Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 28 Issue 1 of Al-Idah

پاکستان کا مسئلہ نمبر 1 کرپشن: اسباب اور خاتمہ تعلیمات نبویﷺ کے آئینے میں |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

28

Issue

1

Year

2014

ARI Id

1682060034497_1248

Pages

157-172

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/309/247

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/309

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

تمہىد:

پاکستانی تھِنک ٹینک کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ فی زمانہ مملکت پاکستان کا مسئلہ نمبر1کرپشن ہے۔جبکہ بعض ماہرین کے خیال میں اس وقت انرجی کابحران سب سے بڑامسئلہ ہے۔کچھ تجزیہ نگار دہشت گردی کو وطن عزیز کا سب سے بڑامسئلہ قراردے رہے ہیں لیکن اگر گہرائی سے ان بحرانوں کا جائزہ لیا جائے۔تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے۔کہ ان تمام مسائل کا سبب کرپشن ہے۔کیونکہ کرپشن ہی کی وجہ سے نئے نئے بحران جنم لے رہے ہیں۔اگرپاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکارنہ ہوتی تو انرجی وغیرہ کا بحران پیداہی نہ ہوتا۔کرپشن ہی کے سبب اس وقت مملکت پاکستان پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھتا جارہاہے۔انرجی کے بحران کے سبب ملک کی ٹیکسٹائل تباہ ہوچکی ہے۔کپڑے کے کارخانے ملک سے باہر بنگلہ دیش وغیرمیں منتقل ہوررہے ہیں۔ملک کی آباد ی کی اکثریت جوکہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔بے روزگار ہے۔اور ملک سے فراراختیارکرنے کی راہ تلاش کررہے ہیں۔بے روزگاری کے سبب ملک میں طرح طرح کی سماجی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔الغرض کرپشن کے منفی اثرات پاکستانی سماج پر بھی پڑ رہے ہیں۔اچھے اقدار کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرنے کیلئے لوگ ہر جائز وناجائز کام کربیٹھتے ہیں۔خاندانی نظام کا شیرازہ بکھررہا ہے۔غربت کے سبب بے شمار مرداور عورتیں شادی سے محروم ہیں۔گھروں میں اس وقت کم وبیش لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں جوان لڑکیاں شادی کے منتظر ہیں۔مگرحالات ان کے حق میں سازگارنہیں ہیں۔یہی حالت جوان مردوں کی بھی ہے۔شادی کی شرح میں کمی کے سبب ملک کی افرادی قوت کمزوریعنی کم ہوتی جارہی ہے۔ملک کی کمزورمعیشت کو سہارادینے کا واحد ذریعہ افرادی قوت(Man Power)ہی تھا۔جس کو بھی مختلف بہانوں سے کم اور کمزور کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی مختصرتاریخ میں ایک زمانہ تھا کہ کرپشن کے حوالے سے ملک میں چند محکمے بدنام تھے۔جیسے محکمہ پولیس اور کسٹم وغیرہ۔ جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے۔کہ ملک میں کوئی محکمہ یا ادارہ شاید ہی ایسا ہو جو کرپشن سے پاک ہو۔بیک وقت افراد اور ادارے کرپشن کی کسی نہ کسی شکل میں ملوث نظرآتے ہیں۔نتیجتاً اس کے انتہائی منفی اثرات ملک کی معیشت اور ترقی پر پڑ رہے ہیں۔دوسری جانب دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کرپٹ افراد اور اداروں کا احتساب بھی نہیں ہورہا ہے۔الغرض اس مختصرتمہید کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے کرپشن کا مفہوم واضح کیا جائے۔

کرپشن کی تعریف :

کرپشن کا مفہوم بہت وسیع ہے۔اس کی کوئی ایک تعریف نہیں کی جاسکتی۔اس کی صورتیں مختلف ہیں۔مثلاً رشوت اس کی ایک معروف شکل ہے۔کرپشن کا معاشی ترقی پر اثرات کے حوالے سے ورلڈبینک نے کرپشن کی وضاحت یوں کی ہے:

"Corruption is a Complex Phenomenon. Its roots lie deep in bureaucratic and Political institutions, and its effect on development varies with country conditions."(2)

12جون 2007؁ء کو یونائٹیڈ نیشنز نے کرپشن کے خلاف اپنے گلوبل پروگرام میں کرپشن کی توضیح کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال (Abuse of Power)قراردیا (۳)

انگلش آکسفورڈ ڈکشنری میں کرپشن کی تعریف یوں کی گئی ہے :

"Dishonest or Fraudulent Conduct by those in power, typically involving bribery the journalist who wants to expose corruption in high places" (۴)

بزنس ڈکشنری میں کرپشن کی تعریف یوں کی گئی ہے :

"Wrong doing on the part of an authority or powerful party through means that are illegitimate, immoral, or incompatible with ethical standard. Corruption of then results from patronage and is in many countries, political problems". (۵)

ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کرپشن کا مفہوم بہت وسیع ہے۔اس قبیح عمل کا اطلاق افراد واداروں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ملکوں اور بیرونی قوتوں پر بھی ہوتا ہے۔اس کی مختلف شکلیں ہیں۔مثلاً سیاسی کرپشن،عدالتی کرپشن،سرکاری مناصب وذرائع کا کرپشن، سول وبیوروکریسی کرپشن وغیرہ۔

