Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 1 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

مسالک کے مشترکات کے ادراک کی اہمیت: پاکستان کے تناظر میں تجزیاتی مطالعہ |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060035210_1146

Pages

116-133

PDF URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/download/24/11

Chapter URL

http://al-milal.org/journal/index.php/almilal/article/view/24

Subjects

Understanding of Intra-faith Similerties Analytical Study Context of Pakistan

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اسلام امن و محبت کا پیامبر ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرہ کی تشکیل میں اتفاق و اتحاد بنیادی تعلیمات ہیں۔معاشرہ اسی صورت میں پروان چڑھتا ہے جب افراد ِ معاشرہ میں اتفاق و اتحاد، مذہبی و مسلکی ہم آہنگی ہو۔ پاکستانی معاشرے میں انتشار و افتراق کی بنیادی وجہ جہالت ،دوسرے فرقوں کے بارے میں لاعلمی ،غلط فہمیاں ،غلط تصورات اور افواہیں ہیں۔پاکستان کے سماجی مسائل میں میں سے ایک بنیادی اور اہم مسئلہ فرقہ واریت ہے۔اس کے اسباب زیادہ تر سیاسی و سماجی نوعیت کے ہیں تاہم کچھ چیزیں علمی نوعیت کی بھی ہیں جنہیں علماء تک ہی محدود ہونا چاہیے ۔الزام و التزام کے رویوں، مفاہمانہ اور مکالمانہ انداز کے بجائے مناظرانہ اور جارحانہ طرز نے ہمارے اخلاقی معیار کو پست کر دیا ہے۔پاکستان کے تناظر میں اس مقالے کا مرکزی موضوع یہ رہے گا کہ ان اصولوں کی نشاندہی کی جائے جن پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیادیں استوار ہو سکیں۔اس مقالہ میں ہم مسلکی متفرقات کی بجائے مشترکات کا جائزہ لیں گے اور اس کے ادراک کی اہمیت کو واضح کریں گے۔ تاکہ امت مسلمہ، خصوصاً پاکستان کے اصحاب فکر و نظر اپنے علم و تحقیق کی حد تک کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ سکیں جو ہمیں کسی مشترک لائحہ عمل تک پہنچا سکے۔ مقالے کا انداز بیانیہ اور تجزیاتی( Descriptive and Analytical)اختیار کیا گیا ہے۔

سابقہ کاوشوں کا جائزہ

امت مسلّمہ میں اعتدال اور ہم آہنگی کی تعلیمات کے فروغ کے لئے بہت سے علماء کرام نے کام کیاہے۔انھوں نے ایسی مایہ ناز کتب تصنیف کیں ،جو اختلافات کے اثرات کو کم کرنے اور اعتدال کی راہ اپنانے کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں۔مقدمین میں امام ابن تیمیہ کی تصنیف رفع الملام عن الائمہ الاعلام متاخرین میں فقہی و کلامی اختلافات کے سلسلے میں شاہ ولی اللہ کا رسالہ الانصاف فی مسائل الاختلاف بڑا قابلِ قدر ہے۔ اس کے علاوہ شاہ صاحب کی تفہیمات الہیہ میں فرقہ بندی کے قدیم حالات و کوائف کے بارے میں نہایت بصیرت افروز بحث موجود ہے۔ علاوہ ازیں مہر علی شاہ کی تصنیف تصفیہ مابین سنّی و شیعہ اہم کاوش ہے ۔جس میں آپ نے وجوہ اشتراک تلاش کیں اور اختلاف میں تطبیق کی راہ نکالی۔ معاصر اہل ِ علم میں سے ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید کی تصنیف ادب الخلاف طٰہ جابر العلوانی کی کتاب ادب الخلاف فی الاسلام استاذ علی الخفیف کی اسباب اختلاف الفقھاء شیخ زکریا کاندہلوی کی اختلاف الائمہ اور ناصر سلیمان کی اسباب الاختلاف کو اس موضوع پر براہ ِ راست علمی کاوش قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل نے پاکستان کے دینی مسالک پر تحقیقی کام کیا ہے۔ وزارت ِ مذہبی امور ہر سال مقالات ِ سیرت ﷺ کے ذریعے اسوہ ٔ حسنہ کی روشنی میں ہم آہنگ اسلامی معاشرے کی فضا قائم کرنے کے لئے اپنی ملی و دینی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم فل کا مقالہ "پاکستان میں دینی یکجہتی کے لئے کی گئی کاوشیں" سارہ اقبال کی تحقیق ہے۔ جس میں انہوں نے پاکستان کے دینی مسالک میں دینی یکجہتی کے لئے حکومتی کوششوں کو بیان کیا ہے۔ ترجمان القرآن ،منہاج القرآن،وحدت امت جیسے رسائل و جرائد میں تفرقے کی تاریخ و اسباب پر اہل علم و قلم نے سیر حاصل ابحاث کی ہیں۔مزید براں "پاکستان میں اتحاد بین المسالک پر منتخب اردو تحریروں کا تجزیاتی مطالعہ "کے عنوان سےا سکالر فرمان اللہ اور ڈاکٹر اکرام اللہ کا مقالہ جرنل آف اسلامک اینڈ ریلیجیس سڈیز میں شائع ہوا ہے۔

پاکستان کے مسالک کامختصر تعارف

دنیائے اسلام میں بالعموم اور برّصغیر میں بالخصوص مسالک اور فقہی مذاہب ہیں ،جیسے جعفری،حنفی، مالکی، شافعی، اورحنبلی وغیرہ ۔اس کے بعد احناف میں دیو بندی اور بریلوی کی ذیلی تقسیم ہے ۔لیکن یہ دونوں اصطلاحاً ایک ہی فقہ اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ۔اہل تَسَنُّن کی طرح اہل تشیع میں بھی ذیلی تقسیم موجود ہے۔ پاکستان میں آغاز سے ہی مختلف مسالک اور مکاتب ِ فکر موجود تھے۔ بقول سید ابوا لاعلیٰ مودودی: "ہمارے ملک میں بالفعل صرف تین فرقے پائے جاتے ہیں۔

١۔حنفی) جو دیو بندیوں اور بریلویوں میں تقسیم ہونے کے باوجود (فقہ حنفی پرمتفق ہیں۔)

٢۔اہل حدیث٣۔شیعہ "[1]

