Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 33 Issue 2 of Al-Idah

ٹریڈمارک، کاپی رائٹ اور حقوق کی خرید و فروخت کا شرعی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

33

Issue

2

Year

2016

ARI Id

1682060034497_1243

Pages

52-64

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/92/85

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/92

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بہت سی ایسی چیزیں جن کی خریدوفروخت کاکوئی تصور پچھلےزمانہ میں نہیں تھا، آج وہ چیزیں دولت اور قیمتی سرمایہ تصورکی جاتی ہیں اور ان کی خریدوفروخت کاعام رواج ہوگیاہے ، اور وہ حقوق کے نام سے جانے جاتے ہیں ،مثلا:ادبی کاپی رائٹ،موسیقی کاپی رائٹ،ٹریڈمارکوغیرہ، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مختلف قسم کے حقوق کی تجارت کے متعلق آج کل شرعی حل کیاہے ۔ اس امر کو نظررکھتے ہوئے اس مقالہ کوتین مباحث پر تقسم کیاگیا:

۱ ۔بیع کی حقیقت کیاہے؟

۲۔مال کی حقیقت کیاہے؟

۳ ۔حقوق کی بیع جائزہے یانہیں؟اگر ہے توکس قسم کی بیع جائزہے؟

۱۔بیع کی تعریف کے متعلق فقہاء کرام کی آراء

۱۔ فقہاء شوافع

علماء شوافع کے نزدیک بیع کامادی اور اعیان میں سے ہوناضروری نہیں ہے بلکہ منافع بھی محل بیع ہوسکتے ہیں:چنانچہ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں: البيع تمليك عين او منفعة على التابيد بعوض مالي[1]۔کسی مال کے عوض کسی عین یامنفعت کاہمیشہ کے لیے مالک بنادینابیع کہلاتاہے۔ اورابن حجرہیثمیؒ بیع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:عقد يتضمن مقابلة مال بمال بشرطه الآتي لاستفادة ملك عين أو منفعة مؤبدة۔ بیع ایک ایساعقد ہے جس میں مال کاتبادلہ مال سے ہو،آنے والی شرطوں کے ساتھ تاکہ کسی عین یادائمی منفعت کی ملکیت حاصل ہوجائے[2]۔

مذکورہ تعریف پر چند اعتراضات کرنے کے بعد عبدالحمیدشیروانیؒ،بیع کی تعریف کے سلسلہ میں تحریرفرماتے ہیں:وقد سلم من هذه الإيرادات قول بعضهم عقد معاوضة مالية تفيد ملك عين أو منفعة على التأبيد.ان اعتراضات کی وجہ سے بعض لوگوں کاقول تسلیم کرلیاگیا،کہ بیع مالی معاوضہ کاعقدہے جوکسی متعین مادی شئ یادائمی منفعت کی ملکیت کا فائدہ دے[3]۔ان تمام تعریفات کاحاصل یہ ہے کہ شوافع کے نزدیک بیع کامادی شئ اور اعیان میں سے ہوناضروری نہیں ،بلکہ منافع کی بیع بھی جائزہے ، اس لیے وہ حقوق کی بیع کو بھی جائز قرار دیتے ہیں[4]۔

۲۔فقہاءحنابلہ

حنابلہ کے نزدیک بھی بیع میں مال کاہوناضروری نہیں ،بلکہ منافع کی بیع بھی ہوسکتی ہیں،چنانچہ شیخ منصور بن یونس الحنبلیؒ بیع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مبادلة عين مالية۔۔۔۔۔ أومنفعة مباحة مطلقا) بأن لا تختص إباحتها بحال دون آخر، بأحدهما أي عين مالية أو منفعة مباحة مطلقا۔کسی مالیت رکھنے والی شئ یامطلق مباح منفعت کاتبادلہ کسی دوسری مالیت رکھنے والی شئ یامطلق مباح منفعت سے جس کی اباحت کسی چیزکے ساتھ خاص نہ ہو،بیع کہلاتاہے[5]۔

مزىد لکھتے ہیں کسی کتاب کی بیع کتاب سے ،یاکتاب کی بیع گھر کے حق مرور سے یاحق مرور کی بیع کتاب سے یاکسی گھرکے حق مرور کی بیع دوسرے دار کے حق مرور سے جائز ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ فقہاء حنابلہ کے نزدیک بھی اعیان کی طرح منافع مال ہیں اور ان کی بیع جائز ہے۔

۳۔ فقہاء مالکیہ

مالکیہ کے نزدیک بھی مبیع کامادی ہوناضروری نہیں ،بلکہ منافع اور حقوق کی بیع بھی جائزہے،علامہ زرقانی ؒلکھتے ہیں:البيوع جمع بيع، وجمع لاختلاف أنواعه كبيع العين وبيع الدين وبيع المنفعة بیوع بیع کی جمع ہے ،اور اس کی مختلف قسمیں ہیں جیسے عین کی بیع،دین کی بیع،اور منفعت کی بیع۔[6]

