Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 2 of Al-Idah

مصادر قانون بطور سند اسلامی اور مغربی اصول قانون كا تحقیقی اور تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

37

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060034497_1125

Pages

1-27

DOI

10.37556/al-idah.037.02.0368

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/368/422

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/368

Subjects

Western Law Orientalists Islamic Law Validity of the Law western law orientalists Islamic law Validity of the law

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

مصادر قانون کی بحث سندقانون کی کلیدی بحث ہے کیونکہ مصدر ہی سے قانون اپنا جواز حاصل کرتا ہے۔ عصر حاضر میں مغربی ممالک میں قانون کا سب سے بڑا مصدر و ماخذ قانون سازی(Legislation) ہے جبکہ بنیادی طور پر اسلامی قانون کی اساس قرآن و سنت یعنی وحی الٰہی پر ہے۔ دونوں میں جوہری فرق ہی یہ ہے کہ ایک الٰہی قانون (Divine Law) ہے اور دوسرا وضعی قانون (Man Made Law) ہے ۔ اسلامی قانون میں قرآن و سنت کے علاوہ دیگر تمام مصادر قرآن و سنت سے ہی سند حاصل کرتے ہیں۔ ان تمام کا مقصد انفرادی یا اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ حاکم حقیقی اور شارع (Law giver) کا منشا معلوم کرنا ہے۔ گویا حقیقی مصدر قانون شارع کی مرضی و منشا ہے۔ مجتہدین کی تمام کاوشوں کا مرکز و محور یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضي کیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی اصول قانون میں یہ مقام پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

اسلامی قانون کے مصادر کا مغربی قانون کے مصادر سے تقابل کرنے سے وہ امور بھی معلوم ہو جاتے ہیں جو ان دونوں میں مشترک ہیں اور ان کے ان مصادر کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے جن پر ان میں باہم اختلاف ہے۔ دو مختلف قانونی نظاموں کا تقابلی مطالعہ نمایاں اختلافی امور کے پہلو بہ پہلو ان کے درمیان بعض مشابہ امور کو بھی اجاگر کرتا ہے، مزید یہ کہ بعض اوقات جزوی مشابہت سے کلی مشابہت کا گمان ہونے لگتا ہے، اس لحاظ سے یہ پہلو زیادہ تحقیق طلب ہوتا ہے۔ اسلامی قانون اور مغربی قانون میں بعض مصادر مثلاً اجتھاد، قیاس، عرف وغیرہ کی مشابہت سے علماء تحقیق کا ایک گروہ مثلاً آموس، و ان کریمر اور گولڈ زیہر جیسے مستشرقین کا کہنا ہے کہ قانون اسلامی دراصل روما کے قانون کی ہی توسیع ہے،۔ زیر نظر مقالہ میں اس بات کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ قانونِ اسلامی اپنی مخصوص طرز کے ساخت میں قانون روما کا کسی بھی طرح ممنونِ احسان نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و سنت اور ان کے تابع دیگر مآخذ سے مستنبط ہے۔

مغربی اصول قانون میں مصادر قانون بطور سند:

قانون میں مصدر کا مفہوم: مغربی علماءِ قانون کے ہاں Source کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں مثلاً:

The question of the source of law is only one aspect of the general study of the validity of law (Gurvitch)[1]

From which a rule of law derives its force and validity (Salmond).[2]

یعنی ماخذ وہ ہے جس کے ذریعہ ایک قانونی قاعدہ اپنی قوت اور جواز حاصل کرتا ہے، بالفاظ دیگر قانون کے جواز کی بنیاد اور اساس اس کے مصدر سے حاصل ہوتی ہے[3]۔

وہ تمام عناصر جنہوں نے قانون کی نشوونما میں حصہ لیا ہے انہیں قانون کے مآخذ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں قانون کے مآخذ بھی مختلف رہے ہیں، لیکن ان میں سب سے قدیم مأخذ رسم و رواج کو تصور کیا جاتا ہے، اس لیے بحث کا آغاز اس سے کیا جاتا ہے۔

رسم و رواج (Customs) بطور مصدرقانون:

رسم و رواج قانون کا قدیم ترین ماخذ ہے۔ قدیم معاشرہ میں كسی بھی تنازعہ كا حل مروجہ رواج کے مطابق طے کیا جاتا تھا۔ رسم و رواج کی بنیاد خاندان، برادری یا قبیلہ کی عادات اور طور طریقے پرر کھی جاتی تھی۔ البتہ واضح طور پر کوئی نہیں بتا سکتا کہ رسم و رواج کی بنیاد کب اور کس طرح رکھی گئی ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہر شخص ان کو جانتا تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگوں کی عادات و خصائل کا جزو بن جاتے۔ ان کی افادیت یہ تھی کہ لوگ عدل و انصاف کی خاطر ان کو تسلیم کرتے تھے[4]۔

رواج اور قانون میں فرق: ان دونوں میں فرق درج ذیل الفاظ میں کیا جاتا ہے:

"The practice of a particular place is called a custom, A general immemorial practice through the realm is the common law"[5]

رسم و رواج کی سند: آیارسم و رواج کو سیاسی اعتبار سے قانون کا درجہ حاصل ہے یا یہ ضروری ہے کہ عدالت یا ریاست بھی اسے تسلیم کرے؟ یہ اس بحث کا بڑا اہم حصہ ہے۔ البتہ اس بحث سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ہر قسم کا رسم و رواج ماخذ قانون بھی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کچھ شرائط یا tests مقرر کیے گئے هىں۔ جب رواج ان مطلوبہ شرائط پر پورا اترتا ہو تو پھر اس کی سند کا سوال پیدا ہوتا ہے۔جارج وائٹ پیٹن رواج کے لیے درج ذیل چھ شرائط کا ذکر کرتا ہے[6]:

۱۔ رواج كا ،عام قانون کے کسی بنیادی اصول سے تعارض یا تضاد نہ ہو۔

۲۔ رواج قدیم ہو اور اس کے آغاز کا علم نہ ہو۔

۳۔ اس پر تعامل ہو یعنی باقاعدگی سے ہر نسل اس پرعمل کرتی آئی ہو۔

۴۔ اس کا وجود قطعی ہو۔

۵۔ اس کا کسی دوسرے رسم و رواج سے تضاد نہ ہو۔

۶۔ یہ معقول ہو۔

جب رسم و رواج کو باضابطہ مدون کیا گیا اور مقننہ کا دائرہ وسیع ہوا تو قانون نے رسم و رواج کی جگہ لے لی، اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ رسم و رواج پر انحصار بھی کم ہوتا گیا، جیسا کہ درج ذیل الفاظ سے واضح ہوتا ہے:

As a present day, source of law however, it is of little importance[7].

دورجدید میں رواج کی اہمیت کم ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی عدالتی فیصلوں میں پرانے رسم و رواج کو بحیثیت نظائر نظرانداز نہیں کیا جاتا ، مزید یہ کہ مغرب کے بیشتر موجودہ مدون قوانین میں ترمیم کی مختلف صورتیں ہیں جو رسم و رواج میں اب تک ہوتی رہی ہیں۔

کسی رواج کو قانون کا درجہ دینے یا نہ دینے کا عدالتوں کو صوابدیدی حق حاصل ہے، اس طرح مقننہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کسی رواج کو قانون کا مرتبہ دے یا نہ دے۔ ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ رسم و رواج قانون موضوعہ کے تحت آتا ہے اسے قانون موضوعہ پر برتری حاصل نہیں ہے:

It is, of course, true that in most legal systems customs is a source of law subordinate to statute.[8]

جن ممالک میں رواج کو مصدر قانون تسلیم کیا جاتا ہے وہاں مختلف ادوار میں مقننہ اور عدلیہ ہی کسی رواج کو قانونی وجود بخشنے کا مؤثر ذریعہ تصور کیے جاتے ہیں جیسا کہ ایک معروف مغربی قانون دان لکھتا ہے:

"In this period legislation and judicial precedent were merely regarded as the means of creating new customs".[9]

قانون سازی بطور مصدرقانون:

موجودہ دور میں قانون سازی(Legislation) کو قانون کا سب سے اہم اور مؤثر ذریعہ تصور کیا جاتاہے۔ جمہوری روایات کے مطابق قانون رائے عامہ کا مظہر تصور کیا جاتا ہے اور عوام کی رائے مجلس قانون ساز کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔

قانون سازی کا مفہوم: وسیع تر مفہوم میں ہر نوع کی قانون سازی کے لیے یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے، خواہ وہ عوامی نمائندوں کا بنایا ہوا قانون ہو یا جج صاحبان کا بنایا ہوا ہو جیسا کہ سامنڈ کہتا ہے:

"In a wide sense it includes all methods of law-making and therefore, would take in judge-made law also"[10]

کسی بھی مجاز ادارے یا مجلس کے وضع کردہ قوانین ’’قانون سازی‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ قانون سازی درحقیقت قانون کی شعوری ترتیب و تنظیم کا نام ہے اور قانون سازی کا یہ جدید طریقہ قانون بنانے کے دوسرے تمام طریقوں پر حاوی ہو گیا ہے۔قانون سازی کے ذریعہ وجود میں آنے والے قانون کو "Statute Law" "Enacted Law", اور "Written Law" وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے[11]۔اب مغربی دنیا میں رسم و رواج اور دیگر مصادر کی جگہ واضح تحریری قوانین لے رہے ہیں اور اسے قانون سازی کا براہ راست اور اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ عدالتی فیصلے، رسم و رواج اور دیگر مآخذ قانون سازی پر اثرانداز ہوتے ہیں اور مجالس قانون سازی ان سے استفادہ بھی کرتی ہیں۔ یہ قانون دراصل ملک کی قانون ساز اسمبلی بناتی ہے مثلاً انگلستان میں پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے جبکہ امریکہ میں کانگریس کے ذریعہ اس قسم کا قانون بنایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ قانون کی سب سے اہم اور عام قسم تصور کی جاتی ہے[12]۔مغربی ممالک میں پارلیمنٹ، کانگریس یا مقننہ جو بھی عنوان دیا جائے قانون سازی کا سب سے بڑا اور بالاتر حیثیت رکھنے والا ادارہ ہے۔ اس کے بنائے ہوئے قانون کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا[13]۔مغرب میں ’’قانون سازی‘‘ نے ارتقاء کی مختلف منازل طے کرنے کے بعد سند کا درجہ حاصل کیا ہے۔

