Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

واقعہ 11/9 کے پاکستانی معیشت پر اثرات اور اسلامی تعلیمات: تجزیاتی مطالعہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_1233

Pages

173-199

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/310/248

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/310

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

9/11کا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس واقعہ کے رونما ہو نے کے بعد امریکہ کے مطالبہ پر پاکستان امریکہ کا اتحادی بنا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کا آغاز سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت سےکیا گیا ۔جب انھوں نے نومبر 1999ءمیں اقتدار سنبھالا تو میاں محمد نواز شریف حکو مت کے اختتامی دور میں ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد ہو چکی تھیں۔سید مبشرعلی اور فیصل باری کے نزدیک90 کی دہائی کے آخر میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ دباؤہونے کے باوجود اپنے ایٹمی تجربات کیےجس کا جواب بین الاقوامی سطح پر پابندیوں کی صورت میں دیا گیا۔اقتصادی صورتحال پہلے ہی بحران کاشکار تھی اور بین الاقوامی قرضوں کی بھی بھرمار تھی ۔معا شی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اگرچہ کافی ممالک کی طرف سے پابندیاں صرف چند ایک شعبوں میں لگا ئی گئی تھیں مگر آئی ایم ایف اور ورلڈبینک نے بھی پاکستان سے اپنے لین دین ختم کر لیے ۔پاکستان کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بینکوں میں موجود رقم چند سوملین ڈالر تک رہ گئی۔درآمدات پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔بیرونی کرنسی کے اکاونٹ منجمدکر دیے گئے۔رقم صرف پاکستانی کرنسی میں نکلوائی جاسکتی تھی اور بیرونی بینکوں کے ساتھ لین دین کو بھی مشکل بنا دیا گیا۔[1] بیرونی کرنسی کے اکاونٹ کو منجمدکرنے سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آئی ،بیرونی امداد اور قرضوں پر پابندیوں سے ترقیاتی پروگراموں کو جاری نہ رکھا جاسکا۔ غرض وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکومت کے دوسرے دور کے اختتام تک پاکستان دیوا لیہ ہو نے کے قریب تھا۔ معاشی صورتحال میں بہتری صدر پرویز مشرف کی حکومت کی اولین تر جیح تھی ۔آغاز حکومت میں صدر پرویز مشرف کا اہم مقصدبنیادی اصلاحات متعارف کر وانا تھا ۔ان کے نزدیک بنیادی معاشی اصلاحات کلیاتی اقتصا دی استحکام کے لیے ناگزیرتھیں کیونکہ معیاری طرز حکومت کے لیے بنیادی اصلاحات کا نفاذ ضر وری تھا۔[2]11/9کے بعد دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے پر پاکستان کو معاشی فوائد دیے گئے۔ان فوائدکاپاکستانی معیشت پراثرات کا ذیل میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

۱.بیرونی قرضوں اور امداد پر اثرات :

دہشت گردی کی خلاف جنگ میں حصّہ لینے سے پاکستان پر عائد معاشی پابندیاں ہٹا لی گئیں۔قرضے فراہم کیے گئے جن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قر ضے بھی شامل تھے۔پرانے قرضوں کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔دفاعی سازوسامان کی فراہمی کی گئی اورمختلف مالیاتی امداد اور پیکیج دیے گئے ۔ 11/9سے پہلے جنو بی ایشیاءامر یکہ سے امداد حاصل کر نے والا چھوٹا خطہ تھا۔ دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے کے بعد جنو بی ایشیاءانسانی فلاح و بہبود کی تر قی اور معاشی امداد حاصل کر نے والا بڑ ا اور مشر ق وسطی کے بعد دوسرا بڑا ملٹری امدادسے مستفید ہونے والا خطہ بن گیا۔ پاکستان کو بظاہر ایک اور معاشی فائدہ قرضوں کے ری شیڈول ہو نے کی صورت میں دیا گیا۔Richard Boucher کے مطابق ستمبر2001ءمیں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کیے جس میں 37.5ملین ڈالر کا دو طرفہ قرض ری شیڈول کیا گیااورقرضوں کی ادائیگی کو 20سالوں سے زائد عرصہ میں پھیلایاگیا۔[3] امریکہ نے آئی ایم ایف سے مزید نئے قرضے حاصل کرنے کی بھی حمایت کی۔ پیرس کلب نے بیرونی قرضے دوبارہ ترتیب دیئے۔قرضے واپس کرنے کی مدت اڑتیس سال کردی گئی جس میں پندرہ سال کا وقفہ بھی تھا۔[4]پہلا قرضوں کی ری شیڈول کا معاہدہ جنوری 1999ءاور دوسرے معاہدے پر جنوری 2001ءمیں دستخط ہوئے۔پہلے دو قرضوں کی ری شیڈول سے پاکستان کو فائدہ نہیں ہو ا تاہم تیسرا ری شیڈول کا معاہد ہ پیرس کلب کے ساتھ دسمبر 2001ءمیں ہو ا جس میں پاکستان کوخصوصی مراعات دی گئیں۔اس معاہدے میں پاکستان کو دوطرفہ قرضوں میں سٹاک ٹریٹمنٹ دیا گیا ۔ پیرس کلب کا یہ فائدہ صرف انتہائی مقروض غریب ملک( Highly Indebted Poor Countries (HIPC))*تک محدود ہے۔ انتہائی غریب ممالک کے علاوہ پاکستان پیرس کلب کی خصوصی مراعات سے فائدہ اُٹھانے والا مصر،پولینڈاوریوگوسلاویہ کے بعد چوتھا ملک بن گیا۔[5] اس سے قرضوں کی ادائیگی میں جو فائدہ ہوا وہ محض تبدیلی تھی،کیو نکہ بہت معمولی سے قرضے پیرس کلب کی طر ف سے معاف کیے گئے۔پاکستان کو قرض ادا کرنے کی مدت میں اضا فہ کیا گیاجس سے پاکستانی معیشت کو عارضی طو ر پر ریلیف ملا۔

گویا ر ی شیڈول قرضوں کا پاکستان کو قلیل عرصے میں فائدہ ہو اجبکہ آنے والے سالوں میں اس کا نتیجہ قرضوں کے بو جھ میں اضافہ کی صورت میں سامنے آیا۔11/9کے واقعہ کے بعد امریکہ پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعوی کر رہا تھااور ایسی صورتحال میں پاکستان کو چاہیے تھا کہ فائدہ اُٹھاتااور قرضوں کی سودی قسطوں کو معاف کروا لیتا تاکہ پاکستان کو کم ازکم سودی قسطوں سے چھٹکار مل جاتا۔لیکن ری شیڈول کی پالیسی سے مستقبل میں قرضوں کے واجبات میں اضافہ کی صورت میں نقصان اُٹھاناپڑا۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مالی سال2000-1999ءمیں بیرونی قرضے50.5بلین روپے تھے جو کہ جی ڈی پی کے 48.4فیصد تھے ۔[6] ملک کے واجب الادا غیر ملکی قرضہ جات و واجبات آخر جون2008ءتک 46.3ارب ملین ڈالر ہو گئےتھےجو آخر جو ن 2007ءکے مقابلے میں 5.8ارب امریکی ڈالر اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔[7]مالی سال 2012ءمیں پاکستان کے کل قرضے اور واجبات 14,587.0بلین روپے ہو چکے تھے جو کہ جی ڈی پی کے 70.6فیصد تھے۔حکومتی ملکی قرضے 7,638.3بلین روپے جو کہ جی ڈی پی کا37فیصد تھے جبکہ غیر ملکی قرضے 4,364.5بلین روپے تھےجو کہ جی ڈی پی کا 21.1فیصد تھے۔[8]

مندرجہ بالادلائل سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستا ن کو عارضی ریلیف ملا۔جس کا نقصان مستقبل میں قرضوں کے واجبات میں اضافہ کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کی وجہ سے پاکستانی معیشت اپاہج ہو کر رہ گئی ۔پاکستان کے لیے قرض کی اصل رقم ادا کر ناتو الگ رہا قرضوں پر عائد شرح سود کی ادائیگی دشوار ہو گئی ہے ۔مہلت ملنے کے ساتھ شرح سود میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ پاکستان پر قرضوں کے واجبات میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کا زیادہ ترحصّہ بھی قرضوں کی سودی اقساط کی ادائیگی کی نذر ہو جاتا ہے۔اس بارے میں معروف پاکستانی ماہر اقتصادیات عشرت حسین لکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکس وصولیوں کا 3/2 قرض کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ عوام کو سماجی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے بہت کم بچتا ہے۔[9]دنیا میں آنے والا ہر پاکستانی بچہ بھی سودی قرضوں کا مقروض ہے۔ان قرضوں اور امداد کے عوض میں پاکستانی سا لمیت کو داوپر لگا یا جا چکا ہے۔نیز ان قرضوں کا زیادہ تر حصّہ حکمرانوں کے بینک بیلنس میں اضافہ کا ذریعہ بنا۔صدر پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف حصّہ لے کر عالمی اداروں اور ممالک سے سود پر مبنی قرضے سمیٹے صد ر اور ان کےوزیروں نے اپنے خزانے بھرے اور ان کا سرکاری سطح پر ریکارڈ نہ رکھا گیا۔ شاہد الرحمن نے اپنی کتاب میں یہ ثابت کیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں لیے گئے تمام قرضوں کا صحیح ریکارڈ سرکاری سطح پر نہیں رکھا گیا۔مالی سال 2002ءکے بجٹ سے پہلے کانفرنس میں شوکت عزیز سے جب مذکورہ مصنف نے سوال کیا کہ کیا حکومت ان تمام قرضوں کی تفصیلات پیش کر سکتی ہے جو اکتوبر 1999ءسے لیے اور واپس کیے گئے؟ اس پر سیکٹری جنرل مالیات معین افضل سے مشورہ کرنے کے بعدوزیراعظم نے جواب دیاکہ بیرونی قرضوں کے بارے میں ایک علیحدہ بریفینگ دی جائے گی جو کہ ان کے دور میں کبھی منعقد نہیں کروائی گئی۔[10] دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں چندڈالروں کی خاطر پاکستان کا امریکہ کا اتحادی بننا اسلامی تعلیمات کے خلاف طرز عمل تھا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا واضح بیان آتا ہے کہ کفار اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے مالی وسائل استعمال میں لاتے ہیں لیکن وہ غالب نہیں ہو ں گے بلکہ مغلوب ہو ں گے اور ان کا ٹھکانہ بھی جہنم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْایُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْاعَنْ سَبِیْلِ اللہِ فَسَیُنْفِقُوْنَھَا ثُمَّ تَکُوْنُ عَلَیْھِمْ حَسْرَ ۃً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْۤااِلیٰ جَھَنَّمَ یُحْشَرُوْنَ۔لِیَمِیْزَاللہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْ کُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَھَنَّمَ اُو لٰۤئِک ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ [11]

