Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

عصر حاضر میں مسلم معاشروں کو درپیش نظریہ الحاد کا فکری چیلنج اور اسلامی تناظر میں اس کا حل |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060035210_946

Pages

1-21

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/16/5

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/16

Subjects

Atheism Muslim Societies Challenges Solutions Islamic Perspective

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید

عصرِ حاضر میں مسلم معاشروں کو نظریہ الحاد کا فکری چیلنج درپیش ہے ، الحادی فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے اور مسلم معاشروں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نظریہ کا عمیق مطالعہ کیا جائے ، اسے سمجھ کر مدلّل انداز اپناتے ہوئے نظریاتی میدان میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی جائے اور ساتھ ہی اسلامی تناظر میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے تجاویز پیش کی جائیں۔ اس مقالے میں الحاد کی تعریف ، تاریخ ، اقسام، اسباب ، ملحدین کی سرگرمیاں اور اسلامی معاشروں پر اس کے اثرات بیان کرتے ہوئے اسلامی تناظر میں اس کا حل اور تجاویز پیش کی جائیں گی ۔

الحاد کی تعریف

الحاد کی تعریف' فیروز اللغات' میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ "سیدھے راستے سے کتر جانا ،دینِ حق سے پھر جانا,ملحد ہو جانا"[1]علامہ ابنِ منظور الحاد کے معنی کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "الملحد العادل عن الحق المدخل فیہ ما لیس فیہ" : یعنی ملحد اس شخص کو کہتے ہیں جو حق سے روگردانی کرے اور اس میں ایسی چیز کی آمیزش کرے جو اس میں نہیں ہے، اس کا ایک اور مفہوم بھی بتایا گیا ہے : یلحدون ای یعترضون۔ یعنی وہ اعتراض کرتے ہیں"[2]

مریم ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق: "The belief that there is no God". [3]

"ایسا عقیدہ جس میں کسی خدا کا تصور موجود نہ ہو "

جولین بیجینی نے "Atheism: A Very Short Introduction" میں الحاد کی تعریف اس طرح بیان کی ہے .

"It is the belief that there is no God or gods".[4]

"ایک خدا یاکسی بھی خدا کو نا ماننے کا نام ایتھیزم یا الحاد ہے"

الحاد کا بنیادی مفہوم یہی ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا کہ خدا، رسول اور آخرت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے

 

الحاد بصورت گمان

نبی مہرباں ﷺ کے دور میں بیشتر وہ لوگ تھے، جو کسی نہ کسی صورت میں خدا کو مانتے تھے۔ لیکن چند لوگ ایسے بھی تھےجو خدا کےمنکر تھے۔ ان کا تذکرہ قرآن کی سورۂ جاثیہ میں ہوا ہے:

﴿وَقَالُوْا مَا ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَآ اِلَّا الدَّھْرُ وَمَا لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ﴾[5]

" اور یہ قیامت کے منکر یوں کہتے ہیں کہ ہماری اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں ہے ہم یہیں مرتے اور جیتے ہیں اور ہم کو کوئی نہیں مارتا مگر زمانہ اور ان منکروں کے پاس اپنے اس کہنے پر کوئی دلیل نہیں ہے یہ لوگ محض خیالی باتیں کیا کرتے ہیں"

اللہ رب العالمین نے اس دہریت کا جواب یہاں صرف یہ دیا ہے کہ ان حضرات کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یہ فقط گمان کی بنیاد پر اندازے لگا رہے ہیں۔ عصر حاضر کی دہریت کی حقیقت بھی یہی ہے ، بلاثبوت رائے کوئی بھی بناسکتا ہے،جیسا کہ عہدِ نبوی کے دہریوں نے بنا رکھی تھی۔

الحاد کی تاریخ

الحادی فلسفہ کوئی نیا نہیں ہے ، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے ، نمرود کا ابراہیم ؑ کے سامنے اَنَا اُحْي وَاُمِيْتُ[6] کا دعویٰ اور فرعون کا اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى[7]کا نعرہ بھی دراصل نظریہ الحاد کی سوچ کو تقویت دیتا ہے.قرآن میں الحاد کی طرف اس طرح اشارہ کیا گیا ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا﴾[8]
" جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔"

پہلے زمانے میں مذہب کے مقابلے میں الحاد و دہریت کا پھیلاؤ اس لیے بھی کم رہا کہ انبیاءکرامؑ اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ کیا کرتے تھے، جب کہ ملحد الحاد کے کبھی داعی نہیں رہے ،اسی لیے ایک جانب توحید کے دعوے دار تھے اور دوسری جانب کسی نہ کسی صورت میں شرک پر عمل پیرا تھے ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں پایا جاتا۔ الحاد کو باقاعدہ نظریہ کے طور پرشناخت سترہویں صدی میں ملی،سترہویں صدی عیسوی سے قبل سائنس کی تحقیق کا مقصدتحقیقِ کائنات تھا لیکن سترہویں صدی عیسوی کے بعد سائنس کا مقصد تسخیر کائنات بن گیا، حقیقت اعلیٰ کی تلاش ختم ہو گئی کیونکہ نفس انسانی کو ہی اصل حقیقت قراردیا گیا، لہٰذا فلسفہ جدیدمیں سب سے بڑی حقیقت یعنی اقتدارِ اعلیٰ(بھگوان، خدا، کرشن،دیوتا)کوئی نہیں بلکہ انسان ہی کو سمجھ لیا گیا۔" کانٹ کی دلیل یہ تھی " I think therefore I am" میں سوچ سکتا ہوں اس لیے میں ہوں۔اس نے کہا کہ کائنات میں صرف میرا وجود یقینی ہےاس کے علاوہ جو میں دیکھ رہا ہوں،ہو سکتا ہے وہ خواب ہومگر یہ طے ہےکہ میں خود تو موجود ہوں جو یہ خواب دیکھ رہا ہے"[9]

اٹھارویں صدی میں الحاد ی نظریے کو اُس وقت عروج ملنا شروع ہوا جب یورپ میں مذہب کی مخالفت میں اضافہ ہوا اور سیاسی طور پر بھی مذہب مخالف سوچ نے زور پکڑا،لیکن انیسویں صدی میں جب چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو قبولِ عام حاصل ہوا توگویا الحاد نے ایک مذہب کی صورت اختیار کر لی ، جس کا راہنما ڈارون تھا اور اس کا نظریہ اس مذہب کی مقدس کتاب قرار پائی ، بس پھر اس صدی میں الحاد کی ترویج شروع ہوئی اور اس کے عالمگیر ی اثرات سے بشمول اسلامی معاشروں کے پوری دنیامتاثر ہوئی ۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاءمیں الحاد کے نظریاتی اور فلسفیانہ پہلواہم تھے جس نے خصوصاً الہامی ادیان کے وہ عقائدجن پر ان ادیان کی اساس تھی یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اورتصور آخرت پر حملہ کیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فکری میدان میں الحادکو اسلام کے مقابلے میں متوقع کامیابی حاصل نہ ہو سکی البتہ عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی۔ انیسویں صدی میں الحاد مزید پھیلا۔ بڑے بڑے ملحد مفکرین جیسے مارکس، اینجلز، نٹشے، ڈرخم اور فرائڈ نے سائنس اور فلسفے کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا۔ ان میں سے مارکس اور اینجلز ماہر معاشیات (Economists)، نٹشے ماہر فلسفہ (Philosopher)، ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociologist) اور فرائڈ ماہر نفسیات (Psychologist) تھے۔