قطع نظر اس کے کہ ماضی میں مجالس قانون ساز کا مقام کیا تھا اور ان کی قانون سازی کو کیا اہمیت حاصل تھی، موجودہ دور میں اس حوالے سے مغربی علماء قانون کا اتفاق ہے کہ اسے سند (Authority) تصور کیا جاتا ہے، اور اس کے سند ہونے سے متعلق کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا:

"Legislation may be described as law made deliberately in a set form by an Authority, which the courts have accepted as competent to exercise that function."[14]

اس سے معلوم ہے کہ بنیادی طور پر قانون سازی کا کام مقننہ، پارلیمنٹ ، کانگریس یا اس نوع کے کسی ادارے کا کام ہے جس کی حیثیت مجلس قانون ساز کی ہو۔ مغربی اصول قانون میں اس نوع کی قانون سازی کو سند تصور کیا جاتا ہے گو کہ مختلف مغربی ممالک میں قانون ساز مجالس کو مختلف عنوانات دیے جاتے ہیں اور قانون سازی کے طریق کار میں بھی فرق ہے لیکن اسے بطور سند سبھی تسلیم کرتے ہیں[15]۔

آئین(Constitution) بطور مصدر قانون:

آئین یا دستور کسی ریاست کا وہ بنیادی قانون ہے جس کے بغیر ریاست کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں ریاست ہو گی وہاں کچھ بنیادی اصول یا قواعد ایسے لازماً ہوں گے جن کے مطابق حکومت کے اختیارات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے شہریوں کے حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے اور ملک کے دوسرے قوانین اس کے ماتحت ہوتے ہیں. جدید دور میں آئین کو ریاست کا قانون اساسی تصور کیا جاتا ہے:آئین ایک بالاتر قانون ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کا ماخذ و مصدر بھی ہے:

"The constitution is thereby elevated to source of law superior to ordinary Legislation."[16]

مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ آئین کی اہمیت عام قانون سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، یہ محض اخلاقی ہدایات پر مبنی کوئی دستاویز نہیں ہوتی بلکہ اس کی پابندی عام قانون سے بڑھ کر کی جاتی ہے۔

معاہدے(Treaties) بطور مصدر قانون:

وہ معاہدات جو دو یا دو سے زائد ممالک، قوموں یا "Legal Persons" کے درمیان ہوتے ہیں وہ بھی قانون کا ماخذ تصور کیے جاتے ہیں۔ بعض معاہدات دو طرفہ (Bilateral) ہوتے ہیں لیکن بعض معاہدات میں متعدد ممالک شامل ہوتے ہیں۔ اس نوع کے معاہدات کو "Multi Lateral Treaty" سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جدید قانونی زبان میں اسے "Act of International Legislation" کا عنوان دیا جاتا ہے۔

معاہدات بطور ماخذ قانون: یہ سوال کہ آیا معاہدات ماخذ قانون ہیں؟ بڑی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے اور مختلف مغربی ممالک میں اس حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں۔ بوڈن ہیمر نے انگلستان اور امریکہ کے الگ الگ طرزِعمل کا ذکر کیا ہے۔ امریکہ میں اسے کانگریس سے منظور کرائے بغیر بھی ماخذ قانون بنایا جاتاہے جبکہ انگلستان میں طریقہ کار یہ ہے کہ ملکی عدالتیں اس نوع کے معاہدات کو قانون اسی وقت تسلیم کرتی ہیں جب ملکی پارلیمان سے اس کی منظوری ہو جاتی ہے۔ بصورت دیگر اس کی ملکی عدالتوں کے لیے کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ البتہ یہ بات مطلقاً نہیں ہے بلکہ اس کی تفصیلات ہیں مثلاً یہ کہ آیا وہ معاہدہ کسی کے نجی حق کو متاثر کرتا ہے یا قانون عامہ میں ترمیم کا تقاضا کرتا ہے وغیرہ، تو اس صورت میں پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے[17]۔

نئے قوانین کو جنم دینے والے معاہدات:

بعض علماء اصول نے ایک عمومی اصول ذکر کیا ہے کہ ایسے بین الاقوامی معاہدات جو نئے قوانین کو جنم(Law Making Treaties) دیتے ہیں صرف انہی کو ماخذ قانون تصور کیا جائے گا جو اس نوع کے نہیں ہوں گے انہیں ماخذ قانون نہیں سمجھا جائے گا۔ اگرچہ یہ فرق کلسن اور بعض دیگر علماء قانون کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے نزدیک تو معاہدہ قانون کی اساس بنتا ہے : "Essential Function of any Treaty to make Law" حاصل یہ ہے کہ معاہدات کو بحیثیت مجموعی ماخذ قانون تسلیم کیا جاتا ہے تاہم بعض جزئیات ایسی ہیں جن میں مختلف ممالک میں مختلف طرزِعمل اختیار کیا جاتا ہے[18]۔

غیررسمی مآخذ قانون بطور مصدر قانون:

قانون موضوعہ کی دنیا میں جہاں رسمی مآخذ (Formal Sources) خاموش ہوں اور حل طلب مسئلہ کا کوئی جواب ان میں موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں جج صاحبان کس مآخذ کی طرف رجوع کریں؟ اس کا جواب جارج کراس پیٹن یہ دیتے ہیں کہ مختلف مدون قوانین میں اس نوع کی رہنمائی فراہم کی جاتی ہے کہ جب رسمی ماخذ میں کسی قانونی مسئلہ کا حل نہ ہو تو اس صورت میں کہیں یہ تو بتایا گیا کہ جج بطور قانون ساز خود قانون وضع کرے، کہیں قانونی کتب، ماہرین قانون کی آراء، عدل و انصاف کے علمی اصولوں وغیرہ سے رہنمائی لینے کا ذکر کیاگیا ہے.معروف فلسفی بوڈن ہیمر نے ان غیررسمی مآخذ کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے اور قانونی اثباتیت کے علمبرداروں کی یہ سنگین غلطی قرار دیا کہ وہ صرف رسمی مآخذ تک اپنے آپ کو محدود کرتے ہیں:

"It was one of the cardinal errors of legal positivism that it limited its theory of the source of law exclusively to those which we have termed formal source of law".[19]

موصوف نے اس کے بعد چند غیررسمی مآخذ کا ذکر کیا ہے جو دراصل خود فلسفہ قانون کے اندر ایک اہم پیش رفت ہے:

(1) Standards of Justice (2) Reason and Nature of things (3) Equity (4) Public Policies, Moral Convictions and Social Trends (5) Customary Law

  1. انصاف کے عمومی اصول(Standards of Justice) :

جہاں رسمی مآخذ سے رہنمائی نہ ملتی ہو اور قانونی خلاء ہو تو کیا اس صورت میں غیررسمی مآخذ میں سے انصاف کے عمومی اصولوں کو پیش نظر رکھ کر جج فیصلہ دے سکتا ہے؟ مزید یہ کہ کیا ایسی صورت میں اسے ماخذ قانون تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک اور سوال بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ جب مدون قانون کے نفاذ سے انصاف کی پامالی ہوتی ہو تو ایسی صورت میں جج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس قانون کو ترک کر کے انصاف کے راستے کو اختیار کرسکتا ہے۔ جہاں تک پہلی صورت کا تعلق ہے جو جہاں قانونی خلاء ہو، اس کے بارے میں بالعموم پریکٹس یہی ہے کہ انصاف کے عمومی اصولوں کو ماخذ قانون تسلیم کیا جاتا ہے:

"The first problem is common and ubiquitous one in judicial administration and a substantial amount of case law is available to illustrate its significance and ramifications."[20]

اس سے معلوم ہوا کہ اس نوع کے قانونی خلاء کی صورت میں اصول انصاف کی اساس پر بالعموم فیصلے دیے جاتے ہیں۔ البتہ موصوف نے دوسرے سوال کا جواب واضح انداز میں نہیں دیا کہ آیا جج اس صورت میں مدون قانون کا انکار کر کے اصول انصاف کو اختیار کر سکتا ہے یا وہ صرف قانون موضوعہ کا پابند ہے۔ اس نے صرف "The problem is one that deserves serious consideration" کہہ کر جان چھڑا لی ہے حالانکہ یہ سوال غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ قانونی نظام میں اصول انصاف کو رہنما اصول کا مرتبہ حاصل ہے، اس لیے اس سے کسی طرح بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ بعض صورتوں میں اصول انصاف کو بطور ماخذ قانون تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ مقدم الذکر صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس نوع کے بے شمار عدالتی فیصلے ہیں جن میں relief کی اساس "Natural Justice and Nature" کو قرار دیا گیا ہے۔

۶۔اصول نصفت(Equity):

اصول قانون میں "Equity" [21]کا مفہوم یہ ہے کہ جب کسی مسئلہ کے متعلق کوئی صریح قانون نہ ہو تو فریقین کے مابین مفادات اور ذمہ داریوں کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیا جائے۔ "equity" کو قدرتی انصاف (Natural justice) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے وجود میں آنے کی وجہ انگلستان کے دیوانی قانون کی خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔ اس طرح قانون عامہ میں پائے جانے والے نقائص کو رفع کرنے کے لیے یہ ضابطے وجود میں آئے۔ معروف ماہر قانون بلیک اسٹون(Black Stone) نے اصول نصفت کو تمام قوانین کی روح قرار دیا ہے(۲)[22]۔ بقول سامنڈ Equity کا لفظ متعدد مفاہیم میں استعمال ہوتاہے، تاہم اکثر و بیشتر اس سے مراد قدرتی انصاف، انصاف کی روح، شفاف ہونا وغیرہ مراد لیا جاتا ہے۔