پاکستانی اداروں کا کرپشن :

پاکستان میں اس وقت مختلف ادارے کرپشن میں ملوث ہیں۔اعلیٰ سرکاری افسران کی اکثریت کرپٹ ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ 2012؁ء میں جنگ اخبار میں چیئرمین نیب کی طرف سے ایک بیان شائع ہوا کہ"ملک میں روزانہ 15ارب کی مجموعی کرپشن ہورہی ہے"ملک میں اس وقت اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر نچلی سطح تک عام ملازمین بھی اس مرض میں مبتلا ہے۔پاکستان میں اس وقت کرپشن کی چند قسمیں حسب ذیل ہیں :

1۔ کمیشن کرپشن2۔ پرمٹ کرپشن3۔ ادارتی کرپشن4۔ آڈرکرپشن

5۔ جنسی کرپشن6۔ ٹھیکہ کرپشن7۔ لائسنس کرپشن8۔ کٹوتی کرپشن

9۔ پبلسٹی کرپشن10۔ میڈیاکرپشن11۔ ٹی وی چینلزکرپشن12۔فیس بک کرپشن

13۔ ڈاکٹرزکرپشن14۔ ادویات کرپشن15۔ ملاوٹ کرپشن16۔سفارش کلچرکرپشن

17۔انرجی (بجلی وگیس کی چوری) کرپشن18۔ انجینئرز کرپشن19۔ججزووکلاء کاکرپشن

20۔ محکمہ پولیس کا کرپشن 21۔ ایم پی اے،ایم این اے اور سینٹرزکا کرپشن 22۔صوابدیدی فنڈ کرپشن23۔ تعلیمی کرپشن24- ریسرچ کرپشن 25۔نقل(Cheating)کرپشن 26۔این جی اوزکرپشن27۔ ملک میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کرپشن28۔ ٹیکس چوری کرپشن

29۔ جاگیرداری کرپشن30۔ بیوروکریسی کرپشن31۔ رشوت کرپشن

32۔ بینکوں سے قرضہ لینے کا کرپشن33۔ ملازمت کے اوقات اور کام چوری کرپشن

34۔ سپورٹس کرپشن35۔اغواء برائے تاوان کرپشن36۔ٹارگٹ کلنگ کرپشن

37۔ بھتہ کرپشن38۔ رعایا کا آپس میں پے مینٹ کرپشن39۔ بے تحاشا کرنسی نوٹ چھپوانے کا کرپشن40۔ اسمگلنگ کرپشن41۔ ملی بھگت کرپشن42۔ ڈگری کرپشن (۶)

ملک کے مختلف محکموں میں رشوت لی جاتی ہے۔کچھ عرصہ قبل سننے میں یہ بات آئی۔کہ چھوٹی ملازمتیں بھی فروخت ہوتی ہیں یہ الیکشن سے پہلے کی بات ہے۔علاوہ ازیں حکومت کے خزانے سے پیسہ کسی نہ کسی بہانے سے نکلوانے کو لوگ جائز بلکہ مال غنیمت سمجھتے ہیں۔حالانکہ اسلام میں ایسا کرنا قطعی طورپرحرام ہے۔اسی طرح لوگ گیس اور بجلی کی چوری کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔گھروں میں بجلی کے میٹرز میں کاروائی کرتے ہیں تاکہ وہ آہستہ چلے اور بل کم آجائے۔دیہاتوں میں بجلی کی چوری عام ہے۔بے شمارلوگ ایسے ہیں جو گذشتہ تیس سالوں سے بجلی کا بل ادانہیں کررہے ہیں۔دیہات کے سکولوں میں آساتذہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے ہیں۔اگر کوئی اس پر اعتراض کرے تو اس استاد کا قبیلہ آڑے آجاتا ہے کیونکہ اس استاد کا تعلق اس گاؤں سے ہے جس گاؤں میں اُس کی ملازمت ہے۔اس طرح کی صورت حال میں گاؤں کے بچوں کی تعلیم کا معیارگرجاتا ہے۔نتیجتاً بہت سارے بچے تعلیم سے رہ جاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل سننے میں یہ بھی آرہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ ڈگریاں فروخت ہوتی ہیں۔یہ محض افواہ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں۔نقل کارجحان عام ہے تعلیمی اداروں میں۔اِمتحانی سینٹرزبھی باقاعدہ فروخت ہوتے ہیں۔الغرض جس ملک میں تعلیم کی یہ صورت حال ہو وہ کس طرح ترقی کے منازل طے کرسکتا ہے؟جس ملک میں یکسا ں نظام تعلیم کا فقدان ہو۔اس ملک کے لوگ کس طرح ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم کا بھی فقدان ہے۔مزید برآں بوقت تقرری اساتذہ کو میرٹ کی بنیادپر تعینات نہیں کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل جب کسی کو کہیں بھی نوکری نہیں ملتی تھی تو اس کو محکمہ تعلیم میں ٹیچرتعینات کیا جاتا تھا۔حالانکہ یہ ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔اگر اس پیشے سے ایسے لوگ وابستہ ہوجائیں جو صرف نااہل ہی نہ ہو بلکہ اعلیٰ درجے کے مجرم اور کرپٹ بھی ہوں تو نتیجتاً تعلیم کا معیارکیا ہوگا؟ اگرچہ اس وقت ہائر ایجوکیشن کمیشن نے میرٹ بحال کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔لیکن درپردہ اب بھی ملک میں تعلیمی کرپشن کا سلسلہ جاری ہے۔واضح رہے کہ کسی ملک کی ترقی میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ شعبہ تعلیم پر بھر پور توجہ دی جائے۔اور رشوت اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑکرپھینک دیا جائے۔محکمہ تعلیم کے علاوہ وطن عزیزکے دیگرتمام محکموں میں بھی رشوت اور کرپشن کا بازار گرم ہے۔مثلاً محکمہ پولیس اور محکمہ کسٹم تو شروع ہی سے اس حوالے سے بدنام تھے جو محکمے اچھی شہرت رکھتے تھے وہ بھی رشوت اورکرپشن کی بیماری میں مبتلا ہوگئے مثلاپی آئی اے کو لیجئے۔ایک زمانہ تھا کہ دیگرممالک کے لوگ بھی اس کی اچھی شہرت اور کارکردگی کی بنیادپر اس میں سفر کیا کرتے تھے۔آج پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن خسارے میں جارہا ہے۔اس کی وجہ کرپشن ہے۔اسی طرح ریلوے بھی کرپشن ہی کی وجہ سے ڈوب چکا ہے۔کراچی اسٹیل مِل کرپشن کے سبب تباہ وبربادہوچکا ہے۔ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔موجودہ الیکشن سے قبل گذشتہ حکومت نے پانچ سالوں میں جتنا قرضہ لیا۔وہ ملک کے ذمے ساٹھ سالوں کے قرضے سے بھی زیادہ تھا۔اب سوال یہ ہے کہ قرضے کی صورت میں اتنی بڑی خطیر رقم کہا ں گئی؟بلاشبہ مسائل اور مجبوریاں بھی تھیں اور ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرپشن کا بازار بھی گرم تھا۔اسی طرح ٹیکس چوری کا مسئلہ ہے۔بااثرلوگ یا تو سرے سے ٹیکس دیتے نہیں ہیں یا پھر بہت کم ٹیکس اداکرتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان بااثرافراد کا محاسبہ آج تک نہیں ہوسکا ہے جوٹیکس چوری جیسے کرپشن میں ملوث ہیں۔ شوگر ملز کے مالکان بھی اس حوالے سے اچھی شہرت نہیں رکھتے ہیں۔بی اینڈ آر،پی ڈبلیو ڈی،انکم ٹیکس،ایریگیشن اور پٹوار کے محکموں میں کرپشن کی شرح بہت زیادہے۔