اور امام سحنون ؒنے عبدالرحمن بن القاسم سے پوچھا: اگرمیں کسی شخص کے گھرمیں راستہ خریدوں تو کیایہ امام مالکؒ کے نزدیک جائزہے؟انہوں نے فرمایاہاں ۔پھر پوچھاکہ اگر کوئی شخص اپنی دیوار کی کڑی کی جگہ فروخت کرے تاکہ خریدنے والاشخص اپنی کڑی اس پررکھ سکے توکیایہ جائزہے ؟جواب دیاکہ ہاں ،یہ بھی امام مالکؒ کاقول ہے بشرطیکہ اس کڑی کاوصف بیان کردے جودیوار پر رکھی جائے گی[7]۔حح

خلاصہ یہ کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک بیع کامادی اشیاءمیں سے ہوناضروری نہیں ہےبلکہ منافع اور حقوق کی بیع بھی جائزہے ،گویاکہ ان حضرات کے نزدیک مال کی شرط کوئى لازمى شرط نہیں ہے۔

۴۔فقہاء احناف

فقہ حنفی کی عام کتابوں میں بیع کی تعریف ،مبادلة المال بالمال[8]۔سےکی گئی ہے،البتہ علامہ کاسانی [9]اور الحصکفیؒ نے بیع کی تعریف :مبادلة شئ مرغوب فيه بمثله[10] سے کی ہے ،لیکن علامہ شامی نے یہ صراحت کی ہے کہ شی مرغوب سے مراد مال ہی ہے اور اس سے وہی تعریف مراد ہے جو عام احناف نے کی ہے[11]۔

اس سے معلوم ہواکہ فقہاء احناف کے نزدیک بیع کی تعریف میں مال کی شرط بنیادی اور جوہری شرط ہے،البتہ اب سب سے اہم بحث یہ ہے کہ مال کی دُرست تعریف کیاہوسکتی ہے اور جب یہ واضح ہوجائے تو حقوق اور منافع کی بیع کامسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

۲۔ مال کی تعریف

علامہ ابن نُجیم ؒنے مال کی تعریف یہ کیاہے :مال لغت میں وہ چیز ہے جس کاتومالک بنے اس کی جمع اموال آتی ہے اسی طرح ’’قاموس ‘‘میں ہے اور ’’کشف الکبیر‘‘میں ہے مال وہ چیز ہے جس کی طرف طبعیت کامیلان ہو اور اس کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہوتاکہ بوقت ضروت کام آسکے[12]۔علامہ شامی نے بھی ’’بحرالرائق‘‘ کے حوالہ سے مال کی یہی تعریف نقل کی ہے کہ مال وہ شی ہے جس کی طرف طبعیت کامیلان ہواور وقت ضرورت کے لئے اس کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہواور آخر میں ’’تلویح ‘‘کے حوالہ سے منفعت کو مال سے خارج کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ منفعت ملک ہے مال نہیں ،اور ملک ومال میں یہ فرق بتلایاہے کہ ملک کی حقیقت یہ ہے کہ علی وجہ الاختصاص اس کے اندر تصرف کیاجاسکے،اور مال وہ ہے جس کوبوقت ضروت انتفاع کے لیے ذخیرہ کیاجاسکے[13]۔ابن نجیم اور شامی کی مذکورہ تعریف میں دوبنیادی چیزیں ہیں:

۱۔جس چیزکی طرف طبعیت کامیلان ہو۔

۲۔جس کی ذخیرہ اندوزی ممکن ہو۔

لیکن اس تعریف کی بنیادپربہت ساری چیزیں مال سے خارج ہوجاتی ہیں حالانکہ لوگ اس کو مال سمجھ کر اس کی خریدوفروخت کرتے ہیں جیسے سبزیاں ،مال ہیں ،فقہاء کے دور میں اس کی خریدوفروخت ہوتی رہی ہے اور کسی نے بھی اس کی خریدوفروخت کوناجائزنہیں قراردیاہے ،جبکہ بوقت ضروت اس کو ذخیرہ کرلیناممکن نہیں۔اگرچہ اس ترقی یافتہ دور میں عارضی طورپرکولڈ اسٹورزمیں رکھ کرکچھ دنوں تک محفوظ رکھاجاسکتاہے ،لیکن زمانہ قدیم میں اس کی ذخیرہ اندوزی ممکن نہیں تھی۔اسی طرح کڑوی دوائیں مال ہونے کے باوجوداس کی طرف طبعیت کامیلان نہیں ہوتا۔اسی طرح بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جومال نہیں ہیں لیکن وہ مال کی تعریف میں داخل ہوجاتی ہیں مثلاشراب کہ اس کی طرف طبعیت کامیلان بھی ہے اور ذخیرہ اندوزی بھی ممکن ہے لیکن اس کومال نہیں کہتے ،اس تعریف میں تنگی ہے اس لئے آج کل اس پر عمل کرنے سے بے شمار مسائل لاینحل بن جاتی ہیں ۔

