا ہے۔

حدثني مجاشع بن مسعود السلمي، قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم أبايعه على الهجرة، فقال: «إن الهجرة قد مضت لأهلها، ولكن على الإسلام والجهاد والخير»[21].

"مجاشع بن مسعود اسلمیؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوا کہ میں ہجرت پر بیعت کروں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہجرت تو اہل ہجرت کے لیے ہوچکی (یعنی اب ہجرت نہیں رہی)البتہ اسلام،جہاد اور بھلائی پر بیعت ہوسکتی ہے۔"

بیعت خلافت

بیعت خلافت پر آپﷺ کا ارشادہے:

«كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون» قالوا: فما تأمرنا؟ قال: «فوا ببيعة الأول فالأول، أعطوهم حقهم، فإن الله سائلهم عما استرعاهم»[22].

" بنی اسرائیل کی سیادت انبیاء ؑ سنبھالتے تھے جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو دوسرا اس کا جانشین ہوجاتا جب کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے،عنقریب خلفاء ہوں گےاور کثرت سے ہوں گے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ پہلے کی بیعت پوری کروں۔پہلا ہی پہلا ہے انہیں ان کاحق دو اور جنہیں ان کی رعایا نے بنایا ہے ان کے متعلق اللہ پوچھنے والا ہے۔"

بیعت تقویٰ( توبہ)

بعض اوقات نبی کریم ﷺ امت کی تعلیم کے لئے صحابہ کرامؓ سے گناہوں کے نہ کرنے کى بیعت لیتے تھے۔جیساکہ صحیح بخاری اور مسلم میں سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے:

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال، وحوله عصابة من أصحابه: «بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا أولادكم [ص:13]، ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم، ولا تعصوا في معروف، فمن وفى منكم فأجره على الله، ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب في الدنيا فهو كفارة له، ومن أصاب من ذلك شيئا ثم ستره الله فهو إلى الله، إن شاء عفا عنه وإن شاء عاقبه» فبايعناه على ذلك[23].

"سیدنا عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول کریمﷺ نے اس وقت کچھ فرمایا جب کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی ایک جماعت موجود تھی ۔آپﷺ نے فرمایا میرے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کروگے،نہ زناکا ارتکاب کرو گے،نہ اپنی اولاد کو قتل کروگے،نہ ایسی بہتان طرازی کروگے جس کو تم اپنے ہاتھ اور پیروں کے ساتھ متعلق کر رکھاہے یعنی اپنی ذات کے ساتھ متعلق کیاہے اور نہ نیک کاموں کے کرنے میں نافرمانی کا اظہار کروگے پس جو اس عہد کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے یہاں ہے لیکن اگر کسی نےدنیا میں ایسے عمل کا ارتکاب کیا تو دنیا میں سزایاب ہوگااور یہ سزا اس کے لئے عاقبت میں کفارہ ہوگی اور اگر کسی نے دنیا میں کوئی ایسا عمل کیا اوراللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو وہ اللہ کے ذمہ ہے وہ چاہے تو اس بندہ کو عذاب دیں یا معاف فرمادے اور ہم نے انہیں باتوں پر رسول کریمﷺ کی بیعت کی۔ "

اس حدیث میں ( وحوله عصابة )یعنی ان کے گرد صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت موجود تھی۔یہاں صحابہؓ کا لفظ اس بات کی نشاندہی کر تاہے کہ یہ وہ لو گ تھے جو بیعت اسلام سے پہلے ہی مشرف ہو چکے تھے ان کے دل ایمان کی دولت سے مالامال ہوچکے تھے۔رحمۃ للعالمین کی نظر رحمت نے ان کو روحانیت کی ان بلندیوں تک پہنچادیاتھا کہ امت کے اولیاء ان کے مرتبہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے ۔ان صحابہ کرامؓ سے بیعت توبہ لی گئی تھی ۔

درج ذیل حدیث سے اس استدلال کی مزیدوضاحت ہوتی ہے۔آپﷺ فرماتے ہیں:

لا تشرکوا بالله شیئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا اولادکم ولا تاتو ا ببهتان تفترونه بین أیدیکم وأرجلکم ولا تعصوا فی معروف

اس میں کبائر سے اجتناب کا ذکر ہے اور کبائر سے اجتناب کا نام ہی بیعت توبہ ہے۔

بیعت توبہ کے طریقے

بیعت(توبہ)جو صوفیاء کے ہاں متوارث ہے وہ کئی طریقوں پر ہے۔* پہلا طریقہء بیعت معاصی سے توبہ ہے ۔

