Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 2 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

قیام امن کے لئےخواجہ عبید اللہ ملتانی کے صوفیانہ اسلوب تبلیغ کی عصری معنویت: تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060035210_1054

Pages

116-126

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/36/22

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/36

Subjects

Peace Mystical Pattern of Preaching Analytical Study Obāidullah Multānī Peace Mystical Pattern of Preaching Analytical Study Obāidullah Multānī

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ملکی تہذیب وتمدن کوعروج اور ترقی سے ہمکنار کرنے کےلیے قومی سطح پرتحمل وبرداشت اور رواداری جیسی اقدار کو پروان چڑھاکر قیامِ امن کی راہیں ہموار کرنا ضروری ہے ۔ بد امنی نے انسان کو عالم اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے، تمام تر ترقی کے باوجود انسان کو کہیں قلبی سکون میسّر نہیں،امیری اور غریبی کے امتیاز نے انسانیت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہےہر فرد امن وسکو ن کا متلاشی ہے اور کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہوگا جو امن کا آرزومند نہ ہو ۔امن کے حصول کے لیے کس اسلوب کواختیار کیا جائے؟جس کی معنی خیزی و اثر پذیری پر تاریخی شواہد پائے جاتے ہوں۔اس مضمون میں صوفیہ کے اسلوب کی معنویت اور عصری افادیت کے حوالے سےمفتی خواجہ عبیداللہ ملتانی کے منہج ِ تبلیغ کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔

قیام امن کے سلسلہ میں صوفیہ کی مساعی

ہردورمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر قیام امن کے لئے کوششیں ہوتی رہی ہیں اوراس کےلئے خاص طور پرصوفیہ نے اپنا کردارادا کیا اور عوام الناس کو ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کو تحفظ فراہم کرنے کی عملی راہ دکھائی اور اس پر گام زن کیا ،یہ احساس پیدا کیا کہ صبر وتحمل ،برداشت اور رواداری جیسے حسین اقدارکے راستے پر چلیں تاکہ قوم ایک مثالی حیثیت سےاپنا وجود قائم کرنے اور منوانے میں کام یاب ہو سکے ۔صوفیہ کی زندگی کو خدمتِ خلق اور امن و سلامتی کی شاہ راہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔اہل تصوف نے کہیں غریبوں ،مسکینوں کو نفیس دسترخوانوں پر بٹھایا ،کہیں مال داروں کو روکھی سوکھی اور لنگر عام سے روشناس کروایا ،کہیں رنگ و وطن کے بتوں کو پاش پاش کیا ،کہیں نفس و شیطان کے ساتھ جنگ کو جہادِ اکبر قرار دیا ،یوں شہنشاہوں کے درباروں سے لیکر فقراء تک ان کے فیضانِ نظر اور تعلیماتِ تصوف نے رنگ جمالیا۔

امن کا مفہوم

امن، طمانیت وسکون اور بے خوف ہونے کا نام ہے۔ ’’أصل الأمن: طمأنینۃ النفس وزوال الخوف ،والأمن والأمانۃوالأمان فی الأصل مصادر،ویجعل الأمان تارۃاسما للحالۃ التی یکون علیھا الإنسان فی الأمن وتارۃ اسمالما یؤمن عندالإنسان۔ ‘‘[1] یعنی امن کےحقیقی معنی نفس کےمطمئن ہونے اورخوف زائل ہو جانے کے ہیں۔امن ،اما نۃ اورامان اصل میں مصدر ہیں اور لفظ امان کو بسااوقات امن کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اورکبھی اس شے کو کہا جاتا ہےجو کسی کے پاس بطور ر امانت رکھی جائے۔ابن منظور افریقی (م711ھ)لکھتے ہیں :’’الأمن نقیض الخوف۔‘‘[2] یعنی امن خوف کی ضد ہے۔