احناف میں مال کی سب سے اچھی اور عمدہ تعریف علامہ کاسانی ؒنے کی ہے ،اور اس کو اختیار کرلینے میں مسلمانوں کے بہت سارے مسائل حل ہوجاتی ہیں چنانچہ وہ مال کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:ہروہ چیزجس سے انتفاع حقیقۃ کیاجاتاہواور انتفاع شرعاجائزہووہ مال ہے ،چنانچہ وہ کتے کی بیع کے جواز کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:اور ہماری دلیل یہ ہے کہ کتامال ہے لہذامحل بیع ہے جیساکہ شکرہ اور باز،اور اس کے مال ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس سے حقیقۃ انتفاع لىاجاتاہے اور تمام حالات میں شرعااس سے انتفاع مباح ہے لہذامال ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے حقیقۃ انتفاع لىا جاتاہے اور شرعااس کے مباح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس سے شکار کیاجاتاہے اور تمام مال کی حفاظت کاکام اس سے لیاجاتاہے لہذایہ محل بیع قرار پایا[14]۔

اسی طرح گوبر اور لیدکی بیع جائزہے ،کیونکہ ان سے انتفاع شرعاجائز ہے ،اس لیے یہ مال ہیں۔علامہ کاسانی ؒ کی مذکورہ تعریف بہت ہی اچھی اور عمدہ ہے اس سے مسلمانوں کے بے شمار مسائل حل ہوجاتے ہیں ،اور اس میں یُسر مدنظرہے ،توآنے والوں کے لئےاس میں ہی سہولت ہےاور اس کی تائید دیگر فقہاکرام کی تعریف سے بھی ہوتی ہے۔

چنانچہ شیخ منصور البہوتی الحنبلی ؒلکھتے ہیں:مال ہر وہ چیز ہے جس سے انتفاع عام حالات میں جائز ہو۔۔۔۔۔جیسےخچراورگدھااس لیےکہ ہرزمانہ میں لوگ ان دونوں سے نفع اٹھاتے رہے ہیں اور ان دونوں کابیع کرتے رہے ہیں اور کسی نے اس پر نکیر نہیں فرمائی[15]۔مال کی تعریف کرتے ہوئے حافظ سیوطی ؒامام شافعی ؒکاقول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:کہ مال ہروہ شئی ہے جس کی کچھ قیمت ہو، اور وہ فروخت کی جاتی ہو،اور اس کے ضائع کردینے پر ضمان لازم آتاہو[16]۔

ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی ؒنے حنفیہ کی علاوہ دیگر جمہور فقہاء کےنزدیک مال کی تعریف یہ نقل کی ہے کہ:مال ہر وہ شئ ہے جس کی کوئی قیمت ہو اور اس کے ضائع کردینے والے پرضمان لازم آئے۔۔۔۔۔حنفیہ منافع اور حقوق محضہ کو مال نہیں سمجھتے ہیں اور حنفیہ کے علاوہ دیگر فقہاء اس کو مال متقوم سمجھتے ہیں،اس لئے کہ اعیان سے مقصود منافع ہی ہوتے ہیں ،خود ذات مقصود نہیں ،ڈاکٹر صاحب نے جمہور کی تعریف کو راجح اور لوگوں کے معاملات میں اسی کومعمول بہ قرار دیاہے[17]۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئ کہ احناف میں علامہ کاسانی کی تعریف زیادہ راجح ہے جس کی تائید دیگر فقہاء کرام کی تعریف سے ہوتی ہے۔

مال ہونے میں عُرف کااعتبار

ایک چیز جو زمانہ قدیم میں مال نہیں تھی لیکن اب اس کو لوگ مال سمجھ کر اس کی خرید وفروخت کرتے ہیں توکیااس کومال قرار دیاجاسکتاہے !

تو حقیقت یہ ہے کہ عرف اور عادۃ الناس شریعت اسلامیہ کاایک ایسااہم ضابطہ ہے جس پر بے شمارفقہی مسائل کی بنیاد ہے ،یہاں تک کہ فقہاء نے اس کو اصل قرار دیاہے ،چنانچہ اصول فقہ میں ’’باب ماتترك به الحقيقة ‘‘کے تحت فرماتے ہیں کہ دلالت استعمال کی وجہ سے حقیقت چھوڑی جاتی ہے[18]۔اُصول فقہ کاقاعدہ ہے کہ ’’الثابت بالعرف كالثابت بالنص‘‘عرف سے ثابت شدہ چیز کابھی وہی حکم ہے جونص سے ثابت شدہ کاہے[19]۔اس اصل پر فقہاء نے بے شمار جزئیات متفرع کیاہے ،مثلا:کسی نے کسی کوجوتایاٹوپی یابرتن بنانے کاحکم دیااور اس کی قیمت بھی اس وقت طے پاگئ اس کو اصطلاح فقہ میں’’استصناع ‘‘کہتے ہیں، اىسے بیع کوفقہاء نے جائز قرار دیاہے۔حالانکہ قیاس کاتقاضہ یہ ہے کہ مبیع معدوم ہونے کی وجہ سے یہ بیع جائز نہ ہولیکن عرف اور عادت کی وجہ سےاس قیاس کوترک کردیاگیا[20]۔