  • دوسرا طریقہ ءبیعت تبرک ہے۔ یعنی بقصد برکت صالحین کے سلسلہ میں داخلہ ہونا ہے،جوبمنزلہ سلسلہء اسناد حدیث ہے۔
  • تیسرا طریقہٴ بیعت عزیمت ہے۔ یعنی عزم مصمم کر نا،امرالہٰی کے امتثال اورمناہی کےترک کرنے کی بیعت کرنا۔

پہلے دونوں طریقوں میں بیعت کرنا عبادت ہے اور تیسرے طریقے میں بیعت عبارت ہے ہجرت ، مجاہدہ اور ریاضت وتقویٰ پرثابت قدم رہنے سے[24]۔

بیعت کی شرعی حیثیث/ حکم

مولانا اشرف علی تھانوی ؒ شاہ ولی اللہؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

بیعت سنت ہے اس لئےکہ صحابہ کرامؓ نے حضور اقدس ﷺ سے بیعت کی اور اس کے ذریعہ سے اللہ کا قرب حاصل کیا اور کوئی دلیل اس پر نہیں ہے کہ بیعت نہ کرنے والاگناہ گار ہوگااور نہ ہی آئمہ میں سے کسی نے تارک بیعت پر نکیر فرمائی[25]۔

اس عبارت کودیکھ کر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سنت بمعنی مستحب ہے، اور سنت بمعنی مستحب استعمال ہوتى ہے جیسا کہ اس عبارت میں مذکور ہے:

ویستحب للمتوضی أن ینوی الطهارة فالنیة فی الوضوءسنة عندنا[26].

مزید اس کی وضاحت میں لکھا ہے کہ مستحب اعم ہے سنت سے (یستحب اعم من السنة)ا ور عام وخاص کے درمیان عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے۔ جہاں یہ نسبت ہوتی ہے وہا ں دونوں (عام اور خاص )جمع ہوسکتے ہیں ،کیونکہ ان میں دو مادے ہوتے ہیں اجتماعی اور افتراقی۔یعنی ایک صورت میں یہ دونوں(سنت اور مستحب) جمع ہوسکتے ہیں یہ اجتماعی مادہ ہوا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں جمع نہ ہوں۔

سنت بمعنی استحباب ہے کیونکہ آپ آخر میں لکھتے ہیں کہ کسی امام نے تارک بیعت پر نکیر نہیں فرمائی ہےاور یہی تعریف مستحب کی ہے:

المستحب مایثاب علی فعله ولا یعاقب ولا یلام علی ترکه [27]والسنة ما فی فعله ثواب وفی ترکه ملامة وعتاب ولا یعاقب[28].

تومستحب کے کرنے پر ثواب ملتا ہے لیکن ترک پر کوئی ملامت نہیں ہے اور سنت کے ترک پر ملامت ہوتی ہے۔تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ بیعت کرنا مستحب ہے نہ کہ سنت ۔

آج کل بعض حضرا ت مروجہ بیعت سے انکار کرتے ہیں۔انہیں مذکور آیات کے عموم کو دیکھنا چاہیے۔اسی طرح نبی کریم ﷺ کے احادیث مباکہ پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ کیونکہ جس طرح احادیث میں بیعت اسلام ،جہاد ،خلافت اور ہجرت کا ذکر ہے تواسی طرح ان میں بیعت تقویٰ (توبہ) کا بھی ذکر ہے۔اس حدیث مذکور میں تو خیر کالفظ صراحتا آیاہے:

حدثنی مجاشع بن مسعود اسلمی قال اتیت النبی أبایعه علی الهجرة فقال: إن الهجرة قد مضت ولکن الاسلام والجهاد و الخیر[29]َ

اس حدیث میں خیر کا لفظ آیا ہے جو ہر قسم بھلائی کو شامل ہےتو کسی نیک اور ولی اللہ سے تعلق رکھ کر اصلاح نفس کرانےمیں کونسی برائی ہے۔ 

نتائج

دور نبوی سے بیعت اسلام ،بیعت جہاد،بیعت اطاعت اور بیعت خیرکا اثبات ہوتا ہے۔دور صحابہ میں بیعت خلافت کی حفاظت کے لئے باقی تمام بیعتوں سے احتراز کیا جاتا تھا۔بعد کے ادوار میں شریعت کی روح کومدنظررکھ کرعوام کےلیے بنابرمصلحت بیعت خیر و توبہ کی ترویج ہوئی،جو آج تک مختلف سلسلوں کی شکل میں جاری ہے۔بیعت توبہ کےذریعے گناہوں سے بچنے اورنیکی اختیارکرنےکاعہدکیاجاتاہے جومقصودبالذات ہے اوربیعت اس کاذریعہ اورسبب ہے۔لہٰذابیعت مروجہ کواعتقاداًلازم نہ سمجھاجائے۔البتہ مقاصد تک پہنچنےکےلیےاس پرعمل کیاجاسکتاہے۔اس سے انکار کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

