Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 2 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

غیر مسلموں کے حقوق  اور انسانی جان کی حرمت : عہدِ نبویﷺ و خلفائے راشدین کی روشنی میں |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اسلام امن و سلامتی کا دین ہےاور تمام انسانوں کی عزت و توقیر کا داعی ہے۔معاشرے میں سب سے اہم اور قیمتی شے انسان کی ذات ہے کیونکہ اس کی فلاح اور مفاد کے لئے ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دے کرنہ صرف خلیفۃ فی الارض کا منصب مرحمت کیا بلکہ اسے عزت و شرف سےبھی نوازااور اسے بہترین صورت عطاکی۔اللہ تعالیٰ قران مجید میں فرماتے ہیں:

"لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ"۔[1]

"یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔"

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین خلقت پر پیدا فرمایا ہےاور اس کی جبلت ، فطرت اور جسمانی شکل و صورت کو دوسری مخلوقات کی بانسبت حسین بنایا ہے۔اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم بھی عطاکیا ہے جو اِسے دوسری مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔ارشادباری تعا لیٰ ہے:

"لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا"[2]

"یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔"

انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور،حسن صورت اورمعتدل مزاجی جیسی خصوصیات سے نوازا ہے۔ یہ ایسی خصوصیات ہیں جو دوسرے جانداروں میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جو جاندارو بےجان پیدا کیے ہیں ،اُن سے انسان اپنا فائدہ حاصل کر رہا ہے جو اس کی فضیلت پر دال ہے۔اسلام نےانسان کویہ بزرگی اور فوقیت عطا کرنے کے ساتھ اس کی جان کی حرمت بھی قائم کر د ی اور ایک انسان کےقتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا۔انسانی جان کی عزت و حرمت پر اسلامی تعلیمات میں اس قدر زور دیا گیا کہ اسلام نے جن لوگوں کا قتل حرام قرار دیاہے،ان میں تمام انسان شامل ہیں۔اسلام نے انتہائی مؤثر تعلیمات کے ذریعے عملاً انسان کے تمدنی حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہےاوراس سلسلہ میں اس نے مسلم، غیر مسلم، ملکی اور غیر ملکی کو برابری کی سطح پر رکھا ہے۔

اسلای تعلیمات کی رو سے ہر انسانی جان کی حرمت لازم ہے ۔مسلمانوں کوواضح حکم دیا گیا ہے کہ کسی قوم، گروہ یا ملک کی دشمنی میں بھی مسلمانوں کو عدل ترک کرنے اور ظلم اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہےبلکہ اسلام نے اُن غیرمسلموں سے اچھا سلوک کرنےکی ہدایت کی ہے ،جو مسلمانوں سے عداوات نہیں رکھتے۔

سابقہ تحقیقات کا جائزہ

اسلامی تاریخ میں انسانی جان کی حرمت ایک اہم موضوع رہا ہے۔قرآن مجید ، تفاسیر،کتب آحادیث،شروح آحادیث اور فقہ کی کتابوں میں اس موضوع پربحث کی گئی ہے۔حضورﷺاور آپؐ کے بعد کے اَدوار میں فتوحات کے بعد غیر مسلموں کے حقوق کو بڑی اہمیت دی گئی۔اس سلسلے میں حجۃالوداع، بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں پہلا حق انسانی جان کی حرمت کاہے۔ مختلف مفکرین نے بنیادی انسانی حقوق کاذکر کیا ہے ۔محمدالغزالی [3]نے ان حقوق کی تعدادبارہ (۱۲)بیان کی ہے۔[4] مولانا ابو اعلیٰ مودوی نے بنیادی انسانی حقوق کی تعداداکیس(۲۱) [5]اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری نےان کی تعداد ستائیس(۲۷) بیان کی ہے۔[6] جبکہ آفاق اسلامی ڈیکلریشن میں ان حقوق کی تعداد تئیس(۲۳) بیان ہوئی ہے۔ یہ ڈیکلریشن ۱۹ ستمبر ۱۹۸۱ء کو پیرس سے جاری کیا گیا۔[7]اس طرح اقوام متحدہ کا حقوق انسانی کا ڈیکلریشن(The Universal Declaration of Human Rights)۱۰ دسمبر، ۱۹۴۸ء کو اقوام عالم کے جنرل اسمبلی سے منظور ہوا۔اس اعلانیہ میں انسانی حقوق سے متعلق تیس(۳۰) دفعات شامل ہیں ۔[8]

عصر حاضر میں اسلام میں انسانی حقوق کے بارے میں متفرق کتب شائع ہو چکی ہیں۔ان میں صلاح الدین شہید کی تصنیف"بنیادی حقوق"اورڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب "خون مسلم کی حرمت" قابل ذکر ہیں۔ ان تصانیف میں حقوق و فرائض کے علاوہ انسان کے بنیادی حق انسانی جان کی حرمت کے بارے میں بھی مواد شامل ہے۔اس طرح ابو اعلیٰ مودودی کی ،"اسلامی ریاست میں اہل ذمہ کے حقوق"اورعلامہ طاہر القادری کی،"اسلام میں اقلیتوں کے حقوق" میں اقلیتوں کےحقوق کی مختلف جہات کا احاطہ کیا گیاہے۔تحقیقی مقالاجات میں بھی غیرمسلموں کے حقوق کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔مثلاً"اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق"،ازعبدالراؤف ظفر ومیمونہ تبسم میں بتا یا گیا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کوجو حقوق حاصل ہوتے ہیں ان میں جان ،مال اور عزت کی حفاظت، معاشی حقوق کاتحفظ،شخصی معاملات اورمذہبی آزادی قابل ذکر ہیں۔محمدمنشاء اور ڈاکٹر محمد غوری کےتحریر کردہ مقالے "اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا حقِ عبادت،ایک جائزہ"[9]، میں ان کے حق ِ عبادت کا فقہی احکامات کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہےکہ اسلامی ریاست میں وہ اپنے مذہب کے مطابق اپنے فرائض عبودیت سر انجام دے سکتے ہیں ۔ Rights of non-Muslims in the perspective of Islamic Shariaاز ڈاکٹر عبدالرحیم[10] میں بھی اقلیتوں کے حقوق کاذکر موجود ہے۔ مذکورہ کاوشوںمیں غیرمسلموں کے حقوق اورانسانی جان کی حرمت کے سلسلے میں عہدِ نبویﷺاور خلفائے راشدین کے حوالے سےذکر موجود نہیں ہے،لہذااس آرٹیکل میں ان اَدوار میں غیر مسلموں کے حقوق کا جائزہ لیا گیا ہےاوراَمثال پیش کر کےیہ بتایاگیا ہے کہ اسلام نے ان حقوق کی بہترین اندازمیں پاسداری کی ہے۔

منہجِ تحقیق

اس تحقیقی مقالہ کی تیاری، نتائج و سفارشات کے حصول کے لئےبیانیہ اور تجزیاتی طریقہ کاراختیار کیاگیا ہے ۔اصل مواد بنیادی مآخذ سے حاصل کیاگیاہے،جن میں قرآن مجید،کتب آحادیث،شروح حدیث اور تاریخ اسلام و فقہ پر مستند کُتب قابل ذکر ہیں ۔ اسلامی ویب سائٹس پر موجود کُتب اوراس موضوع پر لکھے گئے سابقہ مقالاجات سے بھی معلومات اخذ کی گئی ہیں۔ نتائج و سفارشات کے سلسلے میں دیگر مذاہب خصوصاً بدھ مت اور عیسائیوں سے بھی رابطہ کیا گیا اور ان کی آراء کوبھی مدنظر رکھا گیا ہےکہ اسلام کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟اس تحقیق کے نتائج وسفارشات پر عمل کرنے سےامیدواثق ہے کہ ملک میں امن و امان کو فروغ ملے گا ۔