حاصل یہ کہ احناف کے نزدیک بیع کی تعریف میں مال کی شرط بنیادی شرط ہے اور مال ہروہ شئ ہے جس سے انتفاع حقیقۃ ممکن ہو اور شرعاانتفاع جائزہواور کسی چیزکے مال ہونے میں عرف اور عادۃ الناس کابھی اعتبار ہوگااور اس کی بیع جائزقرار پائے گی ،اس سے معلوم ہواکہ وہ تمام حقوق ومنافع مال ہیں اور ان کی بیع جائزہے جن سے حقیقۃ انتفاع لىاجاتاہےاور شرعاانتفاع جائزہے اور لوگ مال سمجھ کران کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔

۳۔حقوق کی خریدوفروخت

حق عربی زبان کالفظ ہے جس کامعنی وجوب اور ثبوت ہےچنانچہ :خلیل بن احمد فراہیدی ؒلکھتے ہیں : حق الشيء يحق حقا أي وجب وجوبا[21].اور ابن دریدفرماتے ہیں:کہ حق ایسی ثابت اور واضح چیز کو کہتے ہے جس کے ثبوت میں کوئی شک نہ رہے[22]۔اور اسی کو علامہ جرجانی نے بھی لکھاہےچنانچہ وہ لکھتے ہیں:الحق: في اللغة هو الثابت الذي لا يسوغ إنكاره[23].

اور حق کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئےعلامہ مصطفی زرقاء لکھتے ہیں کہ:حق ایک خصوصی تعلق کانام ہے جس کی وجہ سے شریعت کسی اختیاریاذمہ داری کو تسلیم کرتی ہے[24]۔قرآن کریم میں لفظ ’’حق‘‘کااستعمال کثرت سے ہواہے لیکن ہرجگہ تقریبالغوی معنی مراد ہے ارشاد خداوندی ہے:وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ[25]،إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ[26]

بیع الحقوق کی مروجہ صورتیں

حقوق اور منافع کی بیع کی جو صوتیں آج کل رائج ہوگئی ہیں،وہ یہ ہیں:ادبی کاپی رائٹ یعنی حق تالیف،رجسٹرڈ ٹریڈ مارک اور ناموں کی بیع ،فضاکی بیع ،تجارتی لائسنس کے موقع سے استفادہ کرنا،حق اجارہ کی بیع جس کو پگڑی سے تعبیر کیاجاتاہے:

۱۔ ادبی کاپی رائٹ(حق تالیف)وحق ایجادوحق طباعت

حق تالیف،حق طباعت اورحق ایجاد کی خریدوفروخت آئینی طوربھی دُرست قرار دی گئی ہےاور پوری دنیامیں اس نے ایک عرف عام کی حیثیت بھی اختیار کرلی ہے ،مجوزین اس روایت سے استدلال کرتے ہیں:کہ جومسلمان پہل کرکے جس چیزکو حاصل کرلے ،وہ اس کی ملکیت ہے[27]۔حقیقت یہ ہے کہ یہ حقوق شر عامباح بھی ہیں ، قابل انتفاع بھی ہیں اور عرف میں بھی ان کی خریدوفروخت جاری ہے،لہذاان کی خریدوفروخت درست ہوناچاہئے۔

۲۔رجسٹرڈ ناموں اور نشانات کی بیع

آج کل ٹریڈ مارک اور ناموں کابھی رجسٹریشن ہوتاہے ،اگر دوسرے لوگ اس نام کااستعمال کریں توکاروباری اعتبارسے یہ بہت بڑا’’غرر‘‘اور’’خدع‘‘ہے اور خریداروں کے ساتھ دھوکہ ہے اور شریعت کے قانونی معاملات میں ایک اہم ضابطہ یہ ہے کہ ایساکوئی بھی کام نہ کیاجائے جودوسروں کے لئے دھوکہ دہی کاباعث ہو[28]،اس لئے اگر کوئی شخص نام یاتجارتی نشانات کو اپنے حق میں محفوظ کرالیتاہے،تویہ عین مطابق شرع ہے،اور دوسرے شخص یاادارہ کا اس کو استعمال کرنادھوکہ ہونے کی وجہ سے جائزنہیں ،ایک شخص کے نام یاشخص کی مہرکوئی اور شخص بنالے ،اس کی ممانعت کی وجہ سوائے اس کے اور کیاہے ؟اس سلسلہ میں حکیم الامت حضرت تھانوى ؒ[29]کافتوی نہایت چشم کشاہےکہ:

’’اپنے کاروبار کے کوئی نام رکھنے کاہرشخص کو حق حاصل ہے ،لیکن اگر ایک شخص نے اپنے کاروبار کانام ’’عطرستان‘‘یا’’گلشن ادب ‘‘رکھ لیااور اس سے اس کاتجارتی مفاد وابستہ ہوگیاتو دوسرے شخص کو وہ نام رکھنے کاحق نہیں رہااور جبکہ ایک خاص نام کے ساتھ مستقبل میں تحصیل مال اور تجارتی منافع مقصود ہے تو گڈول کامعاوضہ لیناجائز ہے‘‘[30]۔

۳۔تجارتی لائسنس کی خریدوفروخت

موجودہ دور میں اکثر ممالک حکومتی لائسنس کے بغیرمال در آمدیابر آمد کرنے کی اجازت نہیں دیتے جس کی وجہ سے تاجر حضرات اپنی تجارت کالائسنس کراتے ہیں اور بسااوقات اس لائسنس کو دوسروں کے ہاتھ فروخت بھی کردیتے ہیں ،اب یہاں بھی یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس حق کی بیع وشراء جائز ہے یانہیں؟

چونکہ اس حق سے انتفاع لیاجاتاہے اور شرعاانتفاع جائزبھی ہے نیز تاجروں کے نزدیک یہ ایک قیمتی شئ بن گیاہے ،میرے استادمفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے حق تصنیف وتالیف،حق ایجاد،تجارتی ناموں اور ٹریڈ مارکوں ،اسی طرح تجارتی لائسنس کاسرکاری رجسٹریشن کرانے سے قبل ایک متعین رقم لےکر اپنے حق سے دست برداری کو جائزقرار دیاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے سرکاری رجسٹریشن کرانے کے بعد عرف کی بنیاد پر ان کومال کے دائرہ میں شمار کرتے ہوئے ان کی بیع کوبھی جائزقرار دیاہے[31]۔

۴۔حق تعلی ’’فضا‘‘کی بیع

ہرشخص کو اپنے مکان کی چھت پر عمارت بنانے کاحق ہے ،اگر کوئی شخص اپنے اس حق کو اصل مکان کے ساتھ فروخت کرتاہے یاکسی شخص کادومنزلہ مکان ہے ،وہ اوپر والی منزل کو فروخت کرتاہے تویہ شرعاجائزہے،حتی کہ اگر اوپروالی عمارت منہدم ہوجائے توخریدنے والے کوپہلی عمارت کے مثل دوسری عمارت بنانے کاحق ہے ،علامہ شامی لکھتے ہیں کہ:اگر اوپر کامکان نیچے والےکاہےاور اس نے یہ کہاکہ اس کے اوپر کوتم سے اتنے میں فروخت کیاتو یہ صحیح ہوگا،اور نیچے کی چھت نیچے والے کی ہوگی اور مشتری کوحق قرار حاصل ہوگا،یہاں تک کہ اگر اوپر والامکان منہدم ہوجائے تو اس کو اس پر پہلے کی طرح دوسرامکان بنانے کاحق ہوگا[32]۔

البتہ اگر تنہاحق تعلی کو فروخت کیاجائے تو اس کے عدم جوازکی صراحت موجود ہے ،چنانچہ علامہ مرغینانیؒ لکھتے ہیں کہ:اگر دومنزلہ مکان ہے اور دونوں منزلیں دوشخصوں کی الگ الگ ہیں دونوں منزلیں یاصرف اوپر والی منزل گرگئ تو اوپر کی منزل والے کو اپناحق فروخت کرناجائزنہ ہوگا۔

اس کی دلیل دیتے ہوئے صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ:اس لئے کہ حق تعلی مال نہیں ہے کیونکہ مال وہ شئی ہےجس کااحراز ممکن ہواور مال ہی محل بیع ہوتاہے[33]۔

علامہ شامی ؒنے فتح القدیر کے حوالہ سے [34]حق تعلی کی بیع جائزنہ ہونے کی دلیل ان الفاظ میں دی ہے کہ حق تعلی نہ تومال ہے اور نہ ہی مال سے اس کاکوئی تعلق ہے ،مال اس لیے نہیں ہے کہ مال وہ عین ہے جس کو جمع کرنااور روک رکھناممکن ہو اور مال سے تعلق اس لیے نہیں ہے کہ اس کاتعلق فضاسے ہے اور فضاء مال نہیں اور بیع کے اندر ان دونوں میں سے کسی ایک کاہوناضروری ہے[35]۔

حق تعلی کے ناجائز ہونے کی دلیل یہ دی گئ ہے کہ یہ مال نہیں اور علامہ شامی کافتح القدیر کے حوالہ سے یہ کہناکہ اس کاتعلق مال سے نہیں ہے ،یہ اس صورت میں توتسلیم کی جاسکتی ہے جبکہ دونوں منزلیں منہدم ہوگئی ہوں اور فضاکی بیع کررہاہو،لیکن اپنے مکان کی چھت پر مکان بنانے یااس پر رہنے کاجو حق ہے ا س کوفروخت کرنے کی صورت میں بلاشبہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اس کاتعلق مال سے ہے کیونکہ اس کاتعلق پہلی منز ل سے ہے نہ کہ فضاسے اور اس کے مال ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔اور اسی کو علامہ مرغینانیؒ نے ابن سماعہ ؒ[36]سے نقل کیاہے۔جبکہ عدم جوا زکاقول انہوں نے زیادات کاقول قرار دیاہے اور اس کوفقیہ ابو اللیث [37]نے اختیارکیاہے[38]۔

