Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 1 Issue 1 of Al-Tabyīn

علمائے کرام، قائد اعظم اور نظریہ پاکستان |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060060947_949

Pages

69-99

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/133

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران ایک سوال ابھر کر سامنے آیا کہ انگریزوں کے یہاں سے چلے جانے کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اقتدار کی تقسیم کا کیا فارمولا ہو گا۔ہندو اس سوال کے جواب سے پس و پیش کر رہے تھے۔ اور یہ ظاہر کر رہے تھے کہ پہلے مشترکہ جدوجہد کے ذریعے انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے ،بعد میں اقتدار کی تقسیم کے معاملات آپس میں طے کر لیے جائیں گے۔ ہندو مسلمانوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تھے ،نتیجتاً مسلمان انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کی غلامی میں آ جاتے۔اس دوران کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے جس میں اس سوال کا قابل عمل جواب سامنے نہ آسکا۔مثلاً ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں انگریزوں کی کامیابی نے اس سوال کو مزید پس پشت ڈال کر ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جدو جہد کے حوالے سے حالات سازگار بنائے گئے۔اور یہ ہندوؤں کی ایک چال بازی تھی جس میں وہ مسلمانوں کی قومیت کو ختم کرنے اور ان سے اپنے اوپر حکمرانی کا بدلہ لینے کے لیے بے تاب تھے، جو ان کے دلوں میں کوٹ کو ٹ کر بھری ہوئی تھی۔یہ تذبذب کی صورت حال ۱۹-۱۹۱۸ء سے ۱۹۲۴ء تک جاری رہی۔ اس دوران خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہو گیا، جس کی بقا کے لیے بظاہر ہندو،مسلمانوں کے ساتھ مل کر جدو جہد کر رہے تھے۔ ہندوؤں کی سازشیں پوری طرح کھل کر سامنے آئیں اور شدھی تحریک،سنگھٹن وغیرہ کی تحریکیں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے شروع کی گئیں۔([1])

۱۹۲۴ء سے ۱۹۳۶ء تک کا زمانہ مسلمانوں کے لیے کا فی مشکلات کا رہا۔اس دوران علما دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ایک گروہ کا خیال ابھی تک یہی تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو مشترکہ طور پر انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے، اور انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوؤں سے معاملات طے کر لیے جائیں گے۔اس لیے کہ ہم ان پر کئی سو سال تک حکومت کر چکے ہیں۔ جب کہ دوسرے گروہ کا خیال یہ تھا کہ ہندوؤں کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پائے بغیر انگریزوں کا یہاں سے چلا جانا، مسلمانوں کا انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندوؤں کی غلامی میں آنے کے مترادف ہے۔اول الذکر گروہ میں جمعیت علمائے ہند کے سر کردہ مولانا حسین احمد مدنی﷫اور ان کے رفقاء تھے، جو کانگریس کے حامی تھے۔ مؤخر الذکر گروہ میں مولانا اشرف علی تھانوی﷫، مولانا شبیر احمد عثمانی﷫ اور مفتی شفیع عثمانی ﷫ سمیت دیگر مسالک کے بیشتر علما نے کانگریس کی مخالفت کی اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کے حصول کے لیے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔([2])

تحریک پاکستان کے مؤید علما میں سے چند کا تذکرہ

۱۔مولانا مظہر الدین مالک

تحریک پاکستان کے حامی علما میں مولانا مظہر الدین مالک ﷫نمایاں شخصیت رہی ہیں۔آپ دارلعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔شدھی تحریک کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں شامل تھے۔انہوں نے جمعیت علمائے ہند،کانپور کی تشکیل میں بھی مرکزی کردار ادا کیا،جو جمعیت علمائے ہند کے مقابلے میں بنائی گئی۔اس لیے کہ جمعیت علمائے ہند کانگریس کو سپورٹ کرتی تھی جبکہ یہ حضرات اس کے مخالف تھے۔اس طرح مسلم لیگ جب عوامی سطح پر ابھرنے لگی تو انہوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔بالآخر ان کو ۱۹۳۸ء میں قتل کر دیا گیا۔([3])

۲۔مولانا شبیر احمد عثمانی

مولانا شبیر احمد عثمانی ﷫کا تحریک پاکستان میں کلیدی کردار رہا۔آپ دارالعلوم دیو بند کے جید اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے۔انہوں نے تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا تھا جو مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر چلائی تھی۔ لیکن اس اتحاد کے دوران مظاہروں اور دیگر دوسرے طریقوں میں وہ دینی اقدار کی پامالی کے مخالف تھے۔ انہوں نے ہی جمعیت علمائے اسلام کی تشکیل کی اور اس کے پہلے صدر بنے۔مولانا حسین احمد مدنی ﷫کے اس فتویٰ کا مدلل جواب دیا، جس میں انہوں نے مسلمانوں کو لیگ میں شامل ہونا ممنوع قرار دیا تھا۔۱۹۴۵ء میں انہوں نے مسلم لیگ کے ایک اجلاس کی صدارت کی اور شرکاء کو آنے والے انتخابات کی اہمیت بتائی کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ برطانیہ کی حمایتی ہے تو وہ کسی پروپیگنڈہ کا شکار ہیں اور تحریک پاکستان کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد وہ دستوریہ پاکستان کے رکن بھی منتخب ہوئے۔بالآخر ۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء کو ان کی وفات ہوئی۔([4])

قیام پاکستان کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی ﷫دستور پاکستا ن کو اسلامی بنانے کے لیے شب روز کوشاں رہے۔ ان ہی کی کوششوں سے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو قرار دار پاکستان منظور ہوئی۔ جس میں پاکستان کے نظریاتی رخ کو متعین کیا گیا۔ ان کی وفات پر وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران ان کی وفات کو پوری ملت کا نقصان قرار دیااور انہیں زبردست خراج ِ عقیدت پیش کیا۔

۳۔مولانا شرف علی تھانوی

مولا نا اشرف علی تھانوی ﷫نے بھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔وہ اپنے علم و فضل اور تقویٰ کی وجہ سے ایک منجھے ہوئے عالم اور صوفی تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی ﷫ جیسے علما ان کے مرید تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت میں حصہ نہیں لیا ،جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا ہندوؤں کے ساتھ اور ان کی رہنمائی میں جدوجہد کرنے کو مثبت نتیجہ خیز نہیں سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ ہندوؤں کے ساتھ ایک لمبے عرصے کی دشمنی کے بعد ان سے کسی خیر کی توقع کرنا حماقت ہے۔اور ہندو اسلام کو مٹانے اور بدنام کرنے کی کوششوں میں ہراول دستے میں شامل ہوتے تھے۔اسی وجہ سے جب دیوبند کی انتظامیہ سے ان کے اختلافات شدید ہوئے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ جب ان سے تحریک پاکستان میں عملی طور پر شامل ہونے کی درخواست کی گئی تو انہوں نے اپنا اطمینان کر نے کے بعد پھر مسلم لیگ کی ہر طرح سے حمایت کی۔اور مسلم لیگ کے اجلاسوں کے لیے اُن کے تحریری ارشادات پڑھ کر سنائے گئے کیوں کہ وہ علالت کے باعث ان جلسوں میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ ان کے انتقال پر مسلم لیگ نے اپنے اجلاس ۱۴نومبر ۱۹۴۳ء کو ان کے لیے قرارداد تعزیت منظور کی۔([5])