انسانی جان کی حرمت :اسلامی تعلیمات

اسلام میں انسانی جان کی حرمت کی بڑی اہمیت ہے۔کسی شخص کی جان ،مال یاعزت پرحملے کو اسلام نےبہت ہی بڑا جرم قرار دیا ہےاوربحیثیت انسان کسی کو بھی نا حق تکلیف دینا جائز نہیں۔موافقات شاطبی میں ایک اصول مذکورہے:

"مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین، والنفس، والنسل، والمال، والعقل"[11]

"بنیادی ضروریات پانچ ہیں:مذہب،جان،نسل اور مال اور عقل کی حفاظت"

اسی طرح محمدالغزالی فرماتےہیں:

"ان مقصود الشرع من الخلق خمسۃ:ان یحفظ علیھم دینھم ونفسھم و عقلھم و نسلھم و مالھم"[12]

اس اصول کے تحت اسلام تمام انسانیت کو دین ومذہب، جان ومال اور نسل وعقل کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔

قرآنی تعلیمات اور انسانی جان کی حرمت

قرآن مجید کی متعدد آیات میں انسانی جان کے احترام کے بارے میں نہایت دلنشین انداز میں تعلیم دی گئی ہے۔اس بارے میں فرمان الہی ہے :

"مَنْ قَتَلَ نَفْسًابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۔"[13]

"جس نے ایک جان کوکسی جان کے(بدلے کے)بغیر،یا زمیں میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے زندگی بخشی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔"

اس آیت میں مطلقاً نفس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کسی خاص نفس کو مختص نہیں کرتا۔لہذااس سے یہ مطلب نہیں لیا جا سکتاہےکہ اپنی قوم، یا اپنے ملک کے شہری، یا کسی خاص نسل، رنگ یا وطن، یا مذہب کے آدمی کو قتل نہ کیا جائےبلکہ قرآن مجید کایہ حکم تمام انسانوں کے بارے میں ہے ۔اس حکم میں بجائے خود ہر انسانی جان کو ہلاک کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔اسلام میں اللہ کے ساتھ شرک کے بعد کسی کا ناحق قتل سنگین ترین جرم ہے۔ چنانچہ کسی کو قتل کرنا دنیا و آخرت میں دائمی جہنمی بننے کا سبب ہےاور کسی مومن کا قتل تو بہت ہی بڑاجرم ہے۔قرآن مجیدمیں ارشادہوتا ہے:

"وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا"[14]

"اور جوکسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزاجہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہنے والا ہو اور اللّٰہ اس پر غصے ہو گیااور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔"

ایک مومن کا قتل ، دنیا کےختم ہونے سے بھی بڑاجرم ہے اور مومن کے قاتل کے لئےمعافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اوراس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔الغرض انسانی جان کی حرمت پر قرآن مجید جتنی تاکید کرتا ہوانظر آتا ہے،اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد ہی انسانی شرف اور عظمت کی بحالی ہے۔

نبویﷺ تعلیمات اور انسانی جان کی حرمت

احادیث نبویؐ میں انسانی جان کی حرمت کی بڑی تاکیدآئی ہے۔آپؐ نے فرمایا:

"لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ" [15]

"تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔ "

بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا کہ:

"‏أكبر الكبائر الإشراك بالله وقتل النفس وعقوق الوالدين ‏وقول الزور ‏أو قال‏‏وشهادة الزور‏" [16]

‏"سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، کسی کی ناحق جان لینا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا ہیں یا فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینا۔"

اسلام میں انسانی جان کی حرمت مقدم ہے اور قاتل کے لئےدنیاوی سزا کے علاوہ اُخروی سزا کی وعید بھی بیان ہوئی ہے۔کسی کا قتل کرنا بڑے بڑے گناہوں میں سے ہے اور اس میں معافی کی گنجائش نہیں ہے ۔فرمان نبوی ؐہے:

"أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ الصَّلَاةُ وَأَوَّلُ مَا يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَائِ" [17]

" سب سے پہلے بندےسے،نماز کا (قیامت کے دن) حساب ہوگا اور سب سے پہلے لوگوں کے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔"

یعنی نماز کے بعد جس چیز کا حساب ہو گا وہ ناحق خون کا ہو گا۔

خاتم النبین حضرت محمدﷺ نے دنیا کو انسانی جان کے احترام کا تصور دیا۔آپ ﷺ نےتمام انسانوں کو آدم و حوا کی اولاد قرار دے کران کے درمیان امتیازکوختم کیا اور تمام لوگوںکوامن اور انسانیت کی تعلیم دی۔ انسانی جان کی حرمت کی یہ تعلیم حقیقت میں اللہ تعالیٰ اور حضرت محمدﷺکے وہ مبارک ارشادات ہیں جن کی تعمیل ، تلقین اور نفاذہر مسلمان پر فرض ہے ۔عصر حاضر میں انسانی جان کو جو حرمت اور وقار حاصل ہے وہ سب آپﷺ کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔

اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق

اسلام میں انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے کچھ حقوق ہیں اور اس میں تمام مسلم اور غیر مسلم شامل ہیں ۔ذیل میں غیر مسلموں کے چند اہم اور بنیادی حقوق بیان کئے جاتےہیں۔

حقِ زندگی

اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے :

"مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ۔"[18]

" جس نے کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ کے مار ڈالا تو اللہ تعالی اس پر جنت کو حرام کر دے گا۔"

اس فرمان میں معاہدسے مراد ایسےغیر مسلم شہری ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا ہو۔اس تعریف کی رو سے عصرحاضر میں مسلم ممالک میں رہنے والے شہری جو ملکی قوانین کی پاسداری کرتے ہوں، وہ بھی اسی زمرے میں ائیں گے۔

غیر مسلم سفیروں کے قتل کی ممانعت

اسلام نےسفیروںکوقتل کرنےسےبھی روکاہے،خواہ وہ کتنا ہی گستاخانہ پیغام لائیں۔اسلامی تعلیمات کے مطابق سفیروں کا قتل حرام ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کا سفیر عبادہ بن الحارث جب حضور ﷺکےپاس حاضر ہوا تو آپ ؐ نے اس سے فرمایا:

" لولا أنک رسول لضربت عنقک۔" [19]

"اگر تم قاصد نہ ہوتے تو میں تیری گردن مار دیتا۔"

ایک دوسر ی روایت میں نعیم بن مسعود ؓ کہتے ہیں۔

"سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَآ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ ‏"‏ مَا تَقُولاَنِ أَنْتُمَا ‏"‏ قَالاَ نَقُولُ كَمَا قَالَ ‏.‏ قَالَ ‏"‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلاَ أَنَّ الرُّسُلَ لاَ تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا ‏"‏[20]

"میں نے رسول اللہ ﷺکو، جس وقت آپؐ نے مسیلمہ کا خط پڑھا، اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا :" تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟" ان دونوں نے کہا : " ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے" ،( یعنی اس کو ایساہی سمجھتے ہیں )آپؐ نے فرمایا:" اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔"گویا بارگاہ رسالت میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر کے باوجود اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی ۔

عقیدے کی آزادی کا حق

اسلام غیرمسلموں پراپنا عقیدہ مسلط کرنےکی قطعاًاجازت نہیں دیتا ہے۔بلادِ اسلام میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے۔اس بارے میں قرآن کریم نے واضح انداز میں اعلان کیا ہےکہ:

"لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قف قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔"[21]

"دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔"

ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے:

