Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 2 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Effects of Hindu Civilization on Muslim Culture and Civilization: A Review from Pakistan’s Context |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

تعارف

تہذیب و تمدن کے لحاظ سےاسلامی تہذیب کی پاکیزگی و لطافت مصممّ ہے۔ اسلامی تہذیب کا ٹکراؤ کئی طاقتور تہذیبوں سے ہوا لیکن اسلامی تہذیب نے اپنی انفرادیت قائم رکھی۔جس کی بنیادی وجہ عقیدہ ٔ توحید اور نبی آخر الزماں کی پاکیزہ اور آفاقی تعلیمات ہیں۔معاشرت وسیاست ،عبادات و معاملات،انفرادی و اجتماعی غرض ہر شعبۂ زندگی سے متعلق واضح و بیّن تعلیمات ہیں۔لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایک گروہ انسانوں کا خواہ وہ کسی بھی قوم و ملت سے تعلق رکھتا ہوجب کسی جگہ اکٹھا ہو کر رہتا ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ سے اکثر ان کی طرزِ معاشرت اوربو دو باش میں مماثلت آنا شروع ہو جاتی ہے جو ان کی غذا ،پوشاک اور اکثر عبادات میں نظر آتی ہے۔ہر معاشرے کی اپنی سماجی اقدار ہوتی ہیں جس سے اس کی تہذیب نمو پاتی ہےاور ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتی چلی جاتی ہے اور احساس تک نہیں ہوتا کہ کس طرح غیر مرئی انداز میں دوسری تہذیب ،ان کے فکر وعمل کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔عوام و خواص رسم و سماج کی بھینٹ چڑھ کر اپنی روایات سے کوسوں دور ہوتے چلے جاتے ہیں یہی کچھ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا ۔اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کا ملاپ پہلی صدی ہجری میں محمد بن قاسم کی ہند میں آمد سے ہی ہوگیاتھا،جب اس نے اہل ہند کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی دی ۔دو جداگانہ مذہب و ثقافت کے حامل لوگ یعنی ہندو اور مسلم ایک ہی ملک میں رواداری کے ساتھ رہنے لگے۔اس دور کے مسلمانوں کی ایمانی طاقت غالب رہی اور انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے ہنود کو متاثر کیا۔مغلیہ دور کی بے جا رواداری نے مسلم معاشرے میں ہندو تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھایا۔جس کی وجہ سے اسلام کی اصل حالت متشکل ہو کر رہ گئی۔مسلمان جو ایک آفاقی مذہب کے حامل ہیں ،جب وہ ہندوؤں کے ساتھ عرصۂ دراز سے رہتے رہے تو ہندؤ تہذیب و تمدن ان کی معاشرت کا جز بن گئی۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔مشہور مؤرخ ابنِ خلدون اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’ تاریخ ِ ابن ِ خلدون‘‘ میں لکھتے ہیں:’’انسان کی فطرت میں اجتماعیت پنہاں ہے‘‘[1]جیسا دیس ویسا بدیس کے مصداق مسلمان بھی ہندوسماج کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔تہذیب کاواسطہ انسانی زندگی کے سماجی و اجتماعی زندگی سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ تہذیب کا لفظ مدنیت اور حضارت کے معنوں میں مستعمل ہے۔جب برّصغیر کی تقسیم ہوئی تو مسلمان اپنے ساتھ وہی تہذیب لائے جس پر ہندو تہذیب کی چھاپ تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جس کی بنیاداسلام اورکلمۂ توحید پر رکھی گئی ہے اور قیام ِ پاکستان کی غرض و غایت اسلامی تہذیب و تمد ن،دینی وملی تشخص اور اسلامی اقدار کا تحفظ وصیانت ہے۔لیکن حقائق اس بات پر دلیل ہیں کہ نظریاتی بنیادوں پر حاصل کیے گئے وطن ِ عزیز کی اسلامی اقدار،عقائد و نظریات پر ہندوانہ تہذیب و ثقافت کے اثرات اتنے نمایاں ہیں کہ وہ پاکستانی معاشرے کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کر چکے ہیں ،جن سے عوام و خواص دونوں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسلام نے مسلمانوں کو واضح سمت عطا کی جس کی بنیاد توحید و رسالت اور تقویٰ و ایمان پر ہے۔پاکستانیوں کو اس پر ناز ہونا چاہیے کہ وہ جس تہذیب کے امین ہیں وہ اللہ کی ودیعت کردہ ہے۔یہ وہ تہذیب ہے جس نے روم و عجم کے غرور کو پامال کیا۔لیکن آج وہی تہذیب ہندو تہذیب کے زیر ِ اثر ہے۔یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ اخلاقی و سماجی اصلاح و تہذیب کے بغیر کسی بھی تمدن کی انفرادیت قائم نہیں رہ سکتی۔اسلامی تہذیب و تمدن اس خطہ ٔ ارض میں کئ ہزار سال پرانی ہےجسے ہندؤ،بدھ مت کی تہذیبیں بھی نہ مٹا سکیں لیکن اپنے اثرات ضرور مرتب کئے ہیں ۔یہ اثرات پاکستانی معاشرے میں وقت گزرنے کے ساتھ مسلم ثقافت کا اہم اور ناگزیر حصہ بنتےچلے جا رہے ہیں۔

عصر حاضر میں پاکستانیوں کو جہاں معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج ثقافتی و تہذیبی حملہ ہے جوباقاعدہ جامع منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے میڈیا اور ثقافت کے نام پر کیا جا رہا ہے اور پاکستان کا ہر فرد خواہ وہ کتنا ہی دیندار اور حب الوطن پاکستانی ہے اس ثقافتی یلغار کی زد میں ہے ۔عبادات ،پیدائش ،غمی وشادی غرض زندگی کا کوئی پہلوایسا نہیں جو ہندو تہذیب کے زیرِ اثرنہ ہو ۔زیر ِ نظر مقالے میں پاکستان کے تناظر میں عقائد و رسومات پر ہندوانہ تہذیب کے اثرات کا تنقیدی وتجزیاتی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لئے عبادات اور طرز معاشرت کا احاطہ کیا جائے گا۔ جو پاکستانی معاشرے کی معاشرت کا جزو لا ینفک بن چکا ہے۔اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں اس کا تدارک پیش ِکیا جائے گا۔

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

زیر تحقیق موضوع پر متقدمین و متاخرین نے سیر حاصل علمی و ادبی ذخیرہ چھوڑا ہے ۔جن میں تاریخ دان البیرونی نے ہندو معاشرت کی عمدہ عکاسی کرتے ہوئے شہرۂ آفاق کتاب کتاب الہند لکھی۔[2] مولانا عبید اللہ کی کتاب تحفۃ الھند[3]میں ہندو عقائد کا تفصیلی ذکر ہے۔ مسلمانانِ ہند کے افکارو نظریات کی اصلاح، مشرکانہ عقائد و رسوم کی بیخ کنی اور توحیدِ خالص کی دعوت ،ترویج و اشاعت کے لئے مجدد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے غیر معمولی جدوجہد کی اور ہندی مسلمانوں کے فکر وعقیدہ کی تصحیح وتحفظ کے لیے اپنی تصانیف کے ذریعے اسلام کے صحیح نظریات کو نمایاں کیا اور غلط عقائد و افکار کو جو مسلمانانِ ہند میں در آئے تھے ،اس کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا۔ ان میں سرِ فہرست شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات،[4] شاہ ولی اللہ کی التفہیمات الالہیہ[5] اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تکمیل الایمان و تقویت الایقان[6] ‘شامل ہیں ۔اس کے علاوہ شیخ محمد اکرام کی رودکوثر[7]جس میں اسلامی ہند و پاکستان اور عہد مغلیہ کی مذہبی و علمی تاریخ پر بیان ملتا ہے ۔سید ابوالحسن علی ندوی،تاریخ دعوت و عزیمت[8] میں تاریخ کے حوالے سے دعوت وعزیمت کے عمل ِتسلسل کو بیان کیا ہے ۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی تاریخ میں اصلاح اورانقلاب ِحال کی کوششوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان عظیم شخصیات اور تحریکات کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئےاپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیاء وتجدیدِ اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت و صیانت کے کام میں حصہ لیا اور جن کی عملی کاوشوں سے اسلام زندہ اور محفوظ شکل میں اس وقت موجود ہے۔ یہ کتاب جدید تعلیم یافتہ طبقوں اور اسلامی فکر کے حلقوں میں خاصی مقبول رہی،جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کی بیداری سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد عمر کی کتاب،ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر[9] مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج کو بیان کیا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ، قرون ِ وسطیٰ میں مسلمانوں اور ہندؤوں کے رسم و رواج ،معاشرت ،رہن سہن اور عقائد کے تقابلی مطالعہ پر اچھی کاوش ہے۔

