Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

سیرت طیبہ پر قسِیس زکریا بطرس کی تنقیدات کا تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060035210_845

Pages

97-115

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/23/10

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/23

Subjects

Fr. Zakaria Boutros Egyptian Coptic Priest Evangelist the Noble Sῑrah Black Stone Lineage Gharaniq

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

سیدنامحمدﷺ قیامت تک تمام انسانوں کے لیے رہبراور مثالی قائد ہیں۔ بنی نوعِ انسان کے لیے آپ ﷺ کی سیرت ایک بہترین اورلائقِ تقلید نمونہ ہے مگر قابلِ افسوس امریہ ہے کہ بعض احبار، قسِیس اور مستشرقین وملحدین کو نبئ رحمت ﷺ کی حیات طیبہ کسی طوربھی قبول نہیں ہے ،وہ آپ ﷺ کی تعلیمات کے ساتھ ذاتِ پاک کو تنقید کا نشانۂ بناتے رہے ہیں اس طرح مختلف نوعیت کے اعتراضات سے سیرتِ طیبہ کو مشکوک بنانے کے لئے سرگرم ہیں ۔ اس حوالے سے عرب وعجم میں مختلف لوگوں نے اسلامی مآخذ سے ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لےکر آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر وارکیے ہیں، اسی ضمن میں عالم ِ عرب کے مشہور قسِیس زکریا بطرس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی، جس نے "حوار الحق" کے نام سے مختلف ٹی وی پروگرامزمیں دینِ اسلام، قرآن مجید اور بالخصوص سیرتِ طیبہ پر مختلف قسم کے اعتراضات کئے ہیں، جواباً عالم اسلام کے علماء اور محققین نے مختلف اوقات میں اظہارِ خیال بھی کیا ہے۔ان پروگرامز میں زکریابطرس نے ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر سیرت طیبہ کی اصل شکل کومسخ کرنے کی لاحاصل سعی کی ہے،اس طرح انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں جس میں اس طرح کے اشکالات کو بیان کیا ہے، اس حوالے سے بطرس کی تحقیقات اور تنقیدات کے مقاصد پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ رمضان لکھتے ہیں:

"وکلنا نعلم ما یقوم به القسِیس الخسیس زکریا بطرس وامثاله من الطعن فی القران الکریم وفی رسول الله ﷺ فی محاولة یائسة منهم لصد الناس عن الاسلام۔"[1]

"ہم بخوبی جانتے ہیں، کہ قسیس زکریا بطرس اور اس کے ہمنواؤں کا مقصد قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ پر طعن وتشنیع سے لوگوں کو دین اسلام سے روکنا ہے۔ "

زکریا بطرس نے اعتراضات تو کئے ہیں، لیکن وہ اس کے لیے مضبوط دلیل پیش کرنے سے قاصر رہاہے، زیادہ ترجھوٹ اور دغابازی کا سہارا لیا ہے، بعض مقامات پر حذف وترامیم کو راہ ِنجات پایا ہے۔اور ساتھ ہی تدلیس سے بھی بھر پور کام لیا ہے، لیکن ان تمام حیلوں کے باوجود بھی اپنی مدّعا ثابت کرنے میں ناکام رہاہے،اس کے کمزور استدالات پر تبصرہ کرتے ہوئے عبداللہ رمضان نے لکھا ہے:

"لکنهم عجزو عن الاتیان بشی صحیح عن الاسلام یخدم هدفهم، فذهبوا یتخبطون کالذی به مس من الشیطان، فاخذوا یجمعون الحکایات المکذوبة والروایات الباطلة التی لا اسناد لها، ولا اصل لها، بل ولجاوا الی التزویر فی تلک الروایات، لخدمة هدفهم۔"[2]

"لیکن وہ اپنے حصولِ مقصد کےلیے اسلام کی مخالفت میں کسی صحیح دلیل پیش کرنے سے عاجز رہے، پس انھوں نے مجنون جیسے ہواس باختہ ہوکر (اپنے مقصد کے حصول میں) ان جھوٹے واقعات اور باطل روایات کو جمع کیا، جن کی کوئی سند اور اصل نہیں ہے، بلکہ انھوں نےاپنے اہداف کے حصول میں ان روایات کو بیان کرنے میں جعل سازی سے کام لیا۔"

مذکورہ بالا تبصرہ زکریابطرس کے حق میں مناسب اور موزوں ہے کیونکہ موصوف نے مختلف ٹی وی پروگرامز میں چال بازی سے کام لیتے ہوئے سامعین کو دھوکہ دیتے ہیں، جس کے لئے اس نے اسلامی مصادر کا نام لے کر لوگوں کو شک وشبہ میں ڈالاہے حالانکہ اس کے پروگرامز کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بطرس نے اسلامی مصادر میں قطع وبرید کرکے اسلامی تعبیرات کی ایک غلط اورمن چاہی خودساختہ تصویر پیش کی ہے۔بطرس نے قرآن وسنت اور سیرتِ طیبہ سمیت تاریخ اسلام پر بھی اعتراضات کی ہیں، جس سے وہ اپنے زعم میں اسلام کی کمزورپہلوؤں کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، خصوصاً وہ اسلامی تعلیمات پر دورُخی کا الزام لگاتاہے،[3]ان تمام اشکالات کا احاطہ کرنا اس مقالہ میں مشکل ہے، تاہم اگر کوئی سکالر اس کوموضوعِ بحث بناناچاہے، تو سیرت کی دفاع میں یہ ایک اہم اور مفید کام تصورہوگاجو یقیناًدنیوی اور اُخروی فائدے کاباعث بنےگا، بہرحال اس مضمون میں سیرتِ طیبہ پرچندمنتخب اعتراضات وشبہات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سے پہلے زکریا بطرس کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

زکریا بطرس کا تعارف

پادری زکریابطرُس(القمص زکریابطرس) مصری قبطی ہے جس کی ولادت ۲۴اکتوبر۱۹۳۴ء کو اسکندریہ (مصر) کے قریب صوبہ البحیرہ کے ایک قصبہ کفرالداور[4] کے ایک ایسے عیسائی خاندان میں ہوئی، جو اناجیلی عقائدبالخصوص سیدنامسیح علیہ السلام کو واحد منجی یعنی نجات دہندہ تصور کے (Evangelicalism)عقیدے کی پرچارکرتی تھی اوروہ اس عقیدے کے معتقدین کی دیکھ بھال میں سرگرم تھے۔ اس وجہ سے فائز بطرُس(پادری کے عہدے پرتقرری یا آرڈینیشن سے قبل نام [5]) نے مسلمانوں میں انجیل کی اہمیت کے پرچارکواپنامشن بنایا، اور اپنے خاندانی تسلسل(مشنری سروسز) کو جاری رکھا۔