"لا تکرهوا أحدا علی الدخول فی دين الإسلام، فإنه بيّن واضح جلیّ دلائله وبراهينه، لا يحتاج إلی أن يکره أحد علی الدخول فيه."[22]

"تم کسی کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ یہ دین واضح اور نمایاں دلائل اور براہین والا ہے اور یہ اس چیز کا محتاج نہیں کہ کسی کو مجبوراً اس میں داخل کیا جائے۔"

اسلام میں مذہب کی تبدیلی میں زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں۔بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کی تعلیم اس سے متعارض ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جہاد زبردستی کسی کو قبول ایمان پر مجبور کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف دفع فساد کے لئے ہے ۔لہذا اسلام نے جبراً مذہب کی تبدیل کی مخالفت کی ہےکیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔

حقِ حفاظت

پرامن اور سکون کی زندگی گزارنے کے لئےہر قسم کی زیادتی کے خلاف تحفظ کا حاصل ہونابھی غیر مسلموں کا حق ہے۔ نبی اکرمﷺ نے حج کےدوران جو خطبہ دیا اُس میں تمام انسانیت کی حفاظت کا ذکر فرمایا۔آپﷺنے اس موقع پرایک واضح پیغام دیا کہ:

"إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هذَا،فِی شَهْرِکُمْ هٰذَا،فِی بَلَدِکُمْ هٰذَا،إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَلَا،هَلْ بَلَّغْتُ؟قَالُوْا:نَعَمْ. قَالَ:اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ،فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ، فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ" [23]

"بےشک تمہارےخون اور تمہارےمال اور تمہاری عزتیں تم پراِسی طرح حرام ہیں جیسےتمہارےاِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینےمیں اورتمہارےاِس شہرمیں(مقرر کی گئی) ہے،اُس دن تک جب تم اپنے رب سےملوگے۔سنو!کیامیں نےتم تک(اپنے رب کا)پیغام پہنچادیا؟لوگ عرض گزارہوئے:جی ہاں۔آپؐ نےفرمایا:"اے اللہ!گواہ رہنا۔"اب چاہیےکہ(تم میں سےہر)موجودشخص اِسے غائب تک پہنچادےکیونکہ کتنےہی لوگ ایسےہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تووہ سننےوالےسےزیادہ یادرکھتےہیں اورسنومیرےبعدایک دوسرےکوقتل کرکےکافرنہ ہوجانا۔"

الفاظ کایہ عموم واضح کرتاہےکہ اس میں مسلم اورغیرمسلم دونوں شامل ہیں۔یعنی دنیا کے تمام انسان قابل احترام ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، قبیلے یا خاندان سے ہو۔

مال کی حفاظت کا حق

اسلام میں ناجائز طریقےسے کسی کا مال لیناحرام ہے۔غیر مسلموں کے اموال کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔قرآن مجید میں ارشادپاک ہے:

"وَلَا تَاکُلُوا اَمْوٰلَکُم بَینَکُم بِالْبٰطِلِ وَتُدْلُوابِہاۤ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاکُلُوا فَرِیقًا مِّنْ اَمْوٰلِ النَّاسِ بِالاِثْمِ وَاَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ "[24]

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر"

اسلامی ریاست میں اگر کوئی مسلم ،غیر مسلم شہری سے چوری کرے تو اس پربھی اسلامی حد لاگوہو گا۔جب قریش کی ایک خاتون فاطمہ بنت اسود چوری کی مرتکب ہوئی تو قریش نے اس کو سزا سے بچانے کی کوشش کی اور اُسامہ بن زیدؓکے ذریعے سفارش کرائی، توآپؐ نے فرمایا :

"وَاللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ ابْنَةَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا‏"‏‏‏‏‏ [25]

"اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں ۔"

اسلام میں نہ صرف غیرمسلموں کے جانوں کی حرمت کی تعلیم دی گئی ہے بلکہ اُن کے مالوں کو بھی ناجائز طریقے سےکھانےاور استعمال کرنے سے منع کیاگیا ہے۔

ظلم و زیادتی سے تحفظ کا حق

غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کرنا اسلامی ریاست کا فرض ہے۔ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تلقین کے بارے میں حضور سرورِ کائناتؐ کا ارشادہے:

"أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوْ انْتَقَصَهُ أَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"[26]

" جو شخص کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کرے گا یا اس کے حق میں کمی کرے گا یا اسکو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف دے گا یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لے گا تو قیامت کے دن میں اسکی طرف سے حجت کروں گا۔"

حضورﷺ کےان ارشادات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلامی ریاست غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھے اور اس میں سُستی نہ کرے۔

غیر مسلموں کے حقوق،عہدِنبویﷺاور خلفائےراشدین کے دور کی روشنی میں

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک، انسانوں کی خدمت اور انسانی جان کی حرمت پر بہت زور دیاگیاہے۔نبی اکرمﷺاورخلفائےراشدین ؓکےاَدوارایسےواقعات سےبھری پڑی ہیں،جن میں دوسرےمذاہب کےماننےوالوں،حتیٰ کہ دشمنوں سےبھی رواداری کاسلوک کیاگیا۔قرآن تو یہاں تک کہتاہےکہ جوغیرمسلم اہلِ ایمان کے ساتھ عداوت نہیں رکھتا اور وہ اُن پر ظلم کرنےوالوںمیں شامل نہیں ہے،اُس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائےاور عام انسانی حقوق کی ادائیگی کے معاملےمیں مسلمان اورغیرمسلم میں فرق نہ کیاجائے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں فر ماتے ہیں:

"لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔"[27]

"اللہ تمھیں اِس بات سےنہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کےساتھ نیکی اورانصاف کابرتاؤ کروجنہوں نےدین کےمعاملےمیں تم سےجنگ نہیں کی ہےاورتمہیں تمہارے گھروں سےنہیں نکالاہے۔اللہ انصاف کرنےوالوںکوپسندکرتاہے۔"

لہذاایسے لوگ مسلمانوں کےحسنِ سلوک کےمستحق ہیں۔ان کے ساتھ عدل و انصاف اور احسان کامعاملہ کیا جائے۔اگر پھربھی کوئی ان کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو یہ اسلام کے تعلیمات کے بالکل منافی ہے۔

عہدِنبویﷺمیں غیر مسلموں کے حقو ق کا تحفظ

عہد نبویﷺاسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔آپﷺنے انسان کے تمدنی حقوق کا بہتر انداز میں تحفظ کیااوربلاتفریق تمام لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا۔آپﷺ کا فرمان ہے:

" مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا" [28]

"جس شخص نے ذمی افراد میں سے کسی کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، اور اسکی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔"

ایک دوسری حدیث میں ستر سال کی مسافت کا ذکر ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے:

"أَلَا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهِدًا لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللَّهِ فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا۔"[29]

"خبردار!جس نےکسی معاہدکوقتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا جبکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے۔"

ان آحادیث مبارکہ سےیہ ِ بات واضح ہے کہ غیرمسلم کو تکلیف پہنچانا، اس کی عزت ومال پر حملہ کرنااوراس کی جان کے درپے ہونا کسی طرح بھی جائز نہیں اور غیر مسلم کو قتل کرنے والے شخص پرجنت حرام ہے۔

اسلامی تعلیمات کی رو سےجو لوگ لڑائی كے اہل نہيں ہیں مثلاً عورتيں ، بچے ، راہب ،نابينا اور بيمارو غیرہ ،اُنہيں قتل نہيں كيا جائےگا، اِلا يہ كہ وہ اپنےقول يا پھر فعل سے قتال كرے۔ كيونكہ جنگ اور قتال اُن لوگوں كے ساتھ ہے جومسلمانوں کے ساتھ اس وقت جنگ كرے جب وہ اللہ تعالى كے دين كو ظاہر كرنا چاہيں۔