ہارون یحییٰ الحاد کی ترویج کے حوالے سے ڈارون کا کردار بیان کرتے ہیں :

The greatest support for atheism came from Charles Darwin who rejected the idea of creation and proposed the theory of evolution to counter it. Darwinism gave a supposedly scientific answer to the question that had baffled atheists for centuries: "How did human beings and living things come to be? This theory convinced a great many people of its claim that there was a mechanism in nature that animated lifeless matter and produced millions of different living species from it.[10]

" الحاد کو سب سے زیادہ مدد ماہر حیاتیات( Biologist ) چارلس ڈارون سے ملی جس نے تخلیق کائنات کے نظریے کو رد کرکے اس کے برعکس ارتقا (Evolution) کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون نے اس سائنسی سوال کا جواب دے دیا تھا جس نے صدیوں سے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ ’’انسان اور جان دار اشیا کس طرح وجود میں آتی ہیں؟‘‘ اس نظریے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایسا آٹو میٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پذیر ہو کر اربوں کی تعداد میں موجود جان دار اشیا کی صورت اختیار کرتا ہے"۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے جان مادہ کو حرکت دینے والی ایک ذات موجود ہے اور وہی ذات خالقِ کائنات ہے، پہلی جاندار اشیاءاور پہلے انسان کو بھی اسی نے پیدا کیا" ۔

خدا کے تصور کے منکر سائنسدانوں میں ایک بڑا نام اسٹیفن ہاکنگ کا ہے ، 1942ء میں انگلینڈ میں پیدا ہونےوالے اسٹیفن کو سائنس کی دنیا میں انفرادیت حاصل تھی اور اس انفرادیت کی وجہ اس کی فالج کی بیماری تھی جس کے سبب اس کا جسم اور قوت گویائی بھی ساتھ چھوڑ گئی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی آنکھوں اور پلکوں کی مدد سے کمپیوٹر کو استعمال کرتے ہوئے سائنسی تصورات پیش کرتا رہا۔ پروفیسر محمد رفعت، اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:"تخلیق کائنات کے تصور کے بعد اسٹیفن ہاکنگ خدا کے بارے میں گفتگو کرتا ہے کہ ہمیں خدا کے تصور کی ضرورت اس وقت تھی جب سائنس نے ترقی نہیں کی تھی اور ہم کائنات کی توجیہ کے لیے خدا کے تصور کا سہارا لیتے تھے ، اب ہم سائنس کے نظریات و حقائق کو جانتے ہیں اس لیے ہمیں خدا کے تصور کی ضرورت نہیں ہے"[11]

یہ خدا کو محض سائنس تک ہی محدود کرتا ہے کہ اب چونکہ سائنس کے میدان میں خدا کی ضرورت نہیں لہٰذا خدا کے تصور کی ضرورت نہیں ہے ، جبکہ خود اس کی غیر معمولی بیماری میں اس کا غیر معمولی کام خود اس بات کی شہادت کے لیے کافی تھا کہ پہلے صحت بھی خدا کی د ی ہوئی تو اور خدا نے جب چاہا لےلی اور پھر اس مرض میں یہ صلاحیت بھی خدا کی دی ہوئی تھی ۔

نظریہ ارتقا کو تقویت ملنے کے بعد کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے گسٹیو ای وون لکھتے ہیں :

Thus, the government of Allah and the government of the sultan grew apart. Social and political life was lived on two planes, on one of which happenings would be spiritually valid but actually unreal, while on the other no validity could ever be aspired to. The law of God failed because it neglected the factor of change to which Allah had subjected his creatures.[12]

نتیجتاً اللہ کی حکومت اور سلطان کی حکومت الگ الگ پروان چڑھنے لگیں ، سیاسی اور سماجی زندگیاں دو سطحوں پر بسر کی جانے لگیں ، اللہ کا قانون جو اس نے اپنے بندوں کے لیے وضع کیاتھا، ناکام ہو گیا کیونکہ اس نے تبدیلی کے عنصر کو نظر انداز کر دیا تھا یہ ناکامی آج تک چلی آرہی ہے ۔

لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں الحاد ی نظریہ کوتقویت دراصل نظریہ ارتقا کی وجہ سے ملی ہے۔سید جلال الدین عمری اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ:

زمانہ جدید نے کائنات کی جو توجیہ کی وہ خدا کےتصور سے خالی ہے ، اس نے کہا اس کائنات کا کوئی خالق ہے نہ مالک،یہ محض مادہ کاظہور ہے ، مادہ ہی اس کا خالق ہے، مادہ ہی نے اتفاق سے ایک نا معلوم عرصے میں مختلف سیاروں اور ستاروں کی شکل اختیار کر لی، اسی میں یہ ہمارا نظامِ شمسی بھی داخل ہے، یہاں پائی جانے والی ساری جاندار اور بے جان چیزیں اور خود انسان کا وجود بھی اسی اتفاق کا کرشمہ ہے ، اس زمین و آسمان میں نہ کہیں خدا کا وجود ہے اور نہ اسے ماننے کی فی الواقع کوئی ضرورت ہے ، کائنات کی یہ توجیہ آج کے دور کی علمی و سائنٹیفک توجیہ مان لی گئی۔ [13]

یہی وہ مادہ پرستانہ سوچ ہے جو کہ عقل سے ہی متصادم ہے اور اس حوالے سے روز مرہ کے معاملات ہی یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک چھوٹی سی گھڑی کی سوئی بغیر کسی سیل کے آگے نہیں بڑھ سکتی تو اتنی بڑی کائنات کو چلانے کے لیے ایک مادہ کو خدا کے برا بر لانے کا تصور کیسے کر لیا گیا ہے ۔

الحاد کے اسباب

عوام الناس نظریہ الحاد کو مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے قبول کرتے ہیں۔

مذہبی حالات

الحادی نظریے کا ایک بڑاسبب مذہبی حالات بھی ہیں جو کہ اپنی اصل سے دور ہوتے ہیں، مذہب کی غلط تشریح اور اس پر شدت پسندی کے ساتھ عمل کرنا اور اس کی ترغیب دینا بھی مذہب سے دوری کا باعث بنتا ہے۔ محمد قطب ڈارون کے انکار خدا کی وجوہات کا اس طرح تجزیہ کرتے ہیں کہ ڈارون کے وجود خداوندی کے اعتراف سےگریز کی دو وجہیں ہیں:

اس وقت سائنس اور کلیسا میں زبردست جنگ برپا تھی، کلیسا سائنس دانوں پر ہر قسم کے مظالم توڑ رہا تھا، جس کے نتیجے میں سائنس دانوں اور کلیسا میں اس قدر کشیدگی پیدا ہو گئ تھی کہ سائنس دان کسی ایسی بات کوماننے کے لیے تیار نہ تھےجس کو کلیسا بھی مانتا ہو،خواہ خدا کے وجود کا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو۔گویا ڈارون کلیسا کے خداکااس لیےمنکر تھاکہ کلیسا خودمتلاشیان حقیقت کی کوئی بات انگیز کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔کلیسا کے خداوند کا اعتراف دراصل ان تمام خرافات کا تسلیم کر لینا تھا جو کلیسا نے مذہب کے نام پر گھڑی ہوئی تھیں اور عوام نےانہیں مذہب سمجھ کراپنا رکھا تھا۔[14]