"In its popular parlance it signifies natural justice, equality and fairness".[23]

اگر یہ معروف مفہوم مراد لیا جائے تو یہ بات اور اصول انصاف قریب قریب ایک ہی مفہوم میں آ جاتے ہیں۔ مغرب کے قانونی نظام میں Equity کی حیثیت اور حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے درج ذیل اقتباس ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:

"Now equity is no part of the law, but a moral virtue, which qualifies, Moderates and reforms the rigor, hardness, and edge of the law and is an universal truth--- Equity therefore does not destroy the law, nor create it, but assist it".[24]

انگلستان کے قانونی نظام میں Equity کو جو مقام حاصل ہے اس کے لیے مذکورہ بالا اقتباس بڑا جامع ہے۔

اسلامی قانون کے مصادر بطور سند:

مصدر قانون کے لیے سند (Authority) کا درجہ رکھتا ہے۔ اصول فقہ میں ان مصادر کو علماء ’’أدلة الأحکام الشرعية، ’’الحجج الشرعية‘ اور ’’اصول‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں[25]، ان میں بعض مصادر کے حجت ہونے پر تمام علماء اصول کا اتفاق ہے جبکہ بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔ مصادر کو مختلف پہلوؤں سے دیکھا جاتاہے مثلاً نقلی اور عقلی ہونے کے لحاظ سے، متفق علیہ اور مختلف فیہ ہونے کی حیثیت سے، مستقل اور غیرمستقل ہونے کے پہلو سے اور اساسی اور ثانوی وغیرہ ہونے کے نقطۂ نظر سے۔ مقالہ کے اس حصہ میں ان مصادر کے حجت اور سند ہونے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے، اور جس مصدر کے سند ہونے کو کسی دور میں چیلنج کیا گیا ہے تو اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ علماء اصول نے ان مصادر کو مصادراصلیہ اور ثانویہ کے لحاظ سے ترتیب بھی دیا ہے۔ان میں سے ہر تقسیم افادیت کی حامل ہے اور کسی خاص پہلو کو واضح کرتی ہے[26]۔ اصول فقہ میں حتمی مصدر کی حیثیت ’’کتاب اللہ‘‘ کو حاصل ہے، اس لیے آغاز بھی اسی سے کیا جاتاہے۔

۱۔ قرآنِ مقدس بطور مصدر قانون:

قرآنِ مقدس اسلامی قانون کا اصل الاصول، مصدر المصادر اور سرچشمہ ہے۔ اس کے مصدر ہونے پر تمام علماء و فقہاء کا اتفاق ہے کیونکہ اسلامی قانون سے مراد ’’حکم شرعی‘‘ یعنی منشا الٰہی ہے اور منشا الٰہی کی تعیین کا اساسی ذریعہ قرآن مجید ہے بلکہ سنت رسول بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ علامہ آمدی بیان کرتے ہیں:’’والاصل فيها انما هو الکتاب: لأنه راجع الی قول الله تعالیٰ المشرع للأحکام والسنة مخبرۃ عن قوله تعالیٰ وحکمه، و مستند الاجماع فراجع اليهما‘‘

قرآن مقدس کی قطعیت (قطعی الثبوت ہونا) اور سند پر علماء مغرب اور مستشرقین کے شبہات:

اصولی طور پر قرآن مجید کی صداقت، قطعیت اور سند مستشرقین کی تصدیق کی محتاج نہیں ہے، اس لیے کہ اس کی صداقت اور قطعیت بدیہی ہے۔ قرآن مقدس نزول کے وقت سے ہی اپنی صداقت کو مشتبہ ٹھہرانے والوں کو ان الفاظ میں مخاطب کرتا ہے: ’’ قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا‘‘[27]’’کہو اگر سب انسان اور جن اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اس جیسا قرآن لے آئیں تو نہیں لا سکیں گے اگرچہ وہ سب ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔‘‘

قرآن کا یہ چیلنج چودہ سو سال سے برقرار ہے لیکن چونکہ ایک عرصہ سے مستشرقین کی علمی و تحقیقی کاوشوں نے انہیں ایک علمی و تحقیقی منہج اور ڈسپلن کا درجہ دے دیا ہے[28]۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ معروضی انداز سے مطالعہ کرتے ہیں، اور ان کی تحقیق ذہنی تحفظات اور تعصبات سے بالاتر اور غیرجانبدارانہ ہوتی ہے۔ کچھ معاصر مسلمان محققین ان کا یہ دعویٰ درست بھی سمجھتے ہیں، گو کہ ایک بڑی تعداد ان کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتی[29]۔ اس حوالے سے مستشرقین كے اعتراضات كے شافی جوابات دئے گئے ہیں [30]، چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام اور قرآن كے بارے میں متعصب مستشرقین کے اعتراضات واضح تھے اور ان کے پس پردہ سامراجی مقاصد اور صلیبی جنگ کے رجحانات بھی کارفرما تھے جن پر انہوں نے علمی تحقیق اور دین و دیانت کا پردہ ڈال رکھا تھا، اس لیے یہ طرز عمل کچھ سنجیدہ مستشرقین کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوا، اس لیے انہوں نے اس قسم کی تحریروں پر معذرت خواہانہ انداز اپنایااور احتیاط کا پہلو اختیار کیا۔ مستشرق درمنگھم (E.Dermanghame) دیگر مستشرقین کی اس علمی تحقیق کا پردہ ان الفاظ میں افشاء کرتا ہے ،لکھتا ہے:

’’اسلام اور مسیحیت کے درمیان صدیوں کی جنگ نے دونوں کے درمیان نفرت پیدا کی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی، البتہ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مغرب کی طرف سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی زیادہ کوشش ہوتی ہے۔ ان سخت فکری مقابلہ آرائیوں میں مغرب نے واقعی تحقیق سے کام نہیں لیا، مستشرقین نے بازنطینی طریق بحث و مناظرہ کے ذریعہ اسلام کو اپنی ملامت کا نشانہ بنایا، پھر مغرب کے وظیفہ یاب شاعروں اور مقالہ نگاروں نے عربوں پر مسلسل حملے کیے، ان کے یہ حملے بے بنیاد متضاد الزامات کی صورت میں تھے۔‘‘[31]

۲۔ سنت رسول بطور مصدر قانون:

اسلامی قانون کا دوسرا اساسی مأخذ سنت رسول ہے۔ اسے دوسرا ماخذ قرار دیا جاتا ہے گو کہ اس کی حیثیت ثانوی نہیں ہے کیونکہ سنت بجائے خود اسلامی قانون کا مآخذ ہے۔ سنت ، مرتبہ کے لحاظ سے قرآن مجید سے مؤخر[32]ہے اور مستقل قانون سازی کا سرچشمہ ہونے کے باوجود سنت قرآن کے تابع ٹھہرتی ہے، کیونکہ وہ قرآن کی شرح اور تفسیر ہونے کے علاوہ ان مقامات پر بھی قرآن کے قواعد عامہ سے متجاوز نہیں ہوتی جہاں قرآن خاموش ہے۔عہد نبوی سے لے کر آج تک سوائے ایک قلیل گروہ[33]کے پوری امت حدیث نبوی کو وحی الٰہی، سرچشمہ ہدایت، واجب الاتباع اور اسلامی قانون کا دوسرا اساسی ماخذ تسلیم کرنے پر متفق ہے کیونکہ اسلامی نظام حیات ا ور نظام قانون کو جس چیز نے تفصیلی اور عملی صورت دی ہوئی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ دوسری صدی ہجری میں بعض خوارج اور معتزلہ نے حدیث کی حجیت کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی لیکن محدثین کے غیرمعمولی تحقیقی اور علمی کام نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا[34]۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مستشرقین کے ذہن جن بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہے ہیں ان میں حدیث کی تاریخی اورتشریعی حیثیت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ ابتداً مغربی محققین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، آپؐ کی عائلی زندگی، غزوات اور سیاسی اصلاحات کو موضوع تحقیق بناتے رہے ہیں۔ اب خود حدیث، اس کی جمع و تدوین اس کی ثقاہت اور تاریخی و تشریعی حیثیت کو مرکزی موضوع بنایا گیا اور اس تحقیق کے نتیجے میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حدیث غیرمعتبر اور غیر مستند تاریخی بیان ہے جس میں ہر قسم کی سنی سنائی کہانیاں اور افواہیں جمع کر دی گئی ہیں[35]۔

مغربی اہل علم نے اس مفروضے کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر مان لیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے

منسوب یہ سارا ذخیرہ وضع و افتراء کے ایک طویل و عریض سلسلے کی پیداوار ہے۔بیسویں صدی میں جن چار مستشرقین نے اس میدان میں امامت کا درجہ حاصل کیا ہے۔

۱۔ گولڈ زیہر:سنت سے متعلق گولڈ زیہر کےنظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث نبوی کا اصل مقام یہ ہے کہ یہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مسلم معاشرے میں لوگوں کے فکری رجحانات اورفقہی آراء معلوم کرنے کا ایک مستند مأخذ ہے لیکن یہ پیغمبر اسلام اور ان کے عہد کے بارے میں معلومات کا کوئی مستند مصدر نہیں ہے۔ [36]حدیث میں بعض اجنبی اور جاہلی اثرات سرایت کر گئے تھے(العیاذ باللہ)۔

جوزف شاخت کا نتیجہ فکر:

جوزف شاخت [37]نے گولڈ زیہر کے نظریات کو مزید آگے بڑھایا اور اس کے نتائج تحقیق سے ایک ’’اصول‘‘ مستنبط کیا جو شاخت کے الفاظ میں اس طرح ہے:

Every legal tradition from the Prophet, until the contrary is proved must be taken not as an authentic or essentially authentic... statement.... but as the fictitious expression of a legal doctrine formulated at a later date (Schacht, 1950, p.149)[38]