عہد رسالت میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ بھر پور انداز میں کیا گیا ۔آپﷺ کے دَور میں کسی غزوہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی ،تو آپ ﷺنے لڑائی کے دوران غیرمسلم بچوں اور عورتوں کےقتل کی سختی سے ممانعت کی۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں:

" وُجِدَتِ امْرَاَةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَهَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ

النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ۔"[30]

"رسول اللہؐ نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا۔اِس پر آپؐ نے (سختی سے) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی۔"

لہذا غیر مسلموں سے جنگ کی صورت میں بھی ان کے عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر وہ کسی طرح سےبھی اپنے لشکر کی مدد کر رہے ہو ں تو ان کا قتل کرنا بھی جائز ہے۔غیر مسلموں کے بارے میں رسول اللہؐ کا یہ طرزعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں دورانِ جنگ بھی غیر محارب لوگوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا جائز نہیں۔

آپ ﷺنے انسانی جان کی حرمت اور غیر مسلموں کے حقوق کے سلسلے میں جو اقدامات کیے ان سے آپﷺ کا امن کے بارے میں عزم ، پیغام اور انسانی جان کی حرمت کا جوتصور واضح ہوتا ہےاس کی مثال ملنی مشکل ہے۔

عہدِ صدیقی ؓمیں غیرمسلموں کے حقوق کا تحفظ

عہد رسالتﷺ میں چونکہ غیر مسلموں کے حقوق متعین ہو چکے تھے اس لئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دَورمیں بھی غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں ہی کی طرح حقوق اور تحفظ حاصل تھا۔

آپؓ کے دور میں جب اسلامی لشکر روانہ ہوتا تو آپ ؓسپہ سالار کو حسب ذیل احکام اور ہدایات ارشاد فرماتے:

" وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَلَا تَعْصَوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ وَلَا تَغْرِقُنَّ نَخْـلًا وَلَا تُحْرِقُنَّهَا، وَلَا تَعْقِرُوْا بَهِيْمَةً وَلَا شَجَرَةً تُثْمِرُ، وَلَا تَهْدِمُوْا بِيْعَةً، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا الشُّيُوْخَ وَلَا النِّسَاءَ. وَسَتَجِدُوْنَ أَقْوَامًا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ فِی الصَّوَامِعِ، فَدَعُوْهُمْ، وَمَا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ لَهُ."[31]

"خبردار! زمیں میں فساد نہ مچانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا. کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھل دار درختوں کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا. تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھر وں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا."

اِن اَحکامات میں جہاں غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے کی ممانعت موجود ہیں وہاں عورتوں اوربوڑھوں اوربچوں کے قتل کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے۔گویا مسلمانوں کو آپؓ کی طرف سے واضح ہدایات تھیں کہ جنگ کی صورت میں بھی غیرمسلموں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔

آپؓ کے دور میں غیر مسلموں کے ساتھ معاہدات میں اُن کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔حضرت خالد بن ولید ؓ ،جب آپؓ کے حکم پر دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگانِ عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ:

" علی ان لا یہدم لہم بیعۃ ولاکنیسۃ وعلی ان یفربوا نواقیسہم فی ای ساعۃ شاء وا من لیل او نہار الا فی اوقات الصلوٰۃ وعلی ان یخرجوا الصلبان فی ایام عیدھم واشترط علیہم ان یضیفوا المسلمین ثلاثۃ ایام ویبذرقومہم"

"ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔وہ ہماری نماز پنجگانہ کے سوا ہر وقت اپنا ناقوس بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں۔مسلمان مسافر کی تین دن ضیافت کریں اوروقت پڑنے پر مسلمانوں کی جان و مال کی نگہداشت کریں."[32]

آپؓ نے یزید بن ابی سفیان ؓکو شام بھیجتے ہوئے جو احکامات صادر فرمائے، ان میں آپ ؓنے یہ بھی حکم فرمایا تھا :

"وَلَا تَهْدِمُوْا بِيْعَةً.وَلَا تَقْتُلُوْا شَيْخًا کَبِيْرًا، وَلَا صَبِيًّا وَلَا صَغِيْرًا وَلَا امْرَأَةً."[33]

’’اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرنا۔۔۔ اور نہ بوڑھوں کو قتل کرنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹوں کو اور نہ ہی عورتوں کو (قتل کرنا)۔‘‘

حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی مراعات سے نوازا گیا ۔آپؓ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے جن علاقوں کو فتح کیا ،وہاں کے غیر مسلم باشندوں سے معاہدے کیے۔ ان معاہدا ت میں وضاحت سے یہ درج ہے کہ جزیہ کے معاملہ میں ان کے مال وجان کی حفاظت ہوتی رہے گی اور جب ان کی حفاظت نہ ہوسکے گی تو ان سے جزیہ نہ لیا جائے گا۔الغرض آپ ؓ کے دور میں مفتوحہ علاقوں کی غیرمسلم آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا۔

عہدِفاروقیؓ میں غیرمسلموں کے حقوق کا تحفظ

حضرت عمر فاروقؓ کا دورحکومت ایک مثالی دورتھا۔ ملک کی ترقی،خوشحالی،امن وامان کی بحالی اورداخلی سلامتی کے سلسلےمیں آپؓ کا دَورایک امتیازی شان رکھتاہے۔آپؓ کے دور میں زیرقبضہ علاقوں کے غیر مسلم شہریوں کو تمام حقوق حاصل تھےاوراسلامی ریاست میں وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتے تھے۔مشہور مستشرق منٹگمری واٹ اس بارے میں کہتے ہیں:

“The Christians were probably better off as dhimmis under Muslim Arab rulers than they had been under the Byzantine Greeks.”[34]

"عیسائی، عرب مسلم حکمرانوں کے دورِ اقتدار میں بطور غیر مسلم شہری اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے سے زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے۔"

علامہ شبلی نعمانی ؒ ،فاروق اعظم ؓکے دَور کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں:

"آپ ؓکےدورمیں ہرکوئی اپنےآپ کومحفوظ ومامون اورترقی پسندمحسوس کرتاتھااورمسلمانوں کےعلاوہ غیرمسلموں کےساتھ بھی مکمل رواداری ملحوظ رکھی جاتی تھی۔جب بیت المقدس فتح ہواتوخودحضرت عمرؓکی موجودگی میں وہاں کےلوگوں سےمعاہدہ ہوااورانہیں جزیہ کےبدلےمیں،جان ومال کی ضمانت دی گئی بلکہ یہاں تک رعایت دی گئی کہ اگر ایلیاءوالوںمیں سے جوشخص اپنی جان ومال لے کریونانیوں کے ساتھ منتقل ہوناچاہےتوان کواوران کےگرجاؤں اورصلیبوں کو امن ہےیہاں تک کہ وہ اپنی

جائےپناہ تک پہنچ جائے۔"[35]

اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردیتا تو خلفائے راشدین اس سے قصاص لیتے تھے۔ علامہ شبلیؒ لکھتےہیں کہ:

"آپ ؓکےدورحکومت میں قبیلہ بکرکےایک شخص نےحیرہ کےایک عیسائی کومارڈالا۔حضرت عمرؓ نےلکھ بھیجاکہ قاتل کومقتول کےوارثوں کےحوالےکیاجائےچنانچہ وہ شخص مقتول کےوارث کوجس کانام حنین تھاحوالےکیاگیا اور اس نےاس کوقتل کرڈالا۔ " [36]