بیشک یہ کافر لو گ اپنے مالوں کو اس لیے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکیں سو یہ لو گ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے ،پھر وہ مال ان کے حق میں باعث حسرت ہو جائیں گے۔پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگ جہنم کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے ،پس ان سب کو ایک اکٹھا ڈھیر کر دے پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دےیہ ہی لو گ پو رے خسا رے میں ہیں۔

یہ آیت قرآنی عصر حاضر کی عکاسی کر تی ہے۔ کفار خسارہ پانے والے لو گ ہیں ان کا ساتھ دینے والے بھی خسا رین میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف پاکستان نے امر یکہ کا ساتھ دیا نتیجتاًآج ہماری قوم انتشاراور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔اس کی اہم وجہ اللہ تعا لیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔اللہ تعالیٰ کا نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں ارشاد ہےکہ((وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَ ھْوَآ ءَ ھُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ ۔اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ))[12] ترجمہ : اور اگرآپ باو جو دیکہ ،آپ کے پاس علم آچکا پھر ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں توبالیقین آپ بھی ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بارے میں یہ فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے رسول بھی وحی آنے کے بعد اللہ کا حکم نہ مانے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے اس واضح حکم کی موجو د گی میں امریکہ کا اتحادی بننا شرعی طو رپر سراسر ناجائز تھا ۔رہی بات سودی قرضوں کی تو اسلام میں تو سود کی قطعی حرمت ثابت ہے۔ملک اور عوام کے نام پر لیے جانے والی امداد کابہت کم حصّہ عوام اور ملک کی ترقیاتی پالیسیوں پر خرچ کیا گیا ۔زیادہ تر قرضے اور امداد امریکہ کی جنگ کی نذر ہوئے،مالی سال 10-2009ءکی بجٹ تقریر کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پاکستان کو 35ارب ڈالر سے زیادہ معاشی قیمت چکانی پڑی ۔[13]

پاکستان کے لیے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے متعدد اور راستے تھے جیسا کہ پاکستان کو اٹیمی طاقت بننے کی و جہ سے مسلم دنیا میں اہم مقام حاصل ہواتھا۔ پا کستان مسلم ممالک کی مد د سے مشکل معاشی صورتحال سے نکل سکتا تھا۔ اٹیمی طاقت بننے کے بعد مسلم ممالک سے پاکستان کو امداد حاصل ہو سکتی تھی اورپاکستانی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جاسکتاتھا۔دوسری طر ف پاکستا ن دباومیں آکرامر یکہ کا اتحادی بننے کی بجائے بطور ثالث اپنی خدمات پیش کر سکتا تھا۔لیکن افسوس پاکستان نے بیرونی امداد کے عوض پاکستان کی سا لمیت کو داوپر لگانے کا سودا کیا۔ جنرل حمید گل نے متعدد بار یہ رائے دی کہ اگر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں تو پاکستان قرضوں کی سودی قسطیں دینے سے انکار کر دیتا۔اس سے پاکستان کو نہ صرف سودی قرضوں سے نجات مل جاتی بلکہ پاکستان خودانحصاری کے لیے بھی کاوشیں کر سکتا تھااور اپنے وسائل پر ترقی کے لیے ٹھوس پالیسی ترتیب دیتا ۔پاکستان پر معاشی پابندیاں یو رپی ممالک کی طرف سے عائد کی گئیں تھیں جبکہ مسلم ممالک کی طرف سے معاشی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں تھیں،اس صورتحا ل میں پاکستان کو چاہیے یہ تھا کہ مسلم مما لک کے ساتھ دفاع، تجارت اور سرمایہ کاری کو پروان چڑھاتا ۔بددیانت حکمر ان جنہوں نے پاکستان کے خزانے کی دولت کو سمیٹ کرغیر ملکی بینک بھر دیے ہیں۔ان کا احتساب کیا جاتا، سرمایہ واپس لیاجاتا اور پاکستانی خزانے میں منتقل کیا جاتا تو پاکستان دیو الیہ ہو نے سے بچ سکتا تھا ۔اس کے بعد پاکستان کی تر قی کے لیے جامع پالیسی و ضع کی جاتی ۔ماہرین اقتصادیات کا موقف تھا کہ پاکستان کو اس امداد سے زیادہ امریکہ کے ساتھ تجارت کی ضرورت تھی۔اگر پاکستان کو ٹیکسٹائل اور اس سے متعلقہ اشیاءکی امریکی مارکیٹ تک رسائی کی اجازت دے دی جاتى اور ڈیوٹی فری سہولت تو اس سے پاکستان کو اس نئی امداد کی ضرورت ہی نہ رہتی۔نیز پاکستان کا زرمبادلہ کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا تھا۔

عصر حاضر میں پاکستانی معیشت کی بحالی اوربیرونی قرضوں سے نجات کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔* کر پٹ اور نااہل حکمر انوں کی بجائے دیانت دار اور قو م کے ساتھ مخلص حکمران کا انتخاب کر نا چاہیے جو معیشت کی بحالی کے لیے اسلامی اصولوں پر مبنی مربوط ،ٹھوس اور موثرپالیسی تشکیل دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ وزارت خزانہ کے لیے ایسے شخص کا تعین ہونا چاہیے جو معاشی علوم میں ماہر اور دیا نت دار ہو جیسا کہ حضرت یو سف علیہ السلام کے اس فرمان میں وزیر خزانہ کے مطلوبہ اوصاف کی طرف اشارہ ملتا ہے﴿قَالَ ا جْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاِ رْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ﴾[14] فرمایا مجھے وزیر خزانہ بنا دیجیے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا اور علم رکھنے والا ہو ں۔

  • مالی وسائل کی کمی عالمی سودی قرضوں کی بجائے مسلم ممالک سے بلاسود قرضوں کے ذریعے پو ری کی جائے ۔تر قیاتی منصوبوں کے لیے عالمی قر ضوں کی بجائے بیرونی براہ راست سر مایہ کاری کو ترجیح دی جائے۔ یہ منصوبے مشارکہ و مضاربہ کی بنیاد پر مکمل کیے جائیں اور جب آمدن آنا شروع ہو جائے تو اس میں سے طے شدہ معا ہدے کے مطابق منافع ادا کیا جائے۔

۲.سرمایہ کاری پر اثرات :

یہ درست ہے کہ 11/9کے واقعہ کے بعد بیرونی امداد اور قرضوں کی ترسیل میں اضافہ ہو ااور ان کو کچھ حصہ مختلف شعبوں کی ترقی کے لیے بھی صرف کیا گیا ۔ملکی تاریخ میں مالی سال 2000ءاور اس کے بعدمیں اشیاءسازی اور تعمیرات کے شعبے کی شرح نمومیں اضافہ ہوا۔ اس دور میں اشیاءسازی کی بلندتر ین شرح نمو مالی سال 2004ءاور 2005ءمیں بالترتیب 14.0فیصد اور 15.5فیصد رہی ۔ اس عرصہ قلیل میں ترقی کی ایک اہم وجہ بیرونی امداداو رقرضوں کا اضافہ اور ان کا چند شعبوں میں استعمال تھا ۔ یہ شرح نمو بھی مستقل نہیں تھی بعد میں آنے والے سالوں میں شرح نمو میں کمی کیونکہ مالیاتی پالیسیوں میں حقیقی تبدیلی نہیں آئی یہ محض عارضی تبدیلی تھی مثلاً مالی سال06 -2005 ءکے بعد کے سالوں میں اشیاء سازی کی شرح نمو میں کمی آئی ۔مالی سال 2006ء میں 8.7 فیصد مالی سال 2008ء میں 4.8فیصداور مالی سال 2012ء میں2.1 فیصد ہو چکی تھی۔[15]شرح نمو میں کمی چند اہم وجو ہ کی بناء پر ہو ئی۔ مثلاًجنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کی و جہ سے ملکی امن وامان کی صورتحال غیر یقینی ہو گئی ۔ملکی سرمایہ کاروں اور بیرونی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری میں کمی ہوئى۔ عالمی سطح پر خام مال کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں کی وجہ سے صنعتی شعبے کی سرمایہ کاری متا ثر ہوئی۔توانائی کے بحران کی وجہ سے صنعتوں کی استعداد کار متاثر ہوئی ۔

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیےسرمایہ کاری میں اضافہ بالخصوص براہ راست بیرونی سرمایہ کاری انتہائی اہمیت کا حا مل ہے۔دہشت گردی میں امریکہ کا ساتھ دینے کی ایک مضبوط معاشی دلیل یہ دی گئی کہ اس سے پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو ا۔ پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری زیادہ تر گیس اور پیداوار کے شعبے میں ہو تی تھی لیکن مالی سال 2003ءسے مالی سال 2008ءکے دوران مو اصلات اور مالیات کے شعبے میں براہ راست بیرونی سر مایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ تاہم اس عرصے کے دوران اشیاءسازی میں براہ راست کم بیرونی سر مایہ کاری کی گئی۔حالانکہ اس شعبے میں سرمایہ کاری سے ملک کی پیداواری استعداد میں اضافہ ممکن تھا۔پاکستان میں دیگر شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری مندرجہ ذیل جدول سے واضح ہوتی ہے۔

