Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

عصر حاضر میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان اور اس کا خاتمہ تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_948

Pages

7-23

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/index.php/al-tabyeen/article/view/129

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Religious extremism is not only threatening integrity of our society but has also posed a serious challenge of law and order in Pakistan. It has also become source of terrorism involving international conspriracies.Thus it is dire need of the time to reflect open the issue of religious extremism in our society. In this paper we will endeavor to diagnose the reasons leading to this extremism, the teachings of the Prophet (SAW) to discourage religious extremism and sectarianism and would suggest guidelines to evolve a methodology to eliminate religious sectarianism and extremism from our society.

 

مذہبی انتہا پسندی کے اسباب

دور جدید میں ہمارے ہاں آئے دن ایک فرقہ دوسرے فرقے کی تکفیر کرتا رہتا ہے ۔ایک دوسرے پر تبریٰ کرتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔قتل و قتال تک کی نوبت آتی ہے ۔اس طرز عمل کے پیچھے چند بنیادی اسباب کار فرما نظر آتے ہیں ۔

اول: خود اپنے بنیادی عقیدے اور دوسرے مسلک کے عقیدے کے بارے میں معلومات کی کمی اورغیر مصدقہ معلومات پر بھروسہ کرنا۔ حالانکہ نبی مکرم ﷺکی تعلیم یہ ہے کہ تحقیق و ثبوت کے بغیر کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

] يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا [([1])

’’اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔‘‘

دوم: ہر فارغ التحصیل بلکہ ہر دینی طالب علم کا اپنے آپ کو مقام افتاء وقضا پر بٹھا دینا ۔نتیجتاً وہ بہت سے مسائل میں بلا تردد و تحقیق اپنا فتویٰ صادر کر دیتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک جلیل القدر صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بات فرمائی تھی کہ کیا تم نے فلاں شخص کو قتل کرنے سے پہلے اس کے دل کو چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان تھا یا نہیں([2])؟ ہر صاحب علم جانتا ہے کہ دوران جہاد ایک شخص نے عین حالت جنگ میں اپنے آپ کو قتل کیے جانے سے پہلے یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔سربراہ لشکر نے یہ سمجھا کہ یہ شخص محض جان بچانے کے لیے ایسا کہہ رہا ہے اور اس کے قتل سے ہاتھ نہ روکا۔آپﷺ نے اس عمل کو ناپسند کیا۔

لیکن ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر کس و ناکس کے بارے میں محض افواہ او رغیر مصدقہ معلومات کی بنا پر بلا کسی تکلف و تردد یہ فتویٰ صادر کر دیتے ہیں کہ وہ منافق ہے،بدعتی ہے ،وہ گمراہ ہے لہذا اس پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔حالانکہ نبی پاکﷺ نے اس انداز سے سخت منع فرمایا ہے۔حدیث میں ہے کہ

«مَنْ قَالَ لإَخِيْهِ يَا كَافِر فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا» ([3])

’’جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا تو وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک ورنہ کہنے والے کا قول اس کی اپنی طرف لوٹ جاتا ہے۔‘‘

سوم: معلوم یہ ہوتا ہے کہ شاید بین الانسانی تعلقات کو بھی لوگوں نے اپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع کر دیا ہے اور جب کسی مذہب کے ماننے والوں کا کسی لا دینی جماعت کے ساتھ اتحاد ہو جاتا ہے تو ہ اپنے مسلکی اختلافات کو سیاسی وابستگی کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔اگر اس سے آگے بڑھ کر کہا جائے کہ ہمارے ہاں مسلکی تشدد عموماً سیاسی عناصر کے مفادات کی روشنی میں ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔

پاکستان میں شیعہ سنی کھچاؤ کی جڑیں عموماًَ سیاسی مفادات رکھنے والے افراد تک پہنچتی ہیں اور وہ اختلافات کو ہوا دے کر یا ایک دوسرے فرقہ کی پشت پناہی کر کے اپنے لیے مناسب سیاسی فضا پیدا کرتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس طرح نفرتوں کی جو خلیج ہر تشدد کے عمل کے نتیجے میں گہری ہوتی چلی جاتی ہے ،اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی جواب دہی تو کرنی ہی ہو گی،خود اس دنیا میں بھی کسی وقت احتسابی عمل کے نتیجے میں انہیں اپنے کیے پر جواب دہی کرنی نہ پڑ جائے۔

دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد انسانی جان ،خون اور رشتہ کا احترام ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک جان کو بغیر کسی حق کے ضائع کیے جانے کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا۔اسلامی شریعت میں ’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کوزندگی بخش دی۔ ([4])

قتل نفس کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے تشدد پسند گروہ وجود میں آ گئے ہیں جو اپنے نام اور اپنی پہچان نبی پاکﷺ یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کرنے کے باوجود وہ کام کر رہے ہیں جسے خود اللہ کے رسول اور ان کے صحابہ نے شدت سے منع کیا ہے۔

چہارم: فقہی اختلافات میں تشدد کا رجحان۔اس صورت حال کو دیکھ کر مسلمان ہی نہیں ایک غیر مسلم بھی سوچتا ہے کہ کیا مسلمانوں میں فرقہ واریت، انتہا پسندی اور آپس کے جھگڑوں کا اصل سبب فقہی اختلافات کا پایا جانا ہے ؟ کیا مسلمانوں کو ان کے دین نے ایسا خون آشام بنا دیا ہے کہ باہمی نفرت ، تصادم اور خون خرابے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں؟ جب ایک عام تجزیہ نگار مسلمانوں کی صورت حال کا مقابلہ غیر مسلموں کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا سبب ہے کہ عیسائیت میں 250 سے زیادہ علیحدہ علیحدہ چرچ اور مسلکی و فقہی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف ایسی نفرت و دشمنی نہیں پائی جاتی ،جیسی کچھ ملکوں اور علاقوں میں آج مسلمانوں کے فرقوں اور مسلکوں میں پائی جاتی ہے۔