اس اصول کے مطابق قانونی امور سے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کسی بھی حدیث کو نبیؐ اور صحابہ کے دور کے لیے معتبر تسلیم نہیں کیا جا سکتا اِلا یہ کہ ثبوت مل جائے کہ اس حدیث کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست ہے۔شاخت نے سارا زور اس بات پر لگایا کہ اسلام کے ابتدائی دور بالخصوص عہدرسالت اور عہد صحابہ میں ان روایات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور احادیث کو رسول کی طرف منسوب کرنے کا خیال کافی بعد کی پیداوار ہے۔

ان كے افكار و نتائج كا رد كرتے ہوئے معروف محقق ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری لکھتے ہیں:

’’ مغربی اہل علم میں احادیث کے بارے میں منفی انداز کے سوال اٹھانا، بلکہ ان کی صحت کا انکار کرنا کوئی آج کی بات نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے آخر ہی سے الفرڈ فون کریم (م۱۸۸۹ء) الوے سپرنگر(م۱۸۹۳ء)، ولیم میور (۱۹۰۵ء) اور تیھوڈور نویدلدیکی (م۱۹۳۰ء) جیسے معروف اہل علم کی تحریروں میں یہ رجحان کھل کر سامنے آ چکا تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہ رجحان اگناز گولڈ زیہر (م۱۹۲۱ء)کی تحریروں میں پوری شدت اور قطیعت کے ساتھ نہایت بھرپور انداز میں ظاہر ہوا[39]۔‘‘

مستشرقین نے سنت رسول کی سند کو ناقابل اعتماد اور کم از کم مشکوک ثابت کرنے کے لیے بطور خاص تدوین حدیث اور سلسلہ اسناد کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا[40]۔ مسلمان محققین نے مستشرقین کی ان تحقیقات کا از سر نو جائزہ لیا۔ اس حوالے سے تین قسم کے رجحانات سامنے آئے۔

۱۔روایتی اسلوب: روایتی[41]علماء نے مستشرقین کے ردعمل میں انتہائی عالمانہ تحقیقی کتب پیش کیں ہیں۔ قدیم مصادر سے تدوین حدیث کے ضمن میں ٹھوس مواد فراہم کیا۔

۲۔ جدید اسلوب: مغربی منہج تحقیق پر گہری نگاہ رکھنے والے طبقہ نے جدید اسلوب تحقیق کی روشنی میں مستشرقین کے اشکالات اور اعتراضات کے مدلل جوابات دیے ہیں۔ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے صحیفہ ہمام بن منبہ[42]کے چند نسخے حاصل کر کے، ان کا مطالعہ کیا اور تحقیق کے بعد ایک جامع مقدمہ تحریر کیا جس میں دلائل سے ثابت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تدوین حدیث کا آغاز ہو گیا تھا۔۔ ترکی کے معروف سکالر ڈاکٹر فواد سیزگین نے اپنی کتاب ’’تاریخ التراث العربی‘‘[43]میں تدوین حدیث کے مختلف مراحل اور کیفیت تدوین حدیث کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا، اور تدوین حدیث پر مستشرقین کے اعتراضات کا تفصیلی دلائل کے ساتھ جواب دیا۔۔ ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی [44]نے اپنی کتاب[45] "Study in the Early Hadith Literature" میں ابتدائی ڈیڑھ صدی میں تدوین حدیث کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔۔ شام کے معروف محقق ڈاکٹر مصطفی سباعی نے ’’السنۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی ‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ تدوین حدیث پر قدیم و جدید مفکرین اور مستشرقین کے شبہات کاانتہائی عالمانہ اور تحقیقی جواب دیا ہے۔ مولانا مودودی نے ’’سنت کی آئینی حیثیت ‘‘ میں حجیت حدیث اور تدوین حدیث پر وارد ہونے والے اشکالات کا علمی جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد معاصر علماء نے اسے موضوع بحث بنایا ہے[46]۔

۳۔ مصلحین کا اسلوب:مصلحین سے مراد وہ طبقہ ہے جو مستشرقین کے علمی اسلوب سے مرعوب ہے اور حدیث کی سند (Authority) کے حوالے سے جو شکوک و شبہات مستشرقین کے پیدا کردہ تھے ان کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن میں اس طبقہ کو یہی لقب دیا گیا :

"As Muslims in the nineteenth century saw a threat to Islam in the west in modernization, individual thinkers took to examining the state of Islam either adopting a fundamentalist and defensive point of view or seeking reform or even rejecting Islam outright"[47]

۳۔ اجماع بطور مصدر قانون:

مستشرقین نے اسلامی قانون کے اساسی مآخذ قرآن و سنت کے ساتھ اجماع کی سند کو بھی مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ جس قدر سنت رسول ان کی دلچسپی کا موضوع بنی رہی ہے، اس قدر اجماع کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے تاہم اس اہم مصدر کو نظر انداز بھی نہیں کیا ہے۔ اجماع کے حوالے سے علماء مغرب کے نظریات کا حاصل یہ ہے:

  • کسی بھی دور میں مستند مذہبی علماء کا کسی رائے پر اتفاق کر لینا اجماع ہے[48]۔
  • یہ اجماع خدائی حکم کا درجہ رکھتا ہے اور اسے قطعی تصور کیا جاتا ہے۔[49]
  • معتزلہ کی عقلیت پسندی نے اس تصور کو قبول نہیں کیا[50]۔
  • فقہاء کا اجماع امت کے اجماع سے مختلف چیز [51]ہے اور یہ اجماع کسی خاص مکتب فکر کا یا کسی خاص علاقے کے فقہاء کا ہوتا ہے۔

گولڈ زیہرکا مؤقف یہ ہے کہ مسلمان فقہاء نے اجماع کا تصور رومن لاء سے لیا ہے[52]۔

جوزف شاخت کا تصور اجماع فقہاء کے مکاتب فکر کے گرد گھومتا ہے۔ بقول شاخت یہ اجماع ہی ہے جس سے چاروں مکاتب فکر کا برابر برابر جواز ثابت ہوتا ہے اور قرآن و سنت میں ان کی تعبیر کو مستند تصور کیا جاتا ہے۔ اس طرح انہیں منشاء الٰہی کے تعین کی سند مل جاتی ہے۔ اور اسی اجماع کی بدولت وہ فقہی مکاتب اپنا جواز کھو بیٹھے ہیں جن کی تعداد سات تھی[53]۔

مذكورہ استشراقی فكر كے جوابات میں مسلمان علماء نے كافی جانفشانی سے كام لیا اور ان كا رد كیا۔ مثلاً ابوزہرہ کے نزدیک صرف اجماع صحابہ حجت ہے۔ تابعین کے دور میں جب مسلمان مختلف علاقوں میں منتشر ہو گئے تو اجماع دشوار ہو گیا۔ اجماع صحابہ کے بعد شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جس پر اجماع ہوا ہو[54]۔ کیونکہ جس مسئلہ پر ایک مجتہد یا فقیہ اجماع کا دعویٰ کرتا ہے دوسرا اس دعویٰ کا انکار کرتا ہے۔ جب کسی مسئلے میں اجماع کا ثبوت مل جائے تو اس کا حکم قطعی ہو گا[55]۔

۴۔ قیاس بطور مصدر قانون:

سند قیاس سے مراد یہ ہے کہ آیا قیاس کی اساس کسی ا ور دلیل پر ہے یا قیاس خود حجت شرعی ہے اور اس کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ضمن میں اس سوال کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے کہ دلیل قیاس کی نوعیت کیا ہے۔

آیا قیاس مستقل دلیل ہے:

سب سے پہلے شوافع میں علامہ آمدی اور مالکیہ میں سے ابن حاجب[56]نے اسے موضوع بحث بنایا ہے کہ قیاس ایسی شرعی دلیل ہے جسے شارع نے ان پیش آمدہ واقعات وحوادث میں احکام معین کرنے کے لیے رکھا ہے جن میں کوئی واضح نص موجود نہ ہو، اور یہ قران و سنت کی نص کی طرح ہے[57]۔ احناف کے علماء اصول میں سے کمال ابن ھمام[58]اور صاحب مسلّم الثبوت کا یہی مؤقف ہے۔ قیاس کے دلیل مستقل ہونے کے نظریہ کی اساس یہ ہے : مساواۃ فرع لاصل یعنی ’’فرع کی اصل سے علت میں مساوات ہو گی تو حکم میں بھی مساوات ہو گی‘‘فرع اور اصل کے حکم کا درجہ ایک جیسا ہے جیسا کہ اس عبارت سے ظاہر ہے : ’’أن القیاس دلیل مستقل کالکتاب والسنة‘‘[59]۔جمہور علماء اصول کا مؤقف یہ ہے کہ قیاس ایک اجتہادی کاوش کا نام ہے، کیونکہ مجتہد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ شارع نے غیرمنصوص اور منصوص کی علت میں جو مساوات رکھی ہے اسے ظاہر کرے اور مجتہد کے کام کی نوعیت صرف اتنی ہے : هو المظهر والکاشف عن مساواة الشارع المسکوت للمنصوص علی حکمه فی العلة[60] دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ لفظ قیاس کا عمومی استعمال مجتہد کے فعل کی عکاسی کرتا ہے، اور اس اعتبار سے قیاس کے قبول اور رد ہونے کی بات بھی کی جاتی ہے، مثلاً کہا جاتا ہے کہ فلاں قیاس صحیح ہے، فلاں قیاس فاسد ہے، اور یہ قیاس مع الفارق ہے وغیرہ۔