مولانا اشرف علی تھانوی ﷫ ہندؤوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’یہ قوم ( ہندو ) نہا یت احسان فراموش ہے مسلمانوں کو تو اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ انگریزوں کی خدمت کے سلسلے میں جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا وہ ظاہر ہے۔ دیکھو غدر سب کے مشورے سے شروع ہو ا جو کچھ بھی ہوا مگر اس پر مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ بڑے بڑے رئیس و نواب ان (ہندؤوں) کی بدولت تختہ دار پر لٹکائے گئے پھر تحریک کانگریس میں مسلمانوں نے حصہ لیا۔ بڑی بڑی قربانیاں دیں اس کا صلہ شدھی کی صورت میں ملا،آئے دن کے واقعات اسی کے شاہد ہیں کہ ہر جگہ جہاں مسلمانوں کی آبادی قلیل دیکھی پریشان کر دیا مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض بد فہم اور بے سمجھ ان کو دوست سمجھ کر ان کی بغلوں میں گھستے ہیں۔‘‘([6])

مزید فرماتے ہیں :

’’ کانگریس میں مسلمانوں کی شرکت کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو تباہ کرنا ہے۔مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت،ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کرنا اور ان کو ساتھ ملا کر کام کرنااسلام اور مسلمان دونوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔‘‘([7])

اسی طرح ۲۹؍محرم الحرام ۱۳۵۷ھ کو مسلم لیگ کے ایک جلسے میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب﷫ کا ایک خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں بوجوہ وہ بذات خود شریک نہیں ہو سکے :

’’گو میں اس وقت بظاہر جلسہ میں شریک نہیں ہوں کیوں کہ علاوہ ضعیف العمری کے اپنے خاص مشاغل ضروریہ دینیہ کی وجہ سے اتنی فرصت نہیں پاتا کہ مجالس و اجتماعات میں شرکت کر سکوں۔اور یہ بھی واقعہ ہے کہ میں بوجہ ضعف ِ قوائے جسمانیہ کے بھی مسلم لیگ میں عملی شرکت سے معذور ہوں۔ مگر میں دل سے آپ کے ساتھ ہوں اور مسلم لیگ کے مقاصد حسنہ سے متفق اور اس کی ترقی و بہبود کے لیے دعا گو ہوں اور تمام مسلمانوں کو عموماً مشورہ دیتا ہوں کہ ہر شخص اپنی ہمت کے موافق مسلم لیگ کی ترقی اور شرعی حیثیت سے اس میں جو کوتاہی ہے اس کی اصلاح کی کو شش کرتا رہے۔‘‘([8])

پاکستان کا تخیل ( خواب ) سب سے پہلے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ﷫نے دیکھا، مولانا حسین احمد مدنی ﷫کے مرید عبدالماجد دریا آبادی﷫،مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ﷫سے اپنی پہلی ملاقات کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یاد کر لیجیے کہ ۱۹۲۸ء تھا،اور ایک مخاطب روزنامہ ہمدرد کا ڈائریکٹر تھا، صبح اور دوپہر کی ملا کر طویل صحبت میں سیاسی پہلوؤں پر گفتگو آجانا ناگزیر سا تھا،گفتگو آئی،حضرت نے اتنی معقولیت سے کی کہ ساری بدگمانیاں کافور ہو کر رہیں۔کون کہتا ہے حضرت ’’گورنمنٹی‘‘ آدمی ہیں ،لا حول ولا قوۃ جس نے بھی ایسا کہا،جان کر یا بے جانے، بہرحال جھوٹ ہی کہا۔یہ تو خالص مسلمانوں کی گفتگو تھی، مسلمان بھی ایسا جوش دینی اور غیرت ملی میں کسی ’’خلافتی‘‘سے کم نہیں۔پاکستان کا تخیل،خالص اسلامی حکومت کا خیال، یہ سب آوازیں بہت بعد کی ہیں پہلے پہل اس قسم کی آواز یہیں کان میں پڑی بس صرف حضرت کو ہم لوگوں کے اس وقت کے طریق کار سے پورا اتفاق نہ تھا،لیکن یہ اختلاف تو کچھ ایسا بڑا اختلاف نہیں۔ نفس ِ مقصد یعنی حکومت کافرانہ سے گلو خلاصی اور دارالسلام کے قیام میں تو حضرت ہم لو گوں سے کچھ پیچھے نہ تھے،عجب نہیں جو کچھ آگے ہی ہوں۔‘‘([9])

۴۔مولانا ظفر احمد تھانوی

مولانا ظفر احمدتھانوی ﷫بھی تحریک پاکستان کے نمایاں رہنما تھے۔ انہوں نے بھی تحریک خلافت میں حصہ نہیں لیا، وجوہات وہی تھیں جو مولانا اشرف علی تھانوی﷫ کی تھیں۔وہ جمعیت علمائے اسلام کے بانیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بھی مسلم لیگ کی کھل کر حمایت کی۔وہ کانگریس میں شمولیت کو غیر اسلامی سمجھتے تھے،اس لیے کہ وہ قیام پاکستان کی مخالف تھی۔اسی طرح سلہٹ جو کانگریس سے وابستہ علما کا گڑھ سمجھا جاتا تھا،انہوں نے وہاں جا کر درگاہ شاہ جلا ل میں ایک جلسے میں جس میں تقریباً ایک لاکھ افراد شریک تھے،خطاب کیااورمسلم لیگ کے لیے حالات ساز گار بنائے۔قیام پاکستان کے موقع پر خواجہ ناظم الدین کی درخواست پر انہوں نےہی مشرقی بنگال میں پاکستان کا پرچم لہرایا۔([10])

۵۔مفتی محمد شفیع

مفتی محمد شفیع ﷫ایک سکہ بند عالم دین تھے اور دینی حلقوں میں ان کی حیثیت مسلم تھی۔ وہ دارالعلوم کے صدر مدرس تھے۔ ان کی پوری توجہ درس و تدریس پر تھی اور عملی سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھتے تھے۔ مگر تحریک پاکستان میں انہوں نے حصہ لیااور مولانا شبیر احمد عثمانی (﷫)کے ساتھ ہو لیے۔ ان کے نزدیک تحریک پاکستان کی مخالفت دراصل اسلام کے ساتھ مخالفت تھی،انہوں نے نظریہ پاکستان کی مکمل حمایت کی۔انہوں نے مغربی سرحد میں استصواب رائے کے موقع پر مولانا شبیر احمد عثمانی (﷫)کے ساتھ عملاً حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد دستور سازی میں بھی ان کا کردار نمایاں رہا۔ان ہی کی کاوشوں سے دستور میں بہت سی اسلامی دفعات شامل ہوئیں۔([11])

۶۔مولانا اکرام خان بنگالی

مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے مولانا اکرام خان ﷫نے بھی تحریک پاکستا ن اور مسلم لیگ کی حمایت کی۔آپ بنگالی اخبار’آزاد‘کے ایڈیٹر تھے۔ اپنے علاقے میں انہوں نے لوگوں کے جذبات مسلم لیگ کی حمایت کرنے کی طرف راغب کیے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مجلس دستور ساز کے ممبر بھی رہے لیکن بنگال میں قوم پرستی کے حالات سے کافی مایوس تھے۔([12])

