Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

مولانا غلام اللہ خان کی تفسیر جواہر القرآن: منہج اور خصوصیات |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1142

Pages

38-51

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/91/84

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/91

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

غلام اللہ خان ؒ ۱۳۲۳ھ بمطابق ۱۹۰۵ءکو صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے علاقہ ‘‘چھچھ’’ کے گاؤں ‘‘دریہ’’ میں پیدا ہوئے(۱)۔

مولانا کا تعلق ‘‘اعوان’’ قوم سے ہے۔ آپ کا نسب محمد بن علی ابن ابی طالب سے ملتا ہے۔ آپ کے والد کا نام ملک فیروز خان تھا اپنے گاﺅں کے نمبردار تھے (۲)۔ ولادت کے وقت آپ کا نام ‘‘غلام خان’’ آپ کے دادی مرحومہ نے تجویز کیا جو ایک نیک خاتون تھیں پھر مولانا عبدالقادر رائے ؒ پوری نے آپ کے نام کے دونوں لفظوں کے درمیان لفظ ”اللہ“ کا اضافہ کرکے ”غلام اللہ خان’’ کر دیا۔ اور اسی نام سے لوگ آپ کو پکا رنے لگے۔آپ کا لقب ‘‘شیخ القرآن تھا۔(۳)

بنیادی تعلیم اپنی بستی بہادر خان میں حاصل کی ، آپ نے ضلع گجرات، تحصیل پھالیہ کے مدرسہ حسنییہ میں غلام رسول اور مولانا ولی اللہ صاحب سے فقہ، اصول فقہ، علم المعانی، علم الکلام، عقائد، منطق، فلسفہ، حدیث (مشکوة) تفسیر (جلالین، بیضاوی) اور ترجمہ قرآن کے علوم حاصل کیے(۴)۔آپ نے مولانا رشید احمد گنگوہی کے نامی گرامی شاگرد رئیس المفسرین حضرت مولانا حسین علیؒ سے ضلع میانوالی میں قرآن و حدیث علوم حاصل کیئے (۵)۔

قرآنی علوم حاصل کرنے کے بعد آپ نے علم حدیث حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم تشریف لے گئے وہاں آپ نے سید حسین احمد مدنی اور شبیر احمد عثمانی ؒ سے احادییث کی کتابیں پڑھی۔ شاہ انور شاہ کشمیری ؒ سے ”ڈھابیل“ میں حاضر ہو کر ۱۹۳۳ءمیں دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی۔

وفات:۲۶ مئی ۱۹۸۰ءکی رات دبئی میں حرکت قلب بند ہونے آپ کی وفات ہوگئی (۶)۔

تفسیری خدمات

۱۹۴۰ءمیں مسجد پرانا قلعہ میں آپ نے دارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی اور یہاں دورہ تفسیر شروع کرنے کا خیال آیا، تو آپ نے اپنے شیخ سے ان ہی کے خصوصی طرز پر دورہ تفسیر کی اجازت چاہی تو انہوں نے بڑے پیار سے پنجابی زبان میں فرمایا کہ: ‘‘اللہ راضی تھیوی۔ شروع کر برکت ہوسی’’(۷)۔

چنانچہ شیخ کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد آپ نے ۱۹۴۵ءمیں اپنے شیخ کی طرز پر شعبان اور رمضان میں تفسیر القرآن کا دورہ شروع کیا۔

۱۹۴۲ءمیں صرف پچیس (۲۵) طلباءنے دورہ میں شرکت کی۔ پھر یہ تعداد ہر سال بڑھتی ہی چلی گئی۔ چنانچہ مسجد کی تنگی کے باعث اس کو راجہ بازار میں ہندوﺅں سے حاصل کردہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا، ہر سال تقریبًا پانچ سو (۵۰۰) طلباءاور علماءاپنی علمی استعداد کے مطابق تفسیر قرآن سیکھ کر فارغ ہوتے تھے۔

اسلامی تاریخ میں دنیا کے مختلف زبانوں میں قرآن مجید کی لاتعداد تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ مگر جواہر القرآن اپنی انفرادیت و افادیت کے اعتبار سے اردو تفاسیر کی سر تاج ہے۔