کرپشن کے اسباب :

واضح رہے کہ ملک میں ایسے سرکاری ملازمین بھی ہیں۔جو انتہائی ایمان دار ہیں۔مجبوری اور ہر طرح کے دباؤ کے باوجود رشوت اور کرپشن کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔ان میں سے ایسے بھی ہیں جو نان شبینہ کیلئے ترستے ہیں مگرصبروقناعت سے کام لیتے ہیں۔بدعنوانی نہیں کرتے ہیں لیکن یہ طبقہ اقلیت میں ہے۔اکثریت ان ملازمین کی ہے جو بدعنوانی کے موذی مرض میں مبتلا ہے، بدعنوانی اور فراڈ کے

چند خاص اسباب حسب ذیل ہیں :

1۔معاشی تفاوت

2-مسرفانہ غلط رسم ورواج

3-کم تنخواہ ومراعات

4۔دولت کی ہوس اور راتوں رات امیر سے امیر تر بننے کی خواہش۔

5-محاسبہ کا فقدان

ان کرپٹ اعلیٰ وادنیٰ سرکاری ملازمین کو سزانہیں دی جاتی ہے۔جوسرکاری اہل کارپیشہ وارانہ طورپرکرپٹ ہیں اس کا حل یہ ہے کہ ملازمین کی تمام جائیدادبحق سرکاری ضبط کرلی جائیں اور جو سرکاری کارندے واقعی مجبورہیں۔ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ بامرمجبوری رشوت لینے سے بازرہیں۔نیز ان کی ذہن سازی کی جائے قرآن وحدیث کے تعلیمات سے ان کو باخبرکیا جائے کہ اسلام میں کرپشن اور رشوت گناہ کبیرہ ہے۔اور قیامت کے دن تمام کرپٹ لوگ رب العٰلمین کی عدالت میں پیش ہونگے۔اور اخروی سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔

کرپشن کی ایک خاص صورت رشوت ہے جو پاکستان میں عام ہے۔مادہ پرست لوگوں نے ایسے ایسے گربنارکھے ہیں اور ایسے ایسے حیلے تلاش کئے ہیں کہ جس کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

رشوت کی تعریف :

مولانا محمودالرشید نے محیط الدائرہ کے حوالے سے رشوت کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے :

الرشوة ما يعطيه الرجل للحاكم أو غيره ليحكم له أو لغيره أو حمله به علي ما يريد (۷)

"رشوت اُس عطیہ کو کہا جاتا ہے، جو انسان کسی حاکم یاغیر حاکم کے حوالے اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ اس کے حق میں فیصلہ دے، یا اس مال کے ذریعہ سے حاکم کو اپنی مراد پر اُبھارے"۔

فرید وجدی نے رشوت کا مفہوم یوں واضح کیا ہے :

ما يعطی للحکام لاکل اَموال الناس بالباطل(۸)