Fy08 Fy07 Fy06 Fy05 Fy04  
11.9 18.8 7.1 16.8 17.9 I.Manufaturing
2.2 1.0 0.9 2.2 0.3 1.Transport equipment
2.0 0.7 1.1 0.9 0.2 2.Cement
1.5 0.9 1.8 3.3 1.6 3.Chemical
0.6 1.2 1.3 2.6 3.7 4.Textiles
5.6 15.1 2.0 7.9 12.0 5.Others
88.1 81.2 92.9 83.2 82.1 II.Non.manufacturing
13.2 11.2 9.2 12.8 21.4 A.Extractive Industries
12.3 10.6 8.9 12.7 21.3 1.Oil & Gas explorations
0.8 0.6 0.3 0.1 0.1 2.Others
75.0 69.9 83.7 70.4 60.6 B.Others Services
31.5 37.0 55.0 34.0 23.4 1.Communications
27.9 35.6 54.1 32.4 21.8 A)Telecommunications
3.5 1.4 0.9 1.5 1.4 B) Information Technology
31.2 18.2 9.3 17.7 25.5 2.Financial Business
3.4 3.4 3.4 3.4 3.8 3.Trade
1.7 3.1 2.5 2.8 3.4 4.Construction
1.4 0.6 0.5 0.7 0.9 5.Transport
1.4 3.8 9.1 4.8 -1.5 6.Power
4.3 3.9 3.8 7.0 5.2 7.Others

Sector Wise Share in FDI(%)

(State Bank of Pakistan,Annual Report 2007-08,p.127)

جدول کے مطابق مو اصلات اور مالیات میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا جب کہ دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں کمی آئی ۔ یہ درست ہے کہ اس دور میں ٹیلی کام کے شعبے میں ترقی ہوئی اور روزگار کے مو اقع میں بھی اضا فہ ہوا لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کے لیے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری ضروری تھی۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں بہت کم سرمایہ کاری ہو ئی حالانکہ 11/9کی جنگ میں شامل ہو نے پر امریکہ نے جن شعبوں کو خصوصی مراعات دینے کی ترغیب دی تھی ان میں ٹیکسٹائل سےسیکٹر*بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود پاکستان اس شعبے میں پیچھے رہا۔ تاہم مالی سال 2007ءاور 2008ءمیں سیمنٹ کے شعبہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضا فہ ہوا جس سے اس شعبہ کی پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافہ ہوا۔ صدر پر ویز مشرف کے دورمیں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ، لیکن زیادہ تر سرمایہ کاری ٹیلی کمیو نیکشن اور مالیات میں کی گئی۔پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری بہت کم رہی حالانکہ پیداواری شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ وقت کی ضرورت تھی۔ یہ درست ہے کہ معیشت میں گر م بازاری رہی ۔سٹاک ایکسچینج کے انڈکس میں گرمی رہی۔ اشیاءسازی کی صنعتوں میں بھی اضا فہ ہوا۔تاہم یہ نمو قلیل عرصے کے لیے تھی۔معا شی شعبوں میں محض تبدیلی لائی گئی اوراہم شعبوں کی ترقی مستقل بنیادوں پر نہیں تھی۔ چاہیے یہ تھا کہ ٹھوس اقتصادی مالیاتی پالیسیاں تشکیل دی جاتیں تاکہ ملک طویل عرصہ تک ان پالیسیوں کے ثمر سے مستفید ہو سکتا،تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔صدر پرویزمشرف کے دور حکومت کے بعد جمہوری دو ر میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ، کاروبار کے لیے ناسازگار ماحول،توانائی کے بحران،بدامنی ،انتہائی کرپشن اور معیشت کے مخدوش ہو نے کی وجہ سے امریکہ،یورپی یو نین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری میں کمی آئی۔

صدر پرویز مشرف کے دور میں بیرونی قرضوں اور امدادکی شرائط کے تحت شعبہ صنعت میں نجکاری کی پالیسی کو فروغ دیا گیا ۔ صنعتی یونٹ اونے پونے داموں فروخت کیےگئے ۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں نج کاری کا عمل تیز رہا اوربہت سے اداروں کی نج کاری کی گئی۔یہ عمل بعد میں آنے والی جمہوری حکومت کے دورمیں بھی جاری رہا۔پورے جنوبی ایشیاء،سنٹرل ایشیاءاور مشرق وسطی کی نسبت پاکستان میں نج کاری کا پروگرام کامیاب رہا۔9بلین امریکن ڈالر کے عوض تقریباً167اداروں کی نج کاری کے سودے کیے گئے۔سابق وزیراعظم یو سف رضاگیلانی کی دور میں نج کاری کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ اس کی اہم وجوہات میں سے مالی سال2008ءکا عالمی بحران اور ملکی امن وامان کی صورتحال تھی جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری میں عدم دلچسپی رہی۔[16]نج کاری کی پالیسی سے پاکستانی صنعت کو نقصان پہنچا۔اس بارے میں شاہدحسن صدیقی کا مو قف ہے کہ ان ساختی تبدیلیوں کے نتائج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نج کاری کی پالیسی اپنانے کی کو شش کر تے ہو ئے بیرونی قرضوں کو یقینی بنانے کا مطلب ہے کہ ہماری اگلی نسل انتہائی معمولی سرمایے کے ساتھ بہت بھاری سود کی وراثت حاصل کرے گی کیونکہ سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے اور قرضے مسلسل حاصل کیے جارہے ہیں گویا ہم اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل رہن رکھو ارہے ہیں۔[17]

عصر حاضر میں پاکستان کی سرمایہ کاری میں اضا فہ کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔* بیر ونی سودی قرضوں میں اضافہ کر نے کی بجائے حکو متی سطح پر بیرونی سرمایہ کاروں کو ایسی مالی ترغیبات متعارف کروائے جانے کی ضرورت ہے جن سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب ہوسکیں۔لیکن یہ سرمایہ کاری زیادہ ترپیداواری شعبے میں کی جانے کی اجازت دی جائے۔اس سے ملک میں سر مایہ کاری کا ماحو ل بھی پروان چڑھے گا نیز روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا اور پیداوار میں بھی بڑھوتری ہو گی۔

  • سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے سرمایہ کی کمی ملک میں بچتوں کی ترغیبات کے ذریعے پوری کی جاسکتی ہے۔عوام کو اس بات پر آمادہ کیاجائے کہ اگر پاکستان کومضبوط مملکت بناناہے اور بیرونی اثرات سے آزاد کر نا ہے تو ملکی بچتوں میں اضافہ کرنا ہو گا ۔اسلامی تعلیمات میں خرچ کرنے میں اعتدال کی راہ بتائی گئی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَ لَا تَجْعَلْ یَدَ کَ مَغْلُوْ لَۃً اِلیٰ عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْ مًا مَّحْسُوْرًا﴾[18] ترجمہ :اپناہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے ۔اگرافراد معاشرہ اسراف کو کم کر یں تو بچتوں میں اضافہ ممکن ہے۔ بازار سرمایہ میں ان بچتوں کو مشارکہ اور مضاربہ سرٹیفکیٹ میں لگایاجائے ۔ ان بچتو ں سے جمع شدہ سرمایہ کو مختلف پراجیکٹ اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے ذریعے استعمال میں لایا جائے ۔
  • قومی اہمیت اور عوام کی فلاح وبہبود کی حامل صنعتیں مثلاً بجلی کی پیداوار،سٹیل ملز اور فوجی اسلحہ و گولہ بارود وغیرہ قومی تحویل میں ہی ہو نی چاہیں لیکن صنعتی اور کاروباری سر گر میوں میں بہتری کے لیے مختلف شعبوں میں نجی سر مایہ کاری کی بھی حو صلہ افزائی ضروری ہے۔کیو نکہ محرک منا فع کی و جہ سے نجی سر مایہ دار اشیاءپیدا کر نے کے نئے طریقے دریافت کرتے ہیں ، جدید ٹیکنالوجی اپناتے ہیں ،اشیاءکے معیار میں بہتر ی لاتے ہیں اوراشیاءکی فر وخت کے لیے نئی منڈیاں تلاش کر تے ہیں ۔اس سے روزگار کے مواقع میں اضافے کے ساتھ معاشی سر گرمیوں میں بہتر ی آتی ہے۔لیکن ان صنعتوں پر نگرانی رکھی جانی ضروری ہے تاکہ یہ صنعتیں کارٹل جیسے مضبوط گروپ بنا کر عوام کا استحصال نہ کر سکیں ۔اگر ان کی پالیسیاں عوام کے حقوق کے منافی ہوں تو ان کو قومی تحویل میں لے لینا چاہیے ۔
  • ملکی معیشت کو نج کاری کی پالیسی سے نقصان کاسامنا کرنا پڑا ۔ایک طرف تو بیرونی سرمایہ کاروں نے حصص خر یدے اور اس شعبے میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی دوسری طرف نجکاری سے حاصل کردہ رقوم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر نے کی بجائے زیادہ ترکرپشن کی نذر ہوئیں۔ صدر پر ویز مشرف کے دور میں محض نج کاری کے عمل میں 23.84بلین ڈالر کی کرپشن ہوئی۔[19]کرپشن پاکستانی معاشرے کے لیے ناسو ر بن چکی ہے۔احادیث نبوی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ جو کوئی رعیت کے حقوق میں خیانت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیں گے[20]اور قیامت والے دن خائن سے حساب لیا جائے گا۔[21] کرپٹ افراد کا احتساب و قت کی اہم ضرورت ہے ۔خلفاءراشدین کے طرز عمل سے ثابت ہو تا ہے کہ وہ عاملین کا احتساب مختلف طریقوں سے کرتے تھے جیسا کہ حضرت عمر ؓ اپنے کسی عامل کو کسی شہر پر مقرر کر کے بھیجتے تھے تو اس کے مال کی فہرست لکھ لیتے تھے انھوں نے ایک سو سے زائدلوگوں کا مال جب انھیں معزول کیا تو تقسیم کرا لیا،ان میں سعد بن ابی و قاص ؓبھی شامل تھے ۔[22] اگرافراد معاشرے میں احساس جوابدہی پیدا ہو جائے اور کرپشن میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے تو کرپشن کاخاتمہ ممکن ہے ۔ ملکی اہمیت کے اداروں کو نجی شعبوں کی طر ف منتقل کرنے کی بجائے ان کی تنزلی کے اسباب کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے ۔ان اداروں میں کر پشن ختم کرنے اور ان کی ترقی کے لیے ٹھوس پالیسیاں تشکیل دی جانی ضروری ہیں۔

