Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

پشتو زبان میں سیرت النبیﷺ پر اولین کتاب قلب السیر کا تحقیقی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_1250

Pages

66-76

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/164/156

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/164

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.


پشتو یا پختو ایک مشرقی ایرانی زبان ہے جو پٹھانی یا افعانی بھی کہلاتی ہے۔ یہ افغانستان اور پاکستان میں بولی اور پڑھی جاتی ہیں۔ یہ افغانستان کی سرکاری اور قومی زبان بھی ہے۔ اسی وجہ سے اسے بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے۔ قاضی عبدالحلیم کے مطابق پشتو زبان سات ہزار سال پرانی زبان ہے۔ (1)

پشتون قوم کو اہل ایران " افغان" کہتے ہیں۔ہندوستان کے لوگ انہیں پٹھان کہتے ہیں۔ قندہار اور قزن کے باشندے خود کو پشتون کہتے ہیں۔ خوست، وادی کرم اور باجوڑ کے لوگ بھی خود کو پشتون کہتے ہیں۔ یہ سب الفاظ ایک ہی لفظ کی مختلف شکلیں ہیں۔ یعنی افغان، اوغان ، پشتان، پٹھان۔ خراسان میں ایک شہر پاشت ہے۔ پشتان نیشار پور میں ایک مقام کا نام ہے افغان متعدد قبائل کا مجموعہ ہے جن کاجد امجد اعلیٰ ایک ہے۔ مثلاً ابدالی، غوری، یوسفزی،ہنی ، منگل، کاکڑ، وزیر، محسود، بنویان، آفریدی،تنولی، خٹک ، بنگش، مہمند، غورغشت، نیازی وغیرہ۔ان قبائل کی ہزار ہا شاخیں ہیں اور ان شاخوں کی ذیلی متعدد شاخیں۔ جو اشخاص یا علاقوں سے منسوب کی گئی ہیں۔(2)

پشتون قوم من حیث القوم مسلمان ہیں لہذا یہ ایک قدرتی امر ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ان کا لگاؤ ہے۔ قرآن ، حدیث اور فقہ وغیرہ کے میدانوں میں ان کی خدمات ہیں۔ سیرت النبیﷺ کے حوالے سے بھی پشتو زبان میں قدیم ترین کتاب "قلب السیر" مانی جاتی ہے۔اس کے مصنف گوہر خان خٹک ہیں جوایک عظیم مفکر ، شاعر اور حریت پسندانسان تھے۔آپ پشتو زبان کے مشہور شاعرخوشحال خان خٹک کے بیٹے تھے۔ گوہر خان خٹک کی تاریخِ پیدائش کے متعلق افغان محقق زلمی ہیواد مل ؔ کے سوا کسی اور محقق نے کوئی کلام نہیں کیا۔تاہم وفات کا ذکر مذکورہ محقق کے سوا جناب عبدالحئی حبیبی نے بھی کیا ہے۔ زلمے اپنے فارسی کتاب میں لکھتے ہیں: 

"گوہر خان نیزاز فرزند بادانش خوشحال خٹک است سال تولد او راپدر نامورش ۱۰۷۰ھ نشاندادہ۔ از زندگانی بعدی وی اطلاعات دست اول بہ دسترس قرارندارد"(3)

(خوشحال خان خٹک کی ایک شعر کے مطابق گوہر خان خٹک اور اس کے ایک بھائی نصرت خان کی پیدائش ۱۰۷۰ھ /1659ء ہے)

اسی شعر کے بارے میں افضل خان "تاریخ مرصع"میں لکھتے ہیں: "بل گوہر خان ، نصرت خان چے تاریخ ئے د تولد دا دے"

ترجمہ:"گوہر خان اور نصرت خان کی تاریخ پیدائش یہی ہے"

وہ شعر یہ ہے : 

بہ شیرزادن نصرت خانعین و غین است از جمل نیک بدان(4)

