Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Tabyīn > Volume 3 Issue 1 of Al-Tabyīn

پاکستان میں جبری شادیوں كے اسباب و محرکات |
Al-Tabyīn
Al-Tabyīn

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060060947_1252

Pages

135-167

PDF URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/143/51

Chapter URL

https://sites2.uol.edu.pk/journals/al-tabyeen/article/view/143

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جبری شادی کا عموماً یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی مکمل رائے لیے بغیر ایک یا دونوں کے اولیاء (Guardians)  اپنے اپنے اختیارات کو مکمل طور پر استعمال کرتے ہوئے دونوں کو بتا کر یابغیر بتائے ان کا نکاح کرادیں۔ جیسا کہ برطانیہ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق:

A Forced Marriage is conducted without the valid consent of both parties and where duress either physical or emotional, is a factor).[1])

یعنی دولہا دلہن کی مکمل رضامندی لیے بغیر ان دونوں کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیاجائے اور بعض اوقات اس عمل کے لیے چاہے کسی بھی قسم کا ظلم و ستم یا زبردستی کرنا پڑے، اولیاء اپنے حق کو مکمل استعمال کرتے ہیں حالانکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس کی گنجائش موجود نہیں کیونکہ جبری شادی میں ہر لحاظ سے دباؤ اور تشدد کا مفہوم ہی پایا جاتا ہے۔

جبری شادیوں کو اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بالکل ابتداء میں یہ رواج غلاموں اور جنگی قیدیوں کے ذکر کے ساتھ ملتا ہے۔ مفتوحہ اقوام جنگی قیدی عورتوں کو یا تو غلام / کنیزیں بنا کر بیچ دیتی تھیں یا ان سے جنسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور بعد میں ان کی جبری شادیاں کرا دی جاتی تھیں۔

دنیا کے تمام حصو ں میں یہ رواج کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے اور اس میں ہر لحاظ سے تشدد، ظلم و ستم، جبر اور جوروجفا پائی جاتی ہے۔ ہر قسم کا خطرہ لاحق رہتا ہے مثلاً جنسی تشدد، جسمانی تشدد، نفسیاتی تشدد وغیرہ۔ جبری شادیوں کی دنیا کے مختلف علاقوں میں علاقائی و قبائلی رسوم و رواج پائے جاتے ہیں اور ایسی شادیوں کی ادائیگی کے طریق کار بھی ہر علاقے میں مختلف پائے جاتے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ میں شادی بیاہ کے حوالے سے بہت سے رسوم و رواج پائے جاتے ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ان کا تعلق ہر صوبے یا علاقے کی روایات و اقدار سے ہے بلکہ افراد کی شخصی حیثیت، ذات برادری اور رنگ و نسل کے حوالے سے بھی ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ شہری علاقوں اور دیہات کے رسوم و رواج بھی ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں۔ اسی طرح خواندہ طبقے میں وقت کے ساتھ ساتھ رسم و رواج میں کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے کے افراد اپنی روایات اور رسوم و رواج سے وفاداری رکھتے ہیں خاص طور پر ایسے رواج جن میں خاندان کے مرد عورتوں پر اپنا تسلط قائم رکھ سکیں۔

   ذیل میں جبری شادیوں کی مختلف اقسام اور ان کے اسباب و محرکات کا مفصل جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں مروج جبری شادیوں کی اقسام درج ذیل ہیں :

(١)      بچپن کی شادیاں

(٢)      ذات برادری/ خاندان میں جبری شادیاں

(٣)      وٹہ سٹہ / بدل کی شادیاں

(٤)      امیگرنٹس کی جبری شادیاں

(٥)    اغواء اور سمگلنگ کے ذریعے ہونے والی جبری شادیاں

(٦)      تلافی اور مفاہمت کی شادیاں

(٧)      لڑکی خرید کر شادی کرنا

(٨)      قرآن سے شادی کرنا/ حق بخشوانا

بچپن کی شادی سے مراد ہے کہ لڑکے کی قانونی عمر (١٨ سال سے کم) اور لڑکی کی (١٦ سال )سے کم ہوتو ان کی شادی کرا دی جائے۔ پاکستانی معاشرے میں بچپن کی شادیوں کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔

(i)   چھوٹی عمر کی لڑکی /لڑکے کی شادی اس کی قانونی عمر سے پہلے کرا دی جائے۔

(ii)   والدین، اولیاء اپنے نابالغ بچوں کے نکاح کرا دیں۔

بچپن کی شادیاں

پاکستان کے مختلف علاقوں میں آج بھی بچپن کی شادیاں کرنے کا رواج ملتا ہے جیساکہ ایک رپورٹ میں ہے کہ

’’گو کہ مجموعی طور پر پاکستان میں خواتین کی پہلی شادی کی عمر بڑھ رہی ہے اور اس وقت 25 سے29 سال کی شادی شدہ خواتین کی شادی ہونے کی اوسط عمر 23سال ہے۔ اب بھی تقریباً 50 فیصد پاکستانی خواتین کی شادی 19سال کی عمر کے آس پاس ہو جاتی ہے۔‘‘([2])

خاور ممتاز، سہیل وڑائچ، شارق امام و دیگر ذکر کرتے ہیں:

’’عام طو رپر شادی کی کم سے کم عمر جو کہ مسلم عائلی قوانین کے مطابق 16سال ہے اس پر عمل درآمد بھی بہت کمزور ہے اور پیدائش کا اندراج اور اس کا ریکارڈ رکھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے شادی کے وقت لڑکی کی صحیح عمر کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں سے اکٹھے كىے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر کم عمری میں شادیاں کرنے کا رواج اب بھی عام ہے۔‘‘([3])

اگرچہ صوبہ پنجاب کے شہری علاقوں میں بچپن کی شادیوں کا رجحان کم ہو رہا ہے لیکن پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے یہ رواج آج بھی موجود ہے۔

صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں اگرچہ شرح خواندگی زیادہ ہونے کی وجہ سے بچپن کی شادیوں کا رجحان ختم ہو رہا ہے لیکن دیہی علاقوں میں آج بھی یہ رواج بدستور موجود ہے۔ وڈیروں اور زمینداروں میں اکثر بچپن کی شادیوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں کیونکہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاں جائیداد بہت اہم ذریعہ ہے جس پر ان کی معاش اور معاشرت کی مضبوطی کا انحصار ہے لہٰذا وہ لوگ اپنی اولاد کی شادیاں خاندان میں بچپن ہی میں کر دیتے ہیں (چاہے وہ رشتہ کتنا ہی بے جوڑ کیوں نہ ہو) کیونکہ خاندان کے بزرگ کبھی بھی یہ نہیں چاہتے کہ ان کی جائیداد خاندان سے باہر جائے یا کوئی دوسرا خاندان ان کی جائیداد میں حصہ دار بن جائے لہٰذا وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی خاندان کے اندر ہی کرتے ہیں چاہے لڑکی نابالغ ہو اور اس کا شوہر اس سے عمر میں بہت بڑا۔ اسی طرح بعض اوقات لڑکا کم عمر ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس سے کہیں زیادہ بڑی عمر کی اور ایسی بے جوڑ شادیوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ نامناسب اور غیر موزوں جوڑ کی وجہ سے میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات استوار ہونے کی بجائے ناگوار ہو جاتے ہیں اور اکثر اوقات بہت سے معاشرتی و نفسیاتی اور اخلاقی مسائل سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر شادیاں ناکام بھی ہو جاتی ہیں۔

پنجاب اور سندھ کی طرح خیبر پختونخواہ میں بھی بچپن کی شادیوں کا رواج عام ہے بلکہ وہاں تو لڑکے اور لڑکی کو بلوغت کے بعد بھی بچپن کی شادیوں کو ختم کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ دونوں خاندانوں یا قبیلے کی غیرت کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

بلوچستان میں بھی بچپن کی شادیوں کا رواج پایا جاتا ہے لیکن رئیسائی قبیلے میں اگر والدین اپنے بچوں کی شادی بچپن میں کر دیں تو انہیں 50ہزار روپے جرمانہ سزا کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں بچپن کی شادیوں کے پیچھے بہت سے اسباب اور محرکات موجود ہیں مثلاً:

1    ۔علاقائی رسوم و رواج اور قبائلی/ خاندانی روایات و اقدار بچپن کی شادیوں میں بہت اہم وجہ ہے کیونکہ جن خاندانوں میں ذات برادری کا تصور بہت زیادہ پایا جاتا ہے وہاں پر ایسی شادیو ں کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔

2۔اسی طرح جس خاندان میں ادل بدل یعنی Exchange Marriage  ''وٹہ سٹہ'' کے تحت شادیوں کا رواج ہو وہاں پر بچپن میں ہی بچوں کو بدل کے طور پر دوسرے خاندان میں بیاہ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں اگر بدلے کے طور پر خاندان میں لڑکی موجود  ہو تو آئندہ پیدا ہونے والی بچی کا رشتہ پیدائش سے قبل ہی طے کر دیتے ہیں اور اس رسم کو پیٹ لکھی کہتے ہیں۔

3    ۔سوارا، ڈنڈ اور ونی جیسی قبائلی رسوم و رواج کو پورا کرنے کے لیے بھی بچپن میں شادیاں کر دی جاتی ہیں۔

4 ۔بعض والدین اپنی بیٹیوں کی شادیاں کم عمری میں اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں اس وقت مناسب ''بَر' یعنی مناسب رشتہ مل رہا ہوتا ہے لہٰذا وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے۔

5۔غربت و افلاس بھی بچپن کی شادیوں کا ایک بہت بڑا محرک ہے کیونکہ وہ والدین اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خرچ نہیں کر سکتے بلکہ اکثر اوقات وہ اپنی کم عمر بیٹیوں کے نکاح کے بدلے میں رقم بھی وصول کر لیتے ہیں۔

6۔اس طرح جرائم پیشہ افراد، جواری اور نشئی والدین بھی اپنی کم عمر بیٹیوں کو اپنے ذاتی مفاد یعنی ان کے بدلے میں رقم کے حصول کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔

7۔بعض والدین اپنی اولاد کو بداخلاقی اور بے راہ روی سے بچانے کے لیے بھی کم عمری میں ان کی شادی کر دیتے ہیں تاکہ ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ بری عا دتوں کی طرف راغب نہ ہو سکیں۔

پاکستانی معاشرے میں خاندان اور ذات برادری کے اندر شادیاں کرنے کا رواج کثرت سے پایا جاتا ہے اور معاشرے میں ایسے رشتوں کو ہی مناسب و موزوں سمجھا جاتا ہے جو ایک ہی برادری اور ایک ہی فرقے کے اندر طے پاتے ہیں۔ ذات برادری،خاندان سے باہر رشتوں کو معیوب سمجھنے کی وجہ سے بعض اوقات لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں یاان کی عمر بڑھ جانے کی وجہ سے بے جوڑ رشتے طے پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ابھی تک لوگوں میں ذات برادری کا بہت زیادہ احساس پایا جاتا ہے۔

’’1990ء کے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً دو تہائی شادیاں سگے رشتہ کے تایا، چچا، پھوپھی، ماموں زاد اور خالہ زاد بہن بھائیوں (فرسٹ اور سیکنڈ کزنز) کے درمیان ہوئیں اور یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ سمجھی جاتی ہے۔‘‘([4])

پاکستانی معاشرے میں تو مختلف پیشوں سے متعلقہ ذاتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ آبائی کاروباری پیشے بھی ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ذات کے طو رپر شمار کئے جاتے ہیں اور یہ تصور پاکستانی معاشرے میں ہندو تہذیب کے زیراثر ابھی تک موجود ہے۔ ہندو تہذیب کے ان اثرات کی وجہ سے آج بھی پاکستانی معاشرے میں ذات کو انسان کی شناخت کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کے افراد اپنی یہ شناخت کھونا پسند نہیں کرتے۔

پاکستانی معاشرے میں خاندان کے اندر کی جانے والی ’’کزنز میرج‘‘ کو جبری شادیوں کی ایک ہلکی پھلکی قسم سمجھا جاتا ہے اور اکثر والدین اپنے بچوں کی تربیت ہی اس انداز میں کرتے ہیں کہ ان کے ذہنوں میں ذات برادری اور خاندانی اہمیت کے شعور کو اُجاگر کر سکیں اور شادی کے وقت والدین کو بچوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنانا پڑے اور بچے بھی اس شادی کو باآسانی قبول کرلیں۔

پاکستانی معاشرے میں خاندان ، ذات برادری میں شادیوں کے درج ذیل اسباب و محرکات ہیں:

1۔چونکہ پاکستانی معاشرے پر ہندو تہذیب و ثقافت کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں اس وجہ سے اکثر لوگ اپنی برادری، خاندان میں ہی شادی کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کے اس باہمی خاندانی تعلق میں اور مضبوطی پیدا ہو سکے۔

2۔ کچھ خاندانوں میں ان شادیوں کی یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ ان کی نسل اور خون "Bloodline" خالص رہ سکے جیسا کہ سید خاندان کے افراد اپنے بچوں کی غیر سید خاندان میں شادی کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں خاص طور پر بچیوں کی شادیوں کے حوالے سے سید خاندان سے ہی لڑکے تلاش کئے جاتے ہیں کیونکہ ایک سید زادی کی غیر سید لڑکے سے شادی کو اکثر گناہ تصور کیا جاتا ہے اور وہ ایک سید لڑکے کو ہی سید زادی کا ہم کفو سمجھتے ہیں۔

3 معاشرتی و سماجی مقام و مرتبے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی خاندان میں شادیوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ہم پلہ خاندان ہی ایک دوسرے کی بیٹیو ں کو قدرومنزلت اور مقام دے سکتے ہیں تاکہ ان کے مقام و مرتبے میں کچھ فرق نہ آئے اور نامناسب معاشی و معاشرتی حیثیت کی وجہ سے زوجین کے مابین باہمی تعلق میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔

4۔بعض والدین گھریلو مشکلات سے دوچار ہونے کی وجہ سے خاندان کے اندر ہی اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب جوڑ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی شادیاں کم عمری میں ہی کر دیتے ہیں تاکہ ان کے لیے مستقبل میں آسانی اور سہولت پیدا ہو سکے اور یوں وہ اپنی بیٹی پر کئے جانے والے اخراجات سے سبکدوش ہو سکیں۔

5۔جن خاندانوں میں وٹہ سٹہ کا رواج پایا جاتا ہے وہاں بھی ایک خاندان اپنی ذات برادری ہی سے متعلقہ دوسرے خاندان میں باہمی تبادلے کی شادیاں بچپن ہی میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

6۔جن علاقوں میں لڑکی کو خرید کر شادی کی جاتی ہے وہاں پر بھی لوگ خاندان کے اندر شادی کر تے ہیں تاکہ ان کا یہ مالی بوجھ کم ہو سکے جیسا کہ صوبہ خیبر پختوانخوا کے کچھ خاندانوں میں ہوتا ہے۔

7۔ صوبہ بلوچستان میں تو خاندان کے علاوہ فرقے اور مسلک کی اس قدر اہمیت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے اپنے فرقے اور مسلک کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

8۔جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں بھی خاندان میں باہمی شادیوں کا رواج اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ان کی جائیداد خاندان کے اندر ہی رہے اور دوسرا خاندان اس میں حصہ دار نہ بن سکے۔

جیسا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں خاندان کے اندر شادیوں کا رواج بدستور پایا جاتا ہے لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اور خاص طو رپر عورتوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

وٹہ سٹہ  بدل کی شادیاں اور ان اس کے اسباب و محرکات

بدل کی شادی سے مراد ہے کہ ایک خاندان اپنے لڑکے اور لڑکی کی شادی دوسرے خاندان کے لڑکے اور لڑکی سے بدل میں کردے۔ ایسی صورتِ حال میں فریقین میں برابری کا انحصار بہت سی باتوں پر ہوتا ہے مثلاً لڑکے اور لڑکی کی عمر، شکل و صورت اور تعلیم کے علاوہ دونوں خاندانوں کی سماجی و معاشی حیثیت و مرتبے کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور اگر ایک دلہن دوسری کے مقابلے میں کسی بھی حوالے سے کم ہو تو اس کمی کا ازالہ کچھ رقم یا جائیداد کا کچھ حصہ دے کر کیا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خاندان کے اندر کی جانے والی شادیوں کی شرح مجموعی شرح میں سے 60% ہے اور ایک تہائی شادیاں ادل بدل یعنی وٹہ سٹہ کے رواج کے مطابق طے پاتی ہیں۔ ایسی شادیوں کا رواج زیادہ تر دیہاتی علاقوں اور زمینداروں میں پایا جاتا ہے۔ خاص طو رپر ان علاقوں میں جہاں ''بین الذات'' اور ''بین التقابل'' شادیاں کرنے کا عمومی رواج ہو۔

پاکستانی معاشرے میں وٹہ سٹہ ،ادل بدل کی شادیوں کے پیچھے بہت سے اسباب و محرکات ہیں جو درج ذیل ہیں:

1۔    کچھ خاندانوں میں ذات برادری سے باہر شادی کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ قبیلے اور برادری کی اہمیت کے پیش نظر ایک ہی قبیلے کے دو خاندان اپنے بچوں کی باہمی تبادلے کی شادیاں کرانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں جیساکہ سید خاندان میں سید ہی ایک دوسرے کے ہم کفوسمجھے جاتے ہیں لہٰذا وہ آپس میں ہی ادل بدل کی شادیاں طے کر لیتے ہیں۔

2۔   بعض اوقات کچھ لوگ وٹہ سٹہ کی شادی کے حق میں اس لیے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی بیٹی کے ساتھ اس کا سسرال اور شوہر ناروا سلوک نہ کر سکے اس لیے وہ بدل کے طور پر اپنے بیٹے کی شادی بھی اسی خاندان کی لڑکی سے کر دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے کسی بھی قسم کے ناروا سلوک کا بدلہ لے سکیں اور اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک جوڑے کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے دوسرا جوڑا بھی مشکل میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات ایسی صورتِ حال دو خاندانوں کی تباہی کا بھی باعث بن جاتی ہے اور دونوں جوڑوں میں طلاق واقع ہو جانے سے دو گھر برباد ہو جاتے ہیں۔

3۔   کچھ لوگ وٹہ سٹہ کی شادیوں کو کامیاب اور دیرپا سمجھتے ہیں تاکہ باہمی شادیوں کے تحت دونوں خاندان اس مضبوط باہمی تعلق کے ساتھ بہت سی قباحتوں سے بچ سکیں۔

4 ۔  بعض گھرانوں میں معاشی حالات کی وجہ سے بھی وٹہ سٹہ کی شادیاں ہوتی ہیں تاکہ دونوں خاندان اپنی مالی مشکلات سے بچ سکیں جو کہ ہمارے معاشرے میں جہیز، بری اور شادی کے فضول اور بے جا اخراجات پر مبنی ہیں۔

