Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 2 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

سامی ادیان میں جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق احکامات کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

تمہید

عقائد و احکامِ یہودیت وعیسائیت مخصوص اصول و ضوابط پر مبنی ہونے کی بجائے ہزارہا سال پر محیط پیچیدہ ایمانیات کا ارتقائی نظام ہیں ،ان کےعقائد و احکام کی حالیہ شکل تاریخ میں رونما ہونے والے نظریاتی و فکری تغیرات کا نتیجہ ہے۔ ان احکام کو وضع کرنے والےعلماءفلاسفروں و مفکروں نے ذاتی فہم و فراست سے ان احکام کا تجزیہ کیا ور تراجم اپنے پیروکاروں کو پیش کیے تا کہ ہر دور کے ماننے والوں میں ان سے متعلق فکری سوالوں کا جواب دے کر انہیں مطمئن کیا جا سکے،چنانچہ جانوروں کی حلت و حرمت کے احکام یہودو نصاری کی فکری و نظریاتی ارتقائی تاریخ کا ثبوت ہیں[1]درپیش حالات اورضرورتِ وقت کے مطابق جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق احکام کی تشریح کر لی گئی جو ہر یہودی کی فکری ،نظریاتی و روحانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پیش کئے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہودیت میں توریت کے علاوہ کتب مقدسہ کا طویل سلسلہ ہے جو یہودی تعلیمات میں بنیادی مقام رکھتاہے[2]۔ جبکہ عیسائیت میں عہدنامہ عتیق تسلیم شدہ ہےمگربالعموم جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق کوئی خاص التزام اختیار نہیں کیا گیا۔

تورات کی روایات کے مطابق خداوندنے بنی نوع انسان کواپنی شبیہ کے مطابق پیداکیاہے اوربقیہ مخلوق پرانسان کوغلبہ اورتحکم عطاکیاہے ۔اسلام میں بھی یہی نقطہ نظر ہے کہ اللہ نے انسان کو فطرت سلیمہ پہ پیداکیاہے اور ساری مخلوق پر فضیلت عطاکی ہےیہی تسلط کی اصطلاح عیسائی متقدمین نے استعمال کی تھی جس کامطلب تھاکہ بنی نوع انسان کو جانوروں پر تحکمت حاصل ہونی چاہیے ۔ عیسائی عقیدہ کے مطابق جانوروں کے جسم میں روح نہیں ہوتی [3]نیزبائبل کے مطابق ہفتہ کے پانچویں دن چرندپرندتخلیق کیےگیےزمینی جانداروں کی جِنس کے موافق جنگلی جانوروں ،چوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُنکی جِنس کے موافق پیدا کیا[4]اور زمین کے جانوروں اور ہوا کے کُل پرندوں اورزمین پر رینگنے والے ہیں جن میں جان ہےہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہے[5]بائبل کے مطابق اللہ نےچرندپرنداورکیڑوں مکوڑوں کی مٹی سے تخلیق کی اوران کوآدم نے جو نام دیا وہی اس کانام ٹھہرا[6]مزید یہ کہ خدانے چرندپرندسب جانداروں کومٹی سے تخلیق کیا مگر ان سب کی پانی سے تخلیق کابائبل میں کوئی ذکرنہیں ہے ۔البتہ آبی جانداروں کوصرف پانی سے بنایا اورپانی ان کے لیے حیات زندگی ہے [7]جبکہ اسلام کے مطابق اللہ نے ہر چلنے پھرنے والے (جاندار)کی پیدائش (کی کیمیائی ابتداء ) پانی سے فرمائی، پھر ان میں سے بعض وہ ہوئے جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہوئے جو دو پاؤں پر چلتے ہیں ، اور ان میں سےبعض وہ ہوئے جو چار (پیروں ) پر چلتے ہیں ، اللہ جو چاہتا ہےپیدا فرماتا رہتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔[8]دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے۔

سابقہ تحقیقات کا جائزہ

جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق بنیادی احکامات کتب سما ویہ یعنی تورات و انجیل اور قرٓان میں تفصیلا بیان ہوے ہیں تورات و انجیل کے علاوہ تالمود [9]میں بھی احکامات تفصیلا بیان ہوئےعلاوہ ازیں ہلاخا[10]کے قوانین اہل یہود کے ہاںواجب التقلید ہیں-سورة المائدہ اور سورہ النحل کی متعدد تفاسیر جیسےشمس الدين القرطبی کیالجامع الاحکام القرآن[11] ،جصاص، ابوبکر احمد بن علی الرازی کیاحکام القرآن[12] اورعلامہ ٓالوسی کی روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی [13]جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق بنیادی مصدرکی حیثیت رکھتی ہیں نیزکتب ستہ میں بھی صریح احکامات موجودہیں مذکورعنوان پرسابقہ کتب میں احکام و مسائل بیان ہیں جن میں محمد بن موسی بن عیسی الدمیری-حیات الحیوان الکبری[14]، امین معلوف امین باشا-معجم الحیوان[15]، ،کیپٹن،ڈاکٹر محمداشفاقکی کتابامورحیوانات[16]،مولانا عبدالماجددریابادیکی کتاب حیوانات قرآنی[17]شامل ہیں ،متعدد انگریزی کتب بھی لکھی گئ ؛جن میں بلیچ زوژے یوسفکیKosher FoodProduction[18]،چودھری محمد اورمیاں ریاض کیHalal Food Production[19]اورکٹکر شوکر کیFood and culture[20] اہم کتب ہیں-مقالہ جات میں ٹرٓ ٓایبگ کا مقالہ Clean and Unclean Meats[21]،حافظ مبشر حسین کا مقالہ حیوانات کی حلت و حرمت؛ فقہاء کی ٓارا[22]شامل ہے۔ان میں سے اکثر کتب بالعموم کسی ایک مذہب میں بیان قوانین حلال و حرام کے موضوع پر لکھی گئ ہےان کتب میں بعض نے مخصوص جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع بنایاتو کسی نے محض ماکولات پر بحث لی ہے مزید یہ کہ قوانین حلال و حرام میں بھی بعض موضوعات جیسے گوشت اور مشروبات کے متعلق کتب نے سیر حاصل بحث موجود ہےمگرسامی ادیان میں جانوروں کی حلت و حرمت کتب سماویہ کی آیات اور دیگرمذہبی لٹریچر کے تناظرمیں تقابل پیش کرنے سے قاصر رہے۔مقالہ ہذامیں جانوروں کے احکام حلت و حرمت سامی ادیان کی مقدس کتب سماویہ کی ٓایات اور دیگرمذہبی لٹریچرکے تناظرمیں پیش کیے گے ہیں۔مقالہ ہذاکا موضوع سامی ادیان میں جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق احکام کا تجزیاتی مطالعہ وسعت رکھتاہے موضوع میں محض الہامی کتب پر اکتفا نہیں کیا گیابلکہ سامی ادیان کی مقدس کتب میں فقہی اور تشریعی لٹریچر موضوع کی ضرورت اور نوعیت کےاعتبار سے پیش کیا گیا ہے۔

اسلوب ِتحقیق

مقالہ ہذا میں تحقیقی مقا صد کو پورا کر نے کے لیےتقابلی وتجزیاتی منہج تحقیق کو اختیار کیا گیا ہے۔ عملی تحقیق کو تحریری صورت میں لانے کے لیے حاصل شدہ مواد کوتقابلی اور تجز یاتی اسلوب تحقیق میں بیان کیا گیا ہے۔غیر ضروری طوالت سے اجتناب کے لیےسامی ادیان میں جانوروں کی حلت و حرمت کیاحکام آیات کا ملخص نکال کرتحریر کیا گیا ہے اورآیات کا حوالے فٹ نو ٹ میں تحریر کیاگیا ہے -

سامی ادیان میں جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق احکام

اللہ تعالی نےاپنے نبیوں کے ذریعے مجموعی احکام میں بتایاکہ سؤر ،خون،مردار[23] اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔موسوی شریعت کے مطابق کوشر[24]اہل یہودکاقانون حلت و حرمت [25]ہےموسوی شریعت کے مطابق ذبیحے(جانوروں)اور نذر کی قربانیاں عبادت کا سب سے اہم حصہ تھیں[26] ۔ ان سب کو اس مرکزی مقام مقدس یروشلم میں چڑھانا لازم تھا۔یہ قربانیاں مختلف قسم کی تھیں متفرق نیتوں کے سبب جانوروں کی قربانی چڑھاتے تھے۔ کتاب مقدس کے پہلے باب کے مطابق انسان خدا کی عبادت کرتا ہےاورعبادت کے پہلے افعال میں قائن اورہابل کے ہدیات کاذکرہے-[27] جو ہدیہ قبول کیا گیا وہ جانور کی قربانی تھی ۔ رفتہ رفتہ خدا کا مکاشفہ بڑھتا گیا ۔ حضرت نوح کے طوفان سے پہلے لوگ قربانی کے ساتھ دعا بھی کرتے تھے مگر طوفانِ نوح کے بعد عبادت کے خاص مقامات مقرر ہوگئے[28]مجموعی طور پرکلام اللہ (بائبل ) میں قربانیوں کے تین درجات ہیں ۔ان میں سو ختنی قربانی جو روزانہ کی جاتی تھی گناہ اور خطا ورسلامتی کی قربانیاں شامل ہیں ۔ اس میں تمام ذبیحہ یا ہدیہ خدا کو نذر کیا جاتا تھامقصد خدا کے ساتھ پر امن تعلقات اور کفارہ یا گناہوں کو ڈھانکنے کے لئے چڑھائی جاتی تھیں اسی طرح اسلام میں بھی اللہ کی رضاو خوشنودی ،محبت اور شکر کا اظہار کرنا مقصود ہے۔

حیوانات[29]کی حلت و حرمت شریعت کاا ہم موضوع ہے۔چنانچہ قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ، پنجہ والے پرندےجو اچک کرچونچ سے پکڑلےور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ۔اورحضرت موسیٰ اورہارون علیہمالسلام سے کلام فرمایاکہ بنی اسرائیل سے کہوکہ زمین کے سب چوپایوں میں سے یہ وہ حیوان ہیں جنہیں تم کھاسکتے ہو؛ سب جانور جن کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں اور وہ جگالی کرتے ہیں تم انکو کھاؤ مگر جو جگالی نہیں کرتے ہیں یا جن کے پاؤں الگ ہیں ان میں سے تم ان جانوروں کو نہ کھانا ۔ اونٹ کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اسکے پاؤں الگ نہیں وہ تمہارے لئے ناپاک ہے ۔ اوروَبُرگو کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پاؤں الگ نہیں وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے ۔اور خرگوش کو کیونکہ وہ جگالی تو کرتا ہے پر اس کے پاؤں چرے ہوئے نہیں وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہےاورخنزیر کو کیونکہ اسکے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا ۔ وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے ۔تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا ۔ وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں[30]۔ خون[31]، اور مردار[32]بھی انکے ہاں حرام ہیں-چھ مسیحی گروہوں کے عقائد کے مطابق پرانے عہد نامہ سے متعلق عام مذہبی اور روحانی نظریے کے برعکس یہودیت میں جانوروں کی قربانی ( قربونوت) گناہوں کا کفارہ تھی اور اس کے اعمال بہت ہی پیچیدہ تھے۔[33] اور چند ایسے احکامات حلت و حرمت بھی تھے جو مخصوص و محدود حالات سے متعلق تھے اور ان کا اطلاق اس بات کا متقاضی تھا کہ قوانین اور روایات کے تحت احکامات حلت و حرمت یا وجوب صادر ہوجائے