اس شعر میں گوہر خان کا نام تو نہیں لیکن افضل خان خٹک کے مطابق گوہر خان خٹک کی پیدائش کا سال بھی یہی ہے (5)

کابل کے صوبہ دار سید امیر خان خوافی نے پشاور میں مقیم اپنے نائب مرزا عبدالرحیم اور خوشحال خان خٹک کے درمیان ناراضگی کی بناء پر سازش کر کے خوشحال خان خٹک کو گرفتار کیا، اسے دہلی لے جایا گیا اور پھر وہاں تقریباََ اڑھائی سال قید میں رکھنے کے بعد قلعہ رتنبھور بھیجا(6)قید کے دوران خوشحال خان خٹک نے "فراقنامہ"(7)

کے نام سے منظوم کتاب لکھی ۔ اس میں اپنے دیگر فرزندوں کے ہمراہ گوہر خان خٹک کو بھی یا د کیا ہے۔

ھغہ ملک واڑہ سرۂ زر دے چی پکے زما گوہر دے

کہ سکندر وی کہ گوہر ویراتہ واڑہ جلوہ گر وی(8)

ترجمہ:وہ ملک جہاں میرا گوہر رہتا ہے، دولت سے مالا مال ہے۔ سکندر ہو یا گوہر دونوں ہر وقت میرے آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں

خوشحال خان ایک اور جگہ لکھتے ہیں: "جلال خان ، سکندر خان ، گوہر خان ، عجب خان میرے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ حسن خیل اور سینی کے عوام کے ساتھ نظام پور آئے"(9)

گوہر خان خٹک کے بڑے بھائی اشرف خان (۱۰۴۴۔ ۱۱۰۶ھ) بیجاپور دکن (ہندوستان) کے قیدخانے میں چودہ سال قید گزارنے کے بعد سال ۱۱۰۶ھ میں فوت ہوئے۔ اشرف خان نے بھی اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ گوہر خان کو یاد کیا ہے:

صدر خان ، عجب ، گوہر سخن شناس دی رحمان لا پہ دا ہنر د تورو غر دے (10)

ترجمہ: صدر خان ، عجب اور گوہر تینوں سخن شناس ہیں۔ لیکن رحمان(خوشحال خان خٹک کے ایک بیٹے کا نام ہے ) تو اس ضمن میں پہاڑ جیسے سب پر بھاری ہے۔ 

اس طرح اپنے ایک بھائی سکندر خان خٹک نے بھی اشرف خان ہجری کو ایک منظوم خط میں گوہر خان کا ذکر کیا ہے:

گوہر در دے د اخلاص پہ خۂ صدف کشے ھرہ چار د افضل خان پہ حکم وکا

پہ تحقیق لر او بر سۂ کا أینے غاڑہ افضل خان ئے پہ مرے کہ کزلک کا (11)

ترجمہ: گوہر خان کی مثال صدف کے موتی کی مانند ہے۔ وہ سب کام کاج افضل خان کی مرضی پر کرتا ہے ۔ وہ افضل خان کی حکم عدولی نہیں کرتاچاہے وہ اس سے سخت سلوک ہی کیوں نہ کرے۔ 

گوہر خان نے اپنے والد خوشحال خان خٹک کا اس وقت ساتھ دیا تھا جب اس کے بھائی بہرام خان نے اپنے والد سے دشمنی شروع کی تھی۔ (12)

گوہر خان کی وفات کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ بعض شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 67 یا 70 سال کی عمر پائی۔

"قلب السیر" کی سبب تالیف:

گوہر خان " قلب السیر" لکھنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

"اس کتاب (کے ترجمے) کا سبب یہ تھا کہ افضل خان بن اشرف خان مرحوم نواسہ خوشحال خان خٹک کرلانڑی غفر اللہ کی تاریخ وفات سن ہجری ایک ہزار ایک سو بیس (۱۱۲۰ھ) ہے۔ اپنے باپ دادا کی جگہ قائم مقام ہے۔ اور سرداری پر فائز ہے۔ نیک نامی اور آبادی کو زیر نظر رکھا ہے۔ اس قحط الرجال میں غنیمت ہے اللٰھم تزد احسانہ ۔ حق تعالیٰ اسے شرمندگی سے بچائے۔ اکثراوقات مجھے (فارسی یا عربی کی کسی کتاب کا پشتو میں ترجمہ کرنے کو ) کہتے ۔ میں اس قابل نہیں تھا لیکن جب تضیع اوقات کو مد نظر رکھا تو محسوس کیا اور اس محنت کے لئے کمر بستہ ہوا۔ پھر یہ کتاب ہاتھ آئی جو افعال ، قال اور حال پر ہمارے پیغمبر ﷺ کے بارے میں ایک معتبر کتا ب تھی۔ جس کی پختگی کی تعریف مصنف نے فارسی میں بہت طویل کی ہے ۔ پھر ( میں نے) اس کا ترجمہ شروع کیا۔ عظیم نعمت ہے ۔ فارسی سے پشتو میں ترجمہ کیا اور نام ’’قلب السیّر ‘‘ رکھا گیا"۔  (13)

لیکن گوہر خان نے ’’قلب السیّر‘‘ کے فارسی مترجم اور فارسی میں کتاب کا نام نہیں لکھا ۔ اس طرح کتاب کے اصل مصنف اور عربی میں کتاب کا نام بھی نہیں بتایا لیکن اس کے اصل مصنف محمد بن اسحاق ؒ اور کتاب "السیر و المغازی" ہے۔ (14)

گوہر خان اپنے بھائیوں اشرف خان ہجری، عبدالقادر خان ، سکندر خان اور صدر خان کی طرح شاعر بھی تھا۔ اس کے کلام کا مجموعہ تو آج تک ہاتھ نہیں آیا لیکن "قلب السیر" میں جابجا اس کی شاعری کے نمونے ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ’’قلب السیّر‘‘ میں اپنی مذہبی اور نعتیہ شاعری کے علاوہ اپنے دو بیٹوں محمد اور غضنفر کی وفات پر ایک مرثیہ بھی لکھا ہے۔(15)

گوہر خان پشتو کے علاوہ فارسی شعر میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ خوشحال خان خٹک کے وفات کی تاریخ پر فارسی میں قطعہ کہا ہے وہ کچھ یوں ہے: 

خان خانان و قدوۂ افغان آن حکیمے سرِ خرد مندان

چون بہ ہفتادوہشت سال شدہ روزِ آدینہ بود چون زِ جہان

رفت و ماندیم مابہ ااہ و فغان غرہ ماہِ مہر بودآن حُوت 

کہ بہ لب می نہاد مہر سکوت بست و ہشتم ربیع آخر بود 

کہ امین جان پاک او بربود چون زِ تاریخ فوت خان خبرم شد ’’زمارفت زین جہاں پدرم(16)

ترجمہ: خانِ خانان اور افغانیوں کا برگزیدہ پیشوا ، حکیم ملت اور عقلمندوں کا عقل مندجب اٹھتر سال کی عمر تک پہنچے تو بروزِ جمعہ وفات پاگئے اور ہمیں افسردہ چھوڑ گئے۔ شمسی سال کا آخری مہینہ (۲۰ فروری تا۲۰ مارچ تک ) تھا کہ لبوں پر مہر سکوت رکھا( فوت) ہوئے۔ ربیع الثانی کی اٹھائیس تاریخ تھی کہ موت کے فرشتے نے ان کی روح قبض کی۔ جب کہ خان کی تاریخ وفات کی خبر آئی۔ اس جہاں سے میرے والد چلے گئے۔