۷۔مولانا احمد رضا خان بریلوی

مولانا احمد رضا خان ﷫ایک جید عالم تھے۔ ان کے خیال میں بھی ہندو مسلم اتحاد ممکن نہیں تھا۔تحریک خلافت کے موقع پر علی برادران جب ان کے پاس ترک موالات پر دستخط کرانے گئے تو ان کا یہ جواب تھا کہ ہم سیاسی آزادی کے مخالف نہیں لیکن ہندو مسلم اتحاد کے مخالف ہیں۔([13])

۸۔مولانا نعیم الدین مراد آبادی

مولانا نعیم الدین مراد آبادی ﷫مسلک بریلوی سے تعلق رکھنے والے عالم تھے۔احمد رضا خان کے بعد بریلویوں کی زمام ِکار ان کے ہاتھ میں آگئی۔ 1938ء،۱۹۳۹ء میں مولانا نعیم الدین مراد آبادی ﷫کو یقین ہو گیا تھا کہ اب ہندوستا ن میں انگریزوں کا زیادہ عرصہ تک رہنا ممکن نہیں ہے۔تو ان کے جانے کے بعد اقتدار کس کے حصے میں آئے گا تو وہ بھی اس خیال کے حامی ہو گئے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو ملا کر ایک اسلامی ریاست قائم ہو نی چاہیے۔قرارداد ِ پاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے اپنی جماعت کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا اور ملک کی مختلف جگہوں میں جا کر قیام پاکستان کے نظریے کی حمایت میں تقریریں کیں۔([14])

۹۔مولانا آزاد سبحانی

مولانا آزاد سبحانی ﷫قیام پاکستان کے حامی تھے۔ ایک دفعہ مولانا ابوالکلام آزاد ﷫نے کلکتہ میں عید کی نماز پڑھائی اور چوں کہ مولانا آزاد ﷫کانگریسی تھے اور وہاں ان کی سرگرمیاں بڑھ رہی تھیں تو لوگوں نے ان کی جگہ مولانا آزاد سبحانی ﷫کو نماز پڑھانے کے لیے چنا، کیونکہ وہ نظریہ پاکستان کے حامی تھے۔([15])

۱۰۔مولانا عبدالحمید بدایونی

مولانا عبدالحمید بدایونی ﷫بھی تحریک پاکستان کے پرجوش کارکن تھے۔ لیکن جب مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین نظریاتی اختلاف نمایاں ہوا تو وہ مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آئے اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی (﷫)کے ساتھ مل کر جمعیت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی۔([16])

اسی طرح مولانا احمد علی، مولانا جمال میاں، مولانا ثناء اللہ، ابن حسن جارچوی اور حافظ کفایت حسین﷭ وغیرہ نے بھی تحریک پاکستان کی حمایت میں بھر پور کام کیا۔([17])

۱۱۔مولانا مودودی

مولانا مودودی ﷫تقسیمِ ہند کی تحریک میں پیش پیش رہے،جس کے لیے 1938ء اور 1939ء میں مولانا مودودی ﷫نے ترجمان القرآن میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کے ذریعے کانگریس کو بے نقا ب کیا اور مسلمانوں کو خبردار۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ بیان کی،کانگریس کی لا دینیت کا تمسخر اڑایا اورہندوستان کے لیے جمہوری طرز حکومت کی غیر موزونیت ثابت کی ۔اس لیےکہ ہندوستانی جمہوریت میں چار ہندو ووٹوں کے مقابلے میں صرف ایک مسلم ووٹ ہو گا۔([18])

مولانا مودودی ﷫نے تقسیمِ ہند کے لیے تین تجاویز پیش کیں :

1۔پہلی تجویز یہ تھی کہ ایک بین الاقوا می وفاق بنایا جائے جس کے تحت ہر قوم کو تہذیبی آزادی دی جائے۔تا کہ وہ اپنے اصولوں اور روایات کے مطابق جداگانہ طور پر اپنا نظام حکومت چلا سکیں۔ ریاست کی انتظامی ، دفاعی،تشریعی ہر شعبہ میں متعلقہ قوم کا حصہ اس کی آبادی کے مطابق ہو۔

2۔دوسری تجویز یہ تھی کہ ہندوستان کی مختلف اقوام کے لیے زمینیں مختص کر دی جائیں،جہاں وہ آزادانہ طور پر امور حکومت چلا سکیں۔ اسی طرح تقریباً پچیس سال کا عرصہ آبادی کے تبادلے کے لیے رکھ لیا جائے۔اس دوران مقامی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دے دی جائے اور وفاقی اختیارات کو کم سےکم رکھا جائے۔

3۔تیسری تجویز یہ تھی کہ اگر مندرجہ بالا دونوں تجاویز نا قابل قبول ہوں تو مسلمانوں کی ریاستیں الگ بنائی جائیں اور ان کا وفاق بھی علیحدہ بنایا جائے۔اسی طرح ہندو ریاستیں اور ان کا وفاق الگ بنا یا جائے۔اسی طرح ان وفاقوں کے مابین امور میں تعلقات ہوں مثلاً تجارت اور باہمی تعاون وغیرہ۔([19])

مندرجہ بالا تجاویز میں سے تیسری تجویز دراصل قیام پاکستان کی تجویزتھی۔ جس میں مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ،جس میں وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزا رسکیں ،شامل تھا۔اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان کے لیے عملی جدو جہد کرنے والی جماعت مسلم لیگ کی حمایت نہیں کی تو بنیادی طور پر وہ لیگ کے قائدین کی دینداری سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ﷫کے نزدیک مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کے حصول کا مقصد اس ملک میں شریعت کا نفاذ تھا۔ اور اس کی عملی تطبیق کے حوالے سے وہ مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈروں سے مطمئن نہیں تھے۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی لکھتے ہیں :

’’ان (مولانا مودوی ﷫) کو مسلمانوں کی نسبت اسلام سے زیادہ دلچسپی تھی کیونکہ مسلمان اس لیے مسلمان نہیں تھے کہ وہ ایک ملی یا ایک قومی وجود سے تعلق رکھتے ہوں بلکہ اس لیے مسلمان تھے کہ ان کا عقیدہ اسلام پر تھا۔اس لیے ان کے ذہن میں اولین ترجیح اس بات کو حاصل تھی کہ اسلام کے ساتھ مسلم وفاداری کو تقویت پہنچائی جائے۔یہ کام مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت ہی انجام دے سکتی تھی جو خلوص قلب کے ساتھ اسلام پر ایمان رکھتی ہو او ر اس سے محض زبانی ہمدردی نہ کرتی ہو۔اور محض عقیدہ اس وقت تک غیر مؤثر تھا جب تک کہ اس کے نتیجے میں انفرادی اور معاشرتی اور اجتماعی عمل پیدا نہ ہو۔اس قسم کی کوئی جماعت موجود نہیں تھی اور اسے پیدا کر نے کی ضرورت تھی۔ وہ صرف اسی طرح وجود میں لائی جا سکتی تھی کہ اسلام کو محض ایک ادارتی نظام میں جکڑے ہوئے روایتی مذہب کے طور پر نہیں بلکہ ایک حرکی تحریک کے طور پر پیش کیا جائے۔اسی لیے انہوں نے جماعت اسلامی قائم کی۔انہوں نے مسلم لیگ کی مخالفت نہیں کی مگر وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اس نے اپنے دائرے میں ایسے غیر متجانس عناصر کو جگہ دے رکھی ہے جس میں اشتمالی،لا دینیت پسند،مسلم قوم پرست،اسلام پر عقیدہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے،عامل مسلمان اور وہ لوگ جو عقیدہ تو رکھتے ہیں مگر یہ عقیدہ شاید ہی کبھی تجربہ یا عمل کی شکل میں ظاہر ہوتا ہو،سب کے سب شامل ہیں۔‘‘ ([20])