اسلام میں بنیادی حکم پاکیزہ کھانے کا ہے۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ[34]اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں۔اسلام میں حرام جانوروںمیں سب سے پہلےمردارجانور حرام ہے حتی کہ اس میں سے صدقات بھی ممنوع ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:إِنَّما حَرَّ‌مَ عَلَيكُمُ المَيتَةَ[35] مردار حرام کیا گردن سے بہنے والا خون حرام ہے ‘بجز اس کے کہ وہ مردار (اپنی موت مرا ہوا) جانور ہو یا بہتا ہوا خون[36]سورکا گوشت بھی حرام ہے-یہ تینوں چیزیں اس لیے حرام قرار دی گئی ہیں کہ یہ ناپاک ہیں ان میں سے کھائی جانے والی ہر چیز ’’نجس‘‘ ناپاک ہے۔ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ[37]تمھارے لیے چرنے والے چوپائے حلال کیے گئے ہیں، حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ -- اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ[38]تم پر حرام کیا گیا ہے مُردار، خون، سور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو- سواے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کرلیا-اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہواسی طرح ہر وہ درندہ بھی حرام ہے جو کچلی سے شکار کرتا اور چیر پھاڑ کرتا ہو‘ مثلاً بھیڑیا اور کتا وغیرہ۔گویاحلالوہ جانورجواللہ کے نام پر ذبح کیاجاے اور جو بتادیےگئےہیں۔روایتہے عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَکُلُوهُ قَالَتْ وَکَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْکُفْرِ.ہے’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ زمانۂ کفر کے قریب کی بات ہےکچھ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ ہم ایسے لوگ ہیں جن کے پاس گوشت آتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ اس پر اﷲ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں۔ ارشاد ہوا کہ تم اس پر بسم اﷲ پڑھ کر کھا لیا کرو۔[39]ایک اور روایت اس روایت کی تایئد کرتی ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایاجَائَتْ الْيَهُودُ إِلَی النَّبِيِّ فَقَالُوا: نَأْکُلُ مِمَّا قَتَلْنَا وَلَا نَأْکُلُ مِمَّا قَتَلَ اﷲُ فَأَنْزَلَ اﷲُ {وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْکَرْ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ} إِلَی آخِرِ الْآيَةِ[40]’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: یہودی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: جس جانور کو ہم قتل کرتے ہیں آپ اسے تو کھا لیتے ہیں لیکن جس جانور کو اﷲ قتل کرتا (مارتا) ہے اسے نہیں کھاتے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا: اور تم اس (جانور کے گوشت) سے نہ کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ابو ادریس خولانی نے حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲﷺنے دانتوں سے پھاڑ کر کھانے والے ہر درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے[41]نبیﷺنےکچلی سے شکار کرنے والے تمام درندوں[42]اورپنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندوں کو حرام قرار دیا ہ۔ سابقہ مذاہب میں مذہبی پیشوائیت نے حلال و حرام کا اختیار اپنے ہاتھ لے لیا تھا اسی لئے اللہ نے قرآن میں اس کی سختی سے مذمت کی اور اس بات کا واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کھانے کی اشیاء کو حرام قرار دینے کا اختیار ہے وہ جھوٹے اور غلط کار ہیں۔

دیگر جانوروں کی تفصیل کچھ یوں بیان ہے۔

سمندری جانوروں کے احکام

اہل کتاب کیلئےحکم ہے کہ جوجانور پانی میں رہتے ہیں یعنی سمندروں اور دریاؤں وغیرہ ان میں حلال جانوروںمیں جن کےپراورچھلکے ہوں کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن وہ سب جاندار جو پانی میں یعنی سمندروں اور دریاؤں وغیرہ میں چلتے پھرتے اور رہتے ہیں لیکن انکے پر اور چھلکے نہیں ہوتے وہ مکروہ ہیں ۔ اور وہ مکروہ ہی رہیں گئے۔ انکا گوشت نہ کھانے اور انکی لاشوں سے نفرت کرنے کا حکم ہے ۔پانی کے سب جاندارجن کے نہ پرہوں اور نہ چھلکے سب مکروہ ہے[43]۔پانی کے جانداروں کے احکام بیان کرتے ہوئےانجیل نےاس مچھلی کا تزکرہ بھی کیاجسمچھلی نے نبی یونس علیہ السلام کونگلاتھااُسے انجیل نےبڑی مچھلی کہاگیاہے [44]گویاپانی کے جانوروں میں سے اُن مچھلیوں کوکھانے کی اجازت تھی جن کے اوپرچھلکے ہوں[45]۔دین اسلام میں سمندر کاپانی پاک ہے اورا س کا مردہ جانور حلال ہےفرمان الہی ہے أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ[46]مزیدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :سمندر کاپانی پاک ہے اورا س کا مردہ جانور حلال ہے[47] پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارے اپنے آپ مر کر پانی کی سطح پر الٹ گئی وہ حرام ہے۔ مچھلی کو مارا اور وہ مر کر الٹی تیرنے لگی یہ حرام نہیں۔ ٹڈی بھی حلال ہے مچھلی اور ٹڈی یہ دونوں بغیر ذبح کیے حلال ہیں۔ جیسا کہ حدیث پاک میں فرمایا کہ دو مردے حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی[48]۔ پانی کی گرمی یا سردی سے مچھلی مر گئی یا مچھلی کو ڈورے میں باندھ کر پانی میں ڈالا اور مر گئی یا جال میں پھنس کر مر گئی یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال دی جس سے مچھلیاں مر گئیں اور یہ معلوم ہے کہ اس چیز کے ڈالنے سےمر گئیں یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے مر گئی ان سب صورتوں میں وہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے۔ کچھوا خشکی کا ہو یا پانی کا حرام ہے۔ جھینگے کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ مچھلی ہے یا نہیں اسی بناء پر اس کی حلت وحرمت میں بھی اختلاف ہے بظاہر اس کی صورت مچھلی کی سی نہیں معلوم ہوتی بلکہ ایک قسم کا کیڑا معلوم ہوتا ہے لہذا اس سے بچنا ہی چاہیے۔[49]

پرندوں کے احکام

بائبل کی روایات کے مطابق پرندوں میں جو ناپسندہونے کے سبب سے کبھی کھائے نہ جائیں اور جن سےکراہت کرنے کا حکم ہے وہ یہ ہیں ۔ عقاب اور نَسراورہُما، چیل اور ہر قسم کا عقاب اور ہر قسم کے کوئے اور شترمرغ اور ابابیل اور ہر قسم کےہڈی نوچ کے کھانے والے پرندے اوراُلو -[50] اور قاز اور حواصل اور گدھ اور سب قسم کے بگلے اور ہدہد اور چمگادڑ ۔اسلام میں ہر وہ پنجہ والاپرندہ بھی حرام ہے جو پنجے سے شکار کرتا ہو مثلاً چیل، شکرا،عقاب اور بازوغیرہ۔کوا جو مردار کھاتا ہے حرام ہےگویاتمام پنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندوں کو حرام قرار دیا ہے۔

حشرات الارض سے متعلق احکام

سب پَروالے اور رینگنے والے جاندار جو چار پاؤں کے بل چلتے ہیں وہ اہل یہودکے لئے ناپاک ہیں ۔ لیکن پردار رینگنے والے جاندروں میں سے جو چار پاؤں کے بل چلتے ہیں ان جاندروں کو یہ کھا سکتے ہیں جن کے زمین کے اوپر کودنے پھاندنے کو پاؤں کے اوپر ٹانگیں ہوتی ہیں۔ ہر قسم کی ٹڈی اور ہر قسم کا جھینگر اور ہر قسم کی گھاس کا ٹڈا حلال ہیں ۔ مگر سب پردار رینگنے والے جاندار جن کے چار پاؤں ہیں وہ انکے لئے ناپاک ہیں اور ان سےناپاکی واجب ٹھہرے گی حتی کہ جو کوئی ان میں سے کسی کی لاش کو چھوئے وہ شام تک ناپاک رہےگااورجوکوئی ان کی لاش میں سے اٹھائے وہ اپنے کپڑے دھوئے اور وہ شام تک ناپاک رہی گا ۔ اسلام کے مطابق حشرات الارض حرام ہیں جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ چوہا۔، سانپ، بچھو، بھڑ، مچھر، پسو، کھٹمل، مکھی، کلی ، مینڈک وغیرہ۔البتہ چارپاؤں پر چلنے والے جانوروں میں سے جتنے اپنے پنجوں کے بل چلتے ہیں اس کے متعلق ایک روایت میں ہے ـ”انفجنا ارنبا بمر الظهران فسعوا عليها حتى لغبوا فسعيت عليها حتى اخذتها فجئت بها إلى ابي طلحة فبعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم بوركيها او فخذيها فقبله “[51]حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے ایک خرگوش کومرالظہران کے مقام پر بھگایا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑتے دوڑتے تھک گئے تو میں نے اسے پکڑ لیا اور لے کر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سرین یا دونوں رانیں رسول ﷺ کی خدمت میں بھیج دیں، آپﷺ نے انہیں قبول فرما لیا۔ میں عرض گزار ہوا کہ اس میں سے کھایا؟ فرمایا کہ اس سے کھایا ۔

رینگنے والے جانداروں کے احکام

تورات کے حکم کے مطابق زمین پر رینگنے والے جانوروں میں سے جوناپاک ہیں وہ یہ ہیں : یعنی نیولا چوہا اور ہر قسم کی گوہ ; حرذون اوروَرل اور چھپکلی اور سانڈ اور گرگٹ ۔جو کوئی ان میں سے مرے ہوئے کو چھوئے گاوہ شام تک ناپاک رہے گا اور جس چیز پر وہ مردار گریں وہ ناپاک ہوگا ۔ [52]اسلام میں بھی زمین پر رینگنے والے جانور جیسے نیولا چوہا، چھپکلی اورگرگٹ حرام ہیں۔

چوپائیوں کےمتعلق احکامات

بھیڑبکری

عبرانی میں بکری کے لیے سات آٹھ مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس سے بکری کی اہمیت ظاہرہوتی ہے ۔ پرانے زمانے میں بکری ایک قیمتی ملکیت سمجھی جاتی تھی اورکسی کی دولت کا اندازہ اس کے مویشیوں خصوصاًبکریوں کی تعدادسے کیاجاتاتھا ۔جیسےکہ نابال، اس کی ایک ہزاربکریاں اوردیگرمویشی بھی تھے[53]کتاب مقدس کے مطابق بکری ایک مفیدجانورہے کیونکہ یہ تھوڑے سے چارہ پرگزاراکرسکتی ہے اوراس کادودھ عام استعمال میں آتاہے اور اس کاگوشت خاص کربکری کے بچے کاگوشت نہایت لذیذہوتاہے [54]اس کی کھال سے لباس اورمشکیں اوربالوں سے کپڑے بنائے جاتے ہیں بکرے بکریوں کے گلے کے آگے چلتے ہیں اسی لیے یہ مجازی معنوں میں پیشواکے لیے استعمال کیاگیاہے [55]مویشی پال لوگوں کی سب سے اہم ملکیت بھیڑبکریاں اورگائے تھے ۔ یہ دودھ،اُون،گوشت اورکھال جس سے لباس اورمشکیں بنائی جاتی تھیں ،مہیاکرتے تھے ۔ ان کاسب سے پہلاذکرکتاب پیدائش میں ہے [56]عبرانی لوگ اپنے حاکموں کواُونبھی بطورخراج دیتے تھے [57]۔بھیڑایک صاف ستھرا اورپالتوجانورہے جوبہت قدیم زمانہ سے انسان کامددگاررہاہے ۔ انسان کواس سے بہت انس بھی ہوسکتاہے[58]متی کی انجیل میں بھیڑوں اوربکریوں کاذکرروزمحشرکے سلسلے میں آتاہے ۔ نیک لوگوں کوبھیڑیں کہاگیاہے اورانہیں اپنے داہنے ہاتھ پرکھڑاکرے گا ۔ داہناہاتھ خوش نصیبی اوراقبال مندی کی علامت ہے ۔[59]زبورکی غزل الغزلات میں محبوبہ کے خوبصورت دانتوں کی تعریف کرتے وقت انہیں بھیڑوں کے گلے سے تشبیہ دی گئی ہے جنہیں بال کترنے کے بعدغسل دیاگیاہویعنی وہ چمکتے اورسفیدہیں[60]جبکہ اسلام میں ان کو حلال قرار دیا گیا ہےاور عمومی طور پر قربانی کے لئے معروف جانور ہیں.