اس تاثر کو شدید بنانے میں عالمی ابلاغ عامہ کا بڑا ہاتھ ہے ۔شاہد ہی کوئی دن ایسا ہو جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کو حوالے سے تشدد،انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کا ذکر اپنی سرخیوں میں نہ کرتے ہوں۔

عالمی سطح پر امت مسلمہ کے اختلافات، باہمی دشمنی اور آپس کے خون خرابے اور تشدد و قوت کے استعمال کی کہانیاں جب بار بار نظروں سے گزرتی ہیں تو غیر ہی نہیں اپنوں کو بھی یقین آ جاتا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے بارے میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے وہ سچ ہی ہو گا۔اگر جائزہ لیا جائے تو صرف امریکہ کے بڑے بڑے شہروں نیو یارک،شکاگو،لاس اینجلس، فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ وغیرہ میں جرائم کی رفتار ،جن میں قتل،جنسی جرائم ،چوری اور ڈاکہ ہر چیز شامل ہے،کسی ترقی پذیر ملک سے کم نہیں بلکہ کئی گنا زیادہ ہے۔لیکن اس کے باوجود، ٹائم،نیوز ویک یا ایشیا ویک نیز سی این این یا بی بی سی کبھی مسافروں کو یہ مشورہ نہیں دیتے کہ ان شہروں کا سفر اختیار کرتے وقت پہلے قریبی پولیس تھانہ سے رابطہ کریں اور اس کے بعد بازار جائیں، جب کہ لاہور،ملتان یا کراچی میں اگر کوئی فرقہ وارانہ واقعہ وقوع پذیر ہو جائے تو اسے عموم کی شکل دیتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں پائی جانے والی کسی بھی درجہ کی تفرقہ بازی،انتہا پسندی زیر بحث آ جاتی ہے اور بین السطور یہ پیغام پہنچا دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان تنگ نظری،تشدد اور انتہا پسندی اور لسانی فرقہ بندی کا شکار ہیں۔اور یہ بات بھی بہت شد ومد سے کہی جاتی ہے کہ دینی مدارس سے فارغ علماء و آئمہ اسلام سے زیادہ اپنے مسلک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی انتہاء پسندی مذہبی منافرت اور تشدد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے،بلکہ اب تو دینی درس گاہوں کو تشدد اور لا قانونیت کی تربیت گاہیں بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ مدارس دینیہ میں بڑی حد تک مشترک نصابی کتب کے باوجود بعض اداروں میں ایک جامد اور متشدد مسلکی ذہن کیوں تعمیر ہوتا ہے؟ جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کے نزدیک بعض روایتی رسموں کے بغیر ایمان نامکمل رہتا ہے اور کسی دوسرے کی نظر میں ایسی تقریبات سے دل پر ایمان کی جگہ ضلالت و گمراہی کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید نظری گفتگوؤں سے اس کا حل نکالا جا سکتا تھا لیکن نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان میں سے بعض ائمہ و علماء نہ صرف اپنے علاوہ دوسرے فرقے اور مسلک کی تضحیک و تذلیل منبر و محراب سے کرتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں دوسرے مسلک کے حاملین کے خون کو بھی حلال قرار دے ڈالتے ہیں۔ان میں بعض شقی القلب و انتہا پسند تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مخالفت فقہ کے افراد پر عین حالت قیام و صلوۃ و قیام اللیل حتیٰ کہ ماہ رمضان میں حملہ آور ہونے کو بھی ’جہاد ‘ سمجھتے ہیں اور ایسے افعا ل کو مسلکی فتح مندی کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تو مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے اور انہیں رحماء بینہم کا مصداق قرار دیا ہے۔حضرت علی ﷜ نے ان خوارج کا خون بھی مباح قرار نہیں دیا تھا جو عملاً ریاست سے باغی ہو گئے تھے۔یہ تمام حالات اور واقعات اس بات پر غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ اس مسئلے کی جڑ کو تلاش کیا جائے کہ آخر ٹیڑھ کہاں ہے؟

مذہبی انتہا ءپسندی کا علاج

اخوت اسلامی کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا

اللہ تعالیٰ کے امت مسلمہ پر بے شمار انعامات میں سے ایک عظیم احسان اہل ایمان کے درمیان رشتہ اخوت ومودت کا قائم فرمانا ہے۔قرآن پاک میں اس احسان عظیم کو ذکر یوں فرمایا گیا :

]اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ[ ([5])

’’ بلا شبہ اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں بس آپس میں صلح وصفائی سے رہا کرو۔‘‘

جب مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی۔اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کے دست و بازو غم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہو جائے تو اسے دور کر کے آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

] وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ [([6])

’’یعنی مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے اولیاء اور رفیق ہیں۔بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔‘‘

منافقین کی صفات مذمومہ کے مقابلے میں مومنین کی صفات محمودہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ پہلی صفت وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون اور غم خوار ہیں۔([7])جس طرح حدیث میں ہے :

«المؤُمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنيَانِ يَشَدُّ بَعْضُه بَعْضًا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِه» ([8])

’’ یعنی مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا دریعہ ہوتی ہے۔اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈال کر اشارہ فرمایا۔‘‘

دوسری حدیث میں فرمایا کہ :

’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہو جاتا ہے اور بیدار رہتا ہے۔‘‘([9])

مزید یہ کہ اخوت کا بنیادی تقاضا باہمی صلح ،رواداری اور عدل بھی ہے ۔چنانچہ سورۃ النحل میں ارشاد ہے :

] اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى [([10])