گوہر خان خٹک ’’قلب السیّر‘‘ میں اپنی مذہبی اور نعتیہ شاعری کے علاوہ اپنے دو بیٹوں محمد اور غضنفر کی وفات پر ایک مرثیہ لکھا ہے اور والد کی وفات پر یہ فارسی قطعہ جو اب تک محفوظ ہے اس کے علاوہ اُن کی شاعری یا نثر کا کوئی مجموعہ ہاتھ نہیں لگا۔

"قلب السیر ‘‘ کا تعارف:

معلوم آثار کے مطابق اب تک "قلب السیر" پشتو زبان کی پہلی جامع کتا ب ہے جو کہ سیر ۃ النبی ﷺ کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اس کے متعلق بی بی مریم لکھتی ہے:

"قلب السیر" پشاور کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ یہ کتاب تقریباََ ۸۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا تعلق سیرۃ رسول ﷺ سے ہے جو کہ فارسی سے پشتو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا ئی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب افضل خان خٹک کی خواہش پر ترجمہ کی گئی۔ لکھا ہے:قلب السیر پشتو ترجمہ از فارسی تعلم گوہر خان بن خوشحال خان خٹک درسنہ ۱۱۲۰ھ بخواہش افضل خان خٹک ترجمہ کردہ و بسی از موارد اشعار پشتوی خود را درج کردہ ۔

" قلب السیر" کس فارسی سیرت کی کتاب کا ترجمہ ہے؟ یہ فی الحال معلوم نہ ہو سکا البتہ کتاب کے متن میں جگہ جگہ پر محمد بن اسحاق کا نام آیا ہے" (17)

ڈاکٹر بی بی مریم آگے لکھتی ہیں: 

محمد بن اسحاق ؒ ؒ کے سیرت کا ترجمہ شیخ سعدی ؒ کے زمانے میں ابوبکر سعد زنگی کے حکم پر فارسی میں ہوا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گوہر خان خٹک نے اسی فارسی ترجمے سے پشتو ترجمہ کیا ہے۔(18)

گوہر خان خٹک ، جو خوشحال خان خٹک کے فرزند تھے ،اُنہوں نے پشتون قوم کو اطاعتِ رسول اکرمﷺ اور اتباعِ سنت کا صحیح مفہوم سمجھانے کی غرض سے پشتو زبان میں سیرت النبیﷺ کی پہلی کتاب ’’قلب السیر ‘‘ لکھی ، جو نادر مخطوطات کی شکل میں پشتو اکیڈمی، پشاور یونیورسٹی اور پشاور میوزیم میں موجود ہے۔

ان مخطوطات کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے: 

مخطوط (الف) (پشتو اکیڈیمی میں موجود نسخہ)

کتاب کا نام : قلب السیر 

مصنف: گوہر خان خٹک 

مصنف کی تاریخِ پیدائش:۱۰۷۰ھ (1659-60 ء)

مصنف کی تاریخِ وفات:۱۱۲۰ھ کے بعد 

کاتب:فتح علی خان 

قطعہ:25X16.5 سینٹی میٹر 

متن :20X28.5 سینٹی میٹر 

سطریں: ۱۰

اوراق:۳۵۶

مخطوط کے کل صفحات:۷۰۹

ابواب:۳۰

کتاب :تقریباََ ۳۱۴ سال پرانی ہے۔ 

مخطوط (ب) (پشاور میوزیم میں موجود نسخہ)

مخطوط کی جسامت :27.8X12.30 سینٹی میٹر 

کل صفحات :۸۰۰

سطریں :۱۷

اس مخطوط کے متعلق محمد زبیر حسرت لکھتے ہیں:

"قلب السیر" گوہر خان خٹک کا وہ علمی ، ادبی اور دینی کارنامہ ہے جس کی بدولت موصوف سیرت نگار ہمیشہ کے لئے پشتو ادب میں زندہ رہے گا۔ یہ کتاب اصل میں محمد بن اسحاق ؒ کا عربی میں لکھا ہوا محمد ﷺ کی سیرتِ مبارکہ ہے ، جسے بعد ابن ہشام نے ادبیت اور تکمیل بخشی اور اب یہ سیرت ابن ہشام کے نام سے شہرت رکھتی ہے،(19)