انگریزی میں امن کے لئے Peace کا لفظ استعمال ہوا ہے، Peace کے معنی امن وچین ،صلح او رراحت وآرام کے ہیں۔[3]جہاں تک تصوف اور صوفی کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ الفاظ دوسری صدی ہجری میں مستعمل ہونا شروع ہوئے۔اولین فرد جن کےلیے لفظِ صوفی بولا گیا،وہ بغداد کے ایک اہل حق عالم درویش الشیخ ابوالہاشم( المتوفی150ھ) تھے اور ابراہیم بن ادھم (المتوفی161ھ ) جیسے صوفی عالم ان کے ہم عصر تھے۔[4]اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کےلیے ہر وقت کمربستہ رہنے والے درویش کو صوفی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔[5]تصوف صفات حسنہ سے متصف ہونے اور اوصاف مذمومہ کو ترک کرنے کا نام ہے ۔اہل علم کے ایک طبقہ کی رائے کے مطابق یہ لفظ "صفہ"سے مشتق ہے کیونکہ صوفی ان تمام اوصاف میں اصحاب صفہ کے تابع ہوتا ہے جن کا بیان درج ذیل قرآنی آیت میں ملتا ہے:"وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہ"[6] یعنی "اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔" "اصحاب صفہ ،صوفیاء کرام کی پہلی جماعت ہے جن کی خالص زاہدانہ زندگی کو مابعد صوفیہ نے اپنے لئے نمونہ عمل بنایا۔"[7]

خواجہ عبید اللہ ملتانی ، شخصیت وکردار

آپ کا نام عبید اللہ ہے ، لقب "مظہر کلمات حق " معروف ہے ۔ سن ولادت 1219 ھ مطابق 1804 ء مرقوم ہے۔[8] عبید اللہ ملتانی کے آباء واجداد کا ذکر جہاں تک ملتا ہے سب علماء ، صلحاء اور مقتدائے زمانہ گزرےہیں ۔"مولانا کا خاندان شروع سے ہی علم وفضل کا گہوارہ چلا آیا ہے ۔آپ کے اجداد میں ایک بزرگ مولاناداؤد نے تصوف میں ایک رسالہ" شیروشکر" تصنیف فرمایا تھا جو آسان فارسی میں مطبوعہ ہے "۔[9]"خواجہ عبیداللہ صاحب کے دادا مولانا محمد داؤد صاحب جو خودعالم شخص تھے اور شیروشکر(تصوف) اورکئی دیگر کتابوں کے مصنف تھے "۔[10]مفتی خواجہ عبیداللہ ملتانی کی علمی و دینی خدمات کو بنظر غائر دیکھا جائے تو آپ نےخدمت دین کے تین اہم شعبے تدریس،تبلیغ اور تصنیف نہ صرف سنبھالے بلکہ ان میں گراں قدرخدمات اور ان مٹ نقوش چھوڑے۔آپ کی ذات میں بیک وقت مایہ نازمدرس،عظیم مبلغ اور موثرمصنف کی اعلیٰ خوبیاں موجود تھیں جن سے آپ نے مکمل استفادہ کرتے ہوئے تدریس،تبلیغ اور تصنیف کےمیدانوںمیں جوہر دکھائے۔ذکر کردہ تینوں امور میں آپ کا جاری کردہ طریقہ کار اور نظم و نسق، سو سال سے زیادہ زمانہ بیت جانے کے باوجود آج بھی قائم ہے۔

’’ آپ بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔آپ کا ایک قلمی دیوان مجھے(روبینہ ترین)جناب اسد نظامی سے دستیاب ہوا ہے۔اس میں ردیف و ار فارسی غزلوں کےعلاوہ متفرقات میں رباعیات ،مثنویات اور ترجیح بندی شامل ہیں اردو و فارسی مخلوط غزل کو ہندی غزل کے عنوان کے تحت درج کیا گیا ہے۔نمونہ حسب ذیل ہے:

اٹھا ہے شوق ملنے کا میرا دلدار کب آوےکمان و تیر کی حاجت نہیں رکھتا نگار حسناسی کے کام سب کہنے قصے ہیں انکے من موہےصنم بیدل صنم بیجاں صنم درخو ن دل غلطاںعبیدم من کہ سرگشتہ ہے گردم بکوئے او حجاب و شہر جل جاوے عیاں وہ یار کب آوےنگاہوں سے کرے بسمل وہی جبار کب آوےارادے انکے سب ہونے وہی سردار کب آوےصنم دردر بے درمان شفاء بیمار کب آوےبہردم منتظر اس کا شہہ اسرار کب آوے"[11]

خواجہ عبیداللہ ملتانی کے علمی مقام کی رفعت و عظمت کا اظہار کرتے ہوئے جامع انداز میں مولاناعبد الحی حسنی نے اپنی مشہور کتاب میں تعارفی کلمات لکھے ہیں ،اقتباس حسب ذیل ہے:

"اَلْشَّیْخُ عُبَیْدُاللہِ الْحَنَفِیُّ الْمُلْتَانِیُّ اَحَدُ الْمَشَائِخِ الْجِشْتِیَّۃِ وَلَدَوَ نَشَاَ بِمُلْتَانَ وَقَرَاَ الْعِلْمَ عَلٰی وَالِدِہٖ،ثُمَّ اَخَذَ عَنِ الْمُوْلَوِیِّ غُلْ مُحَمَّد وَقَرَاَ عَلَیْہِ سَائِرَ الْکُتُبِ الْدَّرْسِیَّۃِ وَدَرَسَ وَاَفَادَ مُدَّۃً طَوِیْلَۃً بِمَدِیْنَۃِ مُلْتَانَ،ثُمَّ َاخَذَ طَرِیْقَۃً عَنِ الشَّیْخِ خُدَا بَخش اَلخَیْر فُورِی وَ تَوَلّٰی الشِّیَاخَۃَ بَعْدَہٗ اَخَذَ عَنْہٗ خَلْقٌ کَثِیْرٌ مِّنَ الْعُلَمَاءِ وَالْمَشَائِخِ،وَکَانَ شَیْخًا جَلِیْلًا مُھَابًا رَفِیْعَ الْقَدْرِ کَبِیْرَ الْمَنْزِلَۃِ عَظِیْمَ الْوَرْعِ وَ الْعَزِیْمَۃِ لَہٗ مُصَنَّفَاتٌ عَدِیْدَۃٌ "[12]

ترجمہ : "شیخ عبید اللہ حنفی ملتانی ،مشائخ چشتیہ میں سے ہیں ۔ولادت ونشوونما ملتان میں ہوئی،بنیادی تعلیم کا اکتساب اپنے والد سے کیا اور پھر درسی کتب کی تکمیل مولوی گل محمد سے ملتان شہر میں ہی کی،بعد ازاں سلوک وطریقت کا حصول شیخ خدابخش خیرپوری سے کرکے ان کے جانشین مقرر ہوئےاور آپ سے کثیر علماءومشائخ نے اکتساب فیض کیا ۔ آپ جلیل القدر بزرگ،شوکت و عظمت،بلند شان و بڑی عزت و مرتبہ والے،انتہا ئی تقی اور صاحب استقامت تھے۔آپ کی متعدد تصنیفات ہیں۔"

اسلوب ِتبلیغ کی عصری معنویت

آپ نے ہفتہ وار تربیتی و اصلاحی اجتماع کا سلسلہ قائم کررکھا تھا جس کے لیے جمعرات کا دن مختص تھا اور یہ باقاعدہ نظم و نسق کے مطابق منعقدہوتا ،جس میں حکمت بھری نصیحتیں کی جاتیں ۔ پندو نصائح پر مبنی تقاریر کے لیے اہل علم حضرات کو تفتیش کے لئے مقرر کیا جاتا جو تقریر کی کمی بیشی کا جائزہ لیتے اور اصلاحی تجاویز سے آگاہ کرتے۔

"عمومی مجالس میں وعظ ونصیحت کے علاوہ خصوصی طور پر بھی ہر جمعرات آپ مجلس وعظ قائم فرماتے۔طلبہ و شاگردوں کے علاوہ سالکین راہ خدا بھی پندونصائح پرمشتمل آپ کا پُرحکمت کلام سننے کے لیے دور وقریب سے جمع ہوجاتے۔ ایک قول کے مطابق آپ اپنی مجلس وعظ قائم فرمانے سے پہلے کسی بھی ایک یا دواہل علم کو بطور نقاد مقرر فرمادیتے کہ وہ تقریر بغور سنیں اگر کوئی کمی بیشی محسوس کریں تو بعد از مجلس آپ کو اس سے باخبرکریں۔چنانچہ اگر کبھی اس قسم کا واقعہ پیش آتا تو آپ شرم نہ فرماتے۔ بلکہ اصلاح نفس و علوم کی خاطر بصد خوشی آئندہ مجلس میں اس کی درستی فرمادیتے"۔[13]

بلا مبالغہ یہ ایک بےنظیر اصلاحی اجتماع ہوا کرتا تھا جس کی مثال موجودہ زمانے میں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ، وعظ ونصیحت مختصرہو اور اس میں اس قدر احتیاط کا اہتمام ہو کہ غلطی کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے ،مفتشین کی تقرری عمل میں لائی جائے تاکہ رطب و یابس کی آمیزش سے حقائق مسخ نہ ہوں۔اہل علم کی پہچان ہے کہ وہ اپنی غلطی پر اصرار کی بجائے،تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ باخبر کرنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رجوع لاتے ہیں۔"معلوم رہے کہ ملتان،جھنگ،خیرپور ٹامیوالی میں اور دورانِ سفر زیادہ ترآپ بجائے قولی کے عملی نصیحت سےلوگوں کو مستفید فرماتے یعنی آپ کے نمونہ زندگی سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے "۔[14]