5۔   جن علاقوں میں بیٹی کی قیمت لینے کارواج موجود ہے وہاں پر وہ لوگ جو لڑکی کی قیمت ادا نہیں کر سکتے وہ بدلے میں اپنے خاندان کی لڑکی کا رشتہ دوسرے خاندان کو پیش کر دیتے ہیں۔

امیگرنٹس (تارکینِ وطن) کی جبر ی شادیاں

پاکستانی مسلمان جو ایک طویل عرصے سے دنیا کے مختلف ممالک میں حصول روزگا راور بہتر مستقبل کی خواہش کی خاطر آباد ہیں ان کے سامنے اپنی اولاد کی شادیاں کرنا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے ملک، خاندان، ذات برادری، علاقائی رسوم و رواج اور اپنے عقیدے و مسلک سے زیادہ وابستگی رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان تارکین وطن کے بچوں کی شادیاں ان کے لیے ایک اہم معاملہ ہے کیونکہ اکثر بچے بالغ ہو کر اپنی مرضی سے اپنے لیے جوڑ (Spouse) تلاش کر لیتے ہیں لیکن جو والدین بچوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں ان کے بچوں کی شادیاں درج ذیل طریقوں سے انجام پاتی ہیں:

پہلا طریقہ Coercd Marriage یعنی بچوں پر دباؤ ڈال کر زبردستی سمجھابجھاکر شادیاں کرنا۔

دوسرا طریقہ ہے مکمل طو رپر جبری شادیاں Totally Forced Marriages

1۔دباؤ  ڈال کر شادی کرنا 

U.Kمیں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق:

i. Coerced Marriages are when the two individuals concerned are not consulted at all or the consulation is at the best coremonial.

ii. Marriages that use the method of coercion are ones where the parents or other members of the family pressurise the individuals using tactics[5]).)

والدین حیلے بہانے بنا کر بچوں کوخود سمجھاتے ہیں یا ان پر دیگر قریبی رشتہ داروں کے ذریعے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈلواتے ہیں اور انہیں اس شادی پر قائل کرتے ہیں۔

اولاد پر دباؤ ڈالنے کے چند طریقے یہ بھی ہوتے ہیں۔

(i)       والدین اپنے بچوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔

(ii)      بچوں کو اپنی حیثیت،پوزیشن کے کم پڑنے کا احساس دلاتے ہیں۔

(iii)    اولاد کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس شادی سے ان کی آئندہ آنے والی نسل کی بھلائی مقصود ہے۔

(iv)    شادی نہ کرنے کی صورت میں ان کی اور ان کے والدین کی پورے خاندان میں شہرت خراب ہو سکتی ہے۔

(v)    والدین اپنی جائیداد سے بے دخل کرنے کی دھمکی بھی استعمال کرتے ہیں۔

(vi) خاندانی عزت وغیرت (Family honour)  کی خاطر یہ شادی کرنا لازم ہے۔ لہٰذا  والدین مختلف حیلوں بہانوں سے ان پر دباؤ ڈال کر انہیں اس شادی پر آمادہ کر لیتے ہیں۔

(2) مکمل طور پر جبری شادی

مختلف حیلوں بہانوں سے دباؤ ڈال کر یا ڈرا دھمکا کر بھی جب اولاد شادی کے لیے تیار نہیں ہوتی تو پھر والدین مکمل طور پر جبرو تشدد کے ذریعے انہیں اس شادی پر آمادہ کرتے ہیں۔ MATکی رپورٹ کے مطابق اس قسم کی شادی کا مفہوم یہ ہے کہ:

"Forced marriages are where consultation is the least of the priorites and intention of the parents prevails Instead, the son/daughter will be told firmly the wishes of their parents and would be expected to comply.[6]

اسباب و محرکات

بیرون ملک خاص طور پر امریکہ و یورپ میں بسنے والے پاکستانیوں کے بچوں کی شادی ان کے لیے ایک اہم معاملہ ہوتا ہے کیونکہ آزاد ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے بچوں پر اس معاشرے کا اثر ہوتا ہے سکول، کالج، یونیورسٹی اور اردگرد کے ماحول کے علاوہ دوستوں کے ماحول سے متاثر ہو کر یہ بچے والدین کی تربیت کا اثر نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ شخصی آزادی کے نام پر ضرورت سے زیادہ بے باک معاشرہ، لڑکیوں اور لڑکوں کی دوستیاں، نائٹ کلب اور بال رومز پر جانے پر انہیں کوئی پابندی نہیں ہوتی لہٰذا والدین اپنے بچو ں کے شب و روز کی نامناسب مصروفیات سے گھبرا جاتے ہیں اور اپنے بچوں کے بہتر اخلاق، پائیدار اور مضبوط ازدواجی زندگی کے لیے ان کی شادی کی فکر کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر انہیں اسی ملک میں اپنے رشتہ داروں اور دوست و احباب میں رشتے نہ ملیں تو انہیں اپنے آبائی وطن لا کر ان کی جبراً شادیاں کرا دیتے ہیں۔

ان شادیوں کے پیچھے عموماً ذاتی مفادات بھی کارفرما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے والدین اولاد کی پسند کو یکسر نظرانداز کر کے اپنی پسند کو جبراً ان پر مسلط کرتے ہیں لیکن ذاتی مفاد کی بجائے اکثر اوقات والدین کے پیش نظر اولاد کی بہتر ازدواجی زندگی کی خواہش بھی ہوتی ہے جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

(1)    وہ اپنی اولاد کو اخلاقی بے راہ روی سے بچانے کے لیے شادیا ں کراتے ہیں۔

(2)    الکوحل اور ڈرگز  وغیرہ کی عادت سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

(3)    اولاد کے مذہب اور عقیدے کی حفاظت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

(4)    بچو ں کے کامیاب ازدواجی مستقبل کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

(5)    اپنی آئندہ آنے والی نسل کی بہتر تربیت کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں اپنے علاقائی اور خاندانی رسوم و رواج کو نبھانے کے لیے بھی کرتے ہیں تاکہ ان کے آبائی ملک میں اپنے خاندان اور معاشرے کی روایات کے ساتھ ان کی وفاداری قائم رہ سکے۔

لہٰذا تارکین وطن کی ایک کثیر تعداد اپنے بچوں کے بہتر ازدواجی مستقبل  کے لئے فکر مند رہتی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے جبری شادیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