تعارف جواہر القرآن

یہ تفسیر حضرت مولانا حسین علیؒ کے افادات اور علوم و معارف قرآنیہ کا مجموعہ ہے۔ یہ تفسیر 11"x9"سائز میں پندرہ سو صفحات اور تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ جواہر القرآن مولانا حسین علیؒ کی مشہور تفسیر ‘‘بلغة الحیران’’ کی تشریح وتسہیل اور نئی ترتیب و تدوین ہے۔ شیخ القرآن اپنے شیخ کے افادات و ملفوظات کے راوی ہیں(۸)۔ جس کو اردو میں دس سال کے عرصے میں محترم فاضل اور مستند عالم دین سید احمد حسین سجاد بخاریؒ نے مولانا غلام اللہ خان صاحب سے مستفید ہو کر ترتیب دیا(۹)۔

مولانا غلام اللہ خان صاحب نے کوشش کی ہے کہ شیخ کے الفاظ بعنیہ جمع ہوں۔ اور اس کے لئے گرائمر کے قواعد کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔

تفسیر میں جگہ جگہ اپنے شیخ مولانا حسین علی کے علاوہ علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی اور بہت سے دیگر مفسرین سے استفادہ کیا ہے(۱۰)۔ مثلاً فظن أن لن نقدر عليه پر شیخ انور شاہ کشمیریؒ کی تحقیق الزام المخاطب بما لاَیلزم کو سراہا اور آیت لا تحرك به لسانك پر علامہ شبیر احمد عثمانی کی تحقیق ذکر فرمائی۔ جگہ جگہ پر شاہ ولیؒ اللہ کی تحقیقات بھی تحریر فرمائی ہیں۔ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ اور اصل موضوع فتح القرآن بھی ساتھ شائع کیے۔

جواہر القرآن کی تالیف کا سبب

جواہر القرآن کی تالیف کے بارے میں مولانا غلام اللہ خانؒ نے خود بیان فرمایا ہے کہ: "مولانا حسین علیؒ کے تمام ملفوظات و افادات کو نقل کرنا چاہتا تھا، اور حضرت شیخ سے چونکہ ہر آیت کی تفسیر منقول نہیں تھی۔ اس لئے دوسرے تفاسیر سے استفادہ کیا تاکہ ایک مکمل و مستند تفسیر علم کی خدمت میں پیش کی جا سکے"(۱۱)۔

مقدمہ

یہ شیخ القرآن کی پہلی علمی کاوش ہے۔ یہ کتاب ۱۹۴۶ءمیں مکمل ہوئی۔ بعد میں ۱۹۶۳ءمیں مقدمہ کے طور پر تفسیر جواہر القرآن کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس میں شیخ القرآن نے فلسفہ فہم قرآن کے مطابق اصطلاحات، قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب فوائد و تحقیقات کے تعارف اور مسئلہ الہ کی وضاحت کی ہے۔

چند سال قبل مولانا اشرف علی (صاحبزادہ غلام اللہ خان صاحب کی اجازت سے یہ کتاب ‘‘البرہان فی اصول تفسیر جواہر القرآن ’’ کے نام سے شائع ہوئی ہے(۱۲)۔

باقی تین جلدوں کی مختصر تفصیل یوں ہیں :

جلد اول:مقدمہ اور سورة الفاتحہ تا سورة التوبہ

جلد دوم:سورة یونس تا سورة لقمن

جلد سوم:سورة الاحزاب تا سورة الناس

اسلوب

یہ بات عیاں ہے کہ جو بھی کسی عنوان پر قلم اٹھاتا ہے تو اسی عنوان کے متعلق اس کے ذہن میں ان باتوں کا خاکہ و نقشہ موجود ہوتا ہے جن کی وجہ سے وہ متعلقہ موضوع پر کچھ لکھنا ضروری سمجھتا ہے۔

ان باتوں کو صحیح طریقے سے تحریر میں لانے اور تشریح کرنے کے لئے وہ ایک ایسا طریقہ کار اور منحج اختیار کرتا ہے جس کی وجہ سے متعلقہ بحث کی وضاحت آسان اور عام فہم انداز میں ہو جائے۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ القرآن نے اپنی تفسیر ‘‘جواہر القرآن’’ میں اپنا ایک اسلوب اور طریقہ کار اپنایا جس کی حتی المقدور تشریح پیش خدمت ہے۔

۱)تفسیر کے شروع میں حضرت مولانا حسین علیؒ کا مختصر تعارف، مشاہیر علماءو شیوخ کی تقاریظ سے ساٹھ صفحات پر مشتمل مقدمہ ہے۔