"لوگوں کے اموال کو ناجائزطریقوں سے ہڑپ کرنے کیلئے جو مال حکام کو دیا جاتا ہے وہ رشوت ہے۔"

پس معلوم ہوا کہ ہر وہ مال،عطیہ،ہدیہ وتحفہ جو کسی حاکم،اعلیٰ سرکاری افسر،جج یا غیر حاکم کو اس لئے دیا جائے تاکہ اس کے حق میں ہر جائزوناجائزفیصلہ ہوجائے یا حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کیلئے دی جائے یا لوگوں کے مال کو ناجائزطریقے سے حاصل کیا جائے یا حاکم اور غیر حاکم کو خوشامد کے طورپرعطیہ دی جائے۔اس کے علاوہ بھی متعددصورتیں جو رشوت کے زمرے میں آتی ہیں۔رشوت کی یہ تمام صورتیں قرآن وحدیث کی رُوسے قطعی طورپر حرام ہیں۔

قرآن کی رُوسے رشوت :

وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (۹)

"اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ۔اوران کو حکّام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کروکہ لوگوں کے مالوں کا حصہ بطریق گناہ کے کھا جاؤ اور تم کو علم بھی ہو۔"

محمودآلوسی بغدادی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :

۱۔"لا تلقوا بعضها إلي حكام السوء علي وجه الرشوة"(۱۰)

"بطور رشوت اپنے بعض مال حکام تک مت پہنچاؤ"

۲۔’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ‘‘(۱۱)

"اے ایمان والوآپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائزطورپرمت کھاؤ۔لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضامندی سے ہو"۔

سید محمودآلوسیؒ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :

"والمراد من الاکل مايعم الاخذوا لاستيلاء"(۱۲)

"یہاں اکل سے مراد عام ہے جو شامل ہے مال لینے اور غلبہ پانے پر"

امام قرطبیؒ نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے :

"مالا تطيب به نفس مالكه اوحرمه الشريعة وان طابت به نفس مالكه"(۱۳)

"وہ مال بھی حرام کھاتہ میں جاتا ہے جو اس کے مالک کی رضا کے بغیر حاصل کیا جائے،یا مالک بخوشی اسے دے رہا ہو۔لیکن وہ چیز اصل شریعت میں حرام ہو"۔

بتصریح رشید رضا :

"اماالباطل فهو مالم تکن فی مقابلة شيء حقيقی فقد حرمة الشريعة اخذ المال بدون مقابلة حقيقة" (۱۴)

"باطل سے مراد یہ ہے،کہ اس مال کے مقابل میں کوئی حقیقی چیز نہ ہو،لہذا شریعت نے بغیرحقیقی چیز کے مقابل مال لینے کو حرام قراردیا ہے"

بقول ابوحیان اندلسیؒ :

"فيدخل فی ذلک الغصب والنهب والقمار وحلوان الکاهن والخيانة والرشاء وماياخذه المنجمون وکل مالم يأذن فی اخذه الشرع" (۱۵)

"لفظ باطل میں لوٹ مار،جوا،کاہن کی اجرت،خیانت،رشوت،نجومیوں کی اجرت اور ہر وہ شئی جس کی شریعت نے لینے کی اجازت نہیں دی،ان سب کو یہ شامل ہے۔"

بتصریح مولانا عبدالماجددریاآبادیؒ :

"قرآن مجید کی صرف اس آیت پر آج عمل درآمدہوجائے،تو جھوٹے دعووں،جعلی کاغذات،جھوٹی گواہیوں،جھوٹے حلف ناموں، اہلکاروں اور عہدیداروں کی رشوت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکام کی خدمت میں نذر،نذرانوں،قیمتی ڈالیوں، شانداردعوتوں کا وجودکہیں باقی نہ رہے۔" (۱۶)

مفتی محمد شفیع ؒ مذکورہ بالاآیت کی تفسیرمیں یوں رقمطرازہیں :

اس میں کسی کا مال غصب کرلینابھی داخل ہے، چوری اور ڈاکہ بھی جن میں دوسرے پر ظلم کرکے جبراً مال چھین لیا جاتا ہے، اور سُود، قمار،رشوت،خیانت، دغا،فریب،حیلہ سازی،دھوکہ دہی،سودی لین دین،اور تمام بیوع فاسدہ اور معاملات فاسدہ بھی جوازروئے شرع جائز نہیں،اگرچہ فریقین کی رضامندی بھی متحقق ہو،جھوٹ بول کریاجھوٹی قسم کھا کرکوئی مال حاصل کرلینا،یاایسی کمائی،جس کو شریعت اسلام نے ممنوع قراردیا ہے،اگرچہ اپنی جان کی محنت ہی سے حاصل کی گئی ہو وہ سب حرام اور باطل ہیں (۱۷)۔

حدیث نبوی کی روسے رشوت :

حقوق کی دوطرح درجہ بندی کی جاسکتی ہے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد،جو لوگ دوسروں کی مجبوریوں سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں۔اور ان سے رشوت لیتے ہیں اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔مطلب یہ ہے کہ راشی نے لوگوں سے حرام مال لیا۔ایسے لوگ حدیث کی روسے رحمت خداوندی سے دورہیں۔رشوت لینے اور دینے والے دونوں لعنتی ہیں۔حضرت امام ترمذیؒ نے باقاعدہ ایک باب باندھ کر ان احادیث رسول اللہؐ کو نقل کیا ہے جس میں رشوت لینے اور دینے والے دونوں کو ملعون قراردیاہے۔(۱۸)