قیام ِ پاکستان کے وقت ان مسالک میں اختلافات کے باوجود مذہبی رواداری تھی ۔باہم ادب و احترام کا رشتہ استوار تھا۔مختلف مکاتب فکر اپنے اپنے دائرے میں اپنے عقائد و نظریات کے مطابق عمل پیرا تھے۔۱۹۸۰ء کی دہائی میں ان اختلافات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے اس میں تشدد و تعصب کا رنگ غالب آ گیا۔ جس نے فرقہ ورایت کی شکل اختیار کر لی ۔عوام النا س اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکی کہ ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ایسے نہیں کہ جن کی بناء پر دوسرے مسلک کو دائرہ ٔ اسلام ہی سے خارج کر دیا جائے۔ ہیں۔اسلامی مسالک کے اختلافات کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے حامد کمال الدین اپنے مقالے " فرقہ واریت ہے کیا "؟میں لکھتے ہیں:

علماء و فقہائے اُمت کی غالب ترین اکثریت بشمول حنفی ،مالکی،شافعی، حنبلی،ظاہری اور اہلِ حدیث وغیرہ وغیرہ ایسے فقہی مسالک کو فرقۂ ناجیہ میں شمار کرتی آئی ہے۔یہ کئی فرقے نہیں دراصل ایک ہی فرقہ ہے اور ان سب کا ایک سے علمی اور شرعی مصادر میں اتفاق ہے۔علماء و فقہائے امت کے ہاں صدیوں تک یہ اعتبار قائم رہا ہے۔عقیدہ کی کوئی بڑی خرابی نہ ہو تو یہ فقہی مذاہب اُمت کے معتبر مذاہب ہیں اور فقہی اختلاف کے باوجود یہ ایک جماعت ہیں اور سب کے سب اہل ِ سنت و الجماعت کی ذیل میں آتے ہیں۔ان کا اختلاف وہ اختلاف ہے جس کی عمومی معنی میں علمائے اُمت کے ہاں گنجائش جانی گئی ہے۔بنیادی طور پر یہ نصوص کے فہم اور ترجیح اور استقصاء میں ہونے والا اختلاف ہے۔اجتہادی مسائل میں ہونے والا اختلاف ہے۔یہ' اختلاف مذموم 'نہیں بلکہ اصطلاحی طور پر یہ 'اختلاف سائغ 'ہے۔[2]

ذیل میں مکاتب ِ فکر کا مختصرتعارف ذیل میں پیش کیا جائے گا۔

بریلوی مسلک

محمد ایوب قادری تذکرہ ٔ علمائے ہند میں بریلوی مسلک اور اس کی نسبت کے بارے میں لکھتے ہیں:یہ مسلک فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان کے پیروکاروں کی تشکیل ہے۔ان کے معتقدین انہیں 'اعلیٰ حضرت اور فاضل بریلوی ' کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔مولانا کے آباؤ اجداد قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیج کے پٹھان تھے۔مغلیہ دور میں ہندو پاک آئے۔ مولانااحمد رضا خان بریلوی (۱۸۵۶ء ۔۱۹۲۴ء)کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں ۔ [3]

عقائد

محمد سرفراز خان صفدرنے اپنی کتاب میں بریلوی مسلک کے عقائد یوں بیان کئے ہیں:

مسلک اہل سنت والجماعت کی بنیاد اسلامی عقائد یعنی توحید ِخداوندی ،انبیاء کی رسالت ونبوت اور ان کی حیات بعد الممات ،تمام الہامی کتب ، و صحائف،فرشتوں ،یوم آخرت (جزا و سزا اور جنت و جہنم) اور خیر و شر کی تقدیر پر ایمان لانا ہے۔مسلک اہل سنت میں ادب ،احترام اور تعظیم بنیادی عنصر ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر عیب سے پاک ماننا عصمت رسول و انبیاء ،تمام صحابہ کرام اور تمام اہل بیت اطہار کی عظمت و طہارت ،اولیاء کرام اور صلحاء امت کو بارگاہ ِ خدا وندی سے ملنے والے اعزازات (مثلاً کرامات ،الہام اور تصرف وغیرہ ) کو تسلیم کرنا۔مسلک اہل سنت کا لازمی امر ہے۔رسول اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا سے

ما کان و ما یکون کے علم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ [4]

بیسویں صدی کے حنفی المسلک بریلوی مکتب فکرکی دلچسپی زیادہ ترمختلف فروعی اور ثانوی مسائل میں رہی ہے۔ جن میں سے بعض یہ ہیں:تصور شیخ اور استمداد اہل اللہ مثلاً یا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ،قیام ِ میلاد اور موجودگی دو جہاں ﷺ کی موجودگی کا تصور کرنا ۔مختلف رسوم مثلاً فاتحہ خوانی، چہلم، برسی گیارھویں کی نیاز ،عرس وغیرہ شامل ہیں۔ اہل سنت بریلوی حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے مقلد ہیں ۔امت مسلمہ کے وہ معمولات جو قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہیں ان کو جائز اور مستحب قرار دیتے ہیں۔

دیو بندی مسلک

دیو بندی مسلک میں دار العلوم دیو بند بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ دیو بندی مسلک کے تمام علماء اور قائدین اپنی فکری اور عقیدتی نسبت دار العلوم دیو بند ہی کو قرار دیتے ہیں۔ پورے ہندوستان میں اس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ایک سو سال سے زیادہ مدت سے پاک و ہند کے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔

عقائد

المھند علی المفند اہل سنت (دیو بندی) میں عقائد کے بیان میں بنیادی کتب میں سے سمجھی جاتی ہے۔ یہ مختصر کتاب خلیل احمد سہارنپوری کے ان جوابات پر مشتمل ہے جو انھوں نے حرمین شریفین کے بعض علماء کو ان کے چند سوالات پر دئیے۔ ان جوابات کو ہر دور کے اکابر علمائے مسلک دیو بند کی تائید حاصل رہی ہے۔ اسی کتاب میں خلیل احمد سہارنپوری اختصار سے اپنے مسلک کو یوں بیان کرتے ہیں:

جاننا چاہیے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمد اللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام ہمام امام اعظم ابو حنیفہ ؒنعمان بن ثابت کے اور اصول و اعتقادات میں پیرو ہیں امام ابو الحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ کے اور طریق ہائے صوفیہ میں ہم کو انتساب حاصل ہے سلسلہ عالیہ حضرت نقشبندیہ اور طریقہ زکیہ مشائخ چشت اور سلسلہ بہیہ حضرات قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشائخ سہروردیہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ۔ [5]

مسائل ِ اعتقادیہ میں اہل ِ سنت و الجماعت کے دو گروہ ہیں۔اشاعرہ[6]اور ماتریدیہ۔[7]