زکریابطرس نے ۱۹۵۷ء کو شعبہ جامعہ سکندریہ کے کلیۃ الآداب(شعبہ تاریخ وآثار)سے گریجویٹ ہوکر[6] ۱۹۶۰ء کی دہائی میں چندکتابچے لکھے اورمسلمانوں کوہدفِ تنقیدبنایا جن میں عقیدۂتثلیث، عقیدۂ تصلیب اورعقیدۂحلول یاتجسیم جیسے اسلام مخالف تصورات کو حق ثابت کرنے کے لیے عیسائیت اوراسلام میں مشترکات کواس اندازسے بیان کیاجاتا کہ اس سے اس مقصد کا حصول ہو۔[7] مصرمیں بطور پادری خدمات سرانجام دی ہیں، ملازمت کے اس دورانیہ میں بطرس نے مسلمانوں میں مسیحیت (Evangelicalism)کی تبلیغ کی، مسلمان علماء کے ساتھ مناظرے بھی کیے اورکہاجاتاہے کہ۱۹۸۹ء میں( اپنی ان ارتدادی سرگرمیوں کے باعث) ۵۰۰سے زائدمردو خواتین کوبپتسمہ دیا(عیسائیت میں داخل کیا)۔ بطرس نے مسلمانوں میں اپنی مشنری سرگرمیوں کومزیدفروغ دینے کے لیے مئی ۲۰۰۰ء میں انٹرنیٹ پرپال ٹاک (Paltalk) کے نام سے سروس شروع کی[8] ۔ بعدازاں ٹیلی ویژن پروگرامزکے ذریعے قسط وارلیکچرزکاسلسلہ شروع کیا۔ الغرض زکریابطرس کی مشنری سرگرمیاں کتابوں، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ (انگریزی، عربی، اطالوی اورفرانسیسی زبانوں میں آفیشل ویب سائٹس)کے ذریعے جاری ہیں اوراوّلین ٹارگٹ، اسلام، پیغمبرِ اسلام ﷺاورمسلمان ہیں ۔

انٹرنیٹ پر بطرس کی رسمی ویب گاہ http://www.fatherzakaria.net/انگریزی،اطالوی اورفرانسیسی زبانوں میں ہے، جب کہ عربی رسمی ویب گاہ ( الموقع الرسمی للزکریابطرس) http://www.islam-christianity.net/ ہے، ان ویب گاہوں پربطرس زکریابطرس کی کتابیں اورکتابچے، ویڈیوز، میڈیاکوریج ، عطیات، دیگر لنکس وغیرہ جیسے موادموجودہیں۔ ان ویب سائٹس پرموجودمواددوقسم کاہے ایک قسم خالصتاً مسیحی لٹریچر کی ہے جب کہ دوسری قسم خلافِ اسلام تصورات پرمبنی موادکی ہے۔ قسمِ دوم میں سے چندکتابوں/کتابچوں کے نام درج ذیل ہیں، ان میں سے اکثر بطرس کے خودساختہ بين المسيحيۃ والإسلام أرضيۃ مشتركۃ یعنی مسیحیت اوراسلام کے مشترکات سیریزکاحصہ ہے۔( دونوں قسم کامواد(کتب/کتابچے) برقی صورت میں آن لائن دستیاب ہیں جس کو زکریابطرس کے حوارات، مناظروں یاتقاریر کی کتابی یاتحریری صورت کہہ سکتے ہیں مگر باضابطہ طور پر شائع نہیں ہوئیں)۔

 

نمبرشمار کتاب/کتابچے کاعربی نام و تعدادصفحات کتاب/کتابچے کا انگریزی نام و تعدادصفحات
#

 

تساؤلات حول القرآن (تعدادِصفحات: ۱۵) Inquiries about the Quran (Pages: 19)
#

 

قضية الناسخ والمنسوخ في القرآن (أى تحريف القرآن) (تعدادِ صفحات: ۲۵) The Abrogator & Abrogated in the Quran

(i.e. falsification of the Quran) (Pages: 25)

#

 

_______

 

Is the Quran the God's words (Pages: 78)

کیاقرآن کلامِ الٰہی ہے؟

#

 

_______

 

The two faces of Islam: Hidden & Manifest

(Pages: 08)

#

 

نساء النبي محمدﷺ (تعدادِصفحات: ۲۴) _______
#

 

اعتراضات وما صلبوه ... وما قتلوه يقينا والرد عليها (تعدادِ صفحات: ۱۷) The Challenges of They crucified him not; they killed him not with certainty

& their answers (Pages: 18)

#

 

هل من تناقض بين الآيات القرآنية بخصوص صلب المسيح (تعدادِ صفحات: ۱۱) Is there any contradiction between the Quran verses, Concerning Crucifixion of the Christ? (Pages: 12)
#

 

الله واحد في ثالوث (تعدادِصفحات: ۲۶) God is One in the holy Trinity (Pages: 32)
#

 

المسيح ابن اللـه (تعدادِصفحات: ۲۱) The Christ, the son of God (Pages: 17)
#

 

صلب المسيح (تعدادِصفحات: ۱۷) Crucifixion of the Christ (Pages: 19)
#

 

حتمية الفداء (تعدادِصفحات: ۲۰) The Inevitability of Redemption (Pages: 27)
#

 

عدم تحريف الكتاب المقدس (تعدادِصفحات: ۲۷) Nihility of Falsification of the Holy Bible (Pages: 39)
#

 

أكذوبة إنجيل برنابا (تعدادِصفحات: ۲۴) The Flam of Barnabas' Bible (Pages: 22)
#

 

ألا تكفي التوبة بدل الصليب اعتراضات أخرى (ص: ۱۳) Is the repentance insufficient for the forgiveness ?& other challenges (Pages: 14)
#

 

اعتراضات الشيخ ديدات والرد عليها (تعدادِصفحات: ۱۸) The challenges of Sheikh Didat & their answers (Pages: 21)
#

 

الاعتراضات على سفر نشيد الأناشيد والرد عليهـا (تعدادِصفحات: ۲۳) The challenges against the book of Son of the Songs and their answers (Pages: 28)
#

 

حوار إذاعة كل العرب بلندن مع القمص زكريا بطرس (تعدادِ صفحات: ۲۱)
_______

سیرت طیبہ پر زکریابطرس کے اعتراضات کا علمی جائزہ

زکریا بطرس نے مختلف اسلامی کتابوں سے قطع وبرید کرکےعبارات اور ضعیف روایات کی بنیاد پر سیرت طیبہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،ولادت سے وصال تک ہر موقع پر شکوک وشبہات پیدا کرکے نبی کریم ؐکی سیرِ ت طیبہ پر اشکالات پیدا کیے ہیں، اس مضمون میں ان اشکالات کا علمی وتنقیدی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔

1۔ محمد مصطفیٰﷺ کی مدتِ ولادت پر تنقید

زکریابطرس نے مذکورہ بالا ہرٹی وی پروگرام میں صرف اسلامی مصادر کانام استعمال کرکے یہ دعوی ٰکیا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہ اسلامی مصادر سے بول رہا ہوں حالانکہ جس مصدر کا وہ نام لیتے ہیں، اس حوالے کے لیے جب اس مصدر کی طرف رجوع کیا جائے تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے، یہ صرف ایک یا دو مقامات کی بات نہیں بلکہ اکثر مقامات پر یہی صورتِ حال ہے، جس سے زکریا بطرس کی علمی خیانت اورغلط بیانی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ مدتِ ولادت پر تنقید کرنے میں بھی یہی حربہ استعمال کیا ہے۔