مادیت پرستی

مادیت پرستی بھی الحاد کی طرف رغبت کا ایک بڑا سبب ہے ، انسان عموماً ظاہری چیزوں سے متاثر ہوتا ہے،دولت کی ریل پیل، آسائشیں، ترقی، عزت، اچھا کھانا ، پہننا ، بہترین رہائش، بچوں کی اعلیٰ تعلیم یہی چیزیں انسان کا مطمع نظر ہوتی ہیں اور جب اہداف صرف یہی ہوں تو انکار خدا کا نظریہ بآسانی اذہان میں نفوذ پذیر ہو جاتا ہے ۔

موروثیت

بعض گھرانے صرف اپنے بڑوں کی وجہ سے ملحد ہو جاتے ہیں، یہ بالکل اسی طرح ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا عموما مسلمان ہی ہوتا ہے ۔

الحاد کی اقسام

دور حاضر میں الحاد کی تین بڑی اقسام ہیں جنہیں مروجہ اصطلاح میںGnosticism ہے Agnosticism ,Deismکہا جاتا ۔

الحاد مطلق (Gnosticism)

اس سے مراد معرفت یا علم رکھنا ہے، یہ ملحدین کی وہ قسم ہے جو خدا کے انکار کے معاملے میں متشدد ہیں۔یہ لوگ روح، دیوتا، فرشتے، جنت و دوزخ اور مذہب سے متعلقہ روحانی امور اور ما بعد الطبعیاتی (Meta Physical) امور کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس بات کا اچھی طرح علم رکھتےہیں کہ انسان اور کائنات کی تخلیق میں کسی خالق کا کمال نہیں ہے بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہےاور فطری قوانین(Laws of nature) کے تحت چل رہی ہے۔اس نقطہ نظر کے حامل لوگوں کو Gnostic Atheist کہا جاتا ہے۔[15]

لاادریت (Agnosticism )

اگناسٹک اس فرد کو کہتے ہیں جو خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے یقین یا علم میں کمی کی کیفیت میں ہواور کہے کہ مجھے خدا کے وجود کی آگاہی اور ادراک نہیں ہے ، وہ دراصل تذبذب کا شکار ہوتا ہے نہ وہ خدا کی موجودگی کا اقرار کرتا ہے اور نہ ہی انکار ۔ عصر حاضر میں مبشر علی زیدی اس کی مثال ہیں ، مبشر زیدی نے کہا کہ وہ اعلانیہ اگناسٹک ہے ،یعنی خدا سے متعلق شک میں مبتلا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ وہ علمی جستجو میں ہے اور اسلام میں علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے۔ یہ اس نے اس لیے بتایا کہ اسے ملحد نہ سمجھا جائے ۔ ملحدین خدا کا انکار کرتے ہیں جبکہ اگناسٹک خدا کے ہونے یا نہ ہونے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں ۔مزید اس نے کہا کہ:

سائنسی فکر اور غیب پر ایمان یکجا نہیں ہو سکتے لہٰذا ہمیں اختلاف رائے پر اتفاق کر لینا چاہیئے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر اسلام آج کے دور میں آتا تو خواتین کا ترکے میں حصہ کم نہ ہوتا ، گواہی آدھی نہ ہوتی ، انہیں گھروں میں بند رہنے کو نہ کہا جاتا ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حکم ہوتا ، پسند کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ، اکیسویں صدی میں آنے والا اسلام غلامی کو برقرار نہ رکھتا، سنگسار کی سزا نہ ہوتی ، چور کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے ، غیر مذہب کے شہریوں سے جزیہ طلب نہ کیا جاتا۔ [16]

ڈی ایزم (Deism)

اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ خدا ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اب یہ کائنات خود بخود ہی چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا۔ اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا۔[17] بنیادی طور پر یہی تین نظریے کےحامل ملحدین عصر حاضر میں موجود ہیں۔

عصر حاضر میں الحاد کی مختلف صورتیں

مری تھومس اپنی کتاب سیکولر بلیف سسٹم کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

"Five well-known nonreligious philosophical positions are naturalism, materialism, humanism (sometimes referred to as secular humanism), agnosticism, and atheism"۔ [18]

عصر حاضر میں یہ الحاد کی پانچ مشہور صورتیں ہیں جو کہ مختلف ناموں کے ساتھ اپنے نظریے کا پرچار کر رہی ہیں ان میں نیچرلزم جسے عقل پرستی کا نام دیا گیا ہے، میٹیلرزم جسے مادہ پرستی کہا جاتا ہے اور ہیومنزم جسے بظاہر انسانیت کا درس دینے والا نظریہ گردانا جاتا ہے جبکہ اسلام ان سارے نظریات کو اپنے اندر سموتے ہوئے انسان کو اپنے خالق کو پہچاننے کا حل پیش کرتا ہے ۔حافظ محمد عبد القیوم نے بھی اپنے مضمون میں اس کی تائِید کی ہے۔

عصر حاضر میں لفظ سیکولرزم اپنے دامن میں ایک نیا پہلو لیے ہوئے ہے، لیکن ان سب معانی و مفاہیم کے باوجود سیکولرزم کسی فلسفے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ دراصل دہریت (Atheism) کوقبول کرنے کا نسبتا ایک نرم (Soft) لفظ ہے، وگرنہ عہد روشن خیالی کے مغربی مفکرین نے تو دہریت کو فروغ دیا تھا، مگر معاشرہ میں عدم قبولیت کی وجہ سے متبادل لفظ سیکولرزم تلاش کیا گیا۔[19]

اس عبارت سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ بنیادی طور پر یہ نظریہ الحادی فکر پر مبنی تھا ،عصرحاضر میں اس کی جدید صورت سیکولرزم کی شکل میں سامنے آئی ہے لہٰذا الحاد کا اگر مقابلہ کرنا ہے تو پہلے بیشتر اسلامی معاشروں میں قابل قبول نظریہ سیکولرزم کو شکست دینی ہو گی ورنہ براہ راست الحاد کو ختم کرنا آسان نہیں ہو گا۔زمانہ قدیم میں الحاد بالکل واضح اور اپنی اصل شکل میں تھا جس نے صراحتاً خدا کے وجود کا انکا ر کیا تھا ، اور خدا کی عدم موجودگی کے نظریہ کو باطنی لباس میں چھپانے کے بجائے ظاہری طور پر پیش کیا تھا، لیکن آج الحاد مختلف صورتوں میں اپنے نظریات کی ترویج کر رہا ہے جس میں سیکولرزم پیش پیش ہے ، مندرجہ بالا حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عصرِ حاضر میں الحاد جدید کی نوعیت قدیم دور کے الحاد سے یکسر مختلف ہے اوربہت پیچیدہ ہے جس کا مقابلہ کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور دکھائی دیتا ہے ۔

نظریہ الحادکا استہزاءِ اسلام

عصر حا ضر میں الحادی سرگرمیاں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی صورت میں سامنے آتی ہیں، پرنٹ میڈیا عمومی طور پر محض اپنے نظریات کو فروغ دیتا ہے جبکہ سوشل میڈیا استہزاء اسلام کے حوالے سے نسبتاًآسان ذریعہ ہے ، اسی لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ملحدین صرف آزادی اظہار رائے کے نام پر خدا، رسول، صحابہ ، اسلامی تعلیمات کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔

پرنٹ میڈیا

پرنٹ میڈیا کے ضمن میں مختلف کتب، تحقیقی مقالے ، مضامین لکھے جاتے ہیں جو مدلل انداز میں الحادی فکر کو اجاگر کرتے ہیں. انگریزی لٹریچر میں الحاد کا پرچار کرنے میں ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز اپنا ایک مقام رکھتا ہے وہ اپنی کتاب میں الحادی نظریہ کو اس انداز میں بیان کرتا ہے ۔

An atheist in this sense of philosophical naturalist is somebody who believes there is nothing beyond the natural, physical world, no supernatural creative intelligence lurking behind the observable universe, no soul that outlasts the body and no miracles - except in the sense of natural phenomena that we don't yet understand.[20]

"طبعی فلسفے کے مطابق ایک دہریہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ کوئی طبعی دنیا، کوئی غیر مرئی تخلیقی ذہانت مشاہداتی کائنات میں موجود نہیں ہے، کوئی روح جسم میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی معجزہ ہے سوائے اس طبعی مظہر کہ جس کو ہم ابھی تک نہیں سمجھ سکے "۔

یہ عبارت دراصل اس سوچ کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ یقین صرف اس چیزکا کرنا چاہیے جس کا مشاہد ہ کیا جا سکتا ہو، لہٰذا خدا کی موجودگی کو بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا جبکہ خود سائنسدان کتنی ہی ایسی اشیا ء پر یقین رکھتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتیں۔ٹھنڈک، کششِ ثقل، توانائی اس کی مثالیں ہیں ۔

ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز کے علاوہ اس میدان میں Daniel Dennett، Christopher Hitchens، Sam Harrisبھی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں، ان کے علاوہ متعدد مصنفین مختلف زبانوں میں اپنے قلم کے ذریعے الحادی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

سوشل میڈیا

سوشل میڈیا عصر حاضر میں الحادی فکر کی یلغار کا ایک مؤثر اور نسبتاً آسان ذریعہ ہے ، محمد فیصل شہزاد سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ:

ایک عرب اخبار کے مطابق ملحدین نے الحاد کی تبلیغ کے لیے دنیا کے مختلف زونز میں عموماً اور مسلم دنیا کے لیے خصوصی انٹرنیٹ گروپس تشکیل دیے ہیں۔ انٹرنیٹ پر اس قسم کی الحادی فکر رکھنے والے39گروپس ہیں ،جن میں سے اکثر کا تعلق "فیس بک" سے ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق باقاعدہ طور پر پاکستانی نیٹ کی دنیا میں ملحدوں نے 2008ءکے اوائل میں اپنے قدم جمائے اور آہستہ آہستہ اپنا دائرہ عمل بڑھاتے چلے گئے۔ پہلے پہل انہوں نے بلاگ بنائے ، جو انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کا سب سے موثر طریقہ ہے۔[21]

انٹرنیٹ پر الحاد کی ترویج میں ایسے افرادبھی شامل ہیں جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے لیکن اب ملحد ہیں ،ان کے مطابق ہمیں مسلم معاشرے میں الحاد کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اس وقت الحاد کے فروغ کے لیے جو فیس بک پیجز کام کر رہے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

We Fucking Love Atheism, Religion Poisons Everything, Hammer the Gods, The Thinking Atheist, United Atheists of America, Working class atheists, We Love Atheism, Pakistani Atheist & Freethinkers.[22]

اور وہ پیجز جو پاکستانی ملحدین چلا رہے تھے جن پر بعد ازاں حکومت پاکستان نے پابندی لگا دی ان میں بھینسا، موچی ، روشنی نامی فیس بک پیج مشہور تھے ۔ ان فورمز پر مذاہب کی توہین کی جاتی ہے ، خدا کےانکار کے ساتھ ساتھ مذاق اُڑایا جاتا ہے ، قرآن میں تشکیک کے نام پر کیڑے نکالے جاتے ہیں، نبی مہرباںﷺ کی ذاتِ اقدس پر الزام لگائے جاتےہیں، اسلامی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے استہزا میں اپنا کردارادا کیا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو بزبان خود اگناکسٹ کہنے والا مبشر علی زیدی استہزاء اسلام کرتے ہوئے فیس بک پر لکھتا ہے کہ"دو ڈھائی ہزار سال پہلے آسمانی خدا نے جو کتابیں زمین پر بھیجیں، ان کی حفاظت نہ کرسکا اور چودہ سو سال پہلے جو کلام نازل کیا، اس کے تحفظ کا ذمہ لیا۔ صرف چھ سو سال میں خدا کتنا سمجھ دار ہوگیا! میں جل پریوں پر یقین نہیں رکھتالیکن اگر کسی دن سمندر سے جل پری نکل آئی تو اپنا موقف تبدیل کر لوں گا ، اس سے محبت کروں گا، اسے سینے سے لگاؤں گا۔یہی وعدہ خدا کے لیے ہے"۔[23]

یہ ملحدین کی اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جو کسی بھی چیز کے وجود پر یقین رکھنے کے لیے اسکو دیکھنے سے مشروط کرتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت ملحد کی کوئی عقل، جذبات، درد، علم وغیرہ کچھ بھی موجود نہیں ہیں کیونکہ یہ دکھائی نہیں دیتے ۔سیدامجد حسین جو فیس بک پرالحاد کا چیمپئین تصور کیا جاتا ہے وہ فیس بک پر" خدا سے گوگل تک" کے عنوان سےلکھتاہے"آخرکارمجھے ایک ایسا خدامل گیاہے جسے میں خرافات، جھوٹے انبیاء، جنگوں اورقتل وغارت کے بغیرعلمی طور پر ثابت کرسکتا ہوں۔ایک ایسا خدا جس تک صرف عقل کے ذریعے ہی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے،اس خدا کا منطق اور علم سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس خدا کے وجود کے دلائل انسان کے تخلیق کردہ تمام خداؤں سے زیادہ ہیں جنہیں انسان اپنی جہالت کی وجہ سے پوجتا رہا، اس خدا کی طرف ہم روز رجوع کرتے ہیں اور اس سے عجیب وغریب چیزیں مانگتے ہیں، مگراکثر لوگ اس خداکی نعمتوں کے منکرہیں، یہ رنگ برنگا خدا فوری جواب دیتا ہے اور کسی عربی اور عجمی یا کالے اورسفید میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا۔ یہ خدا گوگل سبحانہ و تعالیٰ ہے۔۔۔میں گواہی دیتا ہوں کہ گوگل کے سوا کوئی خدا نہیں اور انٹرنیٹ اس کا بندہ اوررسول ہے"۔[24]