حوالہ جات

  1. سنن أبوداؤد،کتاب البیوع،باب فی خیارالمتبایعین،رقم ۳۴۵۶ ،المكتبة العصرية، صيدا – بيروت، (س۔ن)
  2. محمد بن محمد ،تاج العروس من جواھر القاموس ۲۰ :۳۷۰،دار الہدایۃ،(س۔ن)
  3. ابن منظور،محمد بن مکرم ،لسان العرب۸: ۲۶،دارصادر بیروت،الطبعۃالثالثۃ,۱۴۱۴ھ
  4. ابن حجرعسقلانی،فتح الباری شرح صحیح البخاری۱: ۶۴،دار المعرفۃ بیروت،۱۳۷۹ء
  5. لسان العرب۸: ۲۶
  6. عالم فقری،اللہ سے دوستی ،ص ۶۷ ،ممتاز اکیڈمی،لاہور ،(س۔ن)
  7. مولانا احسان الکریم،بیعت کی ضرورت وفضیلت، ص ۱۵۸،فاروقی کتب خانہ پشاور،(س۔ن)
  8. نظام الدین،حسن بن محمد،غرائب القرآن و رغائب الفرقان۳: ۴۷۱،دارلکتب العلمیۃ بیروت،۱۴۱۶ھ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد محمد طاہر بن علی ہندی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوعی ہے۔(محمد طاہر بن علی، تذکرہ الموضوعات۱:۳ ۹،ادارۃ الطباعۃالمنیریۃ ،۱۳۴۳ھ) اسی طرح محمدبن علی شوکانی ؒنے الفوائد المجموعہ میں لکھا ہے :ذکره صاحب الخلاصة وقال موضوع( محمد بن علی شوکانی،الفوائد المجموعۃ ۱: ۳۳۵،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،(س۔ن))
  9. القشیری مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ،باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ فیما استطاع ،رقم ۱۸۶۷، داراحیاء التراث العربی ،بیروت،(س۔ن)
  10. سورۃ النساء۴ :۶۳
  11. سورۃ الفتح۴۸ :۱۰
  12. سورۃ الفتح۴۸ :۱۸
  13. سورۃ الممتحنہ۶۰ :۱۲
  14. محمد بن اسماعیل البخاری،الجامع الصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الخندق وھی الاحزاب ،رقم ۴۰۹۹ ، دارطوق النجاۃ،۱۴۲۲ھ
  15. ابن حنبل،احمد بن محمد، مسند امام احمد بن حنبل،حدیث عوف بن مالک الاشجعی الانصاری،رقم۲۲۷۶۹، موسسۃ الرسالۃ،الطبعۃ الاولیٰ،۱۴۲۱ھ
  16. سنن ابو داود ،رقم۱۶۴۲
  17. صحیح بخاری،باب البیعۃ علی اقام الصلوۃ،رقم۵۲۴
  18. صحیح بخاری،باب من بایع ثم استقال البیعۃ ،رقم۷۲۱۱
  19. صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب جواز بیع الحیوان بالحیوان من جنسہ متفاضلا،رقم۱۶۰۳
  20. سورۃ الفتح۴۸ :۱۸
  21. صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب المبایعۃ بعد فتح مکہ علی الاسلام،رقم۱۸۶۳
  22. صحیح بخاری ،باب ماذکر عن بنی اسرائیل ،رقم۳۴۵۵
  23. صحیح بخاری،باب علامۃ الایمان حب الانصار،رقم۱۸
  24. مولانا محمد زکریا ،شریعت و طریقت کا تلازم،ص۱۲۲،مکتبۃ الشیخ کراچی(س۔ن)
  25. شریعت و طریقت کا تلازم:۱۲۱
  26. برہان الدین ، علی بن ابی بکر المرغینانی،الہدایۃ، ۱ : ۲۲ ،مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار ،لاہور(س۔ن)
  27. حاشیۃ ہدایہ لمولانا عبد الحیی لکھنوی،۱: ۲۲
  28. قا سم بن عبد اللہ القونوی،انیس الفقھاء فی تعریفات الالفاظ المتداولۃ بین الفقھاء ۱: ۳۳،دارالکتب العلمیۃ ، بیروت ،الطبعۃ:۱۴۲۴ھ
  29. صحیح مسلم،باب المبایعۃ بعد فتح مکہ علی الاسلام،رقم۸۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...