گائے بیل

انجیل میں گائے بیل اوردوسرے جانور دولت کی علامت تھے -[61]یہ جانورخوراک کے لیے بھی استعمال ہوئے تھے اورقربانی کے لیے بھی ۔ اسرائیل اورمدیانیوں کی جنگ میں لوٹ مار میں بہترہزارگائے بیل بھی شامل تھے -[62] یعقوب نے اپنے بھائی عیسوکے لیے بطورنذارنہ چالیس گائیں اوردس بیل بھی پیش کیے -[63]گائے کابچھڑا اورپلاہوابیل ضیافت کے عمدہ کھانوں میں شمارہوتے تھے ۔[64] قرٓانِ حکیم میں چوپایوں کی منفعت کے پہلو ہیں ، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے اس میں خالص دودھ جوپینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہے -[65]جانورپر سوار ی کی جاتی ھے[66] چوپائوںمیں بہت سے فوائد ہیں بعض کھانےاور بعض سواری کے کام ٓاتےہیں تاکہ ضرورت کی جگہ تک پہنچا جاسکے۔[67]

گدھا، خچر

بائبل کی روایات کے مطابق ابرہام کے پاس گدھے تھے ۔[68]سفیدرنگ کے گدھے قیمتی تصورکیے جاتے تھے اوران کی قدربھی زیادہ تھی -پرانے عہدنامہ کے زمانے میں کسی شخص کی دولت کا اندازہ اکثراس کے گدھوں کی تعدادسے لگایاجاتاتھا ۔ کھیتی باڑی کا مشکل کام گدھوں ہی سے لیاجاتاتھا اورسواری کے لیے بھی اسے ترجیح دی جاتی تھی ۔ گدھے کی سواری شاہی سواری تصورکی جاتی تھی۔خچربوجھ اٹھانے کے لیے استعمال کیاجاتاتھا [69]کیونکہ یہ بڑاثابت قدم جانورہے اورخاص کرپہاڑی علاقے میں بڑاکام دیتاہے[70] یہ شاہی سواری کے لیے بھی استعمال ہوتاتھا [71]اوربطورانعام بھی دیاجاتاتھا ۔[72]اسلام میں گھوڑا مباح ہے ۔ گھوڑے چونکہ آلہ جہادہیں لہذاانکوکھانے کی ممانعت ہے۔ اور خچر حرام ہے اسی طرح ہر وہ جانور جو ماکول اللحم اور غیر ماکول اللحم سے پیدا ہو تو وہ بھی حرام ہے مثلاً خچر لہٰذا جب خچر ان دونوں سے پیدا ہوا تو اس میں حرمت کے پہلو کے غلبہ کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔اسلام میں بھی پالتوگدھے حرام ہیں جبکہ جنگلی گدھا جسے گورخر کہتے ہیں حلال ہے کیونکہ حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کےموقعہ پران سب کو حرام قرار دیاعن جابر قال : حرم رسول الله صلى الله عليه و سلم يعني يوم خيبر الحمر ولحوم البغال وكل ذي ناب من السباع وذي مخلب من الطير[73]حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقعہ پر پالتو گدھا اورخچرکا گوشت ، ہر کچلی دانت والا جانور اور ہر پنجے سے شکار کرنے والے پرندے کو حرام قرار دیا۔مزید صحیحین میں حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نےخالدبن ولید کو[74] اور صحیحین میں ایک روایت میں ابو طلحہؓ کو حکم دیا اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا’اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے (گوشت) کھانے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ گھریلو گدھے ناپاک ہیں[75]-

کتا،مینڈک اور دیگر جانور

پرانے زمانے میں یہودی کتے کوبڑی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اوریہ جانورناپاک اورگندی عادتوں والاتصورکیاجاتاتھا۔مصر میں کتے شکارکے لیے استعمال کئے جاتے تھے اوران کی بڑی قدرتھی ۔ کسی کوکتایامراہواکتاپکارناسخت گالی سمجھی جاتی تھی [76]مجازی معنوں میں ناپاک روحوں کومینڈکوں سے تشبیہ دی گئی ہے [77]اس کے علاوہ بائبل میں اونٹ،بھیڑیا،جنگلی خنزیر،چمگادڑ،چوہا،چھپکلی،چھچھوندر،چیتا،خرگوش،ریچھ،سانپ،سانڈ،سوَر،شیر،گھڑیال،گھوڑا،گھونگا،لومڑی،مونگے،مینڈھا، نیولا،ہاتھی کاذکرآیاہے۔[78]

اسلام میں بھی بھیڑیا،جنگلی خنزیر،چمگادڑ،چوہا،چھپکلی،چھچھوندر،،چیتا،ریچھ،سانپ،سانڈ،سوَر،شیر،لومڑی،مونگے،نیولا،ہاتھی اور تمام درندے اور جو جانور مشتبہ ہوں یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ حرام ہیں یا حلال تو ان کے بارے میں بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ ان کو ہم ان سے ملتے جلتے جانوروں سے ملا دیں گے اور جو حکم ان کا ہوگاوہی ان کا بھی ہوگا۔اسلام میں گوشت خور جانوروالا جانور جو اکیلے سے شکار کرتا ہو حرام ہے جیسے۔ شیر، گیدڑ، لومڑی، بچھو، کتا وغیرہ کہ ان سب میں اکیلے ہوتے ہیں اور شکار بھی کرتے ہیں اونٹ کے اکیلا ہوتا ہے مگر وہ شکار نہیں کرتا ہے لہذا وہ اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔اسی طرح اہل کتاب کے ہاں بھی سب حیوان جن کے کھر الگ ہیں پر وہ چرے ہوئے نہیں اور نہ وہ جگالی کرتے ہیں وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں ۔ جو کوئی ان کوچھوئے وہ ناپاک ہوگا ۔ [79]اور چارپاؤں پر چلنے والے جانوروں میں سے جتنے اپنے پنجوں کے بل چلتے ہیں وہ بھی ناپاک ہیں ۔حتی کہ اگر کوئی انکی لاش کوبھی چھوئےگاتو وہ شام تک ناپاک رہے گا ۔ اور جو کوئی ان کی لاش کو اٹھائے وہ اپنے کپڑے دھوئے اور وہ شام تک ناپاک رہے گاکیونکہ وہ سب ناپاک ہیں ۔

یہودیت میں حلال جانوروں کی قربانی

عبرانی ادب میں قربانی کے لئے قدیم ترین لفظ " منھا"ہے اس نیاز سے مقصد یا تو خدا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانی،اظہار تشکر و اطمینان تھا، بنی اسرائیل میں عام طور سے کھانا بطور نیاز پیش کیا جاتا -کھانے کی تیاری میں غیر معمولی اہتمام برتا جاتا تھا۔ لوگ متعقدتھے کہ نیاز کے کھانوں میں خدا شرکت کرتا ہے خاص طور پر جانور ذبح کئے جاتے اور اس طرح جانوروں کی قربانی کا طریقہ رائج ہو گیا۔عبرانی زبان میں قربانی کا دوسرا معانی "قریب" ہونا ہے ۔ قربت الہٰی کے علاوہ قربانی کا مقصد محبت اور شکر کا اظہار کرنا، ظاہری و جسمانی رسمی و اخلاقی آلودگی سے پاکی حاصل کرنا ہے ایک یہودی کو اس کے خدا کے قریب کرنے کا ذریع یہ مذہبی رسم بنتی ہےاس کےلئےنیت وارادے کا خالص ہونا لازم ھے لیکن اگر کسی گناہ یا خطا غیرارادی طور پر سر زد ہو جائے تب بھی قربانی مداوا بنتی۔ بعد از حضرت موسیٰ قربانیوں کا یہ سلسلہ ۷۰ء تک جاری رہا ۔ یہودی شریعت میں قربانی کا ایک نہایت اہم مقصد خدائے واحد کی عبادت اور شرک سے اجتناب قرار پایا جیسا کہ تالمود میں بھی درج ہے۔

Has God pleasure in the meat and blood of sacrifice brought your offerings at least to me?[80]

” نبیوں سے پوچھا گیا کہ کیا خدا گوشت اور خون کی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے؟ تو جواب میں بیان کیا گیا وہ کہتا ہے :جو تم پیش کرتے ہو وہ تمہارے لیے ہے۔ میرے لیے نہیں۔ نیز یہ کہ لوگ قربانی سے محبت کرتے ہیں اور وہ دیوتاؤں کے لیے قربانیاں چڑھاتے ہیں۔ اس لیے خدا نے ان سے کہا اگر تم قربانی کرو تو اپنی قربانی صرف میرے لیے ہی لاؤ “

قربانی کے سوا عبادت کا کوئی اور خاص انتظام مقرر نہ تھا ۔ لیکن بعدازاں عبادت کے مختلف طریقےجیسےرقص و موسیقی،جماعتی دعااور زبور کے کلمات خاص مواقع پر پڑھے جانے لگےجبکہ اسلام میں اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنے ،نادار لوگوں پر کشائش کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کےدرمیان محبوب شہ کے خرچ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی غرض سے قربانی کو مشروع کیا ہے۔لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.[81]یہ قربانی کی ہدایت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں کہ خدا کو ان قربانیوں سے کوئی نفع نہیں پہنچتا۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تم ہی کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اہل کتاب کا زبیحہ بھی حلال رہا[82]تم خود اس کو کھاؤ اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلاؤ ۔ خدا قربانیوں کے خون سے محظوظ نہیں ہوتا، بلکہ اس تقویٰ اور اس اطاعت سے خوش ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔[83]اس استثنی کے علاوہ قربانی پیش کرنے کے دیگر اسباب و مواقع بھی تھے جو عموماً غیر متوقع ، اچانک ، حادثاتی اور مخصوص و محدود حالات و احکامات کے تابع تھے۔ قربانیاں خالصتاخدا کا قرب حاصل کرنے اور بالخصوص اس کا شکر ادا کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہیں۔

اسرائیلوں میں سب سے اہم دن ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو قربانی کا اجتماعی طور پر خاص اہتمام کیا جاتاتھاغالباً یہ انسانی قربانی کا نعم البدل تھا، اس دن پروہت اعلیٰ معابد کے اندرونی حصے میں داخل ہوتا اور اپنے خاندان کی طرف سے بیل کی قربانی پیش کرتا۔عوام کی جانب سے بھی دو بکرے قربان کئے جاتے ،ان بکروں میں سے ایک خدا کے لئے مخصوص کر دیا جاتا اور دوسرا عزازیل کے لئے ۔قرعہ اندازی کے ذریعہ منتخب ایک بکرا گناہوں کے کفارے کے طور پر پیش کیا جاتا ،دوسرے بکرے پر پروہت اعلیٰ بنی اسرائیل کے گناہوں کو منتقل کر کے اسے جنگل کی طرف ہنکا دیتا تھا اس سے مقصد یہ تھا کہ یہ گناہوں کو منتقل کر کے اسے جنگل (جہاں پر خدا کی عملداری نہیں )میں پہنچ جائیں۔پروہت قربانی کا اپنا بیل اور عوام کی طرف سے خدا کو پیش کئے جانے والے بکرے کا خون معبد کے مقدس جگہ پر چھڑکتا تھا،جس سے ان جگہوں کی تطہیر مقصود ہوتی تھی۔،ایک دنبہ پروہت اپنی طرف سے اور دوسرا عوام کی طرف سےپیش کرتا[84]-اسرائیلی یہواہ کے سامنے منتیں مانگتےعجیب و غریب وعدے کرتے کہ دشمن پر غلبہ کے بعد بطور قربانی مفتوحین کے ایک ایک فرد کو قتل یا پورے شہر کو نذر آتش کر ڈالیں گے[85]کتاب مقدس میں پانچ اہم قربانیوں کا ذکر ملتا ہے۔