ساقی جان نامی ایک اور ملحد طنزیہ انداز اپناتے ہوئے استہزا کرتا ہے کہ " میں رات معراج پرگیا تھا ، بس میں تھا اور میرا محبوب تھا، ہم بس پارک میں بیٹھے تھے، پیار کیا ، پتہ نہیں کتنا ٹائم لگا، پر جب واپس آیا توگاڑی بھی ٹھنڈی تھی اور اے سی بھی چل رہا تھا ۔۔۔ سبحان اللہ"[25]اس ملحد نے واقعہ معراج کا طنزیہ انداز میں مذاق اڑایا ہے ۔اس طرح کے بیشمار پوسٹیں ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے آئے دن گردش میں رہتی ہیں، شروع میں ایک عام انسان' اس طرح کی پوسٹوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا لیکن جب مستقل ایسی عباراتیں نظر سے گزرتی ہیں تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایمان متزلزل ہونے لگتا ہے ۔دوسری جانب اس الحادی فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید تعلیم یافتہ طبقے نے اب توجہ دی ہے ۔ ایک گروپ " آپریشن ارتقاء فہم و دا نش " کے نام سے متحرک ہے جس کے ایک لاکھ صارفین ہیں ، اسی طرح ایک برقی صفحہ "الحاد جدید کا علمی محاکمہ" کے نام سے موجود ہے جو الحادی نظریات اور سوالات کا مدلل انداز میں جواب دیتا ہے ۔

مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات

مسلم معاشروں پر الحاد کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کو سیدجلال الدین عمری اپنے مضمون"انکارخداکے نتائج" میں لکھتے ہیں کہ" انکار خدا کا سب سے بڑا اثر یہ مرتب ہوا کہ انسان اپنے بارے میں ایک حیوان کی حیثیت سے سوچنے لگا۔حیوان صرف طبعی تقاضے رکھتا ہے اور ہر ممکن طریقے سے ان کی تکمیل کی کوشش کرتا ہےاس کے سامنے صرف وقتی لذت ہوتی ہےاور فوری خطرات کے سوا کوئی دوسرا خطرہ اسے نہیں ہوتا، اس کے پیش نظرکچھ غیر مادی یا روحانی مقا صد نہیں ہوتے"۔[26]

مسلم معاشروں میں الحاد کے اثرات کا ہم خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح ایک مسلمان کو بھی مختلف ذرائع سے "جیسے چاہو جیو" اور "کھالے ، پی لے ، جی لے " جیسے عنوانات کے ذریعے سے وقتی لذتوں کا خوگر بنا دیا گیا ہے۔مسلم معاشروں میں الحاد کے اثرات کس طرح رونما ہو رہے ہیں، اس حوالے سے مصراورعراق کی ایک رپورٹ بتاتی ہے

Recently released court statistics of Egypt saying thousands of Egyptian women sought divorce in 2015 claiming their husbands were atheists In 2011, the now-defunct Kurdish news agency AK news published a survey finding that 67 percent of Iraqis believed in God and 21 percent said God probably existed, while 7 percent said they did not believe in God and 4 percent said God probably did not exist.[27]

مصر کی عدالت کے اعداد و شمار کے حوالے سے حالیہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء میں ہزاروں مصری خواتین نے اپنے شوہر کے ملحد ہو جانے کی وجہ سے طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا ہے ۔2011ء میں کردش نیوز ایجنسی اے کے نیوز کی سروے رپورٹ کے مطابق67 فیصد عراقی خدا پر یقین رکھتے ہیں، 21 فیصد کے نزدیک خدا کی موجودگی کا امکان ہے، 7 فیصد خدا پر یقین نہیں رکھتے اور 4 فیصد کے مطابق خدا موجود ہی نہیں ہے۔

عصر حاضر میں الحاد

عصر رواں میں آزادی کے غیر محدود تصورکی وجہ سے پیدا ہونے والی آزاد سوچ ، تشکیک پسندی اور مذہب پر پچھلی صدیوں میں بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے ملحدین میں اضافہ ہوا ہے۔ الحاد کے حق میں استدلال، سائنس اور فلسفہ سے کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خدا کے وجودکے بارے میں ہمارے پاس کوئی شاہد (empirical evidence) موجود نہیں ہے، مسئلۂ شر (problem of evil)، اہل مذاہب میں خدا کا مختلف تصور وغیرہ۔آج الحاد کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کا یہ حال ہے کہ11دسمبر 2012ءکی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں الحاد کے اثرات ہر شعبے فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق میں تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسرا بڑا گروہ ملحدین افراد پر مشتمل ہے جبکہ ہندو چوتھے نمبر پر ہیں۔اس رپورٹ میں تعداد کے اعتبار سے 2 ارب 20 کروڑ کے ساتھ مسیحیت سب سے بڑا مذہب ہے۔مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے ، ملحدین کی تعداد ایک ارب 10 کروڑ ہے، جن میں سے 70 کروڑ صرف چین میں رہتے ہیں'جو چین کی آبادی کا 52.2 فیصد ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر جاپان ہے جہاں مذہب بیزار افراد کی تعداد7 کروڑ 20 لاکھ ہے۔ امریکہ میں ان افراد کی تعداد5 کروڑ 10 لاکھ بنتی ہے۔
دنیا میں مذاہب کا تناسب
[[Image:]]


اس تحقیق کا عنوان 'گلوبل ریلیجیس لینڈاسکیپ ہے، جس کے نتائج واشنگٹن میں قائم ایک فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نے جاری کیے[28]

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں الحاد کے اثرات

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں الحادی سوچ اور فکر کے حامل اساتذہ کا اسکے فروغ میں اہم کردار ہے ، اساتذہ چاہے دائیں بازو کی سوچ کے ہوں یا بائیں بازو کی 'ان کے نظریات طلبہ پر بہت تیزی اور آسانی سے اثر انداز ہوتے ہیں۔

حضرت مولانا عبد الہادی الاعظمی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:"اب الحاد ادب کے راستہ سے آرہا ہے، چنانچہ یہ ہمارا مطالعہ ہے کہ اکثر جامعات کے شعبۂ ادب، وہ انگریزی ہو یا اردو، یہ خاص طور پر عقائد میں تزلزل پیدا کرنے اور الحاد و تجدد اور آزاد خیالی کا مرکز رہے ہیں ، اور اب بھی بہت سی یونیورسٹیوں میں یہی حال ہے کہ انگلش ڈپارٹمنٹ اور خاص طور پر اس میں پڑھنے والے جو طلبہ ہیں وہ زیادہ آزاد خیال ہوتے ہیں ، اور ان کے اندر بغاوت پیدا ہوتی ہے قدیم اقدار اور دینی اقدار سے" [29]

الحادی فکر پڑھے لکھے طبقے کو زیادہ متاثر کرتی ہے اسی لیےاس کا زیادہ اثر جامعات میں نظر آتا ہے، سرکاری اور غیر سرکاری جامعات دونوں میں الحاد ی فکرتیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔

نظریہ الحاد سےمقابلے کی اہمیت

آج مسلم معاشروں کو نظریہ الحاد کا فکری چیلنج درپیش ہے ،اس چیلنج کی حقیقت کو سمجھنا ، اس فکر کا مطالعہ کرنا،اس کے حاملین کے دلائل کو سن کر ان کا مدلل جواب دینا اور اس چیلنج کو چیلنج کے طور پر سمجھ کر اس کے مقابلے کی تیاری کرنا یہ مسلم معاشروں کے لیے ضروری ہے۔ ہارون یحیٰ الحاد کے چیلنج کے مقابلےکی تدبیر بیان کرتے ہیں۔

They must know that the basic conflict of ideas in the world is between atheism and faith. It is not a struggle between East and West; in both East and West there are those who believe in God and those who do not. For this reason, faithful Christians, as well as faithful Jews are allies of Muslims. The main divergence is not between Muslims and the "People of the Book" (Jews and Christians), but between Muslims and the People of the Book on the one hand, and atheists and pagans on the other.[30]

مسلمانوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اس وقت دنیا میں بنیادی تنازعہ خدا کو ماننے والوں او ر ملحدین کے درمیان ہے، یہ جنگ مشرق و مغرب کی نہیں ہے بلکہ یہاں رہنے والے خدا پرست اور ملحدین کے درمیان ہے، اسی لیے خدا پر ایمان لانےوالے عیسائی ہوں یا یہودی یہ دونوں مسلمانوں کے ساتھی ہیں۔ اصل مسئلہ مسلمان اور اہلِ کتاب کے درمیان نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک طرف ہیں اور دوسری طرف ملحدین کا گرہ ہے ۔

صورتِ مسئلہ جاننے کے بعدالحاد سے مقابلے کے لیے اہل کتاب سے تعلقات بہتر بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اہلِ کتاب کم ازکم خدا کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں۔

 

اسلامی تناظر میں الحاد کے سدِ باب کے لیے تجاویز

پہلے الحاد کو ماننے والوں کو سوفسطائیت کا طعنہ دے کررد کردیا جاتا تھا، اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہے،اس لیے کہ الحاد کو اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا سہارا حاصل ہے۔سائنس نے زندگی کے ہرہر میدان میں کامیابی حاصل کی ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف لوگوں کا سائنس اور سائنس دانوں پر اس قدر اعتماد پیداہوچکا ہےکہ عصر حاضر میں یہ علم کا سب سے معتمد شعبہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب سائنس دانوں کی طرف سے اہل مذہب اور مذہبی کتابوں میں مسلسل غلطیاں ثابت کرنے کی وجہ سے مذہب پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لہٰذا الحاد ایک مضبوط ترین نظریے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ اس کو محض برا کہنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ اب علمی میدان میں اتر کر اس کا مقابلہ کیا جائے اور عقل و برہان کے ذریعے سے الحاد کو رد کرتے ہوئے مذہب کی افادیت کو ثابت کیا جائے۔

دعوت کے اصول

دعوت کے حوالے سے مختلف اصول بیان کیے گئےہیں جو مخاطب کی نفسیا ت سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ اخلاقی اصول بھی ہیں جن کو مد نظر رکھا جائے تو بات میں اثر ہوتا ہے ۔

﴿"اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ"﴾[31]

"اے پیغمبر آپ اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کی حکمت اور عمدہ نصائح کے ذریعہ سے دعوت دیجیے"۔

دعوتی نقط نظر سے انتہائی خوبصورت اورجامع ہدایات اس آیت میں دی گئی ہے کہ حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ مخاطب کو دعوت دینے کا اسلوب اختیار کیا جانا چاہیے۔

عقلی دلائل

عصر حاضر میں عقلی دلائل کی بہت اہمیت ہے، کسی کو بھی اپنے نظریات کے حوالے سے قائل کرنے کے لیے عقلی دلائل دینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے قرآن نے بھی جا بجا یہی اسلوب اختیا کیا ہے۔ سورۃ الغاشیہ میں فرمایا:

﴿"اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَاِلَى السَّمَا كَيْفَ رُفِعَتْ وَاِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ فَذَكِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ"﴾[32]

"تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا ؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ لہٰذا آپ تو نصیحت کردیا کیجئے بس آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں"۔

یہی وہ طریقہ استدلال ہے جو قرآن میں مستعمل ہے اور سننے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے ، اور الحاد کا شکار ہونے والے حضرات کو عقلی دلائل کے ذریعے بآسانی قائل کیا جا سکتا ہے کہ یہ پوری کائنات خدا کی موجودگی کی شہادت دیتی ہے ۔ ایک ایسا ٹریفک اشارہ جس کے چاروں جانب سے گاڑیاں آرہی ہوں اور چاروں اشارےخراب ہوں نیز کوئی ٹریفک کانسٹیبل بھی موجود نہ ہوتو ایسی صورت میں یقیناً گاڑیوں کے ٹکراؤ کا نتیجہ برآمد ہو گا اور ٹریفک رک جائے گا، جب ایک چھوٹا ساچوک بغیر کسی چلانے والے کے کام نہیں کر سکتا تو اتنی بڑی کائنات کے لیے یہ کیسے ممکن ہے۔

مخاطب کی نفسیات کا خیال

حضور ﷺ کی سنت سے یہ بھی ثابت ہےکہ مخا طب کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے جواب دیتے تھے ۔یہ احادیث اس کاواضح ثبوت ہیں:

)) عن أبي هريرة قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الأعمال أفضل؟ قال: ((إيمانٌ بالله))، قال: ثم ماذا؟ قال: ((الجهاد في سبيل الله))، قال: ثم ماذا؟ قال: ((حج مبرورٌ))۔[33]

حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ سے پوچھا گیا:افضل عمل کون سا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ پر ایمان، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ جواب دیا: اللہ کی راہ میں جہاد، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: بہترین طریقے پر کیا ہوا حج؟

وعن أبي ذر قال: قلت: يا رسول الله، أي الأعمال أفضل؟ قال: ((الإيمان بالله، والجهاد في سبيله))، قال: قلت: أي الرقاب أفضل؟ قال: ((أنفَسُها عند أهلها، وأعلاها ثمنًا))، قال: قلت: فإن لم أفعل؟ قال: ((تُعين صانعًا، أو تصنع لأخرق))، قال: قلت: يا رسول الله، أرأيت إن ضعُفت عن بعض العمل؟ قال: ((تكُفُّ شرك عن الناس؛ فإنها صدقةٌ منك على نفسك)) ۔[34]

"ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا اللہ پر ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد ، کہا : پھر میں نے پوچھا : کون سا غلام آزاد کرنا بہتر ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جو مالکوں کے نزدیک سب سے بہتر ہواور قیمت میں سب سے بڑھ کر ہو، کہا : پھر میں نے پوچھا : اگر میں یہ نہ کر سکا ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : تو کسی کام کرنے والے کی مدد کر دویا کسی کام نہ جاننے والے کا کام بنا دو ، کہا : میں نے پوچھا : یا رسول اللہ اگر میں ان میں سے کسی عمل میں کمزور رہا تو؟ آپﷺ نے فرمایا: اپنے شر کو دوسروں سے روک لو ، یہ تمہارا اپنی ذات پر صدقہ ہے"۔

)) وعن عبدالله بن مسعودٍ، قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي العمل أفضل؟ قال: ((الصلاة لوقتها))، قال: قلت: ثم أي؟ قال: ((بر الوالدين))، قال: قلت: ثم أي؟ قال: ((الجهاد في سبيل الله))، فما تركت أستزيده إلا إرعاءً عليه((۔[35]

"حضرت عبداللہ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا : کون سا عمل بہترین ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز، کہا : پھر میں نے پوچھا پھر کون سا؟ حضور ﷺ نے فرمایا والدین سے نیکی ، کہا : پھر میں نے پوچھا پھر کون سا؟ حضور ﷺ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد ، پھر میں نے یہ سوچ کر کہ بار خاطر نہ ہو مزید جاننے کے لیے سوال کرنے چھوڑ دیے"۔
یہ تینوں احادیث بظاہر متضاد ہیں، شارحین نے اس تضاد کی توجیہ مخاطب کے فرق سے کی ہے، اس لیے کہ یہ بالکل فطری بات ہے کہ مخاطب کی رعایت سے بات کہی جائے ۔ لہٰذ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حضرات جو کس نہ کسی سبب کی بنیاد پر الحاد کا شکار ہو گئے ہیں ہر ایک کو اس کی نفسیات کے مطابق ہی الحا دسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے ۔