قائد اعظم اور نظریہ پاکستان

قائد اعظم پاکستان کے بانی کہلاتے ہیں۔۱۹۳۴ء میں انہوں نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی اور انہی کی قیادت میں ہی بالآخرلارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو برطانوی حکومت کی جانب سے اقتدار پاکستان کی دستوریہ کو منتقل کر دیا۔جنگ پلاسی (۱۷۵۷ء) میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد سے جہد مسلسل کے ذریعے بالآخر مسلمانوں نے آزادی کی منزل کو حاصل کر لیا۔([21] )

اب ہم بانی پاکستان کے افکار و نظریات کا مطالعہ کریں گے کہ انہوں نے کس مقصد کے لیے مسلمانوں کو یہ ملک حاصل کر کے دیا۔ کیا اس کا مقصد صرف مسلمانوں کے لیے علاحدہ ملک کا قیام تھا،جس سے وہ اپنے سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کرتے یا اس مملکت کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے لیے ایسا خطہ زمین جس میں دین ِ اسلام کا عملی انطباق ہو اور اللہ کے احکامات پر مبنی نظام حکومت و ریاست قائم ہو تا کہ اقوام ِ عالم کو خدائی نظام ِ حکومت و سیاست کی فیوض و برکات کا ادراک ہو سکے۔ذیل میں ہم قائد اعظم کے متفرق مواقع پر کی جانی والی تقاریر و بیانات کے اقتباسات پیش کریں گےجس سے ان کے افکار و نظریات کا بخونی اندازہ کیا جا سکتا ہے :

6؍جنوری 1938ء کو کلکتہ میں قائد اعظم نے مومن انصار جماعت کے سپاس نامے کے جواب میں خطاب کیاجس کو اس طرح رپورٹ کیا گیا :

’’کہ انہوں نے لندن اس لیے چھوڑا اور زندگی کا موجودہ سخت دشوا ر اور جانکاہ راستہ اس لیے اختیار کیا کہ ان کے ذہن میں اس بات میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ہند کے مسلم فرقے اور اسلام جس کا ایک رکن ہونے میں انہیں فخر حاصل ہے کے سیاسی مستقبل کو انتشار کا خطرہ لاحق ہے ۔کیوں کہ ہندوستان میں اس کی ایک جرأت مند اور صحیح قیادت اور تنظیم کا کلیۃً فقدان ہے۔کافی غور و خوض اور تجربے کے بعد وہ اس سوچے سمجھے نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر مسلمانانِ ہند اور ان کے جملہ طبقے اور گروہ ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوئے تو ہند میں غلامی اور محکومی ان کا مقدر ہوگی۔مسلمانوں کی آواز کے پیچھے تنظیم کی قوت و طاقت ہونی چاہیے،ورنہ ان کی آواز صحرا کی صدا کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔جب رسول مقبولﷺ نے اپنے دین کی تبلیغ شروع کی تو دنیا بھر میں ایک اقلیت میں تھے لیکن قرآن مجید کی اعا نت سے انہوں نے ساری کائنات کو چیلنج کیا اور مختصر ترین مدت میں دنیا میں عظیم ترین انقلاب برپا کر دیا۔ اگر مسلمان یقین کی وہ قوت ،تنظیم،نظم و ضبط اور ا یثار کی وہ طاقت حاصل کر لیں تو انہیں ساری دنیا کی معاندانہ قوتوں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ اپنی سہل نگاری کو جھٹک دیں،شکست خوردہ ذہنیت اور مایوسی سے نجات حاصل کر لیں۔ وہ اپنا یقین دوبارہ حاصل کر لیں ، اپنی روحوں کو دوبارہ تسخیر کر لیں اور ہند میں اپنی تاریخ پھر رقم کریں۔‘‘([22])

12؍اپریل 1938ء کو کلکتہ میں قائد اعظم نے علامہ اقبال کی وفات پر تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ڈاکٹر سر محمد اقبال کے انتقال پر ملال کی خبر نے عالم ِ اسلام کو رنج و الم میں مبتلا کر دیا ہے۔ بلا شبہ وہ عظیم ترین شعراء، فلسفیوں اور بنی نوع انسان کے صاحبا ن ِ بصیرت میں سے ایک تھے۔انہوں نے ملک کی سیاست اور عالم ِ اسلام کی دانش و بینش اور ثقافتی تعمیر نو میں ایک ممتاز کردار ادا کیا۔ میرے لیے تو وہ ایک ذاتی دوست فلسفی اور رہنما تھے اسی طرح میرے لیے وجدانی اور روحانی تائید کا ایک بڑا منبع تھے۔ وہ صاحب ِ فراش تھے لیکن یہ وہی تھے جو پنجاب مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے پنجاب کے تاریک ترین ایام میں تن تنہا ایک چٹان کی طرح مسلم لیگ کے پرچم کے ساتھ ڈٹ گئے اور ساری دنیا کی مخالفت کو خاطر میں نہ لائے۔‘‘([23])

۱۳؍نومبر ۱۹۳۹ء کو بمبئی میں قائد اعظم نے عید کے موقع پر آل انڈیا ریڈیو میں نشری تقریر میں فرمایا :

’’قرآن مجید میں انسان کو درحقیقت خلیفۃ اللہ کا نام دیا گیا اگر انسان کی اس تعریف کی کوئی اہمیت ہے تو یہ ہم پر اتباع قرآن کا فریضہ عائد کرتی ہے، کہ ہم دوسروں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھیں جو اللہ اپنی مخلوق بنی نوع انسان کے ساتھ رکھتا ہے۔‘‘([24])

۲۵؍مارچ ۱۹۴۰ءکو قائد اعظم نے یوم ِ اقبال کی صدارتی تقریر میں فرمایا:

’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام ِ اقبال اور مسلم ریاست کی فرماں روائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر کا انتخاب کروں گا۔‘‘([25])

۲۷؍دسمبر ۱۹۴۰ء کو احمد آباد میں قائد اعظم نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’پاکستان دونوں اکثریتی قوموں کے لیے حصول آزادی کا جلد ترین راستہ ہے۔ مسلمانوں کو یہ خوف دامن گیر نہیں ہونا چاہیے کہ ہندو اکثریت کے صوبے انہیں کچل دیں گے۔ہمیں اقلیتی میں اپنی تقدیر کا سامنا کرنا چا ہیے لیکن مسلم اکثریتی صوبوں کو آزاد کرا دینا چاہیے تا کہ وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں آزاد ریاستوں میں اسلامی قوانین کے مطابق اپنی حکومت بنا سکیں۔‘‘([26])