صوفیہ کے خصائص میں سے ہے کہ اقوال سے زیادہ احوال سے تبلیغ کےفرائض بجالاتے ہیں جس کی تائید میں تاریخ کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں جب بھی عالمِ اسلام پر ناگفتہ بہ حالات منڈلائے اور حربی طاقتیں کام نہ آسکیں توصوفیہ کی کردار کے ذریعے تبلیغ نے ظاہری ناممکن کو وقوع پذیر کر دکھایا۔خواجہ عبیداللہ ملتانی نے اپنے اقوال سےزیادہ احوال سے تبلیغ کرنے کواہمیت دی، لوگ آپ کے عمل سے سیکھتے اور اپنی زندگی کوسنوارکر فلاح و کامرانی کا سامان کیا کرتےتھے۔

وعظ و نصیحت کو بے حد ضروری سمجھتے تھے اس کا اظہار اس بات سے بجا طور پر ہوتا ہے کہ آپ جمعہ کے دن پہلا خطبہ عربی عبارت مع ترجمہ پڑھا کرتے تاکہ لوگ مطلع ہو سکیں کہ خطبہ میں کن امور بارے آگاہ کیا گیاہے کیونکہ عجمی کےلیے عربی زبان تو تبرک ہے بہت کم لوگ معنی و مفہوم کو سمجھنے اور جاننے کی سعی کرتے ہیں۔غالب اکثریت چونکہ عربی سمجھنے سے قاصر ہے پس آپ عربی کا ترجمہ بھی بیان کرتے تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔’’جمعہ کے روز خطبہ اولیٰ عربی عبارت کے ترجمہ سمیت پڑھا کرتے تھے جیساکہ آج تک آپ کے متوسلین واولادمیں یہی طریقہ کار رائج ہے‘‘۔[15]آپ کا یہ عمل محض تذکیر کےلئے تھا جس کا خود اظہار کرتے ہوئے اپنی تصنیف "شرح مفصل"میں مدلل کلام کیا ہے۔اس عمل پردلائل ہونے کے باوجود کسی دوسرے شخص کو کبھی مجبور نہیں کیا کہ وہ اپنے ہاں خطبہ کا ترجمہ علاقائی زبان میں شروع کریں ۔

تبلیغ بصورت تصنیف

تبلیغ کوتصنیفی انداز میں بھی بجا لائے اور یوں اپنے علم سے افادہ کے سلسلہ کو دوام بخشا۔تذکیر و تدریس کی حیثیت معروفہ سے انکار نہیں البتہ تصنیف کے اثرات دیرپا اور ان مٹ ثابت ہوئے ہیں۔ لَہٗ مُصَنَّفَاتٌ عَدِیْدَۃٌ[16]آپ کی متعدد تصنیفات ہیں۔[17]تفسیر،فقہ،علم الکلام، اور تصوف وغیرہ موضوعات پر تحقیقی پیرائے میں قلمی مخطوطات چھوڑے ۔

’’ تدریسِ علم کے ساتھ قلمی خدمات کا سلسلہ بھی زندگی بھر جاری رکھا۔انکی کتابوں کی تعداد تقریبا سو(100)بتائی جاتی ہے۔ان میں کچھ مطبوعہ اور اکثر غیر مطبوعہ ،ان کتابوں میں تحفہ زناں،عیوب النفس،سہ حرفی در معرفت ،رفیقیہ بشرح توفیقیہ،رسالہ ملائیہ،رسالہ نحو،وصیت نامہ،دیوان چراغ عبیدیہ شامل ہیں انکے علاوہ علم میراث میں ایک رسالہ ابیات ِ علمِ میراث کے نام سے لکھا جو کہ درس نظامی میں سند اول رکھتا ہے ۔آپ کی ایک تصنیف"سردلبراں"بہت مشہور ہے جو خواجہ خدا بخش کے ملفوظات پر مشتمل ہے‘‘۔[18]

آپ کی تصنیفات کے بارے میں "مثنوی تذکرہ عبیدیہ"میں بھی ذکر ملتا ہے۔

از تصانیفش بیکصد میرسد یا کہ زیاد

در بیان عشق و وعظ و رد ارباب فسادبس رسائل کرداز بھر ہدایت عام و خاص

از کتاب و وزرسائل بہر تعلیم و ارشادخارجی ورافضی نجدیہ مردود از رشادنظم و نثر فارسی عربی و پنجابی کلام[19]

