Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Milal: Journal of Religion and Thought > Volume 2 Issue 1 of Al-Milal: Journal of Religion and Thought

The Tradition of Innovation in Islamic Civilization: An Exclusive Study of Early Ages of Islam |
Al-Milal: Journal of Religion and Thought
Al-Milal: Journal of Religion and Thought

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اسلامی تہذیب کی بنیاد نبی محتشم ﷺ نے آغاز اسلام میں ہی رکھ دی تھی۔جیسے اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہےایسے ہی اسلامی تہذیب بھی ایک آفاقی اور عالمگیر تہذیب ہے۔ جس طرح اسلام رہتی دنیا تک قائم رہنے اور لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے آیا ہے۔ اسی طرح اسلامی تہذیب بھی قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے مظہر رشدو ہدایت ہے، لیکن یہاں کچھ سوال ضرور جنم لیتے ہیں کہ کیا اسلامی تہذیب کے اصول ومبادی قرآن و سنت کی طرح اٹل اوردائمی ہیں یا ان میں تبدیلی و ارتقاء کی گنجائش موجود ہے ؟اگلا اہم سوال یہ ہے کہ اسلام تو اصول و کلیات سے بحث کرتا ہے تو کیا اسلامی تہذیب بھی اصول وکلیات کے لحاظ سے راہنمائی فراہم کرتی ہے یا ہر شعبہ ہائے زندگی (چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی، معاشی ہو یا معاشرتی، حربی ہو یا دفاعی، سائنسی ہو یا روحانی اور حکومتی ہو یا شخصی ) سے متعلق بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے ؟ ہر تہذیب اپنی معاصر تہذیبوں سے بہت کچھ مستعار لیتی ہے تو کیا اسلامی تہذیب میں بھی دوسری تہذیبوں سے اخذ واستفادہ کی کوئی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ اور اگر استفادہ کیا گیا ہے تو وہ امور و مظاہر کون کونسے ہیں جن میں استفادہ کیا گیا ہے اور کن ادوار میں استفادہ کیا گیا ہے؟ یہ چیزیں اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بنیں یا انہيں رد کر دیا گیا؟ اگر استفادہ جائز ہے تو دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کرنے کے بنیادی اصول و ضوابط کیا ہوں گے؟ قرآن و سنت میں اس کے بارے میں کیا رہنمائی دی گئی ہے؟علماء کی اس ضمن میں کیا آراء ہیں؟ عصر حاضر میں تہذیبِ مغرب نے اپنے فکری و مادی غلبے کی بدولت دیگر تہذیبوں کو مغلوب کر دیا ہے تو اسلام اس کےبارے میں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے ؟عصر حاضر میں تہذیبِ مغرب سے کس حد تک استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟اور اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسلامی تہذیب و ثقافت کو کیسے فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے کہ اسلامی تشخص بھی برقرار رہے اور عصری تقاضوں کے مطابق دیگر تہذیبوں کی مفید باتوں سے استفادہ بھی کیا جا سکے۔ درج ذیل سطورمیں انہی امور سے متعلق جوابات تلاش کیے گئے ہیں۔

سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ

تہذیب و تمدن کے بارے میں قرآن پاک میں اور احادیث مبارکہ کی کتب میں وافر رہنمائی موجودہے۔ پھر انہی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے اسلاف نے اس موضوع پر اپنی تحقیقات و رشحات فکر سپرد قرطاس کیں جن کی فہرست کے لیے دفتر درکار ہے تاہم ان میں سے چند یہاں درج کی جاتی ہیں ۔ ابن تیمیہ کی" اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم"[1]، محمد علی ضناوی کی مقدمات فی فهم الحضارة الإسلامية[2] ، فواد سیزگین کی محاضرات فی تاریخ العلوم العربية و الإسلامية[3] ، مصطفی سباعی کی من روائع حضارتنا[4]، عربی زبان و ادب میں اس موضوع کی معرکہ آرا کتب شمار کی جاتی ہیں۔ اردو زبان میں بھی اس موضوع پر اچھا خاصا مواد موجود ہے۔میاں محمد جمیل کی کتاب آپ ﷺ کا تہذیب وتمدن[5]، محمد امین کی اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش[6] ، سید ابوالاعلی مودودی کی اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی[7] ، سید ابوالحسن علی ندوی کی اسلامی تہذیب و ثقافت[8]، محمود علی شرقاوی کی عالمی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے اثرات [9]، نگار سجاد ظہیر کی مطالعہ تہذیب[10]، محمد عیسی منصوری کی مغرب اورعالم اسلام کی فکری و تہذیبی کشمکش[11] اور جاوید اکبر انصاری کی مغربی تہذیب ایک معاصرانہ تجزیہ[12] موضوع ہذا بارے اہم مصادر ہیں ۔انگریزی زبان میں بھی اس موضوع پرمتعدد تالیفات موجود ہیں چنانچہ علی عزت بیگو وچ[13] کی (Islam Between East and West) ،ول ڈیورنٹ کی[14] (The Story of Civilization) ، سموئیل پی ہنٹنگٹن کی[15] (Clash of Civilizations and Remaking of World Order) ، میں مباحث تہذیب پر گفتگوکی گئی ہے۔ ان میں سے اکثر کتابوں میں بالعموم تہذیب اور تہذیب کے خدوخال اور اس کی خصوصیات یا تہذیبی کشمکش کے بارے میں بتایا گیا ہے اورمسلم مفکرین نے اسلام کی دیگر تہذیبوں پر برتری کو ثابت کیا ہے ، نیز اسلامی تہذیب سے دیگر معاصر تہذیبوں کے اخذ و استفادہ کو بیان کیا ہے لیکن راقم کے علم کی حد تک موضوع ھذا کے بارے میں کسی مصنف نے بالعموم کلام نہیں کیا کہ اسلامی تہذیب میں کونسی ایسی چیزیں ہیں جو کہ ديگر تہذیبوں سے اسلامی تہذیب میں در آئی ہیں اور کیسے تازہ کاری کی روایت کے تحت اسلام نے دیگر تہذیبوں سے بہت سی چیزیں مستعار لی ہیں ۔ درحقیقت مسلمان اسکالرز کی اکثریت اسلامی تہذیب کی برتری دوسری تہذیبوں پر ثابت کرنا چاہتی تھی اور کچھ علماء یہ بتلانا چاہتے تھے کہ اسلامی تہذیب بھی دین اسلام کی طرح ہی ہے اور اس میں دوسری تہذیبوں سے کوئی بھی چیز مستعار لینے کی قوت موجود نہیں ہے، اسی لیے کچھ قدیم علماء اس امر کا انکار کرتے رہے کہ اسلامی تہذیب میں کوئی بھی بات دیگر تہذیبوں سے شامل نہیں ہوئی ۔ یہ آج دور جدید کا موضوع ہے اور آج کچھ علماء نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہےکہ اسلامی تہذیب نے بھی دیگر معاصر تہذیبوں سے بہت سی چیزیں اخذ کی ہیں۔ اس مضمون میں قرآن و احادیث اور قرون اولی کے شواہد ونظائر کا تجزیاتی و اطلاقی مطالعہ کر کے عصر حاضر کے مسائل پر ان کا نفاذکیا گیا ہے کہ کیا دور حاضر میں بھی کسی شے کو اسلامی تہذیب کا حصہ بنایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اس اخذ و استفادہ کے اصول وضوابط بھی بتلائے گئے ہیں۔

اسلامی تہذیب و تمدن کی معنویت

اسلامی تہذیب[16] ایک بامقصد فطری اور سادہ تہذیب ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت یا ہدایات خداوندی پر ہے۔ اس کے ذریعے کائنات وانسان اور خالق و مخلوق کا تعلق احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تہذیب ِاسلامی حیات انسانی کا مکمل ، جامع اور ہمہ گیرتصور پیش کرتی ہے۔ دین و دنیا کی وحدت اور انفرادیت واجتماعیت میں توازن اسلامی تہذیب کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اسلامی تہذیب ہر زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ہے۔ اسلامی تہذیب کا منشور مساوات، شرف انسانیت، اخوت، عدل، سادگی، امن و رواداری، محبت و پیاراور علم و حکمت کی پرورش و فروغ ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کی یہ امتیازی خصوصیات اسے دیگر تہذیبوں سےمنفرد و ممتاز حیثیت دیتی ہیں ۔انہی خصوصیات کی بدولت اسلامی تہذیب نے ہر دور میں اپنی انفرادیت وفوقیت کو برقرار رکھا ہے۔ ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں ”لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی قوم کی تہذیب نام ہے اس کے علوم و آداب ،فنون لطیفہ، اطوارو معاشرت، انداز تمدن اور طرز سیاست کا مگر حقیقت میں یہ نفس تہذیب نہیں ہے۔ یہ سب باتیں تہذیب کے نتائج اور مظہر ہیں۔ ان سب کو چھوڑ کر ہمیں ان کی روح تک پہنچنا چاہیے۔ تہذیب کے دراصل پانچ عناصر ترکیبی ہیں۔(۱) دنیوی زندگی کا تصور(۲)زندگی کا نصب العین (۳)عقائد و افکار (۴) تربیت افراد کے اصول (۵) نظام اجتماعی کے اصول۔“[17]

خالد علوی اسلامی تہذیب کے خدوخال کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ” اسلامی تہذیب دراصل روشنی کا مینار ہے۔ اس تہذیب کی بنیاد ظن و تخمین کی بجائے علم و یقین پر ہے، تصور رِسالت سے اسلامی تہذیب کو پائیداری نصیب ہوتی ہے اور در حقیقت کسی بھی تہذیب کے لیے جاندار روح صرف تصور رسالت سے ہی ہو سکتی ہے۔ اللہ نے نبی پاک کو آخری نبی بنا کر بھیجا تو اسلامی تہذیب کو آخری زندہ تہذیب بنایا۔“[18]

