Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 34 Issue 2 of Al-Idah

پاکستانی معاشرے میں تاخیر سے شادیوں کا اسلامی نقطہ نظر سےجائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_1249

Pages

85-97

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/67/62

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/67

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

خاندان ایک اہم سماجی ادارہ ہے،اس بنیادی سماجی ادارے کو وجود میں لانے کا ذریعہ "نکاح" ہے۔یہ نسل انسانی کے سلسلے کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔اسلام نے انسانیت کے لیے نکاح کی صورت میں ایک ایسا اعلیٰ ،ارفع اور جامع نظام عفت وعصمت دیا ہے ، جس کی روشنی میں ہر بالغ مرد وعورت جنسی میلان میں بھی فطری اور طبعی اعتدال کے ساتھ اور فواحش ومنکرات سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے نسل انسانی کی بقاء ودوام کی آبیاری کر سکتے ہیں۔لیکن موجودہ دور میں اس کے بارے میں دو طرح کی انتہائیں پائی جاتی ہیں ایک یہ کہ ہمارے ملک کے بعض علاقوں میں ایسے جوڑوں کی شادی کی جاتی جو بالکل نابالغ ہوتے ہیں تو دوسری انتہا یہ ہے کہ اتنی تاخیر سے شادیاں کی جاتی ہے کہ بڑھاپے کی عمر پہنچ جاتی ہے،دین اسلام ہمیں اعتدال کا درس دیتا ہے ۔لہذا نکاح کے معاملے میں بھی ہمیں اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔اسلامی خاندانی نظام میں زوجین کے تعلقات کو استوار رکھنے کا ذریعہ نکاح ہے۔

نکاح عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی لغوی معنی جمع کرنے کے ہیں لیکن اس لفظ کا اطلاق مجامعت، مباشرت کرنے اور عقد کے معنی پر بھی ہوتا ہے ،علامہ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: عربی لغت میں نکاح کے معنی ملنے اور ملانے کے ہیں۔ کیونکہ مجامعت اور عقد دونوں ہی میں جمع ہونا اور ملنا پایا جاتا ہے،جبکہ شرعی اصطلاح میں نکاح سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں مرد وعورت کے درمیان شرعی اصولوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق جائز اور پیدا ہونے والی اولاد کا نسب شرعاً ثابت ہوتا ہے۔[1] اسلام دین فطرت ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانوں کو زندگی بسر کرنے کے طریقے سکھائے اور ہر اس پاکیزہ عمل کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا جو فطرت کے مطابق ہو، بغیر نکاح کے مجرد زندگی گزارنا دین اسلام میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے، ازواجی زندگی گزارنا ہی شریعت کا منشاء ہے۔اس لیے نکاح انسانی معاشرہ کے بقاء کا ایک بنیادی ستون ہے اور شرعی نقطہ نظر سے اس کو ایک خاص اہمیت وفضیلت حاصل ہے ،یہ صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن اور جنسی خواہشات کو پورا کرنے کا صرف ایک ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ دو خاندانوں میں باہمی الفت ومحبت اور ملاپ کا ذریعہ بھی ہے۔ چنانچہ حضرت آدم ؑ سے لے کر آپ ﷺ تک کوئی آسمانی شریعت ایسی نہیں گزری جس میں نکاح کی ترغیب نہ دی گئی ہو۔نکاح کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نہ صرف نکاح کا ذکر ملتا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس کو "ميثاقاً غليظاً[2]" یعنی پختہ عہد یا مضبوط عہد نامہ" قرار دیا ہے۔ نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وانْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وإمائكم اِنْ يَّكُوْنُوْا فقراء يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فضله وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ‘‘ [3]

"تم سے جو مرد وعورت بےنکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہونگیں تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا علم والا ہے۔"

اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ تم میں سے جو بغیر نکا ح کے ہیں تو ان کے نکاح کر دو اگر تمہیں مفلس ہونے کا ڈر ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ومہربانی سے تمہیں مال ودولت دے گا۔اگر کوئی شخص اپنے ایمان واخلاق کی حفاظت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے نکاح کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ نے خوشحالی کا وعدہ فرمایا ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کی مشروعیت پر اجماع نقل کی گئی ہے۔ علامہ ابن قدامہ ؒ " المغنی" میں لکھتے ہیں: وأجمع المسلمون علی ان النکاح مشروع،[4] " اور تمام مسلمانوں کا نکاح کے مشروع ہونے پر اجماع ہے۔" بلکہ قرآن مجید میں ایک دوسری آیت میں مسلمانوں کو کئی نکاح کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے:

فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النساء مَثْنٰى وَثُلٰثَ ورباع فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً [5]

"تو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو ۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے)"۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُکَاثِرٌ بِکُمْ الْأُمَمَ[6]

"کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نکاح میری سنت ہے جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نکاح کیا کرو اس لئے کہ تمہاری کثرت پر میں اور امتوں کے سامنے فخر کروں گا۔"

اسی طرح صحیح مسلم میں نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ[7]"اے نوجوانوں کے گروہ! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کر لے کیونکہ نکاح کرنا نگاہ کو بہت زیادہ نیچا رکھنے والا اور زنا سے محفوظ رکھنے والا ہے ۔"

مندرجہ بالا آیات قرآنی آیات واحادیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ نکاح کی اہمیت وافادیت پر اسلامی شریعت میں کتنا زور دیا گیا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جس کے رہنے والے مشرقی اقدار و روایات کے حامل تصور کئے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصے سےعالمی سطح کی تبدیلیوں، تعلیم، ملازمت او ر آگاہی کی وجہ سے شادیوں کی اوسط عمر میں اضافہ دیکھنے میں آرہاہےجو کہ خاندانی نظام کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تاخیر سے شادی کا رواج بڑھ رہا ہے۔[8] اسی طرح نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کےسروے کے مطابق خواتین کی اوسط شادی کی عمر 1961 میں 16 سال تھی جو کہ 1998 میں بڑھ کر 22 سال ہوگئی، اسی طرح مردوں کی شادی کی اوسط عمر 22سال سے بڑھ کر 26سال ریکارڈ کی گئی۔[9] شادی کی عمر میں اس اضافے کے ساتھ بچوں کی پیدائش کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔

ہمارے ہاں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر 16 سے 20 سال یا زیادہ سے زیادہ 25 سال تک ان کی شادی ہونی چاہیے جبکہ لڑکوں کی شادی 25 سے 28 یا 30 سال تک ہو جانی چاہیے لیکن اگر یہ عمریں نکل جائیں تو یہ " تاخیر کی شادی " کہلائے گی۔ شادی میں تاخیر یوں تو لڑکے اور لڑکی دونوں طرف سے ہو رہی ہے لیکن زیادہ تر مشکلات لڑکیوں کو پیش آتی ہے اس لیے کہ اگر ان کی شادی کی مناسب عمر نکل جائیں تو بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جب شروع شروع میں رشتے آتے ہیں تو لڑکی کے والدین خوب سے خوب تر کی تلاش میں انکاری ہوتے ہیں اور جب رشتے آنا بند ہو جاتے ہیں تو پھر مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

موجودہ زمانے میں تاخیر سے شادی کا رجحان بھی نیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔تعلیمی وصنعتی ترقی اور معاشرے میں دوسری تبدیلیوں کی وجہ سے خصوصاً شہری علاقوں میں یہ روش دیکھنے میں آرہی ہے، لڑکے ولڑکیوں کی زیادہ عمروں میں شادیاں ہو رہی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ لوگ تاخیر سے شادیاں کیوں کر رہے ہیں؟ اور اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اسلامی نقطہ نظر سے تاخیر سے شادی کرنے کے بارے میں ہمارے لیے کیا احکامات ہیں ؟ اس مقالے میں ان سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