ترجمہ:آپ کی تصانیف جو رسائل و کتب پر مشتمل ہیں اور تعلیم و ارشاد کے واسطے ہیں ، ان کی تعداد کم و بیش سو(100)ہے۔ آپ نے عشق و نصیحت کے عمدہ موضوع کے علاوہ خارجی اور رافضی جو فسادی گروہ ہیں اور نجدی جو ہدایت سے دور ہیں، کے رد میں خاص و عام کی ہدایت کے لیے بہت سے رسائل نظم و نثر میں بزبان عربی،فارسی اور پنجابی میں تصنیف کیے۔آپ کی تصانیف میں سے ایک حصہ ایسا ہے جو آپ نے علماء کی فرمائش پر لکھا اور یہ آپ کی مسلمہ علمی قابلیت کا بین ثبوت ہے ۔

ان کتب میں سے بعض کی طباعت کو عمل میں لایا گیا ہے جیساکہ تعلیم النساء اور سر دلبراں کو آپ کے خانوادے کے اہل علم حضرات نے اردو ترجمہ کے بعد طبع کروایا ہے۔ان دونوں کتابوں کو مارکیٹ میں خاصی پذیرائی ملی ہے۔ تصوف کے ساتھ ساتھ تفسیر ،فقہ اور سماجی علوم پر خواجہ عبیداللہ ملتانی کے مخطوطات میں وافر ذخیرہ موجود ہے ۔

"لزوم حسن ظن علی اصحاب ذی المنن"یہ رسالہ ایک فروغ پاتی معاشرتی برائی(بدگمانی) جس کے نتائج انتہائی بھیانک ہیں کے تدارک کے لیے لکھا گیا۔صوفیہ کرام کے بعض ایسے فرمودات جو تا ویلات طویلہ کے بغیر سمجھے نہیں جاسکتے ، ان کے ظاہری معانی کی نسبت سے ان نفوس قدسیہ پر نکتہ چینی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی زبان طعن کو دراز کرنا کسی صورت رواہے۔سالک کے لیے تو ضروری ہے کہ بدگمانی سے کوسوں دور رہے اگرچہ مظنون علیہ عوام الناس سے ہی کیوں نہ ہو۔اگرچہ یہی موضوع مصنف کی اکثر تصنیفات میں تبعًا مذکور ہے لیکن یہ مختصر رسالہ خا ص طور پر اس روز بروز بڑھتےہوئےمرض کے سدباب کے لیے لکھا، جو اختصار کی خوبی کے ساتھ ساتھ افادیت و اہمیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ اصل مخطوطہ فارسی زبان میں ہے۔”فاما اقطاب کہ تابعان انبیاء اندواہل صحواند چناں سعی در زوال لذات خود کردہ اند کہ قدم ایشاں از شرع شریف ہرگز لغزش نخوردہ علی الخصوص"[20]

اپنے شیخ خواجہ خدا بخش خیر پوری کی کتاب’’توفیقیہ‘‘پر کیے گئے اعتراضات کے جواب بنام ’’اعانۃ المریدین‘‘رقم کئےجبکہ اسلوب ِتحریر سے تحمل وبردباری عیاں ہے،اپنے موقف کے خلاف نا شائستہ و شدت پر مبنی گفتگو کا جواب مکمل اعتماد و رواداری کے ساتھ دیا ۔"قولہ:چوں رسالہ توفیقیہ صغری از مولوی خدا بخش ملتانی در مخالفۃ شریعۃ اتم واکمل بود الیٰ قولہ ایں باطل است"[21]

سماجی و عوامی مسائل کے حل کی وجہ سے اپنی اولاد کی تربیت سے صرفِ نظر نہیں کیا بلکہ اس جانب بھی پوری توجہ رکھی اور اپنے خانوادہ میں امن کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی حیات میں ہی مال کی تقسیم کاری اور دیگر ضروری امور پرمبنی وصایابنام "وصایا عبیدیہ الموسومہ بہ دفع الفسادوالجدال" رقم کئے۔