یہ صرف اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ اس کی نظرمیں تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں اور حقوق کے سلسلے میں کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ عہد فاروقی میں حکومت کے ذمہ دار افراد کو تاکید کی جاتی تھی کہ غیر مسلموں کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا جائے۔آپ ؓنے نہ صرف غیر مسلم شہریوں سے حسن سلوک کا حکم دیا بلکہ اپنے حکام کو ان پر ٹیکس عائد کرنے اور اس کی وصولی میں رعایت کے احکامات بھی جاری فرمائے۔آپؓ نے اپنے دور حکومت میں معذور، بوڑھے اور غریب غیر مسلم شہریوں کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر کیےتھے اور ان کا جزیہ بھی معاف کر دیا تھا۔ غیر مسلموں سے جزیہ کی شکل میں جو ٹیکس لیا جاتا تھا اس کی حیثیت صرف ذمہ داری اور حفاظت کے لیے ٹیکس تھا۔ اور اس ٹیکس کی وصولی میں انتہائی احتیاط کی جاتی اور اس بات کا بڑا اہتمام کیا جاتا کہ ٹیکس کی کوئی رقم جبراً اور ظلم سے وصول نہ کی جائے۔ چنانچہ آپ ؓکے دور میں ان کے حقوق کی صحیح معنوں میں پاسداری کی گئی اورغیر مسلموں کے ساتھ جو معاہدات ہوئے ، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا۔

عہدِ عثمانی ؓمیں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ

حضرت عثمان ؓ کا دور حکومت امن و امان کی بحالی، مختلف قوموں کے ساتھ رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و خوش حالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ غیر مسلموں سے متعلق آپؓ کا طرز عمل بڑا مشفقانہ تھا۔آپ ؓ نے ان کے بارےمیں یہ حکم جاری کیا تھا کہ:

"إنّی اوصيک بهم خيراً فإنهم قومٌ لَهُمُ الذمة"[37]

"میں تمہیں ان غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں۔یہ وہ قوم ہے جنہیں جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی تحفظ کی مکمل امان دی جاچکی ہے۔"

غیرمسلموں کے بارے میں یہ ،آپؓ کا سرکاری فرمان تھا۔ اس سےآپؓ کے دور میں ان کے حقوق کی تحفظ کا اندازہ ہوتا ہے۔[38]اس سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کےجان کی حرمت برابر ہے۔

حضرت علیؓ کے دَور میں غیرمسلموں کے حقوق کا تحفظ

حضرت علیؓ کے دور میں بھی غیرمسلموں کو تمام بنیادی حقوق حاصل تھے۔ آپ ؓ کے دورمیں ایک مسلمان کولایاگیاجس پرایک ذمی کےقتل کاالزام تھا۔ثبوت مکمل ہونےکےبعدآپ ؓنے قصاص میں اسےقتل کرنےکاحکم دےدیا۔مقتول کےبھائی نےآکرعرض کیاکہ میں نےخون معاف کیا۔مگرآپ مطمئن نہ ہوئےاورفرمایا:شایداُنہوں نےتمہیں ڈرایادھمکایاہے؟اس نے کہا:نہیں،ایسی بات نہیں ہے،مجھےخون بہامل چکاہےاورمیں سمجھتا ہوں،اسکےقتل سےمیرابھائی واپس نہیں آجائےگا۔تب آپ نےقاتل کو رہا کردیا اور فرمایا:

"إنما بذلوا الجزیة لتکون دمائهم کدمائنا وأموالھم کأموالنا" [39]

"اُنہوں نےجزیہ اس لئےخرچ کیاہےکہ ان کےمال ہمارےمال کی طرح اوران کےخون ہمارےخون کی طرح ہوجائیں۔

مصنف عبد الرزاق میں روایت ہے کہ حضرت علی ؓفرمایا کرتے تھے:

"لَا يُذَفَّفُ عَلَی جَرِيْحٍ، وَلَا يُقْتَلُ اَسِيْرٌ، وَلَا يُتْبَعُ مُدْبِرٌ۔"[40]

"زخمی کو فوراً قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے۔"

گویا ذمی کا قاتل اگر مسلمان بھی ہو تو اسےقصاص میں قتل کیا جائے گا۔اسی طرح زخمی اورقیدی کے قتل کی ممانعت ہےاور اگر کوئی بھاگ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرے ، تو اس کا بھی پیچھا نہیں کیا جائے گا۔اسلام نے مسلم و غیر مسلم کا خون بہا مساوی رکھا ہے۔ حضرت علی ؓنے فرماتے ہیں:

"إِذَا قَتَلَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ قُتِلَ بِهِ"."[41]

"اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو وہ مسلمان (اُس کے قصاص میں) قتل کیا جائے گا۔"

مندرجہ بالا حالات و واقعات سے یہ با ت ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اورخلفائے راشدین ؓ کے اَدوار میں انھوں نے ریاست کے تمام افراد کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی ۔ انہوں نے حسن اخلاق اور اپنے ہمہ گیر نظام امن سے دنیا کو سلامتی کا پیغام دیا۔الغرض سلطنت اسلامیہ میں اس عہد میں کوئی ایک فرد بھی اپنے حقوق سے محروم نہ تھا۔

نتائج

اسلام انسانیت کادین ہےاورانسانی جان کی حرمت اس کی اولین ترجیح رہی ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اسلام بغیر رنگ و نسل اور مذہب کے،تمام انسانوں کےحرمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح اسلام نےغیر مسلموں کو وہ حقوق دیےہیں جو کسی بھی مذہب نے نہیں دیے ہیں۔حضورﷺ اور خلفائے راشدین ؓکے اَدوار میں انسانی جان کی حرمت اور غیرمسلموں سے معاہدات، دستاویزات اور اعلانات سے اُن کے حقوق کے بارے میں مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

  1. ریاست انہیں انتظامی اُمور کے عہدے ،جس قدر وہ اہلیت و استحقاق رکھیں ،تفویض کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ انتظامی امور میں مشورہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
  2. مکالمہ کسی بھی معاشرے میں باہمی ہم آہنگی کے لئے ضروری ہے لہذا اقلیتوں کے ساتھ ایک قابل عمل مکالمے کی ضرورت ہے۔
  3. اقلیتوں کے معاشی، سماجی اور ثقافتی امتیاز کا سدباب کیا جانا ضروری ہے کیونکہ اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
  4. غیر مسلموں کے حقوق اور مواقع کے حوالے سے موجود تمام تر مذہبی امتیاز کا مکمل خاتمہ جمہوریت اورمذہبی یگانگت پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیے ضروری ہے۔
  5. اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے ذمے جو فرائض ہیں انہیں پوراکرنا بھی ضروری ہے۔
  6. سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ایسا نصاب لاگوکرنے کی ضرورت ہے جس سے مذہبی اور سماجی ہم آہنگی قائم ہو۔

سفارشات

اسلام میں انسانی جان کی حرمت اورغیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ایک اہم موضوع رہاہے اور اس کے بارے میں اسلامی ہدایات بالکل واضح ہیں ۔ذیل میں انسانی جان کی حرمت اورغیرمسلموں کے حقوق کے سلسلے میں مندرجہ ذیل سفارشات پیش خدمت ہیں۔