ان دونوں بزرگوں نے اصول ِ دین اوران سے متعلق مسائل ِ دین اور مسائل ِ اعتقادیہ میں بڑی تحقیق و تدقیق کی ہے اور دلائل ِ عقلیہ اور نقلیہ سے عقائدِ اسلامیہ کو ثابت کر کے ملاحدہ اور زنادقہ کے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا عقل اور نقل سے ابطال فرمایا ،جس سے صحابہ و تابعین کا مسلک خوب روشن ہو گیا۔یہی وجہ ہے کہ مذہب اہل ِ سنت و الجماعت انہی دو بزرگوں میں محصور ہو گیا۔ ان دونوں بزرگوں کا اصول ِ دین اور مسائل ِ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ امام ابو الحسن اشعری اورامام ابو منصور ماتریدی کے کے بعد امام مالک،امام شا فعی اور امام احمد کے اصحاب نے اپنا نام اشعریہ قرار دیا اور امام ابو حنیفہ ؒکے اصحاب اپنے آپ کو ماتریدیہ کہنے لگے۔دراصل ان دونوں گروہوں کا مسلک وہی ہے جو صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت اور مقرر ہے ۔

مسائل اعتقادیہ میں امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی کے بارے میں محمد ادریس کاندھلوی اپنی کتاب "عقائد الاسلام " میں لکھتے ہیں:

"ان دونوں بزرگوں کے درمیان صرف بارہ مسئلوں میں خلاف ہے ۔اوروہ نزاع حقیقی نزاع نہیں بلکہ لفظی اور صوری نزاع ہے اور وہ بھی ایسے مسائل ہیں کہ جن کی کتاب و سنت میں کوئی تصریح نہیں اور صحابہ کرام ؓ سے اس بارہ میں کوئی واضح چیز منقول نہیں۔ "[8]دیو بند سے صرف وہ حلقہ مراد نہیں جو دار العلوم دیو بندجس میں تعلیم و تدریس یا تبلیغ یا تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے ۔ان سب کا نظریہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی کی حکمت سے جڑا ہوا ہے۔ علماء دیو بند اپنے دینی رُخ اور مسلکی مزاج کے لحاظ سے کلیة اہل سنت و الجماعت ہیں۔جس کی بنیاد قرآن و سنت اور فقہ ائمہ پر قائم ہے ۔اس کا اصل و اصول توحید و عظمت رسالت ہے جو تمام انبیاء کا دین رہا ہے ۔دیو بند مسلک میں پہلی اصل توحید ِ خدا وندی پر زور دیتا ہے جس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہو سکیں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو ۔

دیو بندیت میں قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے اعمالِ حسنہ کی تعلیمات پر پابندی کی دعوت دی جاتی ہے۔غیر شرعی رسومات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔اس سلسلے میں ان کے علماء نے علمی و متحرک کوششیں کی ہیں۔

اہل حدیث

مسلک ِحدیث کی اولین بنیاد قرآن مجید اور اس کے بعد حدیث ِ ہے،یہی دو چیزیں مسلک ِ اہل حدیث کی بنیاد ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدید نہیں بلکہ اسلام کی ابتدائی بنیاد انہی پر رکھی گئی ہے۔اہل حدیث سے مراد مسلمانوں کے اس فرقےکی ہے کہ جس کی پیدائش دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی ہجری (یعنی اواخر آٹھویں و نویں صدی عیسوی) سے دیکھنے میں آئی۔ ابراہیم میر سیالکوٹی اپنی مشہور کتاب تاریخِ اہل حدیث میں رقمطراز ہیں: "یہ مخصوص مسلک خود آنحضرت ؐکے زمانے میں بھی موجود تھااور بعد میں ہر دور میں ہمیشہ موجود رہا۔ "[9] اہل ِ حدیث کے علماء کا نظریہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "یہ کوئی نئی تحریک نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت کی وہی تحریک ہے جو عہد ِ نبوی اور عہد صحابہ سے چلی آ رہی ہے "[10]یہی وجہ ہے کہ صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین کو اسلاف یا سلف الصالح کہا جاتا ہے اور اہلحدیث ان کے فہم کو بعد میں آنے والے ادوار کے علماء کے فہم پر ترجیح دیتے ہوئے سلفی کہلواتے ہیں۔جو قرآن و سنت سے براہ ِ راست استفادہ کرتے ہیں اور تقلید کے قائل نہیں ہیں۔

بیسویں صدی کے آغاز میں اہل حدیث کا مسلک برصغیر پاک و ہند میں ایک تحریک کی صورت میں پھیل گیا؛چنانچہ دھلی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نام سے ایک ملک گیر تنظیم قائم ہوئی ،جس نے مکتبوں اور درس گاہوں کے قیام،مبلغوں کے وعظ و ارشاد اور جلسوں کے انعقاد کے ذریعے پورے ملک میں تحریک و مسلک اہل حدیث کو عام کیا۔برّصغیر میں اہلِ حدیث کی تحریک سے قبل اہلِ سنت کلام میں اشعری اور ماتریدی کے پیروکا ر تھے۔ وہابی فرقے کے بانی کا تعلق دمشق کے حنبلی علماء سے تھا وہ ابن تیمیہ اور ابن القیم الجوزیہ کی تعلیمات سےمتاثر تھے، اس لئے وہابی عقیدے کے اصول وہی ہیں جن کے لئے یہ جلیل القدر حنبلی عالم عمر بھر لڑتے رہے۔ ابتدائی طور پر اہل حدیث علماء نے اس باب پر کوئی دوسرا نقطہ ٔ نظراختیار نہ کیا لیکن رفتہ رفتہ انھوں نے عقائد اورکلام میں امام ابن ِ تیمیہ اور امام ابنِ قیم کی روش اختیار کر لی۔ قرون ِ وسطی میں انہوں نے عقائد کی اصلاح سے متعلق اپنے نظریات پیش کئے۔ اس مسلک کے لوگ دین میں رائے اور قیاس کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے۔ اور خدا کو تجسیم و تشبہ کی ہر صورت سے پاک سمجھتے ہیں۔

عقائد

اہل حدیث اپنے آپ کو عملاًاہل ِ سنت کہلاتے ہیں اور مذہباً اہل الحدیث۔ان کے اصول ِ سنت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے طریقے کو لازماً پکڑیں اور ان کی اقتدا کریں اور بدعت ترک کر دیں۔ کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ شیخ محمد اکرام اپنی کتاب " موجِ کوثر " میں اہل ِ حدیث کے عقائد کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