۱۔ سوختنی قربانی (Olah)قدیم الایام سے اسرائیلی روزانہ صبح و شام سوختنی قربانی دیا کرتے تھے چوپائیوں میں بھیڑ بکریاں اور پرندوں میں فاختہ اور کبوتر کو ترجیح دی جاتی تھی اسرائیل معابد میں ہر وقت جلتی آگ میں قربانی کے جانور پورے ڈال دئے جاتے سوختنی قربانی مکمل طور پر جلا دی جاتی گویا یہودی استعارتاً اپنے گناہوں کو آگ میں جلا کر راکھ کر دیتا ہے ۔قربانی دینے والے حسب توفیق مویشی، بھیڑ یہاں تک کہ پرندوں کو بھی سوختنی قربانی کے لیے پیش کر سکتا[86]

۲۔ نذر کی قربانی:Hattahنذر کی قربانی خدا کو خوش کرنے کوہوتی تھی ۔جیسے ہابیل،بھیڑ بکریوں کے پہلوٹھے بچے [87]توے کا پکا ہواتیل ملےبےخمیری میدہ کا ہو۔[88]

۳۔ سلامتی کا ذبیحہ: Selemسلامتی کا ذبیحہ خدا کی نعمتوں ورحمتوں کا اظہار تشکر ہے عبرانی میں ذبیک”شلامیم جو ”شلوم “ سے مشتق ہےبمعنی"امن" یا "مکمل"۔ گائے بیل میں سے ہو خواہ وہ نر ہو یا مادہ پرجو بے عیب ہو اسکوخداوند کے حضور چڑھائے “[89] اس قربانی کا ایک حصہ آگ میں مکمل طور پر جلا دیا جاتا ہے جبکہ بقیہ قربانی گزارنے والا اور کاہن کھاتے ہیں۔

۴۔ خطا کی قربان(Asam) نادانستہ یادانستہ گناہ یا خطا انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں میں تلافی بچھڑے کی قربانی صورت میں ممکن ہے[90]۔ عام فردکی خطاپربےعیب بکری کی جبکہ بنی اسرائیل کی ساری جماعت کوایک بچھڑا خطاء کی قربانی کے طور پر چڑھانے کے لیے خیمہ اجتماع کے سامنے لانے کا حکم ہے۔[91]

یہودی روایات کے مطابق ہابیل اورقابیل دونوں نے اللہ کی راہ میں جونذرانے پیش کئے ان میں سے اللہ تعالیٰ نے ہابیل کے نذرانے کوقبول کیاجبکہ قابیل کے نذرانے کوردکردیاتھا ۔ قابیل نے پھل جبکہ قابیل نے جانوربطورنذرانہ پیش کیاتھا ۔ یہیں سے پیغمبران خدا اللہ کی بارگاہ میں جانوروں کی قربانی ہی پیش کرتے رہے ہیں ۔ اس کے بارے میں انگریزمحقق یوں لکھتاہے:

One answer that Jews and Christians often give that the God directed the Jewish People to kill animals to preserve their wellbeing ;therefore, it must be ok for us to do so as well.[92]

جانوروں کی قربانی کے حوالے سے یہودی تعلیمات تضادکاشکارنظرآتی ہیں کیونکہ بائبل کے کئی ایسے اقتباسات ہیں جوقربانی کی مذمت کرتے ہیں ۔

To what purpose is the multitude for your sacrifice unto me? Said the Lord; I am full of burnt offering of rams, and the fat of the fed beasts, and I delight not in the blood of bullocks, or of lambs, or of the goats.[93]

یہی پیغام مزیدوضاحت کے ساتھ ایک اورجگہ آتاہے[94] جس کی مشابہت قرآن مجید میں پائی جاتی ہےاسی طرح کی مذمت ایک اورمقام پرآتی ہے:

Jud,what shall I do unto thee? For your Goodness is as a morning cloud and as the early dew it go the wayfor I desired mercy,and not sacrifice and the knowledge of God more then burnt offerings.[95]

مقصد تخلیق حیوانات-- منفعت انسانیت

بائبل کے مطابق خدانے جانوروں کوصرف انسان کی کھپت اورتجارتی فوائد کے لیے پیداکیاہے ۔ خدانےانسانیت کومنافع بخش جاندار عطا فرمائے ۔ جب اس نے متعددمختلف انواع کے خوبصورت اوراکثرپراسرارجانوروں کوڈیزائن کیا اوراس کی تخلیق کی تومقصدیہ رہا کہ وہ جانوروں کے حقوق اورجنگجووَں اورپالتوجانوروں کے ساتھ اپنے رشتے میں انسانوں کواخلاقی ذمہ داریوں کے بائبل کے نقطہ نظرکی بناء پربصیرت فراہم کرے -قرآن مجید میں جانوروں سے حاصل ہونے والے فوائدومنافع کوبارباربیان کرتے ہوئےانہیں حجت کے طورپرپیش کرتا ہے اور اُسی نے تمہارے لئے چوپائے پیدا فرمائے، ان میں تمہارے لئے گرم لباس ہے اور دوسرے فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کوکھاتے بھی ہو ۔اور اُسی نےگھوڑوں اور خچروں اور گدھوں کو پیدا کیاتاکہ تم ان پر سواری کر سکو اور وہ تمہارے لئےباعثِ زینت بھی ہوں ، اور وہ (مزید ایسی بازینت سواریوں کو بھی) پیدا فرمائے گا جنہیں تم نہیں جانتے۔[96]

چوپایوں میں غور طلب پہلو ہیں ،خالص دودھ [97]سوار ی[98]کے کام ٓاتےہیں تاکہ ضرورت کی جگہ تک پہنچا جاسکے۔[99]جبکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے عجائب گنواتے ہوئے اونٹ(ریگستان کے جہاز)کوکھلے اندازکے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح (عجیب ساخت پر) بنایا گیا ہے؟[100]اور یہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر جانکاہ مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے،عرب باربرداری اورسفرکاتمام ترانحصارتھا ۔ یہ جانورطویل سے طویل اورپرمشقت سفرکے لیے،خاص طورپرصحرائی اورگرم علاقوں میں خدائی سفینہ کی حیثیت رکھتاہے،اس وصف میں کوئی دوسرا اس کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔ [101]کئی اقسام کے جانوربوجھ اٹھاکردوردرازکے ایسے علاقوں تک لے جاتے ہیں جہاں سخت مشقت میں ڈالے بغیرنہیں پہنچ سکتے اوروہ بھی اس طرح کہ یہ جانورتمہارے ڈنڈے کھاتے ہوئے،سرجھکائے تمہارے حکم وارشادکے مطابق چلے جاتے ہیں نہ تم سے کسی اجرت اورمزدوری کوکوئی سوال کرتے ہیں اورنہ تم پرکوئی احسان جتلاتے ہیں حالانکہ وہ بھی مخلوق اورتم بھی مخلوق ۔[102]

قرآن مجیدنے جانوروں سے حاصل ہوانے والے فوائدومنافع کوعین انسانی فطرتبیان فرمایا وہاں یہودیت بھی یہ سکھاتی ہے[103] کہ اگرضروریات زندگی کوپوراکرنے کایہ ایک واحدطریقہ ہوتوجانوروں کومارنا جائز ہےلہٰذا انسانوں کوکھانے اورلباس کے لیے جانوروں کواستعمال کرنے کیاجازت دی گئی ہے ”خدانے نوح اوراس کے بیٹوں کوبرکت دی اورانہیں کہاکہ پھلواوربڑھو اورزمین کومعمورکرو ۔ اورتمہارارعب اورڈرزمین کے کل جانوروں اورآسمان کے سب پرندوں اورزمین پرچلنے والوں پرقائم رہے گا۔ سمندرکی سب مچھلیاں تمہارے ہاتھ میں دی گئیں ۔ سب چلتے چلتے جانورتمہارے کھانے کے واسطے ہیں ۔ میں نے ان سب کونباتات کی طرح تمہیں دیا “[104]احکامات عشرہ کے ذریعے اچھے کاموں کی دعوت اور بعض باتوں سے سختی سے منع کیاگیاہے جن میں بتوں کی پوجا،شرک،قتل ،چوری،نا انصافی،زندہ جانورکوکاٹ کرکھانا بھی ہے۔اسی طرح اوراحکام بھی مشترک ہیں جو دونوں مذہب کی رسمی پاکیزگی اور فطرت پر دلالت کرتے ہیں۔ سامی مذاہب میں کھانے پینے سے متعلق سخت احکامات ہیں،یہودیت میں کشروت جائز ہے اور اسلام میں حلال کی ترغیب دی گئی ہے۔ دونوں ہی مذاہب میں خنزیر حرام ہے۔ حلال کی پابندی بالکل کشروت کی طرح ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ تمام کشروت کھانے حلال ہیں لیکن تمام حلال کھانے کشروت نہیں مانے جاتے۔ مثال کے طور پر حلال کھانوں میں دودھ اور گوشت کو ملا کر کھانا ناجائز نہیں ہے اسی طرح پترا مچھلی بھی جائز ہے جبکہ یہ سب کشروت میں حرام ہیں۔ ایک استثنا اہل تشیعہ میں ہے کہ مچھلی یا کوئی بھی سمندی کھانا بغیر خول (کھال) کے حلال نہیں مانا جاتا ہے۔

جانوروں کے فوائد انسان کے لیے بے شمارہیں بلکہ انسانی معیشت ومعاشرت کے لیے یہ ایسے لازمی اجزاء بن گئے ہیں کہ اگریہ فرض کرلیاجائے کہ آج سب مویشی معدوم ہوگئے توخودانسان کے اس کرہَ ارض پربقاوقیام کی کیاصورت ہوگی[105]مویشیوں اورپالتوجانوروں کوانسانی زندگی میں جوعمل دخل ہے۔ اپناخون پسینہ ایک کرکے ہ میں مشقت سے نجات دلاتے ہیں ۔ اپنی جان تک کوقربان کرکے ہمیں اپناگوشت کھلاتے ہیں ،جیتے جی ہماری پوشاک کے لیے خام موادمہیاکرتے ہیں اورہمارے کھیتوں کوذرخیزبناتے ہیں ۔

جانوروں کی حلت و حرمت سے متعلق قرآن مجید اور بائبل کاتقابل

موسوی شریعت کے مطابق کوشر کی اصطلاح خاص طریقہ ذبح سے متعلق ہےجو جائز یاحلالچیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہےجس میں حلال جانور کا خون، چربی اور اعصاب کا کھانا حرام ھے۔[106]ابتدا ءعبادات موسوی شریعت کے مطابق ذبیحے (جانوروں)اور نذر کی قربانیاں عبادت کا سب سے اہم حصہ تھیں جو مرکزی مقام مقدسیروشلم میں ادا کی جاتی تھیں ۔یہ قربانیاں مختلف قسم کی تھیں.بنیاسرائیل کو حکم تھا کہزمین کے سب چوپایوں میں سے حلال جانور جن کے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں اور وہ جگالی کرتے ہیں مگر جو جگالی نہیں کرتے ہیں یا جنکے پاؤں الگ ہوں وہ حرام ہیں۔ اونٹ کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اسکے پاؤں الگ نہیں وہ ناپاک ہے ۔ اوروَبُرگو کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اسکے پاؤں الگ نہیں وہ بھیناپاک ہے ۔اور خرگوش کو کیونکہ وہ جگالی تو کرتا ہے پر اسکے پاؤں چرے ہوئے نہیں ، ناپاک ہےاورخنزیر کو کیونکہ اسکے پاؤں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا ۔ وہ بھی ناپاک ہے ۔ ان کا گوشت نہ صرف حرام ہے حتی کہ انکی لاشوں کو نو چنےوالا بھی ناپاک ہیں۔