’’اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل و احسان کو اختیار کرو اور اقربا (مال وغیرہ) کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘

عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ اس کے ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں افراط یا تفریط کا ارتکاب نہ کیا جائے۔حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی کیونکہ دین میں افراط کا نتیجہ غلو ہے۔ جو سخت مذموم ہے اور تفریط دین میں کوتاہی ہے یہ بھی نا پسندیدہ ہے۔

احسان کے ایک معنی حسن سلوک،عفو و درگزر اور معاف کر دینے کے ہیں۔دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔عدل سے معاشرہ میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوشگواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔([11])

مذکورہ آیت کریمہ کی اہمیت کے پیش نظر دنیا کے ہر خطے میں خطبہ جمعہ کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے ۔

صلح و آشتی کے معلق اللہ تعالیٰ ارشاد ہے :

]وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ [([12])

’’اگر مسلمانوں کی جو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو،پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم سب اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے،اگر لوٹ آئے تو انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو۔‘‘

نبی اکرمﷺ نے فرمایا:«أُ نْصُرْ أَخَاكَ ظَالمِاً أَوْ مَظْلُومًا» ([13])

’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم تو کسی سائل نے پوچھا کہ یا نبی اللہﷺ! مظلوم کی مدد تو کی جا سکتی ہے لیکن ظالم کی کس طرح مدد کروں؟ فرمایا کہ اس کو ظلم سے روک دو یہی اس کی مدد کرنا ہے۔‘‘

حدیث میں قطع تعلقی کو حرام قرار دیا ہے لیکن بہتر آدمی وہ ہے جو سلام وکلام کرنے میں پہل کرے۔([14]) مومنین کی تفصیلی صفات کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ آیت 177 یا سورۃ المومنون شروع کی 10 آیات اور سورۃ الفرقان کا آخری رکوع ۔

انسانوں کا ایک دوسرا گروہ جو ضابطہ اخلاق اور عدل و انصاف کو نظر انداز کرتا ہے پھر یہ گروہ صراط مستقیم اور خالق کائنات کی بندگی کو رد کرتا ہے۔دوسری طرف طاغوت کو کبر و انانیت ،بغاوت وسرکشی کو ضد اور ہٹ دھرمی کو اختیار کرتا ہے۔قرآن کریم انہیں ضالین ،گمراہ اور گمراہی پھیلانے والے قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اہل ایمان کی مخالفت میں کمر بستہ رہتا ہے اور انہیں کبھی قوت سے اور کبھی چالاکی ، لالچ، طمع و حرص اور مادی فوائد کے ذریعے ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کرتا ہے۔نتیجتاً اہل ایمان و تقویٰ عظیم اخلاقی مقام پر فائز ہونے کے باوجود کبھی رنگ،کبھی نسل، کبھی زبان،کبھی علاقیات و قبیلہ وبرادری اور کبھی جزوی فقہی اختلافات میں پڑ کر متفرق و منتشر ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اخوت ،رواداری اور عدل و انصاف کے علم بردار اہل ایمان مذہب یا انتہا پسندی ، منافرت،باہمی جنگ و جدال ،قتل و عارت گری کے شکار ہوجاتے ہیں۔* توسط و اعتدال کی ترغیب([15])

نبی مکرمﷺ کی آمد سے پہلے انسان کے فکری و مذہبی سرمایہ چند رویوں کا غلبہ تھا اگر ایک طرف اخوت تمام رویوں کو متعین کرتی تھی تو دوسری طرف امید و مسرت کے جذبے راہنمائی کرتے تھے۔اس طرح اگر ایک طرف انتقام مسلمہ اصول تھا جس سے اجتماعی زندگی منضبط ہوتی تھی تو دوسری طرف عفو و درگزر تھا جو فرد کی اخلاقی عظمت کا معیار متصور ہوتا تھا۔افراد اور معاشرے اپنے رویوں اور اصولوں کی بنیاد پر پہچانے جاتے اور منظم ہوتے۔اسلام نے خوف و رجاء اور انتقام و عفو کے درمیان اعتدال کی راہ کو اخلاقی اصول کے طور پر متعارف کرایا اور انسانوں کو انتہا پسندانہ رویوں اور یک رخے رجحان سے نجات دلائی۔ تو سط و اعتدال کا اصول اخلاقی زندگی کی روح اور انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کا ذریعہ ہے۔* خوف و رجاء

اسلام نے خوف و رجاء کے درمیان اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ خوف و رجاء کو باہم مربوط کر کے ایک معتدل اور مثبت رویہ تشکیل دیا ہے وہ ایک طرف دنیا کی فنا اور زوال کا قصہ بار بار سناتا ہے کہ دل بادہ غفلت میں سر شار نہ ہو اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونے دیتا وہ آخر وقت تک اللہ کے سہارے جینے کی تعلیم دیتا ہے۔

حضرت ابراہیم﷤ کو فرشتہ کے ذریعہ یہ پیغام دیا ]قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ[([16]) ’’انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو بھی خوشخبری دیتے آپ نا امیدوں میں سے نہ بنیے ۔‘‘

اور اللہ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ] لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ [([17]) ’’اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوں۔‘‘* عفو و انتقام

جس طرح ہر حال میں انتقام کے اصول پر عمل نہیں ہو سکتا اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسلام نے دونوں کو جمع کر کے تو سط و اعتدال کی کیفیت پیدا کی ہے جس سے دونوں پر اپنے اپنے حالات میں عمل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

]يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ [([18])

’’اے ایمان والو ! قتل کے مقدمات میں تم قصاص فرض کیا گیا ہے اگر قاتل آزاد ہے تو اس کے بدلے آزاد ہی قتل ہوگا۔ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی۔ پھر اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے (خون بہا) کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے (مقتول کے وارثوں کو) ادا کردے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کے بعد جو شخص زیادتی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا۔ ‘‘

انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی

1۔عقائد میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ]يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ [([19])

’’ اے اہل کتاب دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق اور کچھ نہ کہو۔‘‘

غلو کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ﷤ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا ۔انہیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے ۔اس طرح حضرت عیسی﷤ کے پیرو کاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حلال و حرام کے اختیار سے نوازا۔ دیکھئے (سورۃ التوبہ 21:9)

نبی پاکﷺ نے عیسائیوں کے اس انتہا پسندی کو پیش نظر رکھ کر اپنی امت کو متنبہ فرمایا:

«لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عبده فقولوا عَبْدُ الله وَرَسُولُهُ»

’’کہ مجھے حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم(﷤ )کو بڑھایا۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔‘‘ ([20])

2۔عبادات میں

حدیث پاک میں ہے کہ تین صحابہ کرام﷢ نے نیک نیتی سے رہبانیت کا ارادہ فرمایا:

«فقال أحدهم إما انا فأصلي الليل ابدا، وقال آخر انا اصوم ولا افطر ، وقال آخر انا اعتزل النساء فلا اتزوج ابدا»

یعنی ان حضرات نے فیصلہ کیا کہ ایک نے فرمایا میں آئندہ رات بھر قیام کروں اور نماز پڑھتا رہوں گا۔دوسرے نے کہا کہ مسلسل روزہ رکھوں گا افطار نہیں کروں گا،تیسرے نے کہا کہ میں شادی ہر گز نہیں کروں گا۔

جب نبی پاکﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ :

«لكنى اصوم وافطر، واصلي و ارقد واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني» ([21])

’’یعنی فرمایا کہ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور افطار کرتا بھی ہوں،رات کی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتابھی ہوں اور میں شادی شدہ ہوں۔جس نے میری سنت (طریقہ) سے منہ موڑ لیا وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔‘‘

3۔اخلاقیات میں

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

] وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ [([22])

’’لوگوں کے سامنے اپنے رخسار نہ پھلا،زمین میں اترا کر،اکٹر کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔‘‘

] وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ [ ([23])

’’اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز پست کر یقیناً بد سے بدتر آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘

4۔معاشیات میں

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

] كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا [([24])

’’کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو۔‘‘

اسراف (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتی کہ کھانے پینے میں بھی نا پسندیدہ ہے۔ایک حدیث میں نبی پاکﷺ نے فرمایا:’’ جو چاہو کھاؤ،جو چاہو پیو البتہ دو باتوں سے گریز کرو اسراف اور تکبر سے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تبذیر سے بھی منع فرمایا:

]وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا¤اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا [ ([25])

’’ اسراف اور بے جا خرچ سے بچو، بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘

بعض کے ہاں تبذیر کا مطلب ناجائز امور پر خرچ کرنا ہے خواہ تھوڑا ہو۔([26])

رواداری و برداشت کی ترغیب

اسلام میں رواداری کی ترغیب دلائی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ] لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ [ ([27])

’’ دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں۔‘‘

رہتی دنیا تک روشن چراغ بن کر جگمگاتے رہیں گے۔ قرآن حکیم نے دیگر مذاہب کو پیش کش بھی کی جس کی نظیر مذاہب عالم کی پوری تاریخ میں نہیں۔جیسے فرمان الہٰی ہے: کہ آؤ اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں۔اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائیں۔(اس دعوت کو قبول کرنے سے) اگر منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ، ہم تم حکم کے تابع ہیں۔ ([28])

قرآن مجید کی مجسم تصویر حضرت محمدﷺ نے ہجرت کے فوراً بعد یہودیوں اور مدینہ کے ارد گرد کے مشرک قبائل کو بقائے باہمی پر امن کے ایک معاہدہ ’میثاق مدینہ‘ میں شریک کیا۔ آپﷺ نے مشرکین مکہ سے حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ صلح کیا۔خانہ کعبہ کو مشرکوں کے قبضے میں ہی رہنے دیا۔ آپﷺ نے نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح کیا تو انہیں پوری مذہبی آزادی دیتے ہوئے ان کےگرجا گھروں اور کلیساؤں کی حفاظت کا خود ذمہ لیا۔اس طرح ان کی عیسائی حکومت کو کمال رواداری سے برقرار رکھا۔([29])فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے تمام مشرکین اور کفار کو رواداری اور تحمل کا ثبوت دیتے ہوئے معاف فرما دیا۔

بنو ثقیف کا وفد جب آپؐ سے صلح کا معاہدہ کرنے مدینہ آیا تو اس وقت کو مسجد نبوی میں ٹھہرانے کا بندوبست کیا ۔نماز اور خطبہ کے دوران وہ مسجد میں موجود رہتے تھے ۔پھر یہ لوگ زکوۃ دیتے تھے اور نہ جہاد میں شرکت۔([30])

آپﷺ نے کمال حکمت اور رواداری سے ان کی خامیاں برداشت کیں ،پھر تھوڑی مدت کے بعد زکوۃ بھی دینے لگے اور جہاد میں بھی شرکت کرنے لگے۔آپﷺ نے اہل خیبر کے ساتھ رواداری کا ثبوت دیا اور ان کی زمین انہی کو بٹائی پر دے دی۔([31])

نبی پاکﷺ کے منافقین سے چشم پوشی میں صرف ایک ہی بنیادی حکمت پنہاں تھی او روہ یہ کہ آپﷺ اپنی امت کو اپنے عمل سے یہ سنہری سبق دینا چاہتے تھے کہ نیت کی جزا و سزا کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑا جاتا ہے اور اسی بزرگ و برتر پر ہی چھوڑا بھی جانا چاہیے۔