اسلامی روایات کو برقرار رکھنے ،دوسرے مذاہب کا مقابلہ کرنے اور ردّ شرک و بدعت میں یہ جماعت سب سے آگے ہے۔ مسلمانوں کو فضول رسموں سے بچانے ،بیاہ ،شادی ،ختنے اور تجہیز و تکفین کی فضول خرچیوں سے روکنے اور پیر پرستی و قبر پرستی کے نقائص دور کرنے میں بھی اس جماعت نے بڑا کام کیا ہے۔اور اگر یہ لوگ جزوی اختلافات اور فروعی باتوں پر اپنا زور صرف کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بنیادی اصلاحوں اور رسوم و اخلاق کی درستی کے لئے وقف کر دیں۔اور معمولی باتوں پر کفر کے فتوے جاری نہ کر دیا کریں تو انہیں اپنے نام میں بڑی کامیابی حاصل ہو ۔اور قومی زندگی میں ان کا مرتبہ بلند ہو جائے۔[11]

اہل حدیث پاکستان کے قرب و جوار میں فقہی،علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

شیعہ مسلک

شیعہ یا اہل تشیع اہل سنت کے بعد مسلمانوں کا بڑا مسلک ہے۔شیعت کے حوالے سے یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ابتدا کیسے ہوئی؟اور کن وجوہات کی بناء پر شیعت نے ایک مسلک کی صورت ختیار کی اور تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتا ہوا یہ مسلک آج بھی پورے عالمِ اسلام میں موجود ہے۔ امام الاشعری نے شیعہ کے عقائدکی سب سے جامع تعریف کی ہے۔لکھتے ہیں:

"الشيعة هم الذين شايعوا عليّاً - رضي الله عنه - على الخصوص، وقالوا بإمامته وخلافته نصّاً ووصية إما جليّاً، وإما خفيّاً، واعتقدوا أن الإمامة لا تخرج من أولاده، وإن خرجت فبظلم يكون من غيره أو بتقيَّة من عنده وقالوا: "ليست الإمامة قضية مصلحية تناط باختيار العامة" وينتصب الإمام بنصبهم، بل هي قضية أصولية وهي ركن الدين۔"[12]

شیعہ مسلک سے مراد وہ لوگ ہیں جو حضرت علی کے پیرو کار ہیں۔ خاص طور پر امامت و خلافت کے حوالے سے نص اور وصیت کے قائل ہیں۔ اور ان کا اعتقاد یہ ہے کہ امامت ان کی اولاد کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں۔ اگر ظلم و تعدی سے کسی غیر کو امام بنا دیا گیا تو یہ ظلم ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ امامت مصلحت کی بنیاد پر نہیں جس کو عوام الناس اختیار کریں بلکہ یہ امامت دین کا ایک رکن اور اصولی حکم ہے ۔

سید ابوالا علیٰ مودودی اپنی کتاب " خلافت و ملوکیت "میں لکھتے ہیں: "حامیان ِ علی ؓ کا گروہ ابتداء میں شیعان ِ علی کہا جاتا تھا،بعد میں اصطلاحاً انہیں صرف شیعہ کہا جانے لگا۔ "[13]

عقائد

شیعہ عقائد و فقہ میں قرآن و سنت اور تمام مسائل میں ائمہ اہل ِ بیت سے رجوع کرتے ہیں۔شیعہ نقطۂ نظر سے اسلام چند عقائد و اعمال کا مجموعہ ہے جس کے اساسی عقائد کو اصول اور بنیادی اعمال کو فروع اور ارکان اسلام کہا جاتا ہے۔شیعہ کے اصول ِ دین پانچ ہیں۔

"(أصول الدين) العقائد الأساسية، وهي أجمالا التوحيد والنبوة والعدل،والإمامة والمعاد"[14]

اصل ِ دین جو اساسی عقائد ہیں وہ اجمالاً توحید،نبوت ، عدل ،امامت اور معاد(آخرت) ہیں۔الکاشف الخطاء لکھتے ہیں:

" ان الدین ینحصر فی قضایا خمس:(١) معرفة الخالق(٢)معرفة المبلغ (٣) معرفة ما تعبدبہ و العمل بہ (۴) الاخذ بالفضیلة و رفض الرذیلة (۵)الاعتقاد بالمعاد و الدینونة"[15]

جہاں تک اثنا عشریہ عقائد کا تعلق ہے ان کے بنیادی اصول پانچ ہیں۔۱۔خالق کی معرفت ۲۔اس کے مبلغ کی پہچان ۳۔مسائل عبادت اور طریق عمل کی پہچان ۴۔نیکیوں کا حصول اور برائی سے اجتناب۵۔معاد اور سزا و جزا کا اعتقاد۔

امام جعفر صادق ؑ کی علمی و عملی بلندی کو شیعہ مسلک کے فروغ میں اہم مقام حاصل ہے۔آپؑ کے حلقہ ٔ درس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ،امام مالک ؒ بن انس ،سفیان بن عینیہ ،سفیان ثوری ،شعبہ بن حجاج اور فضیل بن عیاض ایسے فقہا و محدیثین نے زانوتلمذ طے کئے۔

 

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اصول

مسالک کے مختصر تعارف سے یہ حقیقت مترشح ہے کہ عقائد میں تمام مکاتب ِ فکر متفق ہیں ۔عبادات اور دیگر اسلامی شعار میں جزوی و فروعی اختلافات ایسے نہیں ہیں کہ جنہیں ٹاپا نہ جا سکے۔ذیل میں ان اصولوں کو نکات کی صورت میں بیان کیا جا رہا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیادیں استوار ہو سکتی ہیں۔

کتاب و سنت سے تمسک

قرآن و سنت تمام مکاتب ِ فکر کے درمیان ہم آہنگی کی بنیاد ہے۔جو تمام مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد کا درس دیتا ہے۔سورۃ آلِ عمر ان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾[16]

اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔

مذکورہ بالا آیت میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے سے مراد ہے کہ قرآن کریم اور شریعت کو مضبوطی سےتھام لینا۔جس طرح رسّی کو پکڑلینا اوپر سے گرنے سے بچاتا ہے اور نیچے سے اوپر پہنچنے کا ذریعہ بن جاتا ہے،اسی طرح قرآن کریم اور دینِ اسلام کو مضبوط پکڑنا بندے کو خدا تک پہنچاتا ہے اور آگ میں گرنے سے بچاتا ہے ۔ یہ اعتصام باللہ قرآن و سنت سے تمسک ہے جس پر تمام اسلامی مکاتب ِ فکر متفق و ہم آہنگ ہیں۔قرآن ِ کریم کی آفاقی تعلیمات پر خلوصِ دل سے عمل پیرا ہو کر تفرق و تشتت کی آگ سے بچتے ہوئے ہم آہنگی ،اتحاد و اتفاق کے پیغام کو عام کر کے مسلکی منافرت سے بچاجا سکتا ہے۔