اسی گفتگو سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ اسلامی تہذیب کی دو بڑی قسمیں ہیں ایک آفاقی اسلامی تہذیب اور دوسری علاقائی اسلامی تہذیب ہے۔ آفاقی اسلامی تہذیب سے مراد اسلامی تہذیب کے وہ مظاہر ہیں جو کہ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے مسلمانوں میں مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں اس کی مثال توحید ، رسالت، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، آخرت اور دیگر ضروریات دین وغیرہ ہیں۔ یہ تمام مسلمانوں میں مشترک ہیں چاہے وہ اقوام عالم کے کسی بھی علاقے کے رہنے والے ہوں۔ جب کہ اگر علاقائی بنیادوں پر دیکھا جائے تو دنیا کے ہر علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی اپنی تہذیبی روایات ہیں، اپنے رسوم و رواج ہیں اور اس اعتبار سے دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں میں دوسرے مسلمانوں سے بہت زیادہ تفاوت پایا جاتا ہے ۔پاکستان کے لوگوں کا لباس، شادی بیاہ، غمی خوشی، کھانا پینا ، رہائش اور بو دو باش کے اپنے معاملات ہیں جبکہ ہندوستان، ایران، عراق، شام اوردنیا کے دیگر مسلم ممالک کے اپنے رسم و رواج ہیں، اپنے لباس ہیں، اور اسلام بحیثیت دین ان رسم و رواج سے اعتنا ءنہیں کرتا جب تک کہ وہ شریعت کے دائرے سے نہ ٹکرائیں، ہاں اگر یہ رسوم و رواج شریعت سے متصادم ہوتے ہیں تو اسلام انہیں رد کر دیتا ہے۔ اور جو شریعت سے نہیں ٹکراتے اسلام انہیں اپنے دامن میں ضم کر لیتا ہے، یہی اسلام کی خوبی ہے۔ آئندہ سطور میں اس کے پہلے معنی کے اعتبار سے ہی کلام کیا جائے گا، کیوں کہ دین اور شریعت مکمل ہو چکی ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی و تغیر ناممکن ہے۔ اسی حوالے سے ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ تہذیب کی ایک ایسی تعریف کی جائے کہ جو سب کے لیے متفقہ ہو اور اس کے دائرہ کار کا تعین کیا جائے کیوں کہ مختلف علماء کے نزدیک اس کی تعریف ،حدود، دائرہ کار اور غرض وغایت مختلف ہے ۔ اسی لیے ان کی تعبیرات میں بھی مابعد الطرفین کا فرق ہوتا ہے۔[19]

اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے ضمن میں مختلف نقطہ ہائے نظر

اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے ضمن میں مختلف نقطۂ نظر موجود ہیں کچھ لوگ اس رویے کے مطلقاً حامی و مؤید ہیں اور کچھ اس کے یکسر مخالف ہیں اور کچھ علماء بعض حدود و قیود کے تحت اخذ و استفادہ کے قائل ہیں ۔[20]اس ضمن میں تین مختلف اندز فکر پائے جاتے ہیں :۔

۱۔ سلبی (Negative) مؤقف:

۲۔ ایجابی وتائیدی(Positive) موقف:

۳۔معتدل اور متوازن(Balanced) موقف[21]

۱۔ سلبی (Negative) موقف

یعنی مغربی تہذیب اور دنیا کی ہر تہذیب سے بالکل گریز اور نفرت اور اس کے ہر جزء کی مخالفت اور ہر موقع پر اُسے شجرِ ممنوعہ سمجھنا۔ اور اس کی کسی مفید بات سےبھی استفادہ نہ کرنا ۔اس کی مثالیں بہت سے علماء کی کتابوں میں موجود ہیں۔مثال کے طور پر ورزش اور سائیکل سے احتراز کرنے کا فتوی سلبی رویے کی ہی ایک صورت ہے۔[22] مسجد میں کلاک لگانے پر کفر کا فتوی دینا[23]، سالگرہ کو فرعون کا کام کہنا[24] وغیرہ اسی رویے کو ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ اس رویہ کے فروغ میں بنیاد پرست اور انتہا پسند علماء اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔

۲۔ ایجابی وتائیدی(Positive) موقف

یعنی خیر وشر اور صلاح وفساد ہر موقع پر مغرب اور دیگر تہذیبوں کے کلچر کی پوری پیروی اور مکمل سپردگی۔اس رویے کے عکاس چند جدید و روشن خیال علماء اور لبرل و آزاد خیال لوگ ہیں ۔ ان کے ساتھ آج کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی نظریے کا حامی نظر آتاہے۔ ان کا مطمع نظر آج کی جدید مغربی تہذیب کی مکمل نقالی ہے۔ اور وہ مغرب سے آنے والی ہر شے کو مقدس اور قابل احترام سمجھتے ہیں۔یہ رویہ شکست خوردگی اوراحساسِ کمتری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس رویے کے مطابق اسلام دور حاضر کی اخلاقی ،سماجی، معاشی، معاشرتی اور عسکری ضروریات کا ساتھ دینے کی قوت نہیں رکھتا اس لیے دیگر تہذیبوں بالخصوص تہذیب مغرب سے استفادہ بہت ضروری ہے۔

۳۔معتدل اور متوازن (Balanced)موقف

یعنی اسلامی عقائد اور افکار واقدار سے غیر متصادم چیزوں کو اختیار کرنا اور متصادم تصورات کو ٹھکرا دینا۔ بالفاظِ دیگر خیر کا انتخاب اور شر سے اجتناب ۔ اس موقف کے قائل علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ محمد حمید اللہ نے دیگر تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کے ضمن میں ایک بڑی مفید اور عجیب با ت کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کو ماخذ قانون میں سے گنوایا ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی مسئلہ زیر بحث سے متعلق اسلامی حکومت میں کوئی قانون موجود نہ ہو یا کوئی نیا قانون بنانے کی ضرورت پیش آجائے اوراسی مسئلہ سے متعلق اجنبی ملک میں ایک خاص قانون رائج پذیر ہوتو اس قانون کو اسلامی حکومت میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں محمد حمید اللہ نے عشور کی[25] مثال پیش کی ہے۔[26]

شبلی نعمانی کی صراحت کے مطابق مسلمانوں نے بیت المال کے ادارے کے قیام کا فیصلہ ایک روایت کے بموجب رومیوں کے نظام حکومت سے لیا ہے اور دوسری روایت کے مطابق سلاطین عجم سے لیا ہے[27]۔ولید بن ہشام نے کہا میں نے سلاطین شام کے ہاں دیکھا ہے خزانہ اور دفتر کا جدا جدا محکمہ قائم ہےآپ بھی دفتر بنائیے اور فوج مرتب کریں۔[28] شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ آج کل کا زمانہ ہوتا تو غیر مذہب والوں کے نام سے اجتناب کیا جاتا؛لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا اور بیت المال کی بنیاد ڈالی۔[29] دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ زمانہ حاضر کی ایجاد ہے حتی کہ عربی زبان میں اس کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔[30]دراصل اسلامی تہذیب میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہو چکی ہیں جو کہ اسلامی تہذیب کا حصہ نہیں ہیں لیکن عوام انہیں اسلامی تہذیب کا حصہ سمجھتی ہے۔ یہ دوسری تہذیبوں سے اختلاط اور ارتباط کا نتیجہ ہے ۔

ان تینوں میں سےکونسا موقف درست اور قرین قیاس ہے ؟ابو الحسن علی ندوی اس ضمن میں محاکمہ کرتےہوئے لکھتے ہیں:"اسلام کی خود اپنی ایک دنیا ہے جس میں مشرق و مغرب،عرب و عجم ،قریب و بعید، اور قدیم و جدید کی کوئی تقسیم نہیں۔مشرق و مغرب کی سرحدیں اور عرب و عجم کے امتیازات کبھی صفات الہی کی طرح ازلی و ابدی نہ تھے جو کوئی تغیر قبول نہ کر سکیں۔خدا کا بے لاگ قانون فطرت،ایک کو دوسرے پر اثر انداز اور غالب کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔خدا کے آسمانی پیغام اور دین انسانیت کا انحصار کسی ملک اور تہذیب پر نہیں ہے۔"[31] یعنی اسلام قدیم و جدید کی تعبیر سےاور سرحدوں و علاقوں کی تمیز سے ماورا ہے ، نیز اسلامی تہذیب اپنی لچک و گنجائش اور نرمی و سہولت کی وجہ سے ابدی و دائمی ہے۔ آئندہ سطور میں اسلامی تہذیب کی انہی خصوصیات پر کلام کیا جائے گا۔ اور ان تینوں انداز فکر میں سے درست اور راجح موقف کی ترجیحات کے دلائل قرآن و سنت اور تاریخی شواہد کی مدد سے بیان کیے جائیں گے۔

اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے ضمن میں قرآنی اسلوب

قرآن مقدس اللہ کا آخری کلام ہے جو اس نے کائنات ارضی میں خلق خدا کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے ۔ ہر ہدایت اور رہنمائی قیامت تک کے مسلمان قرآن مقدس سے حاصل کرتے رہیں گے۔ اس مسئلے کے بارے میں قرآن پاک سے معلوم کرتے ہیں کہ کیا قرآن کریم میں کسی اور تہذیب سے استفادہ کرنے کی ممانعت و عدم اجازت ہے؟ اورکیا ایمان والوں کو کسی بھی تہذیب کے قریب جانے ، مطلقاً مشابہت اختیار کرنے یا اپنا لینے سے روکا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ [32]

ترجمہ: بلاشبہ اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے آسمان اور زمین پیدا فرمائے مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔

یہاں اللہ تعالی نے یہ بتایا ہے کہ حرمت والے مہینے محرم ،رجب،ذی قعد اور ذی الحج اگرچہ مشرکین کے ہاں بھی معزز ہیں مگر اس وجہ سے ان کی تعظیم ممنوع نہیں ہو جائے گی بلکہ یہ ہمیشہ سے ہی اللہ کے ہاں عزت والے ہیں اور مشرکین کی تہذیب کا حصہ بن جانے سے یہ عمل ناجائز نہیں ہو جائے گا۔اسی طرح جب مسلمان تردد کا شکار ہوئےکہ وہ صفا و مروہ کے چکر لگائیں یا نہ لگائیں تو خداوند قدوس نے اعلان فرمایا:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا [33]

ترجمہ: بیشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے۔

پھر اس طرح کے معاملات میں مشابہت ،مماثلت یا ان کی تہذیب سے اخذ و استفادہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ یہ ساری کی ساری اشیا مادی ہوں یا غیر مادی ،سیاسی ہوں یا معاشرتی، سماجی ہوں یا معاشی ، فکری ہوں یا نظریاتی مسلمانوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور کفار کو تو بطور تابع مل رہی ہیں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ[34]