یہودونصاری اور مسلمانوں کے ہاں بھی خون، سور کا گوشت اور مردار حرام ہیں۔محدثین نے لکھا ہے کہ کسی نبی کے زمانہ میں خنزیر حلال نہیں تھا، حضرت عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کی شریعت کی طرف جو اس کی حلت منسوب کی جاتی ہے بالکل غلط ہے، ان کی شریعت میں بھی خنزیر حرام تھا، حدیث میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے، اس کے تحت علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ان کی شریعت میں خنزیر حرام تھا اور اس میں ان عیسائیوں کی بھی تکذیب ہے جو خنزیر کی حلت کو اپنی شریعت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں مُردار، خون، سور کا گوشت،کے علاوہ وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکرکھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو مگر جو زندہ پاکر ذبح کرلیاگیا -اوروہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہواسی طرح ہر وہ درندہ بھی حرام ہے جو کچلی سے شکار کرتا اور چیر پھاڑ کرتا ہومثلاً بھیڑیا اور کتا وغیرہ سب حرام ہیں گویاحلال وہ جانورجواللہ کے نام پر ذبح کیاجاے اور جو بتادےگئےہیں۔ یہودو نصاری کو جانوروں کی حلت و حرمت کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اس جانور کے گوشت ممنوع ہےجس پر ذبح کے وقت اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو اسی طرح دانتوں سے پھاڑ کر کھانے والے ہر درندےکا گوشت ممنوع ہے ۔اسی طرح نبیﷺنےکچلی سے شکار کرنے والے تمام درندوں اورپنجے سے شکار کرنے والے تمام پرندوں کو حرام قرار دیا ہے۔اہل کتاب کے ہاں پانی کے جانور یعنی سمندروں اور دریاؤں وغیرہ ان میں حلال جانوروںمیں جن کے پر اور چھلکے ہوں کھانے کی اجازت ہے ۔ لیکن وہ سب جاندار جو پانی میں یعنی سمندروں اور دریاؤں میں رہتے ہیں لیکن ان کے پر اور چھلکے نہیں ہوتےوہ مکروہ و ممنوع ہیں ۔ پروں والے اوررینگنے والے جاندار جو چار پاؤں کے بل چلتے ہیں وہ اہل یہودکے لئے ناپاک ہیں ۔ لیکن پروں والےرینگنے والے جاندروں میں سے جو چار پاؤں کے بل چلتے ہیں ان جاندروں کو یہ کھا سکتے ہیں جن کے زمین کے اوپر کودنے پھاندنے کو پاؤں کے اوپر ٹانگیں ہوتی ہیں۔ ہر قسم کی ٹڈی اور ہر قسم کی گنجی ٹڈی اور ہر قسم کا جھینگر اور ہر قسم کی گھاس کا ٹڈا حلال ہیں ۔ مگر سب پردار رینگنے والے جاندار جن کے چار پاؤں ہیں وہ انکے لئے ناپاک اور حرام ہیں۔

اسلام کے مطابق حشرات الارض حرام ہیں جیسے چوہا، چھپکلی، گرگٹ ، چوہا۔، سانپ، بچھو، بھڑ، مچھر، پسو، کھٹمل، مکھی، کلی ، مینڈک وغیرہ۔ توریت کے حکم کے مطابق زمین پر رینگنے والے جانوروں میں سے جوناپاک ہیں وہ یہ ہیں : یعنی نیولا چوہا اور ہر قسم کی گوہ،حرذون اوروَرل اور چھپکلی اور سانڈ اور گرگٹ[107] ۔حتی کہ مرے ہوئےجانور کو چھونے سےشام تک ناپاکی قائم رہتی اور جس چیز پر وہ مردار گریں وہ ناپاک تصور ہوتی ہے ۔ یہودی کتے کوناپاک اورگندی عادتوں والاتصورکرتے ہیں ۔اسلام میں بھی زمین پر رینگنے والے جانور جیسے نیولا چوہا، چھپکلی اورگرگٹ حرام ہیں۔

دیگر حیوانات جن میں گائیں اوربیل جن کو الانعام کہا گیا ہے ان کے بارےمیں عہدنامہ قدیم میں ان جانوروں کو بطورمرغوب غذا کے بیان کیا گیا ہے حتی کہ کہ انبیا بطورنذارنہ و تحفےگائیں اور بیل باہم دیا کرتے تھے- گائے کابچھڑاضیافت کے عمدہ کھانوں میں شمارہوتے تھے ۔ قرٓانِ حکیم میں بھی چوپایوں کی منفعت کےمتعدد پہلو ہیں جیسےفرحت بخش خالص دودھ،گوشت اور کھیتی باڑی کا مشکل کام اورسواری کے لیے بھی اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام میں گھوڑا مباح ہے گھوڑے چونکہ آلہ جہاد ہیں لہذانکی ممانعت ہے۔ اور خچر ،گھریلو گدھےحرام ہے۔

اسلام میں بھی بھیڑیا،جنگلی خنزیر،چمگادڑ، چوہا، چھپکلی، چھچھوندر،چیتا،ریچھ،سانپ،سانڈ، سوَر، شیر،لومڑی ،مونگے، نیولا،ہاتھی تمام درندے اور جو جانور مشتبہ ہوں یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ حرام ہیں یا حلال تو ان کے بارے میں بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ ان کو ہم ان سے ملتے جلتے جانوروں سے ملا دیں گے اور جو حکم ان کا ہوگاوہی ان کا بھی ہوگا۔ اسلام میں گوشت خور جانوروالا جانور جو کیلے سے شکار کرتا ہو حرام ہے جیسے۔ شیر، گیدڑ، لومڑی، بچھو، کتا وغیرہ کہ ان سب میں کیلے ہوتے ہیں اور شکار بھی کرتے ہیں اونٹ کے کیلا ہوتا ہے مگر وہ شکار نہیں کرتا ہے لہذا وہ اس حکم میں داخل نہیں ہے ۔ اسی طرح اہل کتاب کے ہاں بھی سب حیوان جن کے پنجے الگ ہیں پر وہ چرے ہوئے نہیں اور نہ وہ جگالی کرتے ہیں وہ ناپاک ہیں ۔تورات کے مطابق ان تمام ناپاک جانوروں کی ناپاکی اتنی شدید تصور ہوتی ہےحتی کہ ان کوچھونے والے میں ناپاکی منتقل ہوتی ہےاور وہ دن بھر ناپاک شمار ہوتےہیں۔

یہودی روایات کے مطابق ہابیل اورقابیل دونوں نے اللہ کی راہ میں پاک جانوروں کےنذرانے پیش کئے ۔اسرائیلی روزانہ صبح و شام چوپائیوں میں بھیڑ بکریاں اور پرندوں میں فاختہ اور کبوتر کی قربانی دیا کرتے تھے ۔ اسرائیلی معابد میں ہر وقت جلتی آگ میں قربانی کے جانور پورے ڈال دئے جاتے ۔ خدا کی نعمتوں ورحمتوں کا اظہار تشکراورنادانستہ یا دانستہ گناہ یا خطاکی تلافی قربانی کی صورت میں ممکن گائے بیل ، بچھڑے میں سے ہو خواہ وہ نر ہو یا مادہ( بے عیب)بھیڑ بکریاں شامل تھے حضورقربانی کے طور پر چڑھاتے۔جبکہ اسلام میں بھی گائے ،بیل ، بچھڑے میں سے ہو خواہ وہ نر ہو یا مادہ( بے عیب)بھیڑ بکریوں کی قربانی کی جاتی ہے مگر اونٹ بھی ان میں شامل ہےجو اہل یہودکےہاں ناجائزہے۔

جس طرح مسلمان حلال کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح اپنی مذہبی تعلیمات پر کاربند رہنے والے یہودی ’’کوشر غذائیں‘‘ استعمال کرتے ہیں۔کوشر مصنوعات کی مسلمانوں کے لیے حلت وحرمت کے حوالے سے مسلمانوںمیں دو آرا پائی جاتی ہیں: ایک طبقہ ان مصنوعات کو مکمل طور پر حلال سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ، مذہبی یا سیاسی وجوہات کی بناپر، ان کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دیتااگریہودیوں کی مذہبی تعلیمات کامسلمانوں کی مذہبی تعلیمات سے موازنہ کیا جائے تو اول الذکر میں خاص کر کہ جانوروں کے ذبح کےمتعلق سختی ہےبحرکیف اسلام اور یہودیت دونوں میں مردار، خنزیر ،خون ، کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کے کھانے سے منع کیا گیا ہے ، تاہم ایسی اشیا بھی کثیر تعداد میں ہیں جن کا استعمال اسلامی تعلیمات کی رو سے جائز ،لیکن یہودیت میں ممنوع ہے۔اس کی مشہور ترین مثال خود قرآن نے پیش کی ہے اور وہ ہے: جانوروں کی چربی کی مختلف اقسام۔ یہودیوں کے شرعی قوانین میں چربی اورعصبوں کی حرام اقسام کی صراحت کردی گئی ہے۔ان کے ہاں عام طور پر گردوں کے ارد گرد کی چربی، پیٹ کی چربی، معدے،آنتوں اور دم کی چربی کو استعمال کرنے کی اجا زت نہیں۔اسی طرح جانور کے دھڑ میں موجود عصب کو استعمال کرنا جائز نہیں۔مزید جانورجو مسلمانوں کی شریعت میں حلال ،لیکن یہودیوں کے ہاں حرام ہیں ۔شارک،گھونگھا،اور سخت خول والے حیوانات، جیسے:جھینگا،کیکڑا وغیرہ-بعض پرندے ،مثلا:شتر مرغ ، ونٹ (کیونکہ اس کے پاؤں پھٹے ہوئے نہیں ہوتے) اسلام اور یہودیت دونوں میں ٹڈی کو صراحتاً حلال قرار دیا گیا،نیزیہودیت میں گوشت اور دودھ کی مصنوعات کو آپس میں ملانے سے منع کیا گیا ہے گوشت اور دودھ کی مصنوعات کے لیے برتن اور ریفریجریٹر میں ان کے رکھنے کی جگہ بھی الگ الگ ہو۔[108]لیکن اسلام میں اس قسم کی کوئی ممانعت نہیں۔جیلاٹن اور رینٹ کی حلت کےحوالے سے مسلمان اور یہودی دونوں حلقوں کی آرا یکساں ہیں دونوں مذاہب کے اکثر علما مروج جیلاٹن کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ یہ یاتو خنزیر سے ماخوذ ہوتی ہے یا پھرغیر شرعی طور پر ذبح شدہ جانوروں سےس لیے مستند ’’کوشر‘‘ جیلاٹن عام طور پر کوشر مچھلی سے ماخوذ ہوتا ہے۔جہاں تک پنیر کا تعلق ہے، اس کو اکثر یہودی علما صرف اسی وقت کوشر قرار دیتے ہیں جب یہ کوشر رَینٹ سے تیار کیا گیا ہو۔جبکہ اکثر مسلمان علما غیر حلال رینٹ سے بنے پنیر کو بھی حلال قرار دیتے ہیں بحرکیف تحلیل وتحریم کااصل اختیارصرف اللہ کے پاس ہے۔یورپ میں مسلمانوں اور یہودیوں میں زیادہ اتفاق نہیں پایا جاتا لیکن اب یورپی ممالک جیسے کہ ہالینڈ، جرمنی، سپین اور قبرص نے مذہبی ذبح خانوں پر سخت قوانین لاگو کر رکھے ہیں بیلجیئم کے کچھ علاقوں میں حلال یا کوشر گوشت کے لیے ذبیحے پر پابندی لگا دی گئی ہے تو مسلمان اور یہودی ایسے قوانین کے خلاف اکھٹے ہوئے ہیں یہ قوانین ان کے مذہبی آزادی پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔حالیہ تنازع رواں برس کے آغاز میں بیلجیئم میں اس قانون کے نفاذ کے بعد سامنے آیا جس نے جانوروں کو روایتی طریقے سے ذبح کرنے پر اثر ڈالا جو کہ کوشر اور حلال گوشت کے لیے ضروری ہے۔جانورں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت عرصے سے اس قانون کے لیے آواز اٹھا رہے تھے لیکن یہودی اور مسلمان رہنماؤں نے اس قانون کو لبرل ایجنڈے کے بھیس میں یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوشش قرار دیا تھا۔