زکریا بطرس حوارالحق [9]کے پروگرام میں رسول ہاشمی ﷺ کی ولادت کی مدت چار سال قرار دیتا ہے، جس کے لئے بطور استدلال وہ البدایہ والنہایہ کا نام لیتے ہوئے نہیں تھکتے،پھر اس پروگرام میں اس کو تمسخر اور استہزاء قرار دیتاہے، دراصل حافظ ابن کثیر ؒنے البدایہ والنہایہ میں آپ ﷺ کی پیدائش کی مدت نو ماہ ذکر کی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

"وبقي في بطن أمه تسعة أشهر، وهلك أبوه عبد الله وهو في بطن أمه" [10]

"آپ اپنی ماں کے پیٹ میں نو ماہ کے رہے، آپ ابھی ماں کے پیٹ میں تھے کہ آپ کے والد فوت ہوئے۔"

اس کے علاوہ اس باب میں مدتِ حمل کے حوالے سے سیرت کی کتابوں میں دس ماہ اور آٹھ ماہ کے اقوال موجود ہیں[11] لیکن زکریابطرس نے اس حوالے سے چار سال مدتِ حمل کی جو رائے اختیار کی ہے،یہ قول کسی بھی سیرت نگار سے منقول نہیں ہے۔ اس کے باجود بطرس نے یہ دھوکہ اور مکر وفریب کیا، جس سے اس کی دغا بازی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

2۔ نسبِ رسول ہاشمی ﷺ اور زکریا بطرس کے افکار

زکریا بطرس نےہر حوالے سے سیرت ِ مطہرہ پراعتراضات کیے ہیں،اور ہر موقع پر ناشائستہ الفاظ سے اظہارِ خیال کیا ہے، اس نے پہلے آپ ﷺ کے نسب اور خاندان کوہدفِ تنقید بنایا ہے، کہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ کا تعلق خاندانِ قریش سے نہیں بلکہ کندہ سے تھا۔ حالانکہ اس بات کی تصدیق تو ابوسفیان نے ہرقل کی دربار میں کی ، جب ہرقل نے آپ کے نسب کے بارے میں پوچھا :

((كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟))[12]
" اس کا نسب کیسا ہے؟"

اس وقت ابوسفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے، اور دشمنی کی حالت میں اس بات کی تصدق کرتے ہوئے فرمایا:

((هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ))[13]
" وہ ہم میں سے عالی نسب ہیں۔"

ان صریح حقائق کے باوجود زکریا بطرس اور ان کے ہم خیال لوگ آپﷺ کے نسب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس باب میں زکریا بطرس نے البدایہ والنہایہ کی اس عبارت سے استدلال کیا ہے:

(("بلغ النبي صلى الله عليه وسلم أن رجالا من كندة يزعمون أنهم منه وأنه منهم"))[14]

" نبیﷺ کو اطلاع پہنچی کہ کندہ کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ﷺان کے قبیلہ سے تعلق ہے"۔

زکریا بطرس نے خیانتِ علمی سے کام لیتے ہوئے اس عبارت کو "باب تزویج عبد المطلب لابنہ عبداللہ" کے تحت مذکور ہونے کا تذکرہ کیا، جس سے وہ یہ باور کرانا چاہا کہ سننے والے عنوان اور معنون کو سن کر متاثر ہو جائیں گے، [15]حالانکہ یہ عبارت البدایہ والنہایہ میں باب جہل العرب کے تحت مذکور ہے ، جس سے حافظ ابن کثیرؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عرب جاہل تھے، اس لئے وہ اس قسم کی جاہلانہ باتوں کو منہ سے نکالتے تھے۔ایک اور مقام پر حافظ عمادالدین نے اس عبارت کو سيرة رسولﷺ[16] کی ذیل میں نقل کیاہے جس سے وہ آپ علیہ السلام کا نسب ثابت کرنا چاہتے ہیں ، گویا البدایہ کے مصنف اس سے رسول علیہ السلام کی پاک اور اعلی ٰنسبت کررہے ہیں، جب کہ زکریابطرس اس عبارت سے اس کا متضاد اخذ کرتے ہیں ، جس کے لیے وہ اس باب کااصل عنوان تبدیل کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدعی سست اور گواہ چست کے مصداق زکریا بطرس نے اس عبارت کابے جا وبے محل استعمال کیا ہے۔ زکریابطرس نے اس حوالے سے سیدنا انس بن مالک ؒ [17]کی ایک روایت کے ایک جزء کوذکرکر کے اس سے استدالال کیا ہے حالانکہ اس کے بعد اسی روایت میں آپ علیہ السلام نے اپنا شجرہ نسب بیان کرتے ہوئے فرمایا :

((«خطب النبيﷺ فقال:"أنامحمد،بن عبد الله،بن عبدالمطلب،بن هاشم،بن عبد مناف،بن قصي» الخ۔)) [18]

آپ ؐنے فرمایا : میں محمد بن عبد اﷲ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لوئ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار ہوں ۔

اس کے بعد اپنے عالی نسب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

«وماافترق الناس فرقتين إلاجعلني الله في خيرها۔ فأخرجت من بين أبوي فلم يصبني شئ من عهرالجاهلية.وخرجت من نكاح، ولم أخرج من سفاح، من لدن آدم، حتى انتهيت إلى أبي وأمي،فأناخيركم نفسا،وخيركم أبا»[19]

اور جب بھی لوگوں کے دو گروہ بنے تو اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے مجھے بہترین گروہ میں رکھا، پس میں اپنے والدین سے پیدا ہوا ہوں، میری پیدائش میں زمانہ جاہلیت کی بدکاری میں سے ایک ذرّہ بھی شامل نہیں۔ سیدنا آدم عليہ السلام سے لے کر اپنے والدین تک نسل در نسل میں بطریقِ نکاح پیدا ہوا ہوں نہ کہ بدکاری سے، پس میں خاندان اور اصل کے اعتبار سے تم سب سے بہترین ہوں۔

اس قسم کی جو روایات ہیں وہ سب کے سب آپ علیہ السلام کی بلند اور عالی نسب پر دال ہیں، اس سے عرب غلط بیانی کی تردید مقصود ہے، اب جو روایت کسی بات کی تردید کے لیے ہو اس کا ایک حصہ پیش کرکے اشکال پیداکرنااور لوگوں کو شک میں ڈالنا اگر علمی خیانت نہیں ہےتو اس کو کیا کہا جاسکتا ہے؟اس کے علاوہ حافظ عمادالدین خود اس کے ضعف کا بیان کرتے ہیں، جب کہ زکریا بطرس نے سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی ہے ، چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

"وهذا حديث غريب جدا من حديث مالك. تفرد به القدامي وهو ضعيف"[20]
"یہ حدیث‘ حدیثِ مالک سےز یادہ غریب ہے، قدامی[21] نے اس میں تفرد کیا ہے اور وہ ضعیف ہیں۔"