اسلوب تحقیق

تنقیدی وتجزیاتی اسلوب کے لئے Qualitative Research Method) ( اپنایا گیا ہے۔تحقیق کا بنیادی مقصد ان نظریات و رسومات: جیسےہندو ذات پات کے نظام کا برصغیر کی معاشرت پر اثر،شادی بیاہ کی رسومات،عبادات اور اسلامی فکر کی روشنی میں ان کا تدارک پیش کرنا ہے جن پرہندو تہذیب کے نمایاں اثرات ہیں ۔مسلمانوں کے عقائد کو اپنی غیر مرئی طاقت کے ذریعے بگاڑنے میں نہایت سرعت کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کی طرف گامزن ہیں ۔کسی کی تہذیب پر حملہ اس کی پرکشش معاشرت کی پر فریب راہیں ہیں۔ہندو تہذیب اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ عام طبقے کو متاثر کرنے کی تمام تر اوصاف سے مزّین ہے۔موضوع کے انتخاب کا بنیادی مقصد ان رسوم و نظریات کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے جو اسلام کی صاف و شفاف تعلیمات میں فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعےاسے گنجلک بنا کر سادہ لوح مسلمانوں کو پیری مریدی کے چکر میں ڈال کر عمل سے دور لے جارہے ہیں۔اور انہیں رسومات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے مقصدِ حیات سے بہت دور لے جا رہے ہیں۔مقالے کا مقصد اسلام کی اصل تعلیمات ،رواداری،سادہ معاشرت اور خالص توحید کی طرف غافل مسلمان کو اپنی اصل کی طرف لانے کی جسارت ہے۔

اسلامی تہذیب کی جامعیت و انفرادیت

تہذیب میں بہت جامعیت ہے،اس سے مراد کسی بھی ملک و قوم کے وہ افکار ونظریات ہیں جو اس کی پہچان ہوتے ہیں۔تہذیب فی نفسہٖ انسانی اجتماعیت کی روح ہے۔ تہذیب انسانی اجتماعیت کا وہ فکری اورتخلیقی نظام ہے جس کا معلم و منتظم مذہب ہے۔ تہذیب رنگ، نسل، زبان، زمین، ملک، قوم، ریاست، قبیلہ، فنونِ لطیفہ، رسم و رواج، اور ہر ظاہری ومادی قدر پر مقدم ہے۔ یہ تہذیب کی روح ہے، جو ظاہری و مادی حالتوں کے لیے راہ متعین کرتی ہے۔ روح ِتہذیب واحد ہے، اس کے کئی مادی مظاہر ہوسکتے ہیں۔ تہذیب ثقافتوں کوضم کرتی ہے، انہیں وحدانیت و یگانگت فراہم کرتی ہےاور مرکز عطا کرتی ہے۔

اسلام دینِ فطرت اوراللہ کا آخری دین ہے جس کے داعی و پیامبر نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔جنہوں نے ریاست ِمدینہ کے طرز پر پہلی اسلامی تہذیب کو متعارف کرایا۔مروّجہ تہذیب کے اُن عناصرکوجو انسانی حقوق کی بالا دستی اور بقائے باہمی پر استوار تھے قائم رکھا ۔

دینِ اسلام آفاقی دین ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اسلام نے عالمگیر تہذیب کا تصور پیش کیا،اعلیٰ اخلاقیات کے سنہری اصول کے حامل دینِ مبین نے ایک قلیل عرصے میں پوری دنیا کو متاثر کیا، اپنے فکری سرمائے سے اہل عالم کوفیض یاب کیا ۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے مقابلے میں اسلام کی تہذیب و ثقافت بالکل منفرد اور امتیازی خصوصیات کی حامل ہے۔ جو بین المذاہب ہم آہنگی اور تہذیبی سنگم کی داعی ہے۔اس نے کشادہ دلی ،اعتدال و توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت تہذیبی عناصر کو اپنی تہذیب میں جگہ دی ۔لیکن مسلم تہذیبی فکرکسی بھی تہذیب کی اسیر نہیں ہوئی جو روح ِ اسلام کو متاثر کرے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نے دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دنیا میں پانچ بڑی بڑی تہذیبیں ہیں جن کا سکہ ابھی تک چل رہا ہے ان میں سے سب سے اول اور اونچے درجے پر اسلامی تہذیب ہےجس نے انتہائی مثبت اور تعمیری انداز میں دوسری تہذیبوں جن میں مشرقی یورپ، مغربی یورپ، چینیوں اور ہندوؤں کی تہذیبیں شامل ہیں انھیں متاثر کیا ۔

اسلامی تہذیب کی انفرادیت کےمتعدد محرکات ہیں۔ اسلامی تہذیب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد و اساس کامل وحدانیت پر ہے ۔اسلامی تہذیب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف و پیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں، ارشاد ربانی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير[10]

ترجمہ:لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے سب سے خبردار ہے۔

قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق، بھلائی اور خلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، اسلام میں ذات پات ،رنگ ،نسل کی کوئی حیثیت نہیں۔یہ تہذیبِ اسلامی کا ہی کمال ہے کہ وہ تمام افراد مایۂ افتخار ہیں، جنھوں نے اس کے قصر ِعظمت کو بلند کیا؛ چنانچہ ابوحنیفہؒ، شافعیؒ و احمد، ؒ[11]، کندیؒ وغزالیؒ اور فارابی وابن رشدؒ ،جن کی نسلیں بھی مختلف تھیں اور جائے سکونت بھی الگ تھی لیکن وحدت ِفکر و نظر،جس کی بنیاد کلمۂ توحید اور نبی آخر الزماں ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات تھیں کے ذریعہ اسلامی تہذیب کا لوہا منوایا ۔اپنے علم و عمل سے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہمکنار کیا۔

یہ مسلمہ امر ہے کہ ہر تہذیب دوسری تہذیب سے قبول ورد کا عمل جاری رکھتی ہے ۔تہذیب کے وہ عناصر جو اخلاقیات کے دائرے میں آتے ہیں اسلام ان کی ممانعت نہیں کرتا۔یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان ہندوستان میں فاتح بن کر آئے تو ہندو اورمسلمان ایک پڑوسی کی طرح رہنے لگے،ایک طویل عرصہ تک ساتھ ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے ایک دوسرے کے فکروعقائد، عادات و اطو ار، رسم ورواج کو سمجھنے کی کوشش کی اور بہت جلد ہی ان دونوں تہذیبوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کیے،اسلام ایک قوت بن کر اُبھرا، یہاں کے باشندوں میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا'بد قسمتی سے ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بھی کوئی خاص بندوبست نہ کیا گیا، قدیم ہندوانہ خیالات اور رسم و رواج نو مسلم جماعتوں میں کم و بیش باقی رہے طرفہ تماشا یہ ہوا کہ مسلم فاتحین بھی اہل ہند کے رنگ میں رنگتے چلے گئے ۔یہاں تک کہ ہندؤوں کےساتھ میل جول بڑھنے،بےجارواداری برتنے سے بہت سی ہندوانہ رسوم مسلم تہذیب سے ہم آہنگ ہونے لگیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب ہی ہے جس نے انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا،جب کلمۂ توحید بلند ہوتا ہے تو ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے ،جس کی بنیاداسلامی تہذیب ہے۔ اِس تہذیب کی بنیاد ہی قرآن وحدیث اور اسوہء حسنہ ﷺہے، جس سے مثالی طرزِ فکر، فکرِ کائنات ،تمدن، لباس، فنِ تعمیر، دردِانسانی ، جستجوِ علم اور فکری و ذہنی آبیاری ہوتی ہے۔