اغواء اور سمگلنگ کے ذریعہ ہونے والی جبری شادیاں

دنیا کے قدیم ترین معاشروں میں اس قسم کی شادیوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں خاص طو رپر ان علاقوں میں اس قسم کی شادیوں کا عام رواج پایا جاتا ہے جہاں پر لڑکی کی قیمت وصول کی جاتی ہے وہاں پر زور آور لوگ کسی دوسرے قبیلے (یا اپنے ہی علاقے کی) لڑکی کو اغوا کر کے صرف ایک رات یا اس سے زیادہ عرصہ اپنے پاس رکھ کر اس سے جنسی تعلق قائم کرتے ہیں بعد میں اس لڑکی کے گھر والوں سے اس کے نکاح کا مطالبہ کرتے ہیں اور اکثر اوقات خاندان والے اپنی عزت بچانے کے لیے اس نکاح پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کے کچھ علاقوں میں شادی کرنے کے لیے ایک اور بہت بڑا ذریعہ انسانی سمگلنگ ہے یعنی اغواء کنندگان کا یہ گروہ انتہائی منظم انداز میں اردگرد کے علاقوں سے لڑکیوں / عورتوں کو اغواء کر کے دوسرے ممالک میں سمگل کرتا ہے۔ عورتوں اور لڑکیوں کی یہ سمگلنگ خاص طور پر ان علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں پر عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہو بعض اوقات عورتوں کی شرح پیدائش کم ہونے کی وجہ Femail infanticide (یعنی پیدا ہونے والے بچے کی جنس اگر لڑکی ہو تو اس حمل کو ختم کر دیاجاتا ہے) بھی ہے۔

سمگلنگ کے لیے ایک اور حربہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ غریب اور نادار والدین سے یا آفت زدہ علاقوں سے لاوارث بچیوں کو لے پالک کے طور اپنی سرپرستی میں لے لیا جاتا ہے۔ یعنی Adoptionکے ذریعے اپنے گھر میں رکھتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ملک کے ان علاقوں میں جہاں لڑکی کی قیمت وصول کی جاتی ہے شادی کے لیے بیچ دیتے ہیں یا پھر دوسری صورت میں بیرون ممالک سمگل کردیا جاتا ہے۔

اسباب و محرکات

1۔لڑکی کو اغواء کرنے کے بعد شادی کا رواج ان علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے جہاں پر دلہن کی قیمت دے کر شادی کی جاسکتی ہے۔

2۔بعض اوقات دو قبیلوں یا خاندانوں کے مابین دشمنی کا بدلہ لینے کے لىے بھی ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی لڑکی کو اغواء کر کے جبراً اس سے شادی کر لیتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق:

’’صوبہ پنجاب میں نکاح کے بغیر شادی اس وقت ہوتی ہے جب عورت کو اغوا کیا گیا ہو۔ اغواء کی وجہ دشمنی بھی ہو سکتی ہے۔ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جس میں عورت اور مرد اکٹھے بھاگ جاتے ہیں۔‘‘([7])

اس رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ اور بلوچستان میں اغوا کے ذریعے ہونے والی شادیوں کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جبکہ اس کے برعکس صوبہ خیبر پختونخواہ میں عموماً نچلے طبقے میں ہی اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں۔

3 ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاندان والے اپنے بیمار، نشئی یا جواری لڑکے کی شادی کرنے کے لیے لڑکی کو اغوا کر لیتے ہیں اور ایسی شادیاں بہت ہی بے جوڑ ہوتی ہیں جن کا انجام عموماً اچھا نہیں ہوتا۔

4۔معاشی و معاشرتی بدحالی بھی لڑکیوں ، عورتوں کے اغواء کا ایک بڑا سبب ہے۔ یعنی جب والدین اپنی بیٹیوں ، بہنوں کی مناسب حفاظت نہ کر سکتے ہوں خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جرائم پیشہ افراد موجود ہوں تو ایسی لاوارث عورتیں ،لڑکیاں ان جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگ جاتی ہیں اور وہ ان کو ملک کے اندر یا ملک سے باہر شادی کے لیے دوسرے مردوں کے ہاتھوں بیچ دیتے ہیں۔ ملک سے باہر انسانی سمگلنگ پاکستان میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

تلافی اور مفاہمت کی شادیاں

پاکستان کے قبائلی علاقوں اور دیہات میں مفاہمت اور تلافی کی شادیوں کا رواج آج بھی موجود ہے۔ جس میں ایک خاندان دوسرے خاندان کے ساتھ دشمنی اور جھگڑے نمٹانے کے لیے اپنی بیٹی کو پیش کرتا ہے۔ تلافی اور مفاہمت کی یہ شادیاں ملک کے مختلف حصوں میں ان ناموں سے مروج ہیں۔

(1)سوارا: یہ رسم صوبہ سرحد کے پشتون قبیلے میں مروج ہے۔

(2)سانگ (ڈنڈ)    :  اس رسم کا رواج صوبہ سندھ کے دیہاتی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

(3)ونی : پاکستان کے قبائلی رسوم و رواج میں ونی ایک قدیم روایت ہے جو پنجاب کے دیہی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔

اسباب و محرکات

پاکستانی معاشرے میں مختلف شکلوں اور قبائلی روایات کے ساتھ جبری شادیوں کی یہ قسم مختلف ناموں کےساتھ پائی جاتی ہے جو جبری شادیوں کی ایک سنگین قسم ہے۔ اس رسم میں لڑکیوں کو خاندان کے مرد اپنے قبائلی جھگڑے اور خاندانی دشمنیاں ختم کرنے کی خاطر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکیل دیتے ہیں۔ انسانیت کی یہ تذلیل علاقائی رسم و رواج اور قبائلی روایات کی بقا کی خاطر آج بھی پاکستانی معاشرے میں رائج ہے۔

1۔    جیسا کہ ''سوارا'' کی رسم صوبہ سرحد کے پشتون خاندانوں میں پائی جاتی ہے۔ سوارا کی شرائط طے کرتے وقت مقتولین کی تعداد، قبائلی جھگڑوں کی نوعیت اور دونوں خاندانوں کی سماجی حیثیت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ''سوارا'' کے طور پر دی جانے والی لڑکی کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق:

’’سوارا‘‘ میں تبادلے کا تسلیم شدہ ریٹ سات برس سے اوپر کی ایک لڑکی یا سات برس سے کم عمر کی دو لڑکیاں ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں والدین نے سات برس سے کم عمر لڑکی کے دودھ کے دانت خود توڑ دیئے تاکہ انہیں دو کی بجائے ایک لڑکی دینا پڑے۔‘‘([8])