اس وقت امت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ ہم اپنے فرقہ کی بنیاد پر ہی دوسرے کی نیت پر شبہ کرتے ہیں اور اسے اس کی ’بدنیتی‘ کی سزا بھی خود ہی دینا چاہتے ہیں۔نیت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ کر دیکھیں تو ہمیں صاف محسوس ہو گا کہ مسلمانوں میں موجود تمام مذاہب (مسالک) ایک اللہ کی وحدانیت ،ایک قرآن کی حقانیت اور ایک رسول(ﷺ) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ایک جیسا کلمہ پڑھتے ہیں،ایک جیسی پنجگانہ نماز ادا کرتے ہیں،ایک جیسے ماہ صیام کے روزے رکھتے ہیں اور ایک جیسے حج اورایک جیسے زکوۃ کے نظام پر عمل پیرا ہیں۔ تمام مذاہب کی بنیاد اور سر چشمہ ایک جیسے ہیں کوئی بنیادی اختلاف نہیں صرف فروعی مسائل میں اختلاف کا ہونا کوئی بری بات نہیں۔

فرقہ واریت کی بیخ کنی

فرقہ بندی کی تردید میں تقریباً قرآن کریم کے اکیس مقامات پر مختلف سیاق میں تذکرہ موجود ہے۔

کہیں یہ بات فرمائی گئی علم و ہدایت آنے کے بعد فرقوں میں نہ بٹ جاؤ۔([32]) کہیں واضح ترین الفاظ میں یہ بات سمجھائی کہ حق سے منحرف ہونے والے بعض افراد مسجد جیسی جوڑنے والی اعتصام بحبل الله بپا کرنے اور اخوت و احترام کرنے والی جگہ کو اہل ایمان کے درمیان ضرر و افتراق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔([33])

سورۃ الشوریٰ میں فرقہ بندی و انتہا پسندی کو ایک منفی اور سلبہ عمل قرار دیتے ہوئے اقامت دین کی جدو جہد کے ذریعے تفرقہ رکھنے والی ذہنیت کو دور کرنے کی تعلیم دی گئی ہے یہاں سے یہ اصول بھی نکلا کہ اقامت دین کے لیے کوشش کرنے والی تحریکات کا ذہن فرقہ پرستی کا نہیں بلکہ دین کے حوالے سے امت مسلمہ کو جوڑنے کا ہو گا۔ چنانچہ ارشاد ہے : ] اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ [ ([34]) ’’قائم کرو دین کو اور اس میں پھوٹ (تفرقہ) نہ ڈالو۔‘‘

گویا اسلام فرقہ بندی، انتہا پسندی اور آپس میں تقسیم ہو کر جتھ بندی کی کھل کر مذمت و ممانعت کرتا ہے لیکن یہ سمجھنا درست نہ ہو گا کہ اسلام اختلاف رائے اور فرقہ پرستی اور تفرقہ بازی میں فرق نہیں کرتا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ،قرآن و حدیث پر غور وخوض کے بعد خلوص نیت سے مختلف تعبیرات اور فقہی آراء قائم کرنے کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم اسے محبوب ومطلوب قرار دیتا ہے۔جہاں وہ دین کے قیام و غلبہ کے لیے اہل ایمان کی ایک جماعت کا جہاد بالسیف میں مصروف ہونا ضروری قرار دیتا ہے وہاں دوسری جماعت (گروہ) پر دینی مصادر کو سمجھنے ،فہم دین پیدا کرنے اور دین کی دعوت و تعلیم فرض کر دیتا ہے تاکہ اسلام کی معاشی،سیاسی،معاشرتی،ثقافتی تعلیمات کی وضاحت ہو اور ان تعلیمات کی روشنی میں ایک نقشہ عمل اور حکمت عملی وضع کی جا سکے۔

سورہ توبہ آیت نمبر 122 میں اسے تفقه فی الدین کا عنوان دیا ہے۔یہاں بھی یہ یاد رہے یہ تقسیم بھی مطلق نہیں ہے کہ مجاہدین اور فقہاء کے ہمیشہ دو الگ الگ طبقات یا گروہ ہوں۔مجاہد اور عالم دونوں اس جہاد کا حصہ ہیں۔

مسلمان پیشواؤں ،ائمہ دین میں بہت سی شخصیات ہیں جن میں فکر وفن اور سیف و جہاد کا اجتماع بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان اصطلاحات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تفریق و اختلاف ہے کیا؟ کیا یہ مرض اس صدی کا مرض ہے؟ کیا دین میں اس کی گنجائش ہے؟ کیا قرآن وسنت کے علاوہ کسی مسلک کا پیرو کار ہونا بھی فلاح و کامرانی کے لیے ضروری ہے؟

قرآن کریم ہر مسلمان مرد و عورت کو حکم دیتا ہے کہ دین کا کم از کم اتنا علم حاصل کر لے کہ حلال و حرام میں فرق معلوم ہو کسے ۔ حدیث میں ارشاد ہے:

’’حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اس لیے اس واضح حلال وحرام کا علم اور اس کی روشنی میں مشتبہ امور کو معلوم کرنے کے لیے تفقہ اختیار کرنا ہو گا۔‘‘([35])

قرآن کریم کا حکم ہے عام معاملات میں مشاورت کرو اور جب قلب و ذہن ایک مقام پر مطمئن دیکھو تو عزم الامور کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔ ([36])

کیا ہر مشورہ،ہر تحقیق اور ہر تعبیر لازمی طور پر اجماع کی شکل اختیار کرے گی؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پورے خلوص نیت ،علمی عبور اور جائزے و تجزیے کے بعد ایک سے زائد مسالک و آراء یکساں طور پر دین کے دائرہ میں ہوں۔جیسا کہ صحابہ کرام﷢ کی اس جماعت کے ساتھ پیش آیا تھا جسے نبی پاکﷺ نے حکم دیا تھا کہ :