شادی کی عمر پاکستانی عائلی قوانین کےمطابق کیا ہے؟

دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرح برصغیر پاک وہند میں بھی شادی کی کوئی خاص مدت متعین نہیں تھی اور چھوٹى عمر کى شادیوں کا رواج بھی عام تھا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ انگریز سرکار نے 1929 میں بچگانہ شادیوں کی ممانعت کا قانون[10] (Child Marriage Restraint Act) متعارف کروایا جس کی رو سے لڑکیوں کے لئے شادی کی کم ازکم عمر 14 سال اور لڑکوں کے لئے کم ازکم عمر 18 سال مقرر کی گئی۔ 1961 میں "مسلم عائلی قوانین آرڈیننس" کا نفاذ کیا گیا جس کی رو سے 1929 کے قانون میں ترمیم کرکے لڑکی کے لئے شادی کی کم ازکم عمر 16 سال کر دی گئی۔[11] جہاں تک شادی کی زیادہ سے زیادہ عمر کا تعلق ہے تو اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے اور نہ ہی قانون تاخیر سے شادی کو منع کرتاہے، اس طرح یہ ایک خالصتاً سماجی اور مذہبی مسئلہ بن کر رہ جاتا ہے۔

تاخیر سے شادی کے وجوہات و اسباب اور اس کے بارے میں اسلامی ہدایات:

اسلام میں تاخیر سے شادی کو مستحسن قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ بلوغت کے بعد کی شادی کو ترجیح دی ہے۔ احادیث میں یہ ترغیب دی گئی ہے کہ بالغ ہونے کے بعد نکاح جلد از جلد کرنی چاہئے آپ ﷺ نے حضرت علی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا کُفْئًا[12] " اے علی تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ میں جب حاضر ہو اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا ہم پلہ رشتہ مل جائے"

اور اسی طرح نیک بخت بیوی کو دنیا کی بہترین متاع کہا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ"[13] " دنیا پوری کی پوری مال و متاع ہے اور دنیا کی بہترین اور زیادہ نفع بخش چیز نیک عورت ہے۔

لیکن مذہب سے دوری کی وجہ سے ہمارے ہاں ترجیحات میں تبدیلی آگئی ہے یعنی مغربی تہذیب وتمدن کا رنگ ہمارے اوپر کچھ اس طرح سے غالب آیا ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارا طرز زندگی تبدیل ہو رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ،مغرب کی بہت سی خامیاں ہم نے اپنا لی ہیں ،یہاں تک کہ شادی جیسا خوبصورت بندھن کو غلط روایات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔لڑکے اور لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کے مختلف اسباب ہیں جن میں سے درجہ ذیل زیادہ اہم ہیں :

جہیز:

جہیز سے مراد وہ سامان جو بیٹی کی شادی میں ماں باپ کی طرف سے دیا جائے ،اس میں زیورات، ملبوسات،فرنیچر اور آرائشی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں جہیز کو شادی کا ایک ناگزیر حصہ قرار دے دیا گیا ہے،اس کے بغیر کسی بھی لڑکی کی شادی کا تصور محال ہو کر رہ گیا ہے ۔جہیز پر پورے گھرانے کے عزت و وقار کا انحصار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ والدین عمر بھر کی جمع پونجی خرچ کرکے، قرض لے کر یا جائیداد فروخت کرکے کسی نہ کسی طرح جہیز کا انتظام کر دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں ان کی عزت برقرار رہے اور لڑکی کے سسرال میں بھی عزت ہو۔اسی وجہ سے بہت سی لڑکیاں شادی کی مناسب عمر سے تجاوز کر جانے کے باوجود کنواری بیٹھی رہتی ہیں ۔جبکہ بعض لڑکیاں دن رات محنت وملازمت کرکے کچھ رقم جمع کر لیتی ہے تاکہ وہ اپنے لیے جہیز تیار کر سکے اور اپنے شوہر پر مال خرچ کر سکے حالانکہ مردوں کی قوامیت کی ایک وجہ قرآن مجید میں یہ بیان ہوئی ہے کہ شوہر اپنے بیویوں پر مال خرچ کرتے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النساء بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰي بَعْضٍ وبما اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ"[14]" مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں"۔