چنانچہ حدیث نبوی ہے :

لعن رسول الله على الراشی والمرتشی والرائش يعنی الذی يمشی بينهما (۱۹)

"رسو ل اللہ ؐ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے اور رائش (دلال)یعنی جوان دونوں کے درمیان واسطہ بنتا ہو، تینوں پر لعنت کی ہے"۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے :

الراشی والمرتشی فی النار(۲۰)

"رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں "

رشوت کی ایک مضرت یہ ہے کہ فردیا ملک غیر قوموں سے مرعوب ہوجاتا ہے۔چنانچہ حضرت انسؓ سے روایت ہے :

قال رسولُ الله مابين قوم يظهر فيهم الربوا الا اخذوا بالسنة ومابين قوم تظهر فيهم الرشا الا اخدوا بالرعب (۲۱)

"سرکار دوعالم ؐ نے ارشاد فرمایا جس قوم میں سودپھیل جائے،وہ قوم قحط میں مبتلا کردی جاتی ہے،اور جس قوم میں رشوتوں کا دور دورہ عام ہوجائے،اس پر رعب ڈالا جاتا ہے"

معجم صغیرطبرانی میں حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے :

قال رسول الله الرشوۃ فی الحکم کُفر وهى بين الناس سحت (۲۲)

"رسو ال اللہﷺ نے فرمایافیصلہ کرتے وقت رشوت لینا دینا کفر ہے،اور عوام الناس کا آپس میں رشوت کا لین دین سحت وحرام ہے"۔

الغرض کرپشن کی ایک معروف شکل رشوت ہے۔جس کی تمام صورتیں شرعاً حرام ہیں رشوت کے علاوہ سود،جوا،مالی دھوکہ، چوری وغیرہ سب کرپشن کے زمرے میں شامل ہیں۔عصر حاضر کے معروف عالم دین القرضاوی کے بقول :

الاسلَامُ يحرم الرشوۃ فی ای صورۃ کانت وبای اسم سميتَ (۳۲)

"اسلام میں رشوت حرام ہے۔چاہے کسی بھی صورت میں ہو۔چاہے کسی بھی نام سے ہو"۔

اسی طرح منشیات کا کاروبار،سمگلنگ،ذخیرہ اندوزی،سڑکوں،پُلوں اور سرکاری عمارتوں کی ناقص تعمیروغیرہ کرپشن کی مختلف شکلیں ہیں۔جو شخص ملک کا دشمن ہوتا ہے وہ بھی کر پٹ ہے کیونکہ وہ دشمن سے رشوت لیکر ملک کے رازفروخت کرکے غداری کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح ملکی آمدنی کا دشمن بھی کرپٹ ہے۔اس لئے کہ وہ ٹیکس چوروں سے رشوت لے کر ملکی آمدنی گھٹاتا ہے۔علاوہ ازیں ملک کی ترقی میں منفی کرداراداکرنے والا کرپٹ سمجھاجائیگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رشوت لے کر نالائق طالب علم کو نقل کرواکراعلیٰ نمبردلانے کی کوشش کرتا ہے۔جس سے بیشترطلباء میں محنت کا جذبہ کم ہوجاتا ہے اور ملک کو اعلیٰ درجہ کے سائنس دان،ڈاکٹرزاور انجینئرز مناسب تعدادمیں نہیں ملتے۔نتیجتاً ملک ترقی کے اعتبارسے سست روی کا شکار ہوجاتا ہے۔مزید براں ناجائزڈگریاں حاصل کرنے والا کرپٹ اور خداکے ہاں ماخوذ ہے (۲۴)۔

سکول کرپشن :

موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ایڈوائزرعبیداللہ بابت نے چند دن پہلے یہ انکشاف کیا کہ ضلع پشین کےمختلف علاقوں میں کئی درجن سکول ریکارڈ میں تو موجود ہیں۔ان سکولوں کے ملازمین کو باقاعدہ تنخوائیں مل رہی ہیں مگر درحقیقت کہیں بھی کوئی سکول موجودنہیں ہے۔مثلاً موصوف کے بقول صرف برشورمیں سرکاری ریکارڈ کی روسے ۵۲سکول تعمیرہوئے ہیں لیکن وہاں ایک سکول بھی موجود نہیں ہے۔یہ بدترین کرپشن ہے۔تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔جو لوگ اس محکمے میں بھی کرپشن کرتے ہیں۔وہ ملک دشمن عناصر ہیں اور خداکے ہاں جواب دہ ہونگے۔

پاکستان کا مسئلہ نمبر1خیانت :

مفتی محمد تقی عثمانی ؒ کے بقول : "ایک زمانے میں یہ بحث چلی تھی کہ پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے؟ یعنی سب سے بڑی مشکل کیا ہے جس کو حل کرنے میں اولیت دی جائے حقیقت میں مسئلہ نمبر1 "خیانت" ہے آج امانت کا تصورہمارے ذہنوں میں موجود نہیں ہے"(۲۵) ۔

خیانت کا دوسرانام کرپشن :

تعلیمات اسلامی کی روسے خیانت کا دوسرانام کرپشن ہے۔امانت کو ضائع کرنا خیانت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ(۲۶)

"اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کروکہ تم نے اللہ تعالیٰ سے امانت لی تھی،اور اللہ کے رسول نے تمہیں اس امانت کے بارے میں بتادیا تھا،اس امانت کے خلاف خیانت نہ کرو"۔

قرآن کریم اور احادیث نبوی میں بہت سے نصوص میں امانت کی تاکید کی گئی ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے۔

إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.

"اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے اہل تک اور ان کے مستحقین تک پہنچاؤ"

فرمان مصطفی ہے : لا ايمان لمن لا أمانة له (28)

"جس کے اندر امانت نہیں،اس کے اندرایمان بھی نہیں "۔

پس معلوم ہوا کہ فرمان نبوی کی روسے امانت ایمان کا لازمی جزء ہے چنانچہ ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ امانت دارہو اور خائن نہ ہو۔

ملازمت کے فرائض میں کرپشن :

مفتی محمد تقی عثمانی ؒ کے بقول :

امانت کا دوسرا مفہوم اس کے علاوہ ہے جس کو عام طوپر لوگ امانت نہیں سمجھتے ہیں،وہ یہ ہے کہ فرض کروکہ ایک شخص نے کہیں ملازمت اختیار کی ہے،اس ملازمت میں جو فرائض اس کے سپردکئے گئے ہیں وہ امانت ہیں،ان فرائض کو وہ ٹھیک ٹھیک بجالائے۔ اور جن اوقات میں اس کو ڈیوٹی دینے کا پابند کیا گیا ہے،ان اوقات کا ایک ایک لمحہ امانت ہے،لہذا جو فرائض اس کے سپردکئے گئے ہیں،اگر وہ ان فرائض کو ٹھیک ٹھیک انجام نہیں دیتا،بلکہ کام چوری کرتا ہے توایسا شخص اپنے فرائض میں کوتاہی کررہا ہے،اور امانت میں خیانت کررہا ہے"۔ (29)

وہ تنخواہ حرام ہوگئی :

موصوف نے اس سلسلے میں مزید لکھا ہے :

مثلاً ایک شخص سرکاری دفترمیں ملازم ہے،اس کو اس کام پر لگایا گیا ہے کہ جب فلاں کام کے لئے لوگ تمہارے پاس آئیں تو تم ان کا کام کردینا۔یہ کام اس کے ذمہ ایک فریضہ ہے جس کی وہ تنخواہ لے رہا ہے،اب کوئی شخص اس کے پاس اس کام کیلئے آتا ہے، وہ اس کو ٹلا دیتا ہے، اس کو چکر کھلا رہا ہے، تاکہ یہ تنگ آکر مجھے کچھ رشوت دیدے۔۔۔۔،آج سرکاری ملازم جس عہدے پر بھی ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو شخص میرے پاس آرہا ہے اس کی کھال اُتارنا اور اس کا خون نچوڑنا میرے لئے حلال ہے۔یہ امانت میں خیانت ہے،اور وہ اس کام کی جو تنخواہ لے رہا ہے،وہ تنخواہ بھی حرام ہوگئی . (30)

ملازمت کے اوقات میں کرپشن :

ملازمت کے اوقات کا لحاظ رکھنا لازمی ہے۔ان اوقات میں اپنا ذاتی کوئی کام کرنا یا ان کے دوران غیر حاضر رہنا خیانت ہے جیساکہ تقی عثمانی ؒ نے اس کی وضاحت کی ہے :

اسی طرح ملازمت کیلئے یہ طے کیا تھا کہ میں آٹھ(۸) گھنٹے ڈیوٹی دونگا،اب اگراس آٹھ (۸) گھنٹے کی ڈیوٹی میں سے کچھ چوری کر گیا،اور کچھ وقت اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلیاتو جتنا وقت اس نے اپنے ذاتی کام میں استعمال کیا، اس وقت میں اس نے امانت میں خیانت کی،کیونکہ یہ آٹھ(۸) گھنٹے اس کے پاس امانت تھے،اس کیلئے جائز نہیں تھا کہ اب اگر اس وقت میں دوستوں سے باتیں شروع کردیں یہ امانت میں خیانت ہے۔اور جتنی دیر خیانت کی اتنی دیرکی تنخواہ اس کیلئے حلال نہیں. (۳۱)

اس کی حرمت کا سبب یہ ہے کہ ملازمت کے اوقات، ملازمین کے پاس امانت ہیں،ان میں کمی بیشی کرنا گویا ناپ تول میں کمی ہے۔ جیساکہ فرمان الٰہی ہے

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ. الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ. وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ(۳۲)

"ان لوگوں کیلئے دردناک عذاب ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں،جب دوسروں سے وصول کرنے کا وقت آتا ہے تو پوراپورا وصول کرتے ہیں۔تاکہ ذرابھی کمی نہ ہوجائے،لیکن جب دوسروں کو دینے کا وقت آتا ہے تو اس میں کم دیتے ہیں اور ڈنڈی مارتے ہیں "۔

ناپ تول میں کمی کاملازمت کے اوقات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔مفتی تقی عثمانی ؒ نے اس کی وضاحت بھی کی ہے:

ناپ تول میں کمی ہر چیز میں ہے۔لہذاگر کوئی شخص آٹھ گھنٹے کا ملازم ہے۔اور وہ پورے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی نہیں دے رہا ہے، وہ بھی ناپ تول میں کمی کررہا ہے۔اور اس عذاب کا مستحق ہورہا ہے، اس کا لحاظ کرنا چاہیے"(۳۳)