جس میں ‘‘مسئلہ الہ’’ کے علاوہ صاحب ملفوظات کی اختیار کردہ اصطلاحات و قوانین کا بیان ہے، اور مسئلہ توحید پر ہر لحاظ سے مدلل بحث کی گئی ہے۔

۲)یہ تفسیر بالقرآن کی نہایت عمدہ مثال ہے، آیات قرآن کی تشریح و وضاحت دوسری آیات سے خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔

۳)اس تفسیر میں مناسب مقامات پر احادیث نبوی ﷺ، آثار و اقوال صحابہؒ، اقوال تابعین و سلف صالحین سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔

۴)ہر سورت کے شروع میں مولانا حسین علیؒ کے ملفوظات کے تحت سورت کا خلاصہ، سورتوں کے درمیان ربط اور آیات کے درمیان ربط سورت کی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے۔

۵)ہر سورت کے اخر میں اسی سورت میں موجود ‘‘آیات توحید’’ بہت خوبصورت انداز میں جمع کی گئی ہیں، کیونکہ توحید کا بیان اس تفسیر کا امتیاز ہے۔

۶)جواہر القرآن میں متقدین و متاخرین علمائے تفسیر کی عربی و فارسی و اردو تفاسیر کا اہم مواد بہت عمدہ طریقے کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، تاکہ علوم قرآن کے طالب دوسری تفاسیر جن تک رسائی طالب علم کے لیے مشکل ہو سے بے نیاز ہوں۔

۷)ہر جلد کے آخر میں فہرست مضامین دی گئی ہیں تاکہ ہر جلد میں موجود تمام مسائل اور مضامین کا احاطہ کیا جا سکے اور مضامین قرآن کو تلاش کرنے میں مدد دے سکے(۱۳)۔

خصوصیات جواہر القرآن

۱)اصطلاحات کی وضاحت

مفسر کا یہ انوکھا اور امتیازی کام ہے کہ اس نے اپنی تفسیر کی ابتداءمیں ایک جامع اور پر مغز مقدمہ ذکر کیا ہے جس کے تین حصے ہیں۔

حصہ اول میں اس نے تمام اہم اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جو وہ آگے جا کر ان کو اپنی تفسیر میں جابجا اس کو استعمال کرتا ہے۔

مثلاً مقدمہ میں اس نے ‘‘دلیل’’ کی اصطلاح کی یوں وضاخت کی ہے کہ:

‘‘دلیل اس بیان کو کہتے ہیں جس سے دعوی ثابت کیا جائے’’(۱۴)۔

اسی اصطلاح کو آگے جاکر اس نے مختلف مقامات پر استعمال فرمایا ہے جیسا کہ: سورة ال عمران کی آیت نمبر ۶ ’’ هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاء‘‘ ’’ اللہ وہی ہے جو ماں کی رحم میں جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتیں بنا دیتا ہے۔ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

”یہ عقلی دلیل ہے معبود اور مستعان صرف وہی ہو سکتا ہے جو عالم الغیب ہو ہر چیز کو جانتا ہو اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہ ہو اور وہ قادر مطلق ہو اور ہر کام اس کے قدرت کے تحت داخل ہو اس آیت میں پہلی شق بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور کوئی چیز اس کے علم محیط سے باہر نہیں اس کے برعکس حضرت عیسی اور حضرت مریم ؑ میں یہ صفت موجود نہیں اس لئے وہ معبود و مستعان نہیں بن سکتے’’(۱۵)۔

اسی طرح ایک اور اصطلاح ‘‘تخویف’’ کو اس نے یوں بیان کیا ہے:

”دعوی منوانے کے لئے جابجا اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے اسے تخویف یا ڈراوا کہتے ہیں’’(۱۶)۔

اسی اصطلاح کو آگے جا کر آیت ’’إِنَّ اللّهَ لاَ يَخْفَىَ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الأَرْضِ وَلاَ فِي السَّمَاء‘‘ (آل عمران: ۵ ) یقیناً اللہ سےکوئی چیز پوشیدہ نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔

یہ دعوی توحید کو مدلل بیان فرمانے کے بعد نہ ماننے والوں کے لئے تخویف اخروی ہے(۱۷)۔