یہ اس جائزہ کے لئے کافی ہے کہ بطرس کس قسم کے علمی خیانت سے کام لیتے ہوئے رسول رحمت ﷺ کی شان اقدس کو مشکوک کرنے کی کوشش کررہاہے۔ حالانکہ اس قسم کی تما م روایات اور اصحابِ سیر کی کتابوں کی عبارات آپ ﷺ کی پاک دامنی کو بیان کرتی ہیں، جب کہ زکریا بطرس ان روایات اور اس قسم کی عبارات کو اس کے برعکس اسلام اور آقائے دوجہان ﷺکی مخالفت میں استعمال کررہا ہے۔اس لیےمذکورہ بالا البدایہ والنہایہ کی مکمل عبارت نقل کی گئی تاکہ یہ اشکال ختم ہوجائے۔

زکریا بطرس نے یہ کذب بیانی کی ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا اعتراف کیا ہے،[22] حالانکہ آپﷺ نےاعتراف نہیں بلکہ اس کی تردید کی ہے، چنانچہ اس کے علاوہ دیگر روایات جو اس حوالے سے منقول ہیں، وہ سب نسبِ نبوی ﷺ کی پاک دامنی پر دال ہیں، ان میں سے چند روایات ذکر کی جاتی ہیں، تاکہ اس سلسلے میں یہ اشکال ختم ہوجائے:

1۔ عبد اللہ بن عباسؓ [23]سے مروی ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا:

((«مَا وَلَّدَنِى مِنْ سِفَاحِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ شَىْءٌ مَا وَلَّدَنِى إِلاَّ نِكَاحٌ كَنِكَاحِ الإِسْلاَمِ»))[24]

"میری ولادت میں دورِ جاہلیت کی بدکاری کا ذرہ تک شامل نہیں اور میری ولادت نکاح سے ہوئی ہے،جیساکہ اسلامی نکاح ہے۔"

2۔ سیدنا واثلہ بن اسقعؓ [25]سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((«إن الله اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل ، واصطفى من بني إسماعيل بني كنانة ، واصطفى من بني كنانة قريشا، واصطفى من قريش بني هاشم ، واصطفاني من بني هاشم»))[26]

" اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ سے اسماعیلؑ کومنتخب فرمایا، اور اولادِ اسماعیلؑ سے بنی کنانہ[27] کو منتخب فرمایااور اولادِ کنانہ میں سے قریش کو منتخب فرمایااور قریش میں سے بنو ہاشم[28] کو منتخب فرمایااور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا۔"

3۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ [29]سے ارشاد نبوی ﷺ مروی ہے :

((«أنا النبي لا كذب، أنا ابن عبد المطلب، أنا أعرب العرب، ولدتني قريش، ونشأت في بني سعد بن بكر، فأنى يأتيني اللحن؟»))[30]

" میں ہی (سچا) نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب جیسے (سردار) کا لختِ جگر ہوں، میں عربوں میں سے بہترین عربی ہوں، مجھے قریش نے جنم دیا اور میں نے بنو سعد بن بکر[31] میں پرورش پائی، پس میری زبان میں لحن کیسے آ سکتا ہے؟"

محمد عربی ﷺ ایک پاک اور عزت مند خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ ﷺ کی نسب کی پاک دامنی پر قرآن کریم بھی شاہد ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ قَدْ جَائَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ﴾[32]
"بلاشبہ تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول ؐ تشریف لائے۔"

اس کے متعلق سیدنا علی ؓ نے رسول امی ﷺ سے پوچھا :

((«مَا معنى {أَنفسكُم}»))[33]
"اس آیت میں أَنْفُسِکُمْ کا کیا معنی ہے؟"

سیدنا علی ؓ کواس کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :

((«أَنا أَنفسكُم نسبا وصهراً وحسباً لَيْسَ فيَّ وَلَا فِي آبَائِي من لدن آدم سفاح كلهَا نِكَاح»))[34]

" نسب، سسرال اور حسب کے اعتبار سے نہ مجھ میں اور نہ ہی میرے آباء و اجداد میں سے سیدنا آدم تک کسی نے بدکاری کی، ہم سب (اسلامی طریقہ) نکاح سے پیدا ہوئے۔"

الغرض زکریابطرس نے اس روایت کےایک حصے کو نقل کیا ہے اور پوری روایت کو چھپایا ہے، حالانکہ اس روایت سے نسبِ نبوی کی عظمت کا پتہ چلتا ہے اور اس الزام کی تردید ہے جو ملحدین ومستشرقین کی افترابازی ہے، نبی کریم ﷺ نے کئی روایات میں اپنے نسب کو بیان کیا ہے ۔

3۔ تقدیس اصنام کی افترابازی

زکریا بطرس نےسیرت طیبہ پر ایسے عجیب وغریب اعتراضات کئے ہیں جنھیں سن کر ایک سلیم العقل بندہ حیران رہ جاتا ہے ،مثلاًبطرس یہ ثابت کرنا چاہتا ہے، کہ نبی امی ﷺ ان بتوں کے ماننے والے تھے، جن کی پرستش جاہلیت میں کی جاتی تھی، اس مسئلے کی تائید کے لیے وہ مسند امام احمد بن حنبل ؒ سے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا:

((«عن ابن عباس:قال وکان رسول الله صلى الله عليه وسلم یطوف حول الحجر سبع لفات ثلاث منها قافزاً کالظباء واربعة منها ماشیاً فی احترام للحجر المقدس»))[35]

"ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، کہ رسول اللہ ﷺ حجر اسود کے گرد سات چکرلگاتے تھے، تین چکروں میں ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے تھے، اورچارحجر مقدس کی احترام کے لیے۔"

اس سے بطرس کو یہ دلیل مقصودہےکہ نبی ہاشمی ﷺ حجر اسود کے احترام میں طواف کیطرح چکر لگاتے تھے، حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ آپﷺ نہ حجر اسود کی تقدیس کے لیے چکر لگاتے اور نہ ہی اس کو معبود تسلیم کرتے ،جیساکہ زکریابطرس کا خیال ہے،اولاً جس شخص (رسولِ اکرمﷺ) کامشن ہی توحیدباری تعالیٰ کی تبلیغ وترویج ہو وہ بذاتِ خودکیسے شرک کا ارتکاب کرسکتاہے؟یہ بات کسی بھی نبی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ توحید کی دعوت دی ہے اورشرک سے سختی سے منع فرمایاہے، اسلامی تعلیمات اس پر دال ہیں، ثانیاً بطرس نے ہمیشہ کی طرح یہاں پر بھی جعل سازی سے کام لیا ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ نہیں ہیں جو بطرس نے بیان کئے ہیں بلکہ امام احمدؒ نے اس روایت کو اس انداز میں بیان کیا ہےکہ "سیدنا ابن عباس ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کے لیے تشریف لے جاتے ہوئے جب مرالظہران کے قریب پہنچے، تو آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کو یہ بات پہنچی کہ قریش ان کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ کمزوری کی وجہ سے یہ لوگ کیا کرسکیں گے؟ آپﷺ کے صحابہ کرام ؓ کہنے لگے کہ جب ہم اپنے جانور ذبح کرتے ہیں،اس کا گوشت کھا کر شوربہ پئیں گے، جب ہم مکہ میں قوم پر داخل ہوں گے تو اس وقت ہم میں طاقت آچکی ہوگی، نبی کریم نے انھیں فرمایا ایسا نہ کریں، اورآپ کے پاس جو کچھ زاد سفر ہے، وہ میرے پاس لے کر آؤ، چنانچہ صحابہ کرامؓ اپنا اپنا توشہ نبی کریمﷺ کے پاس لے آئے اور دستر خوان بچھا دیا، پس سب کھانے کے بعدجب واپس آئے تو (اس قدر بچ گیا تھا کہ ) ہر ایک اپنے چمڑے کے برتنوں میں اسے بھربھر کر لے گیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے، یہاں تک کہ مسجد حرام میں داخل ہوگئے، مشرکین حجر اسودکی طرف بیٹھے ہوئے تھے، آپﷺ نے اپنی چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دیااور فرمایا:

((«لا يرى القوم فيكم غَميزَةً"، فاستَلم الركنَ، ثَم دخل حِتى إذا تغيب بالركن اليماني إلى الركَن الأسود، فقالت قريش: ما يرضون بالمشى، إنهم لينقُزُون نقْز الظِّباء!، ففعل ذلك ثلاثة أطواف، فكانت سُنةً. قال أبو الطفيل: وأَخبرنى ابنِ عباس: أن النبي ﷺ فعل ذلك في حجة الوَدَاع»))[36]

یہ لوگ تم میں کمزوری محسوس نہ کرنے پائیں ، پھر حجر اسود کا استلام کیا، اور طواف میں جب رکن یمانی پر پہنچے تو حجر اسود والے کونے تک اپنی عام رفتار سے چلے، مشرکین یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ یہ تو چلنے پر راضی ہی نہیں ہو رہے، یہ تو ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہیں، اس طرح عام رفتار آپﷺ نے تین چکروں میں کیا، اس اعتبار سے یہ سنت ہے، ابوالطفیل کہتے ہیں کہ مجھے ابن عباس ؓنے بتایا ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع میں اس طرح کیا تھا۔

اب اگر زکریا بطرس کے ادراج کا حدیث سے موازنہ کیا جائے ، تو یہ بات عیاں ہوگی کہ "فی احترام للحجر المقدس"[37]کے یہ الفاظ بطرس کے خود ساختہ ہیں، کتب حدیث اور شروحات کی تلاش سے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ حدیث میں یہ الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ یہاں سے بطرس کی خیانت اور دھوکہ بازی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ "تقافزالظباء "کے الفاظ قریش مدح کے لیے استعمال کرتے تھے، جس سے وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ ہرن جیسے تیز رفتار تھے، محمد جلال القصاص اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

(("بان النبیﷺوصحابته فی قوتهم یمشون کما تمشی الظباء"))[38]
" نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓقوت میں ہرن کی طرح رفتا کرتےتھے۔"

یہ درحقیقت بطرس کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے وہ استشراقی فکر کے خوشہ چین ہیں، استشراقی فکر کا یہ تصور ہے کہ افکار نبوی ﷺ میں بتدریج ارتقاء ہوئی ہے یعنی پہلے رحمت اللعالمین ﷺ( نعوذباللہ) بت پرستی کے قائل تھے، جس کی دلیل قصہ غرانیق ہے، اور بعد میں آپﷺ نے اس عقیدے کو ترک کیا۔ مشہور مستشرق گریو نے باؤم کا یہی تصور ہے کہ محمد مصطفیٰ ﷺ نے پہلے پہل ان بتوں کو بنات اللہ قرار دے دیا تھا لیکن پھر بعد میں آپ نے رب کریم کو ہی معبود واحد قرار دیا ۔ [39]

4۔ تعلیمی ذرائع پر تنقید

زکریابطرس کا خیال ہے کہ رسول اللہﷺ نے عرب کے راہبوں اور نصاریٰ کے علماء سے علم حاصل کیاہے،[40] اس بناء پر بطرس نے وحی کا انکار کیا ہے، اس سلسلے میں اس نے قرآن کریم کی آیت کو بطور دلیل پیش کیا ہے:

﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَر﴾[41]"
اور ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو ایک آدمی نے سکھایا ہے۔

بطرس نے اپنے ایک محاضرہ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ جن سے آپ ﷺ نے تعلیم حاصل کی، ان میں سیدنا سلمان الفارسی، عداس[42] اور میسرہ[43] کے نام گنوائے جاتے ہیں،[44] اس رائے کی تائید میں اس نے مختلف تفاسیر کو بطور ثبوت پیش کیا ہے کہ علمائے اسلام بھی یہ کہتے ہیں کہ علمائے نصاریٰ کے ساتھ آپ ﷺ کا نسبت اور واسطہ تھا۔

پہلے تو بطرس نےآیت کریمہ کو مکمل نقل کرنے کے بجائے اس کا ایک حصہ نقل کرکے لوگوں کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں ، جب کہ اصل حقیقت کی وضاحت پوری آیتِ کریمہ سے سامنے آئے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِين﴾[45]

" اور ہم کو خوب معلوم ہے کہ یہ( لوگ) تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ(تعریض) جس آدمی کی طرف ہے اس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن)صاف عربی زبان ہے "

درج بالا مکمل آیت ِ کریمہ کے شروع میں قرآن کریم قریش کے اس قول کی حکایت کرتا ہے، کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو ایک ا نسان نے سکھایا ہے، پھر قرآن کریم نے خود اس سے انکار کیا ہے اور محبوب خدا ﷺ کی طرف منسوب اس بات کی نفی کی ہے، اوراظہارِ تعجب کیاہے کہ قریش جن لوگوں کے نام لیتے ہیں وہ تو عجمی ہیں جو عربی میں کلام نہیں کرسکتے جب کہ یہ قرآن عربی زبان میں ہے ۔قرآن کریم تووہ معجزکلامِ الٰہی ہے جس کی فصاحت وبلاغت کی مثال پیش کرنے سے عرب کے فصحاء وبلغاء عاجز ہیں،پھر کیسے یہ لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آقائے دوجہان ﷺ نے ان لوگوں سے تعلیم حاصل کی؟

5۔ رسولِ اکرم ﷺ کی طرف مداہنت پرستی کی نسبت

زکریابطرس محمدعربی ﷺ کی نبوت ورسالت کو بھی ہدفِ تنقید بناکر آپ ﷺپر مداہنت کا الزام لگاتاہے، اس کے لیے اس نے قصہ غرانیق کو دلیل بنایا ہے[46] محمد جلال القصاص اس واقعے کے تناظر میں زکریا بطرس کے افکار کے بارے میں لکھتے ہیں :

"ویستدل بالقصة علی مداهنة النبی ﷺ لعبدة الاوثان من مشرکی مكة! ویستدل بالقصة علی تسلط الشیاطین علی رسول الله ﷺ"[47]

" اس واقعہ سے وہ نبی کریم ﷺ کی مداہنت اور بتوں کی عبادت پر استدلال کرتے ہیں۔اس طرح وہ اس قصہ سے اس پر بھی استدلال کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر شیاطین کا تسلط تھا۔ "