یہاں سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ شوہر بیوی پر مال و دولت خرچ کرتا ہے اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھاتا ہے ۔ ایک صحابی سے روایت ہے: يا رسول الله، ما حق زوج أحدنا عليه؟ قال: " تطعمها إذا أكلت، وتكسوها إذا اكتسيت، ولا تضرب الوجه [15]"میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم جو پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، شرعی اعتبار سے جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اسے اپنی استطاعت کے مطابق کوئی تحفہ دے ، جہیزنہ تو شادی کے لیے کوئی لازمی شرط ہے اور نہ ہی سسرال والوں کو کوئی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کا مطالبہ کریں،ہمارے ہاں عام طور پر جو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی جہیز دیا تھا ،اس کی حقیقت یہ ہے کہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے کفالت میں تھے اور ان کا کوئی علیحدہ گھر نہیں تھا ،اس لیے آپﷺ نے ان کا گھر بسانے کے لئے کچھ ضروری گھریلو سامان رخصتی کے موقع پر عنایت فرمایاتھا ۔یہ سامان مروجہ جہیز کی قسم سے نہ تھا ، دیگر تین صاحبزادیوں کے نکاح کے موقع پر آپ ﷺ نے جہیز نہیں دیا ہے، اسی طرح جہیز کا ثبوت نہ تو ازواج مطہرات مىں سے کسی کے نکاح میں ہے اور نہ ہی اہل عرب میں اس کا رواج تھا۔[16]جہیز ایک معاشرتی مسئلہ ہے اول تو اسے نمود ونمائش کا ذریعہ بنایا جاتا ہے،اور دوسرے لڑکے والے اسے اپنا حق سمجھتے ہیں،زیادہ جہیز کی امیدیں رکھتے ہیں،بعض اوقات تو اس کی کمی کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر والوں کو مطعون کیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر ہو جاتی ہیں۔لہذا ان تصورات کی قباحتیں مختلف انداز واسلوب سے متواتر بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کا کوئی طبقہ ان خرافات کی وجہ سے متاثر نہ ہو۔

آئیڈیل کی تلاش کا مسئلہ :

نوجوان اپنے تصورات میں ہونے والے شریک حیات کے لئے ایک خاص خاکہ بنا لیتے ہیں اور جب تک انہیں اپنے مطلوبہ تصور کے مطابق جوڑا نہیں ملتا وہ شادی میں تاخیر کرتے رہتے ہیں ، آئیڈیل کی تلاش میں اکثر نوجوانوں کی عمریں بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی شادیوں میں تاخیر ہو جاتی ہیں یا ان کی شادی ہی نہیں ہوتی ، حالانکہ قرآن مجید میں نکاح کرنے کا حکم ہے وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ[17] یعنی تم سے جو مرد وعورت بےنکاح ہوں ان کا نکاح کر دو " اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ارشاد ہے :

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ إِلَيْکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ "[18]

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین واخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کرو، اگر ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ برپا ہو جائے گا اور بہت فساد ہوگا "۔

یعنی اگر تمہارے پاس تمہاری لڑکی کے لئے کسی ایسے لڑکے کا رشتہ آئے جو تمہیں پسند ہو، ظاہری اعتبار سے بھی اور دین کے اعتبار سے بھی ،تو اس رشتے کو قبول کر لو اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔ چنانچہ وہ فتنہ اس طرح پھیل رہا ہے کہ گھروں میں لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں اور رشتے بھی موجود ہیں ،لیکن آئیڈیل کا انتظار ہے اور اس بات کا انتظار ہے کہ حور پری صورت یا کوئی شہزادہ آجائے تو پھر وہ شادی کے لئے حامی بھر لیں گے، لیکن جن کی ظاہری شکل وصورت اچھی نہیں وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی تو انسان ہیں، ان کے دلوں میں بھی جذبات وخواہشات ہیں،جب وہ خواہشات جائز طریقے سے پوری نہیں ہوں گى تو شیطان ان کو ناجائز طریقے کی طرف لے جائے گا اور اس سے فتنہ وفساد پھیلے گا ،موجودہ دور مىں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے روگردانی کے نتیجے میں کیسا فتنہ وفساد پھیلا ہوا ہے۔

برادری میں نکاح:

اسلامی تعلیمات سے غفلت اور ناواقفیت کی وجہ سے اکثر لوگ شادی بیاہ کے معاملے میں اپنے خود ساختہ خیالات کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں جن میں سے ایک برادری میں نکاح بھی ہے اس کے بارے میں لوگ طرح طرح کی غلط فہمیوں کے شکار ہیں،یہ درست ہے کہ شریعت نے نکاح کے معاملے میں ایک حد تک "کفو" کی رعایت رکھی ہے،کفو سے مراد "ہمسری،برابری " کی ہیں ،عرب "کافاہ" کا لفظ اس وقت بولتے ہیں جب کوئی چیز کسی دوسری چیز کے برابر ہو، اور نکاح کے باب میں اس سے مراد وہ مخصوص برابری ہے جودین و مذہب ،امانت ودیانت،مال ونسب ،آزادی اور پیشہ وتعلیم میں ہمسر ہو،[19] اس کا مقصد یہ ہے کہ نکاح کے بعد چونکہ زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے اس لئے میاں وبیوی اور دونوں خاندانوں کے درمیان طبعی ہم آہنگی ہو،ان کے طرز ِ فکر،رہن سہن اور ان کے مزاج میں اتنی دوری نہ ہو کہ ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کرنے میں دشواری پیش آئے، لیکن یہ سمجھنا غلط ہے کہ کفو سے باہر نکاح کرنا شرعاً بالکل ناجائز ہے ۔ کیونکہ بحىثیت مسلمان ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ أخويكم وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔[20] "(یاد رکھو) سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے " اس لئے اگر لڑکی اور اس کے اولیاء کفو سے باہر نکاح کرنے پر راضی ہوں، تو کفو سے باہر کیا ہوا نکاح بھی شرعاً منعقد ہو جاتا ہے،اس میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ کوئی حرج ہے، برادری میں رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے لڑکی کی شادی میں تاخیر کرنا یا عمر بھر بغیر شادی کے بٹھائے رکھنا کسی طرح جائز نہیں ہیں۔احادیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ اس عورت سے نکاح کی جائے جو شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی ہو۔ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَمَنْصِبٍ إِلَّا أَنَّهَا لَا تَلِدُ أَفَأَتَزَوَّجُهَا فَنَهَاهُ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَنَهَاهُ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ فَنَهَاهُ فَقَالَ تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِّي مُکَاثِرٌ بِکُمْ [21]" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ کو ایک حسب و نسب والی خاتون ملی ہے لیکن وہ عورت بانجھ ہے (یعنی اس میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے) کیا میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے شادی کرنے کو منع فرما دیا پھر دوسرا شخص حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرما دیا پھر تیسرا آدمی حاضر ہوا تو اس کو بھی منع فرما دیا اور فرمایا کہ تم ایسی خواتین سے نکاح کرو کہ جو اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور مرد (یعنی شوہر سے) محبت کرنے والی ہوں اس لئے کہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری کثرت پر فخر کروں گا۔ (یعنی قیامت کے دن امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اضافہ پر فخر کروں گا)"

کفو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خاص اپنی برادری ہی میں رشتہ کیا جائے ،اور برادری کے باہر سے جو بھی رشتے آئیں انہیں غیر کفو قرار دیا جائے۔ کفو میں ہونے کے لئے اپنی برادری کا فرد ہونا ضروری نہیں،بلکہ اگر کوئی شخص کسی اور برادری کا ہے لیکن لڑکی اور اس کے خاندان کا ہم پلہ ہے تو وہ بھی اس کا کفو ہے اور یہ بات بھی شرعاً درست نہیں ہے کہ" سید" لڑکی کا نکاح غیر سید گھرانے میں نہیں ہو سکتا، بلاشبہ "سید" خاندان سے نسبی وابستگی ایک بہت بڑا اعزاز ہے،لیکن شریعت نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ اس خاندان کی کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح باہر نہیں ہو سکتا قریشی نسب کے لوگ بھی شرعی اعتبار سے سادات کے کفو ہیں، ان کے درمیان نکاح کا رشتہ قائم کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے،بلکہ قریش سے باہر کے خاندانوں میں بھی باہمی رضا مندی کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے۔

غربت کا مسئلہ:

تاخیر سے شادی کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ غربت کا بھی ہے کہ لڑکے کا تعلق کسی غریب یا متوسط گھرانے سے ہوتا ہے اور وہ اپنی شادی کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکتا ، اس لئے نکاح کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے، جبکہ شریعت نے نکاح کو اتنا آسان کر دیا ہے کہ اس میں معمولی پیسے کا خرچ بھی نہیں ہے ،کسی تقریب یا دھوم دھام کی ضرورت نہیں ہے،یہاں تک کہ مسجد جانا اور کسی سے نکاح پڑھوانا بھی شرط نہیں ہے۔بلکہ نکاح ایجاب وقبول کے ذریعہ منعقد ہوتا ہے کہ میاں بیوی اور دو گواہ ایک مجلس کے اندر موجود ہوں،اس مجلس میں دو گواہوں کے سامنے مرد یہ کہے کہ میں نے تمہارے ساتھ اپنا نکاح کر لیا اور اس کے جواب میں عورت یہ کہے کہ میں منظور کرتی ہوں یا جیسے عورت یوں کہے کہ میں نے اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں دے دیا، یا عورت کا ولی، مرد سے یہ کہے کہ میں نے فلاں عورت کا جس کا نام یہ ہے، تمہارے ساتھ نکاح کیا اور اس کے جواب میں مرد یہ کہے کہ میں نے منظور کیا،بس نکاح ہو گیا ،البتہ نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا سنت ہے لیکن نکاح کے لئے اسلام میں نہ خطبہ پڑھنا شرط ہے نہ مسجد میں جانا شرط ہے اور نہ ہی کسی مولوی یا قاضی سے نکاح پڑھوانا شرط ہے۔

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مروی ہے جس میں تین اشخاص کے بارے میں بتایا گیاہے کہ ان کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ پر ان کا حق ہے ان میں سے ایک وہ غریب شخص بھی ہے جس نے عفت محفوظ رکھنے کے ارادے سے نکاح کیا: والناكح الذي يريد العفاف[22] "وہ شخص جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرنے والا ہو۔"

آج ہم نے نکاح کو ایک عذاب بنا لیا ہے، کوئی شخص اس وقت تک شادی نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس لاکھوں روپے موجود نہ ہوں، کیونکہ نکاح سے پہلے منگنی کی جاتی ہے اس رسم کے لئے پیسے چاہئے،مہندی کی رسم کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور شادی کے لئے اتنا زیور اور اتنے کپڑے چاہئے ،ہم مسلمانوں نے اس میں طرح طرح کے خرافات داخل کرکے کس قدر مشکل بنا دیا ہے۔شادی کی خوشی کے خاطر حقوق اللہ کی پامالی کی جاتی ہے ، محض جھوٹی شان دکھلانے کے لئے کس قدر بے خوفی کے ساتھ اسراف اور فضول خرچی کا ارتکاب کیا جاتا ہے حالانکہ قرآن مجید میں اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كانوا اِخْوَانَ الشياطين وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهِ كَفُوْرًا [23]"کہ بےجا خرچ کرنے والے یقینی طور پر شیطانوں کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے،"

اس طرح نکاح کرنے میں فضول رسم ورواج نے کافى مشکلات پیدا کردی ہیں، جس نے نکاح کو ایک عذاب بنا دیا ہے جبکہ شریعت میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں بلکہ حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة [24]"بلاشبہ بہت زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو محنت کے لحاظ سے آسان ہو" کہ جس نکاح میں جتنی سادگی ہو گی اسی قدر اس نکاح میں خیر وبرکت ہو گی۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایک مشہور صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ جو عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں ایک دن آپ ﷺ سے اس کی ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے دیکھا کی ان کے کپڑے پر زعفران کا نشان تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے ایک عورت سے نکاح کیا ہے ، نکاح کے وقت خوشبو لگائی تھی ،یہ اس خوشبو کا نشان ہے۔[25] یہ سابقین اولین صحابہ میں سے ہیں لیکن اس نے نکاح کر لیا اور حضور ﷺ کو اس تقریب میں بلایا تک نہیں ،آپ ﷺ نے بھی ان سے کوئی شکایت نہیں کی بلکہ برکت کی دعا کی۔