۲)فوائد مختلفہ

حصہ اول میں تو مصنف نے اصطلاحات کی وضاحت قلمبند کی ہے اب دوسرے حصہ میں اس سے چند قدم آگے نکل کر قرآن مجید کے بنیادی مباحث، مضامین و ترتیب و علوم، خطاب رقم جیسے عنوانات کو جامع اور مختصر انداز میں بیان کیا تاکہ تفسیر کا مطالعہ کرنے سے ان جہتوں کا قاری کا نظر رہے اور قرآن مجید کی تفسیر ایک جامع انداز میں اس کے ذہن میں محفوظ ہو۔ جیسا کہ مضامین قرآن کے متعلق لکھا ہے:

”قرآن مجید میں کل چھ مضامین بیان کئے گئے ہیں توحید، رسالت، قیامت، تخویف اور بشارت’’(۱۸)۔

ان فوائد کو اگر قاری صحیح طور پر ذہن نشین کرے تو تمام تفسیری مباحث کی یاد داشت میں کافی معاون ثابت ہوں گے۔

۳)الہ کی وضاحت

مقدمے کے تیسرے حصے میں مصنفؒ نے لفظ الہ کی ایک انتہائی مدلل اور مفصل انداز میں تشریح کی ہے، اس کے ضمن میں پھر دیگر الہ باطلہ کا ابطال قرآنی آیات سے ثابت کیا ہے، پھر اس کے بعد شرک کے اقسام اور تحریمات غیراللہ پر تفصیلاً گفتگو کی ہے جو شاید کسی دوسرے تفسیر میں اس انداز میں موجود ہوں۔

۴)خلاصہ

مصنفؒ کا یہ عادت حسنہ ہے کہ ہر سورت کے اول میں متعلقہ سورت کا مختصر اور جامع الفاظ میں خلاصہ بیان کرتا ہے جس کے مطالعہ سے فوراً قاری کی سورت کا روح اور جہت معلوم ہو جاتی ہے کہ اس سورت کے کتنے حصے ہیں ان میں کون کون سے مباحث کا ذکر ہے۔

حضرت شیخؒ نے سورة بقرہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

”سورة بقرہ کا خلاصہ ہے کہ اس کے دو حصے ہیں حصہ اول ابتدا سورت سے وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ تک ہے اور دوسرا حصہ وہاں سے سورت کے آخر تک ہے ، حصہ اول میں دو مضمون بیان کئے گئے ہیں توحید اور رسالت ابتدا کے سورت سے وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ تک توحید اور وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ سے حصہ اول کے آخر تک رسالت کا بیان ہے۔ گویا کہ پہلا حصہ لا اله الا الله محمد رسول الله کی تشریح ہے۔ دوسرے حصے میں مسلمانوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کے طریقے اور اندرونی نظام کو درست کرنے کے لئے امور انتظامیہ بیان فرما کہ مشرکین کے مقابلہ میں انہیں جہاد اور اتفاق کا حکم دیا گیا ہے گویا کہ لا اله الا الله محمد رسول الله کی خاطر مشرکین سے جہاد کا حکم فرمایا گیا ہے’’(۱۹)۔

۲۸۶ آیات پر مشتمل مکمل سورت کا اتنے مختصر اور جامع انداز میں تشریح جس سے سورت کا مزاج اور انداز معلوم ہوتا ہو ماہر فن ہی کر سکتا ہے۔

۵)کتب مستفاد کے حوالے

مصنفؒ نے جن دیگر کتب (چاہے ان کا تعلق تفسیر سے ہو یا حدیث و فقہ) سے استفادہ کیا ان کے حوالے بھی تحریر کیے ہیں تاکہ مصنفؒ پر کسی کو انگلی اٹھانے کا جواز حاصل نہ ہو بلکہ یہ واضح ہو جائے کہ مصنف جو کچھ لکھتا ہے صرف اسی کی رائے نہیں بلکہ دیگر متقدین حضرات سے بھی اس کی رائے کو تائید حاصل ہے۔

مفسر کے تفسیر کا مطالعہ کرتے وقت مصنف کا یہ اسلوب ہر جگہ عیاں ہے، کہ کبھی بخاری کا حوالہ ہے تو کبھی ابن کثیر کا، کبھی جلالین کا حوالہ ہے تو کبھی بحرالرائق کا یا شامی کا، لہذا حوالے دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔

۶)عربی حوالوں کا ترجمہ نہ کرنا

مصنفؒ کے اسلوب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اکثر جگہوں پر حوالے کے لئے جب کوئی عبارت پیش کرتے ہیں تو اسی عبارت کے ترجمے سے صرف نظر کرتے ہیں جو کہ عام قاری کے لئے مشکل کا سبب بنتا ہے ۔