ترجمہ: ان سے کہئے کہ اللہ کی اس زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ‘ کس نے حرام ٹھہرایا اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہے اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔

اس آیت کے تحت تفسیر القران العظیم میں ہے کہ یہاں کھانے پینے پہننے کی ان بعض چیزوں کو بغیر اللہ کے فرمائے حرام کر لینے والوں کی تردید ہو رہی ہے اور انہیں ان کے فعل سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ سب چیزیں اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کے لئے ہی تیار ہوئی ہیں گو دنیا میں ان کے ساتھ اور لوگ بھی شریک ہیں لیکن پھر قیامت کے دن یہ الگ کر دیئے جائیں گے اور صرف مومن ہی اللہ کی نعمتوں سے نوازے جائیں گے ۔[35]ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن مقدس نے دوسری تہذیبوں سے استفادہ کرنے سے روکا نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں کچھ شرائط کے تحت ان سے اخذ و استفادہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔

اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے نمونے دور رسالت میں

اسلامی تہذیب کی بنیاد اللہ کے نبی ﷺ نے رکھی اور اپنے اقوال وافعال کے ساتھ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ۔ اس سنہرے دور میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دوسری تہذیبوں کی بہت سی باتوں کو اسلامی تہذیب میں داخل فرمایا اور اپنے عمل سے اس پر مہر تصدیق بھی ثبت فرما دی اور امت کو بتا دیا کہ ہر وقت اور ہر صورت میں دوسری تہذیبوں سے اعراض و اجتناب ممکن نہیں بلکہ دینی یا دنیاوی مفاد و مصالح کے تحت ان کو اپنا لینا ہی مفید عمل ہے [36]۔ اس لیے بھی کہ اللہ کے نبی ﷺ کا ارشادہے:

الكَلِمَةُ الحِكْمَةُ ضَالَّةُ المُؤْمِنِ، فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا[37]

ترجمہ: حکمت کی بات مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں کہیں بھی وہ اسے پائے تو اسے حاصل کر لینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

جو لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کی ہر صورت ناجائز ہے تو اس موقف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ دور نبوی ﷺ میں اس طرح کے ڈھیروں شواہد و نظائر موجود ہیں ، چنانچہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے عجمیوں کی ایک جماعت کے پاس کچھ لکھ کر بھجوانا چاہا تو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ لوگ تو کوئی تحریر قبول نہیں کرتے جب تک کہ اس پر کوئی مہر لگی ہوئی نہ ہو، تو آپ ﷺنے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی، جس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا، (حضرت انس بن مالک کہتے ہیں )میں گویا اس انگوٹھی کی چمک رسول اللہ ﷺ کی انگلی یا ہتھیلی میں دیکھ رہا ہوں۔[38] اللہ کے نبی ﷺ نے عجمیوں کی طرح کی انگوٹھی بنوائی اگر یہ عمل ناجائز ہوتاتو اللہ کے نبی ﷺ کبھی بھی اہل کتاب کی انگوٹھیوں کی طرح انگوٹھی نہ بنواتے،اہل کتاب اپنے مکتوب کے آخر میں مہر لگاتے تھے تو اللہ کے نبی نے بھی مہر بنوا لی اور مکتوب کے آخر پر مہر لگانی شروع کر دی،اسی طرح آپ ﷺ نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے پرایرانیوں کی طرح خندق کھدوائی حالانکہ عرب اس طریقہ جنگ سے واقف نہ تھے،[39] غزوہ طائف میں منجنیق کا استعمال بھی اسی سلسلہ کی ایک بہترین مثال ہے۔[40] ضبور نامی جنگی آلہ بھی اس جنگ میں استعمال ہوا۔ حملہ آور اس کے اندر بیٹھ کر دشمن کے قلعوں تک پہنچتے اور وہاں ان سے لڑتے۔ آج کل یہ آلہ ٹینک کے نام سے معروف ہے جو اسی ضبور کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ نبی پاک ﷺ نے اسی جنگ میں دبابے بھی استعمال فرمائے تھے۔[41]یہ بھی رومیوں کا جنگ کرنے کا ایک طریقہ تھا اور یہودیوں نے رومیوں سے سیکھا تھا اور غزوہ خیبر میں مسلمانوں کا سابقہ پہلی بار دبابوں سے ہوا تھا۔یوں یہ طریقہ جنگ مسلمانوں نے بھی استعمال کرنا شروع کیا اور پہلی بار غزوہ طائف میں اس کا استعمال ہوا۔ مسجد میں منبر رکھنے کی روایت رومیوں سے آئی۔[42]شلوار ایرانیوں کا لباس ہے لیکن احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے[43]۔ مسجد میں کرسی کا استعمال کرنے کی روایات بھی موجود ہیں، نبی کریم ﷺ نے عود ہندی کے استعمال کا حکم دیا۔ ایرانی کمانوں کو عربی کمانوں پر ترجیح دی۔ رومی جبہ استعمال فرمایا۔[44] اسی طرح کی دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے انہیں اس وجہ سے ترک نہیں فرمایا کہ یہ دیگر تہذیبوں کی ثقافت کا حصہ ہیں بلکہ اسے عمل میں لاکر امت کے لیے آسانی کی بنیاد فراہم کر دی۔

قرون اولی میں اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کی مثالیں

ابتدائی اسلامی تہذیب کے ہر دور میں مختلف مثالیں موجود ہیں کہ اسلامی تہذیب نے دنیا کی دیگر تہذیبوں کو متاثر کیا اور ان پر اپنے دیرپا اور انمٹ نقوش چھوڑنے کے ساتھ ساتھ دیگر تہذیبوں کی اچھی باتوں کو بھی قبول کیا اور انہیں اپنی تہذیب کا ہی حصہ بنا لیا آج بہت سی ایسی باتیں جنہیں مسلمان اسلامی تہذیب سمجھتے ہیں وہ دیگر تہذیبوں سے ہی مستعار لی گئی ہیں اسی لیے غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں کہ ان کی تہذیب کی وہی بات ناجائز ہے جو کفار کی بد عقیدگی پر مشتمل ہو ورنہ جائز ہے۔ [45]اسلام جب عرب کی حدود سے نکل کر عجم میں پہنچا تو دیگر تہذیبوں سے بھی استفادہ کیا، چنانچہ ایرانی تہذیب کی چھاپ تو عربی تہذیب پر بہت گہری ہے۔مسلمانوں کے لباس ایرانیوں کے لباس جیسے اور خوراک ایرنیوں جیسی ہوگئی۔عرب آٹا بغیر چھانے ہوئے استعمال کرتے تھے۔اب انہوں نے آٹا چھان کر استعمال کرنا شروع کر دیا۔عرب ایک وقت میں صرف ایک ہی غذا Single Dish) ( کا استعمال کرتے تھے اب ایک وقت میں کئی کئی غذائیں ان کے دستر خوان پر جمع ہونے لگ گئیں۔اسی وجہ سے ایک ہی دستر خوان پر بیک وقت مختلف طرح کے کھانوں کو کچھ علماء بدعت قراردیتے ہیں۔[46]

کوفہ میں بیت المال کی تعمیر ایرانی طرز تعمیر پر کی گئی ،ایک عالیشان محل بنایا گیا اور اس محل کا بنانے والا ایک مجوسی معمارروزبہ بن بزرجمهر تھا۔[47] عرب گھاس پھونس وغیرہ کے مکان بناتے تھے ۱۷ھ میں کوفہ میں آگ لگی اور بہت سے مکانات جل گئے۔ سعد بن ابی وقاص جو کوفہ کے گورنر تھے انہوں نے حضرت عمر ؄سے اجازت لے کر پختہ عمارات بنوائیں لیکن اس وقت بھی کسی مکان میں تین سے زیادہ کمرے بنوانے کی اجازت نہ تھی۔[48]فوج کے گھوڑوں کی پرورش کا نظام ایرانیوں سے لیا گیا۔[49]بحری فوج یونانیوں کے اصول جنگ کے مطابق تیار کی گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوج کے متعلق بہت سی ایجادات کی ہیں ان کا عرب میں کوئی وجود نہ تھا مثلا فوج کے ساتھ افسر خزانہ،محاسب، قاضی، متعدد مترجم، طبیب اور جراح وغیرہ کا موجود رہنا۔یہ رواج بھی دوسری قوموں کی افواج سے لیا گیا ہے۔[50]

اسلامی سال کا آغاز بھی عجمی تہذیب سے اخذ کیا گیا ۔[51] حضرت عمر ؄نے جو سکے جاری کئے وہ بھی نوشیرواں کے سکوں سے بہت ملتے جلتے تھے اور انہی کے سکوں کے مشابہ معلوم ہوتے تھے ۔اسی طرح ان سکوں کی مالیت کے مقرر کرنے میں بھی ایرانی دراہم کی مالیت کا اعتبار کیا گیا۔[52]خراج ،عشور ،دفتر، رسد اور حساب کے کاغذات وغیرہ ان تمام معاملات میں حضرت عمر ؄کے دور خلافت میں ایران اور شام کے قواعد پر عمل کیا گیا البتہ جہاں اس میں کوئی نقص پایا گیا یا شریعت اسلامیہ کے منافی کوئی بات پائی گئی تو اس کی اصلاح کر دی گئی۔[53]حضرت عمر ؄نے مال گزاری کا نظام جس طرح سے مفتوحہ علاقوں میں رائج تھا اسے اسی طرح بحال رکھا بلکہ زبان بھی بحال رکھی۔ ملازم بھی بحال رکھے اور اختیارات بھی بحال رکھے البتہ چند ضروری طریقوں کی اصلاح کر دی گئی اسی طرح نوشیروانی عہد کے صوبوں میں صوبہ جات کو بھی بحال رکھا گیا اور نوشیروانی انتظامات کو بھی بحال رکھا گیا۔ زمین کی پیمائش کا جو طریقہ حضرت عمر ؄نے استعمال کیا وہ بھی ایرانی بادشاہ قباد نوشیرواں سے لیا گیا تھا۔[54] رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور حضرت ابوبکر صدیق ؄کے دور میں فوج کی تنخواہ مقرر نہ تھی۔ حضرت عمر؄ کے دور میں فوج کی تنخواہ مقرر کی گئی ۔یہ بھی حربی اور دفاعی معاملات میں دیگر تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کی ایک مثال ہے۔[55] حضرت امیر معاویہ؄ رومیوں کی طرح بڑی شان و شوکت اور کروفر سے رہتے تھے۔ حضرت عمر ؄نے خدام و حشم دیکھ کر کہایہ نوشیروانی جاہ و جلال کیسا ؟مگر جب انھوں نے جواب دیا کہ یہاں رومیوں سے سروکار ہے اور رومی ظاہری جلال اور رعب دبدبے کے علاوہ متاثر نہیں ہوتے تو حضرت عمر ؄نے ان کے عذر کو قبول فرمایا۔[56]