ہندوتہذیب

پندرہ سو سال قبل مسیح آرین اقوام وسط ایشیا سے آکر وادی سندھ کے علاقے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں آباد ہوئیں۔[12] اس خطے کی تہذیب اپنی زرخیزی اوروسائل کی فراہمی کی وجہ سے ایک اعلیٰ تہذیب رہی۔قدیم ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کے جن خطوں میں پہلے پہل انسانی تہذیب و تمدن نے آنکھیں کھولیں، ان میں ہندوستان کو بھی شمار کیا جاتا ہے۔ آ ثار قدیمہ ، ہڑپہ، موہنجود اڑو کی کھدائی میں بعض ایسے قرائن دستیاب ہوئے ہیں جن سےیہ بات عیاں ہے کہ قدیم ہندوستان میں آریوں کی آمد سے قبل ایران اور یونان کی ترقی یافتہ دوسری تہذیبیں بھی تھیں لیکن آریوں کی ہندوستان آمد کے بعدویدک دھرم نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اس خطے کی تمام تہذیب وتمدن کو سرے سے مٹادیا اور اس نے نظام زندگی کا ایک جدید فلسفہ پیش کیا جس میں انسان کو مختلف طبقات اور ورنوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ہندوؤں کی پہلی مقدس کتاب رگ وید انہی آرین اقوام کے مفکرین نے لکھی جو ان کی دیوی دیوتاؤں کی عظمت کے گیتوں پر مشتمل ہے ۔یہیں سے ہندو مذہب کی ابتدا ہوئی۔ ہندو مت معروف معنوں میں مذہب سے زیادہ ایک مخصوص علم الانسان سے تعلق رکھتا ہے اور یہ قدیم آریہ قوم سے چلے آ رہے ہیں جن میں وقتاً فوقتاً تحریف ہوتی رہی ہے۔ [13]

منو[14]کے پیروکا ر کے مطابق علوم صرف تین ہیں۔تین وید،معاشیات اور سیاستِ مدن۔اور یہ تین وید ۔سام وید،رگ وید اور یجر وید ۔یہ اتھرو اور التہاس وید کے ساتھ مل کر مقدس وید کہلاتی ہے۔چونکہ تین وید چاروں ورنوں کے فرائض اور زندگی کے چار مراحل کے متعلق رہنمائی کرتی ہے۔جیسے:برہمن کے فرائض مطالعہ کرنا،تعلیم دینا ،قربانیاں کروانا۔خیرات دینا اور لینا۔کھتری کے فرائض سپاہیانہ پیشہ اختیار کرنا۔ویش کے فرائض کھیتی باڑی،مویشی پالنا اور تجارت کرنا اور شودر کے فرائض خدمت کرنا ۔[15]

ویدوں کے طلبہ کے فرائض بیان کرتے ہوئے کوتلیہ چانکیہ لکھتے ہیں:’’بن باسی جوگی کے فرائض،پرہیز گاری کرنا،ننگی زمین پر سونا،بٹی ہوئی چٹئیں رکھنا،ہرن کی کھال پہننا،آگ کی پوجا ،اشنان کرنا،دیوتاؤں کی پوجا،پرکھوں اور مہمانوں کی خدمت اور جنگلی پھلوں ،پھولوں پر گزارہ کرنا۔‘‘[16]وہ مزید لکھتے ہیں:’’تاریک الدنیا سنیاسی کے فرائض ؛حواس پر مکمل ضبط،متحرک زندگی سے مکمل کنارہ کشی،کسی قسم کی ملکیت کے بغیر رہنا،دنیا داری کو خیر باد کہنا،بھیک مانگ کر پیٹ پالنا،ایک جگہ نہ رہنا،ویرانوں میں رہنا۔‘‘[17]ویدک دھرم کی طبقاتی تقسیم مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہے۔ بدھ مت اور جین مت کا شمار بھی ہندو مت کی طرح قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے یہ دونوں مذاہب بھی کم از کم400یا 500 سال قبلِ مسیح سے بّرصغیر کی تہذیب و تمدن، معاشرت اور مذاہب پر اثر پذیرہورہے ہیں۔ البیرونی اپنی شہرہ ٔ آفاق کتاب کتاب الہند میں لکھتے ہیں :

خواص اور عوام کا اعتقاد ہر قوم میں مختلف ہوا کرتا ہے۔خصوصاً ان مسائل میں جن میں آرا میں اختلاف ہوتا ہے۔اور اغراض میں اتفاق نہیں ہے۔اس سبب سے کہ خواص کی طبعیت معقول کی طرف میلان رکھتی ہے اور اصول کی تحقیق چاہتی ہے۔اور عوام کی طبعیت محسوس پہ ٹھہر جاتی ہے۔اور فروع پہ قناعت کر لیتی ہےاور تدقیق کی طلب نہیں ہوتی ہے۔[18]

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تدارک

برّصغیر پاک وہند میں ہندوانہ عقائد و نظریات،ان کی ثقافتی یلغار سے سب سے زیادہ وہی طبقہ متاثر ہوا ہے جس کی دینی و اخلاقی تربیت نہیں ہوئی اور جو اسلامی ضابطۂ حیات اوراسلامی فکر و مبادی سے نابلد تھا ۔اسلامی تہذیب کو اپنانے کی بجائے ہندو تمدن کو اپنا لیا۔ہندوانہ رسوم کی رنگا رنگی و دلفریبی سے مرغوب ہو گیا اور اسے اپنی خاندانی ،سیاسی ،سماجی ،معاشی و معاشرتی زندگی میں غیر محسوس طریقے سے شامل کرتا گیا ۔آہستہ آہستہ ہندوانہ طرز زندگی اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہو گیا اور وہ ہندوانہ تہذیب و تمدن کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔مجّددین و مبلغین نے اخلاقی و سماجی اصلاح کی بھرپور کوشش کی جن میں شاہ ولی اللہ ؒ کا نام سرِ فہرست ہےجنہوں نے برّصغیر کے مسلمانوں میں رائج اخلاقی خرابیوں اورغیر اسلامی طریقوں و رسوم و رواج کو چھوڑ کو دورِ اول کے مسلمانوں جیسی زندگی اختیار کرنے کے لئے اپنی تصنیف و تالیف اور اصلاح کا کام اسی نازک زمانے میں شروع کیا۔نکاحِ ثانی جسے ہندو سماج میں رہتے ہوئے معیوب تصور کیا جانے لگا اس کے اخلاقی پہلوؤں سے آگاہ کیا۔مذکورہ بالا حقائق پاکستان کے تقریباً ہر علاقے میں عوام و خواص کا عقیدہ ہے ۔اگر یہ تمام امور شریعت کے دائرے سے تجاوز کرتے ہیں تو نہایت ناپسندیدہ عمل ہے۔قرآن ِ پاک میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا [19]

ترجمہ: اور ہر ایک شخص کے لئے ایک سمت مقرر ہے جدھر وہ عبادت کے وقت منہ کیا کرتا ہے۔

اسلام کا اپنا معاشی ،سیاسی ،سماجی و معاشرتی نظام ِ حیات ہے جو مکمل و جامع ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام برصغیر پاک وہند میں پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس وقت پہنچا جب محمد بن قاسم نے ۹۳ھ میں سندھ فتح کیا۔سیاسی حالات کے پیشِ نظر محمد بن قاسم اور اس کی افواج کے جلد واپس چلے جانے کی وجہ سے اولاً اسلام خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچا ہی نہیں۔ ثانیاً اسلام کی یہ دعوت بڑے محدود پیمانے پر تھی یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت ہندوانہ رسم و رواج کی پابند ہے اور ان کےعقائد و افکار پر ہندو تہذیب کے اثرات بڑے واضح اور نمایاں ہیں۔

ہندوانہ رسومات

تقسیم ہند کے بعد جائزہ لیا جائے تو وہ تمام رسومات جو پاکستانی معاشرے میں پابندی سے ادا کی جاتی ہیں ' ہندو تہذیب کا حصہ ہیں۔مسلمانوں میں ہندؤانہ تہذیب کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے عبید اللہ اپنی کتاب "تحفۃ الہند"میں لکھتے ہیں کہ:

ہندؤوں کے ہاں میت کو کھانے کا ثواب پہنچانے کا نام ’’سرادھ ‘‘ہے ۔ جب سرادھ کا کھانا تیار ہو جائے، تو پہلے اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ ’’بید‘‘ پڑھواتے ہیں ۔مردوں کوثواب پہنچانے کے لیے ان کے ہاں خاص دن مقرر ہیں- خصوصاً جس دن فوت ہوا ہو، ہر سال اسی دن ختم دلانا ، برسی یا مرنے کے تیرہواں دن، بعض کے لیے پندرہواں دن اور بعض کے لیے تیسواں یا اکتیسواں دن مقرر ہے۔[20]