نکاح وشادی کے بارے میں اسلام کا مزاج سادگی کا ہے ۔ آج ہم نے غیر مسلموں اور ہندؤں کے ساتھ رہنے کے نتیجے میں اپنے شادی میں اتنی رسمیں ورواج بڑھا لی ہیں کہ نکاح ایک عذاب بن کر رہ گیا ہے اس وجہ سے ایک عام آدمی کے لئے نکاح کرنا بڑا مشکل ہو گیا ہے اور اکثر شادیوں میں تاخیر اسی وجہ سے ہو جاتی ہیں ، لیکن شریعت نے نکاح کرنے کو آسان کر دیا ہے۔

شکل وصورت کا مسئلہ:

مردوں کی عام ذہنیت ہےکہ وہ خوبصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں خواہ وہ خود شکل وصورت کے اعتبار سے جیسے بھی ہوں، اس سلسلے میں ان کا معیار کافی بلند ہوتا ہے، اسی وجہ لڑکیوں کا خوبصورت ہونا یا نہ ہونا بھی ان کی شادیوں میں تاخیر کا ایک اہم سبب ہے حالانکہ خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے اور چار چیزوں کی قسم کھا کر ارشادفرمایا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ۔ [26]"یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا" احسن تقویم سے مراد یہ ہے کہ اس کی جبلت و فطرت کو بھی دوسری مخلوقات کے اعتبار سے احسن بنایا گیا اور اس کی جسمانی ہئیت اور شکل و صورت کو بھی دنیا کے سب جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا۔اسی وجہ انسان کو حق تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"تُنْکَحُ النِّسَاءٌ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ" [27]

"عام طور پر عورت سے نکاح چار وجوہ سے کیا جاتا ہے مال کی وجہ سے حسب کی وجہ سے حسن کی وجہ سے اور دینداری کی وجہ سے پس تو دیندار عورت کو ترجیح دے (اگر تو نے دین کو ترجیح نہ دی تو) تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔"

ہمارے یہاں لڑکے والوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ہونے والی بہو حور پری اور خوبصورت وپرکشش ہو ، جس مرد کی شادی ہو رہی ہوتی ہے صرف اس کے گھر والوں کی ہی نہیں بلکہ خود مرد کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی خوبصورت ہو ، غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہو کہ لوگ کہیں گے کہ دلہن بہت خوب صورت ہے یا یہ کہ بڑا اچھا انتخاب ہے اور لوگ خوش قسمت سمجھیں گے وغیرہ جبکہ رسول ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

لَا تَزَوَّجُوا النِّسَاءَ لِحُسْنِهِنَّ فَعَسَی حُسْنُهُنَّ أَنْ يُرْدِيَهُنَّ وَلَا تَزَوَّجُوهُنَّ لِأَمْوَالِهِنَّ فَعَسَی أَمْوَالُهُنَّ أَنْ تُطْغِيَهُنَّ وَلَکِنْ تَزَوَّجُوهُنَّ عَلَی الدِّينِ وَلَأَمَةٌ خَرْمَاءُ سَوْدَاءُ ذَاتُ دِينٍ أَفْضَلُ۔[28]

"عورتوں سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی نہ کرو ہوسکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی ان کو ہلاکت میں ڈال دے اور نہ ان سے ان کے اموال کی وجہ سے ہوسکتا ہے ان کو مال سرکش بنادیں گے البتہ دینداری کی بنیاد پر شادی کرو اور یقینا کان میں سوراخ والی کالی باندی جو دیندار ہو بہتر ہے۔"

پہلے زمانے میں شادی کے لئے خوبصورتی سے زیادہ سیرت واخلاق وکردار اور خاندانی شرافت کو دیکھا جاتا تھا لیکن آج کل ان اقدار کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے اور دولت، مرتبہ، زور وقوت اور شکل وصورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔

خلاصۃ البحث:

خاندان انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اورزمانہ قدیم سے دنیا کی ہر تہذیب وتمدن میں موجود ہے۔ خاندان کے وجود کا ذریعہ نکاح ہے جو مختلف خاندانوں میں مضبوط رشتہ قائم رکھتی ہے۔ شادی اگر مناسب عمر میں کی جائے تو بہت سے مسائل سے بچاجاسکتا ہے۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں تاخیر سے شادی کرنے کا رواج بڑھ رہا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً غربت،لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم، بیروزگاری اور جہیز وغیرہ۔ تاخىر سے کى جانے والى شادیوں کی وجہ سے خاندانی نظام کوشدید خطرات درپیش ہیں اور شرح پیدائش میں بھی کمی آرہی ہے۔ تاخیر سے شادی کی وجہ سے لڑکیاں خصوصی طور پر متاثر ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ بوڑھی ہو جاتی ہیں اور مختلف قسم کی جسمانی ونفسیاتی بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتی ہیں خصوصاً ان کی تولیدی صلاحیت کم ہو جاتی ہے ۔اس صورت حال کا حل یہ ہے کہ معاشرہ کے بااثر لوگ اپنی شادیوں کی تقریبات میں سادگی اختیا ر کریں اور غیر اسلامی رسموں کو یکسر چھوڑ دیں۔ علماء اور ماہرین سماجیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کریں اور خاندانی نظام کو کمزور ہونے سے بچائیں۔

حوالہ جات

  1. ۔ شامی، ،علامہ محمد امین، حاشیہ ابن عابدین، بیروت،دارالفکر،1421ھ ،ج3،ص3
  2. ۔ القرآن ،سورۃ نساء،آیت 21
  3. ۔ القرآن ،سورۃ النور،آیت 32
  4. ۔ ابن قدامہ، ابو محمد عبداللہ بن احمد المقدسی،المغنی،بیروت،،دارالفکر،1405ھ ،ج7،ص4
  5. ۔ القرآن ،سورۃ نساء،آیت 3
  6. ا۔بن ماجہ،ابو عبداللہ محمد بن یزید القزوینی ،سنن ابن ماجہ،بیروت،،دارالفکر ،حدیث نمبر 1846
  7. ۔صحیح مسلم، ابو الحسین مسلم بن حجاج القشیری،بیروت،داراحیاء، التراث العربی، حدیث نمبر 1400
  8. ۔ سلیم، حنا، دی ایکسپلورر اسلام آباد، جرنل آف سوشل سائنسز، والیوم 1، ایشو7، آئی ایس ایس این 5487-2411
  9. ۔ پاکستان فرٹیلیٹی اینڈ فیملی پلاننگ سروے 1997-1996، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز، اسلام آباد۔
  10. ۔ فارانی (2011)، فیملی لاز ان پاکستان، ندیم لاء بک ہاوس، لاہور، صفحہ 118
  11. ۔ ایضا، صفحہ 17
  12. ۔ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی،دار احیاء التراث،بیروت،حدیث نمبر 171
  13. ۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1467
  14. ۔ القرآن ،سورۃ نساء،آیت 34
  15. ۔شیبانی،ابو عبداللہ احمد بن حنبل ، مسندالامام احمد بن حنبل ، موسسۃ قرطبۃ ، القاھرہ حدیث نمبر 20011
  16. ۔ نعمانی، مولانا محمد منظور،معارف الحدیث،دارالاشاعت،کراچی،2001ء،ج 8،ص399
  17. ۔ القرآن ،سورۃ النور،آیت 32
  18. ۔جامع ترمذی، ج 1، حدیث نمبر 1084
  19. ۔ حصکفی،علامہ علاء الدین ،درمختار،بیروت،دار الفکر،1395ھ،ج3،ص3
  20. ۔القرآن ،سورۃ الحجرات،آیت10
  21. نسائی، ابو عبدالرحمٰن احمد بن علی ،السنن النسائی،مکتب المطبوعات الاسلامیہ ،حدیث نمبر 3227
  22. ۔سنن نسائی حدیث نمبر 3218/جامع ترمذی حدیث نمبر 1655
  23. ۔القرآن ،سورۃ الاسراء،آیت 27
  24. ۔مسند احمد بن حنبل، ،حدیث نمبر 24527
  25. ۔ صحیح مسلم ، حدیث نمبر1427
  26. ۔القرآن ،سورۃ التین ،آیت 4
  27. ۔صحیح مسلم،حدیث نمبر 1466 /سنن ترمذی، حدیث 1086
  28. ۔سنن ابن ماجہ،ج 2، حدیث نمبر 1859
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...