سے فارسی میں ترجمہ ہوا تھا اور گوہر خان خٹک نے فارسی سے اس کو پشتو میں منتقل کر دیا۔ گوہر خان خٹک نے یہ نہیں لکھا کہ یہ فارسی ترجمہ کس نے کیا تھا اور اصل کتاب کا نام کیا تھا۔ تاہم "قلب السیر "کے مقدمہ میں باقی تفصیل ضروربیان کی ہے (20)

آگے موصوف محمد زبیر حسرت لکھتے ہیں: 

’’خوشحال بابا سے لے کر گوہر خان خٹک تک ان کا خاندان علمی، ادبی اور دینی لحاظ سے پشتو ادبیات کے لئے ایک اکیڈیمی کی حیثیت رکھتا تھا جس کے بانی خوشحال باباتھے۔ اور ان کی گھنے چاؤں تلے ان کے سب (بیٹوں اور نواسوں) نے اپنی علمیت اور قابلیت کے مطابق اپنے کام کو جانا، متعین کیا اور ہر کسی سے نے اسے بطریقِ احسن نمٹایا۔ اور یہی سلسلہ ’’قلب السیر‘‘ کے لکھنے تک افضل خان خٹک کے کہنے اور اشارے پر گوہر خان خٹک تک پہنچتا ہے (21)

گوہر خان خٹک اور اس کی ادبی کاوش کے متعلق محمد زبیر حسرت یوں لکھتے ہیں:

"گوہرخان خٹک نے بابا کی زیر ِ تربیت اپنے زمانے کے مروجہ علوم حاصل کیں۔ اپنی مادری زبان پشتو کے بشمول وہ نہ صرف عربی اور فارسی سے استفادے کی صلاحیت رکھتے تھے بلکہ ان زبانوں پر ان کو عبور بھی حاصل تھا۔وہ ایک پڑھے لکھے شاعر اور ادیب تھے جیسا کہ انہوں نے خود لکھاہے : [مزید اکثر و بیشتر میں نے کتابوں کا مطالعہ کیا]۔ لیکن ہم وثوق اور یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ گوہر خان خٹک نے اس کتاب کے ہاتھ آنے سے پہلے اور کتنی عربی و فارسی کتب کا مطالعہ کرکے ان کو اپنے ذہن میں اتارا تھا۔ "قلب السیر" میں ہم بخوبی اس کی علمیت اور نثر ونظم کے مخصوص اسلوب سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عربی و فارسی کے کتنے الفاظ ، تراکیب، تشبیہات ، استعارات، کنایات اور علامات کو استعمال کیا ہے (22)

جناب عبدالحئی حبیبی گوہر خان خٹک کے متعلق لکھتے ہیں:

"خوشحال خان کے بیٹوں میں سے ہم گوہر خان خٹک کو بخوبی جانتے ہیں۔ یہ (گوہر خان خٹک) خان (خوشحال خان خٹک) کے فاضل بیٹوں میں سے صاحبِ قلم شاعر اور ادیب تھے۔ گوہر خان خٹک اپنے بھائیوں عبدالقادر خان ، اشرف خان ہجری، سکندر خان کی طرح خاندانِ خٹک کے علم و ہنر سے لیس گھرانے میں اپنے والد خوشحال خان کے سائے تلے پلے بڑھے اور منثور و منظوم آثار چھوڑے۔ پشتو ادب کی تاریخ میں اچھا مقام رکھتے ہیں (23)

حبیبی "صاحب قلب السیر" کی تعارف کے متعلق لکھتے ہیں:

"کچھ بر س پہلے مجھے پشاور میوزیم میں گوہر خان خٹک کی ایک کھوئی ہو ئی کتاب مل گئی، جسے میں ان لکیروں میں پشتو ادب کے محققین کے ساتھ متعارف کراتا ہوں۔ یہ کھوئی ہوئی کتاب "قلب السیر" کے نام سے موسوم ہے جس میں تقریباََ ۴۰۰ اوراق اور ۸۰۰ صفحات ہیں۔ ایک بڑی اور ضخیم کتاب ہے۔ اس کتاب کا موضوع حضرت محمد ﷺ کی سیرت ، احوال اور غزوات ہیں۔ یہ ۳۰ ابواب پر مشتمل ہے ۔ حضر ت رسول اللہ ﷺ کی اجداد و انساب اور سوانح عمری پیدائش سے لے کر وفات تک تفصیلاََ بیان ہوئی ہے ۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے احوال اور قیامت کی علامات اور حشر و نشر ، صراط ، جنت و دوزخ کے بیانات بھی اس کا حصہ ہیں۔ جگہ جگہ سیرت نگار اپنے اشعار، رباعی ، قطعات، غزل اور قصائد بطورِ مثال پیش کرتا ہے۔ اس کتاب کی ترتیب و تدوین میں عربی اور فارسی کتب کے نام بطورِ حوالہ درج ہیں۔ اکثر و بیشتر محمد بن اسحاق ؒ کی روایات نقل کرتا ہے تاہم اس کے علاوہ اس کتاب کے دیگر مآخذ یہ ہیں: تمہیدا لمعرفت ، اخبار الآخرت، لطائف قصص ، مصابیح ، مشارق، صحیحین وغیرہ۔ یہ کتاب خٹک قبیلے کی املاء کے مطابق لکھی گئی ہے۔ اس کا رسم الخط نستعلیق ہے اور اس کی ابتداء حمد و نعت سے ہوتی ہے (24)

پشتو زبان و ادب کے مشہور ادیب ، شاعر، دانشور ، محقق اور نقاد ڈاکٹر حنیف خلیل گوہر خان خٹک کی "قلب السیر" کے متعلق لکھتے ہیں:گوہر خان خٹک نے حضورِ پاک ﷺ کی سیر تِ مبارکہ "قلب السیر" کے نام سے لکھی ہے۔ عربی سے پشتو میں ترجمہ کیا ہے ، جس میں ان کی شاعر ی کا کچھ حصہ بھی ہے۔ فارسی میں بھی شاعری کی ہے ۔ (25)

زبیر حسرت افغانستان کے مشہور محقق زلمے ہیواد مل ؔ کے فارسی اقتباس کو ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

قلب السیر" پشتو ترجمہ کے متعلق میں نے ایک اہم نکتہ دریافت کیا ہے جس کو یہاں ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں ۔ گوہر خان خٹک کی کتاب "قلب السیر" کا یہی پشتو ترجمہ پھر بابر شاہ نوشاہی کی طرف سے دری میں ترجمہ ہوا ہے۔ جناب احمد منزوی پاکستان کے قلمی نسخوں کی مشترک فہرست میں "قلب السیر" کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ [قلب السیر ] کو فہرست میں غلطی سے [حلب السیر] لکھا گیا ہے ۔ لکھائی کچھ یوں ہے :[گوہر خان بن خوشحال خان خٹک کی پشتو کتاب کا متن تیس ابواب اور ہر باب چند فصول میں زیر نویس فارسی ترجمہ بابر شاہ نوشاہی کا ہے ](26)

خلاصہ بحث:

یہ حوالہ جات ایک طرف "قلب السیر" کی قدوقامت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں تو دوسری جانب اس سے "قلب السیر" کے مخطوطات کے متعلق ایک خاکہ بھی ذہن نشین ہو جاتا ہے ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ یہ پشتو زبان و ادب کی ایک جداگانہ اہمیت کا حامل مخطوط ہے ،پھر بھی کسی بھی دور میں اس کی اہمیت کو ارباب نظر کی جانب سے پذیرائی حاصل نہ ہو سکی ۔ اور یہ جس مقصد کی خاطر لکھا گیا تھا وہ مقصد اس لئے فوت ہوا کہ یہ مخطوط جہاں پر بھی تھا خوبصورت الماریوں کی زینت بنتا رہا۔ مزید یہ کہ اس مخطوط پرتحقیق کرنے کے لئے صرف پشتو زبان وا دب سے واقفیت کافی نہ تھی بلکہ اس کے لئے ایسے محقق کی ضرورت تھی جو ادب کے ساتھ ساتھ مذہبی علوم (قرآن و حدیث ) سے بھی بھر پور واقفیت رکھتا ہو، لیکن چونکہ اس معیار پر بہت کم لوگ پورے اترنے والے تھے اور ان مخطوطات تک ان کی رسائی بھی تقریباََ نا ممکن تھی ۔ اس لئے "قلب السیر" کو وہ مقام و اہمیت حاصل نہ ہو سکا جو اس کا حق تھا۔ ان وجوہات کی بناء پر "قلب السیر" منظرِ عام پر نہ آسکا اور ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے کے لئے اس کی ناقدری ہوتی رہی۔ 

نتائج:

اس پورے بحث سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ

1۔"قلب السیر" پشتو زبان میں سیرت النبیﷺ پر قدیم ترین کتاب ہے۔

2۔اس کتاب کے مصنف گوہر خان اپنے والد خوشحال خان خٹک کی طرح ایک بڑے شاعر تھے اور ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی تھے۔

3۔"قلب السیر" دراصل فارسی زبان کی سیرت کی ایک کتاب کا پشتو ترجمہ ہے۔

4۔اس کتاب کے لکھنے کا مقصد پشتون قوم کو سیرت النبیﷺ کی اہمیت سمجھانا تھا۔

حواشی و حوالہ جات

1۔قاضی عبدالحلیم، رسالہ"پشتو" ، پشتو اکیڈمی ، پشاور یونیورسٹی

2۔ دائرہ معارف اسلامیہ،ج، 2ص929

3۔زلمے ہیوا د مل، رشد زبان و ادب دری درگسترہ فرہنگی پشتو زبانان ، افش د نویسندہ گان ، افغانستان آزاد،، ۱۳۷۶ھ ش، ص۴۹۔

4۔ابجد کے حساب سے ’’ع‘‘ ۷۰اور ’’غ‘‘ ۱۰۰۰ کے برابر ہے۔

5۔ افضل خان خٹک،تاریخ مرصع، مقدمہ ، تصحیح اور نوٹس : دوست محمد خان کامل ؔ ، یونیورسٹی بک ایجنسی ، خیبربازار پشاور ۔ تاریخ مرصع پر تاریخِ اشاعت درج نہیں تاہم ص ۲۵۹ پر دوست محمد خان کامل کے دیباچے کی تاریخ رجب ۱۳۹۴ھ بمطابق ۱۴، اگست ۱۹۷۴ء لکھی ہے۔

6۔قلعہ رتنبھور ہندوستان میں گوالیا ر کے مغرب میں جنوباََ آگرہ اور چتوڑ کے درمیان اول الذکر مقام کے جنوب مغرب اور مؤخر الذکر مقام کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ رتنبھور سرائی مادھوپور کی نظامت میں شامل ہے۔ ریاست جے پور کے جنوب مشرقی حصے میں ہے۔

7۔خوشحال خان خٹک، فراقنامہ، مرتب: ہمیش خلیلؔ ، ۱۹۸۳ء ، قامی مکتبہ پشاور، ص۸۰

8۔افضل خان خٹک،تاریخ مرصع، ص ۳۲۲

9۔ایضاً 

10۔اشرف خان ہجری، دیوان ہجری، مرتب : ہمیش خلیل ، ۱۹۵۸ء ، دارالتصنیف پشاور ، ص ۲۴۹