۳ .جی ڈی پی اور فی کس آمدن پر اثرات :

صدر پر ویز مشرف کے دور میں پاکستان کے قرضے ری شیڈول کیے گئے اور بیرونی گرانٹ میں ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا جس سے عرصہ قلیل میں پاکستان کی معیشت کی صورتحال میں بہتری آئی اور حکومت کی متعد دمالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوا۔تاہم11/9کے واقعہ کے بعد امریکہ کی امداد سے فائدہ اُٹھا نے والا خطہ کا سب سے بڑا ملک ہو نے کے باوجود مالی سال 2004-05 ءکے بعد پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح افزائش دیگر ایشیائی ممالک کی نسبت پست رہی جو کہ مندرجہ ذیل جدول سے واضح ہوتی ہے۔

1.1 Comparative GDP Growth Annual (%)

Picture 1.png

Source:http://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.MKTP.KD.ZG retrived 22 -12-2013))

گراف کے مطابق2012-1999ءتک جنوبی ایشیاءکے خطے میں مجمو عی طور پربھارت کی جی ڈی پی کی شرح افزئش پاکستان،بھارت ،بنگال اور سری لنکاسے زیادہ رہی جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے سے پاکستان کو قرضے ،امداد اور معاشی فوائد حاصل ہونے کے باوجود پاکستان معاشی شرح افزائش میں بھارت سے پیچھے رہا۔مالی سال 2008ءاور2012ءمیں پاکستان کی جی ڈی پی بھارت کے علاوہ خطے میں سری لنکا اور بنگلہ دىش سے بھی کم رہی جبکہ مالی سال 2012ءمیں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو اگرچہ بھارت سے بہتر رہی تاہم سری لنکا اور بنگلہ دىش سے کم رہی ۔

درحقیقت صدر پرویزمشرف کے دور کے ابتدائی دور حکومت میں معاشی نمو میں اضافہ رہا جب کہ حکومت کے اختتامی عرصہ تک معیشت سست روی کا رخ کر چکی تھی ۔ بیرونی جاری کھاتے کا خسارہ (External Current Account Deficit) جی ڈی پی کا 8.5فیصد تھا۔مالیاتی خسارہ 7.6فیصد اورزرمبادلہ کے ذخائر 16ارب سے کم ہو کر 6ارب ڈالر ہو چکے تھے ۔[23]شاہد جاوید برکی معاشی صورتحال کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت میں بہت سے ایسے ترقیاتی کام ہو ئے جو کہ نہ صرف نمو کے لیے خطرہ تھے بلکہ ان کا نتیجہ معاشی عدم استحکام ہو سکتاتھا۔افراط زر بڑ ھ چکاتھا۔تجارتی خسارہ اس نقطے تک بڑھ چکا ہے جہا ں پر ادائیگیوں کا توازن صحت مند معیشت کے لیے بو جھ بن گیا۔بہت سے تجارتی بینک جو مختلف نوعیت کے صارفی قرضے جاری کر تے تھے ان کے اثاثوں کی بنیاد کمزور تھی ۔سرمایہ کاری زیادہ تخمینہ بازی والے شعبوں میں کی گئی ۔قومی بچتوں اور سرمایہ کاری کے رخنے میں اضا فہ ہوا۔کئی حوالوں سے یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان کی معیشت ایک جو ئے خانہ کی طرح چل رہی تھی۔[24] گو یاصدر پرویز مشرف کے دور میں معیشت غیر یقینی حالات کا شکا ر رہی ۔ صدرپرویز مشرف کے دور حکومت کے بعدبرسر اقتدار آنے والی جمہوری حکومت کو بیرونی تجارت میں مسلسل خسارہ ،زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ،بیرونی وسائل پر انحصا ر، توانائی کا بحران ،غربت میں اضافہ،افراط زراوربے روزگاری وغیرہ جیسےمعیشت کے اہم بنیادی مسائل کا سامنا تھا۔

درحقیقت 11/9 کے بعد پاکستانی معیشت کے لیے بنائے جانے والی پالیسیاں مستحکم بنیادوں پر نہیں تھیں ۔پاکستان کو ملنے والی گرانٹ اور قرضوں کا کچھ حصہ مختلف شعبوں کی ترقی کے لیے مختص کیا گیا جس سے چندسالوں کے لیے معاشی نمو ہوئی ۔ تاہم یہ تبدیلی قلیل عرصے کے لیے تھی ۔اگر ترقی مستحکم بنیادوں پر ہوتی تو صدر پرویز مشرف کے دور کے اختتام تک معیشت تنزلی کا رخ نہ کر چکی ہو تی۔ متعدد معاشی وجوہات کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امن وامان کی صورتحال متاثر ہونے کی وجہ سے معاشی نمو میں کمی ہوئی۔مالی سال2005 ء اورمالی سال 2010ء میں جی ڈی پی میں کمی کی ایک اہم وجہ معاشی بحران بھی تھے۔معاشی بحران کبھی خو د ساختہ ہو سکتا ہے اور کبھی کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں معاشرہ معاشی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ 11/9کے بعدپاکستان کی معیشت کے لیے اہم جھٹکے مالی سال 2005ءکا زلزلہ اور مالی سال 2010ءکا سیلاب تھا ۔ مختلف ماہرین ان قدرتی آفات کو پاکستان کی عوام اور حکمرانوں کے گناہوں سے منسوب کرتے ہیں ،اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے اورشرعی قوانین کے عدم نافذ کی وجہ سے ملک کی امن وامان کی بدترین صورتحال اور معاشی تنزلی کا شکار ہے۔احکام الٰہی سے روگردانی کے بارے میں حکم الٰہی ہے ﴿ وَ مَن ْ اَعْرَضَ عَنْ ذِ کْرِیْ فَاِ نَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُ ہٗ یَوْ مَ الْقِیٰمَۃِ اَ عْمٰی﴾ [25]ترجمہ :اور ہاں جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی ،اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اُٹھائیں گے۔اللہ تعالیٰ کے احکا م سے اعراض کرنے والوں پر معیشت تنگ کر دی جاتی ہے مثلاً غربت و افلاس،قحط ،خشک سالی ،بیماری اور برکت کا اٹھ جانا وغیرہ ہے اور ان ہی مسائل سے ہماری معیشت دوچا ر ہے ۔قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کی اہم وجہ حکمران اور عوام کے گنا ہ بھی ہوسکتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تو بہ کی جائے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی جا ئے جیسا کہ عام الرماد*میں حضرت عمر ؓ بن الخطاب نے لو گوں کو خطبہ دیااور اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے کی ہدایت فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قحط ختم ہو سکے۔[26] گناہوں کی معافی کے بعد اصلاح اہم ضرورت ہے۔شریعت اسلامیہ کا نفاذ کیا جائے تاکہ اسلامی بنیادوں پر قائم ملت اسلامیہ اسلامی نظام معیشت کی برکات سے مستفید ہو سکے ۔

واقعہ 11/9 کے بعد حکومتی سطح پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق فی کس آمدنی میں اضافہ ہو ا۔ذیل میں پاکستان کی فی کس آمدن کا خطے میں بھارت ،سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ موازنہ دیاگیا ہے۔

1.2. GDP per Capita (Current US$)

Picture 3.png

(Source:http://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.PCAP.CD retrived 22 -12-13)

مندرجہ بالا گراف کے مطابق مجمو عی طو ر پر پاکستان کی فی کس آمدن بنگال سے بہتر رہی تاہم سری لنکا اور بھارت سے کم رہی۔اگرچہ پاکستان کی فی کس آمدن میں ماضی کی نسبت اضافہ ہو الیکن غربت میں اضافہ رہا ۔اس کی اہم وجو ہات میں سے ایک پاکستان میں بڑ ھتی ہوئی مہنگائی ہے ۔قرضوں اور امداد کی شرائط کے تحت ضروریات زندگی کے نرخ گراں ہورہے ہیں ۔نیز آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیاجا رہا ہے ۔ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا دو بھر ہو کر رہا گیا ہے ۔عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے برسراقتدار حکومت کی ذمہ داری ہے اشیاءکی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور قیمتوں کو کنٹرول کیاجائے جیساکہ ابن تیمیہ ؒکے نز دیک حا کم وقت کی ذمہ داری ہے کہ مختلف استحصالی صورتوں کی وجہ سے قیمت میں ہونے والے اضافہ کے ازالہ کے لیے لوگوں کو اس بات کا پابند بنا دیا جائے کہ مال کی خریدو فروخت قیمت مثل کے مطابق کریں۔[27] اگراشیاءکی مصنوعی قلت پیدا نہ کی جائے اورمصنوعی حربوں سے قیمتوں میں اضا فہ نہ کیا جا ئے تو صارفین کو اشیاءمناسب قیمت پر دستیاب ہو تی رہتی ہیں ۔ نیزاشیاءکی فر وخت میں اضافہ سے تاجروں کو بھی فا ئدہ ہو تاہے کیونکہ اشیاءکی طلب میں اضافہ ہو تا ہے اور اس سے سر مایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو تی ہے۔اس طرح سرمایہ کاروں کے منافع میں اضا فہ ہو تا ہے اور یوں معا شی نمو کا عمل جاری رہتا ہے۔آئی ایم ایف کے جاری کردہ قرضوں کی شرائط کے تحت نظام ٹیکس میں تبدیلیاں لائی گئیں۔نظام ٹیکس میں اصلا حا ت متعارف کر وانے کے نتیجے میں ٹیکس کی وصولیوں میں براہ راست ٹیکس اور سیلز ٹیکس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔اس سے بھی غریب اور سفید پو ش طبقہ کی قوت خرید متاثر ہو ئی ۔ٹیکسوں کی بھرمار کوکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لایا جایا ۔زیادہ تر سرمایہ کار ٹیکسوں سے بچنے کے لیے اثرورسوخ اور رشوت کو آلہ کا ر بناتے ہیں جس سے معاشرے میں کرپشن کو رواج مل رہا ہے۔اگرچہ صدر پرویز مشرف کے دور سے نظام ٹیکس میں جد ت اور وسعت لائی گئی تاہم اصلا ح کی ضرورت باقی ہے۔بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانا اورٹیکسوں کی لازمی بنیادوں پر وصولی سرمایہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔پاکستان کے نظام ٹیکس کے خرچ کرنے میں بھی کرپشن کا عنصر نمایاں ہے جس کی وجہ سے حق دار کو حق نہیں پہنچ رہا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دیانت دار طبقہ کو تعینات کیا جائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکے ۔مندرجہ بالا اقدامات سے بھی غربت میں کمی ممکن ہے۔