سوارا کے طو رپر دی جانے والی لڑکی کو اپنے خاندان والوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جس سے خاندان کو وہ دی جاتی ہے وہ بھی اس کو پوری طرح قبول نہیں کرتا۔ قبائلی روایت کے مطابق بغیر کسی تقریب کے اس لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جاتا ہے لیکن جہاں جھگڑوں کی نوعیت کافی سنگین ہوتی ہے اور جرگے کے سامنے انتہائی منت سماجت کے بعد سوارا کا معاملہ طے ہوا ہو وہاں پر تو نکاح کے بغیر ہی لڑکی کو دوسرے قبیلے کے سپرد کردیا جاتا ہے جیسا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لڑکی کو نکاح کے بغیر ہی حوالے کرنے کی روایت موجود ہے اور ایسی لڑکیوں کی حیثیت کنیز وں سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔

اس رپورٹ کے مطابق:

’’ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے میں ''سوارا'' میں جو عورت دی جاتی ہے اس کی قسمت کا فیصلہ مکمل طور پر اس خاندان کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کو وہ دی گئی ہو وہ چاہیں تو اسے تنخواہ کے بغیر ملازمہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔کئی قبائل میں جس مرد کو عورت ''سوارا'' میں دی جاتی ہے وہ اس عورت کو اپنے خاندان کے کسی دوسرے مرد کے ہاتھ شادی کے مقصد کے لیے فروخت کر سکتا ہے۔‘‘

2 ۔ سانگ ۔ ڈنڈ: صوبہ سندھ میں بھی جرگے کے فیصلے کے مطابق لڑائی جھگڑا نمٹانے کے لیے تلافی اور مفاہمت کے طورپر لڑکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ اس علاقائی روایت کو سانگ یا ڈنڈ کہتے ہیں۔

’’یہاں قبائلی جھگڑے کی بجائے عموماًکاروکاری‘‘قتل برائے غیرت'' کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ مرد ’’کارو‘‘ کی شکل میں قتل ہوتے ہیں۔ بچنے کے لیے ’’کاری‘‘ کے خاندان کو رقم دے کر جان بچاتا ہے۔ اکثر کاری کے خاندان والے نقد رقم کی بجائے ’’کارو‘‘ کے خاندان سے لڑکی لینا پسند کرتے ہیں۔‘‘([9])

کاروکاری کی سزا

کارو کے علاقائی زبان میں معنی ہیں ’’کالا آدمی‘‘ اور کاری کا مفہوم ہے ’’کالی عورت‘‘ اصطلاحاًاس سے زانی اور زانیہ مراد لیا جاتا ہے۔ علاقے میں جب مرد اور عورت مبینہ ناجائز تعلقات یا شک کی بنیاد میں پکڑے جائیں تو قانون کی بجائے انہیں پنچایت کے سامنے پیش کیا جاتاہے اور  فیصلے کے مطابق ان دونوں کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے۔ لہٰذا بدکار مرد سزا کی بجائے کافی زیادہ رقم یا اپنے خاندان کی لڑکی بھی دے سکتا ہے بشرطیکہ کاری عورت کے خاندان والے ایسی پیشکش پر راضی ہو جائیں  یہ رسم پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ میں موجود ہے۔

ونی

پاکستان کے علاقائی رسوم و رواج میں سے ایک قدیم روایت ونی کی ہے۔ اس روایت کے مطابق خاندانی جھگڑے اور دشمنی کو ختم کرنے کے لیے ایک خاندا ن دوسرے خاندان کے لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے۔ اور اگر اس خاندان میں لڑکا نہ ہو تو خاندان کے سربراہ سے (خواہ وہ کتنا ہی عمر رسیدہ کیوں نہ ہو) اس لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جاتا ہے۔

ونی کی روایت پر عمل کرنے کی ایک اور وجہ دو مختلف خاندانوں کے لڑکے اور لڑکی کی پسند کی شادی یعنی Love Marriage بھی ہو سکتی ہے۔ علاقے کی روایت کے مطابق یہ شادی ایک جرم سے کم شمار نہیں کی جاتی اور عام طور پر لڑکے کی بہن کی شادی دوسرے خاندان کے کسی بھی شخص سے کردی جاتی ہے۔

پنجاب کے دیہی علاقوں میں خاندانی رقابت اور دشمنی کو ختم کرنے کے بھی دشمن خاندان میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رواج موجود ہے تاکہ آپس کے جھگڑوں اور دشمنی کو مستقل طور پر ختم کردیا جائے۔

’’سرگودھا اور اس کے گردو نواح کے علاقوں خوشاب، مٹھا نور، نورپور، تھل، بندیال اور قائدآباد وغیرہ میں ونی کی رسم عام ہے۔  اس رسم کی رو سے اگر کوئی لڑکا اور لڑکی کورٹ میرج کرلیں یا کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ جائے اور  بعد میں صلح کرنی پڑے تو جو لڑکی بھاگی تھی اس کے باپ یا بھائی یا کسی رشتہ دار سے لڑکے کی بہن کو شادی کرنا پڑتی ہے۔‘‘­­­([10])

لڑکی خرید کر شادی کرنا

پاکستانی معاشرے میں اگر زمانے کے بدلنے کے ساتھ بہت سی قدیم علاقائی روایات میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر والدین اپنی بیٹی کی شادی اس کی قیمت وصول کر کے کرتے ہیں۔

اس روایت کے مطابق لڑکی کی قیمت کا اندازہ اور تعین اس کی عمر، شکل و صورت اور ذات برادری کی معاشرتی و معاشی حیثیت و مقام کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہ رسم مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے مروج ہے۔

(i)     ولور

(ii)   دسرپسہ

(iii)   کپاس کی سیل

(iv)   بجار

ایک رپورٹ کے مطابق:

’’دلہن کی قیمت لینے کا رواج مختلف علاقوں میں ’’ولور‘‘، ’’دسرپسہ‘‘، ’’لب‘‘ اور کپاس کی سیل کہلاتا ہے۔ یہ رواج صوبہ سرحد اور بلوچستان کے زیادہ تر حصوں کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے۔‘‘[11]