نتائج تحقیق

  • کتب سماویہ میں جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق احکام کے مطابق خنزیر، خون، اور مردار دونوں قوانین میں ممنوع ہےکشروت میں جائز اکثر جانور اسلام میں بھی حلال ہیں جیسے کی گائے، بکری، بھینس وغیرہ۔
  • مینڈک کشروت میں مکمل طور پر اور اسلام میں عمومی طور پر ممنوع ہیں ۔قریباً تمام حشرات کشروت میں ممنوع ہیں۔ صرف ٹڈوں کی کچھ اقسام جائز ہیں تاہم یہ بھی زیادہ تر یہودی نہیں کھاتے کیونکہ یقین سے نہیں جانتے کہ کونسی اقسام جائز ہیں یہ ناجائز، ماسوائے یمنی یہودیوں کے جو ٹڈےبھی کھاتے ہیں۔
  • یہود و نصاری کے ہاں پانی کے صرف وہ جانور جائز ہیں جن کے پر اور چانے ہوں یعنی کہ عام مچھلیاں۔ تاہم مسلمان سمندر کے تمام جانداروں کو حلال سمجھتے ہیں یہودی ربانی قوانین کے مطابق تمام مچھلیاں کشروت ہوجاتی ہیں[109] جس کے باعث یہ قانون ذبیحہ حلال جیسا ہوجاتا ہےجیلاٹن صرف اس صورت میں جائز سمجھا جاتا ہے اگر اسے جائز یعنی حلال جانوروں سے تیار کیا گیا ہو۔ کوشر جیلاٹن عموماً کوشر مچھلیوں کی ہڈیوں یا سویابین وغیرہ سے بنایا جاتا ہے۔پنیر صرف اس صورت میں جائز سمجھا جاتا ہے اگر اس کی تیاری میں استعمال ہونے والا موادجائز ہو[110]۔
  • اسلام میں کشروت کی نسبت زیادہ جانور حلال ہیں کیونکہ اصل اصول حلت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہےهُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا[111]۔ پاک و صاف کھانے کے انسانی طبیعت پر اچھے اثرات ہوتے ہیں۔
  • کشروت میں جانور کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جگالی کرتا ہو اور اس کے سم پھٹے ہوئے ہوں۔
  • اسلام میں گھاس اور پتے کھانے والے بیشتر جانور حلال ہیں۔ اس طرح کئی جانور جیسے کہ اونٹ، چونکہ اس کے سم پھٹے ہوئے نہیں ہوتے، اسلام میں تو جائز ہیں لیکن اہل یہودکےہاں ناجائزہے۔
  • انکے ہاں خول والے سمندری جانور جیسے کہ جھینگے اور لابسٹر ممنوع ہیں۔ جب کے اسلام میں تمام سمندری جانور حلال سمجھے جاتے ہیں۔

تجاویزوسفارشات

  • سامی ادیان کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انکی مذہبی کتب تحریف شدہ ہیں اگرچہ کچھ قواٰئد و ضوابط میں کچھ مماثلت ہے مگراصل اصول حلت ہے-البتہ اضطراری کیفیت میں جوازحلت قائم ہو جائے گا۔
  • جانوروں کی حلت و حرمت کےمتعلق بنیادی احکامات کتب سما ویہ یعنی تورات و انجیل اور قرٓان میں تفصیلا بیان ہوے ہیں مسلمانوں کے ہاں توقرٓان و سنت مصادرہیں دیگر مذاہب میں تورات و انجیل کے علاوہ تالموداورہلاخاکے قوانین اہل یہود کے ہاںواجب التقلیدقانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
  • یہود ونصاری اپنے مذہب کے اصول ، پیغمبراور کتبِ سماویہ کو مانتے ہیں ، جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں، ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیتے تو ایسے یہود ونصاریٰ کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔لیکن موجودہدور کے اکثر یہود ونصاریٰ ملحد، دہریہ صرف نام کے اہلِ کتاب، مذہب سے بے زار ہیں ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں؛ اس لیے حلال اور غیر مشتبہ چیز کو چھوڑ کر مشتبہ چیز اختیار نہ کی جائے اور ان کے ذبیحہ سے مکمل احتراز کیاجانا چاہیے۔

Bibliography

Abdul Wāhīd khan, Esaīyāt Enjīīl or Qur’ān kī Roshnī Mein, Lahore: Islamic Publications Private Limited, 1987.

Abū Dāwūd, Sulaimān b. Ash’ath.Sunan Abū Dāwūd. Beirūt: Al-Maktabā al Asriah, n.d.

Abū Naṣr Ismā‘īl bin Ḥammad al-Jauharī, Al-Ṣiḥāḥ al-Musammā Tāj al-Lughah wa Ṣiḥaḥ al-‘Arabiyyah (Ed: Shihāb al-Dīn Abū ‘Amr) ,Bayrūt: Dār al-Fikr, 1998.

Abū Yoūsuf, Yaqub b. Ibrahim, Al-Kharaj, Cairo: Al-Matb‘t al-Salfīyah wa Maktabā, 1382 A.H.

Afrīqī, Muḥammad b. Ali Ibn Manẓoor, Lisān al-‘Arab, Beirūt: Dar Ṣādir, 1414 A.H.

Aḥmad bin, Hanbal. Musnad Aḥmad b. Hanbal, Beirūt: Mosasa al-Risālah, 1421 A.H.

Al-Bukhārī, Muhammad b Ismāīl.Al-Jami‘ al-Ṣaḥiḥ. Labnan: Dār -e- Āhyā -ul-Trās- Al- Ārbi, Bayrūt,1987.

Al-Harvī, Abu Manṣoor Muḥammad b. Aḥmad, Tehzīb al-Lughat, Beirūt: Dār Ihya al-turāth al-‘Arbī, 2001.

Al-Jaṣṣaṣ, Abū bakr .(1405ah).Ahkām Al-Qur’ān, Ed: Muhammad al-Sādiq Qāmhavi, Bayrūt: Dārihyā al-Turāth al-‘Arabi,2001.

Al-Muslim, Al-Jami‘ al-Muslim, Labnan: Dār -e- Āhyā -ul-Trās Al- ārbi, Bayrūt,1987.

Al-Nasāi, Ahmad b. Shua’yb.Sunan Nasāi. Halab: Maktab āl Mātbo’at al Islāmia, 1406 A.H.

Al-Qur’ānAl-Karīm (Urdu Tarjumah by Mawlānā Fatiḥ Muḥammad Khān Jālandrhrī). Lahore: Fārān Foundation, 2013.

Al-Qutabi, Abū ‘Abd Allāh, Muḥammad b. Ahmad,(n.d). Al-Jāmiʿ li Aḥkām al-Qurān.Bayrūt.

Al-Rāzī, Fakhr al-dīn, Muhammad b. Umar. Mafātīh al-Ghaib.Bayrūt: Dār al-Kutub al-ʿIlmiyyah 2000.

Al-Tabari , Abu Jafar Muhammad b. Jafar . Jāmi’ al-Biyān fi Tafsir Āyi al-Qurān, Bayrūt: Dār al-Hijr, 1988.

Amin Maloof Amin bin Bāshā b. fāhad bin Āsad, Muājamul Hywāān, Cairo:1932.

Azmī, Amjad ’Alī.Bahār-e-Sharī ‘at. Karachi: Maktābāal Madinā old Fruit Market, 2012.

Barelvī, Ahmad Razā Khān. Fatāwa Raḍawiyya. Lahore: Razā Foundation, 1996.

Baumgarten, Albert I., Sacrifice in Religious Experience, Brill, 2002.

Bazār, Abu Bakar Aḥmad b. Amar, Musnad Al-Bazār, Madina: Maktaba al-Ulum wal Ḥikam, 1988.

Bible, King James Version (KJV) Thomas Nelson Bible, 1897.

Blech, Z. Y. Kosher Food ProductionIowa: Blackwell Publishing, 2004.

Byhaqi,Abu-Bakar Ahmad b. Hussain b. Ali. Al-Sunnanul Kubra. Lebanon: Dārul-kutbul- Arabiā, Beirut.

David S. Ariel, What do Jews believe? New York: Schocken books, 1995.

Encyclopedia Talmudit .Hebrew edition, Israel, 1981.

F S khairullah ,Qamoosul Alktab, Maseehi Publisher , 2001.

Ibn Kathīr, Abul Fidā Ismāil b. Umer, Tafsīr al-Quran al-‘Aẓīm, Beirūt: Dār al-Kutub al-‘ilmīyah. 1419 A.H.

Ibn Mājah, Muhammad b. Yazīd. Sūnan Ibn Mājah,Beirūt: Dar Ahya-al-Kitab-al-Arbiah, N.D.

Jalāl al-Dīn, al-Suyūṭī, Al-Itqān fi ʿUlūm al-Qurʾān,Saudi Arabia: Mājmā ‘ al-Mālik al-Fāhd, 2000.

Kittler, P. G., & Sucher, K. P۔ Food and culture, New York: ThomsonWards worth,2004.

Mawlānā Abdul Majid Darya Bade, Hywānāāti Qurāni, Karachi: Publishers Majlasi Nāshryāt, 2006.

Mawlānā Amin Ahsan Islāhi,Tādabārul Qurān,Karachi: Publishers Faran Foundation,1403.

Maimonides, Guide for the Perplexed (ed. M. Friedländer), Part III , New York 1956.

Muhammad Ashfaq, Captain Dr, Umoori Hywānāt, chtān, Lahore: Printing Press, N A.

Muhammad b. Moosa b. Eesā al Dāmeeri, Hyātul Hywānul Kubrā, Byroot: Dārul kitābūl Ilmiya, 1424 H.

Muhammad Mūsa, khan Dittāwali, Qadeem Mazhabi Tāreekh, Lahore:Alwāqār Publications, Ganj Shaker Press, 2009.

Naeem Akhter, Islam orMaseehiyat mein Ghlatfihmiounka Aāzlā, Lahore: Super Fancy Publishers, 2017.

O P Ghūtti, Akhlāqeyāt Mazāhib-i-Alam ki Nazar mein ,Lahore: Publisher Apnā Idārā,2002.

Phelps Norm, the Dominion of Love; Animal Rights According to the Bible,USA: New York LanternBooks, 2002.

Rasheed Ahmad, Tāreekh-i- Mazāhib, Lahore:Zamurd Publications, 2004.

Regenstein JM, Regenstein CE. 1979. An introduction to the kosher (dietary) laws

for food scientists and food processors. Food Technol 33(1):89-99.

Regenstein JM, Regenstein CE. 2002. The story behind kosher dairy products such as koshercheese and whey cream. Cheese Reporter 127(4):8, 16, 20.

Regenstein JM, Regenstein CE. 2002. What kosher cheese entails. Cheese Marketing News 22(31):4, 10.

Regenstein JM, Regenstein CE. 2002. Kosher byproducts requirements. Cheese

Marketing News 22(32):4, 12.

Riaz M. N. and Chaudry M.M ,Halāl Food Production (1st edition). New York: CRCPress LLC2004.

Robertwin Divier, Yahoodiyat; Tāreekh Āqqāid, Falsafā, Lahore: Publishers Book Homes,2015

Shihab ad-Din Sayyid Mahmud ibn Abd Allah al-Husayni al-Ālusi, Ruh Al Māni Fi Tafsir Al Qurān Al Azim Wā Sabā Al Masāni Byroot: Dārul zāqāfāh, 1383 A H.

The Bible (Kitāb-e-Muqāddas) (Revised Version Urdu). Lahore: Pakistan Bible Society, 2008.