یہ صرف بطرس کی رائے نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ دیگر مستشرقین اور قسِیس واحبار کا بھی یہی موقف ہے، کہ وہ قصہ غرانیق کو بنیاد بنا کر اسلام میں شرک کی اجازت کو ثابت کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ مستشرقین اور بطرس اس واقعہ سے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ پیغمبر اسلام شرک کو جواز مہیا کرتا ہے۔ منٹگمری واٹ نے اس من گھڑت واقعے کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:

This is a strange and surprising story. The Prophet of the most uncompromisingly monotheistic religion seems to be authorizing polytheism. Indeed the story is so strange that it must be true in essentials. It is unthinkable that anyone should have invented such a story and persuaded the vast body of Muslims to accept it.[48]

یہ ایک عجیب اور حیران کن کہانی ہے کہ اصولوں پر سودا بازی نہ کرنے والے توحیدی مذہب کا پیغمبر ،شرک کو جواز مہیا کرتا نظر آتا ہے ۔ البتہ کہانی اتنی حیران کن ہے کہ ا س کی بنیادی باتیں ضرور سچی ہوں گی۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص نے یہ کہانی تراشی ہو اور پھر مسلمانوں کی اتنی کثیر تعداد اس کہانی کو قبول کرنے کی طرف مائل کرلیا ہو۔

زکریا بطرس اور اس کے ہم خیال مستشرقین اس واقعہ کے استنادی حیثیت کو سرے دیکھتے ہی نہیں، حالانکہ تمام محدثین اورمفسرین نے اسے موضوع قرار دیا ہے،چنانچہ علامہ بیہقیؒ[49] اس واقعہ کے استنادی حیثیت کے بارے میں لکھا ہے :

"هذه القصة غیر ثابتة من جهة النقل"[50]
" یہ قصہ ازروئے نقل ثابت نہیں"

اور قاضی عیاض ؒ[51] فرماتے ہیں:

"فيكفيك أن هذاحديث لم يخرجه أحدمن أهل الصحة ولارواه ثقة بسندسليم متصل"[52]

"پس اس پر کیسے اکتفا کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث ہے، حالانکہ کسی اہل صحاح میں سے کسی نے نقل نہیں کیا ہے، اور نہ ہی اس کے راوی صحیح اور متصل سند کے ساتھ ثقہ ہیں۔ "

واقعہ غرانیق کے حوالے سے بطرس کے خرافات کا جواب اور اس واقعے کی سندی حیثیت پر بات کرتے ہوئےمحمد جلال القصاص لکھتے ہیں:

"القصة لا تصح متناً ولا سنداً وقد اکثر علماء المسلمین فی التکلم عن عدم الصحة هذه القصة انکروها سنداً وانکروها متناً"[53]

"یہ قصہ سند اورمتن (دونوں ) کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اکثر علماء نے اس واقعے کی عدم صحت پر کلام کیا ہے، اور انھوں نے اس کے سند اور متن صحیح ماننے سے انکار کیا ہے۔"

قصہ غرانیق کی نقد پر علماء ومشاہیرامت نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے، تاہم بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں، علامہ ناصر الدین البانیؒ نے"نصب المجانیق لنسف قصۃ الغرانیق" کے نام سے مستقل تصنیف کی ہے، جس میں ان شبہات کا جواب دیا ہے۔ آپ نے اس واقعہ کی سند کے تمام روایوں کو تہذیب التہذیب کے مطابق ثقہ قرار دیا ہے، سوائے ابن عرعرہ سے نیچے راوی محمدبن علی المقری البغدادی میں نظر ہےاورشیخ البانی نے مذکورہ واقعہ کی سند کو ضعف قرار دیا ہے۔ [54]

ویسے توزکریابطرس نے ہادئ اعظمﷺ کی ذاتِ مبارکہ کے حوالے سے دیگراعتراضات بھی کئے ہیں مگریہاں صرف ان منتخب اعتراضات کوزیربحث لایا گیا، اب عصرِ حاضر کی ضرورت یہ ہے کہ جامعات کے علومِ اسلامیہ کے سکالرزکو زکریابطرس کے دینِ اسلام کی اساسیات، قرآن کریم، اسلامی تصور مسیح علیہ السلام اور سیرتِ طیبہ کے حوالے سے دیگراعتراضات، اشکالات، تنقیدات اورخودساختہ تحقیقات پر مختلف عنوانات سے علمی وتحقیقی مقالہ نگاری کی ذمہ داری سونپ دی جائے تاکہ علومِ اسلامیہ میں ہونے والی تحقیق سے حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کا دفاع اورصحیح عقائدوتعلیمات کی نشرواشاعت ہوسکے۔

نتائج البحث

1۔ سیرت میں بطرس نے رسول اللہ ﷺکی مدت ولادت پر یہ اشکال کیا ہےکہ آپﷺ کی مدت ِ ولادت چار سال ہے، جس کی تردید احادیثِ مطہرہ کے ساتھ ساتھ جدید میڈیکل سائنس نے بھی کی ہے کہ کوئی بچہ اس قدر زیادہ مدت ماں کی پیٹ میں نہیں رہ سکتا ہے، جس سے بطرس کے دعویٰ کی تردید ہوتی ہے۔

2۔ بطرس نے تاریخی حقائق سے منہ موڑتے ہوئے یہ اشکال کیا ہے، کہ آپ ﷺ قبیلہ کندہ سے تعلق رکھتے تھے نہ کہ قریش سے، اس نظریے کی تنقید کے لئے کئی تاریخی شواہد اس آرٹیکل میں موجود ہیں، جس سے بطرس کی کذب بیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔

3۔ بطرس کا تصور یہ ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ بتوں کے ماننے والے تھے، اس بات کو ثابت کرنے لئے بطرس نے احادیث میں تصحیف اور ادراج سے کام لیا ہے، جس پر اس آرٹیکل میں جرح کیا گیا ہے۔

4۔ زکریا بطرس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علم عرب کے راہبوں سے حاصل کیا ہےنہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی سے، یہ دراصل مشرکین کا اعتراض ہے جو قرآن کریم میں جگہ جگہ مذکور ہے، اس اعتراض کا تنقیدی جائزہ قرآن کریم کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔

5۔ سیرت النبی ﷺ پر بطرس کا ایک اشکال یہ ہے کہ نعوذباللہ رسول اللہ ﷺ مداہنت پرست تھے، اس کے دلیل میں قصہ غرانیق پیش کیا گیا ہے، اس لئے اس آرٹیکل میں قصہ غرانیق پر جرح کی گئی ہے، جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ یہ واقعہ موضوع ہے اور قابلِ استدلال نہیں ہے۔

سفارشات

1۔ زکریا بطرس نے رسول اللہﷺ کی ازواج مطہرات کی سیرت پر مختلف قسم کے اعتراضات کئے ہیں، اس حوالے سے ان کے افکار اور مستشرقین کے افکار زیادہ تر ایک جیسے ہیں، اس لئے ازواج مطہرات پر بطرس کے شبہات کے علمی جائزے پر ایم فل کی سطح پر کام کرنے کی سفارش کی جاتی ہے، تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ بطرس کے شبہات نہیں بلکہ یہ مستشرقین کے افکار اور رجحانات ہیں۔