  1. ملازمتوں میں اقلیتوں کا جو کوٹہ مختص ہے حکومت کو چاہئے کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
  2. ملک میں پر امن امدا باہمی کے فضا کو قائم کرنے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ اقلیتوں اور علمائے کرام کے درمیان ایک قابل عمل مکالمے کا آغازکرےتاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہو۔
  3. اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق دلوانے میں حکومت کو ٹھوس بنیادوں پر کام کرنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اقلیتوں کے ان حقوق پر عمل درآمد کو یقینی بنائے جو اسلام اور آئین پاکستان میں انہیں حاصل ہیں۔اس کے علاوہ عوام میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی مہم چلانی چاہیے۔
  4. سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پراقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈے کے روک تھام کے لئے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔
  5. غیر مسلموں کوان امور سےبچنا چاہئے،جن میں شعائر اسلام، رسول اللہ ؐ کی ذات یا قرآن حکیم کی توہین کا پہلو نکلتا ہو اور حکومت کوایسے مواد پر پابندی لگانی چاہئے جس سے مسلمانوںمیں اقلیتوں کے خلاف اشتعال پیداہونے کا اندیشہ ہو۔
  6. حکومت کی پالیسی اور پروگرام اقلیتوں کے بارےمنصفانہ اورمناسب ہونے چاہئے ۔اس سلسلے میں حکومت کو قانون سازی کرنی چاہئے۔
  7. پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کو غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور ان کی ترقی کے لئےمثبت کردار ادا کرناچاہئے۔
  8. حکومت کو چاہئےکہ تمام ذرائع ابلاغ کو اقلیتوں کے خلاف منافرت کے رجحان سے پاک کرے اور انہیں ذرائع ابلاغ میں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔
  9. ملک کےبیشتر یونیورسٹیوں کے نصاب میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق مواد موجود ہے ۔ البتہ جن یونیورسٹیوں یا سکول و کالج کی سطح پراس بارے میں ابھی تک کام نہیں ہوا ہے وہاں کے نصاب میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق مواد کو شامل کیا جانا چاہئے۔

Bibliography

Abī Shībah,Abdūllah bin Muhammad bin Ibrāhīm,,Mussanaf,abī Abī Shībah,Al Farūq Al -Hadīth Latab'a wa al -Nashr,1428 AH/2008

Abū Dāʼūd, Sulaīmān bin al-Ash‘ath, Sunan Abū Dāʼūd, Beirut: Dār Alfīkar, 1994.

Abū Yūsaf, Ya’qūb. Ibrāhīm, Kitāb-al-Kharāj, Cairo: Al Matb’tal Salfīyah wa Makrtabata, 1382A.H.

Al-Bayhaqī, Abū Bakar Ahmad bin Hūssaīn, Al-Sunan al-Kabīr, Al Makkah al Mukarma, Maktaba Dār Al-Bāz, 1414AH.

Al-Bukhārī, Muhammad bin. Ismāʻīl, Sahīh Al Bukhārī, Riyādh: Darussalām.2000.

Al-Ghazalī, Muhammad, Haqūq ul Insān bain al taleem alIslām wa Ailān Alamūm al Mutahida, Cairo: Dār Nahdhta, 1987.

Al-Hindī, ʻAlʼad-Dīn Ali bin Hasām-ud-Din, al-Mūttaqī, Kanzūl Aamāl fi Sunan al Aqwāl wa Alafāl, Beirut: Moassata Alsalāta, 1405 AH / 1985.

Al-Marzūquī, Ibrāhīm, Abdullah ,Human rights in Islamic Law, Collingdale, USA, Diane Publishing Co, 2000.

Al-Qādrī, Muhammad Tāhīr, Al-Haqūq alInsanīyat fīl Islam, Lahore: Minhāj-ul-Qurān publications, 2004.

Al-Sanāni ،Abū Bakar Abdul Razzāq bin Hammām, Al Mussanaf, Beirut: Al Maktabah Islamī, 2012.

Al-Shāfī, Abū Abdullah Muhammad bin Idris, Imam, Al’aam, Dār Al-Wafā, Latba’a wa al-Nashar wa al-Tuzīh, Cairo, 1422 AH / 2001.

Al-Shātibī, Ibrāhīm bin Musā Al-Mawafqāt, Makkah: Dār Ibn ʻAffān, 1417 AH.

https://iri.aiou.edu.pk/indexing/wp-content/uploads/2016/07/08-Right-of-non-muslims.pdf ،accessed on 31 July, 2020.

Ibn al-Āthīr, Ali bin Muhammad, Asad al-Ghāba fi ma’arfa al Shaba, Beirut: Dār Ibn Hazm, nd.

Ibn Hajar al-Asqalānī, Ahmad bin Ali bin Muhammad bin Ali, Fath al-Barī Sharh Sahīih al-Bukhaārī, Beirut: Dār al-Ma'rīfah, 1998.

Ibn Hajar al-Asqalānī, Ahmad bin Ali bin Muhammad bin Ali, Al-Darāyata fī Takhrīj Ahādith al Hīdayata, Beirut: Dār al-Ma'rīfah, nd.

Ibn Khathīr, abu al Fidā’ Ismāʻīl bin ʻUmar, Tafsīr al Qur’ān alʻ Azim, Beirut: Dār al-Elmīā, 1419 A.H.

Al-Nāsaī, Ahmad bin Shua’yb, Al-Sunan, Beirut: Dārul Kūtub Al Elmīā, 1995.

Ibn Mājah, Muhammad bin Yazīd, al-Qazvīnī, Al-Sunan, Kitāb al-Tajjārat, nd.

Ibn Saʻad, Muhammad, Tabaqāt Al-Kūbrā, Translator: Allama Abdullah Al-Aamadī, Karachi: Nafees Acadamy, 1389A.H.

Maudūdī, Syed Abu’l ʻAla, Islamī Riāsat , Lahore: Islamic publications, 2000.

Maudūdī, Syed Abu’l ʻAla, Islamī Hukūmat main Ahl Dmmāh kay Haqūq ,( Lahore: Tarjūmān ul Qur’ān, 1994

Muslim bin Hajjāj, al-Qushayrī, Sahīh Al-Muslim, Kitāb Albir wa Salah wal Ādāb, Karachi: Maktaba Al Būshra, 2011.

No’māni ،Shīiblī, Allama, Al-Farūq, Karachi: Dār- al Ashaʻat, 1991.

Shaībanī ،Abū Abdullah Muhammad ibn Hasan ibn Farqad,Imām, Al Hujata ʻalā ah’laal Madina, ālam al-Kitāb Beirut, nd

Tābārī, Muhammad bin Jarīr ibn Yāzīd, Tarākh al-Tābāri Tarīkh al-Rasal wa al-Mulūk, Dār al-Mā'arif, 1387 AH / 1967.

Tayyib, M. M & Ghaurī, I.R, Islamī Rīyasat main Ghair Muslemū ka Haq e Ebādat, Al-Qalam, vol: 17: issue: 1, June, 2012.https://iri.aiou.edu.pk/indexing/wp-content/uploads/2016/06/14-islami-riyasat.pdf, accessed on 2 May, 2020.

Tibrānī, Sulaīmān bin Muhammad, Al-Mu'jam al-Awsāt, Madina Al -Munawara: Maktaba Al-Dār, 1995.

Tirmīdhī, Muhammad bin Musā, Jami’at-Tirmidhī, Egypt: Shīrkat Maktaba wa Matba’tu Mūstafā al Bābi al Halibī, 1395A.H.

Watt, Montgomery W, Islamic Political Thought: The Basic Concepts, Edinburg University press, London, 1968.https://www.un.org/en/universal-declaration-human-rights/ accessed on 22 June, 2020.

www.iri.aiou.edu.pk

www.islamweb.net

www.noor-book.com

www.sunnah.com

Zafar, A.R, T, Maimuna, Islami Rīyasat main Ghair Muslemū kay Haqūq, Al-Adwa, vol: 28, Issue: 40, 2013 https://iri.aiou.edu.pk/indexing/?cat=4254&paged=2, accessed on 31 July, 2020.