سرکاری اشیاء میں خیانت :

ایک سرکاری ملازم جس دفتر میں کام کرتا ہے۔اس دفترکا سامان سرکاری ملکیت ہے۔حکومت کی اجازت کے بغیراس کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا خیانت ہے اور حرام ہے۔چنانچہ مفتی تقی عثمانی ؒ نے اس مسئلے کی بھی وضاحت یوں کی ہے:

"امانت"کے صحیح معنی یہ ہیں کہ کسی شخص نے آپ پر بھروسہ کرکے اپنا کوئی کام آپ کے سپردکیا،اور آپ نے وہ کام اس کے بھروسہ کے مطابق انجام نہ دیا تو یہ خیانت ہوگی،یہ سڑکیں جن پر آپ چلتے ہیں۔یہ بسیں جن میں آپ سفر کرتے ہیں۔یہ ٹرینیں جن میں آپ سفر کرتے ہیں۔یہ سب امانت ہیں۔یعنی ان کو جائزطریقے پر استعمال کیا جائے اوراگر ان کو جائز طریقے سے ہٹ کر استعمال کیا جارہا ہے۔ تو وہ خیانت کے اندر داخل ہے۔مثلاً اس کو استعمال کرتے وقت گندہ اور خراب کردیا۔آج کل تو لوگوں نے سڑکوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ رکھا ہے۔کسی نے کھودکر نالی نکالی اور پانی جانے کا راستہ بنادیا۔کسی نے سڑک گھیرکر شامیانہ لگادیا۔حالانکہ فقہاء کرام نے یہاں تک مسئلہ لکھا ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنے گھر کا پر نالہ باہر سڑک کی طرف نکال دیا، تو اس شخص نے ایک ایسی فضا استعمال کی جو اسکی ملکیت میں نہیں تھی، اس لئے اس شخص کیلئے سڑک کی طرف پرنالہ نکالنا جائز نہیں،حالانکہ وہ پر نالہ کوئی جگہ نہیں گھیر رہا ہے۔بلکہ فضاکے ایک حصے میں وہ پر نالہ نکلاہواہے۔(۳۴)

سڑک کا غلط استعمال تودرکنار،ٹھیکیدارحضرات تو سڑک کی تعمیر میں بھی جی بھر کرکرپشن کرتے ہیں۔کم اورکمزور میٹیریل استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح سرکاری ٹرانسپورٹ کا لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔غلط استعمال تو عام ہے بلکہ پاکستان میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ لوگوں نے سرے سے سرکاری گاڑیوں کو غائب کردیا ہے۔

پانی کا مسرفانہ استعمال :

ملک میں لوگ پانی کی قلت کے باوجوداس کو خوب ضائع کرتے ہیں۔ان کو یہ احساس نہیں ہے کہ پانی کا بلاضرورت مسرفانہ استعمال ملک کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ شریعت کی روسے ممنوع ہے جیساکہ حدیث نبوی ہے :

"عن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بسعد وهو يتوضا فقال: ما هذا السرف؟ فقال: افي الوضوء اسراف؟ قال: نعم، وان كنت علي نهر جار"

"پانی کو فضول خرچ کرنے سے بچو،خواہ تم کسی بہتے ہوئے دریاکے پاس کھڑے ہو"۔

بجلی کا بے دریغ استعمال :

بجلی کا مسرفانہ استعمال بھی قومی خیانت ہے۔مسرفانہ استعمال تو خیرلوگ توکئی دھائیوں سے بجلی چوری کرتے چلے آرہے ہیں حالانکہ یہ بدترین کرپشن ہے۔

بتصریح محمد تقی عثمانی ؒ :

ایک طرف(ملک میں)بجلی کی قلت کا تو یہ عالم ہے،اور دوسری طرف جب کہیں بجلی میسر ہو تو وہا ں اس کے بے محابااور بے دریغ استعمال کا حال یہ ہے کہ اس میں کہیں کمی نظر نہیں آتی،خالی کمروں میں بلب روشن ہیں،پنکھے چل رہے ہیں،اور بسااوقات ائیرکنڈیشنز بھی پوری قوت کے ساتھ برسرکار ہیں،دن کے وقت بلاضرورت پردے ڈال کر سورج کی روشنی کو داخلے سے روک دیا گیا ہے،اور بجلی کی روشنی میں کام ہورہا ہے،معمولی بات پر گھروں اور دیواروں پر چراغاں کا شوق پورا کیا جارہا ہے. (36)

سرکاری مقامات اور دفاترمیں جہاں بل کی ادائیگی حکومت کے ذمے ہے،وہاں تو بجلی کابلاضرورت عام،بے دھڑک اور ظالمانہ ہے۔ بقول موصوف بالخصوص جن مقامات پر بجلی کابل خرچ کرنے والے کو خود ادانہیں کرنا پڑتا، وہاں تو بجلی کا استعمال اتنی بے دردی سے ہوتا ہے کہ الامان ! سرکاری دفتروں میں دن کے وقت بسااوقات بالکل بلاضرورت لائٹیں روشن ہوتی ہیں،اور پنکھے اور ائیرکنڈیشنزاس طرح چل رہے ہوتے ہیں کہ ان کا خرچ بہت آسانی سے کم کیا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ بعض سرکاری ملازمین اور بہت سے نجی کمپنیوں کے ملازمین کو گھروں پر بھی بجلی کے مفت استعمال کی سہولت حاصل ہوتی ہے وہاں تو"مال مفت،دل بے رحم، کی مثال پوری آب وتاب کے ساتھ صادق آتا ہے . (37)