’’بنو قریظہ میں جا کر نماز عصر ادا کرنا۔‘‘([37])

صحابہ﷢کی ایک جماعت نے قضاء کر کے نماز پڑھی اور دوسرے گروہ نے اس آیت کی روشنی میں کہ نماز وقت مقرر ہے نماز اول وقت میں پڑھی ۔آپﷺ نے ان کی واپسی پر ان میں سے کسی کی گرفت نہیں فرمائی۔تو گویا کہ دونوں گروہوں کی عبادت اللہ کے ہاں قابل قبول ہے۔

ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نبی پاکﷺ نے امام و سربراہ ہونے کے باوجود شوریٰ کے اصول کو عملاً اختیار فرمایا۔بدر میں میدان کے انتخاب([38])، احد میں مدینہ سے باہر جا کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ([39])، غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی تعمیر([40])، صلح حدیبیہ کے موقع پر حکمت عملی طے کرنا۔غرض بے شمار مواقع پرﷺ نے اپنے فیصلہ کرنے کے اختیار کی جگہ شوریٰ کو اولیت دی۔

ابھی آپ کے وصال کو چند لمحات ہی گزرے تھے کہ صحابہ کرام﷢ کے درمیان خلیفہ کے انتخاب پر اختلاف ہوا اور مختلف آراء سامنے آئیں۔خود آپﷺ کی تدفین کے حوالے اختلاف پیدا ہوا کہ تدفین کہاں پر عمل میں لائی جائے۔ابھی ریاست کے معاملات طے ہورہے تھے کہ حضرت اسامہ بن زید﷜ کے لشکر کی روانگی پر اختلاف پیدا ہو گیا،ساتھ ہی منکرین زکوۃ سے جہاد کے مسئلے پر صحابہ ﷢ میں اختلاف کھڑا ہو ا۔یہ مسئلہ اٹھا کہ جو لوگ زکوۃ کے منکر ہوں مگر صلوۃ ادا کرر ہے ہوں کیا ان پر تلوار اٹھائی جائے گی؟ ابھی یہ معاملات طے ہوئے ہی تھآ کہ یہ سوال پیدا ہوا کہ جن مقامات پر جہاد کیا جار ہا ہے اور مسلم افواج بغیر کسی مقابلے کے املا پر قابض ہو جائیں تو کیا یہ بھی غنیمت کی طرح تقسیم ہوں یا اموال فئے کے لیے کوئی اور اصول اختیار کیا جائے گا؟ جو زمینیں اس طرح زیر نگیں آئیں گی وہ عشری ہوں کی یا خراجی؟ مختصر یہ کہ امور مملکت ہوں یا بنیادی معاشی،اعتقادی،معاشرتی و انتظامی مسائل ہر نوع پر صحابہ کرام﷢ کے درمیان اختلاف کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کھلے لفظوں میں فرماتی ہیں کہ حضرت ابوہریرہ﷜ سے فلاں معاملے میں سہو ہوا،اصل بات یوں ہے۔اسی طرح حضرت عمر﷜ اور دیگر خلفائے راشدین تعزیر کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں لیکن کیا ان اہم اختلافات کے باوجود کوئی ایک مثال ایسی ہے کہ جب حضرت ابوبکر﷜ نے حضرت علی﷜ سے اختلاف کیا ہو تو حضرت علی﷜ نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی بند کر دی ہو؟ یا حضرت عمر﷜ اور حضرت عثمان﷜ سے بول چال بند کر دی ہو؟ یا ان کے ایمان و خلوص پر کوئی شک و شبہ کیا ہو؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ جب حضرت عثمان﷜ پر بیرونی افراد یلغار کرتے ہیں تو حضرت علی﷜ بنفس نفیس، حضرت حسن اور حسین﷢ کو مسلح پہرہ دینے کے لیے حضرت عثمان﷜ کے گھر پر مامور کرتے ہیں؟

گویا اختلاف مسلک بجائے خود نہ تو مردود ہے او رنہ نفرت و فساد پیدا کرتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جب بھی مصنوعی طریقہ سے امت مسلمہ پر کسی ایک مسلک کو مسلط کرنے کا خیال پیش کیا گیا ،امت مسلمہ کے خیر خواہ علماء نے اس کی مخالفت کی۔حضرت امام مالک﷫ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔انہوں نے خلیفہ وقت کی خواہش رد کرتے ہوئے حدود و مملکت میں فقہ مالک رائج کیے جانے کی مخالفت کی اور اس معاملے کو امت مسلمہ کے شعور پر چھوڑ دیا کہ وہ جس فقہی رائے کو چاہے اختیار کرے۔

دور صحابہؓ اور بعد کے ادوار میں فقہاء علماء امت کے اختلافات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر ان میں خلوص نیت کے ساتھ نصوص قرآن و سنت پر مبنی اختلاف کارجحان نظر آتا ہے یعنی وہ اپنی ذات ،انا یا اپنے مرشد و شیخ کی اندھی تقلید و پیروی کرتے نظر نہیں آتے۔