حوالہ جات

  1. القرآن4:95 Al-Quran 95:4
  2. القرآن 70:17 Al-Quran 17:70
  3. محمد الغزالی حقوق الإنسان بين تعاليم الإسلام وإعلان الأمم المتحدة اور 80 دیگر کتب کے مصنف ہیں محمد الغزالی (ستمبر 22 ، 1917ء - 9 مارچ 1996 ء) ایک مصری اسلامی اسکالر اور مفکر ہے جسے جدید عہد میں اسلامی فکر کے حامیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے مذہب میں اسے "ابو الیلا میڈی کہا جاتا ہے اسلامی دنیا میں حکمران حکومتوں پر الغزالی کی تنقید ، اس کے لئے بہت ساری پریشانیوں کا باعث بنا. Muhammad Al-Ghazalī is the author of, Haqūq ul Insān bain al taleem alIslām wa Ailān Alamūm al Mutahida and 80 other books. Muhammad al-Ghazali (September 22, 1917 - March 9, 1996) is an Egyptian Islamic scholar and thinker, considered one of the proponents of Islamic thought in modern times, he is called "Abu Alila Madī." Al-Ghazali's criticism of the ruling governments in the Islamic world has caused him a lot of trouble. https://www.noor-book.com, accessed on 3 August 2020.
  4. محمد الغزالی، حقوق الإنسان بين تعاليم الإسلام وإعلان الأمم المتحدة،(قاہرہ:دار نهضة ،1987ء)،210-211۔ Muhammad Al-Ghazalī, Haqūq ul Insān bain al taleem alIslām wa Ailān Alamūm al Mutahida,(Cairo: Dār Nahdhta, 1987), 210-11
  5. ابو اعلیٰ مودودی،اسلامی ریاست(لاہور:اسلامک پبلیکیشنز:2000ء)،592۔ Abu’l ʻAla ,Maudūdī, Islamī Riāsat ,( Lahore: Islamic publications, 2000), 592
  6. محمدطاہر القادری،الحقوق الانسانیت فی السلام (لاہور:منھاج القرآن پبلیکیشنز،2004ء)،153-236۔ Muhammad Tāhīr, Al-Qādrī, , Al-Haqūq alInsanīyat fīl Islam,(Lahore: Minhāj-ul-Qurān publications, 2004),153-236
  7. Ibrahim Abdullah Almarzoqui, Human rights in Islamic Law (Collingdale: Diane Publishing Co 2000), 551.
  8. https://www.un.org/en/universal-declaration-human-rights/ accessed on 20 March 2020.
  9. محمد منشاءطیب،احسان الرحمان غوری،" اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا حق، عبادت،ایک جائزہ،"القلم شمارہ۔17، نمبر۔1،(2012) M. M. Tayyib & I.R .Ghaurī, Islamī Rīyasat main Ghair Muslemū ka Haq e Ebādat, Al-Qalam, 17,no.1, (2012).https://iri.aiou.edu.pk/indexing/wp-content/uploads/2016/06/14-islami-riyasat.pdf, accessed on 2 May, 2020.
  10. .https://iri.aiou.edu.pk/indexing/wp-content/uploads/2016/07/08-Right-of-non-muslims.pdf, accessed on 2 May 2020.
  11. ابراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الشاطبي ، الموافقات,(مکہ مکرمہ:دارابن عفان للنشروالتوزیع،1997ء)،31:1۔ Ibrāhīm bin Musā bin Muhammad ,Al-Shātibī, Al-Mawafqāt, (Makkah: Dār Ibn ʻAffān, 1417 AH),1:31
  12. محمد الغزالی، حقوق الإنسان بين تعاليم الإسلام وإعلان الأمم المتحدة، (قاہرہ:دار نهضة ،1987ء)،174۔ Muhammad Al-Ghazalī, Haqūq ul Insān bain al taleem alIslām wa Ailān Alamūm al Mutahida, (Cairo: Dār Nahdhta, 1987), 174
  13. القرآن 32:05 Al-Quran 32:5
  14. القرآن 4: 93 Al-Quran 4:93
  15. محمد بن اسماعیل البخاری، الجامع الصحيح،کتاب الفتن، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (الریاض:دارلسلام،2000ء)،حدیث:7077،92:9؛سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی طبرانی ، المعجم الأوسط (مدینہ منورہ: مکتبہ الدار،1994ء)،حدیث: 4166،269:4۔ Muhammad bin. Ismāʻīl, Al-Bukhārī, Sahīh Al Bukhārī, Kitāb alfatin, Bāb Qawal al Nabī (SAW) ‏"‏ la tarjaʻū baʻdī kufāra, yadrībo bʻdokum rīqab baʻd, (Riyādh: Darussalām.2000), 9:92; Tibrānī, Sulaīmān bin Muhammad, Al-Mu'jam al-Awsāt, (Madina Al -Munawara: Maktaba Al-Dār, 194), 4:269.
  16. احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی ا بن حجر عسقلانی،فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الأدب، باب عقوق الوالدين من الكبائر (بیروت:دارالمعرفۃ،1419ھ/1998ء)،10:42۔ Ahmad bin Ali bin Muhammad bin Ali, Ibn Hajar al-Asqalānī, Fath al-Barī Sharh Sahīih al-Bukhaārī, kitāb al'ādāb, bab ʻqūq alwalīdayn mīn alkābay’r, (Beirut: Dār al-Ma'rīfah, 1998), 42:10
  17. احمد بن شعیب بن علی النسائی، السنن،کتاب تحريم الدم،باب تعظيم الدم (بیروت:دار الکتب العلمیہ، 1995ء)،حدیث:3997،37:5۔ Ahmad bin Shua’yb, Al-Nāsaī, Kitāb Tahrīm aldam,Bbab taʻzīm aldam Al-Sunan, (Beirut: Dārul Kūtub Al Elmīā, 1995), 5:37
  18. ایضا۔،کتاب القسامة، باب تعظيم قتل المعاهد،حدیث:4747، 24:8؛ابو داؤد، السنن، کتاب الجهاد، باب في الوفاء للمعاهد وحرمة ذمته(بیروت:دارالفکر1414ھ/1994ء)،حدیث:2740، 83:3۔ Ibid,kitāb alqasāmata, bab taʻzīm qatal almaʻhid,8:24 ; Sulaīmān bin al-Ash‘ath, Abū Dāʼūd,, Sunan Abū Dāʼūd, kitāb aljīhād, bab fī alwafā' lilmaʻhid wahurmata dhimah,(Beirut: Dār Alfīkar, 1994),3:83
  19. ابوداؤد،السنن،کتاب الجہاد باب مَا جَاءَ فِي الْهِجْرَةِ وَسُكْنَىالْبَدْوِ، باب فِي الرُّسُلِ ،حدیث: 2762،848:15۔ Abū Dāʼūd al-Sunan, kitāb aljīhād, bab alhījrata wasuknayalbadwī ,bab fī alrūsul,15:848,
  20. ایضاً،حدیث:2761، 848:15۔ Ibid, 2761, 15:848
  21. القرآن 2 :256 Al-Quran 2:256
  22. ابولفداء اسماعیل بن عمر ابن کثير، تفسير القرآن العظيم (بیروت:دارالکتب العلمیہ،1419ھ) ،1: 310۔ Abu al Fidā’ Ismāʻīl bin ʻUmar Ibn Khathīr, Tafsīr al Qur’ān alʻ Azim, (Beirut: Dār al Kutub al-Elmīā, 1419 A.H), 1:310
  23. بخاری،الجامع الصحيح،کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی،حدیث: 1739،2: 25؛مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحيح ، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال،( کراچی: مکتبہ البشریٰ،2011ء)، حدیث: 1679،28:9۔ Al-Bukhārī, Sahīh Al Bukhārī, kitāb alhajj, bab alkhutbah 'ayam minā, 2:25; Muslim bin Hajjāj, al-Qushayrī, Sahīh Al-Muslim, kitāb alqasāmata walmūharibīn walqasās waldīyāt, bab taghlīz tahrīm aldim' wal'aeraḍ wal'amwāl,(Karachi: Maktaba Al Būshra, 2011), 9