مثلاً ایک جگہ ابن جریرؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

" الا انهم هم السفهاء دون المومنين المصدقين بالله ورسوله ووثوابه و عقابه" (۲۰)

۷)نحوی تحقیق

بعض مقامات پر مصنفؒ بقدر ضرورت نحوی مباحث ترکیب وغیرہ کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جلد ۱۰۷۰/۳ پر مذکور ہے۔

’’وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ‘‘(حم السجدة ۲۳)

’’تمہارے اسی گمان نے جو تم اپنے رب کے متعلق رکھتے تھے تم کو برباد کیا‏‏‏‏‘‘ کی ترکیب یوں کی ہے۔

"”ذلکم ظنکم ذلکم موصوف، ظنکم صفت موصوف صفت مبتدا أرداکم خبر " (۲۱)

۸)علم معانی

تفسیر قرآن کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے علم معانی ہے۔ مضنفؒ کے تفسیر کے مطالعہ سے آپ کی علمی وسعت اور گہرائی اندازہ ہوتا ہے کیونکہ مختلف جگہوں پر علمی نکات ذکر کرتے ہوئے علم معانی کے قواعد سے استفادہ نظر آتا ہے ۔

اِلَيْهِ يرَدُّ.... ‘‘اللہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے’’کی تشریح میں لکھتے ہیں: ”تقدم مفید حصر ہے“(۲۲)

۹)ربط بین السوّر

تفسیر کے دوران مصنفؒ نے کافی تسلسل کے ساتھ اس بات کا لحاظ کیا ہے کہ ہر دو سورتوں کے درمیان ربط و تعلق کو واضح کر کے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید اول تا آخر مربوط اور مرتب انداز میں جمع کیا گیا ہے۔

۱۰)ربط بین الرکوعات

بعض مقامات پر مفسرؒ نے رکوعات کے درمیان بھی ربط کا اہتمام کیا ہے۔ جیسا کہ سورة نور کے رکوع نمبر۵ کے خاتمہ پر اس کے رکوع نمبر۶ کا ربط یوں بیان کیا۔

”انما کان الخ منافقین کا حال بیان کرنے کے بعد ان کے مقابلے میں مخلص مومنوں کا حال بیان کیا گیا اور انہیں آخروی بشارت دی گئی منافقین کا حال تم نے سن لیا اب مخلصین کا حال بھی سن لو‘‘(۲۴)۔

۱۱)آیات توحید کی خصوصیات کی نشاندہی

مصنفؒ نے ابتداءسے انتہا تک اپنی تفسیر میں اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ ہر صورت میں جو جو آیتیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں چاہے صراحتاً ہوں یا دلالةً ان سب کی نشاندہی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ کونسی آیت سے کس قسم کی شرک کی نفی مقصود ہے جیسا کہ سورة فتح پارہ ۲۶ میں آیات توحید کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔

’’ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا۔ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا‘‘

‘‘اور بے ہم نے آپ ﷺ کو گواہ خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور (اس دن کی) مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور اللہ کی پاکیزگی صبح و شام بیان کرتے رہو’’ ” نفی شرک ہر قسم قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللّهِ(الایة) نفی شرک فی التصرف لله ملك السموت والارض (الایة) نفی شرک فی التصرف’’(۲۵)۔

۱۲)اشعار

مصنفؒ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ موقع محل کے مطاق کسی مسئلے کی وضاحت کے لئے اگر شعر کی ضرورت محسوس کی ہے تو بھی اس سے اعراض نہیں کیا بلکہ اس کو ذکر کیا ہے چاہے عربی میں ہو وہ شعر یا فارسی میں۔

سورة حج کی آیت نمبر ۵۲ میں لفظ ”تمنی“ کی وضاحت کی ہے اور اس بات کو واضح کیا ہے کہ ”تمنی“ بمعنی قراة (پڑھنا) کے ہیں۔

اس کی تائید میں حضرت حسانؓ کے اس مرثیہ میں سے ایک شعر ذکر کیا ہے جو اس نے حضرت عثمانؓ کے متعلق کہا تھا۔

تمنی کتاب الله أول ليلةواخرہ لاقی حمام المقادر (۲۶)

اسی طرح بعض مقامات پر فارسی کے اشعار بھی نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کے آیت نمبر ۸۰ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