اگر غور کیاجائے تو علامہ کاسانیؒ کی ذکرکردہ تعریف کی روسے حق تعلی بھی مال ہے کیونکہ اس سے انتفاع ممکن بھی ہے اور شرعاجائزبھی ،نیز اس دور میں اس کومال سمجھ کر اس کی خریدوفروخت ہوتی ہے اس کی بیع لوگوں کی ضرورت بن گئ ہے ، اس کے عدم جواز کافتویٰ دینااُمت مسلمہ کو پریشانی میں ڈالناہے ،خاص طور سے بڑے بڑے شہروں میں آبادی کے لحاظ سے شہروں کارقبہ تنگ ہونے کی وجہ سے ایک ایک مکان پر کئ کئ منزلیں بنائی جاتی ہیں ،اوراس حق تعلی کو فروخت کیاجاتاہے ،اس لئے عرف اور تعامل کی وجہ سے حق تعلی کی بیع جائز ہوناچاہئے، نیز ائمہ ثلاثہ حق تعلی کی بیع جائز قرار دیتے ہیں اور عموم بلوی کی صورت میں ائمہ ثلاثہ کاقول اختیاکرلینے کی گنجائش ہے[39]۔

۵۔حق مرورکی بیع

اپنی زمین پریامکان کی چھت سے گزرنے یادوسرے کی زمین سےگزرکر اپنی زمین میں جانے کاجو حق حاصل ہے اس کوفروخت کرنابلاکسی اختلاف کے جائزہے[40]،البتہ صرف حق مرور کی بیع میں اختلاف ہے ،زیادات کی روایت یہ کہ تنہاحق مرور کی بیع ناجائزہے ،فقیہ ابواللیثؒ نے اسی روایت کوراجح قرار دیاہے ،اس لئے کہ یہ حق ہے اور تنہاحق کی بیع جائزنہیں ہے،صاحب درمختارنے اس مسئلہ میں دوقول ذکر کرنے کے بعدجوازکے قول کے سلسلہ میں ’’وَبِهِ أَخَذَ عَامَّةُ الْمَشَايِخِ،،کہاہے یعنی عام مشائخ نے جواز کے قول کو اختیار کیاہے اور علامی شامی نے اس کے تحت سائحانی ؒ کاقول نقل کیاہے کہ ،، وَهُوَ الصَّحِيحُ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى،،یہی صحیح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔اس سے یہ واضح ہوگیاکہ فقہاء متاخرین حق مرور کی بیع کے جواز کے قائل ہیں ،ائمہ ثلاثہ نے بھی اس کے جواز کافتوی دیاہے [41]۔

۶۔حق شرب کی فروخت

حق شرب کی بیع کے سلسلہ میں بھی فقہاء احناف کی آراء مختلف نظر آتی ہیں ،ظاہرروایت یہ ہے کہ اس کی بیع جائز نہیں ہے،لیکن بہت سے مشائخ نے عرف کی وجہ سے اس کی بیع کو جائز قرار دیاہے۔ چنانچہ علامہ سرخسی تحریر فرماتے ہیں کہ:

بعض مشائخ متاخرین نے بعض شہروں میں عرف ظاہری کی وجہ سے تنہاشرب کی بیع کے جواز کافتویٰ دیاہے اگر چہ اس کے ساتھ زمین نہ ہواور یہ دیار نسف کاعرف ہے ،فقہاء فرماتے ہیں کہ استصناع کی بیع کاجو از تعامل ناس کی وجہ سے ہے اگر چہ قیاس کاتقاضا جواز کانہیں ہے اسی طرح بلازمین محض شرب کی بیع خلاف قیاس ہونے کے باوجود تعامل کی وجہ سے جائزہے[42]۔

جن فقہاء نے عدم جواز کافتویٰ دیاہے انہوں نے اس کی علت غرروجہالت بیان کیاہے ۔اس سے ظاہرہے کہ اگر شرب کاتعین کرکے غرروجہالت دور کردی جائےتو پھر اس کی بیع جائزہوگی۔

۷۔حق تسییل کی بیع

حق تسییل :گھریاکھیت کی ضرورت سے زائد یامستعمل یابارش کا پانی بہانے کاحق ۔

حق تسییل کی بیع بھی جائز ہے ،بشرطیکہ اس کی تعیین کرکے غرروجہالت دورکردی جائے ،جیساکہ علامہ شلبی ؒتحریرفرماتے ہیں کہ :أَمَّا لَوْ بَيَّنَ حَدَّا مَا يَسِيلُ فِيهِ الْمَاءُ أَوْ بَاعَ الْأَرْضَ الْمَسِيلَ مِنْ نَهْرٍ أَوْ غَيْرِهِ مِنْ غَيْرِ اعْتِبَارِ حَقِّ التَّسْيِيلِ فَهُوَ جَائِزٌ[43]۔یعنی حدمتعین ہونے کے بعد حق مسیل کی خریدوفروخت جائزہے۔