بعض علوم جو، اب اسلامی علوم کہلاتے ہیں دوسری تہذیبوں سے اختلاط کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ بعض علماء کے بقول کچھ علوم خالصتاً دوسری تہذیبوں سے داخل ہوئے جیسے منطق و فلسفہ اور کچھ کانٹ چھانٹ کے بعد داخل ہوئے جیسے علم الكلام۔[57]مینار کا وجود رسول اللہ ﷺکے زمانے میں نہ تھا بلکہ یہ صحابہ کرام کی سنت ہے۔[58] شامیوں کی اتباع میں مسجد میں روشنی کا اہتمام حضرت تمیم داری نے کیا تھا۔[59] اسی سے یہ مسئلہ استنباط کیا جاتا ہے کہ کفار کے ملک سے ایسی قنادیل اور چراغ آئیں جو ان کے گرجا گھروں یا عبادت گاہوں میں معلق رہی ہوں یا ان کی صلیبوں پر آویزاں رہی ہوں ان کو مسلمانوں کی مساجد میں لٹکانا جائز ہے وجہ جواز یہ ہے کہ شریعت میں اہل کتاب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنا مباح ہے۔[60]سلاطین عجم اپنے لیے مخصوص لباس بنواتے تھے اور ان پر تصاویر بنواتے تھے۔ اسلام میں چونکہ تصویر سازی کی ممانعت تھی اس لیے مسلمانوں نے اپنےلیےمقدس آیات وکلمات یا اپنے نام کندہ کروانے شروع کر دئیے۔[61] آج یہ رواج بالعموم موجود نہیں ہے لیکن بعض محکموں میں بالخصوص باوردی محکموں میں آج بھی اپنی وردی پر اپنا نام کندہ کروا کر پہننا لازم ہے۔دربانی اور مقصورہ کا رواج بھی خارجیوں کے حملوں کے بعد آیا۔[62] ولید بن عبدالملک نے مسجد میں محراب بنوائی جب کہ اس سے قبل مسجد میں محراب موجود نہ تھی یہ بھی دیگر تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کا ایک نمونہ تھا۔[63] مسجدوں کی شان و شوکت اور نقش و نگار کا یہ رواج جو آج مسلم تہذیب و ثقافت کا ایک لازم و ملزوم حصہ بن چکا ہے یہ ابتدائی مسلم تہذیب و ثقافت کا حصہ نہ تھا۔چنانچہ جب ولید نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک کثیر رقم خرچ کی تو لوگ اس سے سخت ناراض ہوگئے تھے۔[64] باریک کپڑے پہننے کا چلن بنو امیہ کے دور میں رواج پایا۔ ورنہ حضرت عمر؄ نے عیاض بن غنم کو دربان رکھنے اور باریک کپڑے پہننے کی وجہ سے سخت سرزنش کی تھی۔[65]

عباسیوں کے عہد خلافت میں مسلمان علماء اور فلسفیوں نے یونانی علوم و فنون مثلاًطب،ہیت، جغرافیہ، طبعیات، مابعد الطبعیات ، نفسیات، منطق، سیاسیات اور اخلاق وغیرہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔عباسی دور میں اسلامی تہذیب پر رومی اور یونانی اثرات زیادہ واضح ہیں۔ان تہذیبوں سے استفادے کے لیے یونانی اور رومی علماء کی کتابیں یونانی اور رومی زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ اسلامی ثقافت پر اس کے اثرات بڑی تیزی کے ساتھ مرتب ہوئے۔ اور بہت سے نامور فلاسفہ پیدا ہوئے۔ ان میں الکندی،احمد بن الطیب، فارابی، ابن مسکویہ اوربو علی سینا زیادہ مشہور ہیں۔[66] عربی ثقافت و تہذیب پر یونانی تہذیب کے انہی اثرات کانتیجہ تھا کہ مامون الرشید فلسفیانہ مباحث کے تحت معتزلی ہوگیا اور قرآن کےمخلوق و حادث ہونے کا قائل ہو گیا۔[67]خلیفہ منصور نے اپنے دربار کے لیے لمبے ٹوپیاں نرسل وغیرہ کی ایجاد کی تھی اور درباریوں کے لئے ان لمبی ٹوپیوں کا رواج عجمیوں سے لیا تھا۔[68]

ابن خلکان امام ابو یوسف کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ" آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علماء کے لباس کو اس ہیت میں بدلا جس پر وہ اس زمانے میں ہیں اس سے پہلے لوگوں کا ایک ہی لباس تھا کوئی شخص دوسرے سے اپنے لباس کے ذریعے ممتاز نہ تھا"۔[69] شبلی نعمانی امام ابو یوسف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ اس قسم کی ٹوپی جو اہل دربارو امراء کے ساتھ مخصوص تھی کبھی کبھی استعمال کرلیں [70]یہ دونوں باتیں عیسائی تہذیب کا حصہ ہیں اور مسلمانوں کا یا اسلامی تہذیب کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ضرورت جواز یا ضرورت زمانہ کے تحت امام ابو یوسف نے اس بات کو اختیار فرمایا۔ ہشام نے نوادر میں فرمایا میں نے امام ابویوسف کوایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا جن کے چاروں طرف لوہے کی کیلیں لگی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، کیاآپ اس لوہے سے کوئی حرج سمجھتے ہیں؟ توفرمایا کہ نہیں، میں نے عرض کی لیکن سفیان اورثوربن یزیدتو انہیں پسندنہیں فرماتے کیونکہ ان میں عیسائی راہبوں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ امام ابویوسف نے فرمایا رسول اﷲ ﷺ ایسے جوتے پہنتے تھے جن کے بال ہوتے تھے حالانکہ یہ بھی عیسائی راہبوں کالباس تھا ۔[71] اس روایت کے تحت احمد رضا خان کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے روشن ہوگیا کہ تشبُّہ [72]یعنی ان کی تہذیب کی باتیں اپنانے میں وہی باتیں ممنوع ومکروہ ہیں جن میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارخاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔[73]

ابتدائے اسلام میں تمام مسجدیں کچی بنائی جاتی تھیں ۔ صحابہ کہتے ہیں کہ جب بارش ہوتی تھی تو ہمارے ہاتھ، منہ اور کپڑے کیچڑ سے بھر جایا کرتے تھے اور عام حالات میں زمین پر سجدہ کرتے تھے تو کپڑوں اور ہاتھوں کو مٹی لگ جایا کرتی تھی ۔ [74]یہ پکی مسجدیں بنانے کا رواج بھی ایرانی تہذیب کی بدولت آیا ہے چنانچہ جب اسلام عرب سے نکل کر ایران کی غیر ملکی سرزمین پر پہنچا اور وہاں پر مسجدیں بنائی جانے لگیں تو سب سے پہلے کوفہ اور بصرہ کی مسجدوں میں بجری ڈالی گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ نماز میں سجدہ سے اٹھ کر ہاتھ جھاڑ تے تھے کیونکہ ہاتھوں کو مٹی لگ جاتی تھی زیاد نے کہا مجھے خوف ہے کہ ایک زمانہ بعد لوگ ہاتھ جھاڑنے کو نماز میں سنت نہ سمجھنے لگیں۔ زیاد نے مسجد میں اضافہ کیا اس کو وسیع کیا اور اس میں بجری ڈالنے کا حکم دیا چنانچہ خاص قسم کی بجری صحن میں بچھا دی گئی۔[75]

عصر حاضر میں اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کی روایت

موجودہ عہد میں تو اس کے اثرات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی ذی شعورشخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ اسے اختیار کرکے ہی زندگی کے ساتھ چلا جاسکتا ہے ورنہ دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے۔ موجودہ عہد کا کونسا شعبہ ایسا ہے کہ جس کو مغربی تہذیب نے متاثر نہ کیا ہو۔درس و تدریس ہو یا تحقیق و تفتیش ہر معاملے پر ان کی چھاپ بہت گہری ہے ۔اس لیے درست طرز فکر یہی ہے کہ اس میں سے درست کو اپنا لیا جائے اور غلط کو چھوڑ دیا جائے۔نہ کہ سارے کو رد کر دیا جائے اور نہ ہی ساری تہذیب کوجوں کا توں اپنالیاجائے۔کھاناکھانےکےانداز،ایک ہی وقت میں ایک ہی نشست پربہت سےکھانے، بریانی،شوارما، برگر، پیزا، اوربہت سےمشروب ،پیپسی،کوک ، سپرائٹ نیز اسلحہ سازی کی صنعت، الیکٹرانک و میڈیکل کے جدیدآلات، سائنس و ٹیکنالوجی وغیرہ آج جدید تہذیب کی پیداوار ہیں اور انہیں اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ لاؤڈ اسپیکر، ویڈیو، تصویر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ وغیرہ کو ممنوع قرار دیا گیا لیکن اب شاید ہی کوئی عالم ہو جس نے ان امور کو نہ اپنایا ہو۔ انگریزی اور اردو تعلیم غیر قوموں کی تہذیب کی وجہ سے ممنوع قرار دی گئی لیکن اب ہر کوئی انگریزی پڑھ رہا ہے۔موبائل فون سے استفادہ بھی اس کی ایک بہترین مثال ہے۔اور اس پر بولے جانے والے جملے بھی اوکے،ہیلو،وغیرہ یونہی ملاقات کے دوران ہائے، گڈ مارننگ،وغیرہ بھی شائع ذائع ہیں۔ انگریزی تہذیب کے مختلف لباس پینٹ شرٹ کوٹ وغیرہ،سندھی تہذیب سے اجرک ٹوپی وغیرہ،اسی طرح بلوچی اور پشتو تہذیب کی بہت سی باتیں اپنائی جاچکی ہیں اور ان کے جواز کی امت قائل ہو چکی ہے۔

اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے اصول و ضوابط

دیگر تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کے ضمن میں یہ اہم امور پیش نظر رہنے چاہئیں کہ فرد واحد کو مسلم تہذیب و ثقافت پر کوئی شرمندگی اور ندامت محسوس نہ ہو بلکہ اسلامی تہذیب و ثقافت پر فخر ہوناچاہیے۔فاعل کو اپنے دل میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے خلاف در آنے والے وسوسوں کو جھٹک دینا چاہیے اور نہ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کو نامکمل سمجھنا چاہیے اور نہ ہی یہ خیال دل میں سمائے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت اپنا وقت گزار چکی ہے اور یہ حالات زمانہ کا ساتھ دینے سے قاصر ہے بلکہ دل میں پختہ خیال ہو کہ جس طرح اسلام قیامت تک باقی رہنے کے لئے آیا ہے اسی طرح اسلامی تہذیب و ثقافت بھی قیامت تک مسلمانوں کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔شریعت اسلامیہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ یہ حالات زمانہ کا اعتبار کرتے ہوئے اس کی تعبیر و تشریح کو ارباب حل و عقد پر موقوف کرتی ہے۔اسی طرح اسلامی تہذیب و ثقافت کی یہ خوبی ہے کہ یہ دوسری تہذیبوں سے یکسر اعراض نہیں کرتی بلکہ دوسری تہذیبوں کی اچھی اور مفیدباتوں کو اپنے اندر جذب کرکے انہیں اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بناتی ہے۔ اس ضمن میں ان اصول و ضوابط کوپیش نظر رکھا جانا ضروری ہے:

  1. وہ عمل شرک ،اس کے متعلقات یا اس کے داعیہ پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ شرک کی کسی صورت میں شریعت اسلامیہ اجازت نہیں دیتی۔ فرمان باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ۔[76]

ترجمہ: بیشک اللہ نہیں بخشتا اس بات کو کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور بخش دے گا اس کے علاوہ جس کے لیے چاہے گا ۔

  1. وہ عمل اسلام کے متفقہ اور مسلمہ عقائد و اعمال کے منافی نہ ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا[77]

ترجمہ: اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی اس کے بعد کہ روشن ہوگئی اس کے لیے ہدایت اور پیروی کرے مسلمانوں کی روش کےعلاوہ کسی اور راستے کی تو اس کو ہم اسی راہ پر ڈالیں گے جس پر وہ پڑا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔

  1. وہ عمل بدعت نہ ہو کیوں کہ بدعات کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔حدیث پاک میں ہے :

"إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ"[78]

ترجمہ: یقین رکھو سب سے سچی کتاب اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔

  1. اس عمل سے متعلق اسلامی تہذیب و ثقافت میں کوئی رہنمائی موجود نہ ہو ، لیکن اسلاف کا معمول ہو یا علما ءنےاس کی اجازت دی ہو جیسا کہ جعفر المتوکل على الله بن أبى اسحاق المعتصم بالله نے خانہ کعبہ کے لیے چاندی کا حلقہ بنوایا دیواروں اور چھتوں پر زریں پوششیں چڑھائیں اور ستونوں پر دیبا کے غلاف چڑھائے۔[79]
  2. اس عمل کو اپنانے سے اسلامی تہذیب کی یااسلامی تہذیب کے کسی بنیادی عنصر کی تحقیر و توہین نہ ہوتی ہو کیونکہ اس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ارشاد ربانی ہے:

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ؀ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ۔[80]

ترجمہ:اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ ہم تو صرف دل لگی اور خوش طبعی کررہے تھے۔ کہہ دیجیے ! کیا تم اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مسخری کررہے تھے ؟ اب بہانے مت بناؤ تم نے ایمان کے بعد کفر کیا ہے ۔

  1. اس عمل کو اپنانے سے شریعت اسلامیہ منع نہ کرتی ہو۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:

ما أحل الله في كتابه فهو حلال وما حرم فهو حرام وما سكت عنه فهو عفو فاقبلوا من الله عافيته فإن الله لم يكن لينسى شيئا[81]

ترجمہ: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا اور حرام وہ ہے جسے حرام قرار دیا اور جس کے متعلق خاموشی اختیار کی وہ معاف ہے پس اللہ کی طرف سے آسانیاں قبول کرو کیونکہ اللہ کسی شے کو بھولنے والا نہیں ہے۔

  1. فاعل کی نیت تشبہ بالکفار[82] کی نہ ہو۔حدیث پاک میں ہے:«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»[83]

ترجمہ: جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔

  1. اس سے مقصود اسلامی تہذیب کی جڑیں کاٹنا نہ ہو بلکہ اسلامی تہذیب کے ورثہ کی حفاظت مقصود ہو۔ امام ابویوسف کہتے ہیں اگر ملک میں کوئی قدیم عجمی طریقہ رائج ہو اسلام نے اس میں تغیر نہ کیا ہو اور نہ اس کو باطل قرار دیا ہو پھر لوگ امام سے اس طریقے سے مضرت پہنچنے کی شکایت کریں تو امام کو اس طریقے کے بدلنے اور باطل کرنے کا حق نہیں ہے۔[84]
  2. دوسری تہذیب و ثقافت کی باتوں کے اپنانے میں کوئی دینی یا دنیوی ضرورت ومصلحت کارفرما ہو۔ جیسا کہ عاشورہ کا روزہ کہ رسول مکرم ﷺ نے خود بھی رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔[85]
  3. آخری اور ضروری بات کہ نئے امور کے اختیار و قبول میں یہ امر یقینی بنایا جائے کہ اسلامی تہذیب کے بارے میں احساس کمتری اور مذکورہ تہذیب کے بارے میں فوقیت و برتری کے احساسات پیدا نہ ہو ں ۔ اس لیے کہ یہ اسلامی تہذیب کی خوبی ہے نہ کہ خامی کہ یہ تغیر پذیر ہے اور اللہ رب العزت نے اسے غالب کرنے کے لیے بھیجا ہے ۔ فرمان خداوندی ہے:

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ۔[86]

ترجمہ: وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کفار ناخوش ہوں۔

دیگر تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کرتے وقت اگر ان امور عشرہ کو مدنظر رکھا جائے تو مفید و موزوں باتوں کے اپنانے میں کوئی حرج و قباحت نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن و سنت میں ہر دینی و دنیاوی کام کو عمدہ و احسن اندازمیں بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اچھائی و عمدگی کا یہ معاملہ صرف عبادات کے ساتھ محیط نہیں ہے بلکہ معاملات بھی اس بھی داخل ہیں اور اس میں دینی یا دنیاوی معمولات کی بھی تخصیص نہیں ہے۔ اس لیےمعاملات کی بہتری و عمدگی کے حصول کے لیے اگر دیگر تہذیبوں سے رجوع کیا جائے تو یہ خلاف شریعت نہیں ہوگا اور نہ ہی اسلام اس پر کوئی قدغن لگاتا ہے، لیکن ان شروط عشرہ کی پابندی ضرور ی ہے۔

نتائج

سطور بالا میں دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ اور اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کے ضمن میں تین مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے ان سے مندرجہ ذیل نتائج عیاں ہوتے ہیں:

  1. پہلا موقف سلبی نقطہ نظر پر مبنی ہے۔یعنی دوسری تہذیبوں سے آنے والی ہر طرح کی بات کو رد کر دیا جائے۔ یہ موقف سراسر افراط اور انتہا پسندی پر مبنی ہے اور اس کو اپنا کر زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ جانےکا خدشہ ہے۔مزید یہ کہ یہ موقف اسلامی تعلیمات سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا۔ اس لیے کہ خیرالقرون میں اس کے بہت سے مظاہر ملتے ہیں جو اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ مخصوص حالات میں شرعی مصلحتوں اور شرائط کے تحت دوسری تہذیبوں سے استفادہ کرنا مباح ہے۔
  2. دوسرا موقف ایجابی نقطہ نظر پر مبنی ہے یعنی دوسری تہذیبوں سے آنے والی ہر بات کو بلا حیل و حجت قبول کر کے اسے اسلامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بنا لیا جائے۔ یہ موقف پہلے موقف سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ اس کو اپنانے کی صورت میں اسلامی تہذیب کی انفرادیت متاثر ہو گی اور نتیجتاً اس کی شناخت بالکل ہی گم ہو جائے گی۔ اس لیے یہ موقف کسی لحاظ سے بھی قابل عمل نہیں ہے۔
  3. جب کہ تیسرا موقف ہر لحاظ سے جامع اور معتدل ہے۔ کہ دوسری تہذیبوں کی ان مفید اور موافق باتوں کو شرائط و قیودات کے تحت اپنا لیا جائے جو کہ اسلامی شریعت کے منافی نہ ہوں اور یہی موقف اسلام کے اصول وہدایات اور تعلیمات شریعت سے ہم آہنگ بھی ہے، ویسے بھی مذہب کا کام زندگی سے رشتہ جوڑنا اور گہرا کرناہے نہ کہ اس سے رشتہ توڑنا۔ یہی اسلام کی روح ہے۔ اس لیے تجدد پسندی اور قدامت پسندی کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔جمہور علماء نے افراط وتفریط کے دونوں پہلوؤں پر شدید تنقید کی ہے اور اعتدال کے اس پہلو کو اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔بکثرت علماء نے اپنی تحریر و تقریر میں جگہ جگہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا جائزہ لیا ہے اور مغربی کلچر کے مفاسد ومنافع دونوں کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو معتدل راہ اختیار کرنے کی طرف آمادہ کیا ہے۔
  4. ایجابی و تائیدی موقف کو اپنانے کی صورت میں اسلام کی پہچان و شناخت مسخ ہو جائے گی ، لہذا اس رویے کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جاسکتا ، جب کہ تہذیب مغرب کے سلسلہ میں منفی اور سلبی رویہ کا نتیجہ عالم اسلام کی پسماندگی و تنزلی اور زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا، اس سے عالم اسلام کا رشتہ باقی دنیا سے منقطع ہوجائے گا، یہ رویہ کوتاہ نظری پر مبنی ہے، اس سے فطری قوتوں اور وسائل میں تعطل پیدا ہوتا ہے، اور یہ اس دین فطرت کی صحیح ترجمانی اور تعبیر نہیں ہے جس نے کائنات میں عقل وتدبر کے استعمال پر بڑا زور دیا ہے اور مفید علوم میں استفادہ کی ترغیب دی ہے۔