”مکہ سے نکلتے وقت آپ یہ دعا پڑھیں رب ادخلنی مدخل صدق الخ میں آپ کے مکہ سے نکلنے اور مدینہ میں داخل ہونے کو آپ کے لئے دین اسلام اور مسلمانوں کے لیے سراسر باعث برکت بنا دوں گا اور آپ کو غلبہ اور شان و شوکت کے ساتھ پھر مکہ میں واپس لاوں گا’’(۲۷)۔

یوسف گم گشتہ بازآید بکنعان غم مخور

کلبہ احزان شود روزے گلستان غم مخور

۱۳)تفسیر ”روح المعانی“اعتماد

اس بات سے انکار نہیں کہ مصنفؒ نے لقب سے تفاسیر استفادہ کیا ہے اور اپنی تفسیر ”جواہر القرآن“ میں مختلف مقامات پر ان کے حوالے موجود ہیں۔ مثلاً قرطبی، ابن کثیر، مدارک، تفسیر مظہری، تفسیر ابی سعود معالم التنزیل، جامع البیان، بحرمحیط، حازن، نھر وغیرہ۔

تاہم اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے تو حضرت شیخ القرآن نے سب سے زیادہ علامہ محمود آلوسیؒ کی تفسیر ‘‘روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المتانی’’ پر اعتماد کیا ہے شاید کوئی ایسا صفحہ ہو جس میں روح المعانی کا حوالے موجود نہ ہو بلکہ بعض صفحات تو ایسے ہیں کہ ایک ہی صفحہ میں ۸ یا ۱۰ دفعہ روح المعانی کا حوالہ موجود ہے۔ مختصر یہ کہ اگر ایک جانب دیگر تمام تفاسیر کے حوالے جمع کیے جائیں اور دوسری طرف صرف روح المعانی کے حوالوں کو جمع کیا جائے تو روح المعانی کے حوالے زیادہ ہوں گے۔

۱۴)تفسیر القرآن بالقرآن

تفسیر قرآن میں سب سے اعلی و ارفع تفسیر وہی ہے جس میں قرآن کی تفسیر قرآن ہی کے ذریعے کیا گیا ہو کہ اگر قرآن مجید کی کسی آیت میں اجمال ہے تو اس کی تفصیل کسی دوسری آیت کے ذریعے کیا جائے یا ایک جگہ آیت مبہم ہو تو دوسری جگہ اس کی وضاحت ہو اسی طرح ایک جگہ کوئی حکم عام ہو تو دوسرے مقام پر اس کی تخصیص کی گئی ہو۔

مثلاً سورة فاتح کے آیت نمبر ۶ میں ہے کہ "صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ" ’’ ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا اس کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ القرآن نے لکھا ہے:

”جمہور مفسرینؒ کے نزدیک اس سے انبیاءعلیہم السلام، صدیقین، شہداءاور صالحین مراد ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس طرف اشارہ ہے۔ " وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِين’’(۲۸)۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شیخ القرآنؒ نے ایک آیت کا معنی ذکر کی ہے اور اس کی تائید میں دیگر آیات مبارکہ ذکر کیے ہیں۔

سورة انعام کی آیت ۴۰، ۱۴ میں ہے۔

"قُلْ أَرَأَيْتُكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللّهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ. بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاء وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ"

ترجمہ: آپ ﷺ فرمائیے بھلا یہ تو بتاؤ کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے یا تم پر قیامت آ جائے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر تم سچے ہو بلکہ تم اسی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہے تو اس مصیبت کو دور کر دے جس میں تم اسے پکارتے ہو اور اس وقت تم ان کو بھول جاتے ہیں جو تم نے شریک ڈھہیرائے ہوئے ہیں۔

ان آیات مبارکہ کا مفہوم ہے کہ مشکل گھڑی میں تم اللہ ہی کو پکارو گے اگر وہ چاہے تو تمہاری مصیبت دور کرے گا جس کے لئے تم نے اس کو پکارا ہے ان معبود ان باطلہ کو بھول جاﺅ گے۔

حضرت شیخ القرآنؒ فرماتے ہیں کہ:

”اس مضمون کی مندرجہ ذیل آیتوں سے تائید ہوتی ہے۔

۱۔فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (عنکبوت رکوع ۷) پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خلوص دل سے اللہ کو پکارتے ہیں

۲۔وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ اور جب سمندر میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کے سوا جس کسی کو تم پکارتے ہو وہ (تمہیں) بھول جاتا ہے (بنی اسرائیل رکوع۷)(۲۹)