’’ثُمَّ اَنَّ وَصِیَّتِیْ بِالْنِّسْبَۃِ اِلَی الْاَبْنَاءِ وَالْبَنَاتِ وَالْزَّوجَۃِوَ الْاَحْبَابِ وَالْاَصْحَابِ وَ اَہْلِ الْقَرَابَۃِ وَالْجَوَارِ تَقْوَی اللّٰہِ وَتَوْحِیْدُہٖ وَالْرَّھْبَۃُ مِنَ اللہِ وَالْخَشْبَۃُ وَالْاِنَابَۃُ وَالْمُحَافَظَۃُ عَلَی الْصَّلٰوۃِ الْخَمْسِ وَصِیَامُ رَمَضَانَ وَاَدَاءُ جَمِیْعِ مَااَمَرَااللّٰہُ تَعَالیٰ مِمَّا ھُوَ مُفَصَّلٌ فِیْ الْکُتُبِ وَ مُجْمَلٌ فِیْ صُدُوْرِالْعَالِمِیْنَ وَ الْعَارِفِیْنَ وَالْاِنْتِہَاءُ عَمَّا نَھَی اللّٰہُ عَنْہٗ مِمَّا ھُوَ مُفَصَّلٌ فِیْ الْکُتُبِ وَ مُجْمَلٌ فِیْ صُدُوْرِ الْفَاسِقِیْنَ وَغَیْرِھِمْ وَاَکْثَرُ مَا یَحْصُلُ عَلَی الْتَّمَامِ وَالْکَمَالِ بَعْدَ تَحْصِیْلِ الْعِلْمِ مِنْ کُتُبِ الْصَّالِحِیْنَ الْمَاضِیِّیْنَ وَصُحْبَۃُ الْاَخْیَارِ الْاَبْرَارِ الْعَابِدِیْنَ الْعَامِلِیْنَ بِاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اَلَّذِیْنَ اِذَا رَؤُوْا ذُکِرَ اللّٰہُ الخ[22]

تبلیغ بصورت تدریس

آپ کی تعلیم و تربیت کے سلسلے بلا تفریق ہونے میں امتیازی حیثیت کے حا مل ہیں ۔

’’دور ونزدیک کے سینکڑوں طالب علم آپ کے تبحر علمی سے فیض یاب ہوئے ،علم میراث کی تعلیم کے سلسلہ میں اس مدرسہ کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ہندوستان کے طول وعرض میں واقع مدارس جیساکہ مدرسہ عالیہ رام پوروغیرہ کے فارغ التحصیل طلبہ بھی علم میراث میں کامل ہونے کے لئے اس مدرسہ کا رخ کرتے تھے ، جب تک علم میراث کے بارے میں اس مدرسہ سے سند حاصل نہ کرلیتے،اس فن میں اپنے آپ کو کامل نہ سمجھتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ مدرسہ عبیدیہ آج تک علم میراث کی تعلیم میں مشہور ہے‘‘۔[23]

عمر کمال خان نے آپ کے قائم کردہ مدرسہ کی تاریخی حیثیت اور محل وقوع کے متعلق بتاتے ہیں کہ "آپ نے 1250ھ مطابق 1834ء اندرون بوہڑ دروازہ، مدرسہ عبیدیہ قائم کیا اور عرصہ چالیس سال اس مدرسہ میں تدریس کرتے رہے ۔جب طلبہ کا اژدھام ہو اتو 1290ھ مطابق 1873ء میں نقل مکانی کرکے آپ نے اپنا مدرسہ محلہ قدیرآباد میں موجود ہ جگہ منتقل کردیا اور پہلے سے بہت بہتر نظام مدرسہ قائم کیا ۔"[24]عرصہ دراز تک بلکہ عمر بھر عزم و استقلال کے ساتھ تدریسی فرائض کو خلوص کے ساتھ سرانجام دینا غیر معمولی امر ہے۔طالب علموں سے کوئی غرض و طمع رکھے بغیر علمی سوغات تقسیم کرنا اور ان کی رہائش و ظعام کا اہتمام بھی اپنی ذاتی کاوشوں سے فراہم کرنا بلاشبہ عزیمت والے کاموں میں سے ہے۔"روحانی تعلیمات کے ساتھ علومِ متداولہ ظاہریہ کی تعلیم میں بھی آپ کی درسگاہ سے بڑے بڑے علماء فارغ التحصیل ہو کر مختلف مقامات پر علم و عمل کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہوئے ۔صرف ونحو سے لیکر علومِ جدیدہ تک کا درس آپ خود دیتے۔علم میراث میں آپ کا مدرسہ ایک سند کی حیثیت رکھتا تھا۔"[25]