Ibn Kathīr, Imād al-Dīn Abū Al-Fidā Ismā‘īl bin ‘Umar.Tafsīr Al-Qur’ān al-‘Azīm, Riyādh: Dār Ṭayibah, 1999.

The Holy Bible in Urdu, Revised version. (Lahore: The Pakistan Bible Society, 1962)

Published by Lahore, 1962.

The Seven Noachide Laws. Jewish Virtual Library".Retrieved from www.Jewish virtual library.org.

Tīrmidhī, Muḥammad b. ‘Isa. Jāmi’ at-Tirmidhi, Egypt: Shirkat Maktaba wa Matbā’tū Mustāfā al Bābi al Ḥalbī, 1395 A.H.

Treybig D.Clean and Unclean Meats: a Matter of Health?What Does the BibleTeach About Clean and Unclean Meat. Cincinnati: The United Church of God, 2002.

Van Straten, Folkert T .Hiera kala : Images of Animal Sacrifice in Archaic and Classic Greece, Netherland, 2005.

حوالہ جات

  1. David S. Ariel, What do Jews believe? (New York: Schocken Books, 1995) 7.
  2. عبدالوحیدخان،عیسائیت ، انجیل اور قرآن کی روشنی میں(لاہور:اسلامک پبلیکیشنزپرائیویٹ لمیٹڈ ،1987ء)، صفحہ نمبر 20 Abdul Wāhīd khan, Esaīyāt Enjīīl or Qur’ān kī Roshnī Mein, (Lahore: Islamic Publications Private Limited, 1987),20
  3. پیدائش1; 6 Genesis 1:6
  4. پیدائش 1:24 Genesis 1:24
  5. پیدائش1:1۔ 30 Genesis 1:1-30
  6. پیدائش 1 :19 Genesis 1:19
  7. نعیم اخترسندھو،اسلام اورمسیحیت میں غلط فہمیوں کا ازالہ)لاہور: سپرفینسی پبلشرز،2017ء(، 96۔ Naeem Akhter, Islam or Maseehiyat mein Ghlatfihmiounka Aāzlā, (Lahore: Super Fancy Publishers, 2017).96
  8. القرآن24: 44,45 Al-Quran :44-45
  9. تالمود یا تلمود اسرائیلی فقہ ہے جس کی بنیاد سابقہ کتب پر ہے اور جس کی ترتیب ابواب پر قائم کی گئی ہے۔ یروشلم کی تباہی کے بعد تالمود کے نسخے پانچویں صدی عیسوی میں یہودی تعلیمات کے مراکز طبریہ (فلسطین) اور بابل میں مرتب ہوئے۔Fuss, Abraham M. (April 1970)"Review Encyclopedia Talmudica” Encyclopedia Talmudit, (Israel: Publisher, 1981), 349.
  10. یہودیت کے رسوم و رواج سماجی و مذہبی کی اساس قانونِ یہودیت ہلاخا، (عبرانی لفظ بمعنی جس راہ پر چلا جائے) پر ہے۔ جودراصل ایک مجموعہ قوانین ہے جو فرامین خداوندی بشارت ہائے الہامی اور اجتہادہائے ربانیین پر مشتمل ہے۔ ہلاخاناصرف مذہبی معاملات پر راہنمائی فراہم کرتا ہے بلکہ روز مرہ کی زندگی کے بارے میں بھی واضح ہدایات دیتا ہے مثلاً لباس،کھانااور صدقہ و خیرات، اجتماعی اور خصوصا ذاتی معاملات و تقریباتمیں ا انداز و طریقہ کار کیا ہونا چاہئے؟ وغیرہ۔ہلاخاخدا کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرتا ہے، یہودی شناخت کا احساس فراہم کرتا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں طہارت و پاکیزگی کا مجموعہ قوانین ہے ۔
  11. امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين القرطبی ،تفسیر الجامع لأحكام القرآن (ریاض:دارعالم الکتب،1423ھ)۔ Al-Qutabi, Abū ‘Abd Allāh, Muḥammad b. Ahmad,(n.d). Al-Jāmiʿ li Aḥkām- al-Qurān. (Bayrūt; Dārihyā al-Turāth al-‘Arabi,1423 A H)
  12. ابوبکر احمد بن علی جصاص الرازی ،الأحكام القرآن( بیروت: دار الاحیا ُ الترا ث العربی، 1405ھ)۔ Al-Jaṣṣaṣ, Abū bakr .(1405 AH).Ahkām Al-Qur’ān, Ed: Muhammad al-Sādiq Qāmhavi,( Bayrūt: Dārihyā al-Turāth al-‘Arabi,2001)
  13. علامہ شہاب الدین محمود آلوسی بغدادی ، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی(بیروت :دارالثقافہ، 1383ھ)۔ Shihab ad-Din Sayyid Mahmud ibn Abd Allah al-Husayni al-Ālusi, Ruh Al Māni Fi Tafsir Al Qurān Al Azim Wā Sabā Al Masāni ((Byroot: Dārul zāqāfāh, 1383 A H.)
  14. محمد بن موسی بن عیسی الدمیری ،حیات الحیوان الکبری(بیروت:دار الکتب العلمیہ،1424ھ )۔ Muhammad b. Moosa b. Eesā al Dāmeeri, Hyātul Hywānul Kubrā, (Byroot: Dārul kitābūl Ilmiyā, 1424 H.)
  15. امین معلوف امین باشابن فھد بن اسعد،معجم الحیوان(القاھرہ: ناشردار الرائد العربي ،1932ء)۔ Amin Maloof Amin bin Bāshā b. fāhad bin Āsad, Muājamul Hywāān,(Cairo: Dārul-Rāidul Ārabi, 1932)
  16. محمداشفاق ،امورحیوانات(لاہور: چٹان پرنٹنگ پریسس ، س۔ ن)۔ Muhammad Ashfaq, Captain Dr, Umoori Hywānāt, chtān, (Lahore: Printing Press, N A.)
  17. مولانا عبدالماجددریابادی،حیوانات قرآنی) کراچی:مجلس نشریات اسلام،2006ء(۔
  18. Zushe Yosef Blech,Kosher Food Production (IowaStates: Blackwell Publishing, 2004(.
  19. Riaz Mian and Chaudry Muhammad, Halal Food Production (New York: CRC Press LLC, 2004).
  20. KittlerPamela Goyan and Sucher Kathryn, Food and culture (New York: Thomson Wadsworth, 2004(.
  21. Trey Big D,Clean and Unclean Meats: A Matter of Health, What Does the Bible Teach About Clean and Unclean Meat(Cincinnati: The United Church of God, 2002).
  22. حافظ مبشر حسین ،" حیوانات کی حلت و حرمت: فقہاء کی ٓاراء،":فکرونظر50 نمبر۔1(2012)۔ Hafiz Mubashar Hussain, “Hywanaat ki Hillat-o-Hurmat: Fuqaha ki Ara ,” Fikr-o Naẓar 50, no. 1 (2012): 29-58
  23. "The Seven Noachide Laws, "Jewish Virtual Library, retrieved from http://www.Jewishvirtuallibrary.org, accessed on 2 April 2020
  24. کوشر(عبرانی زبان کا لفظ )ہےیہاصطلاح خاص طریقہ ذبح سے متعلقہےجو جائز یاحلالچیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہےجس میں حلال جانور کا خون، چربی اور اعصاب کا کھانا حرام ہے، کوشریت یا کوشر ہونایہودیت کے سماجی اور مذہبی اعتقادات کا ایک اہم ترین جزو ہے۔ اس سے مراد ایسا گوشت کھانا جو شرعی قوانین کے تحت مذبوح ہو۔ یعنی جس طرح اسلام میں حلال گوشت کا مقام و اہمیت ہے بعینہ کوشر یہودیت میں مقام رکھتا ہے۔ مزید مطالعہملاحظہ ہو: Blech Zushe Yosef,Kosher Food Production (Iowa States: Blackwell Publishers, 2004).
  25. Regenstein J.M. and Regenstein CE,"An Introduction to the Kosher (Dietary) Laws for Food Scientistsand Food Processors," Food Techno 33 no. 1 (1979):89-99.
  26. Rashbam, Halakha, Commentary to Leviticus 11:3
  27. پیدائش4: 3,5 Genesis 4:3-5
  28. "The Seven Noachide Laws,"Jewish Virtual Library, retrieved from www.Jewishvirtuallibrary.org, accessed on 22- April 2020
  29. عربی زبان میں لفظ حیوان،‘’حیاۃ‘‘سے مشتق ہے اورحیاۃ سے مرادحقیقی وجودہے جو زندگی سےمشروط ہے،قرآن حکیم انسانوں کے علاوہ باقی جانداروں کے لیے دآبۃکی اصطلاح استعمال کی ہےجو درندوں کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔
  30. احبار1:1 ۔ 8 Leviticus 1:1-8
  31. احبار 13:3 Leviticus 3:13
  32. استثناء 41: 21 Deuteronomy 41:21
  33. Maimonides Moses, Guide for the Perplexed, ed. M. Friedlander (New York: EP Dutton, 1904), 311.
  34. القرآن2:172
  35. تم پر مردار (یعنی بغیر شرعی ذبح کے مرنے والا جانور) حرام کر دیا گیا ہے اور (بہایا ہوا) خون اور سؤر کا گوشت اور وہ (جانور) جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو ۔ القرآن 2 : 173 Al-Quran 2:173
  36. القرآن6 : 145 Al-Quran 6:145
  37. بھیمۃبمعنٰی چرندے اور چوپائے انعام کالفظ مویشیوں کے لیے24مقامات پرعلیحدہ علیحدہ حیثیتوں میں استعمال ہواہے۔انعامچندمخصوص چوپایوں کے ساتھ خاص ہے جبکہ بہائم تمام چرنے والے جانوروں کے لیے استعمال کیاجاتاہے ۔ملاحظہ کیجیے تفصیل: القرآن :3141القرآن 4: 911 القرآن :6ا136-139،القرآن: 7:197القرآن:10 24 القرآن :16: 66، القرآن :2234 Al-Quran 3:141, 4:911, 6:136-139, 7:197, 24:10, 16:66, 22:34,
  38. القرآن 5: 3۔4؛القرآن 28:22 Al-Quran 5:3-4 , 22:28
  39. عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُکِرَ اسْمُ اﷲِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَکُلُوهُ قَالَتْ وَکَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْکُفْرِ.ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ ، السنن،کتابالذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ،بابتلا بسماللہ علیالذبیحہ)ریاض: دارالسلام للنشر والتوزیع، 1999ء(،حدیث: 3174، 2: 1095۔ Ibn Mājah, Muhammad b. Yazīd. Sūnan Ibn Mājah,(Beirūt: Dar Ahya-al-Kitab-al-Arbiah, N.D)2:1095
  40. ابو داؤد سلیمان بن اشعت السجستانی،السنن،کتابالذَّبَائِحِ الااہل الکتبباب النھی عن اکل السباع ( بیروت: دارالا حیاا التراث الاسلامی،1421ھ)، حدیث 2819،101:3۔ Abū Dāwūd, Sulaimān b. Ash’ath. Sunan Abū Dāwūd. (Beirūt: Al-Maktabā al Asriah, n.d)3:101
  41. محمد بناسماعیلبخاری ،الجامعالصحیح،کتاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِباب کُلِّ ذِي، باب نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ)ریاض:دارالسلامللنشروالتوزیع،1999ء(،حدیث: 5530، 5:2102۔، مزید عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ کُلُّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ فَأکْلُهُ حَرَامٌ. ابن ماجہ،السنن،کتاب الصید،باب کُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ،حدیث3233، 1077:2 Al-Bukhārī, Muhammad b Ismāīl.Al-Jami‘ al-Ṣaḥiḥ. Labnan: Dār -e- Āhyā -ul-Trās- Al- Ārbi, Bayrūt,1987) 2:202. Ibn Mājah, Muhammad b. Yazīd. Sūnan Ibn Mājah,(Beirūt: Dar Ahya-al-Kitab-al-Arbiah, N.D)2:1077