۱۰؍مارچ ۱۹۴۱ء کو قائد اعظم نے مسلم یونیورسٹی یو نین علی گڑھ میں خطاب کے دوران فرمایا :

’’پاکستان نہ صرف ایک قابل حصول منزل ہے بلکہ واحد منزل ہے اگر آپ اس ملک میں اسلام کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں۔ ابھی ہماری منزل بہت دور ہے لیکن ہمیں اسے لینا ہے۔‘‘([27])

۱۴؍اپریل ۱۹۴۳ءکو قائد اعظم نے صوبہ سرحد مسلم اسٹو ڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے پیغام میں فرمایا :

’’ہماری رہنمائی اور بصیرت کے لیے عظیم ترین پیغام تو قرآن مجید میں موجود ہے۔ہمیں جو کچھ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود کو پہچانیں اور ان عظیم صفات ، خوبیوں اور قوتوں کو بھی جن کے ہم حامل ہیں۔‘‘([28])

۲۶؍دسمبر ۱۹۴۳ء کو کراچی میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا :

’’وہ چیز جس نے مسلمانوں کو متحد رکھا ہے اور جو اس قوم کی اساس ہے وہ اسلام ہے۔عظیم صحیفہ قرآن ہمارے عقیدے کی بنیاد ہے۔مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ یکجہتی ہوتی جائے گی کیوں کہ ہم ایک خدا، ایک رسول ﷺ ، ایک کتاب ، ایک قبلہ ،اور ایک ملت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘([29])

۸؍مارچ ۱۹۴۴ء کو علی گڑھ میں قائد اعظم نے ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد کے ظہرانے میں اپنی تقریر میں نظریہ پاکستان کی تاریخ بیان کرتے ہو ئے فرمایا :

’’مسلمانوں کے ہند میں اپنی حکومت قائم کرنے سے بہت پہلے جس دن ہند میں پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا اسی لمحے پاکستان کا آغاز ہو گیا۔ جونہی ایک ہندو نے اسلام قبول کیا اسے نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ معاشرتی،ثقافتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی مردود قرار دے دیا گیا۔جہاں تک مسلمانوں کا تعلق تھا اسلام نے اس پر فرض عائد کر دیا کہ وہ اپنی شناخت اور انفرادیت کو کسی اجنبی معاشرے میں ضم نہ کرے۔ زمانہ قدیم سے عہد بہ عہد ہندو،ہندو رہے اور مسلمان، مسلمان۔ اور انہوں نے اپنی شخصیتوں کو ایک دوسرے میں ضم نہیں کیا، یہ ہے بنیاد پاکستان کی۔‘‘([30])

(اسی طرح)یورپ اور امریکہ کے اعلیٰ فوجی افسروں کے اجتماع میں ان سے دریافت کیا گیا کہ پاکستان کا مصنف کون تھا؟مسٹر جناح کا جواب تھا ہر مسلمان۔([31])

۵؍نومبر۱۹۴۴ء کو نئی دہلی میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کمیٹی سے خطاب کر تے ہوئے فرمایا :

’’یہ ہمارا مقصد نہیں کہ امیر اور زیادہ امیر ہو جائے اور چند افراد کے ہاتھوں میں ارتکازِ دولت کا عمل تیز سے تیز تر ہو جائے۔ عوام کا معیا ر زندگی عام طور پر بلند ہو اور میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کی کمیٹی اس ضروری سوال پر پوری توجہ دے گی۔ ہمارا مطمح نظر سرمایہ دارا نہ نہیں بلکہ اسلامی ہونا چاہیے ۔من حیث المجموع عوام کے مفادات اور ان کی فلاح و بہبود ہمہ وقت ذہن میں رہنی چاہیے۔([32])

۸؍ستمبر ۱۹۴۵ء کو قائد اعظم نے مسلمانان ِ ہند کے نام عید کے موقع پر پیغام دیتے ہوئے کہا :

’’ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول ’’اطلانتک سے گنگا‘‘ تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے،نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نو ع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیر مبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ایک دینی ،معاشرتی،سول، تجارتی،فوجی، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے۔رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ کی زندگی سے متعلق بھی، روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک، اخلاقیا ت سے لے کر جرائم تک ہمارے رسول اللہ ﷺ نے لازمی قرار دیا کہ ہر مسلمان کے پاس قرآن ِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تا کہ وہ اپنی رہنمائی خود کر سکے۔لہذا اسلام محض روحانی عقائد، نظریات اور رسم و رواج کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔‘‘([33])

۱۷؍جنوری ۱۹۴۶ء کو لاہور میں قائد اعظم نے خواتین کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان، پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ، بنگال اور آسام پر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے مسلمانوں کی حکومت ہو۔انہوں نے کہا :اگر ہم [قیام ] پاکستان کی جدو جہد میں کامیاب نہیں ہوتے تو ہند سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے گا۔‘‘([34])

۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم نے مجلس دستور ساز پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہونے پر تقریر کے دوران اقلیتی برادری سے مخاطب ہو کر فرمایا :

’’اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں ۔ اپنے مندروں میں جائیں،اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔آپ کا کسی مذہب،ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ جیسا کہ آپ کو تاریخ کے حوالے سے یہ علم ہو گا کہ انگلستان میں کچھ عرصہ قبل حالات اس سے بھی ابتر تھے جیسے کہ آج ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے ایک دوسرے پر ظلم ڈھائے۔آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں ایک مخصوص فرقے سے امتیاز برتا جاتا ہے اور ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ ہم نے ایسے حالات میں سفر کا آغاز نہیں کیا ہے۔ہم اس زمانے میں ابتداء کر رہے ہیں جب اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ دو فرقوں کے مابین کوئی امتیاز نہیں۔ مختلف ذاتوں اور عقائد میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتداء کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔‘‘([35])

مزید فرمایا :

’’اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا ، نہ مسلمان، مسلمان۔ مسلمان مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے،بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘([36])

اس تقریر کے دوران قائد اعظم نے خاص طور پر اقلیتوں کے احساس محرومی ختم کرنے اور انہیں اس ملک کے یکساں شہری ہونے،اور ان کے حقوق کے مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ اس لیے کہ دین ِ اسلام میں مملکت کے بنیادی فرائض میں سے ہے کہ وہ اقلیتوں کی جان، مال ،عزت و آبرو اور ان کی عبادت گاہوں کی مکمل حفاظت کرے اور انہیں اپنے عقائد و مذہب کے مطابق آزادانہ طور پر اپنے مراسم عبودیت ادا کرنے کے آزادانہ مواقع فراہم کیے جائیں۔