مدرسہ عبیدیہ کے امتیازی اوصاف میں سے یہ وصف نمایاں ہے کہ یہاں کسی طرح کا تعصب نہیں پایا جاتا بلکہ ہر علم کا اشتیاق رکھنے والے کو علمی طور پر سیراب ہونے کا موقع فراہم کیا جانا یہاں کا خاصہ ہے۔علوم عقلیہ ونقلیہ کے ساتھ باطنی علوم کی تربیت اس ادارہ کا اعزازی کام ہے۔باطنی تربیت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے لیے عملی مساعی بجالانا عصری مسائل کو حل کرنے کے لیے ازبس ضروری ہے ۔

وفات

"تَوَفّٰی یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِسِتٍّ مِّن جَمَادِی الْاُوْلٰی سَنَۃ خَمْس وَثَلَاثٌ مِائَۃٍ وَ اَلْفٍ بِمَدِیْنَۃِ مُلْتَانَ" [26]

"ملتان شہرمیں جمعہ کے روز 6 جمادی الاول1305ھ مطابق 20 جنوری 1888ء کو وصال فرمایا۔"خواجہ عبید اللہ ملتانی کے ہاں فقہ و تصوف کا امتزاج ملتا ہے اگرچہ فقہی حوالے سے آپ کے ہاں بعض امتیازی امور بھی پائے جاتے ہیں جیساکہ جمعہ کے خطبہ کومروجہ زبان میں بھی بیان کرنے کا معمول اس امر پر شاہد ہے۔

نتائج البحث

خواجہ عبیداللہ ملتانی کے احوال و آثار کا تحقیقی مطالعہ اس امر پر ناطق ہے کہ صوفیانہ افکار کےپرچار اور عملی نمونہ پیش کرنے میں آپ کا کردار مثالی ہے ۔ قیام امن کےلئے آپ نے تبلیغی سرگرمیوں کو عصری موافقت دیتے ہوئے تصنیف و تدریس میں بھی اس پہلو کو اہمیت دی۔شدت و عصبیت کے خاتمہ میں مدرسہ عبیدیہ کا کردار مثالی ہے۔

آپ کے تبلیغی اسلوب کے اثرات آج بھی موجود ہیں، آپ نہ صرف ظاہری و شرعی امور پر دھیان دیتے تھے بلکہ باطنی امراض کے علاج پر خاص نگاہ رکھتے اور اولین ترجیح دیتے ہوئےباطنی اصلاح کا سامان حکمت بھرے انداز میں کرتے ۔حسنِ ظن کو اپنی عادات میں شامل کرنے کی تعلیم دیتے تاکہ امن و امان کو فروغ ملے اور بد گمانی کے سبب وجود میں آنے والے مسائل کی روک تھام ہو۔

معاشرہ میں امن کے قیام کےلیے مساعی کا آغاز اپنی ذات اور خاندان کی اصلاح سے کرتے ،جس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے۔ کسی راہ شریعت و طریقت کے طالب کو مایوس نہ کرتے اور حوصلہ افزاء انداز میں ان نازک اور حساس راہوں میں میرِ کارواں کا فریضہ سرانجام دیتے، آج تک خانوادہ کے حقیقی جانشین حضرات آپ کے اس وطیرے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

تصوف اور صوفیہ کو اسلامی تاریخ میں نمایاں حیثیت اور مقام حاصل ہے ،البتہ فی زمانہ تصوف کا نام استعمال کر کےبعض افراد اس کی حیثیت کو مسخ کرنے کے درپے ہیں۔چنانچہ حاملینِ تصوف کی حقیقی تعلیمات کو تحریری و تقریری طور پر سامنے لانا عصری تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔

سفارشات

قیام امن کے لئےخواجہ عبیداللہ ملتانی کے صوفیانہ اسلوب تبلیغ کی عصری معنویت کے تجزیاتی مطالعہ کے نتیجہ میں اس امر کی سفارش کی جاتی ہے کہ:

  1. قیام امن کے لئےصوفیانہ افکار کی ترویج کا اہتمام کرتے ہوئے تدریس و تصنیف کے میدان میں صوفیانہ اسلوب کو اختیار کیا جائے۔
  2. خواجہ عبید اللہ ملتانی کے مخطوطات کی طباعت واشاعت بارےعلوم اسلامیہ کے محققین توجہ مرکوز کریں اور ان مخطوطات کو تحقیق و تخریج کے بعد طباعت کا جامہ پہنا کر نسل نوکو تصوف کی عصری معنویت سے روشناس کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
  3. صوفیہ کے خواص کے مطابق اقوال سے زیادہ احوال وافعال کے ذریعے تبلیغ کرنے کو ترجیح دی جائے۔اس کا عملی اظہارمفتی خواجہ عبید اللہ ملتانی کے اسلوب ِ تعلیم وتربیت میں بجاطور پر ملتا ہے۔
  4. صوفیانہ اسلوب کی پیروی کرتے ہوئےمستقل بنیادوں پراصلاح احوال و افعال ، کردار سازی وباطنی اصلاح کے لئے ماہانہ / ہفتہ وار نشست کا اہتمام والتزام کیا جائے۔