اسی رواج کو قائم رکھتے ہوئے مسلمانوں نے بھی تیجا، ساتواں، چالیسواں اور برسی مقرر کر لیے ، کھانا تیار کروا کر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا- حالانکہ اسلامی تعلیمات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی روایت رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں- اب اگر یہ رسم و رواج پیارے نبی پاکﷺ سے ثابت نہ ہوں اور ہندوؤں کی معاشرت کا حصہ ہوں تو ایک مسلمان کے لئے لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں جبکہ ہمارا قبلہ ہی درست نہیں ۔اسلام کی تعلیمات سے تین دن سے زیادہ سوگ ثابت نہیں ہے۔حضرت زینب ؓسے روایت ہے ۔آپ ؓ فرماتی ہیں:

قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا لِي فِي الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّيسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرً[21]

ترجمہ: اُم المؤمنین زینب بنتِ جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں جبکہ ان کے بھائی کاانتقال ہوگیا تھا۔ انہوں نے خوشبو منگوائی اور اس میں تھوڑی سی لگاکر فرمایا: خدا کی قسم! مجھے خوشبو کی حاجت نہیں ہے، لیکن میں نے رسول ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عورت کے لیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہو کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے خاوند کے کہ وہ چار ماہ دس دن ہے۔

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے تین دن سوگ کرنے کا ثبوت تو واضح ہے لیکن تیسرا ، دسواں ، چالیسواں دن شرعاً ضروری نہیں۔ہاں عدت کے احکامات اس سے جدا ہیں جو شرعی قواعد وضوابط کے مطابق ہیں جن پر عمل پیرا ہونا شرعی حدود میں آتا ہے۔تیجہ، ساتواں، چالیسواں سب ہندوانہ رسومات ہیں، اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں-ہمارے ہاں جس طرح کئی فضول رسمیں اور بدعات روزمرہ قدم قدم پر دیکھنے میں آتی ہیں۔ اسی طرح غمی و شادی کے مواقع پر بھی ان کا دور دورہ ہوتاہے اور مسلمان نیکی سمجھ کر بسا اوقات گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ کسی کے مرنے پر تمام گاؤں بلکہ مضافات والوں کو میت کے گھر والے کھانا کھلاتے ہیں اسے خیرات کہتے ہیں۔ کوئی اچھی خیرات کھلا دے تو اس کے گُن گاتے ہیں اور نہ کھلائے یا مرضی کے مطابق نہ کھلائے تو مرنے والے اور اس کے خاندان کے خلاف بد گوئی اور طعن و طنز کی بھرپور مہم چلاتے ہیں۔ سادہ عوام ان حملوں سے بچاؤ کے لئے جیسے تیسے خیرات کا بندوبست کر کے جان چھڑاتے ہیں۔ ایک شخص کے مرنے سے گھر میں قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ بیوی، بیوہ اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں، عزیزوں کی جدائی، رشتوں کی کٹائی اور مستقبل کی مایوسی۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان کو صبر کی تلقین کے ساتھ ساتھ ان کی ہر ممکن مدد کرے۔ لیکن ہمارے ہاں ظلم و جہالت کا یہ عالم ہے کہ اہل خانہ کی مدد تو کیا کریں گے ان پر اتنا مالی بوجھ ڈال دیتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز کی جدائی کا صدمہ بھول جاتے ہیں۔ مہمانوں کی خدمت کا مسئلہ ان کے اعصاب پر بھوت بن کر سوار ہو جاتا ہے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ مرنے والے کے بعد اہل خانہ کے لئے کتنے مسئلے سر اٹھا چکے ہیں، ہمیں ان مسائل کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے اور اہل میت کے کھانے کا انتظام ہمیں کرنا چاہیے نہ کہ وہاں سے کھانا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ:

لَمَّا جَاءَ نَعِيُّ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا؛ فَقَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ [22]

ترجمہ: جس دن ان کے والدسیدنا جعفربن ابی طالب کی شہادت کی خبر آئی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ،جعفرؓ کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کے پاس ایسی چیز آئی جو انہیں مشغول کر رہی ہے-

میت کے دفن کے بعد میت کے گھر لوگوں کا جمع ہونا اور کھانا تیار کرنا آپﷺ کا طریقہ نہیں ،اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس دن کسی کے ہاں کوئی فوتگی ہو جائے اس دن اقارب ان کے گھر کھانا تیار کر کے روانہ کر یں تا کہ اہل ِ خانہ اپنے عزیز کے غم کے علاوہ کسی اور جھنجٹ سے بچے رہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں غیر ضروری رسومات کی پابندی کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔

نامورمحقق ڈاکٹر محمد عمر ، قرون ِ وسطیٰ میں مسلمانوں اور ہندؤوں کے رسم و رواج ،معاشرت ،رہن سہن اور عقائد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اپنی کتاب ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر کے تیسرے باب میں لکھتےہیں:

(متحدہ) ہندوستان کے زمانے میں کمبوہ برادری کے مسلمان جہیز نہیں لیتے دیتے تھے اور نہ باراتیوں سے نیوتہ لیتے تھے۔معلوم نہیں کمبوہ حضرات اب بھی اس پر قائم ہیں یا نہیں ،ہندومت میں لڑکی کو جہیز اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ ماں اور باپ کی جائیداد کی وارث نہیں ہوتی، اب مسلمانوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کر لیا ہے، ساری جائیداد بھائی لے جاتے ہیں، مکان دکان سب بھائی لے گئے اور بہن کو ٹرخا دیا جہیز پر اور لڑکی پر اس ظلم میں باپ بھی برابر کے شریک ہیں وہ بھی بیٹوں کو ہی جائیداد کا وارث بنانا چاہتے ہیں۔[23]

  شادی کے مواقع پرجو ہندؤانہ رسوم برصغیر میں رواج پا گئے ہیں اس پر عمل کرنا گویا دین و شریعت کا حصّہ ہے ،اگر اس سے بغاوت کی تو سماج میں ناک کٹ جائے گی اور سماجی تعلقات کو زک پہنچے گی۔ مندرجہ بالا حقائق برصغیر بالخصوص پاکستان میں عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان کے اکثر و بیشتر علاقے ہندٔوانہ رسم و رواج کے پابند ہیں اور انھیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ان عقائد و رسومات کا اسلام اوراسلامی تہذیب و تمدن سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔

مساوات و رواداری

رواداری اسلامی تہذیب کی خاصہ ہے۔ہماری لا زوال تہذیب کی انسان دوستی میں رواداری ہی ایسا پہلو ہے جس نے انسانیت کے درمیان حقیقی مساوات کی بنیادیں فراہم کیں ۔فضیلت و عدم فضیلت کا اگر معیار رکھا ہے تو وہ صرف اورصرف تقوٰی و پرہیز گاری ہے، محمد مصطفیﷺ کے نزدیک امیر وغریب ،شاہ وگدا،آقا و غلام سب برابر تھے۔آپﷺ نے خاندانی اور قبائلی فخر کو مٹایا، ذات پات اور رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو ختم کیا۔ آپ ﷺکے نزدیک سلمان فارسیؓ ،بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ کی قدرومنزلت قریش کے معززین سے کم نہ تھی اس کی عملی مثال، حضرت زیدؓ کا حضرت زینب ؓ سے نکاح ہے جو کہ حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے۔اس سے بڑھ کر مسجد مساوات کا بہترین مظہر ہے جہاں ایک ہی صف میں امیر و غریب کھڑے نظر آتے ہیں۔ روئے زمین پر اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں ملکی اور قومی وطنیت، ذات اور برادری کی عصبیت ، رنگ و نسل کے فرق و امتیاز کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ اس مساوات کو حضورﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں بیان فرمایا ہے:

لَا فَضلَ لِعَرَبِّ ٍ عَلَی عَجَمٍی ، وَلَا لِعَجَمیِّ ٍ عَلَی عَرَبٍی ، وَلَا اَحمَرَ عَلَی اَسوَدَ ، وَلَا اَسوَدَ عَلَی اَحمَرَ، اِلَّا بِالتَّقوَی[24]

’’ کسی عربی کو عجمی پر ،کسی عجمی کو عربی پر، اور گورے کو کالے پر ، اور کسی کالے کو گورے پر، کوئی فضیلت نہیں ہے ،سوائے تقوٰی کے‘‘