اسباب و محرکات

پاکستانی معاشرے میں آج بھی قدیم علاقائی رسوم و رواج پائے جاتے ہیں۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر لڑکی کو خرید کر شادی کرنے کا رواج جو ’’ولور‘‘ اور ’’بجار‘‘ کے نام سے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رواج دسرپسہ، لب اور کپاس کی سیل کے علاقائی ناموں سے مختلف علاقوں میں موجود ہے۔ اس رواج کے مطابق لڑکی و الے اپنی لڑکی کے نکاح کو بدلے میں لڑکے و الوں سے رقم وصول کرتے ہیں۔ لڑکی کی قیمت کی ادائیگی نقد رقم کے علاوہ دیگر قیمتی اشیاء سے بھی کی جاسکتی ہے مثلاً گائے، بھینس، بکریاں اور اونٹ وغیرہ یا اس علاقے کی اہم فصل کی صورت میں بھی لڑکی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔

’’صوبہ سرحد اور بلوچستان کے علاقوں میں ولور یعنی دلہن کی قیمت دینے کا رواج کسی نہ کسی شکل میں عام طور پر پایا جاتا ہے اس لیے لڑکوں کو کافی عمر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ’’ولور‘‘ یعنی لڑکی کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی کئی شکلیں ہیں جو یہ لوگ روپیہ پیسہ، مویشی، زمین وغیرہ کی شکل میں ادا کرتے ہیں۔ ولور کی مقدار اور اس کی ادائیگی کی کیا شکل ہوگی یہ پہلے ہی طے کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح سے شادی کا سارا بار لڑکے پر پڑتا ہے اور لڑکی کا باپ جہیز کی قیمت، شادی اور باراتیوں کی دعوت کے مصارف لڑکے سے وصول کرتا ہے۔ ''ولور'' کی ایک قسط منگنی کے وقت دی جاتی ہے اور پوری رقم نکاح سے قبل ادا کر دی جاتی ہے۔‘‘([12])

قبائل میں ولور اور بجار کی روایت کے مطابق دی گئی لڑکی کی حیثیت ایک زرخرید کنیز سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں اگر خاوند کی جائیداد ہوتو اس عورت کو خاوند کے بھائی سے شادی کرنا پڑتی ہے کیونکہ خریدی ہوئی عورت کو دوسرے خاندان میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہٰذا وہ بھی متوفی کی جائیداد کی طرح اس کے وارثوں کے پاس ہی رہتی ہے۔

قرآن سے شادی (حق بخشوانا )

پاکستان میں آج بھی کچھ علاقے ایسے پائے جاتے ہیں جہاں پر والدین یا قریبی رشتہ دار جائیداد کی خاطر اپنی بیٹیوں ، بہنوں کی شادیاں قرآن سے کر دیتے ہیں۔ جس کو ''حق بخشوانا'' بھی کہا جاتا ہے۔

حق بخشوانے کی رسم کی ادائیگی کے لیے پورے خاندان کو باقاعدہ طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ لڑکی کو سجا سنوار کر دلہن بنایا جاتا ہے پھر خاندان کا کوئی بزرگ اس کے پاس قرآن لے کر آتا ہے اور لڑکی کے ہاتھ میں تھما کر اسے بتاتا ہے کہ اس کی شادی قرآن سے ہو گئی ہے لہٰذا اب اسے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسے ''بی بی پاک دامن''کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اس رسم کی ادائیگی کے بعد اس کی حیثیت ایک پیرنی کی طرح ہو جاتی ہے۔ خاندان بھر اور اردگرد کے لوگ اپنے بچوں کو اس پاک دامن بی بی ، پیرنی سے قرآن (ناظرہ) پڑھواتے ہیں۔ بیماری اور دکھ تکلیف میں اس سے دم کراتے ہیں اور مشکل سے نجات کے تعویذ دینا اس پیرنی کا انتہائی اہم منصب بن جاتا ہے۔ اور اہم بات یہ کہ جس خاندان میں زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کی شادیاں قرآن سے ہوتی ہوں معاشرے میں اس خاندان کے مقام و مرتبہ اور عزت وقار میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اردگرد کے معاشرے میں اس خاندان کو انتہائی عزت و احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اسباب و محرکات

صوبہ سندھ کے دیہی علاقے اور جنوبی پنجاب میں قرآن کے ساتھ شادی کی رسم پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر جاگیرداروں اور وڈیروں میں کیونکہ ان کی طاقت اور سماجی مقام و مرتبے اور حیثیت کا سارا دارومدار ان کی جائیداد پر ہی ہوتا ہے لہٰذا وہ اپنی جائیداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اپنی بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کر کے جائیداد کو خاندا ن میں ہی رہنے دیتے ہیں۔ اس رسم کو حق بخشوانا بھی کہا جاتا ہے۔

’’جائیداد کی تقسیم سے بچانے کے لیے باپ اپنے بھتیجوں یا بھانجوں کے ساتھ شادی کو ترجیح دیتا ہے۔ چاہے وہ رشتہ بالکل بے جوڑ ہی کیوں نہ ہو۔ کئی مرتبہ لڑکی کی شادی کسی بوڑھے آدمی یا بالکل نابالغ لڑکے کے ساتھ کردی جاتی ہے۔ اگر کسی کو ایسے رشتے قابل قبول نہ ہوں تو سیدوں میں ایک حیرت انگیز رسم یہ ہے کہ اس کی شادی قرآن کے ساتھ کردی جاتی ہے اور اگر وہ ایسا کرنے پر بھی تیار نہ ہو تو جان سے مار دی جاتی ہے۔‘‘([13])

قرآن کے ساتھ شادی کرنے یا حق بخشوانے کی یہ ظالمانہ رسم نواب شاہ کے گرد و نواح، دادو، سانگھڑ، مورو، بدین اور میرپور خاص کے علاوہ جنوبی پنجاب کے وڈیروں اورزمینداروں میں پائی جاتی ہے۔ اس رسم کی بڑی وجہ مادی فوائد کا حصول اور جائیداد کو تقسیم سے بچانا ہے لیکن اس کے علاوہ ذات پات کی اہمیت بھی ایک محرک ہے یعنی ایسے خاندانوں میں بھی یہ رسم پائی جاتی ہے جو اپنی بیٹیوں ، بہنوں کی شادی کو خاندان سے باہر نہیں کرتے بلکہ ایسا کرنے کو گناہ تصور کرتے ہیں۔

جبری نکاحوں کی شرعی و قانونی حیثیت

اگر زیرولایت افراد کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ولی کو عدالت میں رجوع کا حق حاصل ہے جیسے عاقلہ بالغہ عورت غیرکفوگھرانے میں  نکاح کرلے تو ولی کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں  جا کر اس کا نکاح فسخ کروائے۔