امام ابو یوسف﷫ اور امام محمد الشیبانی﷫ سے بڑھ کر امام ابو حنیفہ﷫ کا احترام و محبت کس کے دل میں ہو گا؟ دونوں ان کے جانشین اور شاگردان رشید ہیں لیکن وہ بھی بہت سے معاملات میں اپنے استاد سے اختلاف کرتے ہیں۔کیا اس اختلاف کی بنیاد پر وہ توہین استاد کے مرتکب قرار دیےجائیں گے؟ گویا ہماری علمی وثقافتی روایت میں اختلاف کا نہ ہونا ایک اجنبی چیز ہے اور دلیل و برہان کی بنا پر اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں تحمل ،رواداری،کشادہ دلی ،اکرام و محبت کا فقدان پایا جاتا ہے۔اختلاف خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ،مخالف کا خون تک بہانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ہماری نگاہ میں مسئلہ چاہے کتنا پیچیدہ نظر آتا ہو اگر خلوص نیت اور دیانت داری کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو اس کا حل نہ صرف ممکن ہے بلکہ ہمیں اسے جلد از جلد اختیار کرنا ہوگا۔منافرت ،مقاطعہ،مقاتلہ اور فساد مستحکم سے مستحکم انسانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے تباہ و برباد کر دیتا ہے۔مسلم معاشرے میں جب بھی فروعی اختلافات کو بنیادی اہمیت دی گئی امت مسلمہ کی ہوا اکھڑی(اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ الانفال46:8) اور وہ تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود دشمن کے لیے نوالہ تر بن گئی۔اس لیے ہمیں خود آگے بڑھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔

کیا مسئلہ بنیادی طور پر عقیدے کا ہے؟ کیا ہر مسلک کے ماننے والوں کے اللہ اور رسول مختلف ہیں؟ یا سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہر مسلک کا کعبہ الگ ہے یا سب کا قبلہ حرم کعبہ ہی ہے؟ کیا کسی مسلک کے ماننے والے زکوۃ کے قائل ہیں اور کسی کے قائل نہیں؟ کیا کسی مسلک میں روزہ فرض ہے اور کسی میں نہیں؟ ان تمام اور دیگر اس جیسے سوالات پر جتنا غور کیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ بنیادی عقیدے کے لحاظ سے معروف سنی و شیعہ مسالک میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں پایا جاتا۔اس بنا پر ان میں سے کسی کے بارے میں یہ کہنا کہ چونکہ فلاں جزوی معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں اس لیے دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے اور اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہی ہو گی جو مرتد یا مشرک یا کفار کے ساتھ ہوتی ہے،فکر و نظر کا یہ زاویہ دین سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ کوئی شخص جو دین کا فہم رکھتا ہو ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔

مذہبی انتہا پسندی کے سد باب کے لیے عملی تجاویز* نمائندہ مسالک خواہ شیعہ ہوں ،دیوبندی ہوں یا بریلوی ہوں یا اہلحدیث ہوں انہیں مل کر معروضی طور پر ایک تجزیاتی عمل کے ذریعے مسئلے کا تعین کرنا ہو گا کہ اصل سبب کیا ہے؟ اس کی جڑیں کہاں تک پہنچتی ہیں؟ اور اس کے محرکات کیا ہیں؟

  • فقہی مسالک کے نمائندہ علماء کو ایک مرتبہ نہیں بار بار ایک مستقل فورم کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی وی اور ریڈیو پر اپنے مسلک کے ماننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے امن عامہ کے قیام، نفرتوں کے خاتمے اور اخوت وحق کے قیام کے لیے اپنی مخلصانہ رائے دینی ہو گی۔وہ دو عملی اختیار نہیں کر سکتے کہ نجی محفلوں میں یا کسی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک مشترکہ اعلامیہ پر قیام امن اور اتحاد امت کی کسی قرارداد پر دستخط بھی کر دیے جائیں اور ساتھ ان کے مسلک کی ایک سپاہ دوسروں کے اعوان و انصار سے نبرد آزما بھی ہو جائے۔
  • تشدد، قتل و غارت اور اختلاف کی پیدا کردہ منافرت کو دور کرنے کے لیے علماء اور مسالک کے راہنما افراد کو آگے بڑھ کر ایک مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔یہ بات باور نہیں کرائی جا سکتی کہ ایک مسلک کے سربراہ تو ایک متوازن الفکر معروف عالم دین ہوں لیکن اسی مسلک کا ایک عسکری تربیت یافتہ گروہ بھی ہو جو جہاں جب چاہے شب خون مارنے کے لیے آزاد ہو۔ ظاہر ہے ایسے گروہ کی قیادت جن،بھوت یا فرشتے تو کرنے سے رہے۔کسی مسلکی سربراہ کی رائے کے خلاف ایسے افراد کا کوئی کام کرنا عقل نہیں مان سکتی۔گویا کہ مسالک سربراہان کو عوامی سطح پر امن کے قیام،انسانی جان کے احترام اور قتل و غارت گری کے خاتمے کے لیے اپنا جوہری کردار ادا کرنا ہو گا اور اپنے مسلک کے پیروکار و افراد کے مثبت اور منفی تمام کاموں کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔
  • ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہو گا کہ انسانی مسائل کا حل تنہا قوت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مذہبی گروہ بھی جو غیر دانستہ طور پر ایک دہشت پسندانہ طرز عمل کا شکار ہو گئے ہیں۔انہیں موجودہ تشدد کی ثقافت کی گرداب سے نکلنے کے لیے جرات مندی اور خلوص نیت کے ساتھ اصلاح حال کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔مسائل کے حل کے لیے حملے اور جوابی حملے کی جگہ عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے باہمی اعتماد اور مسلکی یک جہتی کے قیام کے لیے ان تلخ دشمنیوں کو دفن کرنا ہو گا جو وقتاً فوقتاً کسی کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔آستین کا لہو زیادہ عرصہ چھپا نہیں رہتا اور جلد یا بدیر حقائق سے پردہ اٹھ کر رہتا ہے ۔اس لیے متعلقہ مذہبی گروہوں کو آنے والی نسلوں کے خیال سے نفرتوں کی اس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانا ہو گا خواہ اس عمل میں ان کے اپنے ہاتھوں پر آبلے پڑ جائیں۔
  • مختلف مسالک کے جید علمائے کرام اور بزرگان دین کو بھی عزم کرنا ہو گا کہ وہ اپنے مسلک کو مزید بدنام نہ ہونے دیں گے اور جو دست شر انگیز ان کے مسلک کے بعض حضرات کو اپنے لیے استعمال کر رہے ہوں ،ان کو پہچانتے ہوئے اس دخل اندازی کا جرات کے ساتھ بند کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ایک طرف اسے اپنے اداروں کو اس غرض سے حرکت میں لانا ہو گا اور دوسری طرف عدلیہ کے احترام کو بحال کرنا ہو گا۔ابلاغ عامہ کو بھی ایک تعمیری رخ پر چلنا ہو گا اور اطلاعات کے ذریعے سنسنی پھیلا کر اپنے مذموم کاروبار کو چمکانے کی جگہ ان اداروں اور افراد کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہو گا جو انتہا پسندی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
  • قومی ابلاغ عامہ کی ذمہ داری بھی اس سلسلے میں غیر معمولی طور پر اہم ہے ۔اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ بعض علماء اس انتہا پسندی کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو حکومتی ابلاغ عامہ (ریڈیو؍ٹی وی) کو کس نے روکا ہے کہ وہ ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام نمائندہ علماء کو یکے بعد دیگرے ٹی وی پر بلا کر خود ان سے براہ راست اس مسئلے کا حل دریافت کریں اور معروضیت اور کشادگی کے ساتھ ان کی آراء کو بغیر کسی ترمیم کے نشر کریں۔یہ سمجھنا کہ اس طرح کشیدگی بڑھ جائے گی ،بے بنیاد واہمہ ہے۔ہر فرد اپنی جماعت کی ذات کے حوالے سے خوب سمجھتا ہے کہ کس بات کے کہنے سے مثبت یا منفی تاثر پیدا ہو گا؟ اس لیے براہ راست ان حضرات کا ٹی وی پر آنا خود یہ واضح کر دے گا کہ آخراس ہنگامے کے پس پردہ کون ہے؟اگریہ علماء اپنی بریت کا اعلان کرتے ہیں تو پھر خود بخود ظاہر ہو جائے گا کہ تشدد و انتہا پسندی کا کون ذمہ دار ہے؟اور یہ قصہ پیدا کس نے کیا ہے؟اس قسم کے قومی اہمیت کے حساس موضوعات پر بات کھل کر ہونی چاہیے۔پس پردہ جوانمردی دکھانا اور سامنے بھولے پن کا مظاہرہ کرنا عوام کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا۔عوام خوب سمجھتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے ؟