2۔ بطرس نے The Quran: Scientific Errors, Sources of the Quran, Aborogation in the Quran کے عنوانات سے لیکچرز دیئے ہیں، جو یوٹیوب پر موجود ہیں، ان لیکچرز کا تنقیدی جائزہ پیش کرنا قرآنی دفاع کے حوالے سے اس وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔جس پر ایم اے کی سطح پر کام کرنا چاہئے۔

3۔ بطرس نے نعوذباللہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو دہشت گردی کی تعلیمات اور عیسائیت کی تعلیمات کو امن کی تعلیمات قرار دیا ہے، اس سلسلے میں نے Muhammad’s Terrorism and Christ’s peace کے عنوان سے لیکچرز دیئے ہیں، اس لیکچر کے تجزیے پر ایم اے کی سطح پر مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے، کہ یہ حقیقت واضح ہوجائے۔

4۔ حوار الحق" کے نام سے مختلف ٹی وی پروگرامزمیں بطرس زکریا نے قرآن کریم اور سیرتِ طیبہ پر مختلف اشکالات کا اظہار کیا ہے۔ یوٹیوب پر حوارالحق کے لیکچر ز کا تنقیدی مطالعہ پیش کرنا تقابل ادیان کا ایک اہم موضوع ہے۔

www.islam-chritianity.net میں مختلف تصورت کو پیش کیا ہے، اس میں ایک کتاب کا عنوان ہے، المصادر النصرانیۃ للاسلام ، جس پر تحقیق کرکے اصل حقائق تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اس پر ایک آرٹیکل کی صورت میں کام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ اصل حقیقت آشکارا ہوجائے۔

6۔ اعجاز القرآن مسلمانوں کے نزدیک ایک مسلم حقیقت ہے، www.islam-chritianity.net پر بطرس نے تساولات محیرۃ حول اعجاز العلمی فی القرآن کے نام سے ان کے لیکچر کو مدون کیا گیا ہے۔ جس میں انھوں نے قرآن کے اعجاز علمی کا انکار کیا ہے، اس کتاب کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔


  1. عبدالله رمضان، ا کاذیب القسِیس(دھوک: الاثريۃللتراث، س-ن)، 4:3۔
  2. ایضا۔، 4:6۔
  3. http://www.fatherzakaria.net/, accessed on January 16, 2019.
  4. http://www.islam-christianity.net/contents/fr-zakaria-story.htm, accessed on January 16, 2019.
  5. http://www.fatherzakaria.net/, accessed on January 16, 2019.
  6. الدکتورنجم عبدالکریم(مجری الحوار)،حواراذاعۃ کل العرب بلندن مع القمص زکریابطرس،لندن، تاریخ الاذاعۃ: یکم اپریل۱۹۹۴ء www.fatherzakaria.com/
  7. http://www.fatherzakaria.net/, accessed on January 16, 2019.
  8. http://www.fatherzakaria.net/, accessed on January 16, 2019.
  9. حلقات حوارالحق بطرس کے مختلف ٹی وی پروگرام ہیں،جو اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ www.islam-chritianity.net
  10. أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير، البدايۃ والنهايۃ( بيروت:دارإحياءالتراث العربی،1988ء)،6:330۔
  11. محمدبن یوسف الصالحي ،سبل الهدی والرشاد فی سیرة خیر العباد(مصر: المجلس الاعلی للشئون الاسلاميۃ ، س-ن)، 1:39۔
  12. محمد بن اسماعیل البخاری ، الجامع الصحیح، باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(مصر: دار طوق النجاة، 1422ھ) 1/8۔
  13. الجامع الصحیح، ،باب كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (مصر: دار طوق النجاة، 1422ھ) 1/8۔
  14. ا بن كثير،ا لبدايۃ والنهايۃ، 2:313-314
  15. الحوار الحق، فی الصمیم، الحلقۃ الثالثۃ، د/ ۱۷ www.answarsaboutfaith.com
  16. ابن كثير،ا لبدايۃ والنهايۃ، 2:30۔
  17. سیدنا انس بن مالک بن نضر انصار کے خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، بلند رتبہ صحابئ رسول اور خادم رسول ﷺ تھے، آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۸۶ہے، آپؓ مدینہ منورہ میں ہجرت سے دس سال قبل ۶۱۲ء کو پیدا ہوئے، بچپن میں اسلام قبول کیا اورآپ ﷺ کی وفات تک خدمت میں رہے، ۹۳ھ/ ۷۱۲ء کو بصرہ میں وفات ہوئے، بصرہ میں آپؓ آخری صحابی تھے۔ خير الدين بن محمود الزركلي، الأعلام (دار العلم للملايين، ۲۰۰۲ء ) 2/24
  18. ابن كثير،ا لبدايۃ والنهايۃ، 2:313-31۔
  19. ابن كثير،ا لبدايۃ والنهايۃ، 2:313-31
  20. ایضا۔
  21. عبداللہ بن محمد بن ربیعہ القدامی اہل مصیصہ سے تعلق رکھتے تھے، مصیصہ انطاکیہ اور شام کے درمیان ایک شہر ہے، امام مالک اور ابراہیم بن سعد سے روایت کرتے ہیں، احادیث کی روایت میں تقلیب سے کام لیتے تھے، ابن حبان نے ان کو مجروحین میں شمار کیا ہے۔محمد بن حبان،المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين(حلب: دار الوعي، ۱۳۹۶ھ)، 2:39۔
  22. الحوار الحق، فی الصمیم، الحلقۃالثالثۃ، د/ ۱۷ www.answarsaboutfaith.com
  23. سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ قریش کے ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کی ولادت ہجرت سے تین سال قبل ۶۱۹ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے، صحابہ کرامؓ میں جلیل القدر صحابیؓ ہیں۔ حبر الامہ اور ترجمان القرآن القابات سے یادکیے گئے، آخری وقت میں طائف میں سکونت تھی، اور وہیں ۶۸ھ/ ۶۸۷ء میں وفات پائی۔ ا خير الدين بن محمود الزركلي، الأعلام (دار العلم للملايين، ۲۰۰۲ء )،4:95۔
  24. أبو بكر البيهقي أحمد بن الحسين الخراساني، المدخل إلى السنن الكبرى( الكويت: دار الخلفاء للكتاب الإسلامي، س۔ن)،حدیث: 14456،7:190۔
  25. واثلہ بن اسقعؓ بن عبدالعزی بن عبد یالیل لیثی، کنانی صحابی ہیں،اصحاب صفہ سے تھے آخری عمر میں آنکھوں سے معذور ہوگئےتھے،۹۸ یا ۱۰۵سال عمر تھی، آپ دمشق میں وفات ہونے والے آخری صحابی ہیں، آپ سے ۷۶احادیث منقول ہیں، دمشق یا بیت المقدس میں ۸۳ھ/ ۷۰۲ء کو وفات پاگئے۔ عز الدين ابن الأثيرأبو الحسن علي بن أبي الكرم، أسد الغابة في معرفة الصحابة،( بيروت: دار الفكر،1989ء)،5:399۔
  26. الحافظ عبد الله بن محمد بن أبي شيبۃ،مصنف ابن أبی شيبۃ(بیروت:دار الفكر، س-ن)،7:43۔
  27. یہ قبیلہ رسول اللہ ﷺ کے آباؤ اجداد میں کنانہ بن خریمہ کی طرف منسوب ہے، جس کی وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے ، جس میں آپﷺ فرماتے ہیں: اللہ نے اسماعیل ؑ کی اولاد سے کنانہ کو منتخب فرمیا۔ کنانہ میں قریش کو، قریش میں بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے منتخب فرمایا۔ ایضا۔
  28. ہاشم عبد مناف کے بیٹے ، عبدالمطلب کے والد اور رسول اللہ ﷺ کے پرداد تھے، ان کی اولاد قریش کا معزز قبیلہ تھا، اور عرب میں بنو ہاشم کے نام سے مشہور تھے۔محمد بن سعد، الطبقات الكبير( القاهرة:مكتبۃ الخانجي، ۲۰۰۱ ء)، 1: 49۔
  29. آپ کی کنیت ابو سعید خدری ہے، اصل نام اور شجرہ یہ ہے:سعد بن مالک بن شیبان بن عبید بن ثعلبہ، آپ انصار کے خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جلیل القدر صحابی ہیں،ہجرت سے دس سال قبل۶۱۳ءکو پیدا ہوئے، بارہ غزوات میں شریک ہوئے، ۷۴ھ/۶۹۳ء کومدینہ منورہ میں وفات پا گئے۔ (ابن الأثير،اسد الغابة،5:399۔
  30. سليمان بن أحمد الطبراني، المعجم الكبير للطبراني (قاہرہ:مكتبہ ابن تيميہ،1983ء)، 6:35۔
  31. بنو سعد بن بکر عرب کا مشہور قبیلہ تھا، ۹ ہجری کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ضمام بن ثعلبہ کی قیادت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ (عبد الملك بن ہشام، السيرة النبوية لابن هشام( مصر: شركة مكتبۃ ومطبعۃ مصطفى البابي الحلبي وأولاده، 1955ء)، 2:573۔
  32. القرآن 9:128۔
  33. جلال الدين السيوطي عبد الرحمن بن أبي بكر، الدر المنثور في التفسير بالمأثور ( بيروت :دار الفكر، س،ن)،4:327۔
  34. ایضا۔
  35. الحوار الحق،فی الصمیم، الحلقۃ التاسعۃ،الشعائر الوثنيۃ في الجاهلیۃ د/۲۲ www.islam-chritianity.net پر بطرس کی کتاب المصادر الوثنیہ للاسلام میں مزید تفصیل ماحظہ ہو ۔
  36. أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل ، المسند( قاہرہ: دار الحديث ،1995ء)، حدیث: 2783، 3:236۔
  37. الحوار الحق،فی الصمیم، الحلقۃ التاسعۃ،الشعائر الوثنيۃ في الجاهلیۃ د/۲۲ ، www.islam-chritianity.net پر بطرس کی کتاب المصادر الوثنیہ للاسلام میں مزید تفصیل ماحظہ ہو۔
  38. محمد جلال القصاص ، الکذاب اللیم(دھوک:، الاثريۃ للتراث، س،ن)، 50۔
  39. “It is said that first he had recognized as the daughters of Allah, the three great goddesses: Al-Lat, who was honoured in Taif, Al-Uzza who was worshipped in Nakhla near Mecca, and Manat whose sanctuary lay in Qudaid between Mecca and Medina. This stand he now revoked and made a sharp distinction between the faithful and those who associated Allah with other gods”. E.Von Grunebaum, Classical Islam, trans. Katherine Watson (London, 1970), 31.
  40. www.islam-chritianity.net پر بطرس کی کتابیں المصادر الیہودیۃ للاسلام اور المصادر النصرانیۃ للاسلام موجود ہیں، جن میں وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کے تعلیمی ذرائع یہودیت اور نصرانیت ہے۔ لیکن ان کتابوں کا حوالہ اس وجہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے کہ ان میں کتبے اور اشاعت کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔
  41. القرآن 103:16
  42. عداس عتبہ بن ربیعہ کے غلام تھے، نینوی کے رہنے والے تھے، نبی کریم ﷺ جب طائف گئے تو ان کے ساتھ ملاقات ہوئی، جس کا تفصیلی واقعہ سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔ أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن أحمد السهيلي، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام(بيروت: دار إحياء التراث العربي، 2000ء)، 4:30۔
  43. میسرہ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ کے غلام تھے، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شام کا سفر کیا اور آپ ﷺ کی عظمتِ شان کا مشاہدہ کیا(تقي الدين المقريزي أحمد بن علي بن عبد القادر، إمتاع الأسماع( بیروت:دار الكتب العلميۃ، 1999ء)، 1:17۔
  44. الحوار الحق،فی الصمیم، الحلقۃ الحادیۃ عشر، د/۴www.islameyat.com
  45. القرآن 103:16
  46. الحوار الحق،فی الصمیم، الحلقۃ : ۱۴۲ اَسئلۃ عن الایمان، د/۱۲ یہ لیکچر اس ویب سائٹ www.islam-chritianity.net پر تحریری صورت میں موجود ہے۔ جہاں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
  47. محمد جلال القصاص ، الکذاب اللیم،105۔
  48. Montgomery Watt, Muhammad: Prophet and Statesman, (London: Oxford University Press, 2002), 61.
  49. أبو بكر، أحمد بن حسين بن علی (۳۸۴ھ – ۴۵۸ھ ھ ) کو نیسابور کے شہر بیہق کے مضافات میں گاوں خسرو جرد میں پیدا ہوئے، آپ حدیث کے بڑے ائمہ میں سے تھے،بغداد، کوفہ اور مکہ مکرمہ کو علم کے لئے اسفار کئے، اور علم کے بعد تمام زندگی بیہق میں خدمات سرانجاد یتے رہے، ( ۹۹۴- ۱۰۶۶ م) کو اس دنیا سے چل بسے۔الزركلي،الأعلام،1:116۔
  50. محمد بن محمد ابو شهبة، الاسرائیلیات والموضوعات( بیروت:دارالفکر، 2003ء)، 315۔
  51. عياض بن موسى بن عياض بن عمرون السبتي، (۴۷۶ - ۵۴۴ ھ) کو سبتہ(مغرب) میں پیدا ہوئے،آپ کی کنیت ابو الفضل ہے، اپنے وقت میں مغرب میں بڑے محدث تھے، عرب کے انساب، اورحالات پر سب سے زیادہ ماہر تھے، سبتہ کے قاضی رہ چکے تھے، پھر اس کے بعد غرناطہ کے قاضی بن گئے، آخر کا مراکش میں انھیں زہر پھلایا گیا جس کی وجہ سے ( ۱۰۸۳- ۱۱۴۹ء) کو وفات پاگئے۔الزركلي،الأعلام،5:99۔
  52. عياض بن موسى السبتي،الشفا بتعريف حقوق المصطفىٰﷺ(عمان: دار الفيحا، 1407ھ)، 2:279۔
  53. محمد جلال القصاص ، الکذاب اللیم،106۔
  54. شیخ محمد ناصرالدین البانی، نصب المجانیق لنسف قصۃ الغرانیق( بیروت: المکتب الاسلامی ، 2010ء)، 9-8۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...