  24. القرآن 188:2 Al-Quran 2:188
  25. بخاری، الجامع الصحيح،كتاب أحاديث الأنبياء،بَابُ خَلْقِ آدَمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَذُرِّيَّتِهِ،حدیث:3475، 55:4۔ Al-Bukhārī, Sahīh Al Bukhārī, kitāb 'ahadith alanbya',bab khalq Ā dam salawāt Allah ʻalayh wadhuriyatihī,4:55
  26. ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير،حدیث:3052، 170:3۔ Abū Dāʼūd al-Sunan, Kitāb-al-Kharāj, bab fī taʻshīr, 3:170
  27. القرآن 8:60 Al-Quran 60:8
  28. بخاري، الصحيح، كتاب الجزية والموادعة، باب إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ،حدیث:3166، 5 : 58؛ محمد بن یزید قزوینی،ابن ماجہ،السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا (بیروت:دارالفکر،س۔ ن)،حدیث:2686، 896:2۔ Al-Bukhārī, Sahīh Al Bukhārī, kitāb aljizyata walmuādaʻata, bab 'iithm man qatal muʻahada bayghīyr jūrmin;5:58; Muhammad bin Yazīd, al-Qazvīnī, Ibn Mājah, Al-Sunan, kitāb aldīyāt, bab mīn qatal muʻahīd ,(Beirut: Dār Alfīkar, nd),2:896
  29. محمد بن موسیٰ ،الترمذی،الجامع الترمذی، كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَقْتُلُ نَفْسًا مُعَاهِدَةً (مصر : مکتبہ مصطفیٰ االبابیی الحلبیی،1395ھ)،حدیث:1403، 16:11۔ Muhammad bin Isā, Tirmīdhī, Jami’at-Tirmidhī, Kitāb aldīyāt, bab ʻan Rasūl Allah (SAW),bab ma ja' fīman yaqtul nafsan muʻahīdatan,(Egypt: Shīrkat Maktaba wa Matba’tu Mūstafā al Bābi al Halibī, 1395A.H), 11:16
  30. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قتل النساء في الحرب،حدیث:2852،3: 1098؛مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب،حدیث:،1744،3: 1364 ۔ Al-Bukhārī, Sahīh Al Bukhārī, kitāb aljīhād walsīyr, bab qatal alnīsā' fī alharb, 3:2825; Muslim bin Hajjāj, al-Qushayrī, Sahīh Al-Muslim, kitāb aljīhād walsīyr, bab tahrīm qatal alnīsā' walsibyān fī alharb, 3:1364
  31. ابو بکر احمد بن حسین بیہقی،السنن الکبری (مکہ مکرمہ: مکتبہ دارالباز، 1994ء)،حدیث:17904 ،85:9۔ Abū Bakar Ahmad bin Hūssaīn Al-Bayhaqī Al-Sunan al-Kabīr, (Al Makkah al Mukarma, Maktaba Dār Al-Bāz, 1414AH), 9:85
  32. امام ابو یوسف یعقوب بن ابراھیم،کتاب الخراج (دارالمعرفہ :بیروت،1979ء)،158۔ Imam Abū Yūsaf, Ya’qūb. Ibrāhīm, Kitāb-al-Kharāj, (Cairo: Al Matb’tal Salfīyah wa Makrtabata, 1382A.H), 158
  33. علاء الدين علی المتقی بن حسام الدين الهندی ،كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال (بیروت:مؤسسۃ السالۃ، 1985ء)، حدیث: 11411،475:4۔ Alʼad-Dīn Ali al-Mūttaqī bin Hasām-ud-Din, Al-Hindī, Kanzūl Aamāl fi Sunan al Aqwāl wa Alafāl, (Beirut: Moassata Alsalāta, 1405 AH / 1985), 4:475
  34. Montgomery. W Watt, Islamic Political Thought: The Basic Concepts (London: Edinburg University Press, 1968(, 51.
  35. شبلی نعمانی ، الفاروق (کراچی :دارالاشاعت،1991ء)، 2 :138۔ Shīiblī No’māni, Allama, Al-Farūq, (Karachi: Dār- al Ashaʻat, 1991), 2:138
  36. بیہقی ،السنن الکبریٰ، 32:8؛شبلی، الفاروق، 138؛ابو الاعلیٰ مودودی،اسلامی حکومت میں اہل ذمہ کے حقوق (لاہور:ادارہ ترجمان القرآن،1994ء):18۔ Al-Bayhaqī, Al-Sunan al-Kabīr, 8:32; Shīiblī, Al-Farūq, 138 ;Abu’l ʻAla ,Maudūdī, Islamī Hukūmat main Ahl Dmmāh kay Haqūq ,( Lahore: Tarjūmān ul Qur’ān, 1994),18
  37. ابو يوسف، کتاب الخراج ، 80؛ محمدابن سعد، الطبقات الکبریٰ،مترجم۔ عبد اللہ العمادی (کراچی: نفیس اکیڈمی،1389ھ) 1: 360۔ Abū Yūsaf,,Kitāb-al-Kharāj,80 ; Ibn Saʻad, Muhammad, Tabaqāt Al-Kūbrā, Translator: Allama Abdullah Al-Aamadī,( Karachi: Nafees Acadamy, 1389A.H),1:360
  38. حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں عبیداللہ بن عمر ؓ کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھاکیونکہ انہوں نے ہر مزان، جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمر ؓ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5: 17۔ In the time of Uthman (R.A), a fatwa was issued for the assassination of Obaidullah bin Umar(R.A) Because he had killed Harmazān, Jafīina and Abu Lūlū 's daughter on the suspicion that they may have been involved in the conspiracy to assassinate Hazrat Umar(R.A),Ibn Saʻad, Tabaqāt Al-Kūbrā, 5:17
  39. احمد بن علی بن محمدبن علی ابن حجر عسقلانی ،الدرایۃ في تخریج آحادیث الھدایۃ (بیروت:دار المعرفۃ،ت ن)،263:2 ؛ بیہقی،السنن الکبری،34:8۔ Ahmad bin Ali bin Muhammad bin Ali, Ibn Hajar al-Asqalānī, Al-Darāyata fī Takhrīj Ahādith al Hīdayata, (Beirut: Dār al-Ma'rīfah, nd), 2:263; Al-Bayhaqī, Al-Sunan al-Kabīr, 8:34
  40. ابو بکر عبد الرزاق بن همام الصنعانی ، "المصنف"(بیروت:المکتب الاسلامی،2012ء)،حدیث:18590، 10: 123 Abū Bakar Abdul Razzāq bin Hammām, Al-Sanāni , Al Mussanaf, (Beirut: Al Maktabah Islamī, 2012),10:123
  41. ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی ،الام (قاہرہ:دار الوفا للطبع و النشر و التوزيغ،2001ء)، 7 : 320؛ ابوعبداللہ محمد ابن حسن بن فرقدشیبانی ، الحجتہ (بیروت: عالم الکتب ، س۔ ن)، 4 : 349۔ Abū Abdullah Muhammad bin Idris, Al-Shāfī ،Imam, Al’aam, (Cairo: Dār Al-Wafā, Latba’a wa al-Nashar wa al-Tuzīh,, 1422 AH / 2001),7:320 ; Abū Abdullah Muhammad ibn Hasan ibn Farqad, Shaībanī ,Imām, Al Hujata ʻalā ah’laal, (Madina, ālam al-Kitāb Beirut, nd),4:249
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...