حاصل مطالعہ

حقوق کی اس بحث کاحاصل یہ نکلا کہ ان تمام حقوق ومنافع کی بیع جائزہے جن سے حقیقۃ انتفاع لىاجاتاہے اور شرعاانتفاع جائزہے اور لوگ ان کو مال سمجھ کر ان کی خریدوفروخت کرتے ہیں۔بعض وہ حقوق جن پر فی الحال ملکیت ثابت نہیں بلکہ صرف حق کااستحقاق ہوتاہے ،اس قسم کے حقوق کی بیع جائزنہیں ہے البتہ صاحب حق متعین رقم لے کر اپنے حق سے دست بردار ہوجائے توایساشرعاجائزہوگا،بشرطیکہ وہ حقوق اصالۃ محض نیکی اور صلہ رحمی کی بنیاد پر ثابت ہوں جیسے حق قصاص اور حق نکاح ۔۔۔۔۔۔اور اگر حقوق اس قسم کے ہیں جو محض رفع ضررکی بنیاد پر ثابت ہیں تونہ ان کی بیع جائزہے اورنہ ہی کوئی رقم لے کے مصالحت اور حق سے دست برداری درست ہے جیسے حق شفعہ،زوجہ کے لئے حق قسم اور مخیرہ کاحق خیار۔