 

حوالہ جات

  1. () الحجرات : 6
  2. ()مسلم بن حجاج القشیری ،صحیح مسلم، موسوعة الحدیث للکتب الستة، دار السلام، ریاض، کتاب الایمان،باب تحریم قتل الکافر بعد قوله لا اله الا الله (ص:694) ۔
  3. ()البخاری،محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری، موسوعة الحدیث للکتب الستة ،دارالسلام،ریاض، کتاب الادب، باب من کفر اخاه بغیر تاویل(ص :515) ۔
  4. ()المائدہ : 32
  5. () الحجرات : 10
  6. () التوبہ : 71
  7. () الصابونی،محمد علی،مختصر تفسیر ابن کثیر،دار القرآن الکریم،بیروت 1981ء( 2؍154)۔
  8. () صحیح بخاری ،کتاب الصلوة،باب تشبیک الاصابع فی المسجد( ص:40 )۔
  9. () صحیح بخاری،کتاب الادب،باب رحمة الناس والبهائم (ص :1508 )۔
  10. () النحل : 90
  11. () یوسف،صلاح الدین،تفسیر احسن البیان،دارالسلام،ریاض(ص:362)۔
  12. () الحجرات : 9
  13. () صحیح بخاری،کتاب المظالم،باب نصر اخاک ظالما او مظلوما(ص :192)۔
  14. () صحیح بخاری،کتاب الادب،باب الهجرة ( ص: 513)۔
  15. () علوی،خالد،انسان کامل، الفیصل ناشر ،لاہور،1997ء (ص :596)۔
  16. () الحجر : 55
  17. () یوسف : 53
  18. () البقرہ : 178
  19. () النساء: 171
  20. () صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ( رقم : ۳۴۴۵)۔
  21. () صحیح بخاری ،کتاب النکاح،باب الترغیب فی النکاح(ص:438 موسوعۃ الحدیث)۔
  22. () لقمان : 18
  23. () ایضاً: 19
  24. () الاعراف: 31
  25. () الاسراء : 26 ،27
  26. () تفسیر احسن البیان( ص:372)۔
  27. () البقرہ: 256
  28. () آل عمران: 64
  29. () ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی،سنن أبي داود،کتاب الخراج،باب اخذ الجزیة( ص :1452 موسوعۃ الحدیث)۔
  30. () سنن أبي داود،کتاب الخراج،باب ماجاء فی خبر الطائف(ص 1451 موسوعۃ الحدیث)۔
  31. () ابن قیم ،شمس الدين محمد بن ابو بكر بن ایوب بن سعد بن حريز الزرعی،مختصر زاد المعاد، انصار السنہ،لاہور (ص :258)۔
  32. () آل عمران: 105
  33. () التوبہ: 107
  34. () الشوریٰ:13
  35. () صحیح بخاری،کتاب الایمان،باب فضل من استبرأ لدینه(ص :6 موسوعۃ الحدیث)
  36. () آل عمران: 59 ، الشوریٰ:38
  37. () صحیح بخاري،کتاب المغازی،باب مرجع النبی من الأحزاب (ص :337 موسوعۃ الحدیث)۔
  38. () عبدالسلام ہارون،تہذیب سیرۃ ابن ہشام، دار الحدیث، کویت،1981ء(ص :143)۔
  39. () ایضاً(ص :157)۔
  40. () ابو الحسن ندوی،السیرۃ النبویہ،دار الشروق،سعودی عرب،1977ء(ص :207)۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...