دوسری جگہ عدل وانصاف میں مساوات کو قائم رکھتے ہوے فرمایا:

لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا[25]

ترجمہ :اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تواس کے ہاتھ کاٹ دیتا۔

اسلام کے اس نظریہ مساوات نے پوری انسانیت کی کایا پلٹ دی ، وہ مذاہب جہاں ذات پات، چھوت چھات، رنگ و نسل، برادرانہ امتیاز کی متعصبانہ خلیج حائل تھی انہوں نے جب اسلام کی وسعت ِنظری کو دیکھا تو اس کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسلام اپنی مکمل تاثیر وتوقیر کے ساتھ دیگر ادیان و مذاہب اور ان کی تہذیب ومعاشرت پر غالب آتا چلا گیااور غیر مسلم اس ناقابلِ انکار حقیقت کا مسلمانوں میں عملی نمونہ دیکھ کر اپنے قلوب و اذہان کو اسلامی قالب میں ڈھالتے گئے۔

عبادات و اخلاقیات

محمد بن قاسم سے لے کر ہند کی تاریخ اور اس کے موجودہ حالات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت مترشح ہوجاتی ہے کہ جس زمانہ میں اس ملک پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار پوری قوت سے چھایا ہوا تھا اس زمانہ میں بھی یہاں اسلام کے اثرات کمزور تھے اور یہاں کا ماحول خالص اسلامی ماحول نہ تھا۔ اگرچہ ہندوؤں کا مذہب اور تمدن بجائے خود ضعیف تھا اور محکوم و مغلوب قوم کا مذہب و تمدن ہونے کی حیثیت سے اور بھی زیادہ ضعیف ہوگیا تھا‘ مسلمان حکمرانوں نے فکر کی پختگی و بالیدگی کا مظاہرہ نہ کیا ۔ان حکمرانوں کی بے جارواداری،اسلامی فکر اور اسلامی روایات کو پسِ پشت ڈالنے، ایرانی و ہنود کے فلسفہ ٔ عبادت و ریاضت سے متاثر ہو کرمسلمانوں کی اسلامی تعلیم و تربیت سے اغماض برتنے کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اپنے عقائد اور اپنی تہذیب میں کبھی اتنا صحیح اور پختہ اور کامل مسلمان نہ ہوسکا جتنا وہ خالص اسلامی ماحول میں ہوسکتا تھا۔شیخ محمد اکرام کے نزدیک"اسلام میں تصوف کا آغاز بھی ہندوستانی اثرات کی وجہ سے ہوا"[26]

جہاں کہیں دو متضاد اور مختلف نظریات ،تہذیبوں اور رسوم و رواج کا ملاپ ہوتا ہے وہاں اثر پذیری اور اثر انگیزی کا عمل ضرور رونما ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صوفیا ءکے ایک گروہ پر مشقت عبادات و ریاضت،وجد و مشاہدات ،تجلیات و شطیحات ہر ہندوانہ فلسفہ ہمہ اوست اور حلول و اتحاد سے متاثر ہوا۔ ہندو مت، بدھ مت اور جین مت تینوں مذاھب فلسفہ ٔوحدۃ الوجود اور حلول پر ایمان رکھتے ہیں ۔تناسخ، کرم، وحدۃ الوجود اور طبقاتی تقسیم یہ چار ستون ہیں جس پر ہندو دھرم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ سندھ میں فکر وحدت الوجود کی آمد تقریباً آٹھویں صدی میں ہوئی ۔ہندوستان کی مٹی جس کی خمیر میں پہلے ہی ’’ہمہ اوست‘‘(سب کچھ وہی ہے) کی آمیزش موجود تھی نے اس فکر کو متاثر کیا۔

حضرت ابن عربیؒ وہ ہستی ہیں جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود [27]کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اس فلسفے کا بانی شیخ محی الدین ابن عربی(۵۶۰ھ تا۶۳۸ھ) جانا جاتا ہے۔حضرت ابن عربی اپنی مشہور زمانہ تصنیف فصوص الحکم کے فص ،فص حکمت کلمہ لوطیہ میں فرمائی ہے : " سر نفس الامراورقد ر ظاہر اور واضح ہو گیا ۔اور کثرت میں وحدت داخل ہو گی ۔عالم میں حق کے جلوے ہیں ۔ ہر جفت میں واحد ہوتا ہی ہے ۔ اعداد کا دارہ مدار وحدہی پر ہے۔"[28]اس طرح حضرت ابن عربی کے فلسفہ کےمطابق "ہمہ اوست "موجود ہے اورر باقی معدوم ہے۔[29]

ابن عربی نے نظریہ وحدۃالوجود کو ایسے الفاظ میں پیش کیا جو ہر کسں وناکس کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا تھا۔جیسے اقبال ؒ نے ابن ِ عربی پہ اعتراضات کرتے ہوئے فرمایا تھا۔’’ابن عربی نے کشف خاص کو مشغلہ عوام بنا دیا ہے ۔اور ایسے خیالات پھیلائے جنہیں عوام نہیں سمجھ سکتے۔‘‘[30]کیونکہ وحدت الوجود ایک کیفیت کا نام ہے عقیدہ نہیں لہذااس میں غلو سے بچنا چاہیے،کم فہمی اور سطحی علم کی وجہ سے وحدۃالوجودکو بنیاد بنا کر ہندؤانہ تعلیمات کی آڑ میں آواگون، تناسخ اور حلول کے مشرکانہ عقائد کو تصوف کے پا کیزہ علم میں داخل کردیا۔ بد قسمتی سے برصغیر ہند میں صوفیوں کے ایک گروہ نے ہندوؤں کے ویدانتی فلسفہ سے متاثر ہو کر غیر اسلامی وغیرشرعی فاسد نظریات کی تبلیغ واشاعت مسلمانوں میں شروع کردی ۔ انہیں میں سے بعض نے وحدۃ الوجود کے نظریہ کو بنیاد بنا کر "اتحاد حلول " کا نظریہ پیش کر دیا ۔ اور اس طرح گمراہی پھیلانا شروع کردی ۔ ہرکس نا کس دعویٰ کرنے لگا کہ عالم میں جو کچھ ہے بس خدا ہی ہے ۔ زمین وآسمان ، شجروحجر، نباتات وجمادات غرضیکہ سب کچھ خدا ہی ہے۔[31]حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات توحید کے گرد گھومتی ہیں ۔عبادات میں رائج اس باطل طریقے کو قرآن و حدیث اور عقلِ سلیم نے رد کیا ہے۔ایک مسلمان سے کیسے ممکن ہے کہ وہ ایسا عقیدہ رکھے جس سے شرک کا شائبہ تک آتا ہو۔ سورہ ٔ مریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا[32]

ترجمہ:اور میں پہلے تم کو بھی تو پیدا کر چکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے۔

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا قرآن مجید کے نظم اور خطاب میں موجود مسلمہ واضح حقائق جان لے گا کہ مخلوق اور خالق ایک چیز نہیں ہو سکتے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ[33]ترجمہ: اور اللہ کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو انکو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی اور طرح کا مقدور رکھتے ہیں۔

قرآن ِ پاک کی واضح تعلیمات کے بعد جو اللہ کے ساتھ کسی قسم کی شرکت کا رائی برابر بھی تصور رکھتا ہے، تو وہ قرآن اور دین کی فیصلہ کن اور حتمی نصوص کی مخالفت کرتا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کسی نبی یا رسول نے وحدۃالوجود کی نہ تو تعلیم دی اور نہ ہی ایسا کو ئی دعویٰ کیا۔ انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ شریعت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے اور انہوں نے اپنے اس فرض ِمنصبی کو کما حقۂ ادا کیا ۔ نبی کریمﷺ کے صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین تک کےادوار کو خود نبی رحمت ﷺ نے خیر القرون فرمایا ہے۔ اس کے بعد جب معرفت الہٰی کے حصول کے لیے سخت مجاہدہ کی ضرورت پیدا ہوئی تو طالبان حق نے اس راہ پر چلتے ہوئے مختلف منازل طے کیں ۔ انہیں منازل میں کوئی ایک کیفیت سے دوچار ہوا تو کوئی کسی دوسری کیفیت سے۔ جوصاحب کیفیت ہی جانتا ہے۔ اسے بانٹا نہیں جا سکتا ۔چنانچہ سالکان راہ حق نے اپنی اپنی کیفیت کے مطابق ذات حق کا ادراک کیا اور اسے بیان کیا۔[34]اس لئے اس معاملے میں غلو سے کام نہیں لینا ۔

 یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلامی عقائد کا ماخذ قرآن و سنت ہیں ۔ کوئی بھی ایسا عقیدہ جو قرآن و سنت سے متصادم ہو، مردود ہے اور تصوفِ اسلامی اذکار و عبادات میں کیفیت کا نام ہے یہ ذکرِ الہٰی کے ذریعے دِلوں کے تزکیے اور ان کی اصلاح کا شعبہ ہے، اس کا مقصد ظاہر و باطن کی یکسانیت اور پاکیزگی حاصل کرنا ہےتاہم صوفیا کے چند گروہ نے جوگیوں کا روپ دھار کر خدا کے بجائے اپنی عبادت کرانی شروع کر دی جس سے ہندوانہ رسوم و عقائد کو ترویج ملی جبکہ تصوف میں شریعتِ محمدی ﷺ پر کماحقۂ عمل، عبادات میں یکسوئی اور اعمال میں خلوص 'نفس کو بیدار کرنے کا انتہائی مؤثر اور آزمودہ طریقہ ہے اور رہبانیت (معاشرے سے لا تعلقی) خلافِ اسلام ہے۔ہندوانہ فلسفہ تناسخ،حلول،کرم کا اسلامی عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔

ماقبل بحث کے بعد یہ حقیقت عیاں ہے کہ اسلام نے تزکیہ ٔ نفس پر زور دیا ہے ۔عبادات کے وہی طریقے مسنون ہیں جو شریعت کے وضع کردہ ضوابط کے مطابق ہیں۔اسلام کے نظامِ اخلاقیات و عبادات میں جامعیت اور اثر پذیری ہے۔ یہ اپنا مخصوص تصور کائنات ، معیار خیر و شر، قوت نافذہ اور قوتِ محرکہ رکھتا ہے۔ یہ سب مل کر اس کے فلسفۂ اخلاق کو ایک مکمل عملی نظام کی شکل دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اخلاق فاضلہ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: 

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىهَا ط[35]

ترجمہ:کہ جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ نامراد رہا ۔

انسان اس وقت تک معراج ِ انسانی تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس میں روحانی پاکیزگی نہیں آ جاتی۔روحانی پاکیزگی کا اکثیر ذریعہ کفر و الحاد کی آلائشوں سےاپنے نفس کوپاک رکھنا ہےعقائد ِ مفاسدہ اور اخلاقِ رذیلہ سے کراہت اور صراط ِ مستقیم کی طرف رجوع سے تزکیہ ٔ نفس حاصل ہوتا ہے جس سے حیاتِ انسانی کے دونوں روحانی و مادی پہلوؤں کو جِلا ملتی ہے اور انسانی زندگی عروج کی منازل طے کرتی ہے اور یہیں سے تہذیب پروان چڑھتی ہے ۔تہذیب جس کے لغوی معنی ہی شائستگی،خوش خلقی ،صفائی ،اصلاح اور آرائستگی کے ہیں جب اپنےمجازی معنوں میں استعمال ہوتی ہے تو اس سے مرادکسی قوم کے وہ بنیادی نظریات و افکار ہیں جو اس کے اعمال و افعال کو تحریک دیتے ہیں اور اسے دوسری اقوام سے ممتاز و ممیّز کرتے ہیں۔ اس کائنات ِارضی میں صر ف ایک ہی تہذیب و تمدن ہے ،جس نے علمی اور عملی طور پر ان دونوں پہلووں کی نشو و نما کی تکمیل کی ہے، وہ ہے اسلا می تہذ یب۔ سید ابو الحسن علی ندوی اسلامی تہذیب کے عالمی تہذیب ہونے کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مذہب (دین ِاسلام) تمام انسانوں کو ایک طرح کے اصول ِ زندگی ، ایک مقصد ِزندگی ، ایک روح ِزندگی اور پیغام ِزندگی عطا کرتا ہے ۔‘‘[36]امریکی فلسفی اور مؤرخ اسلامی تہذیب کے عناصر کو قرآنی تعلیمات کا اعجاز قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے:

Thanks to the Qur'an, the Muslims' conduct and culture developed. The Qur'an saved them from illusions, superstitions, oppression, and violence. It granted the people of the lower classes honor and esteem. Likewise, it made society replete with such justice and piety that no parallel can be found for it. At the same Time, the Qur'an urged them to make progress which led to making such a progress that was unique in history.[37]

یہ قرآن کی مرہونِ منت ہے کہ مسلمانوں کا رویہ اور ان کا کلچر پروان چڑھا، قرآن نے انہیں خیالی دنیا، توہمات، ظلم اور تشدد سے بچایا اس نے ادنیٰ درجہ کے لوگوں کو عزت وعظمت سے نوازا۔ اسی طرح اس نے ایسے معاشرے کو وجود بخشا جو انصاف سے سرشار ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی، قرآن نے ساتھ ہی ایسی اُمنگ پیدا کی جو انہیں ایسی ترقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو تاریخ میں بالکل منفرد ہے۔

ایک غیر مسلم اگر اسلامی تہذیب اورقرآن کی تعلیمات کو اتنے مدلل انداز میں پیش کر سکتا ہے تو ہمیں بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اسلامی تہذیب کو ہنود و نصاریٰ کی تہذیب سے پاک کرنے کا مصمم قصد کرنا ہو گا۔اور غیر اسلامی طور وطریقوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کر کے ہی ہم موجودہ دورِ فتن سے نبردآزما ہو سکتے ہیں۔اسلامی تہذیب کا اولین اور بنیادی عنصر ترکیبی عقیدہ ٔتوحید ہے- توحید ہی وہ بنیادی تعلیم ہے جو اسلام کا اولین مقصدِ ابلاغ ہے۔نظریۂ توحید سے ہی دنیاکی وحدت کا اساسی اصول دریافت ہوتا ہے جس سے مرکزی سمت کا تعین ہوتا ہے۔

الغرض ،صدیوں پر محیط زندہ و جاویدتہذیب صرف اسلامی تہذیب ہے ۔جس نے دنیا کی تمام تہذیبوں پر اپنا خوشگوار اثر چھوڑا ہے ۔ ان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی تہذیب کے ابدی اور فطری اصول کار فرما ہیں۔ اسلامی تہذیب قومی،ملکی یا نسلی تہذیب نہیں بلکہ بین الاقوامی اور بین الملکی تہذیب ہے۔ ہر وہ شخص جو توحید ، رسالت اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسلام کے قصر ِقومیت میں داخل ہو جاتا ہے۔تہذیب کی بنیاد و اساس ’’فکر ‘‘پر مبنی ہوتی ہے ۔اسلامی تہذیب ،اسلامی فکر ہندوانہ تہذیب و فکر سے جدا اور منفرد ہے اور اپنا مستقل وجود با لذات رکھتی ہے۔اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی تہذیب ہے جس کو اختیار کر کے اقوام عالم اس دنیا میں ترقی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکتی ہیں۔اس کے علاوہ دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں وجود میں آئیں وہ سب کی سب اسلامی تہذیب کے مقابلے میں انتہائی کمزور ثابت ہوئیں۔اسی وجہ سے موجودہ دور میں اہل علم و دانشور حضرات کا فرض ِعین ہے کہ نوجوان نسل میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکیں۔یہ روح شریعت کی پابندی اور اسلامی تعلیمات پر عمل ہے۔ ارشاد ِ ربانی ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً[38] یعنی مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔

مدخولِ اسلام سے مراد مومن کا ہر عمل دین ِ اسلام کے مطابق ہو۔ اس کے معاشی معاملات، شادی بیاہ کے معاملات، لین دین کے معاملات عین شریعت کے مطابق ہوں۔اخلاقی معیار اسلامی تہذیب پر استوار ہو۔اس تہذیب کے عناصر میں اخوت، مساوات، انصاف پسندی، جمہوریت، احترام انسانی ،آزادی، علم دوستی، روحانی بلندی اور اخلاقی پاکیزگی شامل ہیں اور ان کی بنیاد پر یقیناًمتوازن اور پر امن و خوشحال معاشرہ کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔

نتائج

ہنود کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے ان کی طرزِمعاشرت ،بودوباش اور پاکستانی معاشرے کے رسم و رواج میں ہنود سےمماثلت نےپاکستانی معاشرے کو اسلامی روایات سے کوسوں دور کر رکھا ہے۔ہندو تہذیب کے اثرات غیر مرئی انداز میں پاکستانی عوام کو آکاس بیل کی مانند جکڑ چکے ہیں۔مسلمان ہوتے ہوئے وہ اسلامی فکر و روایات کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں۔اگرچہ ہندو تہذیب کی سماجی رسومات ، طبقاتی تقسیم ،ذات پات اور ہمہ اوست فلسفے نےبّرصغیر کی مسلم تہذیب کو متاثر کیا تاہم عقیدے کے لحاظ سے اسلامی فکر واضح رہی ۔بنیادی عقائد ؛مثلاً توحید ،رسالت اور آخرت اور عبادات مثلاً نماز،روزہ ،زکواۃ اور حج خالص اسلامی معاشرے کی بنیاد اور نمایاں عناصر ہیں، دوسری طرف سماجی اور معاشرتی زندگی میں اسلام کے سادہ اور پاکیزہ روش سے انحراف نظر آتا ہے۔ عوام کے ساتھ خواص بالعموم دینی اور سیاسی طبقے پر ہندوانہ عقائد و نظریات کی چھاپ ہے۔پاکستان کا ہر گھر ،ہر شہری ہندوانہ ثقافتی یلغار کی زد میں ہے،گھر گھر ہندووانہ ناچ گانا عام ہے۔پیدائش کی رسومات سے لے کر وفات تک ،دعا و مناجات،ذکر و اذکار۔زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں ہندوانہ رنگ نہ چڑھا ہو۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں عقائد و عبادات کی تعلیم و تربیت دی گئی لیکن سماجی و معاشرتی رسم و رواج کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی پر کم توجہ دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ بہت سےہندوانہ سماجی و معاشرتی رسم و رواج مسلم معاشرے کا حصہ بن گئے۔جیسے:

  1. نکاح ِ ثانی کو معیوب سمجھنا
  2. لڑکیوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینا
  3. شادی بیاہ کی رسومات
  4. نذر و نیاز
  5. ذات پات کا نظام

اسلامی تہذیب کی جاذبیت سے ہنود خائف ہیں ۔وہ اپنی تما م تر توانائیاں اپنے کلچر کی رعنائیوں میں لپیٹ کر ٹی وی ،فلم اور میڈیا کے ذریعے عوام کو متاثر کر رہے ہیں۔جس کے مضر اثرات ہمارے سماج میں رچ بس گئے ہیں۔ہندو تہذیب نے ان پڑھ طبقے کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔پیدائش سے موت تک ہندوانہ رسوم کی پابندی لمحہ فکریہ ہے۔ اسلام کی صاف و شفاف تعلیمات میں فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعےاسے گنجلک بنا کر سادہ لوح مسلمان پیری مریدی کے چکر میں پھنس کر عمل سے دور ہو رہے ہیں۔رسوم کی بھینٹ چڑھ کر اپنے مقصدِ حیات سے بہت دور ہو رہے ہیں۔

تجاویز و سفارشات

مندرجہ بالا نتائج سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہندو تہذیب و ثقافت نے ہمارے معاشرے کے عقائد سے لے کر معاشرتی نظام تک کو متاثر کیا ہے۔ ہندوانہ رسوم کے غلبے کو بتدریج کم کرنے کے لئے درج ذیل تجاویز و سفارشات پیشِ خدمت ہیں:* اسوہ ٔ حسنہ کو سماجی شعور کے لئے سلیبس کا مرحلہ وار حصہ بنایا جائے ۔

  • ہندوؤانہ تہذیب کے فروغ کے لئےنجی ٹی ۔وی پر جو ڈرامے نشر ہوتے ہیں ان کی نشریات پر حکومتی سطح پر پابندی عائد کی جائے ۔
  • سماجی زندگی میں ہندوانہ رسوم کی حوصلہ شکنی کے لئے نوجوان نسل کی ذہنی آبیاری کی جائے تاکہ وہ پیدائش سے موت تک کے ہندوانہ طور طریقوں سے کراہت محسوس کرے۔جہیز کو لعنت سمجھیں ۔ذہنی اور فکری زوال کے بھنور سے نکل سکیں۔
  • شادی بیاہ کی رسومات میں سادگی کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے اعلیٰ شخصیات عملی نمونہ پیش کریں اور اس کی تشہیر کی جائے تاکہ عوام الناس ان کی تقلید کریں۔
  • چہلم اور برسی ،پیری مریدی جیسی غیر اسلامی رسومات کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم و شعور کے ذریعے بتدریج حوصلہ شکنی کی جائے ۔

Bibliography

Abdur Raḥmān bin Muḥammad ibn Khaldun, Al-Muqadmah, and Beirut: Dar al-Fikr, 1408 A.H.

Abu Al Hassan, Ali Nadavi. Tārīkh Daawat o Azīmat . Lucknow: Majlis e Tahqeeqat o Nashriyat e Salam, 2006.

Abu Al-Hassan Ali Nadvi. Mazhab ya Tehzeeb .Lucknow: Maktab-e-Islam Goen Road, 1978.

Abu Bakr, Ibn Al Arbi. Fasùs Al-Hikm, Mutarajam: Muhammad Abdul Qadeer: Lahore: Nazeer Sons Publishers.

Abu Rehan Muhammad bin al Bairuni. Kitᾱb al Hind, Mutrajam: Asghar Ali Lahore: Al Faisal, 2005.

Ahmd bin Eesaa . Sunnan al Tirmazī. Bairut: Dar al Gharb al Islᾱmī, 1998.

Ahmed Sirhindi. Maktùbāt-e-Rabbānī (Sufi letters) .Mutrajam: Muhammad Saeed Ahmd. Karachi: Madina Publication Company, 1972.

Al-Bairuni. Kitab-ul-Hind. Mutarajam: Syed Asghar Ali, Lahore: Al-Faisal: Adara e Urdu, November, 2005.

Ibne Hajar Asqilani. Fatah-al-Bārī, Sharah Sahih al Bukhārī. Bairut : Daarul Marafat, 1379.

Jamal ul Deen Abul Farj Abdul Rahman bin Ali bin Muhammad al Joozi. Talbīs e Iblees:Bairut: Daarul Fikar, 2001.

Kotlia Chankia. Muqadma Arth Shāstar. Mutarajam: Saleem Akhtar: Lahore: Almatbua Al Arabia, 2004.

Muhaddith Abdul Haq Dehlavi. Takmīl-ul-Iman. Lahore: Maktaba-e-Nabawīyyah, 1987.

Muhammad ibn Abd al-Hadi. Kafay al-Hajj in Sharh Sunan Ibn Majah . Beirut: Dar al-Jeel , without edition.nd.

Muhammad Ibn Issa. Aljam ul Kabeer- Sunan Al-Tirmadhī. Beirut: Dar Al-Gharb Al-Islāmī, 1998.

Muhammad Ikram. Āb e Kausar. Lahore: Idᾱra Saqᾱft-e- Islᾱmia, 2006.

Muhammad Ikram. Rùd-e-Kausar. Lahore: Islamic Culture Institute: - 2- Club Road, June 2005.

Muhammad Umar. Hindustani Tahīb ka Musalmāno par Asar. New Delhi: Director Publications Division Wazārti Itlaa’at o Nashriyāt Hakoomat e Hind, 1978.

Muslim bin al hajaj Abu al Hassan. Almusnad al Sahīh .Beirut: Dar Ahya al Turāth al Arabī.

Shah Waliullah. Al Tafhimat ul Alaihiya . Bijnor :Madina Barqi Press,1936.

Shaykh Ahmad Sirhindi. Maktùbᾱt Imam Rabbᾱnī. Translator: Mohammad Saeed Ahmad. Karachi: Madīna Publishing Company, 1972.