قائد اعظم کی تقریر کے اس حصے ’ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں ۔ اپنے مندروں میں جائیں،اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔آپ کا کسی مذہب،ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘اور ’ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا،نہ مسلمان، مسلمان۔ مسلمان مذہبی اعتبار سے نہیں ،کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے،بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت ہے ‘،سے بعض سیکولر عناصر یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل ہیں کہ کہ بانی پاکستان اس ملک کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے جس میں ریاست و حکومت میں تو اسلام کی کوئی عمل داری نہیں ہو گی۔ ہاں انفرادی اعتبار سے جو کوئی اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرے ،ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ حالانکہ تقریر کے اس حصے سے اس کا دوردور تک یہ مفہوم نہیں بنتا۔ اگر سیاق و سباق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ پاکستان بننے سے تین روز قبل کی فی البدیہ تقریر تھی، جو انہوں نے دستوریہ کے سامنے اقلیتی برادری کے خدشات و خطرات کے پیش نظر کی۔اس تقریر کا مقصد اقلیتی برادری کے اس زعم کا ازالہ تھا کہ جب یہ مسلمانوں کا ملک بن گیا تو ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا۔ قائداعظم نےاس موقع پر انہیں ان کے وہی حقوق گنوائے جو کہ دین ِ اسلام نے اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو دیے ہیں۔ اور اس تقریر کے سیاق و سباق سے بھی اس پہلو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلے تو قائد اعظم نے دستوریہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں دستوریہ کا صدر منتخب کیا۔ بعدازاں انہوں نے دستوریہ کے فرائض کی طرف نشاندہی کی کہ دستوریہ کا کام مملکت خدادادِ پاکستان کے لیے نیا دستور مرتب کر نا ہے اور وفاقی قانون ساز ادارے کو آزاد اور خود مختار بنانا ہے۔([37])

اگر قائد اعظم پاکستان کو سیکولر بنا نا چاہتے تو دستوریہ کو نئے دستور کے بنانے کی ذمہ داری کیوں سونپی جاتی۔اس لیے کہ ۱۹۳۵ء کا ایکٹ بھی تو ریاست اور حکومت کو لوگوں کے مذہبی عبادات میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دیتا۔

اس کے بعد قائد اعظم نے دستوریہ سے خطاب میں فرمایا کہ آپ کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے کہ آپ لوگوں کے جان، مال و عزت کے محافظ بنیں۔اور ان کے مذہبی عقائدکو تحفظ دیں۔([38])

قائد اعظم کا یہ فرمان عین اسلامی حکومت کے فرائض کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال و عزت کی محافظ ہوتی ہے۔

اس کے بعد قائد اعظم نے دستوریہ سے خطاب میں ملک سے رشوت، بد عنوانی ،چور بازاری،جیسی برائیوں کو ختم کرنے پر زور دیا۔ اور فرمایا کہ میں اس معاملے میں کسی امیر ،غریب ،یا اعلیٰ سطح کی کسی قسم کی سفارش برداشت نہیں کروں گااور ان برائیوں کو سختی سے کچل دیا جائے۔([39])

یہ بھی اسلامی حکومت کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ وہ مملکت سے برائیوں کے خاتمہ کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔اور اسی چیز کی طرف قائد اعظم نے زور دیا۔

اس کے بعد قائد اعظم نے فرمایا کہ برصغیر میں مسلمانوں اور ہندو ؤں کا مل جل کر رہنا نا ممکن تھا اور اس کی تقسیم ناگزیر تھی۔تو اب اس کے بعد ہمیں مل جل کر یہاں کے رہنے والے یکساں شہری کی حیثیت سے ملک کی ترقی میں کردار ادا کریں۔([40])

یہاں پر بھی قائد اعظم نے دو قومی نظریے کا اعادہ کیا کہ مسلمان اور ہندو کسی طور پر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ ظاہر ہے صرف مذہبی عبادات میں تو ہندوؤں کو بھی مسلمانوں پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اعتراض تو اسی صورت میں ہوتا کہ جب مسلمان اپنے لیے اللہ کا عطا کردہ سیاسی، معاشی ، معاشرتی نظام چلاتے۔

اس کے بعد قائد اعظم نے اقلیتوں کے حقوق پر خاص طور پر زور دیا کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہبی عبادت گاہوں میں عبادت کریں، ان کو مکمل تحفظ حاصل ہو گا اور یہ کہ وہ ملک کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کریں۔

جہاں تک معاملہ ہے کہ’’ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا،نہ مسلمان، مسلمان۔ مسلمان مذہبی اعتبار سے نہیں ،کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے،بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘ تو اس کا مقصد یہ ہے کہ قانون کی نظر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو یکساں شہری کے حقوق ملیں گے۔

اس کے علاوہ قائد اعظم کے اس سے ماقبل بیا نات اور اس کےما بعد بیانات کو سامنے رکھ کر اس کا وہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا جو اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ پھر قائد اعظم کے ان اقوال کا کیا مطلب سمجھا جائے گا جس میں انہوں نے فرمایا :

¤ ’’ آزاد ریاستوں میں اسلامی قوانین کے مطابق اپنی حکومت بنا سکیں ۔‘‘

¤ ’’ پاکستان نہ صرف ایک قابل حصول منزل ہے بلکہ واحد منزل ہے اگر آپ اس ملک میں اسلام کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں ۔‘‘

¤ ’’ہماری رہنمائی اور بصیرت کے لیے عظیم ترین پیغام تو قرآن مجید میں موجود ہے۔‘‘

¤ ’’ وہ چیز جس نے مسلمانوں کو متحد رکھا ہے اور جو اس قوم کی اساس ہے وہ اسلام ہے ۔‘‘

¤ ’’ہمارا مطمح نظر سرمایہ دارا نہ نہیں، بلکہ اسلامی ہونا چاہیے ۔‘‘

¤ ’’اسلام محض روحانی عقائد، نظریات اور رسم و رواج کی ادائیگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے، زندگی کے ہر شعبے میں من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے ۔‘‘

¤ ’’ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پیشتر ہوتا تھا۔‘‘

¤ ’’اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہےجو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔‘‘

¤ ’’ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی عمارت صحیح اسلامی نظریات پر قائم کریں ۔‘‘

¤ ’’ مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستا ن کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی۔لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔آج بھی ان کا اطلاق ایسے ہی ہو سکتا ہے ،جیسے تیرہ سو برس قبل ہو سکتا تھا ۔‘‘

¤ ’’ آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا میں ان کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا ۔‘‘

¤ ’’دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصو ر پر استوار ہو۔ ‘‘

¤ ’’زمانہ قدیم سے عہد بہ عہد ہندو،ہندو رہے اور مسلمان، مسلمان اور انہوں نے اپنی شخصیتوں کو ایک دوسرے میں ضم نہیں کیا، یہ ہے بنیاد پاکستان کی۔‘‘

قائد اعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے حوالے سے ڈاکٹر شہزاد اقبال شام لکھتے ہیں :