۴.ملکی امن وامان پر اثرات :

اسلام کی مالیاتی پالیسی کے اہم مقاصد میں ملکی دفاع کو مضبوط کرنا اور امن وامان کا قیام بھی شامل ہے کیونکہ افراد معاشرہ کے لیے پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اگرا ن کی زندگیاں ہی محفوظ نہ ہو ں تو دیگر مالیاتی پالیسی کے مقاصد بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں حصّہ لینے سے پاکستان کے امن وامان کی صورتحا ل بُری طریقے سے متاثر ہو ئی ۔11/9کے بعدصدر پرویز مشرف کےدورمیں فرقہ واریت ، قومی تعصب اور ملکی دہشت گر دی کے عناصر کو کم کرنے کی بھی کو ششیں کی گئیں ،تاہم اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔بم دھماکوں اورانتہا پسند حملوں میں اضافہ ہوا، فر قہ ورانہ تشدد کے واقعات میں ہزاروں افراد شہید ہو ئے،مسا جد ،مذہبی جلوسوں،اجتماعات،نماز عید میں مسلمانوں کو مختلف فر قوں سے تعلق رکھنے والے بمباروں اور مسلح افراد کی جانب سے نشا نہ بنایا گیا۔ ڈرون حملے جن میں بے گنا ہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدر پر ویز مشرف کی حکومت نے متعدد باردعوی کیا کہ ان کے دور میں نو ڈرون حملے ہو ئے جن سے 70ہلاکتیں ہوئیں۔[28]2004ءسے مارچ 2013ءتک 330ڈرون حملوں میں 400شہریوں سمیت 2200افراد جاں بحق ہوئے۔[29]حق کے سوا انسانی جان کے ضیاع کی ا سلامی تعلیمات میں کہیں بھی گنجائش نہیں ہے۔[30]نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے قتل انسانی کو کبیرہ گناہوں میں شامل کیا ہے۔[31]رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے داخلی امن وامان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا خون اور مال دوسرے مسلمانوں کے لیے حرام قرار دیا۔[32] حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنے دور حکومت میں مفتوحہ علاقوں کے افراد کی بھی جان ومال اور عزت کی حفاظت فرمائی۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اہل مصر کو ان کے اموال ، خون ، عورتوں اور اولاد کی حفاظت کی ضمانت دی۔[33] اگر کسی شخص کو کسی خا ص و جہ کے بغیر مارا جاتا تو اس کو عامل سے قصاص لینے کا حق دیاگیا۔حضرت عمر ؓ کے دور میں ایک شخص نے شکایت کی فلاں عامل نے اس کوکسی خاص وجہ کے بغیر 100تازینے مارے ،امیرالمو منین نے اس کو اجازت دی کہ اس عامل سے قصاص لے سکتا ہے ،عامل نے دو سو دینار فدیہ دے کر اپنی جان بخشی کروائی ۔[34]حضرت عمر ؓ عاملوں کو عوام کو کسی بھی تنگی میں مبتلا کر نے سے منع فرماتے۔[35] ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی بنیادوں پر قائم مملکت اسلامیہ میں انسانی جانوں کی حفاظت حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔11/9 کے بعد ایک افسوس ناک واقعہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بچوں سمیت امریکہ کے مطالبے پر اُن کے حوالے کیا جانا تھاجبکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورتوں کی عزت و حرمت ان کی جان سے بھی بڑھ کر ہے جیسا کہ صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کا نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ معاہدہ ہواتھااگر کوئی مکہ کا آدمی مدینہ جائے گا تواُس کو لازما ً واپس کیا جائے اگر چہ وہ تمھارے دین پر کیوں نہ ہو۔[36]لیکن مومن خواتین معاہدے کی اس شق سے مستثنی تھیں جیسا کہ حکم الٰہی سے واضح ہوتا ہےکہ اگر مومن عورتیں ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں اور امتحان لینے کے بعد ثابت ہو جائے کہ وہ ایمان دار ہیں تو انھیں کفار کو واپس نہیں کیا جائے گا۔[37]مفسرین کا بھی اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں یہ ہی نقطہ نظر ہے کہ جو عورت صلح حدیبیہ کے بعد ایمان قبول کر کے مدینہ آئے اور فی الو اقع سچی اور ایماندار مسلمان ہو اسے کافروں کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ آیت حضرت اُم کلثوم بنت عقبہ بن ابو معیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں نازل ہو ئی جو کہ مسلما ن ہو کر مدینہ چلی گئیں تھیں نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس آیت کے نزول کے بعد واپس کرنے سے انکار کردیا۔[38] اس آیت قرآنی سے اور عقبہ بنت ابو معیط رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثال سے واضح ہو تا ہے کہ اگرچہ عالمی دباوکے تحت معاہدے ہو رہے تھے لیکن کسی قیمت پر بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے نہیں کرنا چاہیے تھا۔

سرحدی علاقوں اور مدارس میں ہونے والی فو جی کاروائیوں اور معصوم انسانی جانوں کی شہادت کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں نوجوانوں میں انتقامی جذبات جنم لینا فطری ردعمل ہے ۔یہی سبب ہے کہ وہ فوج اور سیکو رٹی ایجنسیوں کے خلاف ہو گئے۔جس کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال مزید خراب ہوئی۔

مندرجہ بالا بحث سےواضح ہو تا ہے کہ11 /9 کے بعد پاکستان میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی اور انتقامی فضاءپیدا ہو ئی۔جنگ میں ملک کے تحتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا ۔جیسا کہ مالی سال 2008ء کے دوران بلو چستان میں بدامنی سے نہ صرف تر قیاتی کام متاثر ہو ئے بلکہ سبوتاژ اور تنصیبات پر حملو ں کے نتیجے میں پائپ لائن کے شعبے میں 7.8فیصد کمی ہوئی۔[39] اس طرح امن وامان کے مسائل کی وجہ سے ریلوے کی بو گیوں اور بنیادی ڈھانچے کو خاصانقصان پہنچا۔ ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی،ہزاروں افراد کی شمالی علاقوں سے دوسرے علاقوں میں منتقلی،سرمایہ کاری کے ماحول میں کمی،خسارے کی شکار ملکی پیداوار اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے ملک کی اقتصادی حالت کو کمزور کر دیا ہے۔

معا شی پہلو سے سیروسیاحت کی صنعت پاکستان کے لیے اہم ہے ۔ امن وامان کی بر ی صورتحال کی و جہ سے سیروسیاحت کی صنعت میں بھی سرمایہ کاری متا ثر ہو ئی کیو نکہ شمالی علاقہ جات میں تحتی ڈھانچہ بھی تباہ ہو ا نیز جنگی حالات ہونے کی وجہ سے سیکو رٹی جیسے مسائل بھی رہے جس کی وجہ سے اندورن اور بیرون ممالک سے سیاحوں کی تعداد میں کمی آئی۔سیر وسیاحت کا شعبہ تنزلی کی طرف جا رہا تھا اور اس شعبے سے وابستہ افراد بے روزگار ہو رہے تھے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق منیر خا ن (منیجر آف چترال ماونٹین اِن )نے اخباری رپو رٹر کو بتا یا چترال میں 11/9سے پہلے سالانہ غیر ملکی 3500سیاح آتے تھے لیکن پچھلے سال(2002) یہ تعداد کم ہو کر صرف 250تک رہ گئی ۔نو رالامین (منیجرآف پشاور کانٹیی نینٹل گیسٹ ہاوس ) کے مطابق عدم تحفظ کے احساس کی و جہ سے ا ن کے ہو ٹل کی بکنگ100فیصد سے صفر میں بدل گئی۔ ظہور درانی (منیجنگ ڈائریکٹرصحرائی ٹریولز اینڈ ٹورز پشاور)کے مطابق ملکی سیر وسیاحت میں 85فیصد کمی آئی ۔[40] سیرو سیاحت میں کمی کی وجہ سے مقامی دستکاری کی صنعت کو بھی نقصان پہنچا جو کہ سینکڑوں دکانداروں کی آمدن کا ذریعہ تھی ۔اس سے وابستہ افراد کی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔

اگر ملک کو بیرونی عناصر سے خطرہ درپیش رہے اور داخلی امن وامان کی صورتحال بھی خراب ہو تو سرمایہ کار اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے بیرون ملک سرمایہ منتقل کر نا شروع کر دیتے ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے ایسے مما لک کو تر جیح دیتے ہیں جہاں پر معاشی تر قی کے مو اقع اور امن وامان کی صورتحال بہتر ہوجیسا کہ عصر حاضر میں پاکستا ن کا دہشت گر دی کی جنگ میں حصّہ لینے کی و جہ سے سرما یہ کاروں نے سر مایہ ملائیشیاء، بنگلہ دیش اور دیگر بیرون ممالک منتقل کر نا شر وع کر دیا ہے۔اس سے نہ صرف ملکی معا شی تر قی متا ثر ہوئی ہے بلکہ پاکستان کے سرمایہ اور صلاحیتوں سے دیگر ممالک کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔دوسری طرف بدامنی کے حالات کی وجہ سے براہ راست بیرونی سر ما یہ کاری میں بھی کمی آئی ہے۔