۱۵)تفسیر القرآن بالسنة

شریعت اسلامی کے اصولوں میں سے اول اصل خود قرآن ہے کہ اگر کسی چیز کی وضاحت قرآن میں موجود ہے تو اس کے مقابلے میں کسی دوسرے دلیل کو حجت تسلیم نہیں کیا جائے بلکہ قرآن کو ترجیح ہو گی تاہم اگر قرآن مجید سے واضح طور پر کوئی حکم یا تفسیر فہم نہیں ہوتا تو ثانیاً سنت نبوی سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

اسی طریقے کار کو اپناتے ہوئے شیخ القرآن نے مختلف مقامات پر قرآنی آیات کی تفسیر سنت نبوی کی روشنی میں کی ہے اور متعلقہ آیت کا معنی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

جیسا کہ سورة البقرہ آیت نمبر ۵۸کے تفسیر میں لکھتے ہیں:

سنزيد المحسنين محسینین سے مخلصین کاملین مراد ہیں جیسا کہ حدیث جبریل میں احسان کی تفسیر میں ہے۔ "أن تعبد الله كأنك تراه"‘‘ (۳۰)۔

تقریظات مشاہیر اسلام

تفسیر جواہر القرآن پر نامور علماءکرام نے تقاریض کی ہے جن سے اہل علم کے ہاں تفسیر کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

۱)مورخ اسلام حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ

”راستہ میں آب کی کتاب جواہر القرآن پڑھی، دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی آپ کے شیخ رحمة اللہ نے قرآن پاک پر فکر و فہم کی بڑی دولت پائی تھی۔ اور آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ ان سے متمتح ہوئے۔ اختلاف و اتفاق تو الگ چیز ہے مگر قرآن پاک کے مضامین کو جس طرح انہوں نے سمجھا ہے وہ ہندوستان میں عزیز الوجود ہے۔ مسئلہ توحید میں ان کا انہماک و استغراق صوفیانہ اصطلاح میں ان کی کیفیت ایمانی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح پر ہزار ہا رحمتیں نازل فرمائے’’(۳۱)۔

۲)حضرت علامہ مولانا محمد ولی اللہ صاحب میانوال

”مولانا غلام اللہ خان کی مرتب کردہ تفسیر قرآن حکیم کو میں نے بعض مقامات سے بغور دیکھا۔ الحمداللہ کہ اقتضائے زمانہ کے مطابق تشریح و توضیح بزبان اردو نہایت، عام فہم اور بہت محققانہ ہے۔ مولانا موصوف کو اس کامیابی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو اس کے پڑھنے پڑھانے کی توفیق عطا فرمائے امین’’(۳۲)۔

۳)مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم ٹنڈوالہ یار

”جواہر القرآن فہم قرآن کے لیے اردو میں یہ قرآن مترجم و محشی بہت معین ہو گا۔ اللہ تعالیٰ مکرمی مولانا غلام اللہ خان صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے یہ عمدہ مجموعہ مرتب فرما کر شائع کرنے کا اہتمام فرمایا’’(۳۳)۔

۴)حضرت علامہ مولانا رسول خان صاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاﺅن لاہور

”حضرت مولانا غلام اللہ خان کی تفسیر جواہر القرآن ولآلي الفرقان پارہ اول کے بعض مقامات نظر سے گزرے ہیں۔ تفسیر میں الحمداللہ مقاصد قرآن کریم باحسن الطرق بیان کئے گئے۔

اللہ تعالیٰ مولانا کے علم اور عمر میں برکت عطا فرمائے اور تفسیر کو بری للناس کا مصداق بنائے’’(۳۴)۔

۵)حضرت مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری

”تفسیر جواہر القرآن مع مقدمہ کا مطالعہ نصیب ہوا الحمد اللہ مطالب و معانی اور ربط السور والایات میں بے نظیر پایا۔ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب کو اہل اسلام کی طرف جزا احسن عطا فرمائے................’’(۳۵)۔