توسط اور میانہ روی اختیار کرنا

امت وسط کا لقب امت ِ مرحومہ کواس لیے عطا کیا گیا ہے کہ وہ ایسے نظام حیات کی حامل ہے، جو اعتدال پر مبنی ہے اوردین کی اصل راہ پر قائم ہے۔ تمام امتوں میں بہترین امت کہلانے کا حق اسی وصف کی بنا پر حاصل ہواہےکہ وہ افراط و تفریط سے پاک ہے۔اعتدال پر ہونے کے وصف کو قرآن ِ پاک میں بیان کیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾[17]
اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے ۔

یعنی ایسی امت جو ہر لحاظ سےمتوازن ہو ۔اعتدال پر چلنے والی ہو۔امت ِ اسلامیہ اعتقادی،اخلاقی اور عملی زندگی میں ایجابی اسلبی دونوں قسم کی اخلاقی خوبیوں سے متصف ہو۔ یہ اعزاز امت ِ مسلمہ کو حاصل ہے۔بحیثیت ِ مسلمان ہمیں اعلیٰ اخلاقی اوصاف ؛صبر و استقامت،برداشت،تحمل و بردباری کا درس عام کرتے ہوئے باہمی منافرت سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ [18]

تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی ہدایت کیلئے میدان میں لایا گیا ہے کہ تم نیک کام کرنے کو کہتے اور برے کاموں سے روکتے ہو ۔

غلو اور افراط و تفریط سے اجتناب کرنا

انسان حقوق و فرائض کے ابدی اور عالمی منشور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فی الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّينِ)) [19]
اے لوگو! دین میں غلو سے بچو۔بے شک تم سے پہلے کی (اقوام ) دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

اسلام میں مسالک میں تشدد کی بنیادی وجہ ہی غلو ہے۔اس کے مضر اثرات سے بچنے کا واحد طریقہ اسوۂ رسول ﷺہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگیوں کو اسوہ ٔ رسول ؐ میں ڈھال کر اپنے آپ کو ہلاکت سے بچا ئیں۔

اختلاف اور اس کے اسباب سے بچنا

سلف صالحین کو امت کے مزاج و مذاق کا صحیح فہم تھا۔وہ جانتے تھے کہ دین کے اصول و بنیاد اور اساس کیا ہیں؟ انھوں نے ہمیشہ دین کے فروغ کے لئے تفقہ کیا۔حضرت ابن ِ عباس ؓسے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :

((عَلِّمُوا، وَيَسِّرُوا، وَلا تُعَسِّرُوا، وَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْكُتْ))[20]

لوگوں کو علم سکھاؤ ،آسانیاں پیدا کرو ،مشکلات پیدا نہ کرو اور جب تم میں سے کسی کو غصّہ آئے تو اسے سکوت اختیار کر لینا چاہیے۔

سلف صالحین کاطرز عمل امت کو شر سے بچانا تھا۔ صحابہ ڈرتے ڈرتے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے اور انہیں بھی یہ خوف لاحق رہتا کہ اس سے کہیں امت میں انتشار اور تفرقہ پیدا نہ ہو جائے ۔حضرت عثمان ؓ حج کے زمانہ میں جب مکّہ تشریف لائے تو منیٰ میں قصر نماز نہ پڑھی ۔چار رکعتیں پڑھیں۔ حالانکہ باہر سے آنے والے مسافرت کے سبب دو رکعتیں پڑھتے۔ عبداللہ بن مسعود ؓنے بھی ان پر اعتراض کیا ۔لیکن خود بھی چار رکعتیں ادا کیں۔یہ دیکھ کر لوگوں نے ان سے پوچھا((عِبْتَ عَلَى عُثْمَانَ ثُمَّ صَلَّيْتُ أَرْبَعًا)) یعنی تم نے حضرت عثمان ؓ پر اعتراض کیا اور خود چار رکعتیں پڑھیں؟ ابنِ مسعود نے جواب دیا:((الْخِلافُ شَر)) [21]مخالفت بری بات ہے۔

اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنا

صحابہ کرامؓ نے کبھی ایک رائے پر اصرار اور دوسری رائے کے بارے میں عناد کا رویہ نہیں رکھا۔ فروعی مسائل میں ان کا طرز ِ عمل ضد و عناد سے بالا تر تھا۔ انھوں نے اختلاف کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ نے اپنے فتاوی ٰ میں لکھاہے:

>>"فَإِنَّ السَّلَفَ فَعَلُوا هَذَا وَهَذَا، وَكَانَ كِلَا الْفِعْلَيْنِ مَشْهُورًا بَيْنَهُمْ، كَانُوا يُصَلُّونَ عَلَى الْجِنَازَةِ بِقِرَاءَةٍ وَغَيْرِ قِرَاءَةٍ، كَمَا كَانُوا يُصَلُّونَ تَارَةً بِالْجَهْرِ بِالْبَسْمَلَةِ، وَتَارَةً بِغَيْرِ جَهْرٍ بِهَا، وَتَارَةً بِاسْتِفْتَاحٍ وَتَارَةً بِغَيْرِ اسْتِفْتَاحٍ، وَتَارَةً بِرَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الْمَوَاطِنِ الثَّلَاثَةِ، وَتَارَةً بِغَيْرِ رَفْعِ الْيَدَيْنِ، وَتَارَةً يُسَلِّمُونَ تَسْلِيمَتَيْنِ، وَتَارَةً تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً، وَتَارَةً يَقْرَءُونَ خَلْفَ الْإِمَامِ بِالسِّرِّ، وَتَارَةً لَا يَقْرَءُونَ، وَتَارَةً يُكَبِّرُونَ عَلَى الْجِنَازَةِ أَرْبَعًا، وَتَارَةً خَمْسًا، وَتَارَةً سَبْعًا كَان فِيهِمْ مَنْ يَفْعَلُ هَذَا، وَفِيهِمْ مَنْ يَفْعَلُ هَذَا. كُلُّ هَذَا ثَابِتٌ عَنْ الصَّحَابَةِ."<<[22]

سلف نے دونوں طرح عمل کیا اور دونوں فعل ان میں مشہور تھے۔بعض سلف نمازِ جنازہ میں قرأت کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے ،کبھی بسم اللہ نماز میں اونچی پڑھ لیتے تھے اور کبھی آہستہ،کبھی افتتاح والی دعا پڑھ لیتے تھے اور کبھی نہیں۔کبھی رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے اور تیسری رکعت شروع کرتے وقت رفع یدین کر لیا اور کبھی تینوں موقعوں پر نہ کیا۔نماز پوری ہونے پر کبھی دونوں طرف سلام پھیر لیتے اور کبھی ایک طرف،کبھی امام کے پیچھے قرأت(فاتحہ اور سورت) کر لیتے اور کبھی نہ کرتے۔ نماز جنازہ پر کبھی سات تکبیریں کہتے ،کبھی پانچ۔ کبھی چار۔ سلف ان میں سے ہر طریقے پر عمل کرنے والے تھے اور یہ سب اقسام عملِ صحابہ سے ثابت ہیں۔