Ubaidullah. Tuhfatul Hind. Girjᾱkh: Idaᾱra Ahyā-ul-Sunnah, nd.

http://forum.mohaddis.com

https://moudodi.wordpress.com

https://www.punjnud.com

https://www.mirrat.com

https://www.urduweb.org

http://naatkainaat.org

 

References

  1. عبدالرحمن ابن محمد ابن خلدون، المقدمہ (بيروت: دارالفکر، 1408ھ)،1: 303۔
  2. ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، کتاب الھند، مترجم ۔سیّد اصغر علی (لاہور: الفیصل ، 2005ء) ۔
  3. عبید اللہ،تحفۃ الہند ( گرجاکھ:ادارہ احیا السنتہ ،سن ندارد ،)۔
  4. احمد سرہندی،مکتوباتِ امام ِ ربانی،مترجم۔محمد سعید احمد (کراچی :مدینہ پبلیشنگ کمپنی،1972) ۔
  5. شاہ ولی اللہ، التفہیمات الالہیہ (بجنور: مدینہ برقی پریس، 1936ء) ۔
  6. عبد الحق دہلوی ،تکمیلِ الایمان (لاہور :مکتبہ نبویہ ، 1987ء) ۔
  7. محمد اکرام،شیخ ،رودِ کوثر (لاہور :ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2005ء)۔
  8. ابوالحسن علی ندوی،تاریخ دعوت و عزیمت(لکھنٔو :مجلسِ تحقیقات و نشریات ِ سلام ، 2006ء)۔
  9. محمد عمر ،ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر (نئی دہلی ،ڈائیرکٹر پبلی کیشنز ڈویژن وزارتِ اطلاعات و نشریات حکومت ِ ہند: 1978ء)۔
  10. القرآن49:13 
  11. یعقوب الکندی(801ء ۔873ء) کا شمار مایہ ناز حکماء و فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ پیدائش بصرہ میں ہوئی اور عہدِ شباب بغداد میں گزرا ۔یونانی اور سریانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔انہوں نے طبیعیات ، ریاضی، فلسفہ ، ہیت، طب ،موسیقی اور جقرافیہ جیسے علوم پر اعلیٰ پائے کی کتب تحریر کیں۔
  12. ابن رشد (1126ء۔1198ء(قرطبہ(اسپین) میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے علم فلکیات ،منطق، قانون، قواعد عربی زبان اور طب پر لا زوال کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی وہ تصانیف مقبول ِ عام ہوئیں جن میں انہوں نے ارسطو کی مابعدالطبیعات کی وضاحت اور تشریح کی ہے۔ان کے مقلدین کو ابن ِ رشدی کہا جاتا ہے۔
  13. غزالی( 1058ء۔1111ء ) شیخ حجۃ الاسلام کی متعدد تصانیف ہیں ۔آپ انتہائی زیرک فہم تھے۔ فقہی علوم کے حصول کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کےساتھ نیشاپور چلےگئے۔ وہاں انہوں نے امام الحرمین کی شاگردی میں علم ِ فقہ میں تھوڑی سی مدت میں اپنی مہارت کا لوہا منوا لیا،پھر علم کلام، علم جدل میں بھی کمال حاصل کیا۔ انہوں نے نفسیات، سائنس ، فلسفے ، ، خلا اور صوفی ازم پر 705سے زائد کتب تصنیف کیں۔ آپ کا کردار مجددانہ رہا۔آپ نےاسلامی فلسفۂ تعلیم پر جامع نظریہ پیش کیا اور کہا علم فرض ِعین ہے ، دین اسلام کا بنیادی علم قرآن، حدیث، فقہ اور تاریخ اسلام کی صورت میں ہے ،جبکہ فرض کفایہ وہ عصری علوم ہیں ،جو بحیثیت قوم سیکھنے اورحصولِ دنیوی ترقی کا باعث ہیں۔
  14. منو (Law Of Manu)کے تحت دس سب سے بڑی فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں: قناعت، راست گفتاری، زہد، ضبطِ نفس، دوسروں کی ملکیت کا احترام کرنا، دانش مندی، روحِ اعلیٰ کا علم، غصے سے بچنا، دوسروں کو معاف کرنا او ر برائی کے بدلے اچھائی کرنا۔ (http://naatkainaat.org/index.php/%D9%85%, accessed on 1st April, 2020.)
  15. کوتلیہ چانکیہ، مقدمہ ارتھ شاستر،مترجم۔ سلیم اختر(لاہور: المطبعتہ العربیہ، 2004ء)،25۔
  16. ایضاً۔
  17. ایضاً۔
  18. البیرونی، کتاب الھند،27۔
  19. القرآن 2 :148
  20. عبید اللہ،تحفۃ الہند ،175۔
  21. محمد بن عيسى،السنن ، بَابُ :مَا جَاءَ فِي عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا ( بيروت :دار الغرب الإسلامی،1998ء )حدیث:1196، 492:2 ۔
  22. محمد بن عبد الهادی، کفايہ الحاجہ فی شرح سنن ابن ماجه، بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُبْعَثُ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ (بيروت: دار الجيل، س۔ن)، حدیث:1610، 1:514۔مزید دیکھیے؛جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی ،تلبيس إبليس ( بيروت: دار الفكر للطباعة والنشر،2001ء)، 283۔
  23. عمر ،ہندوستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر ، 127۔
  24. ابن حجر عسقلانی،فتح الباری شرح صحيح البخاری، باب:قوله بسم الله الرحمن الرحيم باب المناقب ، ) بيروت : دار المعرفة، 1379ھ(،527:6۔
  25. مسلم بن الحجاج أبو الحسن ، المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، بَابُ قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِيفِ وَغَيْرِهِ، وَالنَّهْيِ عَنِ الشَّفَاعَةِ فِي الْحُدُودِ ( بيروت :دار إحياء التراث العربی )،3:1315۔
  26. محمد اکرام، آب کوثر(لاہور: ادارہ ثقافت ِ اسلامیہ،2006ء)،34۔
  27. فلسفہ وحدت الوجود: وحدت الوجود یعنی ہمہ اوست (Pantheism کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات ہے اور کائنات خدا ، اس سے زیادہ نہ کم۔
  28. ابو بکرابن العربی،فصوص الحکم،مترجم۔محمد عبد القدیر ( لاہور: نذیر سنز پبلیکیشنز، س۔ن)،228۔
  29. ابنِ عربی (1165ء1240ء) ۔جنو بی سپین میں پیدا ہوئے۔مشرق میں ابنِ افلاطون اور ابنِ سُراقہ کی کنیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اسلام کی فکری روایت میں ابن عربی اپنے مخصوص نظریہ تصوّف، فلسفہ اور کشف کے باعث ایک جداگانہ حیثیت کے مالک ہیں۔ ان کو محض صوفی یا فلسفی کہنا درست نہیں، کیوں کہ ان کی فکر کا دائر ہ اہم سماجی اور اسلامی علوم مثلاً قرآن کی تفسیر، علمِ حدیث، اصولِ فقہ، الہٰیات، فلسفہ، تصوّف، صرف و نحو، سیرت، وقائع نگاری، نفسیات، صوفیانہ شاعری، مابعدالطبیعیات اور فلسفہ زمان و مکان کے پیچیدہ مسائل تک پھیلا ہوا ہے۔ حضرت ابن عربی جنہوں نے نظریہ وحدۃالوجود کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ان کے نزدیک’’ اگرچہ خلق ، خا لق ، سے متمیز ہے ۔ مگر حقیقت ووجود کے لحاظ سے ایک ہی شے خالق بھی ہے ۔ اور وہ مخلوق بھی۔اور وہ مخلوق بھی ہے اور خالق بھی ۔ تمام مخلوفات ایک ہی عین حقہ سے ہیں ؟ نہیں ۔ بلکہ وہی عین و ذات واحد حقہ اعیان و ذوات کثیر میں نمایاں ہے‘‘۔۔حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔۔۔ تو بندہ ہے اور تو رب سے جدا نہیں ہے۔ کس کا بندہ جس سے تو نے الست بر بکم کے جواب میں بلٰی کہہ کر اقرار عبدیت کیا ہے ۔ وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالٰی کے کوئی موجود رہا ہی نہیں ۔ پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ کوئی جدا ہے ۔ دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے ۔http://forum.mohaddis.com/threads/%D-/۔
  30. https://www.punjnud.com/ViewPage.aspx?BookID=6866&BookPageID=185420&BookPageTitle=Ibn%20Arabi%20Aur%20Iqbal accessed on 4 May, 2020
  31. http://forum.mohaddis.com/threads/مسلئہ-وحدت-الوجود-اور-وحدت-الشہود.8137 accessed on October 12, 2019.
  32. القرآن 9:19
  33. القرآن 73:16
  34. ایضاً۔
  35. القرآن 91 :9-10
  36. ابو الحسن علی ندوی،مذہب یا تہذیب (لکھنؤ :مکتبہ اسلام ، 1978ء)، 9۔
  37. https://www.mirrat.com/article/48/320, accessed on April 22, 2020.
  38. القرآن 2:208
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...