سفارشات

موضوع زیر بحث سے متعلق مندرجہ ذیل امور کی سفارش کی جاتی ہے کہ:

  1. اسلامی تہذیب و ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اورصرف نظریاتی طور پر مسلم تہذیب و ثقافت کی دیگر تہذیبوں پر برتری واضح کرنے کی بجائے عملی طور پرمزید کام کیا جائے اورمسلم معاشرے میں تہذیبی انتہا پسندانہ رویوں کی مذمت کر کے اعتدال پر مبنی رویوں کو فروغ دیا جائے ۔اسلامی تہذیب میں تازہ کاری کی نسبت ایجابی و سلبی رویے کی بجائےاعتدال پر مبنی رویوں کو اجاگر کرنے کے لیے تقریری وتحریری اورعملی طور پر کام کیا جائے اور مسلم معاشرے میں صحیح اور درست فکر کو پروان چڑھایا جائے ۔
  2. قرون اولیٰ کے اسلامی ماضی پر فخر کرنے کی بجائے ماضی کی اسلامی تہذیب سے استفادہ کر کے مستقبل کے لیے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے اسلامی تہذیب کے احیاء کے لیے ملکی و عالمگیر سطح پر فعال کردار ادا کیا جائے۔ جس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل میں ملکی طور پر ایک شعبہ مختص کیا جائے یا نیا ادارہ قائم کیا جائےجو مغرب اور ہندوستان سے در آنے والے تہذیبی سیلاب کو روکنے کے ساتھ ساتھ مسلم تشخص کو بھی اجاگر کرے۔ اسی طرح عالمگیر پیمانے پر یہی کردار تنظیم تعاون اسلامی بخوبی اداکر سکتی ہے۔
  3. اسلامی تہذیب کی اہمیت کو واضح کرنے اوراس کے فروغ میں جو کردار تعلیمی ادارے اداکر سکتے ہیں، وہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے سکول کالجز اور یونیورسٹیز کے ساتھ ساتھ اسلامی مدارس میں بھی اسلامی تہذیب کے فروغ کے لئے کام کیا جائے اور اس ضمن میں مختلف مجالس اور کانفرنسسز کے انعقاد کے ساتھ ساتھ علماء سے مقالات اور کتب تحریر
  4. کروائی جائیں اور انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز وغیرہ کے ذریعے بھی اس کی ترویج و اشاعت کی جائے۔

Bibliography

‘Abdul Ḥayī al-Kitānī. Al-Trātīb-al-Idārīyah, Beirūt: Dār al-arqam, N.D.

‘Alija ‘Ali Izetbegovic, Islam between East and West Oak Brook: American Trust Publications 721 Enterprise Drive, IL 60523, 2012.

‘Azmī, Amjad ’Alī. Bahār-e-Sharī ‘at. Karachi: Maktaba al Madina old Fruit Market, 2012.

Al-Suyūṭī, Abdur Raḥmān Abī Bakr. Tareekh al-Khulafā, Egypt: Al-Matb‘t al-S‘ādah, 1371 A.H.

Sohailī, Abdur Raḥmān b. Abdullah, al-Rouḍal-Anaf, Beirūt: Dār Ihya al-turath al-‘arbī 1421 A.H.

Ibn Khaldūn, Abdur Raḥmān b. Muḥammad, Al-Muqadmah, Beirūt: Dar al-Fikr, 1408 A.H.

Al-Dhabī, Abu Abdullah Muḥammad b. Aḥmad, Tarīkh al-Islam wa wufyāt al-Mushāhīr wal ‘alām, Beirūt: Dār al-kitāb al-‘arbī, 1413 A.H.

Bazār, Abu Bakar Aḥmad b. Amar, Musnad al-Bazār, Madina: Maktaba al-Ulum wal Ḥikam, 1988.

Abū Dāwūd, Sulaimān b. Ash’ath. Sunan Abū Dāwūd. Beirūt: Al-Maktaba al Asriah, N.D.

Al-Tabari, Abu J‘afar b. Jarir, Tareekh al-Rusul wal Maluk, Beirūt: Dar al-turath, 1387 A.H.

Al-Harvī, Abu Manṣoor Muḥammad b. Aḥmad, Tehzīb al-Lughat, Beirūt: Dār Ihya al-turath al-‘arbī, 2001.

Ibn Ḥazam, Abu Muḥammad ‘Alī b. Aḥmad. Rasāil ibn Ḥazam, Beirūt: al-Mosasa al-‘Arbīyah, 1983.

Abu Yousuf, Yaqub b. Ibrahim, Al-Kharaj, Cairo: Al-Matb‘t al-Salfīyah wa Maktabtaha, 1382 A.H.

Ibn Khulkān, Abul ‘Abbas Aḥmad b. Muḥammad b. Ibrāhīm, Wufyāt al-‘ayān, Beirūt: Dār Ṣādir, 1900.

Ibn Kathīr, Abul Fidā Ismāil b. Umer, Tafsīr al-Quran al-‘aẓīm, Beirūt: Dār al-Kutub al-‘ilmīyah. 1419 A.H.

Al-Māwardī, Abul Ḥasan Ali b. Muḥammad, Al-aḥkām al-Sultāniah, Cairo: Dār al-Ḥadith, N.D.

Aḥmad b. Hanbal. Musnad Aḥmad b. Hanbal, Beirūt: Mosasa al-Risālah, 1421 A.H.

Naeemi, Aḥmad Yar Khan, Mirāt al-Manājīh, Lahore: Qadri Publishers Urdu Bazar, 2009.

Allah Ditta, “Analytical Study of the Viewpoints of the Jurists about the Rulings of Imitation and its Types” Journal of Islamic and Religious Studies Haripur, .3, no:1, (2018): 1-16

Ṯẖanvī, Ashraf ‘Alī, Imdād al-Fatāwa, Karachi: Maktaba Dār-al-Ulum, 2010.

Balādhurī, Aḥmad b. Yaḥyā. Fatūḥ Al-Buldān. Beirūt: Dār wa Maktabah al Hilāl, 1988.

Barelvī, Ahmad Razā Khān. Fatāwa Raḍawiyya. Lahore: Razā Foundation, 1996.

Bukhārī, Muḥammad b. Ismā’īl. Ṣaḥīḥ Bukhārī. First. Beirūt: Dar Touq-al-Najaat, 1422 A.H.

Dehlvī, Deputy Nazīr Aḥmad. Fatāwa Nazīrīyah, Lahore: Ahle Hadith Academy Kashmīrī Bazar, 1971.

Fuat Sezgin. Muḥaḍrāt fī Tareekh al-‘ulum-al-Arabiah wal-Islamiah, KSA: ‘ālim-al-kutub, 1984.

Muḥammad Hameedullah. Khutbāt Bahawalpur, Islamabad: Idarah Taḥqīqāt Islami International Islamic University 2007.

Humayouṉ Abbās Shams, “The Word Culture and its Dimensions” Zia-e-Tahqee GCU Faisalabad 3: no. 6 (2013): 5-9.

Anṣāri, Javīd Akbar, Maghrabi Tehzīb aik Mu‘ṣrānah Tajzīah, Lahore: Shaikh Zaid Islamic Centre Punjab University, 2002.

Khalid ‘Alvī. Islam kā Mu‘ashratī Niẓām, Lahore: Al-Maktabah ‘Ilmīyah, 1998.

Maḥmood Aḥmad Ghāzī. Muḥāḍrāt Sharī‘at, Lahore: Al-Faiṣal Publishers Urdu Bazar, 2009.

Ḍanawī, Muḥammad Ali. Muqadmāt fī fahm al-ḥaḍarat al-Islamiah, Beirūt: Mosasa al-Risalah, 1400 A.H.

Muḥammad Amīn, Islam or Tehzīb Maghrib kī kashmaksh, Lahore: Bait-al-Ḥikmat, 2006.

Muṣtafā Sabā‘ī, Min Rawā’‘e Ḥaḍāratanā, Beirūt: Dar al-Warāq lin-Nashar wal touzee‘ al-Maktab al-Islami, 1999.

Nigār Sajjād Ẓahīr. Mutāli’a Tehzīb, Karachi: Qirtas Publications, 2016.

Salīm Akhtar, Bunyād Parastī, Lahore: Sange Mīl Publications, 2007.

Saeedi, Ghulām Rasool, N‘em al-Bārī, Lahore: Zia al-Quran Publications Urdu Bazar, 2013.

Ibn Mājah, Muhammad b. Yazīd. Sunan Ibn Mājah. Beirūt: Dar Ahya-al-Kitab-al-Arbiah, N.D.

Al-Farāhīdī, Khalīl b. Aḥmad, Kitā al-‘Ain, Beirūt: Dār wa Maktaba al-Hilāl, N.D.

Sharqāvī, Maḥmood ‘Ali, ‘Ālmi Tehzīb wa thaqāfat pr Islam k Athrāt, Lahore: Maktaba Qāsim al-Ulum Urdu bazar, N.D.

Muḥammad Jamīl, Miaṇ, ’Āp kā Tehzīb wa Tamadun, Lahore: Abu Hurīrah Academy Karīm Block Iqbāl town, 2006.

Mansorī, Muḥammad ‘Īsa, Maghrib or ‘Ālim Islam kī fikrī wa Tehzībī kashmakash, London: World Islamic Forum, 2000.

Afrīqī, Muḥammad b. Mukaram b. ‘Ali Ibn Manẓoor, Lisān al-‘Arab, Beirūt: Dar Ṣādir, 1414 A.H.

Niẓām al-Dīn, Mulla, Fatāwa Hindīyah, Peshawar: Noorānī Kutub Khāna, N.D.