دلچسپ بات یہ ہے کہ راقم کا تعلق ضلع پشین کے ایک گاؤں سے ہے۔اس علاقے میں سن ۵۷ میں بجلی آئی وہاں ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو سن ۵۷ سے لیکر تاحال بجلی کو استعمال کرتے چلے آرہے ہیں مگر آج تک انہوں نے ایک روپیہ بھی بل ادانہیں کیا ہے۔یہ صورت حال صرف اس علاقے کا نہیں ہے بلکہ پاکستان میں کئی ایسے علاقے ہیں کہ وہاں لوگ بجلی کی چوری میں ملوث ہیں۔حالانکہ یہ بدترین قومی خیانت ہے اور شریعت اسلامیہ کی رو سے قطعی طورپر حرام ہے۔

نتائج : (CONCLUSION)

مذکورہ بالا ناقدانہ جائزے سے حسب ذیل نتائج برآمد ہوئے :

۱۔پاکستان کا مسئلہ نمبر1واقعی کرپشن ہے۔

۲۔کرپشن ہی ملک کی ترقی میں سب سے بڑى رکاوٹ ہے۔

۳۔ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے۔اس کا سبب بھی کرپشن ہے۔نیز ان قرضوں کے استعمال میں بھی کرپشن کا عنصر شامل ہے۔

۴۔بیوروکریسی، اسٹیبلیشمنٹ، اعلیٰ وادنیٰ سرکاری ملازمین، عوامی نمائندے، این جی اوز، پرائیوٹ کمپنیاں وغیرہ سب کرپشن میں ملوث ہیں۔

۵۔پاکستان میں ان کرپٹ اداروں اور افراد کا آج تک صحیح احتساب نہیں ہوسکا ہے۔حالانکہ کرپشن کے خاتمے کا واحد ذریعہ ان

مجرموں کا محاسبہ ہے۔

۶۔پاکستان میں انرجی کابحران،دہشت گردی،بے روزگاری، مہنگائی،معاشی بدحالی اوربدامنی وغیرہ کا سبب بھی کرپشن ہے۔

حوالہ جات

۱۔Lewisc. Henry, Best Quotations for all Occations, Fawcett Premier, New York, 1989 , P. 118.

۲۔http: // www. Worldbank.org

۳۔http: // europa.eu/Legislation_summaries / fight_against_fraud_against_ corruption/133301_en.ht...

۴۔www.Oxforddictionaries.com/definition/american_english/corruption.

۵۔www.business dictionary.com

۶۔محمودالرشیدمدوٹی ؒ ، مولانا ، رشوت ستانی ، مکی مسجد ، مکتبہ مَکےّہ ، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور ، ۸۹۹۱ء ،

ص ۴۲ ۔ ۸۲۔

۷۔ایضاً ، ص ۵۱۔

۸۔ایضاً ، ص ۶۱۔

۹۔البقرۃ ، ۲ : ۸۸۱۔

10۔المرجع السابق ، ص ۹۳۔

۱۱۔النسآء ، ۴ : ۹۲۔

12۔المرجع السابق ، ص ۱۴۔

13۔محمودالرشید ، مولانا ، رشوت ستانی ، ص ۳۴۔

14۔ایضاً

15۔ایضاً

16۔ایضاً ، ص ۵۴۔

17۔مفتی محمد شفیع ؒ، معارف القرآن ، ج ۱ ، ص ۴۰۴۔

18۔المرجع السابق ، ص ۵۵۔

19۔مشکواۃ المصابیح ، کتاب الامارۃ والقضاء ، باب رزق الولاۃ وھدایا ھُم ، ج ۲ ، ص ۲۰۲۔

20۔المرجع السّابق ، ص ۸۵۔

21۔ایضاً ، ص ۹۵

22۔ایضاً ، ص ۸۶۔

23۔ایضاً

24۔ایضاً ، ص ۲۵ ، ۸۷۔

25۔محمد تقی عثمانی ؒ ، مفتی ، حقوق العباد اور معاملات ، ادارہئ تالیفاتِ اشرفیہ ، چوک فوارہ، مُلتان ، پاکستان ،

محرم الحرام ۶۲۴۱ ھ ، ص ۱۱۲۔

26۔الانفال ، ۸ : ۷۲۔

27۔النسآء ۴ : ۸۵۔

28۔احمد بن حنبل ؒ ، المسند ، ج ۳ ، ص ۵۳۱۔

29۔محمد تقی عثمانی ؒ ، مفتی ، حقوق العباد اور مُعاملات ، ص ۶۸۱۔

30۔ایضاً ، ص ۶۸۱ ۔ ۷۸۱۔

31۔ایضاً ، ص ۷۸۱۔

32۔المطففین ، ۳۸ : ۳۔

33۔المرجع السّابق ، ص ۸۰۲ ۔ ۹۰۲۔

34۔ایضاً ، ص ۱۱۲ ۔ ۲۱۲۔

35۔ایضاً ، ص ۵۱۳۔

36۔ایضاً ، ص ۶۱۳ ۔ ۷۱۳۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...