اسلام کی تعلیمات کی رُو سے جائزہ لیا جائے تو مالیاتی پالیسی کا اہم مقصد دفاع کو مضبوط کرنا اور داخلی امن وامان کی صورتحال کو بحال کر نا ہے۔بدامنی و بے اطمینانی معاشرے کی فلاح و سکون کے لیے زہر قاتل ہے ۔جس معاشرے میں انسان کو ہر وقت اپنی جان و مال کی فکر اوراس کے بارے میں خطرہ لگا رہتا ہواور عزت وآبرو کے بارے میں اندیشوں سے دوچار ہو ،تو ایسامعا شرہ زوال پذیر ہو نے لگتا ہے اور معاشی ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔معاشی لحاظ سے امن وامان کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا سے بھی ہو تا ہے﴿ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا ٰمِنًا وَّ ارزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰ مَنَ مِنْھُمْ بِا للہ ِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ﴾ [41]ترجمہ اے پرودگار تواس جگہ کو ایک امن والاشہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جواللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں ،پھلوں کی روزیاں دے۔ گویاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے معاشی فوائد سے پہلے امن وامان کی دعا فرمائی کیونکہ کسی بھی ملک کے امن وامان کے بغیر معاشی فوائد سے باشندے مستفید نہیں ہو سکتے۔امن وسکون کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ نسلی اور فرقہ واریت کے تعصب کاخاتمہ کیا جائے،قومی تعصب سے پاکستانی قوم مزید کمزور ہو جائے گئی اور دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہو جائیں گئیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلما نو ں میں اتحاد کو پروان چڑھایا جائے۔ملک کے تمام افراد کوصوبائی اورنسلی تعصب سے آزاد ہو کر اتحاد قائم کر کے پاکستان کے سیاسی،معا شی اورمعاشرتی استحکام کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور تفرقہ بازی سے اجتناب ضروری ہے۔تاہم سرکاری سطح پر حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اتحاد کے فروغ کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ حضرت عمر ؓفاروق کے دور میں سلطنت بہت وسیع ہو گئی مگر آپ ؓ جتنے بھی گو رنر مقر ر فر ماتے، ان کو لو گوں کی فلاح و بہبوداور علاقے کی تر قی کے لیے تجاویز دیتے۔ صوبوں کو مر کز کے ساتھ مر بو ط رکھتے ،یہی و جہ تھی کہ ان کے دور میں مختلف فتنوں نے سر نہیں اٹھایا۔ حالانکہ ایران و عراق ، شام اور مصر تک اسلام کی سر حدیں و سیع ہو گئی تھیں ۔حکمران کی ذمہ داری ہے کہ تمام علاقوں کی تر قی اور امن وامان کی بحالی کے لیے پالیسی بنائے حضرت عمر ؓ کے طرز عمل سے معلو م ہو تا ہے ، آپ ؓ فر مایا کر تے تھے :

و انمامثل جمل انف اتبع قائده، فلینظر قائده حیث یقوده، فاما انا فو رب الکعبة لاحملنهم علی الطریق ۔[42]

(اہل عر ب ایک فر ماں بر دار اونٹ کی مانند ہیں جو اپنے قائد کی پیر وی کر تا ہے ، اس لیے ان کے قائد کو اس بات پر غور کر نا چاہیے کہ وہ انھیں کہاں لیے جارہا ہے ، جہاں تک میر ا تعلق ہے تو میں کعبہ کے پر وردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں انھیں صحیح راستے پر لے جاوں گا۔)

پاکستان کی مالیاتی پا لیسی کی کامیابی کے لیے سب سے اہم عصری ضرورت داخلی امن و سکو ن کی صورتحال کو بہتر کرنا ہے ۔اس مقصدکے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ میں امریکہ کے حلیف کے کردار سے دستبردار ہو جائے۔اس جنگ میں حصّہ لینے سے ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ڈرون حملوں ،بم دھماکوں اور خودکش حملوں سےپاکستان کا امن و سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ بدامنی کی بری صورتحال کی وجہ سے ہما ری معیشت تباہ ہوچکی ہے ۔پاکستان کومذاکرات کا راستہ اختیار کرکے فوری طور پر افغانستان کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے سے مکمل طور پر کنار ہ کشی اختیار کر نی چاہیے ۔ اس کے بعد ملک میں امن و سکون کی بحالی کے لیے موثر پالیسی تشکیل دینی چا ہیے تاکہ داخلی امن وامان بحال ہو سکے۔

۵.فلاح عامہ پرا ثرات :

11/9 کے بعدمالی وسائل میں اضافہ کے باوجود عوام دوست پالیسیاں تشکیل نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے نادار طبقہ کو ریلیف نہ مل سکا۔اس دور میں نام نہاد معاشی ترقی کا ثمر مخصوص طبقہ تک محدود رہا اورعوام کی ریلیف کے لیے قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے ۔اشیاءکی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا۔گندم اور چینی کے شدید بحران کا سامنا بھی کرنا پڑا۔قرضے اور امداد حکمران طبقہ نے آپس میں ہی تقسیم کی ،اس کا آٹے میں نمک کے برابر حصّہ افراد معاشرہ کی ترقی کے لیے مختص کیا گىا۔اصل میں پاکستانی حکمرانوں کی اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے اور کفار کا ساتھ دینے کی وجہ سے معیشت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے بھی محروم رہی اور معاشی خوشحالی نہ آسکی ۔اس دور میں غر بت کی اہم وجو ہات میں عالمی معاشی کساد بازاری،افراط زر ، بے روزگاری اور دہشت گر دی کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے کی و جہ سے بڑھتے ہو ئے دفاعی اخراجات کی وجہ سے سماجی بہبود کے لیے ناکافی مالی وسائل وغیر ہ شامل تھے۔نیز حکومت کی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کم تھی ۔ قرضوں اور گرانٹ کو غیر پیداواری مقاصد کے لئے استعمال میں لایا گیا جس کی وجہ سے عوام کی ضرورتوں مثلاً تعلیم، صحت عامہ،بجلی اور تفریحات پر بجٹ میں کم رقم مختص کی گئی نتیجتاً لوگوں کے معیار زندگی میں کمی آئی۔Mathen J.Nelsonکے تجزےے کے مطابق 11/9کے واقعے کے بعد پاکستان کو 10 بلین ڈالر کی امداددی گئی جن میں سے محض 10فیصد معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے وقف کی گئی۔[43]ذیل میں 9/11کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی کا جائزہ لیا گیا ہے۔

۱. ۵.شعبہ تعلیم :

کسی بھی ملک کی معاشی خو شحالی کے لیے آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے،لیکن پاکستان کے زیادہ تر مالی سالوں کے بجٹ میں عوام کی فلاح وبہبود کو ثانوی حیثیت دی گئی۔پاکستان کے بجٹ میں دو اہم مدات بیرونی قرضوں کے واجبات اور دفاع پر زیادہ ترحصّہ مختص کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کم رقم مختص کی جاتی ہے ۔تعلیم اور صحت عامہ کے لیے فراہم کی جانے والی سہولیات آبادی کے لیے ناکافی ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصّہ لینے کی وجہ سے شعبہ تعلیم بھی متاثر ہوا ۔مالی سال00 -1999ءسے مالی سال 12-2011ءتک مڈل سکولوں کی تعداد 23,600،ہائی سکولوں کی تعداد 16,100، سیکنڈری اوروکیشنل اداروں کی تعداد2665،آرٹ اور سائنس کالجوں کی تعداد 3293،پروفیشنل کالجوں کی تعدادمیں 1028اوریونیورسٹیوں کی تعداد میں85تک اضافہ ہوا جبکہ پرائمری سکولوں کی تعداد میں 7500تک کمی آئی۔[44]اعلیٰ تعلیم پر توجہ دی گئی جس کی وجہ سے پاکستان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی طلبہ کی تعداد میں ماضی کی نسبت اضافہ ہو ا لیکن ابتدائی تعلیم میں اضافہ اور بہتری کی صورتحا ل غیر تسلی بخش رہی اسی وجہ سے پاکستان مطلوبہ شرح خواندگی حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔شرح خواندگی 1990sءمیں 40.7فیصد،2000sءمیں 52.6فیصد ،2008ءمیں56فیصد اور 2012ءمیں 58فیصد ہو گئی تھی ۔[45]نیز اس دور میں ایچ ای سی کی بیرون ممالک سکالرشپ کی پالیسی سے بہت سے افراد بیرون ممالک میں ہی قیام پذیر ہو گئے جس سے پاکستان کو برین ڈرین کا بھی مسئلہ درپیش ہے۔

شعبہ تعلیم میں بیرونی امداد اور قرضوں کے تحت دسمبر 2001ءمیں تعلیمی شعبے میں اصلاحات Education Sector Reform(ESR)))متعارف کروائی گئیں جن کے سات اہم مقاصد بیان کیے گئے جن میں سے شرح خواندگی میں اضافہ،صنفی عدم مساوات میں کمی،نصاب میں اصلاحات کے ذریعے معیار تعلیم میں بہتری اور اساتذہ کی تربیت شامل تھی ۔ جہاں تک نصاب میں اصلاحات کا تعلق تھا تو اس میں سےجہاد اور اسلام کی بنیادی اقدار پر مبنی مواد کو نکال کر روشن خیال معاشرے کو پروان چڑھانے والی اقدار کو شامل کیا گیا ۔یہ مغرب بالخصوص امریکہ کی اہم پالیسی ہے مسلمانو ں کو ان کی اپنی بنیادوں سے دور کیا جائے ،ان کو اپنے اس مقصد میں صدر مشرف کے دور میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔امر یکہ کی طالبان کے خلاف جنگ کے بعد اس رائے کو ترویج دیاگیا کہ پاکستان کے مدارس میں جہادی تر بیت اور پر تشدد فر قہ واریت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور طالبان کو بنانے میں مدارس کا براہ راست تعلق ہے۔ شعبہ تعلیم میں امریکہ کی سرمایہ کاری کے مقصد کے بارے میں K.Alan, Kronstadtبیان کرتے ہیں کہ پاکستان کے نظام تعلیم میں سے عسکریت پسندی سے متعلقہ اقدارکو کم کیا جائے جو کہ دہشت گردی کو پروان چڑھاتی ہیں ،مز ید لکھتے ہیں کہ مدارس میں پڑھانے والا نصاب صدر مشرف کے روشن خیالی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔[46]درحقیقت قرآن وسنت کی ہی کی تعلیم مسلمانوں کے لئے ابتدائی اور ضرروی احکام کی تفہیم میں ”فرض عین “ ہے۔لہٰذا اس فرض عین کو نبھانے کے لیے حکومت کو چاہیے یہ کہ نصاب میں اسلامی اقدار پر مبنی مواد شامل کیا جائے ۔پردہ اور جہادکے بارے میں آیات کونصاب میں سے خارج کرنے کی بجائے شامل نصاب ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کو اپنی بنیاد اور معاشرت سے آگاہی حاصل ہو جس سے ان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی آسکے۔