موقعے کی مناسبت

دعوت کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ موقعے کی مناسبت اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دعوت دی جائے، نبی مہرباں ﷺ وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس کا خیال کرتے تھے کہ ان کے وعظ سے کہیں مخاطب اکتا ہٹ محسوس نہ کرے اسی لیے مخصوص وقفہ کے ساتھ وعظ فرمایا کرتے تھے ، نبی ﷺ کا یہ معمول اس دور میں تھا کہ جب صحابہ کرام ؓ جیسے عاشقِ رسولﷺ مخاطبین میں موجود تھے ۔

((عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ کَرَاهَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا))"[36]

"حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓسے روایت ہے، فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہمیں نصیحت کرنے کے لئے کچھ دن مقرر کردیئے تھے، ہمارے اکتا جانے کے خوف سے (ہر روز وعظ نہ فرماتے)" ۔

داعی اعظم کی یہ صفت بھی اپناتے ہوئے ہمیں مخاطب کوزچ کرنے کے بجائے وقت اور حالات کا خیال کرنا ہو گا ، الحاد کے پیروکاروں سے چاہے آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہو یا سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے گفتگو کی جائے ، دونوں صورتوں میں اس اصول کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

علم اور اخلاص

دعوت کے اصول میں سے ایک اصول داعی میں علم کا موجود ہونا ہے ، اس حوالے سےعلامہ عبد العزیز لکھتے ہیں کہ" نا واقفیت اور لاعلمی کی صورت میں دعوت دینے سے احترازکریں اور اس بات سے بھی قطعی گریزاں رہیں کہ آپ کوئی ایسا موضوع چھیڑبیٹھیں جس کے متعلق خود آپ کو وافر معلومات حاصل نہیں کیونکہ ناواقف بگاڑتا تو ہے سنوارتاکچھ بھی نہیں ، فساد برپا کرتا ہے ،اصلاح نہیں کرپاتا"[37]اسی طرح داعی کے اندر اخلاص ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔

نرم خوئی اور اعلیٰ ظرفی

دعوت کے بنیادی اصول میں سے ایک اصول نرم لہجہ اپنانا ہے ،اس اصول کی ہدایت خو د رب العالمین نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کواس وقت کی تھی جب فرعون کے سامنے پیغامِ حق پہنچانے کافریضہ سرانجام دینے جا رہے تھے ، قرآ ن میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

﴿فَقُوْلَا لَه قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّه يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى﴾[38]

"اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کے وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے"

ابو الاعلیٰ مودودی دعوت کے اصول میں نرم خوئی اور اعلیٰ ظرفی کو اہم صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ" داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ' ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو'متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے، اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق، عامۃ الناس کےلیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے ، اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے "۔[39]

مولانا امین احسن اصلاحی اس اصول کو یوں بیان کرتے ہیں کہ "ایک داعی کے لیے قابلِ لحاظ یہ ہے کہ اسے کسی حال میں بھی اپنے مخاطب کے اندرحمیتِ جاہلیت کے بھڑکنے کا موقع نہیں پیدا ہونے دینا چاہیے ، ہر داعی حق کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر قوم اپنے معتقدات اور روایات کے ساتھ کم و بیش اسی طرح کی وابستگی رکھتی ہے جس طرح کی وابستگی ایک داعی حق اپنے معتقدات کے ساتھ رکھتا ہے"[40]حافظ محمد شارق الحاد کے سد باب کےلیے تجاویز لکھتے ہیں کہ :

۱۔ مذہبی راہنماؤں کے منفی کردار یا مذہب کی غیر عقلی اور شدت پسندانہ تعبیر کی بنیاد پر الحاد کی راہیں اختیار کرنے والوں کو مذہب کی جانب مائل کرنے کے لیے سب سے اولین ضرورت تو یہ ہے کہ ان کے سامنے مذہب کی درست تفہیم و تشریح پیش کی جائے اسی کے ساتھ انہیں اس جانب متوجہ کیا جائے کہ چند برے لوگوں کے اعمال اور ان کی بد اخلاقی کسی مذہب یاپوری مذہبی فکر کی نمائندگی نہیں کرتی ۔

۲۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت کی وجہ سے الحاد کو قبول کرنے والے ملحدین کو یہ بات سمجھانا ضروری ہے کہ مغرب میں اہل مذہب کی ناکامیوں کی وجوہات کا مطالعہ کریں مزید یہ کہ مذہب مغرب ممالک میں حکومت و سرکاری معاملات سے نکل جانے کے باوجود بھی بڑے بڑے سائنسدانوں اور مفکرین کی ذاتی زندگیوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہا ہے۔[41]

  1. جو حضرات موروثیت کی وجہ سے الحاد کا شکار ہو جاتے ہیں ان کے آباؤ اجداد کو برا بھلا کہنے کے بجائے ان کے نظریات کا مصلحت کے ساتھ مدلل جواب دیا جائے۔
  2. عقلی و نظریاتی وجوہات کی وجہ سے ملحدین کی فہرست میں شامل ہونے والے افراد کے سامنے اسلام کے عقائد اور افکار کوعقلی بنیادوں پر پیش کیا جائے ۔

نتائج البحث

عصرحاضر میں مسلم معاشروں میں نظریہ الحاد کا فکری چیلنج کہیں ظاہری طور پرا ور کہیں باطنی طور پر موجود ہے ، اگرچہ الحاد کی مختلف اقسام ہیں لیکن اصل میں مقصد ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ خدا اور مذہبی تعلیمات کا انسان کی زندگی میں کوئی دخل نہ ہو لہٰذا اس کی موجودہ اور نرم صورت سیکولرزم ہے جو ہر ایک کے لیے قابل قبول ہے ، یہ نظریہ اس وقت دنیا میں مذاہب کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر موجود ہے اور اب اسلامی معاشرے بھی تیزی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلے پرنٹ میڈیا نے اس میدان میں اپنی کاوشیں دکھائی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ یہ نظریہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے اس لیے نہ صرف اپنے عقائد کو بچا نے کے لیے بلکہ اپنی نئی نسل تک دین کا درست فہم پہنچانےاور ان کی صحیح خطوط پر تربیت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہر میدان کو استعمال کرتے ہوئے مدلل انداز میں اس کا مقابلہ کیا جائے ۔

تجاویز و سفارشات

نظریہ الحاد مسلم معاشرو ں میں چیلنج کی صورت میں موجود ہے اس لیے اس چیلنج کو چیلنج سمجھتے ہوئے اسی کی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔عصر حاضر میں جو ذرائع الحاد کے پیروکار استعمال کر رہے ہیں انہیں وہی ذرائع استعمال کرتےہوئے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں تجاویز درج ذیل ہیں ۔