قیاس کی شرعی حیثیت اور فقہ میں اس کی قدروقیمت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اصول نہایت مفید ہے، مزید یہ کہ قیاس کے ذریعہ مستنبط حکم اور وضعی قوانین کے درمیان بھی امتیاز ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے ذریعہ ایک مجتہد حکم شرعی کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ حکم شرعی کا اثبات۔ اس اجتہادی کاوش کا مقصد منشاء الٰہی معلوم کرنا ہے، نہ کہ از خود قانون سازی۔ معلوم ہوا ہے کہ کسی فقیہ، مجتہد یا اصولی کو تحلیل و تحریم کا اختیارنہیں جیسا کہ عیسائیت میں مذہبی پیشواؤں کو یہ اختیار حاصل ہے[61]، نہ ہی قیاس آزادانہ رائے کے استعمال کا نام ہے بلکہ اس کے لیے کچھ حدود و قیود، شرائط اور دائرہ کار کا تعین کیا گیا ہے[62]۔

۵۔ استحسان بطور مصدر قانون:

ضمنی مصادر میں ایک مصدر استحسان بھی ہے۔ اسے مختلف فیہ مصادر میں شمار کیا جاتا ہے، بالخصوص احناف کو اس اصول کے اختیار کرنے میں زیادہ شہرت حاصل ہے۔ البتہ جمہور فقہاء بھی اسے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ جب دلائل شرعیہ کتاب اللہ، سنت رسول، اجماع اور قیاس سے کسی مسئلہ کے حل میں رہنمائی نہ مل سکے تو ایسی صورت میں دلیل استصحاب کی طرف رجوع کیا جاتا ہے[63]۔استصحاب کے حجت ہونے میں ائمہ اربعہ کا اتفاق[64]ہے البتہ تفصیلات میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے:۔ جمہور مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک استصحاب مطلقاً حجت ہے[65]۔۔ جمہور احناف کے نزدیک احکام کے اثبات میں حجت نہیں ہے نفی میں حجت ہے[66]۔۔ ابن حزم ظاہری کے نزدیک استصحاب حجت ہے بشرطیکہ ابتداءً وہ حکم نص سے ثابت ہوا ہو[67]۔

۶۔ عرف بطور مصدر قانون:

اسلام قانون میں رسم و رواج (custom) کی بجائے ’’عرف‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس لیے ضروری ہے كہ ان دونوں میں فرق واضح کیا جائے ۔

رواج اور عرف میں فرق: خوب تدبر اور تفکر کے ساتھ کسی چیز کو جاننے کو معرفت کہا جاتا ہے اور اس کی ضد انکار ہے۔ عرف نکر کی اور معروف منکر کی ضد ہے[68]۔قرآن[69]و سنت[70]میں متعدد مقامات پر عرف یا معروف کا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن رواج کو بطور اصطلاح کسی جگہ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رواج معقول بھی ہو سکتا ہے اور غیرمعقول بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اصول قانون میں custom کو قانون کا درجہ دینے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ معقول (reasonable) ہو۔نص کی عدم موجودگی میں تمام فقہاء کے ہاں عرف کی حیثیت مسلم ہے۔ فقہاء عرف کی حجیت پر قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں: "خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ "[71] ’’عفو و درگزر سے کام لیجئے عرف کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے نہ الجھیے‘‘

اس کے علاوہ متعدد آیات[72]ہیں جن میں معروف کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے مثلاً: "وَعلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ‘‘[73]

اس آیت کے ضمن میں امام ابوبکر جصاص لکھتے ہیں کہ ’’اس آیت میں پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد سے کام لینے کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ عرف کے مطابق تفقہ کا اندازہ کرنے میں گمان غالب اور رائے و قیاس ہی سے کام لینا پڑتا ہے جب اس کا اعتبار عرف و عادت سے ہو اور جو چیز عرف پر مبنی ہوتی ہے وہ بھی اجتہاد اور غالب گمان کی ایک صورت ہے[74]۔احادیث میں بھی اس اصطلاح کو اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے، اور فقہاء ان احادیث کو بطور استدلال پیش کرتے ہیں:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! ابو سفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اور میرے بچے کو بقدر ضرورت نہیں دیتا اِلّا یہ کہ میں اس کی بے خبری میں کچھ لے لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خذى ما يكفيك وولدك بالمعروف[75] ’’تم معروف کے ساتھ اتنا لے سکتی ہو جو تمہاری اور تمہارے بچے کی ضرورت کے لیے کافی ہو‘‘۔

عرف صحیح کی شرائط: جس طرح قانون موضوعہ میں مطلقاً رسم و رواج کو ماخذ قانون تسلیم نہیں کیا جاتا اسی طرح اسلامی قانون میں بھی عرف کو عرف فاسد اور عرف صحیح میں تقسیم کر کے صرف عرف صحیح کو سند قراردیا گیا ہے۔ عرف صحیح کے لیے درج ذیل شرائط کا تعین کیا گیا ہے:

عرف نص کے خلاف نہ ہو:

اس شرط کا ذکر تمام فقہاء[76]نے کیا ہے کہ عرف کا اعتبار اس وقت ہو گا جب وہ کتاب و سنت کی صریح نص کے خلاف نہ ہو:

’’اذا خالف العرف الدلیل الشرعی۔۔۔ فلا شک فی ردّہ‘‘[77]

چونکہ اسلامی قانون کا اساسی مصدر کتاب و سنت ہے، اس لیے عرف کی وہ اہمیت نہیں ہو سکتی جو کتاب وسنت کے منصوص حکم کی ہے مثلاً سودی لین دین کا رواج ہو جائے تو عرف کو سند بنا کر سود کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ عرف کی بنیاد پر کتاب و سنت میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس لیے اگر عرف دلیل شرعی کے خلاف ہو تو تمام فقہاء اسے رد کر دیتے ہیں، اور اسلامی قانون میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔#

  1.  

عرف عام اور غالب ہو:

دوسری شرط یہ ہے کہ اس عرف کا اعتبار کیا جائے گا جو اکثر جگہوں پر پایا جاتا ہو اور جو لوگوں کے درمیان معروف و مشہور ہو۔ عام اور غالب کے الفاظ کا یہی مفہوم[78]ہے۔ اگر صورتحال اس کے برعکس ہو یعنی وہ عرف چند افراد یا چند مقامات تک محدود ہو تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا[79]۔#

  1. عرف باقی ہو:

وہ احکام جو محض عرف پر مبنی ہوتے ہیں عرف کے تبدیل ہونے سے ان کا حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے جیسا کہ ابن عابدین لکھتے ہیں:’’ فکثیر من الاحکام تختلف بأختلاف الزمان لتغیر عرف أهله‘[80]۔#

  1. فریقین معاملہ نے عرف کے خلاف کوئی شرط عائد نہ کی ہو:

عرف کے قبول کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اہل معاملہ نے اس کے خلاف کوئی شرط نہ لگائی ہو جیسا کہ مجلۃ الاحکام العدلیہ کے شارح لکھتے ہیں: ’’ان العرف والعادۃ یکون حجة اذا لم یکن مخالفاً لنص او بشرط أحد العاقدین‘‘[81]یعنی ’’جب کسی معاملہ کے فریق معاہدہ میں کوئی ایسی شرط عائد کرتے ہیں جو عرف کے خلاف ہے تو اس صورت میں وہ شرط نافذالعمل ہو گی اور عرف کا اعتبار نہیں ہو گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امام ابو یوسف کے نزدیک اگر نص عرف پر مبنی ہو تو عرف کے تبدیل ہونے کی صورت میں عرف پر عمل ہو گا جبکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک نص پر عمل کیا جائے گا[82]#

  1. معاشرے میں اس کو پورا کرنا ضروری ہو:

معاشرتی طور پر عرف پر عمل کرنا ضروری ہو تو اس عرف کا اعتبار کیا جائے گا ورنہ نہیں۔ مثلاً بچوں کو عیدی یا نوکروں کو انعام وغیرہ دینا معاشرتی لحاظ سے ضروری نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اگر کوئی شخص اس کے لیے قانونی چارہ جوئی کرتا ہے تو عدالت عرف کی بنیاد پر اسے یہ حق نہیں دلا سکتی، کیونکہ اسے معاشرے میں لازمی تصور نہیں کیا جاتا[83]۔

اسلامی و مغربی نظام ہائے فكر كا تقابلی مطالعہ :

عصر حاضر میں مغربی ممالک میں قانون کا سب سے بڑا مصدر و ماخذ قانون سازی(Legislation) ہے جبکہ بنیادی طور پر اسلامی قانون کی اساس قرآن و سنت یعنی وحی الٰہی پر ہے۔ دونوں میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ایک الٰہی قانون (Divine Law) ہے اور دوسرا وضعی قانون (Man Made Law) ۔ اسلامی قانون میں قرآن وسنت کے علاوہ دیگر تمام مصادر قرآن و سنت سے ہی سند حاصل کرتے ہیں۔ ان تمام کا مقصد انفرادی یا اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ حاکم حقیقی اور شارع (Law giver) کا منشا معلوم کرنا ہے۔ گویا حقیقی مصدر قانون شارع کی مرضی و منشا ہے۔ مجتہدین کی تمام کاوشوں کا مرکز و محور یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضي کیا ہے۔ اس کے برعکس مغربی اصول قانون میں یہ مقام پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔

اسلامی قانون کے مصادر کا مغربی قانون کے مصادر سے تقابل کرنے سے وہ امور بھی معلوم ہو جاتے ہیں جو ان دونوں میں مشترک ہیں اور ان کے مصادر کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے جن پر ان میں باہم اختلاف ہے۔ دو مختلف قانونی نظاموں کا تقابلی مطالعہ نمایاں اختلافی امور کے پہلو بہ پہلو ان کے درمیان بعض مشابہ امور کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

مشابہ مصادر:

۱۔ عرف اور رسم و رواج : اسلامی قانون کے مصدر عرف اور مغربی قانون کے ماخذ رسم و رواج(Customs) میں بظاہر زیادہ مشابہت نظر آتی ہے لیکن یہ مشابہت جزوی نوعیت کی ہے۔ رسم و رواج کی بجائے ’’عرف‘‘ کی اصطلاح ’’معروف‘‘ اچھائی اور نیکی کے تصور سے جڑی ہوئی ہے اور منکر کے مقابلہ میں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی قانون میں مطلقاً ہر رسم و رواج کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ نص کی عدم موجودگی میں ایسا عرف معتبر ہے جو معقول اور منصفانہ ہو اور شریعت کی روح سے ہم آہنگ ہو۔ اگرچہ مغربی قانون میں بھی رسم و رواج کے لیے معقول ہونے کی شرط ہے لیکن یہ ایک جزوی مشابہت ہے۔ یہی وجہ ہے عہد جاہلیت کی چند رسوم کو ترمیم و اصطلاح کے بعد قائم رہنے دیا گیا لیکن اکثر کو مٹا دیا گیا کیونکہ وہ شریعت کے مقاصد سے متصادم تھیں۔

جزوی مشابہت:

  1. اسلامی قانون میں عرف اُس وقت ماخذ ہے جب نص موجود نہ ہو جبکہ مغربی قانون میں رسم و رواج قانون موضوعہ کے خلاف نہ ہوتو اسے ماخذ قانون تصور کیا جاتا ہے۔
  2. معقول اور منصفانہ ہونے کی شرط بھی دونوں قوانین میں ہے۔
  3. قوانین کی تعبیر میں بھی دونوں قوانین عرف کا اعتبار کرتے ہیں۔
  4. عرف عام اور غالب ہو تو ماخذ ہے، اس طرح مغربی قانون میں عدالتیں جس عرف کو تسلیم کر لیں صرف وہی قانون تصور کیا جاتا ہے۔

اختلاف : دونوں قانونی نظاموں میں عرف یا رسم و رواج کے ردّ و قبول کے معیار مختلف ہیں۔ یہاں معیار شریعت ہے جبکہ مغربی قانون میں بڑی حد تک عدالت کا صوابدیدی اختیار ہے۔

ب۔ استحسان، مصالح مرسلہ اور Juristic Equity :

مغربی قانون میں Equity یعنی اصول نصفت عدالتی انصاف کی ایک تعبیر ہے، اسلامی قانون میں مصالح مرسلہ اور استحسان کے اصول اس تعبیر کے قریب قریب معلوم ہوتے ہیں جہاں انصاف کے عمومی قواعد و ضوابط کو بروئے کار لا کر متاثرہ فریق کی دادرسی کی جاتی ہے، بنیادی طور پر ان مآخذ کی Spirit ایک ہی ہے جبکہ اپنی ماہیئت، ساخت اور طریق کار کے لحاظ سے دونوں مختلف ہیں۔

نظائر: اسلامی قانون میں نظائر یعنی عدالتی فیصلوں سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اس فیصلے کے لیے فقہ کا وسیع لٹریچر دستیاب ہے لیکن ان کو قانون کا ماخذ کسی طرح بھی تسلیم نہیں کیا جاتا، اس کے برعکس مغربی قانون میں نظائر کو بطور ماخذ غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔

قانون سازی: اسلامی قانون میں جن امور میں قطعی اور صریح احکام اور قوانین موجود ہیں ان میں کسی نوع کی قانون سازی نہیں کی جا سکتی، البتہ ظنی الدلالۃ کی تعبیر ہو یا مباحات کا وسیع دائرہ ہو، ایسے امور میں قیاس و اجتہاد کے ذریعہ قانون سازی کا وسیع میدان موجود ہے بشرطیکہ وہ اسلام کے مجموعی نظام کی روح کے خلاف نہ ہو۔ البتہ مغربی قانون میں پارلیمنٹ یا اس جیسے ادارے کے ذریعہ قانون سازی غیرمشروط اور برتر قانون سازی ہے جس کا اسلامی قانون میں کوئی تصور نہیں کیونکہ یہاں حاکم اعلیٰ (اللہ تعالیٰ) کا قانون قرآن و سنت کے صریح احکام کی شکل میں برتر قانون ہے، اس کے بعد ہر نوح کی قانون سازی ان ہر دو کے تابع ہی ہو گی۔

حاصل یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی جزوی استثناء کو چھوڑ کر اسلامی قانون کے مصادر اور ان کی ہیئت و ساخت مغربی قانون سے یکسر مختلف ہے اور جہاں جزوی مشابہت پائی جاتی ہے، وہ بھی دِقت نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنی روح کے اعتبار سے مختلف نظر آتی ہے۔

حاصل بحث:

مصادر قانون کی بحث سندقانون کی کلیدی بحث ہے کیونکہ مصدر ہی سے قانون اپنا جواز حاصل کرتا ہے۔ مغربی اصول قانون میں مصادر کو Formal اور Non formal کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض علماء نے Formal کے مقابل Material Source کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے لیکن مغربی علماء قانون میں مصدر کے معنی و مفہوم اور عملی اطلاق میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ مسلمان علماء اصول کے ہاں بھی مصادر قانون کی متعدد تعبیرات ہیں مثلاً ادلۃ الاحکام الشریعہ، الحجج الشرعیۃ، مصادر الاحکام الشرعیۃ اور اصول جیسی اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے، پھر مصادر کو مختلف حیثیتوں سے دیکھا جاتا ہے مثلاً متفق علیہ مصادر اور مختلف فیہ مصادر، مستقل اور غیرمستقل ،پھر مصادر اصلیہ اور مصادر ثانویہ کے لحاظ سے تقسیم وغیرہ۔ اگرچہ متفق علیہ اور مختلف فیہ، اسی طرح مصادر اصلیہ و ثانویہ کے عملی اطلاق میں یہاں بھی خاصا اختلاف پایا جاتاہے، تاہم ہر تقسیم افادیت کی حامل اور مصدر کے کسی خاص پہلو کی نشاندہی کرتی ہے، البتہ اس امر میں اتفاق ہے کہ تمام مصادر کا اصل الاصول اور حتمی مصدر قرآن مقدس ہے جو سارے کا سارا قطعی الثبوت ہے جس کے بعض احکام قطعی الثبوت اور بعض ظنی الثبوت ہیں۔

قرآن مقدس کے بعد سنت رسول اسلامی قانون سازی کا سرچشمہ ہے۔ امت اسے اساسی ماخذ تسلیم کرنے پر متفق ہے۔ دوسری صدی ہجری میں بعض معتزلہ اور خوارج نے سنت کی قانونی حیثیت کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی ہے۔محدثین کے غیرمعمولی تحقیقی کام نے اسے ناکام بنا دیا۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں مغربی محققین نے سنت کی تشریعی حیثیت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائلی زندگی اور غزوات کو موضوع تحقیق بنایا۔ انہوں نے سنت کے حوالے سے بالعموم منفی انداز سے سوالات اٹھائے ہیں لیكن حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ میں جب بھی حجیت سنت کے خلاف آواز اٹھی ہے اسے کبھی قبولیت حاصل نہ ہو سکی اس لیے براہ راست سند سنت کا انکار کرنے کے بجائے بالواسطہ انکار کا رویہ اختیار کیا گیا۔

قرآن و سنت کے بعد تمام اہل سنت فقہاء کے نزدیک اجماع سند قانون ہے۔ اہل تشیع کے نزدیک بھی اجماع حجت ہے تاہم اجماع کا طریق کار مختلف ہے بعض خوارج، نظام معتزلی اور روافض اصولی طور پر اجماع کے منکر ہیں۔

قیاس کی حجیت کی بحث میں زیادہ اہمیت کا حامل یہ مسئلہ ہے کہ قیاس کے ذریعہ مستنبط حکم اور وضعی قانون میں بنیادی فرق کیا ہے؟ مغربی علماء قانون نے اسے وضعی قانون ’’Man Made Law‘‘ کی ہی ایک شکل قرار دیا ہے لیکن اس اصول ’’القیاس مظهر للحکم لا مثبت له‘‘ نے اس غلط فہمی کا واضح انداز میں ازالہ کر دیا ہے۔ یعنی اس اجتہادی کاوش کا مقصد منشا الٰہی معلوم کرنے کی کوشش ہے، نہ کہ از خود قانون سازی، جن كی تفصیل بیان كی جا چكی۔

مغربی اصول قانون میں مختلف ادوار میں قانون کے مآخذ بھی مختلف رہے ہیں۔ البتہ اس أمر میں قریب قریب اتفاق ہے کہ رسم و رواج قانون کا قدیم ترین ماخذ ہے۔ أز منہ قدیم سے عدالتیں لوگوں کے رسم و رواج اور مذہب کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کیا کرتی تھیں۔ یہ غیرتحریری قسم کا قانون تصور کیا جاتا تھا بعد کے ادوار میں مدون قوانین کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم جیسے جیسے قانونی مآخذ نشوونما پاتے گئے تو عدالتی فیصلے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔ قانون عامہ (Common Law) دراصل عدالتی نظائر ہی کی پیداوار ہے۔ جب تک عدالتی فیصلے کے ذریعہ اس بات کا علم نہیں ہو جاتا کہ فلاں قاعدہ ’’کامن لا‘‘ ہے، اس وقت تک اسے قانون ماننے کے لیے کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی۔

عدالتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی رسم و رواج کو قانون قرار دیں یا اسے غیرمعقول قرار دے کر کالعدم کر دیں۔ اس لحاظ سے عدالتی نظائر کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ سندی نظائر کو قانونی ماخذ جبکہ ترغیبی نظائر کو تاریخی ماخذ سمجھا جاتاہے۔ مقدم الذکر کی تعمیل عدالت پر واجب ہے جبکہ مؤخرالذکر کو اختیار کرنا جج کی صوابدید ہے۔ بعض یورپی ممالک میں قانونی ماخذ کا حوالہ دیے بغیر صرف عدالتی نظیر کو اتھارٹی تصو ر نہیں کیا جاتا۔ البتہ انگلستان میں اسے سند تصور کیا جاتاہے جبکہ فرانس، اٹلی اور جرمنی میں بھی اسے خاصی اہمیت دی جاتی ہے۔