۲. ۵.بے روزگاری :

افرادی قوت کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے اہم ضرورت ہے کیونکہ ان کے بغیر معا شی پالیسیوں کو عملی جا مہ نہیں پہنایا جا سکتا۔پاکستان میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے حکومت نے کئی کاموں کا آغاز کیا۔اس میں براہ راست ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کر نے کے علاوہ روزگار کے حوالے سے بین الاقوامی منڈی تک رسائی حاصل کر نے کے اقدامات شامل تھے۔ تاہم ملکی امن وامان کی صورتحال متا ثر ہو نے اور توانائی کے بحران کی وجہ سے روزگار مواقع میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔نیزبعد میں آنے والی حکومت بھی اس ضمن میں موثر پالیسیاں وضع نہ کر سکی۔جس کی وجہ ملک کو بے روزگاری میں اضافہ کا مسئلہ درپیش ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 1990sءمیں5.7فیصد،2000sمیں 6.8فیصد، مالی سال 08- 2007ءمیں 5.2فیصدتھی جبکہ مالی سال12-2011ءتک 0.8فیصد کے اضافے کے ساتھ 6فیصد ہو گئی تھی۔[47]

۳. ۵.صحت عامہ :

پاکستان کے اہم مسائل میں سے صحت عامہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ا س کی اہم و جوہات میں سے زیادہ تر افراد کا دیہاتوں میں قیام پذیر ہونا ہے جہاں پر ان کو صحت عامہ کی سہو لیات میسر نہیں آتیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لو گوں کو بیماریوں کے بارے میں آگاہی نہیں ہوتی۔نیزپاکستان میں غربت بھی زیادہ ہے جس کی و جہ سے لو گوں کو مناسب غذا بھی نہیں ملتی اورعلاج معالجے کے لیے مالی سائل کی کمی کا بھی سامنا کر نا پڑتاہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے بجٹ میں صحت عامہ کی سہولیات فراہم کے لیے کم رقم مختص کی گئی۔مالی سال 2000ءسے 2012ء تک ہسپتال331، ڈسپنسریاں 747،ذیلی ہیلتھ سنٹر233،دیہی ہیلتھ سنٹر62، بستروں کی تعداد7266 ،ہر 330 افراد کے لیے ایک بستر ، رجسٹرڈ ڈاکٹر 67,451، دانتوں کے ڈاکٹر8379، رجسٹرڈنرسیں44591،رجسٹر دایہ 8978اورتربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ وزٹرز کی تعداد میں8235تک اضافہ ہوا جبکہ فی کس آبادی کے لیے ڈاکٹروں اور دانتوں کے ڈاکٹروں کی تعداد میں کمی آئی۔[48]حکومتی سطح پراگر چہ صحت عامہ کی سہو لیات بہم پہنچائی گئیں تاہم یہ بڑھتی ہو ئی آبادی کی ضروریات کے لیے ناکافی تھیں۔ * فلاح عامہ حکومت کی اولین ترجیح میں شامل ہو نی چاہیے کیونکہ کسی بھی ملک کی معاشی خو شحالی کے لیے غریب افراد کا معیار زندگی پہلے سے بہتر ہو نا اور معاشرے کے تمام افراد کا اخلاقی اور روحانی لحاظ سے پہلے سے زیادہ خوشحال ہونا ضروری ہے۔

  • غرباءاور مساکین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زکوة و عشر کا نظام بھی موثر ہو نا ضروری ہے تاکہ افراد معاشرہ کی بنیادی ضروریات پو ری ہوتی رہیں معاشرے میں غربت کی وجہ سے خودکشی کی شرح میں کمی آسکے۔
  • فلاح عامہ کے اقدامات میں انسانی وسائل کی منصوبہ بندی ہے۔ افرادی قوت کو تعلیم اور جدید فنی تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور روزگار کی فراہمی کے لیے جاذب محنت پراجیکٹ شروع کیے جانے چاہیئں۔خود روزگار سکیموں کے لیے قرضوں کا اجراءسود پر کرنے کی بجائے بلاسود بینکاری کے اسلامی طریقہ ہائے تمویل متعارف کروائے جائیں۔
  • صحت عامہ کی سہولیات میں اضافہ اور معیار میں بہتری لائی جانی ضروری ہے ۔تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بیرونی امداد کی بجائے نجی شعبے کا تعاون بڑھایا جانا چاہیے ۔تاہم نجی شعبے پر نگرانی رکھی جانی ضروری ہے۔

مندرجہ بالا بحث سے واضح ہو تا ہے 11/9 کے واقعہ کے بعدعالمی دباو کے پیش نظرپاکستان کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کااتحادی بنناپڑا۔ یہ کردار نبھانے سے پاکستان کے کچھ قرضے معاف ہوئے، سودی قسطوں میں تو سیع ہوئی،مزید بیرونی قرضوں اور امدا دمیں ماضی سے کئی گنا زیادہ اضا فہ ہوا۔ تاہم اس جنگ میں قرضوں کے چکر سے نکلنے کی بجائے پاکستان ان میں دھنس کر رہ گیا ۔ امر یکہ کا اتحادی بننا پاکستان کی معیشت کے لیے فائدہ مند ہو نے کی بجائے سراسرایک خسارے کا فیصلہ تھا جیساکہ دہشت گردی کے جنگ میں حصّہ لینے کےمنفی معاشی اثرات مالی سال 2006-2005ءمیں ہی سامنے آنا شروع ہو گئے تھے ۔ اگر چہ صدر پر ویز مشر ف کے دور میں معاشی ترقی کے حا می یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس دور میں جی ڈی پی کی شرح نمو بہتر رہی۔صرف ،بچتوں اورسرمایہ کاری اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ اس دلیل کا جواب انتہائی سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر معاشی شعبوںمیں ترقی ہو ئی تو وہ قلیل عرصے کے لیے تھی ، طویل عرصے کے لیے نہیں تھی ۔اگرچہ 11/9 کے بعد براہ راست بیرونی سرمایہ میں اضافہ ہو ا لیکن سرمایہ کاری کا زیادہ تر حصّہ مو اصلات او ر مالیات کے شعبے میں رہا ۔مواصلات کا شعبہ عالمی اداروں سے نجی قرضے حاصل کر نے میں ہی کامیاب رہا ۔پیداواری شعبے کی بجائے ساری توجہ بینکاری،انشورنس اور ٹیلی کمیونیکشن پر مرکوز رہی۔ترقیاتی پالیسیوں کے لیے بیرونی امداداور قرضوں کو شرائط کے ساتھ قبول کیا گیا مثلاً نج کاری کی پالیسی سے اہم یو نٹ اونے پو نے داموں بیچ دیے گئےجس سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا ۔ 11/9 کے بعد معاشی زوال میں حکمرانوں کی سیاسی پالیسیوں او ر مغرب دوست خارجہ پالیسی نے بلاشبہ ایک اہم ترین کر دار ادا کیا ۔خارجہ پالیسی کے تعین اور سیاسی معاملات میں اگر اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھا جاتاتو یقیناً بدامنی اور بے یقینی کی اس فضا سے بچا جا سکتا تھا جو ہر گز رتے دن کے ساتھ پاکستانی معیشت کے لیے نت نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔

تحریک پاکستان کی بنیاداسلامی نظریہ حیات پر رکھی گئی تھی اورپاکستان دین اسلام کے نام پر قائم کیا گیا۔لیکن افسوس اسلام کے معا شی اصولوں کو بھلا کر آج ہم ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرچکے ہیں ۔ ہر نئی آنے والی حکومت ذاتی خزانوں کو بھرنے کے لیے عالمی اداروں کے قرضوں کی طرف رجوع کرتی ہے اور ان کی تما م شرائط کو قبول کر کے سنجیدگی سے مغربی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے بھی اقدامات کرتی ہے ۔بیر ونی وسائل پر انحصار کی مالیاتی پالیسی سے قلیل عرصےمیں تومعاشی صورتحال میں بہتری آتی ہے لیکن پھر معیشت عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے ۔پاکستان کی معاشی تنزلی کی اہم وجہ سرمایہ دارنہ نظام،اشتراکیت اور آزاد معاشی نظام کے اصولوں پرمبنی معاشی پالیسیاں ہیں جو کا میاب نہ ہو سکیں کیونکہ یہ نظام انسانی ذہن کی اختراع اور مشاہدہ پر مبنی ہے جبکہ اسلامی معاشی نظام کے اصول وحی الٰہی پر مبنی ہىں جن کا عملی نفاذ عہد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم او رعہد خلفاءراشدین میں کیا گیا ۔اسلام کے معاشی اصول پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں۔مغربی سودی نظام کو اپنانے میں معاشی تنزلی اور اسلامی اصولوں کو اپنانے میں معاشی ترقی کی روشن راہیں ہماری منتظر ہیں۔اسلامی نظام کو جزوی طور پر اپنانے کی بجائے مکمل طور پر نا فذ کر نے سے ہی کامیابی ممکن ہےکیونکہ قرآن مجید میں اسلامی احکام کو کلی طور پراپنانے کا حکم ملتا ہے ﴿ادْخُلُواْفِیْ السِّلْمِ کآفَّۃً﴾[49] پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے معدنیات کی دولت ،بہترین تجارتی گزرگاہوں اور بہترین افرادی قوت سے نوازا ہے ۔اس ملک کو ایسے دیانت دار اور مخلص حکمران کی ضرورت ہے جو عالمی سامراجیت سے آزاد ہو کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے اورمعیشت کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لے کر پاکستان کی تنزلی کے اسباب کا تعین کرکے ایسی موثر پالیسی ترتیب دے جس کے عملی نفاذ سے پاکستان ترقی کی راہ پرگامزن ہو سکے ۔