Al-Nasāi, Ahmad b. Shua’yb. Sunan Nasāi. Halab: Maktab al Matbo’at al Islamia, 1406 A.H.

Al-Samhūdī’, Alī b. ’Abdullah. Wafā Al-Wafā. Beirūt: Dār al Kutub al Ilmiah, 1419 A.H.

Samuel P. Huntington, The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order, New York: NY 10020, Simon & Schuster Papernbacks, 1230 Avenue of the Americas, 2011.

Shiblī No’manī, Allamāh. Al-Farūq. Karachi: Dār al-Ishā’t, N.D.

Shiblī No’manī, Allamāh. Imām A‘ẓam. Lahore: Sang-e-Mīl Publications, N.D.

Nadvī, Syed Abu al-Ḥasan ‘Alī, Islami Tehzīb wa thaqāfat, Islamabad: Dawah Academy Internationa University, 2005.

Nadvī, Syed Abu al-Ḥasan ‘Alī. Muslim Mumalik meiṇ Islamīyt or Maghribīyat kī kashmakash, Lucknow: Majlis Taḥqīqāt wa Nashrīyāt Islam, 2003.

Nadvī, Syed Abu al-Ḥasan ‘Alī. Tufān sē Sāḥil tak, Karachi: Majlis Nashrīyāt Islam, N.D.

Maudūdi, Syed Abul A'la. Islam kā Niẓām Zindagī, Lahore: Islamic Publications, 1997.

Maudūdi, Syed Abul A'la. Islami Tehzīb or is k usul wa Mubādī, Lahore: Islamic Publications Shah ‘Ālam Market, N.D.

Gilānī, Syed Manāẓir Aḥsan, Islamī Mo‘ashiyāt, Karachi: Dār al-Ishā‘t Urdu Bazar, N.D.

Sibt Ḥasan, Syed. Pakistan meiṇ Tehzīb kā Irtiqā, Karachi: Maktaba Dāniyāl, 2002.

Ibn Taymiyyah, Taqī al-Dīn, Aḥmad b. Abdul Ḥaleem. Iqtaḍā al-Sirāt-al-Mustaqīm li Mukhalifat al-Jaḥīm, Beirūt: Dār ‘ālim-al-kutub, 1419 A.H.

Al-Muqrīzī, Taqī al-Dīn Aḥmad b. ‘Abdul Qādir, Shazur al-‘Uqood fī dhikr al-naqood, Najaf: Manshūrāt al-Maktaba al-Ḥaidrīya wa Matb‘atuha 1967.

Tirmidhi, Muḥammad b. ‘Isa. Jami’ at-Tirmidhi. Egypt: Shirkat Maktaba wa Matba’tu Mustafa al Babi al Ḥalbī, 1395 A.H.

Will Durant, The Story of Civilization, New York: NY 10020, Simon and Schuster 1230 Avenue of the Americas 1954.

Ibn Rajab, Zain al-Dīn Abdur Rahman b. Aḥmad Hanbalī, Fatḥ al-bārī, Madina: Maktaba al-Ghurabā al-athrīya, 1417 A.H.