موجودہ دور میں تمام مغربی علماء قانون مآخذ قانون میں ’’قانون سازی‘‘ کو سرفہرست ذکر کرتے ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی تک قانون موضوعہ کو تو سند (Absolute Authority) بھی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اسے بتدریج اہمیت دی جانے لگی۔ انیسویں صدی تک Legislation کوئی بڑا ماخذ قانون نہیں تھا لیکن موجودہ دور میں اسے تمام دیگر مصادر پر فوقیت حاصل ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ، مجلس قانون ساز، کانگریس یا کسی مقننہ کا بنایا ہوا قانون ہی سب سے برتر (Supreme Law) قانون تصور کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو کسی عدالت نظیر، رسم و رواج یا مذہبی حکم کی بنا پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن پارلیمنٹ کسی بھی عدالتی نظیر، رسم و رواج ، مذہبی حکم یا کسی اور ماخذ قانون سے مستنبط قانون کو منسوخ قرار دے سکتی ہے، اس لیے اسے برتر قانون کی حیثیت حاصل ہے۔

حوالہ جات

  1. .A Text-Book of Jurisprudence, p.188
  2. .Salmond, Jurisprudence, p.137
  3. ۔لفظ "Source" کی وضاحت Black's Law Dictionary" میں اس طرح ہے: "The origins from which particular positive laws derive their authority and coercive force such are constitutions treaties, statutes, usages and customs. In other sense the authoritative or reliable works, records documents, edicts, etc. To which we are to look for an understanding of what constitute the law". (p. 1568)
  4. ۔ رومی قوانین کی تاریخ میں قانون کا اصل ماخذ رسم و رواج ہی تھا، سب سے پہلے اسے بارہ تختیوں پرلکھا گیا اور پوستیانیوس کے عہد تک یہی قانون رہا۔A Text-Book of Jurisprudence, p.190, Historical Foundation of Common Law p.11
  5. .Curzon's Jurisprudence, p.236
  6. ."(a) The custom must not conflict with any fundamental principle of the common law; (b) The custom must have existed from time immemorial..., (c) It must have continuously observed and peaceably enjoyed; (d) It must be certain; (e) It must not conflict with other established customs; (f) finely, it must be reasonable." (A text-book of Jurisprudence p. 195.)
  7. .Denis, English Law, p.10
  8. .Hart, The concept of Law, p.47
  9. .Hampstead, Introduction to Jurisprudence, p.651
  10. . Salmond's Jurisprudence, p.139اسی طرح سربراہ مملکت کے جاری کردہ آرڈیننس کو بھی وسیع تر مفہوم میں قانون سازی کہا جاتاہے، لیکن اس خاص مفہوم میں یہ قانون سازی نہیں ہے: "Ordinance may also be issued by the head of the Government in emergencies, and although these are all examples of Law-Making, they cannot be called Legislation in the true sense of the terms". (Outlines of Jurisprudence by K. Krishna p. 77)
  11. ۔سامنڈ اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے: "The Law that has its source in Legislation is called (Salmond's Jurisprudence, p.139, Law, or statute, or written Law. enacted
  12. دیکھئے:The Western Idea of Law , p.602
  13. . انگلستان کے آئین میں پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے کیا جا سکتا ہے: "The U.K. Parliament has large powers about Legislation. The U.K. Parliament is superlative institution for law making process--- No court abolish the law of U.K. Parliament". (Principles of British Constitution, p. 194)
  14. ۔معروف سکالر ڈائس نے مذکورہ بات نقل کرنے کے بعد اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ قانون سازی کی بعض اقسام ایسی بھی ہیں جن پر نقدہو سکتی ہے لیکن جہاں تک قانون سازی کے جواز بلکہ ناگزیر ہونے کا تعلق ہے اور اسے بطور سند قبول کرنے کا معاملہ ہے، تو اسے آفاقی قبولیت حاصل ہو چکی ہے اور اس أمر میں کوئی اختلاف نہیں ہے: (Dais, Jurisprudence, p.21
  15. .The Western Idea of Law, p.206-208
  16. .Bodenheimer Jurisprudence, p.330
  17. .E.Boden, Jurisprudence, p.334
  18. ۔حوالہ بالا، ص ۳۳۵
  19. . E.Boden, Jurisprudence, p.346
  20. ۔موصوف نے "First Problem" میں یہ سوال اٹھایا تھا: The first is the problem of whether justice may be regarded as a source of law (E.Boden Jurisprudence, p. 350
  21. .Paton, Jurisprudence, p.230 ؛ E.Boden, Jurisprudence, p.351
  22. ۔ یہ لاطینی لفظ Aequs یا Acquitas سے ماخوذ ہے جس کا معنی برابری یا مساوات ہے (Salmond's Jurisprudence, p.213
  23. . Salmond's Jurisprudence, p.213
  24. .The English Legal System, p.47-48
  25. ۔مثلاً امام سرخسی نے لفظ ’’اصول‘‘ استعمال کیا ہے: الأصول فی الحجج الشرعيه ثلاثة۔۔۔الخ( اصول السرخسی ۱ : ۲۷۹)
  26. ۔التحبیر شرح التحریر ۳ : ۱۲۲۹۔۱۲۳۱
  27. ۔بنی اسرائیل۱۷ : ۸۸
  28. ۔نولدیکی(Noeldeke)، بلاشیر(Blochere)، جیفرے(Jeffray) اور گولڈ زیہر(Goldzheher) کو قرآن اور علوم قرآن کے مطالعہ کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی ہے۔ اس موضوع پر ان میں سے ہر ایک نے کئی کئی کتابیں لکھی ہیں۔ دیکھئے:مناہج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ الاسلامیہ، ص ۲۵
  29. ۔تفصیل كے لئے : مناہج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ الاسلامیہ، ص ۲۱؛ دائرۃ المعارف ، قرآن اور مستشرقین ،مترجم عبیداللہ کوٹی دارالمصنفین، ج ۱۳۸، ماہ جولائی ۱۹۸۶ء )
  30. ۔مستشرق نولدیکی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجئن میں قرآن مجید پر ریویو کرتے ہوئے قرآن پاک کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف بتلاتا ہے:تفصیل کے لیے دیکھئے: The Encyclopedia of Religion ، ۱۲ : ۱۶۷، نولدیکی کے مؤقف کی معروف سکالر محمد أویس ندوی نے بڑے مدلل اندازمیں تردید کی دیکھئے: اسلام اور مستشرقین (۷:۷۔۱)
  31. ۔دیکھئے موصوف کی کتاب: حیاۃ محمدؐ، ص ۱۲۵، بحوالہ معارف، ج ۱۳۸ جولائی ۱۹۸۶ء، ص ۹
  32. ۔کتاب اللہ کے مقابلہ میں سنت کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ اس حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں، تفصیل كے لئے : (الموافقات ۴:۳۔۴، ۶۔۸)، (حجیت سنت، ص ۷۸۳)
  33. ۔ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی، قرآن و سنت کے اساسی مصدر ہونے پر امت کااجماع نقل کرتے ہیں: (دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ، ص ۵ ؛گیلانی، تدوین حدیث، ص ۲۰۔۲۱؛قرضاوی، السنۃ مصدراً للمعرفۃ والحضارۃ، ص ۱۲۔۱۳)
  34. ۔مسلمانوں کے ہاں نقد حدیث کے سلسلے میں شاندار علمی ذخیرہ موجود ہے۔ قدماء میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی، علامہ قسطلانی، خطیب بغدادی، علامہ کرمانی وغیرہ نے علوم الحدیث پر بیش قیمت معلومات پیش کی ہیں، معاصر علماء میں سے ڈاکٹر مصطفی السباعی کی السنۃومکانتھا فی التشریع الاسلامی، سید مناظر احسن گیلانی کی ’’تاریخ تدوین حدیث‘‘ ڈاکٹر حمید اللہ کی ’’صحیفہ ہمام بن منبہ‘‘ مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘فہیم عثمانی کی حفاظت و حجیت حدیث، مصری عالم عبدالغنی عبدالخالق کی ’’حجیۃ السنۃ‘‘ ڈاکٹر خالد علوی کی ’’حفاظت حدیث‘‘ اور مولانا تقی الدین ندوی مظاہری کی ’’محدثین عظام‘‘ محدثین کے تحقیقی کام کا جائزہ لینے کے لیے بڑی کاوش ہے۔ اس غیرمعمولی تحقیقی کام کا محرک ہی یہ نظریہ تھا کہ ’’حدیث‘‘ دین کا ایک اساسی ماخذ ہے، اس لیے اس میں غیرمعمولی احتیاط کی ضرورت ہے .
  35. ۔تفصیل کے لیے دیکھئے جوزف شاخت کی "The Origins of Muhammadan Jurisprudence"، ص۵۸، ۶۰، ۸۰۔ کیلسن(Noel J. Coulson) کی "Conflicts and Tension in Islamic Jurisprudence" ، ص ۶، ۴۱، ۹۳۔ اس کے علاوہ مستشرق سپرنگر، ولیم میور، گولڈ زیہروغیرہ سب نے حدیث نبوی کو مشکوک قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے ’’حفاظت حدیث‘‘ میں اس كا مفصل جواب دیا ہے (’’حفاظت حدیث‘‘ ، ص ۱۷)
  36. ۔"The words and deeds of the prophet may have been carefully recorded in the beginning." The political and sectarian factionalism of the Umayyad period had permanently damaging effects on the growth and authenticity of Hadith. Effective criticism from Muslim came too late, since it began only in the late second and third centuries. Forgeries, fabrications and foreign borrowings had altered and obscured the original, small stock of authentic materials. The Encyclopedia of Religion, 6:147.