  42. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ کُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَعَنْ کُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ. ابن ماجہ، السنن)ریاض: دارالسلام للنشر والتوزیع، 1999ء)،الحدیث: 3233 ، 3234،2:1077؛ أبو عبداللہ أحمد بن حنبل،المسند(شہر: مؤسسۃ الرسالۃ ، 2001ء)، حدیث : 7223، 2:236؛مالك بن أنس، الموطأ)أبو ظبي: مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان للأعمال الخيرية والإنسانية ،1425 ھ(، حدیث : 1060،2:496؛ابو داؤد ،السنن،کتابالاطعمہ باب النھی عن اکل السباع،( بیروت: دارالاحیاالتراث الاسلامی،1421ھ)، حدیث:3800؛ابو عیسی محمد بن عیسی ترمذی،الجامع ترمذی، کتاب الا طعمہ، باب ما جاء فی کراھیہ کل ذی ناب وذی مخلب()ریاض:دارالسلامللنشروالتوزیع 1395)،حدیث: 1479، ۔ Ibn Mājah, Muhammad b. Yazīd. Sūnan Ibn Mājah,(Beirūt: Dar Ahya-al-Kitab-al-Arbiah, N.D)2:1077, Aḥmad bin, Hanbal. Musnad Aḥmad b. Hanbal, Beirūt: Mosasa al-Risālah, 1421 A.H.) 2:236. Abū Dāwūd, Sulaimān b. Ash’ath. Sunan Abū Dāwūd. (Beirūt: Al-Maktabā al Asriah, N.D)3800 Tīrmidhī, Muḥammad b. ‘Isa. Jāmi’ at-Tirmidhi, (Egypt: Shirkat Maktaba wa Matbā’tū Mustāfā al Bābi al Ḥalbī, 1395 A .H.)1479
  43. احبار11:9 ۔ 12 Leviticus 9:11-12
  44. یوحناہ1 : 17 Gospel of John 1:17
  45. احبار11،9 ۔ ؛ 21استثناء1: 109 Leviticus 11:9,21, Deuteronomy 1:109
  46. القرآن5 :96 Al-Quran 5:96
  47. ترمذی،الجامع ترمذی، کتاب الا طعمہ، باب ما جاء فی کراھیہ کل ذی ناب وذی مخلب،جلد ۲حدیث: 1479۔ Tīrmidhī, Muḥammad b. ‘Isa. Jāmi’ at-Tirmidhi, (Egypt: Shirkat Maktaba wa Matbā’tū Mustāfā al Bābi al Ḥalbī, 1395 A.H.)2:1479
  48. ابن ماجہ،السنن ، کتاب الا طعمہ، باب الکبد و الطحال(بیروت: دارالمعرفۃ،1395) ، حدیث:3214، 4:419؛ابی داؤد،السنن،کتاب الصید،باب الصیدالحیتان والجراد،حدیث3218، 3 :370۔
  49. امجد علی اعظمی، بہار شریعت (کراچی : شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز،ء2015)،129۔ Azmī, Amjad ’Alī. Bahār-e-Sharī ‘at. (Karachi: Maktābāal Madinā old Fruit Market, 2012)129
  50. احبار 27:11 Leviticus 11:27
  51. بخاری،الجامع الصحیح،کتابالذَّبَائِحِ وَالصَّيْد،بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّصَيُّدِ، جلد ۲حدیث: 5489، Al-Bukhārī, Muhammad b Ismāīl.Al-Jami‘ al-Ṣaḥiḥ. (Labnan: Dār -e- Āhyā -ul-Trās- Al- Ārbi, Bayrūt,1987)2:5489
  52. احبار11: 29-32 Leviticus 11:29-32
  53. سموئیل 25: 2 Samuel 3:25
  54. قضاۃ15: 1 Quzát 15:1
  55. امثال30:31 ؛ زکریا 3:10 Amsál 31:30 Zákáriyá 10:3
  56. پیدائش1:4ـ3 Genesis 1:3-4
  57. سلاطین 2 : 4-3 Salátín 2: 3-4
  58. سموئیل:3 212 Samuel 3:212
  59. متی 33:،34 Gospel of Methew 33:34
  60. غزل الغزلات4:3 Psalms 3:4
  61. پیدائش34: 29 -28 Genesis 34:28-29
  62. گنتی1:32،31 Numbers 1:31-32
  63. پیدائش15:32 Genesis 32:15
  64. لوقا،23:15 Luke 15:23
  65. القرآن 66:16-69 Al-Quran 16:66-69
  66. القرآن23:22 Al-Quran 22:23
  67. القرآن4:97،80 Al-Quran 97:4, 80
  68. پیدائش 35:24 Genesis 35:24
  69. سلاطین2،17:5 Salátín 2 . 5:17
  70. تواریخ1: 40:12 Tawáríḳh 1.12:49
  71. سموئیل29:13 Samúel. 13:29
  72. سلاطین1،25:10؛تواریخ،24:9 Salátín 1. 10:25 Tawáríḳh 1. 9:24
  73. الجامع ترمذی، کتاب الا طعمہ باب ما جاء فی کراھیہ کل ذی ناب وذی مخلب.حدیث 1479 Tīrmidhī, Muḥammad b. ‘Isa.Jāmi’ at-Tirmidhi, (Egypt: Shirkat Maktaba wa Matbā’tū Mustāfā al Bābi al Ḥalbī, 1395 A.H.)1479
  74. ابو داؤد، السنن، کتابالاطعمہ ، باب فی اکل لحوم الخیل ھدی( بیروت: دارالا حیاا الترا الاسلامی،1421ھ)، حدیث:3786 Abū Dāwūd, Sulaimān b. Ash’ath. Sunan Abū Dāwūd. (Beirūt: Al-Maktabā al Asriah, n.d.)3786
  75. بخاری، الجامع الصحیح،کتابفي الأضاحي، باب من ذبح بيده،حدیث: 5206، 5:2102؛ كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْد،بَاب لُحُومِ الْخَيْلِ؛مسلم،الجامع الصحیح،حدیث: 1937، 3:1538۔ Al-Bukhārī, Muhammad b Ismāīl.Al-Jami‘ al-Ṣaḥiḥ.(Labnan: Dār -e- Āhyā -ul-Trās- Al- Ārbi, Bayrūt,1987)5:2102,52056. Al-Muslim, Al-Jami‘ al-Muslim, (Labnan: Dār -e- āhyā -ul-Trās Al- ārbi, Bayrūt,1987.) 3:1538
  76. سموئیل:92،16 Samúel 9:2,16
  77. مکاشفہ13:16 Revelation 16:13
  78. ایف ایسخیراللہ،قامو س الکتاب) لاہور:مسیحی اشاعت خانہ، 2001ء(،344-352۔ F S khairullāh ,Qāmoosul Alktāb, (Maseehi Publisher , 2001) 344-352
  79. احبار 11 :20۔ 28 Leviticus 11:20-28
  80. تالمود 264 Talmud 264
  81. القرآن22:37 Al-Quran 37 :22
  82. مسلم، الجامع الصحیح،باب الأضاحي، باب استحباب الضحية، حدیث:3 : 1556- Al-Muslim, Al-Jami‘ al-Muslim, (Labnan: Dār -e- āhyā -ul-Trās Al- ārbi, Bayrūt,1987.) 3:1556
  83. امین احسن اصلاحی ،تدبرالقرآن) لاہور:ادارہ فاران فاؤنڈیشن، 1403ھ)، 5:244۔ Mawlānā Amin Ahsan Islāhi,Tādabārul Qurān,Karachi: Publishers Faran Foundation,1403)5:244
  84. رشید احمد، تاریخ مذاہب)لاہور: زمرد پبلی کیشنز،2009ء(، 296-298۔ Rasheed Ahmad, Tāreekh-i- Mazāhib, (Lahore:Zamurd Publications, 2004)296-298
  85. خان دتہولی محمد موسیٰ، قدیم مذہبی تاریخ) لاہور: الوقار پبلی کیشنز ،2008ء )،59۔ Muhammad Mūsa, khan Dittāwali, Qadeem Mazhabi Tāreekh,( Lahore: Alwāqār Publications, Ganj Shaker Press, 2009)59
  86. احبار1 :2-3-14 Leviticus 1:2-3-14
  87. احبار 22: 26 -27 Leviticus 22:26-27
  88. احبار 2 :1- 4- 5 Leviticus 2:1-4-5
  89. احبار 3 : 1 Leviticus 3:1
  90. رابرٹ وین ڈی ویر، یہودیت :تاریخعقائد فلسفہ(لاہور: ناشربک ہوم،2015ء(، 112۔ Robert win Divier, Yahoodiyat; Tāreekh Āqqāid, Falsafā, (Lahore: Publishers Book Homes, 2015) 112
  91. احبار 4 : 13 ،14 Leviticus 4:13-14
  92. Phelps Norm, The Dominion of Love: Animal Rights According to the Bible(New York: Lantern Books, 2002), 74.
  93. Van Straiten and Folkert Tcomplete,Hirakata: Images of Animal Sacrifice in Archaic and Classic Greece(Netherland:: Brill Publishers,2005), 127,129.
  94. Psalm of Asoph 50:7-14
  95. Albert I. Baumgartn, Sacrifice in Religious Experience (Leiden: Leiden Publishers 2002), 93:17.
  96. القرآن5:16-8 Al-Quran 16:5-8
  97. القرآن 66:16 -69 Al-Quran 16:66-69
  98. القرآن 23:21-22 Al-Quran 21:22-23
  99. القرآن 4:97،80 Al-Quran 97:4,80
  100. القرآن 88:71 Al-Quran 71:88
  101. امین احسن اصلاحی،تدبرقرآن (کراچی :فاران فاوَنڈیشن، 2000ء)، 4:391۔ Mawlānā Amin Ahsan Islāhi,Tādabārul Qurān,Karachi: (Publishers Faran Foundation,1403)
  102. جلال الدین محلی شافعی و جلال الدین سیوطی شافعی، تفسیرمصباحین تفسیرجلالین(لاہور:شبیربرادرز، 2016ء)،4:41۔ Jalāl al-Dīn, al-Suyūṭī, Al-Itqān fi ʿUlūm al-Qurʾān, (Saudi Arabia: Mājmā ‘ al-Mālik al-Fāhd, 2000)4/41
  103. Sefer ha-Chinuch, Halakha, commandments 73- 148
  104. پیدائش9،:1 ۔ 3 Genesis 9:1-3
  105. دریا بادی ،حیوانات قرآنی، 28۔ Mawlānā Abdul Majid Darya Bade, Hywānāāti Qurāni, (Karachi: Publishers Majlasi Nāshryāt, 2006)28
  106. Mishneh Torah Korbanot, Temurah, Halakha, 4:13 (in eds. Frankel: byRambam, who was a medieval Sephardic Jewish philosopher ,one of the most prolific and influential Torah scholars of the Middle Ages. Born in Córdoba, Almoravid Empire on Passover eve, 1138, he worked as a Rabbi, physician, and philosopher in Morocco and Egypt. He died in Egypt on December 12, 1204, whence his body was taken to the lower Galilee and buried in Tiberius.
  107. احبار 11:41 Leviticus 41:11
  108. Regenstein J. M. and Regenstein C.E. ,"Kosher Byproducts Requirements," Cheese Marketing News 22 no. 32 (2002):4, 12.
  109. احبار 11:10؛ستثناء14 :10Leviticus 10:11; Deuteronomy 14:10
  110. Regenstein J.M., Regenstein CE.,"The Story Behind Kosher Dairy Products such as Koshercheese and Whey Cream,"Cheese Reporter 127 no. 4(2002):8, 16, 20; Regenstein J.M., Regenstein C.E,"What Kosher Cheese Entails,"Cheese Marketing News 22 no. 31(2002):4, 10.
  111. القرآن 2 : 29 Al-Quran 2:29
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...