  1. تقی الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم ابن تيمية ، اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم( بيروت : دار عالم الكتب، 1419ھ)۔
  2. محمدعلی ضناوی ، مقدمات فی فهم الحضارة الإسلامية (بیروت: موسسۃ الرسالۃ، 1400ھ)۔
  3. فواد سیز گین، محاضرات فی تاریخ العلوم العربية و الإسلامية( السعودیہ: عالم الکتب، 1984ء) ۔
  4. مصطفی سباعی ،من روائع حضارتنا(بیروت: دارالوراق للنشر و التوزیع المکتب الاسلامی،1999ء)۔
  5. میاں محمد جمیل، آپ ﷺکا تہذیب و تمدن(لاہور: ابوہریرہ اکیڈیمی کریم بلاک اقبال ٹاؤن ، 2006ء)۔
  6. محمد امین ، اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش(لاہور: بیت الحکمت، 2006ء)۔
  7. ابو الاعلی مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی(لاہور: اسلامک پبلی کیشنز شاہ عالم مارکیٹ، س۔ ن)۔
  8. ابوالحسن علی ندوی ، اسلامی تہذیب و ثقافت (اسلام آباد: دعوۃ اکیڈیمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، 2005ء)۔
  9. محمود علی شرقاوی ، عالمی تہذیب و ثقافت پر اسلام کے اثرات(لاہور: مکتبہ قاسم العلوم اردو بازار،س ۔ن)۔
  10. نگار سجاد ظہیر ، مطالعہ تہذیب(کراچی:قرطاس پبلی کیشنز، 2016ء)۔
  11. محمد عیسی منصوری ، مغرب اورعالم اسلام کی فکری و تہذیبی کشمکش(لندن: ورلڈ اسلامک فورم، 2000ء)۔
  12. جاوید اکبر انصاری ،مغربی تہذیب: ایک معاصرانہ تجزیہ(لاہور: شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پنجاب،2002ء)۔
  13. ‘Alija ‘Ali Izetbegovic, Islam between East and West (Oak Brook: American Trust, 2012).
  14. Will Durant, The Story of Civilization (New York: Simon and Schuster, 1954).
  15. Samuel P. Huntington, The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order (New York: Simon & Schuster Paperbacks, 2011).
  16. تہذیب هَذَبَ سے نکلا ہے اوراس کے معنی تنقیح یعنی کسی چیز کو صاف کرنے کے ہیں۔اہل عرب هَذَبَ الشيءَ کسی چیز کو صاف کرنے کے لیے بولتے ہیں بعض نے اس کا مطلب اصلاح کرنا بھی بیان کیا ہے۔ تشذیب(کسی چیز کو کسی چیز کے اندر سے نکالنا) پہلا عمل ہےاور اشخاص میں سے مہذب وہی ہوتا ہے جو عیوب سے خلاصی پاچکا ہو اور یہ تب بولتے ہیں جب کوئی اپنے اخلاق کو شائستہ بنالے۔تہذیب کی اصل یہ ہے کہ اندرائن کو صاف کر کے اس کے گودے کو الگ کر لیا جائے حتی کہ اس کی کڑواہٹ چلی جائے تاکہ وہ کھانے والےکو اچھا لگے۔( ابن منظور افريقى،لسان العرب(بیروت:دار صادر ،1414ھ)،1: 782۔)کتاب العین میں اس کے معنی شائستگی اور خرابیوں اور عیوب سے پاک ہونے کے بیان کیے گئے ہیں۔( خليل بن أحمدفراهيدي ،کتاب العین (بیروت :دار ومكتبة الهلال،س۔ ن)،4: 40۔) تہذیب اللغۃ میں اسے شائستگی اور نفاست پسندی کے طورپر بیان کیا گیاہے۔( محمد بن أحمدالهروي،تهذيب اللغة(بیروت: دار إحياء التراث العربي ، 2001ء)،1: 307۔) سبط حسن لکھتے ہیں کہ"تہذیب معاشرے کے طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جوہر ہوتی ہے۔چنانچہ زبان ،آلات و اوزار،پیداوار کے طریقے،سماجی رشتے،فنون لطیفہ،علم وادب،خاندانی تعلقات وغیرہ سب تہذیب کے مختلف مظاہر ہوتے ہیں۔"( سبط حسن، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء( کراچی :مکتبہ دانیال ،2002ء)،13۔) ان تعریفات سے مترشح ہے کہ تہذیب کے معنی شائستگی، نفاست پسندی، اخلاقی صلاح و درستگی وغیرہ کے ہیں ۔ اس اعتبار سے اس کا تعلق مذہب سے نہیں ہے بلکہ عام چال چلن، روش ، طریقہ کار اور طرز زندگی سے ہے لیکن پھر یہ لفظ ان معنوں سے ہٹ کر دوسرے معنوں میں مستعمل ہو گیا اور لوگ اسے مذہب کے ہم معنی خیال کرنے لگے آج عموماً یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور جب بھی اسلامی تہذیب کی بات آتی ہے تو اس سے مراد دین اسلام سمجھا جاتا ہے حالانکہ تہذیب دین کا مظہر ہوتی ہے نہ کہ دین۔
  17. ابوالاعلی مودودی، اسلام کا نظام زندگی(لاہور: اسلامک پبلی کیشنز ،1997ء)، 97۔
  18. خالد علوی ،اسلام کا معاشرتی نظام (لاہور: المکتبہ علمیہ ،1998ء)، 364۔
  19. See, Humayouṉ Abbās Shams, "The Word Culture and its Dimensions," Zia-e-Tahqeeq 3 no. 6(2003), 8.
  20. ابوالحسن علی ندوی کہتے ہیں کہ قرون اولی میں اسلامی معاشرہ نے جو ہر طرح کے احساس کمتری سے محفوظ اور خود شناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے بھرپور تھا، بغیر کسی ذہنی غلامی اور مرعوبیت کے اپنی ضرورت اور اپنے حالات کے مطابق ایرانی و رومی تہذیبوں سے استفادہ کیا، جس چیز کو مناسب سمجھا اس کو بجنسہٖ اخذ کرلیا اور جس چیز کو نامناسب سمجھا اس کو پہلے اپنے سانچے میں ڈھالا پھر اس کو اپنی صحیح جگہ فٹ کرلیا، آزاد اور غالب ہونے کی بنا پر یہ استفادہ اور اقتباس اس معاشرہ کی روح اور اس کے اخلاقی رجحان پر اثرانداز نہیں ہوسکا۔چنانچہ یہی رویہ پیش نظر رکھ کر مغربی تہذیب سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو الحسن علی ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش (لکھنؤ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ،2003ء)، 56۔
  21. ابو الحسن علی ندوی، مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش ،211-215۔
  22. اشرف علی تھانوی، امداد الفتاوی (کراچی: مکتبہ دار العلوم ، 2010ء)، 4: 266-267۔
  23. سلیم اختر ،بنیاد پرستی(لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز ،2007ء)، 138۔
  24. نذیر احمد دہلوی، فتاوی نذیریہ(لاہور:اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار،1971ء)، 1: 199۔
  25. عشور ایک قسم کی چنگی ہے جو کہ کسی ملک میں داخلہ کے وقت غیر ملکی تاجروں سے وصول کی جاتی ہے۔ حضرت عمر ؄نےمنیج نامی ایک مقام کےمسلمان والی کے سوال کے جواب میں یہ لکھا تھا کہ ان تاجروں سے اسی شرح سے چنگی لو جس شرح سے ان کے ملک میں مسلمان تاجروں سے لی جاتی ہے۔أبويوسف يعقوب بن إبراهيم ،الخراج (القاهرة: المطبعةالسلفية ومكتبتها، 1382ھ)، 135۔
  26. محمد حمید اللہ، خطبات بہاولپور (اسلام آباد :ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ،2007ء)، 299۔
  27. لیکن شبلی نعمانی نے عجم والی روایت کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس کا نام دیوان رکھا گیا اور یہ فارسی لفظ ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: شبلی نعمانی ، الفاروق(کراچی:دار الاشاعت اردو بازار ایم اے جناح روڈ، س ن) ،239۔
  28. عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطى ، تاريخ الخلفاء(مصر: مطبعة السعادة، 1371ھ)، 124۔
  29. نعمانی ، الفاروق،239۔
  30. ایضاً، 227۔
  31. ابو الحسن علی ندوی،طوفان سے ساحل تک(کراچی: مجلس نشریات اسلام، س۔ ن)33۔
  32. القرآن،9: 36
  33. القرآن،2: 158
  34. القرآن،7: 32
  35. أبو الفداء إسماعيل بن عمر ابن کثیر،تفسير القرآن العظيم (بیروت: دار الکتب العلمیہ،1419ھ)، 3: 367۔
  36. ان سے اخذ و استفادہ کے اصول و ضوابط اسی مقالہ کے آخر میں بیان کیے گئے ہیں۔
  37. محمد بن عیسی ترمذی، السنن ، کتاب الأدب، بَابُ مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ(مصر: مكتبة مصطفى البابي الحلبي، 1395ھ)،حدیث: 268، 5: 51۔
  38. محمد بن اسماعیل بخاری،الجامع الصحیح ، كِتَابُ اللِّبَاسِ ، باب نقش الخاتم (بیروت: دار طوق النجاة، 1422ھ) حدیث5872، 7: 157۔
  39. تفصیل کے لیے دیکھیں: عبدالرحمن بن عبداللہ السہیلی،الروض الانف(بیروت: دار إحياء التراث العربي،1421ھ)6: 195۔
  40. ترمذی، السنن ، کتاب الأدب ،بَابُ مَا جَاءَ فِي الأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ،حدیث: 2762، 5: 94۔
  41. أبو جعفرمحمد ابن جريرالطبری، تاريخ الرسل والملوك ( بيروت: دار التراث، 1387ھ)،3: 84۔
  42. کچھ روایات میں ہے کہ منبر انصار کی ایک بڑھیا نے بنوایا تھا ۔ جیسا کہ امام بخاری و دیگر محدثین نے اسے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: بخاری، الجامع الصحیح ، كِتَابُ البُيُوعِ ، بَابُ النَّجَّارِ ، حدیث: 2094، 3: 61۔جبکہ ایک روایت کے مطابق حضرت تمیم داری نے بنوایا تھا اور انہوں نے شام کے لوگوں کو ایساکرتے دیکھا تھا اسی وجہ سے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کیلئے منبر بنوایا۔ دیکھیں: عبد الرحمن بن أحمد بن رجب جنبلی، فتح الباري ، كتاب الصلاة ، باب الاستعانة بالنجار والصناع في أعواد المنبر والمسجد ( المدينة النبوية: مكتبة الغرباء الأثرية ، 1417ھ)،حدیث449، 3: 315۔
  43. بخاری، الجامع الصحیح ، كِتَابُ اللِّبَاسِ ، باب السراویل،حدیث: 5804، 7: 144۔
  44. تفصیل کے لیے دیکھیں: مناظر احسن گیلانی،اسلامی معاشیات(کراچی: دار الاشاعت اردو بازار مقابل مولوی مسافر خانہ، س ن)، 38۔
  45. غلام رسول سعیدی، نعم الباری (لاہور:ضیا القرآن پبلی کیشنز ،2013ء)،12: 387۔
  46. احمد یار خان نعیمی، مراۃ المناجیح(لاہور:قادری پبلشرز ،2009ء)، 90۔
  47. الطبری، تاريخ الرسل والملوك ،4: 46۔
  48. ایضاً ،4: 44۔
  49. ملاحظہ ہو: نعمانی ، الفاروق،244۔
  50. محمد بن أحمدبن عثمان الذهبي ، تاريخ الإسلام ( بيروت :دار الكتاب العربي،1413ھ)، 3: 323؛ نعمانی ، الفاروق،254۔
  51. مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تاریخ مقرر کیجئے۔ انہوں نےکہا کیا کروں اس نے کہا اہل عجم اپنی تحریر میں لکھا کرتے ہیں کہ فلاں ماہ فلاں سنہ۔ آپ نے کہا یہ اچھا طریقہ ہے تم بھی تاریخ لکھا کرو۔ پھر اسلامی سال کا آغاز ہجرت نبوی سے کیا گیا۔ بعض روایات کے مطابق ہرمزان کے مشورہ سے اسلامی سال کا آغاز کیاگیا تھا۔ عبدالرحمن ابن محمد ابن خلدون، المقدمہ (بيروت: دارالفکر، 1408ھ)،1: 303۔
  52. ابو الحسن علی بن محمد الماوردی ،الاحکام السلطانیہ(قاہرہ:دار الحدیث ،س۔ ن )، 237؛ تقی الدین احمد بن عبدالقادر المقریزی، شذور العقود فی ذکرالنقود( النجف: منشورات المکتبۃ الحیدریہ و مطبعتھا، 1967ء) 8۔
  53. نعمانی ، الفاروق، 310۔
  54. نعمانی ، الفاروق، 203۔
  55. الطبری، تاريخ الرسل والملوك ،4: 209۔
  56. ابن خلدون، المقدمہ ،1: 254۔
  57. ملاحظہ ہو: علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي، رسائل ابن حزم الأندلسي(بیروت: المؤسسة العربية للدراسات والنشر، 1983ء)، 4: 46؛محمود احمد غازی، محاضرات شریعت( لاہور: الفیصل ، 2009ء)،416-420۔
  58. ملاحظہ ہو، عبدالحئی الکتانی،التراتیب الاداریہ(بيروت:دار الأرقم، س۔ن)، 128۔
  59. محمد بن يزيدابن ماجة ، سنن ابن ماجہ ، كِتَابُ الْمَسَاجِدِ ، بَابُ تَطْهِيرِ الْمَسَاجِدِ (بيروت: دار احیا الکتب العربیۃ، س۔ ن)، حدیث : 760، 1: 250۔
  60. الکتانی، التراتیب الاداریہ،131۔
  61. ابن خلدون، المقدمہ ،1: 331۔
  62. ملاحظہ ہو:ابن خلدون ، المقدمہ،1: 332۔
  63. نور الدين أبو الحسن علي بن عبد الله بن أحمد السمهودي ، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى (بیروت: دار الكتب العلمية، 1419ھ)، 1: 282۔
  64. امجد علی اعظمی، بہار شریعت(کراچی: مکتبۃ المدینہ پرانی سبزی منڈی، 2012ء)، 1: 231۔
  65. نعمانی،الفاروق،198۔
  66. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: شبلی نعمانی، المامون( لاہور: اسلامی اکادمی اردو بازار،س۔ن)، 159-174۔
  67. ملاحظہ ہو: الذهبي ،تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، 15: 237۔
  68. نعمانی،الفاروق،289۔
  69. ابو العباس احمد بن محمد بن ابراہیم ابن خلکان،وفیات الاعیان و ابناء الزمان (بیروت:دار صادر،1900ء)، 6: 379۔
  70. شبلی نعمانی،امام اعظم ( لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز ، س۔ ن )، 67۔
  71. ملانظام الدین، فتاوی ہندیۃ (پشاور: نورانی کتب خانہ ، س۔ ن )، 5: 333۔
  72. وضاحت: اس معاملے مین اہلِ علم مختلف نقطئہ نظر رکھتے ہیں ۔ کچھ کے نزدیک "دیگر اقوام کے مذہبی امور کے علاوہ دیگر امور میں تشبہ ممنوع ہے نہ کہ مشابہت؛ البتہ مذہبی امور میں ان کی مشابہت بھی ممنوع ہے"۔
  73. احمد رضا بریلوی،فتاوی رضویہ(لاہور:رضا فاؤنڈیشن ،س۔ ن)، 24: 533۔
  74. ملاحظہ کیجیے:احمد بن حنبل، مسند احمد،مسند عبداللہ بن العباس(بیروت: مؤسسة الرسالة، 1421ھ) ،حدیث: 2385، 4: 214۔
  75. ملاحظہ کیجیے: أحمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُري، فتوح البلدان (بيروت: دار ومكتبة الهلال، 1988ء)، 272۔
  76. القرآن،4: 48
  77. القرآن،4: 115
  78. أحمد بن شعيب بن علي النسائي، سنن نسائی، كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْن ، باب كَيْفَ الْخُطْبَةُ (حلب :مكتب المطبوعات الإسلامية،1406ھ)حدیث: 1578، 3: 188۔
  79. البَلَاذُري، فتوح البلدان،56۔
  80. القرآن،9: 65-66۔
  81. أبو بكر أحمد بن عمرو بزار، مسند البزار ( المدينة المنورة : مكتبة العلوم والحكم ،1988ء)، حدیث : 4087۔
  82. ملاحظہ ہو: اللہ دتہ، "تشبہ کی حقیقت: اقسام اور احکام کا فقہاء کی آراء کی روشنی میں تحلیلی مطالعہ،"مجلہ علوم اسلامیہ و دینیہ ، 3:1(2018ء)۔
  83. سلیمان بن اشعث ، سنن أبي داؤد، كِتَاب اللِّبَاسِ ، بَابٌ فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ ،(بيروت: المكتبة العصرية، صيدا، س ۔ن) حدیث: 4031، 4: 44۔
  84. البَلَاذُري، فتوح البلدان،431۔
  85. بخاری، الجامع الصحیح ، كتاب مناقب الأنصار ، بَابُ إِتْيَانِ اليَهُودِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَدِمَ المَدِينَةَ ، حدیث:3943، 5: 70۔
  86. القرآن،9: 33۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...