سلف صالحین نے فقہی اختلافات میں معتدل راہ اور طرزِ عمل اپنایا۔ان کی زندگیوں کے روشن صفحات اعتدال اور رواداری کا سبق دیتے ہیں۔اس کے علاوہ صحابہ و تابعین اور اسلافِ امت کے بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ انھوں نے اس اختلاف کے سلسلے میں نہایت کشادہ دلی ،وسعت ِ قلبی اور اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا۔کیونکہ انھیں اس حقیقت کا احساس تھا۔کہ امتِ مسلمہ کو آپسی اتحاد کی ضرورت ہے۔

عقیدۂ توحید پر کلی طور پر کاربند رہنا

افتراق اور فرقہ بندی دین کی اصل نہیں ہے ۔دین کی اصل وحدت، جماعت یعنی اجتماعیت اور اور امت ہے ، اسی کی طرف قرآن دعوت دیتا ہے :

﴿ إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ﴾[23]

یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو ۔

مسلمان فرقوں کو عقائد و اعمال کے مشترک پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے ہم آہنگی کی فضا کو فروغ دینا چاہیے ۔اسلام کی اتنی واضح و بیّن تعلیمات کے ہوتے ہوئےاسلام اور پیغمبر اسلام رحمت اللعالمین ﷺکے ماننے والوں کو جس طرح فرقہ واریت و انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انتہائی قابل ِمذمت ہے۔

مسالک کے مشترکات سے استفادہ کی ضرورت و اہمیت

تمام مکاتب ِ فکر دین کے بنیادی عقائد توحید،رسالت ،الہامی کتب،فرشتوں ،آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ پانچوں عقائد اسلام کے بنیادی عقائد ہیں جو انسان کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔اُسے اس کائنات میں اپناصحیح مقام اورحیثیت یاد دلاتے رہتے ہیں اور وہ یہ بھول نہیں پاتا کہ اس دنیا میں وہ اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے آیا ہے۔ جس نے ہر کام اپنے خالق و مالک کی رضا کے لیے سرانجام دینا ہے۔ یہی نظریات بین الاقوامی سطح پرانسان کوایک دوسرے کے قریب لانے میں مددگار ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔

بنیادی عقائد پر ایمان لانے کے بعد شریعت کے وضع کردہ احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ جوضروریات دین ہیں۔ ضروریاتِ دین ،دین کے ان بنیادی اعتقادات کو کہتے ہیں ،جن کا علم ہمیں قطعی اور بدیہی طور پر ہو، وہ ضروریات دین میں داخل ہیں۔ ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت دینی کا انکار کرنے والا بھی مسلمان نہیں ہے، چاہے وہ زندگی بھر اپنا سر عبادت کے لئے سجدے میں رکھے ہوئے کیوں نہ ہو۔ مولانا اللہ یار خان "ضروریاتِ دین " کے زیر عنوان یوں رقمطراز ہیں:

تمام ضروریاتِ دین کا ماننا ایمان ہے اور ان میں سے بعض کا یا کسی ایک کا انکار کرنا کفر ہے۔توحید ِ باری تعالیٰ ۔ توحیدِ ذاتی ،توحیدِ صفاتی ،نبوت ،قیامت ،نشر،حشر،حساب و کتاب ،وزن اعمال ،میزان،پل صراط ،جنت،دوزخ ،نعمائے جنت ،عذاب ِدوزخ ،کراماً کاتبین کا سوال و جواب ،قبر میں عذاب و ثواب،قبر،حوض کوثر۔ان کے علاوہ حلال و حرام کے سلسلے میں سود حرام ہے،زنا،قتل،شراب ،خنزیر حرام ہے۔ارکان اسلام نماز،روزہ، حج ،زکواة سب ضروریات ہیں ان کا ثبوت متواتر ہے۔[24]

ان تمام امور میں تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔ ہمارافرض ہے کہ اسلام کی صاف و شفاف چادر پہ جو چند دھبے ہیں انھیں نظر انداز کرتے ہوئے اس کے بے داغ حصے کو اہمیت دیں۔امت میں چند امور میں اختلافات ہیں۔ جن میں فروعی و نظریاتی اختلافات ہیں۔فقہی اختلاف کی حقیقت اور اس کا پس منظر جاننے کے لئے چند امور سے آگاہی ضروری ہے۔قرآن و سنت کی شکل میں احکام ِ شریعت کا جو مجموعہ امت کو عطا کیا گیا اس کے دو حصّے ہیں،ایک حصّہ ایسے منصوص احکام کا ہے جنہیں قرآن یا حدیث میں ان کی جزئیات کی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے ۔جیسے ،میراث کے احکام،محرمات خواتین جن سے نکاح حرام ہے۔قصاص کے بعض احکام وغیرہ دوسرا حصّہ ایسے احکام کا ہے جن میں صرف اصولی ہدایات دی گئی ہیں،یہ حصّہ بہت بڑا اور وسیع ہے اور یہی فکر و فہم کی جولانگاہ ہے۔تمام مکاتب ِ فکر کا بنیادی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں۔ہاں فقہی بنیادوں پر فروعی اختلافات ہیں ۔

مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ شریعت کی بنیادی اور اصولی تعلیمات بالکل واضح اور دو ٹوک ہیں۔جن میں کسی قسم کی پیچیدگی اور جھول نہیں پایا جاتا۔جن میں توحید و رسالت کا اقرار،عقائد اور امورِ آخرت سے متعلق چیزیں اور دین کی وہ بنیادی باتیں شامل ہیں جو قطعی دلائل سے ثابت ہیں ۔ان سے سرِ مو انحراف بسا اوقات انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر کے کفر و شرک کی حدود میں شامل کر دیتا ہے۔یہ منصوص احکام کہلاتے ہیں۔دوسرے احکامات وہ ہیں جو شریعت کی جزوی تفصیلات اور فقہا کی تحقیقات ،تدقیقات سے تعلق رکھتے ہیں ،جنہیں شریعت کی اصطلاح میں "امورِ مجتہد فیہا " کہا جاتا ہے۔یہ غیر منصوص احکام کہلاتے ہیں۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے توامور عملی میں فروعی اختلافات کے باوجود بیشتر امور میں مسلمانوں کے مابین اتفاقِ رائے ہے ۔یہ اتفاق معاملات اور معاشرتی و سماجی امور میں تو بہت زیادہ ہے ۔مثلاً سود ،شراب اور زنا کی حرمت پر سب کا اتفاق ہے۔عبادی امور میں بھی نماز ،روزہ ،حج اور زکواة وغیرہ کے وجوب پر سب کا اتفاق ہے ۔عقائد میں بھی بنیادی امور پر اتفا ق ہے۔قرآن حکیم پر سب کا اتفاق ہے ۔کعبۃ اللہ کا سب احترام کرتے ہیں۔پھر اختلافی امور پر ہی بات کیوں کرتے ہیں۔سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 

﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾[25]

پھر اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

((مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ))[26]

یعنی جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے ،جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے تو تم اللہ کے ذمے میں خیانت نہ کرو۔

دین کی استقامت کے لئے آپس کے معاملات کی درستگی ،اتفاق واتحاد ناگزیر ہے ، اگر اسلام کی تعلیمات امن و رواداری پر عمل نہ کیا توہم اپنے مخالفین کے لئے تر نوالہ ثابت ہو ں گے ۔یہ وقت کی پکار ہے کہ امتِ مسلمہ اس نازک معاملے کا احساس و ادراک کرتے ہوئے فروعی و فقہی اختلافات کو وسعت اور نظریاتی اختلافات کو برداشت کرے تاکہ ایک پر امن اورخوشحال اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکے ۔جب ایمانیات و عبادات کے فرائض میں یکسانیت ہے تو جھگڑا کس بات کا؟اس تمام بحث کا حاصل تمسک بالقرآن والسنہ ہے۔ صابر نظامی اپنی کتاب فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے میں دین کے مشترکات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان بنیادی و اعتقادی قدریں سب مشترک ہیں۔اسلامی عقائد کا سارا نظام انہیں مشترک بنیادوں یعنی توحید،رسالت،ختم نبوت،آخرت،قرآن اور وحدت کعبہ پر کھڑا ہے-مسلمانوں کی نہ صرف عقائد و اعمال کی ساری بنیادیں مشترک ہیں بلکہ ارکان اسلام نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج وغیرہ قواعدِ اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر، قواعدِ اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر،بھی مشترک ہیں ۔اگر کہیں اختلاف ہے تو وہ محض فروعی ہے-جس کو نظر انداز کر کے متحد ہوناممکن بلکہ بڑا آسان ہے۔[27]

دین کے مشترک اہداف سب کے نزدیک اہم ہیں اور وہ یہ اہداف ہیں ۔

  1. دین کے لیے دعوت دینا۔
  2. کے کلمے کو بلند کرنا۔
  3. دشمنوں کی سازشوں کی تردید کرنا۔

الغرض ،بین المسالک ہم آہنگی کانقطہ آغاز تنوع کو سمجھنا اور اس کا احترام ہے۔ الزام و التزام کے کلچر نے اس خطے کے مسلمانوں کو مسلکی جنگ میں جھونک دیا ہے۔علم و دلیل کی بجائے جبر،دھونس ،گالی اور گولی کی زبان نے تنوع کی نفی کا عملی ثبوت دیاہے۔ اگر ہم ایک خوشحال، پُر امن اور مستحکم پاکستان کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو تنوع میں جینے کے درس کو عام کر کے ہی پُرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔

نتائج

خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں ملی وحدت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت کی ہو رہی ہے۔ دینی مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے نصاب میں رواداری اور قومی اہداف کو ترجیح دینے کے لئے قومی کونسل کی ”نصاب کمیٹی “ نے کام شروع کر دیاہے۔ نصابِ تعلیم میں اصلاحات کیلئے تمام مسالک کے علماءومشائخ کا اتفاق بہت خوش آئند ہے۔وزارتِ مذہبی امور کے تحت قائم کی گئی علما ءو مشائخ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مذہبی امور سردار محمدیوسف نے کہا کہ :

’’تمام مسالک مشترکات پر جمع ہو جائیں اور اختلافات سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا کہ مشترکات 98فیصد جبکہ فروعی مسائل میں اختلافات صرف 2فیصد ہیں۔ وزیر مذہبی امور کی اس بات سے علماءنے اتفاق کیا ۔‘‘[28]

مذہبی ہم آہنگی ،مشترکات ِ مسالک سے استفادہ کے لئے کئی مسائل درپیش ہیں۔ان مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے اگر امت کے وسیع تر مفاد کے لئے درج ذیل عناصر اپنا کلیدی کردار ادا کریں:

  1. میڈیا کا کردار
  2. مذہبی سکالرز
  3. نصاب سازی کا کردار
  4. عدم برداشت کا کلچر

اسلام دین ِ کامل ہے۔یہ دین ِ مکالمہ ہے ۔رسالت کا مطلب ہی پیغام ہے۔پیغام کا ابلاغ مکالمے کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتا۔رسالت کا دروازہ بند ہوچکا ہے یہ میڈیا ہی ہے جو عصر ِ حاظر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے اگر میڈیا ذاتی مفادات سے بالا ہو کر مکالمے کے آفاقی پیغام کو سمجھیں۔مکالمہ اسوہ ٗ حسنہ ہے۔

جلال الدین رومی ؒ اور علامہ اقبال ؒ جیسے مفکرین مکالمہ کے داعی تھے۔تمام مسلمان ایک امت ہیں ۔آخری امت ہونے کے حوالے سے اس پہ کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سر ِ فہرست امت کا اتحاد اور افتراق و اختلاف سے بچنا ہے ۔امت کے عمائدین و مبلغین کا یہ فرض ِ اولین ہے کہ وہ مشترکات کو فروغ دیں اور ہم آہنگی کی بنیادیں جو واضح اور دین کی اساس ہیں جن عقائد پر ایمان کے بعد ہی ہم دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اس کی فکر کو عام کریں۔

پاکستان میں مسلکی ہم آہنگی کے لئے یکساں نظام تعلیم کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یکساں نظام تعلیم کے لیے ملک کے سیکولر اور دینی طبقے دونوں کو راہ اعتدال اختیار کرنی پڑے گی۔اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نیا نظام ِ تعلیم شروع کریں جو دونوں نظام ہائے تعلیم کا جامع ہو۔ان کی مفید اور کار آمد چیزیں رکھ لی جائیں اور بیکار اور فرسودہ اجزاء کو چھوڑ دیا جائے۔نئے نظام ِ تعلیم کی بنیاد قرآن و سنت کی روشنی میں استوار کی جائے۔نصاب ،معلمین و مبلغین ایسے ہو ں جواخلاقی اوصاف سے متصف ہوں ،مسلکی رواداری کا درس دے کر ہمیں اتحاد کی لڑی میں پرو دیں۔