مصادر و مراجع

حوالہ جات

  1. - At the Millennium:Macro Economic Performance and Prospects,Pakistan 2000,(Edited: Craig Baxter,Charles H. Kennedy), New York: Oxford University Press, Ed.2nd, 2001, pp.34-35
  2. -General Pervez Musharraf, In the Line of Fire, London:Simon and Schuster, Ed.1st,2006,p182
  3. ۔The United States and Pakistan 1947-2006 A Documentary Study(Edited:Rashmi Jain), New Dali:Radiant Publishers. Ed.1st, 2007, p.171
  4. -In the Line of Fire,p.185
  5. -Government of Pakistan,Pakistan Economic Survey 2002-03,Islamabad:Ministry of Finance,pp.152-153تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو
    • انتہائی مقروض غریب ملک (Highly Indebted Poor Countries (HIPC))ایسے ممالک جو کے انتہائی غربت کا شکار ہوں اور بنیادی ضروریات زندگی (روٹی ،کپڑااورمکان ) کو خریدنے کی بھی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔نیزجن کا قرض جی ڈی پی کے 45فیصد ہویا جس ملک کے قرض کا تناسب اُس کے زرمبادلہ کی آمدنی سے 250فیصد سے زیاد ہ ہو۔
  6. -State Bank of Pakistan,Annual Report 1999-2000,p.112
  7. -Ibid,Annual Report 2007-08,p.103
  8. -Ibid,Annual Report 2011-12,p.74
  9. -Dollors, Debt and Deficits, Lahore: Vangvard Books, 2004,p.372
  10. -Pakistan Sovereignty Lost,Islamabad:Mr.Books,Ed:1st,2006,p.94
  11. ۔الانفال۸:۳۶۔۳۷
  12. ۔ البقرة۱۴۵:۲
  13. ۔بجٹ تقریر۲۰۰۹۔۲۰۱۰، (حنا ربانی کھر )،ص ۲ ؛ http://www.finance.gov.pk/budget/budget_Speech_09_10_urdu_version.pdf retrieved 11-05-13
  14. ۔یوسف ۵۵:۱۲
  15. Pakistan Economic Survey 2007-08,p.7; 2012-13,p.5
  16. -Ibid 2011-12,p.47
    • یورپی یو نین نے پاکستان کوGeneralized Scheme of PreferencesGSP) (+ کا درجہ دیا ہے جو کہ یکم جنوری 2014سے لاگو ہو گا۔یو رپی یو نین نے پاکستان کو تین سال کے لئے ڈیوٹی فری برآمدات کی اجازت دے دی ہے۔پاکستان ٹیکسٹائل کی مصنوعات 27ممالک کو برآمد کر سکے گا۔اگر چہ پاکستان کو تجارت کے شعبہ میں فائدہ دیا گیاتاہم اس کے ساتھ خارجہ پالیسی وابستہ ہے ۔اس میں دیکھا جائے گا آیا پاکستان اگر افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کرتا ہے،پاکستان میں ڈرون حملے بند کروائے جاتے ہیں اور نیٹو کی سپلائی بند کروائی جاتی ہے تو کیاجی ایس پی پلس کا درجہ جاری رہے گا۔نیز جی ایس پلس کے درجے کے ساتھ چند شرائط بھی ہیں جن میں انسانی حقوق کا احترام بھی شامل ہے ۔بنیادی حقوق کاتعین مغرب اپنےمقاصد اور عزائم کاسامنے رکھا کر کرتا ہے جس سے معاشرتی منفی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔
  17. -Economic Predicament of Pakistan After September 11,The World After September 11: Challenges and Opportunities(Edited: Moonis Ahmer ),Karachi: University of Karachi,Ed.1st,2003.p.237
  18. ۔بنی اسرآءیل ۲۹:۱۷
  19. -http://corruptionmonitor.com/articlepakistanprivatization.html retrieved 09-09-2012
  20. ۔مسلم، مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری،ابو الحسین (م ۲۶۱ھ)، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب استحقاق الوالی الغاش لرعیتہ والنار، ۳۶۳،دارالسلام، الریاض، ط۔ الثانیة،۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰، ص ۷۳
  21. ۔الترمذی محمد بن عیسی بن سورة،ابو عیسی (م ۲۷۹ھ)، ،الجامع، ابواب الاحکام ، باب ما جاءفی ھدایا الامراء،۱۳۳۵،الریاض: دارالسلام ، ط۔ الاولی،۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء،ص۳۲۳
  22. ۔ابن سعد، محمد بن سعد الزھری (م ۲۳۰ھ)،الطبقات الکبری المعروف طبقات ابن سعد، بیروت (لبنان):دار بیروت ، ط۔ ن،۱۳۷۷ھ/۱۹۵۷ء، ۳/۲۸۲
  23. ۔بجٹ تقریر۲۰۱۱۔۲۰۱۲ء (ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ )،ص ۵؛ http://www.finance.gov.pk/budget/Final_Budget_Speech_11_12_urdu.pdf retrieved 6 -07- 2013
  24. -Changing Perceptions,Altered Reality Pakistan's Economy under Musharraf,1999-2006,Karachi:Oxford University Press,Ed:1st.,2007, p.31
  25. ۔طٰہٰ۱۲۴:۲۰
    • عام الر ماد اس لیے کہا جاتا ہے کیو نکہ زمین بارش کی قلت کی و جہ سے سیاہ ہو گی تھی حتی کہ اس کا رنگ راکھ کی ما نند ہو گیا تھا ، دو سری و جہ ہو ائیں مٹی کی راکھ کی طرح اڑتی تھیں۔حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت کا قحط تھا۔
  26. ۔الطبقات الکبری،۳/۳۲۲
  27. ۔ابن تیمیہ،احمد بن شہاب الدین ،ابو العباس ،تقی الدین (م۷۲۸ھ)،الحسبة فی الاسلام ،القاہرہ(مصر) ،المطبعة السلفیة و مکتبتھا،ط۔الثانیة ،۱۴۰۰ھ،ص۲۰۔۲۱
  28. ۔روزنامہ نو ائے وقت لاہو ر ،۲۴فروری ۲۰۱۳ء
  29. ۔روزنامہ نو ائے وقت راولپنڈی ،۱۶ مارچ ۲۰۱۳ء
  30. ۔الانعام ۱۵۱:۶
  31. ۔الترمذی، الجامع / السنن، ابواب البیوع، باب ماجاءفی التغلیظ فی الکذب، ۱۲۰۷، ص۲۹۴
  32. ۔البخاری، محمد بن اسماعیل،ابوعبداللّٰہ (م ۲۵۶ھ)، الجامع الصحیح،کتاب الحدود ، باب ظھر المومن حمی الا فی حد ا و حق ، ۶۷۸۵، الریاض:دارالسلام، ط۔ الثانیة،۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ ء، ص ۱۱۷۰
  33. ۔البلاذری، احمد بن یحی بن جابر، ابو الحسن (م۲۷۹ھ)، فتوح البلدان، بیروت (لبنان):دارالکتب العلمیة ،ط۔ الاوّلی، ۱۴۲۰ھ /۲۰۰۰ء، ص ۱۳۳
  34. ۔ الطبقات الکبری،۳/۲۹۳۔۲۹۴
  35. ۔الطّبری، محمد بن جریر، ابو جعفر (م ۳۱۰ھ)، تاریخ الامم والملوک المعروف تاریخ طبری، مطبعة الاستقامۃ، بیروت (لبنان):دارالکتب العلمیة، ط۔الثانیة،۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳ء، ۲/۵۶۷
  36. ۔البخاری ،الجامع الصحیح،کتاب الشروط،باب ما یجوز من الشّروط فی الاسلام و لا حکام والمبایعة،۲۷۱۱،۲۷۱۲،ص ۴۴۳
  37. ۔الممحتنة۱۰:۶۰
  38. ۔ابن کثیر ،اسماعیل بن عمرو،ابو الفداء، عمادالدین (م۷۷۴ھ)، تفسیر القرآن العظیم المعروف تفسیرابن کثیر، الریاض: دارالسلام،ط۔ الثانیة، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۸ء،۴/۴۵۱ ؛ القرطبی، محمد بن احمد، ابو عبداللہ (م ۶۷۱ھ)، الجامع لاحکام القران المسمّٰی تفسیر القرطبی، قاہرہ (مصر):دارالحدیث، ط۔ن،۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲ ء،۷/ xviii /۳۱۳
  39. ۔State Bank of Pakistan,Annual Report 2007-08,p.36
  40. ۔Daily Time,28 July 203
  41. ۔البقرة۱۲۶:۲
  42. ۔تاریخ الامم والملو ک، ۲/۵۶۵
  43. ۔Pakistan in 2008:Moving beyond Musharaf,Asian Survey, USA:University of California Press,Vol:49,No:1 (Jan-Feb 2009), p.24
  44. -Pakistan Economic Survey,Statistical Appendex,Table 10.1; http://finance.gov.pk/survey_1213.html retrived 28-12-2013
  45. -Ibid 2012-13,Social Indicator,pp.5-6
  46. -Education Reform in Pakistan,Washington,D.C.: Congressional Research Service, Dec 2004,CRS report number: RS22009,p.CRS-2
    http://fpc.state.gov/documents/organization/40145.pdf retrieved 10-05-2013
  47. -Pakistan Economic Survey 2012-13,Social Indicator,pp.5-6
  48. -Ibid, Statistical Appendex, Table 11.1-11.2.
  49. ۔البقرة۲۰۸:۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...