 

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن( دمشق: دار القلم، 2009ء)،1:90۔
  2. محمد بن مكرم بن علي بن أحمد بن منظور الإفريقي ، لسان العرب ( بیروت: دار صادر، س،ن)، 13:21۔
  3. Ali Hassan Chohan, Popular Oxford Concine New Edition: English to Urdu (Lahore: Oriental Book Society, 2015), 436.
  4. ضیاء الحق یوسف زئی،تصوف تلاش احسن کی ہمہ گیر تحریک ،مرتب ۔محمد اسحاق قریشی( آزاد کشمیر: شعبہ تحقیق و اشاعت محی الدین اسلامی یونیورسٹی، س۔ن)،158۔
  5. ابو نصر سراج طوسی،اللمع فی تاریخ التصوف الاسلامی(لاہور: ادارہ پیغام القرآن ، 1996ء)، 46۔
  6. القرآن 18:28۔
  7. عبدالقادرعیسی ٰشاذلی ،حقائق عن التصوف[ تصوف کے روشن حقائق ] مترجم۔ محمد اکرم الازہری(لاہور : زاویہ فاؤندیشن ، 2000ء)، 26،27،28۔
  8. عبیداللہ ملتانی، سر دلبراں [محبوبانِ خدا کے راز] مترجم ۔ میاں عبد الباقی (ملتان: مکتبہ فیضان سنت ، 2014ء )، 47۔
  9. نوراحمد خان فریدی، تاریخ ملتان (ملتان: قصرالادب ،1977ء)، 2:226۔
  10. عمر کمال خان، فقہاء ملتان (ملتان: بزم ثقافت ، 1984ء)، 39۔
  11. روبینہ ترین،ملتان کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا حصہ(ملتان: بیکن بکس، 2011ء)، 545،46۔
  12. عبدالحیی حسنی ،نزھۃ الخواطر(کراچی: میرمحمد کتب خانہ ،س ن)،8:301۔
  13. خواجہ محمد عادل،عباد الرحمٰن(ملتان: روم خواجہ ،1990ء)، 1:137۔
  14. ایضا۔، 138 ۔
  15. ایضا۔، 114۔
  16. حسنی ،نزھۃ الخواطر،8:301۔
  17. آ پ کے ستاون(57) قلمی مخطوطات کا تعارف ،ایم فل مقالہ ( NCBA&E یونیورسٹی ،سیشن -2016 2014 ) بنام "خواجہ عبید اللہ ملتانی کی فقہی خدمات کا تحقیقی مطالعہ "میں کروایا گیا ہے۔
  18. ترین، ملتان کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرا م کاحصہ،545۔
  19. الٰہی بخش ،"مثنوی تذکرہ عبیدیہ" ،غیرمطبوعہ قلمی عکسی نسخہ در ملکیت امام احمد رضا لائیبریری شاہ رکن عالم کالونی ملتان ، 6۔
  20. الٰہی بخش ،"مثنوی تذکرہ عبیدیہ" ،غیرمطبوعہ قلمی عکسی نسخہ در ملکیت امام احمد رضا لائیبریری شاہ رکن عالم کالونی ملتان ، 6۔ مد سردول خان لائبریری،شرقی کالونی، وہاڑی،181۔
  21. عادل، عبادالرحمٰن، 1:333۔
  22. خواجہ عبیداللہ ملتانی ،"وصایا عبیدیہ الموسومہ بہ دفع الفساد والجدال"،وصیت نامہ عبیدیہ اولیٰ۔ ،تحت رسالہ نمبر 13دررسائل مختلفہ،غیر مطبوعہ قلمی نسخہ در ملکیت ملک محمد سردول خان لائبریری،شرقی کالونی، وہاڑی، 135۔
  23. خان، فقہاء ملتان، 39۔
  24. ایضا۔
  25. عادل، عباد الرحمٰن ،1:138۔
  26. حسنی ،نزھۃ الخواطر،8: 301۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...