تجاویز و شفارشات

  1. ملکی حالات و واقعات تو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر مسلک و مشرب کے جیّد علماء پر مشتمل مسلکی فورم تشکیل دیا جائے جو مسالک کے مشترکات کو مدّنظر رکھتے ہوئے فتویٰ جاری کرنے کے مجاز ہو۔
  2. مدارس کے طلباء کے درمیان روابط کو فروغ دیا جائے ۔طلباء کے مابین مکالمے کا آغاز کیا جائے۔
  3. میڈیا فرقہ واریت کی بجائے مشترکات ِ مسالک پر مبنی پروگرام نشر کرے اور ہم آہنگی مابین ِ مسالک کو فروغ دے۔
  4. سماج کے اندر رہتے ہوئے سماجی رویوں کو سیرت مصطفی ﷺ کے قالب میں ڈھلنے کی روایات کونصاب، پرنٹ میڈیا کے ذریعےہر سطح پر عام کیا جائے۔

المختصر،پاکستانی معاشرے کومسالک کے مشترکات کا شعور و آگاہی دلا کر ہم آہنگ معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔پاکستانی معاشرے میں انتشار و افتراق کی بنیادی وجہ محض کم عملی ، جہالت، دین کے احکام سے عدم واقفیت اور اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔اس کے لیے علمائے کرام کو وعظ و تذکیر سے کام لینا چاہیے ۔ بچوں کے تعلیمی نصابات میں عقائد کی یک جہتی اورتفرقے و تشتت کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کو خصوصیت سے اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔ آپﷺ کی تعلیمات اخوت و رواداری کا درس دیتی ہیں۔ہمیں افتراق و مناقشات کی مذمت کرتے ہوئے امت کے وسیع تر مفاد کے لئے اتحاد و ہم آہنگی ،مسالک کے مشترکات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ امت ِ مسلمہ کو مزید تقسیم و گروہ بندی سے بچا سکیں۔

 


  1. ابو الاعلیٰ مودودی، اسلامی ریاست، ( لاہور : اسلامک پبلیکیشنز،1947ء)، 514۔
  2. کمال الدین، "فرقہ واریت ہے کیا؟ http://www.eeqaz.org/eeqazarticles.aspx?sanid=135&articlename=06Mohid, accessed on 8- 6-19
  3. محمد ایوب قادری، تذکرہ ٔ علمائے ہند(کراچی: پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی ، 1961ء) ، 98۔
  4. محمد سرفراز خان صفدر،تفریح الخواطر فی رد ّ تنویر الخواطر (گوجرانوالہ: ادارہ نشر و اشاعت :مدرسہ نصرۃ العل،1977ء)، 58۔
  5. خلیل احمد سہارنپوری ،المھند علی المفند(لاہور: ادارہ اسلامیات ، 1984ء)، 29۔
  6. امام ابو الحسن اشعری ؒکے طرف منسوب مکتب ٔ فکر ہے جو چار واسطوں سے ابو موسی اشعری صحابی رسول اللہ ﷺکی اولاد سے ہیں۔ ان کے کلامی نظریات کو ماننے والوں کو اشاعرہ کہا جاتا ہے۔
  7. امام ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب مکتبٔ فکرہے۔جو تین واسطوں سے امام محمد بن حسن شیبانی کے شاگرد ہیں جو امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد اور امام شافعی ؒکے استاد ہیں۔ ان کے کلامی نظریات کو ماننے والوں کو ماتریدیہ کہا جاتا ہے۔
  8. محمد ادریس کاندھلوی ،عقائدالاسلام،حصہ اوّل-دوم(کراچی: ادارہ اسلامیات ، 2010ء)،ص:,254
  9. ابراہیم سیالکوٹی ، تاریخ اہل حدیث(لاہور: اسلامی پبلیشنگ کمپنی 1935ء)،26۔
  10. ایضا۔،48۔
  11. محمد اکرام ،موجِ کوثر (لاہور: فیروز سنز، 1985ء)، 55۔
  12. ابو الحسن الأشعری،مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين (بیروت:المكتبہ العصريہ ، 1426ھ)، 1:65
  13. سید ابو الاعلیٰ مودودی ،خلافت و ملوکیت(لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، 1984ء)، 210۔
  14. احمد فتح اللہ،معجم ألفاظ الفقه الجعفری(الدمام: منشورات مرکز اسلامی، 1415ھ)، 1:40۔
  15. محمد حسین آل کاشف الغطاء’اصل الشیعہ و اصولھا مقارنہ مع المذاہب الاربعہ ‘‘ دار الاضواء للطباعۃ و النشو التوزیغ،ص:۹۲
  16. القرآن 3:103
  17. القرآن 2:143
  18. القرآن 3:110
  19. ابو عبداللہ محمدبن یزید ابن ماجہ، السنن ابن ماجہ ، حدیث: 3029، دار إحياء الكتب العربیہ ،2:1008۔
  20. احمد بن محمد بن حنبل ،المسند،مسند عبد اللہ بن عباس(شہر:چھاپہ خانہ،سن)حدیث : 2136، 4:39۔
  21. سلیمان بن اشعث ابو داؤد سجستانی ، السنن(ریاض: دارالسلام ،1427ھ )،حدیث:1960، 2:199۔
  22. أبو عبد الرحمن عبد الله بن صالح العبيلان، رَدُّ الجَمِيلِ فِي الذَّبِّ عَن إرواء الغليل وَهُوَ رَدٌّ عَلَى كِتَابِ (مُسْتَدْرك التَّعْلِيل)، دَارُ اللُؤْلُؤَة لِلطبَاعَةِ وَالنَّشْرِ، بيروت - الدَّارُ الأثريَّةُ لِلطبَاعَةِ وَالنَّشْرِ والتوزيع، الأردن ،1431 هـ ،۲۲۵:۱۔
  23. القرآن 21:92
  24. اللہ یار خان، عقائد و کمالات علمائے دیوبند(منارہ: ادارہ نقشبندیہ اویسیہ دار العرفان ،منارہ، 1999ء)، 24-25۔
  25. القرآن 4:59
  26. بخاری ، الجامع الصحیح ، أبواب القبلہ، بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ،حدیث : 391، 1:87۔
  27. صابر نظامی ، رانا ،فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے(لاہور: ادارہ تفہیم ِ اسلام، 1985ء)،23-29۔
  28. = بین المسالک ہم آہنگی پر مشتمل کتاب تیارکرا کر تمام مدارس میں پڑھائی جائے گی: =
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...