’’قائد اعظم ایک عظیم سیاست دان اور عظیم قانون دان تھے۔ ان کی اس تقریر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فی البدیہہ اور فوری اظہار کے لیے کی جانے والی یہ تقریر انتہائی محتاط اور نپےتلے الفاظ پر مشتمل تھی۔ایک طرف تو اس تقریر میں ایک سیاست دان کا لب و لہجہ نظر آتا ہے جو سطح بین افراد کے نزدیک قائد اعظم کی گزشتہ تمام تقاریر،خطوط اور قول و قرار سے بظاہر انحراف تھا جو یقیناً قائد اعظم کے مرتبے کے شایان ِ شان قطعاً نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ اسمبلی کی اس کارروائی کے اخبارات میں شائع ہونے پر کوئی ایسا تہلکہ مچتا نظر نہیں آیا جس سے کہا جا سکتا کہ قائد اعظم اپنے گزشتہ اصولوں سے پھر گئے۔یہ توبعد کے سطح بین اور مخصوص سوچ رکھنے والے افراد کی فکر تھی جس نے اس تقریر کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف اس تقریر میں استعمال کیے گئے الفاظ کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک لفظ قانون کی میزان پر پرکھا جا چکا ہے،حالانکہ یہ تقریر فی البدیہہ تھی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے افکار و نظریات کس قدر صاف اور واضح تھے۔ان کی فکر کسی کجی کی طرف مائل نہ تھی۔‘‘)[41](

قائد ا عظم کے ان اقوال و ارشادات کے بعد کوئی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والا انسان قائد اعظم پر ایسا بہتان نہیں باندھ سکتا۔مزید یہ کہ اس دستوریہ میں مولانا شبیر احمد عثمانی ﷫اور دیگر کئی علمائے کرام موجود تھے۔انہوں نے بھی قائد اعظم کی اس تقریر پر کوئی حیرت کا اظہار نہیں کیا کہ وہ لوگوں کو ابھارنے کے لیے تو اسلام کا نام لیتے رہے اور حقیقت میں وہ پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنایا چاہتے ہیں۔اس لیے کہ ان کے نزدیک بھی قائد اعظم کی تقریر کا مقصد وہی تھا جو اوپر کی سطور میں واضح کر دیا گیا۔ مزید یہ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کے بعد کے بھی ہم کئی اقوال پیش کر چکے ہیں جس میں پاکستان میں اسلامی نظام ِ حکومت کے حوالے سےقائد اعظم کا نظریہ بالکل واضح اور صاف تھا۔

۲۵؍جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں قائد اعظم نے عید میلا دالنبی ﷺ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پیشتر ہوتا تھا۔رسول اکرمﷺ ایک عظیم رہبر تھے،آپ ﷺ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔آپ ﷺ ایک عظیم مدبر تھے،آپﷺ ایک عظیم فرمانروا تھے،جنہوں نے حکمرانی کی۔جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلا شبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔اسلام نہ صرف رسم و رواج ، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے۔جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔یہ وقار، دیانت، انصاف، اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ایک خدا اور خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔مساوات، آزادی، یگانگت، اسلام کے بنیادی اصو ل ہیں۔اس زمانہ کے مطابق رسول اللہ کی زندگی سادہ تھی۔تاجر کی حیثیت سے لیکر فرمانرا کی حیثیت تک آپ ﷺ نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ ﷺ کے قدم چومے۔رسول اکرم ﷺ عظیم ترین انسان تھے جن کا چشم ِ عالم نے کبھی آپﷺ سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔تیرہ سوسال گزرے کہ آپﷺ نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔‘‘)[42](

۱۲؍فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی میں قائد اعظم نے سول افسروں سے خطاب کرتے ہو ئے فرمایا:

’’اس دنیا میں ضمیر سے بڑھ کر کوئی انسان کا محتسب نہیں۔آپ کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے تا کہ جب اللہ تعالیٰ کا سامنا ہو تو یہ کہہ سکیں کہ آپ نے اپنا فرض خلوص ِ نیت، دیانت داری، اور تن دہی سے انجام دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس جذبے کو اپنائیں گے اور اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔‘‘)[43](

۱۴؍فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی میں قائد اعظم نے شاہی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’میر ا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دہندہ رسول اللہ ﷺ کے عطا کردہ سنہری اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی عمارت صحیح اسلامی نظریات پر قائم کریں اور جیسا کہ ہمارے پروردگار نے بتا یا ہے امورِ مملکت میں تمام فیصلے باہمی صلاح مشورے سے کریں۔‘‘)[44](

۲۷؍فروری ۱۹۴۸ء کو کراچی میں قائد اعظم نے امریکہ کے عوام سے ریڈیو خطاب میں فرمایا :

’’مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستا ن کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی؟لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔آج بھی ان کا اطلاق ایسے ہی ہو سکتا ہے ،جیسے تیرہ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔‘‘)[45](

۱۷؍اپریل ۱۹۴۸ء کو پشاور میں قائد اعظم نے قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں اس مقصد کے لیے کوشاں رہا ہوں کہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو۔ میں نے اس سلسلے میں جو کچھ کیا وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھ کر کیا اور حتی الوسع قوم کی خدمت کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔‘‘)[46](

یکم ؍جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

“I shall watch with keenness the work of your Research Organisation in evolving banking practices compatible with Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century, The Western world, in spite of its advantages of mechanization and industrial efficiency is today in a worse mess than ever before in history. The adoption Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of peace which alone can save it and secure the welfare, happiness and prosperity of mankind.”([47])

’’آپ کا تحقیقی شعبہ،بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا میں ان کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابل حل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچا سکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی دور کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔برعکس اس کے گزشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بد ترین ابتری کا شکار ہے وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہو گی۔ مغربی اقدار،نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہمار ی مدد نہیں کر سکیں گے۔ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہو گا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصو ر پر استوار ہو۔اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغام ِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچا سکتا ہے۔اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔‘‘)[48](

بلا شبہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور وہ نظریہ ، نظریہ اسلام ہے۔جیسا کہ مولانا ظفر احمد انصاری لکھتے ہیں :

’’یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پاکستان کا وجود میں آنا براہ راست ایک نظریاتی تحریک کا نتیجہ ہے اور اس مملکت کی وجود پذیری کا کوئی تصور اس نظریہ کو نظر انداز کر کے قائم ہی نہیں کیا جا سکتا جس کے باعث ہندوستان منقسم ہوا۔مسلم اکثریت والے مشرقی اور مغربی خطے مسلمانوں کے قومی وطن کی حیثیت سے الگ کیے گئے اور دونوں کے مجموعے کو پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس انقلاب میں فیصلہ کن قوت اسی نظریہ کی قوت تھی جس کے بطن سے پاکستان کی پیدائش ہوئی۔اسی نظریہ نے جغرافیائی اتصال اور نسلی،لونی اور لسانی اشتراک و توافق کے تقاضوں کو روند کر اس برکوچک کے مشرق و مغرب کے دورافتادہ باشندوں کی نظریاتی وحدت کو مستقل سیاسی وحدت کی شکل دی اور یہ سب کچھ بخت و اتفاق کے طور پر نہیں بلکہ اس نظریہ پر ایمان رکھنے والوں کے سوچے سمجھے منصوبے اور واضح نصب العین کے تحت مسلسل جدوجہداور عدیم المثال قربانیوں کے بعد رونما ہوا ۔جس میں قوم کے ایک ثلث کا تقریباً زندہ درگور ہونا ،دس لاکھ افراد کا انسان نما درندوں کے ہاتھوں ذبح اور دس فیصدی سے زیادہ کا خانماں برباد ہونا گوارا کیا گیا۔اتنی بڑی قیمت کیوں دی گئی ؟ آخر اس جدوجہد کا مقصد کیا تھا؟بانی پاکستان کے الفاظ میں سنیے :