۶)حضرت علامہ مفتی سیاح الدین، کاکاخیل

”میں سمجھتا ہوں کہ اس تفسیر کے مطالعے سے عام مسلمانوں کو عموما اور طلبہ قرآن مجید کو خصوصاً بہت فائدہ پہنچے گا۔ ربط آیات کی ایسی بہت سی تقاریر اور بہت سی ایسی تفسیری نکات و لطائف کا علم اس تفسیر کے ذریعہ سے ہو گا، جو حضرت مولانا حسین علیؒ کے خصوصی علمی نوادرات شمار ہوتے ہیں۔ نیز اکابر سلف اور تفاسیر متقدمین کے بہت سے ایسے حوالے اس تفسیر کے واسطہ سے عام طلب علم کو مل جائیں گے جن تک براہ راست ان کا پہنچنا مشکل ہے’’(۳۶)۔

حواشی و حوالاجات

۱۔اخترراہی، تذکرہ علمائے پنجاب، ص ۴۱۳، مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور، ۱۹۸۱۔

۲۔میاں محمد الیاس ‘‘حیات شیخ القرآن’’ ص ۶۲، ناشر، مولانا محمد حسین علی اکادمی، راولپنڈی، مطبع الاشاعت اکیڈمی و پرنٹنگ ایجنسی محلہ جھنگی پشاور۔

۳۔محمد عبدالمعبود، ‘‘سوانح حیات مولانا غلام اللہ خان صاحب’’ ص ۳۔ کتب خانہ رشیدیہ مدینہ مارکیٹ راجہ بازار راولپنڈی۔

۴۔عبدالحفیظ بن عبدالعزیز، ‘‘شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، سوانح، افکار، اعمال’’ ص ۴۶، مطبع، مکبتہ عزیزیہ، راولپنڈی،۱۹۸۰۔

۵۔محمد عبدالمعبود، ‘‘سوانح حیات’’ ص ۹

۶۔محمد الیاس ‘‘حیات شیخ القرآن’’ ص ۶۵

۷۔محمد الیاس: حضرت مولانا حسین علیؒ (واں بھچراں) حیات و خدمات، ص۲۵۵، ۲۶۵۔

۸۔محمد الیاس، حیات شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان، ص ۲۴۳۔

۹۔حبیب الرحمن قاری، ماہنامہ تعلیم القرآن بعنوان، مختصر حالات زندگی، ص ۱۲۱۔

۱۰۔محمد الیاس ‘‘حیات شیخ القرآن’’ ص ۲۴۳۔

۱۱۔مقدمہ تفسیر جواہر القرآن، ‘‘مولانا غلام اللہ خان صاحب’’ ص ۷۔

۱۲۔محمد الیاس ‘‘حیات شیخ القرآن’’ ص ۲۴۷/۲۴۶ ۔

۱۳۔محمد الیاس، ‘‘حیات شیخ القرآن’’ ص۲۴۴۔ ۲۴۵۔

۱۴۔غلام اللہ خان، جواہر القرآن، ج ۱، ص ۲ مکبتہ رشیدیہ راولپنڈی۔

۱۵۔غلام اللہ خان، جواہر القرآن، ج ۱، ص ۱۴۳۔

۱۶۔غلام اللہ خان، جواہر القرآن، ج ۱، ص ۳

۱۷۔ایضاً، ج ۳، ص ۱۴۳

۱۸۔ایضاً، ج ۱، ص ۹

۱۹۔ایضاً، ج ۱، ص ۱۷

۲۰۔ایضاً، ج ۱، ص ۲۳ (ابن جریر ۹۹/۱)۔

۲۱۔ایضاً، ج ۳، ص۱۰۷۰

۲۲۔ایضاً، ج ۳، ص۱۰۷۵

۲۳۔ایضاً، ج ۳، ص۱۳۶۲

۲۴۔ایضاً، ج ۲، ص ۷۸۸

۲۵۔ایضاً، القرآن ج ۳، ص ۱۱۵۹

۲۶۔ایضاً، ج ۲، ص ۷۴۳

۲۷۔ایضاً، ج ۲، ص۶۴۱

۲۸۔ایضاً، ج ۱، ص ۱۲

۲۹۔ایضاً، ج ۱، ص۳۱۸

۳۰۔صحیح البخاری، ج ۱، ص ۳۳، حدیث نمبر۵۰، باب نمبر۳۷، کتاب الایمان۔ غلام اللہ خان، جواہر القرآن، ج ۱، ص ۳۸۔

۳۱۔ایضاً، ج ۱، ص ۷۔

۳۲۔غلام اللہ خان، مقدمہ جواہر القرآن، ج ۱، ص ۸۔

۳۳۔ایضاً،

۳۴۔ایضاً۔

۳۵۔ایضاً۔

۳۶۔ایضاً، ج ۱، ص ۱۱۔

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...