حوالہ جات

  1. .البيضاوي، ناصر الدین، ابو سعید عبدالله بن عمر(م ۶۸۵ھ) الغاية القصوىٰ:1/455، دارالمعرفة، بدون التاریخ۔
  2. .الهيثمي، أحمد بن محمد بن علي بن حجر،تحفة المحتاج في شرح المنهاج،اركان البيع:4/215، الناشر: المكتبة التجارية الكبرى بمصر، محمدالطبعة: بدون طبعة، عام النشر: 1357 هـ - 1983 م. 3. حاشيه تحفة المحتاج في شرح المنهاج،اركان البيع:4/215
  3. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn4
  4. 4.النووي، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف (م676هـ) المجموع شرح المهذب، مايجوز بيعه وما لا يجوز:9/214.الناشر: دار الفكربدون طبعة، والتاريخ.
  5. .البهوتى,منصور بن يونس بن صلاح الدين ابن حسن بن إدريس الحنبلى (المتوفى: 1051هـ) دقائق أولي النهى لشرح المنتهى المعروف بشرح منتهى الإرادات,كتاب البيع:2/5, عالم الكتب,الطبعة: الأولى، 1414هـ - 1993م.
  6. 6.الزرقاني، محمد بن عبد الباقي بن يوسف المصري الأزهري,شرح الزرقاني على موطأ الإمام مالك، كتاب البيوع:3/379، الناشر: مكتبة الثقافة الدينية - القاهرة الطبعة: الأولى، 1424هـ - 2003م.
  7. 7.المدني، امام مالك بن أنس (المتوفى: 179هـ) المدونة، كتاب الغرر:3/265, دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، 1415هـ - 1994م 8.المرغيناني، علي بن أبي بكر، أبو الحسن برهان الدين (المتوفى: 593هـ) الهداية في شرح بداية المبتدي،كتاب البيوع:3/51، دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان.
  8. 9. الكاساني،علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد،الحنفي (المتوفى: 587هـ) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب البيوع:5/133، دار الكتب العلمية، طبع دوم 1406ه .
  9. 10۔ الدمشقي،ابن عابدين، محمد أمين بن عمر الحنفي (المتوفى: 1252هـ)
  10. 11.َ رد المحتار على الدر المختار،كتاب البيوع،4/502، دار الفكربيروت، الطبعة: الثانية، 1412هـ - 1992م.
  11. 12. رد المحتار كتاب البيوع،4/502
  12. 13۔ ابن نجيم، زين الدين بن إبراهيم بن محمد (المتوفى: 970هـ) 14.البحر الرائق شرح كنز الدقائق،كتاب البيوع:5/277، دار الكتاب الإسلامي، الطبعة،الثانية - بدون تاريخ.
  13. 15.رد المحتار على الدر المختار،كتاب البيوع،باب البيع الفاسد.،
  14. 16.بدائع الصنائع:5/143.
  15. 17۔ وَهْبَة الزُّحَيْلِي، الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ:4/399، دار الفكر - سوريَّة – دمشق،بدون التاريخ.
  16. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn17
  17. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn18
  18. .السرخسي،محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة أصول السرخسي:1/190، (المتوفى: 483ه) دار المعرفة ،بيروت، بدون التاريخ.
  19. .المدخل إلى دراسة المذاهب الفقهية:1/94، دار السلام القاهرة الطبعة:الثانية 1422 هـ - 2001م
  20. .مبسوط السرخسي:12/138.
  21. .الفراهيدي ،أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد(المتوفى: 170هـ) كتاب العين:3/6،دار ومكتبة الهلال.
  22. . الأزدي، أبو بكرمحمدبن الحسن بن دريد(المتوفى: 32هـ) جمهرة اللغة:1/101، دار العلم للملايين،بيروت الطبعة: الأولى، 1987
  23. . الجرجاني،علي بن محمد(المتوفى: 816هـ) كتاب التعريفات:ص89،دار الكتب العلمية بيروت،الطبعة: الأولى 1403هـ -1983م
  24. .المدخل الفقهي العام:3/10.
  25. .الانفال:۸:۷
  26. . يونس:۱۰: ۹۔
  27. 27.سنن ابی داوود:ج۳ص۱۷۷،حدیث نمبر:۳۰۷۱۔
  28. 28.الآمدي ،أبو الحسن سيد الدين علي بن أبي علي (المتوفى: 631ه ) الإحكام في أصول الأحكام:2/255، المكتب الإسلامي، بيروت ـ
  29. 29.مولانااشرف بن شیخ عبدالحق ،آپ ۵ ربیع الاول ۱۲۸۰ھ ۱۸۶۳م کو تھانہ بھون انڈیامیں پیداہوئے،ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی اور حافظ حسین علی ؒسے قرآن کریم حفظ کیا۔ ذی قعدہ ۱۲۹۵ھ میں دارالعلوم دیوبندمیں داخل ہوئے اور پانچ سال تک یہاں رہے۱۳۱۰ھ میں فراغت حاصل کی، اس وقت آپ کی عمر۱۹،۲۰برس کے لگ بھگ تھی ،عمربھر دین اسلام کی خدمت میں لگےرہے۔ طریقت کاکوچہ کوچہ چھان مارااور بالآخر۱۳۶۲ھ۔ ۱۹۴۳م کووفات پائی۔ 30.عبدالرشیدارشد،بیس بڑے مسلمان ۳۰۸۔ ۳۲۵،مکتبہ رشیدیہ ،لاھور۔
  30. 31.تھانوی ،مولانااشرف علیؒ،نظام الفتاویٰ:ج۱ص۱۳۲۔
  31. 32. العثمانی،محمد تقیِ،تکملۃ فتح الملھم :ج۱ص۳۶۴،مکتبۃ دارالعلوم کراتشی،طبع سن ۱۴۲۰ھ۔
  32. 33.ردالمحتار:ج۵ص۵۲۔
  33. 34.ہدایہ :ج۳ص۴۷۔
  34. 35.ابن الهمام كمال الدين محمد بن عبد الواحد (المتوفى: 861) فتح القدير،باب البیع الفاسد:ج۶ص۴۲۸، دار الفكر،بدون تاریخ۔
  35. 36.ابن سماعہ ،محمدبن سماعہ ۲۳۳ھ کو پیداہوئے حافظ حدیث اور ثقہ تھے،ہارون الرشیدکے دورمیں بغداد کے قاضی تھے،اور مسلک حنفی پر کمربستہ تھے،عمر سول سے تجاوزکرنے کے باوجودان کی ضبط مضبوط اورحافظہ انتہائی قوی تھا،سن ۷۴۸ھ کو وفات پائی۔ الصفدی ،صلاح الدین بن ایبک(۷۶۴ھ)الوافی بالوفیات: ج۳ص۱۴۰، داراحیاءالتراث العربی، بیروت ،۱۴۲۰ھ۔
  36. 37۔ ابواللیث ،نصربن محمد سمرقندمیں پیداہوئے ،اماالھدیٰ جیسے القاب سے موصوف تھے صوفی المزاج اور علماء احناف میں سے تھےاور سن ۳۷۳کو وفات پائی۔ الکھنوی ،عبدالحیی،الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیۃ:ص۲۲۰،قدیمی کتب خانہ ،آرام باغ کراچی،بدون تاریخ۔
  37. 38.تکملۃ فتح الملھم،کتاب البیوع:ج۱ص۳۶۱
  38. 39.محمدعبیداللہ ،جدیدفقہی مباحث:ج۳ص۱۷۸،ادارۃ القرآن گلشن اقبال کراچی،طبع سن۲۰۰۹م۔
  39. 40.الدرالمختار:ج۵ص۸۰
  40. 41.اشیۃ ابن عابدین علی الدر:ج۵ص۸۰۔
  41. 42.السرخسی،محمدبن احمد(۴۸۳ھ)المبسوط،کتاب الشرب،جزء۲۳ص ۱۷۱،دارالمعرفۃ،سن ا۴ا۴،بدون تاریخ۔ 43.الشلبی،شہاب الدین احمدبن محمد(۱۰۲۱ھ) حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، باب البیع الفاسد:ج۴ص۵۲،مکتبہ الکبریٰ،قاہرۃ،۱۳۱۳ھ
  42. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn43
  43. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn44
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...