’’پاکستان کا منشاء حصول استقلال و آزادی ہی نہیں بلکہ اسلامی نظریہ حیات اور اس کا تحفظ تھا۔‘‘)[49](

مزید فرماتے ہیں :

’’ (قائد اعظم )کے بڑے سے بڑے مخالف اور بدترین دشمن حتیٰ کہ مہاسبھائیوں نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ قائد اعظم محض مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے اور ان سے وقتی تائید حاصل کرنے کےلیے یہ ساری باتیں کہا کرتے تھے ورنہ حقیقتاً وہ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانے کے حامی تھے۔قیام پاکستان کے بعد کی تقریروں میں بھی انہوں نے بار بار فرمایا کہ’’پاکستان مسلمان قوم کے اتحاد کا مظہر ہے اور اس کی یہ حیثیت قائم رکھنی ہے،نیز یہ کہ ہم مسلمان ایک خدا،ایک کتاب،قرآن کریم اور ایک رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔لہذا ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے متحد رہنا چاہیے ۔‘‘ وہ خود اس بات پر یقین رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اسے ذہن نشین رکھیں کہ اسلام محض روحانی مسائل و عقائد اور مذہبی شعائر و رسوم تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ایک مکمل نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں دائروں میں پوری مسلم سوسائٹی اور اس کی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے۔‘‘)[50](

قائد اعظم کے افکار و نظریات کا حاصل یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے حوالے سے بالکل یکسو تھے ۔ ان کی تقاریر و بیانات کے کسی حصہ سے اس کے برعکس مؤقف کی تائید ہوتی معلوم نہیں ہوتی۔ مزید تحریک پاکستان میں شامل نامور علما کا کردار نظریہ پاکستان کا ضامن ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام میں حائل رکاوٹوں کو دور فرمائیں ۔آمین !

 

حوالہ جات

  1. () خورشید احمد،ماہنامہ چراغِ راہ، کراچی ،نظریہ پاکستان نمبر ،جلد14،شمارہ 12، دسمبر 1960ء ، محمود فاروقی ،پبلشر ، سید کاظم علی ، مشہور پریس کراچی (ص:229،230)۔
  2. () ایضاً(ص:231،232)۔
  3. () قریشی ،اشتیاق حسین، ڈاکٹر ،علماء میدان سیاست میں،مترجم :ہلال احمد زبیری ، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ ،کراچی یونیورسٹی ، جولائی 1994ء(ص:432)۔
  4. () ایضاً(ص:435 تا 437)۔
  5. () علماء میدان سیاست میں( ص:434)۔
  6. () سعید، احمد ، پروفیسر،مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ،مجلس صیانۃ المسلمین لاہور، 1984ء(ص:31)۔
  7. () مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی(ص:89)۔
  8. () علوی ،مسعود احسن ، پروفیسر ، ارشادات ِ حکیم الامت ، ،طبع ثانی : جنوری 1983ء، ادارہ اسلامیات لا ہو ر( ص:531)۔
  9. () دریا آبادی ،عبدالماجد ،نقوش و اثرات حکیم الامت ، ، مکتبہ مدنیہ اردو بازا ر لاہور، جون 1964ء(ص:28)۔
  10. () علماء میدان سیاست میں (ص:437)۔
  11. () ایضاً( ص:238)۔
  12. () ایضاً
  13. () علماء میدان سیاست میں (ص:440)۔
  14. () ایضاً(ص:440،441)۔
  15. () ایضاً(ص:441،442)۔
  16. () ایضاً(ص:242)۔
  17. () ایضاً
  18. () ماہنامہ چراغِ راہ۔ کراچی ،نظریہ پاکستان نمبر (ص:510)۔
  19. () ایضاً(ص:517)
  20. () علماء میدان سیاست میں (ص:443)۔
  21. () المجاہد ،شریف ، پروفیسر ،تحریک پاکستان پس منظر و تجزیہ ، قائد اعظم اکادمی کراچی ،1987ء( ص:63)۔
  22. () صدیقی ،اقبال احمد(مترجم ) ، قائد اعظم :تقاریر و بیانات ،جلد دوم،بزم ِاقبال ، لاہور ، نومبر 1998ء(ص:199،200)۔
  23. () ایضاً ( ص:229)۔
  24. () قائد اعظم :تقاریر و بیانات ،جلد دوم ، نومبر ۱۹۹۸ء(ص:۳۲۳)۔
  25. () ایضاً(ص:۳۷۵)۔
  26. () ایضاً(ص:۴۳۵)۔
  27. () ایضاً(ص:۴۶۰)۔
  28. () ایضاً، اپریل ۱۹۹۸ء(ص:۱۴۴)۔
  29. () فرمودات ِ قائد ،قائد اعظم اکیڈمی ،۲۰۰۶ء(ص:۷)۔
  30. () قائد اعظم :تقاریر و بیانات ،جلد دوم ، اپریل ۱۹۹۸ء (ص:۲۶۵)۔
  31. () ایضاً(ص:۲۶۵)۔
  32. () ایضاً(ص:۲۹۶۔۲۹۷)۔
  33. () قائد اعظم :تقاریر و بیانات ، بزم ِاقبال ، لاہور ،۱۹۹۸ء،جلد دوم ، اپریل ۱۹۹۸ء (ص:۴۷۴)۔
  34. () ایضاً،جلد چہارم ،۱۹۹۸ء(ص:۲۶۔۲۷)۔
  35. () ایضاً(ص:۳۵۹)۔
  36. () قائد اعظم :تقاریر و بیانات ، جلد چہارم ،۱۹۹۸ء(ص:۳۶۰)۔
  37. () ایضاً(ص:۳۵۷)۔
  38. () صدیقی،۱۹۹۸ء(ص:۳۵۷)۔
  39. () ایضاً (ص:۳۵۸)۔
  40. () ایضاً (ص:۳۵۸)۔
  41. () شام ،شہزادا قبال ، ڈاکٹر ، دستور پاکستان کی اسلامی دفعات ایک تجزیاتی مطالعہ ، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ،۲۰۱۱ء( ص:۴۱)۔
  42. () صدیقی ،۱۹۹۸ء (ص:۴۰۲۔۴۰۳)۔
  43. () فرمودات ِ قائد ( ص:۱۵)۔
  44. () ایضاً( ص:۱۶)۔
  45. () صدیقی ،۱۹۹۸ء (ص:۴۲۱)۔
  46. () ایضاً (ص:۴۲۱)۔
  47. () Al mujahid, Sharif, Ideological foundations of Pakistan, shari’ah academy international Islamic university Islamabad, 2nd edition2012, (P:144-45).
  48. ()صدیقی ،۱۹۹۸ء (ص:۵۰۱)۔
  49. () انصاری ، ظفر احمد،ہمارے دستوری مسائل کا نظریاتی پہلو ، آفاق پبلیکیشنز بندر روڈ کراچی (ص:۷۔۸)۔
  50. () ایضاً(ص:۹۔۱۰)۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...