11۔ہمیش خلیل ، د پختو شعری ادب(۱۱۰۰ھ۔ ۱۲۰۰ھ) ، تالیف : ہمیش خلیل، ۲۰۰۹، پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی ، ص۲۷۲

12۔افضل خان خٹک، تاریخ مرصع، ص۵۰۸

13۔دیباچہ قلب السیر

14۔ ایضاً 

15۔ ایضاً 

16۔افضل خان خٹک، تاریخ مرصع، ص۴۸۱۔ آخری شعر کے الفاظ کا مجموعہ ابجد کے حساب سے ۱۱۰۰ بنتا ہے۔ جس سے مراد خوشحال خان خٹک کی تاریخ وفات ہے۔ 

17۔بی بی مریم ،د پختو نثر تاریخی او تنقیدی جائزہ ، پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی ،۱۹۸۷ء، ص ۲۱۸

18۔ ایضاً،ص۲۱۹

19۔ ابن اسحقؒ کی کتاب "السیر والمغازی" ہے جس کو بعد میں ابن ہشام نے"السیرۃ النبویۃ" کی شکل میں پیش کیا ۔ اس کی تہذیب کی اور اس میں کچھ اضافے بھی کئے۔ 

20۔حسرت، محمد زبیر، د قلب السیر شاعری ، مرکہ پبلشرز میر افضل خان بازار، مردان ، جون ۲۰۰۲ء،ص۱۹

21۔ ایضاً،ص ۲۳

22۔ ایضاً ،ص۱۹

23۔عبدالحئی حبیبی، پختو نثر تہ کرہ کتنے(پشتو) سن طبع نامعلوم ، ص۳۷

24۔ ایضاً 

25۔خلیل حنیف، پشتو زبان و ادب کی تاریخ (ایک خاکہ) ، یونیورسٹی بکس پبلشرز پشاور ، طبع اول اگست ۲۰۰۹ء ، ص ۱۴۲

26۔حسرت، محمد زبیر، د قلب السیر شاعری(پشتو) ، ص۲۹

کتابیات* اردو دائرہ معارف اسلامیہ،دانش گاہ پنجاب، لاہور،پاکستان،1386ھ/1966ء

  • اشرف خان ہجری،دیوان ہجری، مرتب : ہمیش خلیل ، دارالتصنیف پشاور ،1406ھ/ 1985ء
  • افضل خان خٹک،تاریخ مرصع،(تصحیح اور نوٹس :دوست محمد خان کامل )ؔ ، یونیورسٹی بک ایجنسی ، خیبربازار، پشاور،۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء
  • بی بی مریم ،د پختو نثر تاریخی او تنقیدی جائزہ ، پشتو اکیڈیمی، پشاور یونیورسٹی ،1408ھ/1987ء
  • حسرت، محمد زبیر،د قلب السیر شاعری ، مرکہ پبلشرز، میر افضل خان بازار، مردان، 1423ھ/ 2002ء 
  • خلیل حنیف، پشتو زبان و ادب کی تاریخ (ایک خاکہ)، یونیورسٹی بک ایجنسی، پشاور ،1430ھ/2009ء 
  • خوشحال خان خٹک، فراقنامہ، مرتب: ہمیش خلیلؔ ، قامی مکتبہ ،پشاور،1404ھ/1983ء
  • زلمے ہیوا د مل،رشد زبان و ادب دری درگسترہ فرہنگی پشتو زبانان ، افش د نویسندہ گان ، افغانستان آزاد، ۱۳۷۶ھ/1956ء
  • عبدالحئی حبیبی،پختو نثر تہ کرہ کتنے(پشتو) سن طبع نامعلوم
  • قاضی عبدالحلیم، رسالہ"پشتو" ، پشتو اکیڈمی ، پشاور یونیورسٹی
  • ہمیش خلیل ،د پختو شعری ادب(۱۱۰۰ھ۔ ۱۲۰۰ھ)، پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی ،1430ھ/ 2009ء
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...