  37. ۔فکر و نظر ،صحت احادیث، جوز شاخت کی دلیل سکوت کا تنقیدی جائزہ، جلد ۳۸، شمارہ ربیع الثانی، جمادی الثانی ۱۴۲۱ھ، جولائی ۔ ستمبر ۲۰۰۰ء ص ۴۹۔
  38. ۴۵۔The Encyclopedia of Religion، ۶ : ۱۴۷
  39. ۔فکر و نظر ،صحت احادیث، جوز شاخت کی دلیل سکوت کا تنقیدی جائزہ، جلد ۳۸، شمارہ، ربیع الثانی جمادی الثانی ۱۴۲۱ھ جولائی۔ستمبر ۲۰۰۰ء ص ۴۹۔۵۰
  40. ۔ڈاکٹر صبیحی صالح مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات كے تفصیلی جوابات دئے ، تفصیل : (علوم الحدیث و مصطلحہ، ص ۳۶)
  41. ۔روایتی علماء میں سے بھی ایک قلیل تعداد مستشرقین کی آراء سے متاثر ہوئی اور ابتداء اسلام میں تدوین حدیث کی حقیقت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے لگی مثلاً مولوی چراغ علی وغیرہ
  42. ۔موصوف نے صحیفہ کے آغاز میں ایک دیباچہ لکھا ہے، جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں: ’’یہ دیباچہ بتائے گا کہ حدیث نبوی کی تاریخ میں صحیفہ ہمام کو کیا درجہ اور کیا اہمیت حاصل ہے‘‘۔( صحیفہ ہمام بن منبہ، ص ۱۰)
  43. ۔ڈاکٹر فواد سیزگین ترکی کے نامور مسلمان محقق ہیں، ان کا بیشتر کام جرمن زبان میں ہے۔ ان کی شہرۂ آفاق کتاب "Geschichte des Arabischen Shrifttums" کا عربی ترجمہ بعنوان ’’تاریخ التراث العربی‘‘ اور اردو ترجمہ ’’تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام‘‘ کے عنوان سے ہو چکا ہے، یہ ترجمہ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے شائع ہوا ہے۔
  44. ۔محمد مصطفی اعظمی ریاض یونیورسٹی میں علوم الحدیث کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے یہ کتاب "Studies in Hadith Methodology and Literature" ، کالج کے طلباء کی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر لکھی۔
  45. ۔تفصیل کے لیے دیکھئے : "Study in the Early Hadith Literature"
  46. ۔مثلاً ڈاکٹر صبحی صالح کی ’’علوم الحدیث‘‘ مناظر أحسن گیلانی کی ’’تدوین حدیث‘‘ ڈاکٹر خالد علوی کی ’’حفاظت حدیث‘‘ وغیرہ
  47. 47۔Encyclopedia of Religion. 6:249
  48. ۔جوزف شاخت کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:"The followers of ancient schools with whom shafi discusses consensus (Tr.iv, 256) define the scholars whose opinion are authoritative and to be taken into account, p.82" "The Origins of Muhammadan Jurisprudence "
  49. 49۔The Origins of Muhammadan Jurisprudence, p.82
  50. 50۔"As regards the consensus of the community--- the prominent mutazilite Nazzam considered it fallible." (شاخت کی مذکورہ کتاب، ص ۸۸)
  51. ۔معروف مستشرق شاخت کے الفاظ میں: "The consensus of the scholars is different from the consensus of all Muslims on essentials. This last, in the nature of things covers the whole of the Islamic world but it vague and general, whereas the consensus of the scholars is geographically limited to the seat of the school in question".
  52. 52۔The concept vex pouli, VOX Dei, embodied in a tradition which states My people will never agree on an error, is not cited by Shafi in this form, a fact which perhaps indicates that it was circulated after his time".(حوالہ بالا)
  53. 53۔Origins of Muhammadan Jurisprudence, p. 83-91)
  54. ۔حوالہ بالا
  55. ۔’’و اذا ثبت الاجماع علی حکم فی مسئالة فانه یکون حکماً قطعیًا‘‘ (حوالہ بالا ،ص ۱۹۵)
  56. ۔الإحکام فی اصول الأحکام (آمدی) ۲ : ۲۳۲؛ رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب ۴:۱۳۷
  57. ۔القیاس، حقیقته، وحجیته، ص ۱۵۰
  58. ۔التقریر والتحبیر ۳ : ۱۱۹
  59. ۔القیاس، حقیقته، وحجیته، ص ۱۵۰
  60. ۔حوالہ بالا
  61. ۔الجامع لأحکام القرآن (قرطبی) ۸ : ۱۱۰، اسے امام ترمذی نے سنن ترمذی (۳۱۰۴) میں کتاب التفسیر میں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ہذا حدیث غریب لانعرفہ الامن حدیث عبدالسلام بن حرب و غطیف لیس بمعروف فی الحدیث (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ۹ (۳۱۰۵)۵ : ۲۸۷)
  62. ۔رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب ۴ : ۱۵۸۔۱۶۰
  63. ۔شافعی علماء اصول میں سے شہاب الدین زنجانی نے اس کی تعریف یہ کی ہے : الاستدلال بعدم الدلیل علی نفی الحکم او بقاء ماھو ثابت بالدلیل‘‘ (تخریج الفروع علی الاصول، ص ۷۹)؛ بعض علماء اصول نے یہ تعریف کی ہے: "هو الحکم بثبوت أمر او نفيه فی الزمان الحاضر أو المستقبل بناء علی ثبوته أو عدمه فی الزمان الماضی، لعدم قیام الدیل علی تغییرہ‘‘ اصول الفقه الاسلامی،(الزحیلی ) ص۸۵۹)
  64. ۔علامہ آمدی نے مختلف مذاہب میں اس کی حجیت کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے : ’’فذھب اکثر الحنفیۃ و جماعۃ المتکلمین و ابوالحسین البصری وغیرہ الیٰ بطلانہ و من ھولاء من جوز الترجیح بہ لاغیر و ذھب جماعۃ من اصحاب الشافعی کالمزنی والصیرفی والغزالی وغیرھم من المحققین الی صحۃ الاحتجاج بہ و ھو المختار‘‘ (الاحکام للآمدی ۴:۱۷۲)
  65. ۔مطلقاً حجت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی حکم یا حق کے ثبوت اور نفی، موجود اور معدوم اور عقلی و شرعی تمام امور میں قابل استدلال ہے، جب تک اس حکم میں تبدیلی پر کوئی دلیل سامنے نہ آجائے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک استصحاب وصف حقوق کے اثبات میں حجت نہیں ہے صرف نفی میں حجت ہے: ’’أما الحنفية والمالکية فقد اثبتو الاستصحاب بالنسبة لاستصحاب الوصف وجعلوہ صالحاً للدفع وغیر صالح للاثبات، ای لایاتی بحقوق جدیدۃ بالنسبة لصاحب الصفة‘‘، اصول الفقه (ابوزہرہ) ص ۲۸۶
  66. ۔عبدالوہاب خلاف لکھتے ہیں: ’’وقد ذهب الحنفية الی أن الاستصحاب حجة فی الدفع لا فی الإثبات‘‘ یعنی کسی حکم یا حق کے اثبات یا استحقاق میں استصحاب حجت نہیں بلکہ کسی حکم کی نفی میں یہ حجت ہے، ( مصادر التشریع الاسلامی، ص ۱۵۳)
  67. ۔ابن حزم کے ہاں استصحاب سے استدلال کا دائرہ کافی وسیع ہے متعدد مقامات میں جہاں جمہور فقہاء قیاس سے استدلال کرتے ہیں ابن حزم استصحاب کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں : فنفاۃ القیاس وسعوا فی الاستدلال به فالظاهرية والامامية وسعوا فی الاستدلال به‘‘ (اصول الفقہ (ابو زہرہ)ص ۲۹۱)
  68. ۔لسان العرب میں ہے : عرف : العرفان : العلم، قال ابن سیدہ : وینفصلان بتحدید لایلیق بهذا المکان، عرفه یعرفه، عرفه وعرفاناً ومعرفة۔ واعترفه والمعروف: ضد المنکر والعرف: ضدالنکر (۹:۱۵۳، باب العین حرف الفاء؛ ترتیب القاموس المحیط علی طریقة المصباح المنیر وأساس البلاغة، ۳ : ۲۰۰)
  69. ۔مثلاً دیکھئے البقرۃ ۲:۱۷۸، ۱۸۰، ۲۲۹، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۳۳، ۲۳۴، ۲۳۵، ۲۳۶، ۲۴۱، ۲۶۳؛ ال عمران ۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۴
  70. ۔دیکھئے: المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث ۴ : ۱۸۹۔۱۹۶
  71. ۔االأعراف ۷: ۱۹۹
  72. ۔عرف ، معروف اور اس مادہ سے دیگر الفاظ قرآن مجید میں تقریباً ۷۰ مقامات پر آئے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص ۵۸۲۔۵۸۳
  73. ۔البقرۃ ۲ : ۲۳۳
  74. ۔الاشباہ والنظائر (سیوطی)، ص ۹۲
  75. ۔صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب ۹۵ (۲۲۰۹)، ص ۳۸۱
  76. ۔الاشباہ والنظائر (سیوطی) ۱ : ۱۵۲؛ اصول الفقہ (زحیلی) ۲ : ۸۳۱
  77. ۔مجموعہ رسائل (ابن عابدین) ۲ : ۱۱۲
  78. ۔حوالہ بالا ۲ : ۱۱۴
  79. ۔حوالہ بالا
  80. ۔حوالہ بالا، جیسا کہ عرف سے متعلق اس قاعدہ سے معلوم ہوتا ہے : العبرۃ للغالب الشائع للنادر (شرح المجلۃ) (علی حیدر)، ص ۱۵
  81. ۔مجموعۃ رسائل (نشرالعرف)ابن عابدین ۲ : ۱۲۳
  82. ۔مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے دورِ مبارک میں سونے چاندی کو تول کر دینے اور کھجور کو ماپ کر دینے کا عرف تھا بعد میں سونے چاندی کو گن کر اور کھجور تول کر دینے کا عرف ہو گیا۔ دیکھئے: شرح مجلۃ الاحکام ۱: ۴۷
  83. ۔شرح الاشباہ والنظائر (الحموی) ۱ : 271
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...