  • اہل علم حضرات کی یہ ذمہ داری ہے کہ نظریہ الحاد کا کھلے دل سے مطالعہ کریں اور پھر اسلامی تعلیمات کے تناظر میں اس کا مدلل جواب دیا جائے۔اپنے کلاس لیکچرز میں یا دروس میں خدا کی موجودگی اور توحید کا پیغام دیں اور ہر موضوع کو توحید سے جوڑا جائے۔نظریہ ارتقا کا درست تجزیہ کر کے اس کے جوابات کے ساتھ عوام الناس کو آگاہ کیا جائے۔ردعمل (Reactive) سوچ کے بجائے عمل(Proactive) کی سوچ کو تقویت دی جائے ۔
  • اخبار ا ت، رسائل ،جرائد وغیرہ میں بھی تحقیقی انداز میں الحادی نظر یا ت کی تر دید ضروری ہے ، خاص طور پر صائب الفکراور سائنسی نظریات سے واقفیت رکھنے والے اہل علم اس موضو ع پر اپنے قلم اٹھائیں۔ الحادی فکر کو فروغ دینے والے پیجز کے مقابلے کے لیے توحید کے علمبرداروں کے پیچز بنائے جائیں جس میں نہ صرف اپنا پیغام پہنچایا جائے بلکہ اس کے ذریعے سے الحاد کے پیچز کے جوابات بھی دیے جائیں۔سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بنائی جائیں جس میں مدلل انداز میں توحید کا ثبوت ہو۔
  • حکومتِ وقت کو چاہیے کہ درسی کتب کی نصاب سازی کے وقت ماہرینِ تعلیم سے نا صرف ماہرانہ رائے لے بلکہ نظریہ ارتقا کوپڑھاتے ہوئے اس پر ناقدانہ مضامین کو نصاب کا حصہ بنائے۔اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ کے دوران بھی الحاد ی نظریات کے خلاف ان کی ذہن سازی کی جائے۔
  • اقوام متحدہ کو اس با ت پر آ ما دہ کیا جا ئے کہ وہ ”انسا نی حقو ق کے عالم گیر اعلامیہ “ (UDHR) سے ایسی دفعات کو ختم کرے جو الحا د کے فر و غ میں معا و ن ہوں یا کم از کم ا س میں ایسی تبدیلی کرے جو مذہبی عقائد کا احترام رکھے مثلاً مذہبی اظہار رائے کی آزا دی کی واضح حدو دو قیو د متعین کی جائیں ۔

حوالہ جات

  1. فیروز الدین ، فیروز اللغات (لاہور: فیروز سنز ، 2010ء )، 114 ۔
  2. کرم شاہ الازہری، تفسیرضیاء القرآن (لاہور: ضیاء القرآن پبلیکیشنز ، 1965ء) ، 335۔
  3. Webster Comprehensive Dictionary (Chicago: Ferguson Publishing Company, 2000), 91.
  4. Julian Baggini, Atheism: A Very Short Introduction (New York: Oxford University Press, 2003),3.
  5. القرآن 45:24
  6. القرآن 2:258
  7. القرآن 79:24
  8. القرآن 41:40
  9. محمد احمد ، تعارف تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید ( فیصل آباد : العارفی پبلشرز، 2014ء ) ، 293۔
  10. Harun Yahya, The Fall of Atheism (Istanbul: Good Word Books, 2003), 26.
  11. محمد رفعت، "اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات کا تنقیدی جائزہ"، تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، 37:4 (2018)، 32.
  12. Gustave E. Von Grunebaum, Medieval Islam: A Study in Cultural Orientation (New York: Chicago University Press, 1946), 143.
  13. سید جلال الدین عمری، " انکارِ خدا کے نتائج "، تحقیقاتِ اسلامی، علی گڑھ، 3:2 (1984ء)، 5.
  14. محمد قطب ، اسلام اورجدید مادی افکار ( لاہور : اسلامک پبلیکیشنزلمیٹڈ ،1987ء )، 45۔
  15. حافظ محمد شارق ، الحاد اور جدید ذہن کے سوالات، الحاد ایک تعارف (لاہور :کتاب محل ،2017ء )، 87۔
  16. Mubashir Ali Zaidi, "Islam," Facebook, July 15, 2019, https://www.facebook.com/answer.to.atheists/posts/2205075242856797/
  17. مبشر نذیر ،الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات (کراچی: جامعہ کراچی دار التحقیق برائے علم و دانش، 2014ء )،9۔
  18. Murray Thomas, God in the Classroom: Religion and America’s Public Schools (Landon: Praeger Westport, 2007), 10.
  19. محمد عبد القیوم، " سیکولرزم وما بعد سیکولرزم "، الاضواء، لاہور، 30:44 (2015ء)، 296.
  20. Richard Dawkins, The God Delusion (London: Bantam Press, 2006), 14.
  21. محمد فیصل شہزاد ،انٹرنیٹ کے ذریعے اسلامی دنیا میں الحاد کی یلغار؛ http://forum.mohaddis.com/threads/, accessed on June 12, 2019.
  22. Fucking love athism; https://web.facebook.com/WeLoveAtheism/?_rdc=1&_rdr,j=June 13,2019
  23. Mubashir Ali Zaidi, "God," Facebook, July 15, 2019, https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10155702244062172&id=652667171
  24. S. Amjad Hussain, "Google," Facebook, July 19, 2019, https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1298461983598029&set=pcb.1967954939888685&type=3&theater&ifg=1
  25. Saqi Jaan, "Meraaj," Facebook, June 12, 2019, https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1320749104702650&set=pcb.2004732696210909&type=3&theater&ifg=
  26. سیدجلال الدین عمری، انکارخداکے نتائج ، 7۔
  27. Gilgamesh Nabeel, Report, The Washington Times, Tuesday, August 1, 2017, https://www.washingtontimes.com/news/2017/aug/1/atheists-in-muslim-world-growing-silent-minority/, accessed on June 11, 2019.
  28. = The Global Religious Landscape: A Report on the Size and Distribution of the World’s Major Religious Groups, Global Religious Futures Project, (Washington, D.C.: Pew Research Center, December 11, 2012) 9. =
  29. عبد الہادی الاعظمی، طالبان علوم نبوت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں(کراچی: دار الاشاعت، 2007ء)، 2:19۔
  30. Yahya, The Fall of Atheism, 12.
  31. القرآن 16:125
  32. القرآن 88:17
  33. محمد بن اسماعیل بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب من قال إن الإيمان هو العمل (بنگلور: جمعیت اہل حدیث، 2014ء)، حدیث 26، 89۔
  34. بخاری، الجامع الصحیح ، كتاب العتق، باب أي الرقاب أفضل، حدیث 2518، 168۔
  35. ابخاری، الجامع الصحیح ، کتاب المواقيت،باب فضل الصلاة لوقتها، حدیث 504، 75۔
  36. ابخاری، الجامع الصحیح ، کتاب العلم،باب من جعل لأهل العلم أياما معلومة ، حدیث 71، 117۔
  37. عبد العزیز بن عبداللہ ابن باز، دعوت الی اللہ اور داعی کے اوصاف، مترجم۔ شیخ ابو عدنان، (بنگلور: توحید پبلیکیشنز، 2003ء)، 53۔
  38. القرآن 20:44
  39. ابو الاعلی مودودی، اسلوب دعوت قرآن و سیرت کی روشنی میں(لاہور: منشورات ،1973ء)، 18 ۔
  40. اصلاحی، امین احسن ، دعوت دین اوراس کا طریقہ کار، فاران فاؤنڈیشن :لاہور ، اکتوبر 2010 ء،ص 124 ۔
  41. شارق، الحاد اور جدید ذہن کے سوالات، 171۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...