امام محمد شیبانیؒ اس حوالے سے کہتے ہیں :

"اذا تزوجت المرأة غیر كفو فرفعها ولیها إلی الإمام فرق بینهما وهو قول أبی حنیفة رحمه الله تعالی.([14])

’’ جب عورت غیرکفو میں  نکاح کر لے تو اس کا ولی اس مسئلہ کو امام کے پاس لے جائے تو وہ ان میں  تفریق کرادے گا۔ یہ امام ابو حنیفہؒ کا قول ہے۔ ‘‘

امام جصاص غیر کفو میں  نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں مگر اس کے ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں :

وللأولیاء أن یفرقوا بینهما۔([15])

’’ اور ان اولیاء کےلئے ان کے مابین تفریق کروانا جائز ہے۔ ‘‘

ظاہرہے یہ تفریق اسی طریقہ کے مطابق ہو گی جیسے امام شیبانی نے بیان کیا کہ امام اور قاضی یہ تفریق کروائے گا۔ اسی طرح بالغہ ثیبہ جب دوسرا نکاح کرے تو اس میں بھی اسے کفوکا لحاظ رکھنا چاہئے۔ امام ابن العربی مالکی اس حوالے سے بیان کرتے ہیں  کہ:

فدل علی أن المعروف المراد بالآىة هو الكفاء ة وفیها حق عظیم للأولیاء۔([16])

سو یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس آیت میں  معروف سے مراد کفو(برابری) ہے کہ اس بات میں  اولیاء کو بہت زیادہ حق ہے۔

امام ابن العربی اس کی وجہ اور اس مسئلہ پر اجماع کا ذکر یوں کرتے ہیں:

لما فی تركها من إدخال العار علیهم و ذلك اجماع من الامة۔([17])

’’کیونکہ کفوکے ترک میں   ان   (اولیاء) کےلئے شرمندگی ہے اور اس مسئلہ پر امت کا اتفاق ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو نکاح کرتے وقت کفوکا اعتبار کرنا ہو گابصورت دیگر اولیاء کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہو گا اور یہ چیز بذریعہ عدالت ہو گی۔

محمڈن لاء سیکشن259کی تشریح میں  ہے:

A boy or a girl who has attained puberty, is at liberty to marry anyone he or she, likes, and the guardian has no right to interfere if the match be equal.([18])

ایک بالغ لڑکا یا لڑکی اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں نکاح کر لیں اگرنکاح (کفو)میں  کیا گیا ہے تو ولی کو اس میں  دخل دینے کا حق نہیں ہے۔

اگر نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح باپ دادا کے سواکسی نے کر دیا ہے تو ان دونوں کو بعد البلوغ خیار ہوگا:

فإن كان غیر الأب والجد من الأولیاء كالأخ والعم لا یلزم النكاح حتی یثبت لهما الخیار بعد البلوغ وهذا قول أبی حنیفة ومحمد۔([19])

’’ اگر نکاح کرانے میں ولی باپ دادا کے علاوہ مثلا بھائی یا چچا ہو تو نکاح برقرار رکھنا لازم نہیں اور بلوغ کے بعد انہیں خیار بلوغ ہوگا۔ یہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا قول ہے۔ ‘‘

مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ما سوا باپ و دادا کے کرائے ہوئے نکاح پر بعد البلوغ خیارحاصل ہوگا، لیکن فقہاء کی نصوص کاجائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے نکاح پر بھی چند شرطوں کے ساتھ خیار حاصل ہوگا۔

١۔ باپ و دادا عقد سے پہلے سوء الاختیار میں معروف ہوں۔ ٢۔ ان دونوں میں سکر ہو اور ان کے جنون کا فیصلہ بھی ہو چکا ہو۔ ٣۔ اس کے شادی کر دینے کی وجہ سے جو بغیر مہر مثل کے یا کسی فاسق سے یا غیر کفو میں ہو۔([20])

"فمجرد أن تری الصغیرة الدم تشهد أنها فسخت القد واختارت نفسها ثم یفرق القاضی بینهما."([21])

’’بالغ ہوتے ہی وہ عقد نکاح کو فسخ کر دے گی اور اپنے آپ کو مختار بنالے گی، پھر قاضی باہم تفریق کر دے گا۔ ‘‘

خاموش رہنے سے اختیار ختم ہو جائے گا ۔فتاوی عالمگیری میں ہے:

"حتی لو سكتت كما بلغت وهی بكر بطل خیارها۔"([22])

’’ اگر وہ حد بلوغ کو پہنچتے ہی خاموش رہی اور وہ کنواری تھی تو اس کا خیار باطل ہو جائے گا۔ ‘‘

حق خیار بلوغ

نابالغہ کا نکاح اگر باپ دادا نے کیا ہے تو فسخ نہیں ہوسکتا لیکن ایک صورت ہے جس میں فسخ نکاح کا دعویٰ قابل سماعت ہوگا، اور وہ یہ ہے کہ باپ معروف بسوء الاختیار ہو، باپ زیر ولایت لڑکی کے مصالح کے خلاف مشہور و معروف ہو، علامہ شامی ؒنے فتح القدیر کی ایک بحث کے ذیل میں معروف بسوء الاختیار کی تشریح یوں کی ہے کہ

"والحاصل أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختیار قبل العقد فإذا لم یكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سىء الاختیار واشتهر به عند الناس فلو زوج بنتا أخری من فاسق لم یصح الثانی لأنه كان مشهورا بسوء الاختیار قبله بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله۔"([23])

’’ باپ سى ء الاختیار اس صورت میں کہا جائے گا جبکہ اس سے قبل اس نے ایسی حرکت کی ہو کہ ایک لڑکی کا نکاح قصداً اس کے مصالح اور مفاد کے خلاف کرچکا ہو تو یہ عقد صحیح اور نافذ ہوگیا کیونکہ اس وقت وہ سىء الاختیار میں متعارف نہ تھا۔ اگر دوسری کا اسی طرح کردے گا تو اب سى ء الاختیار میں شہرت کی وجہ سے دوسرا نکاح صحیح نہ ہوگا۔ ‘‘

در مختار میں ہے:

"إن كان الولى المزوج بنفسه أبا أو جدا لم یعرف منهما سوء الاختیار مجانة وفسقا وإن عرف لا یصح النكاح اتفاقا۔"([24])

اگر بذات خود شادی کرانے والا ولی باپ یا دادا ہو جن کا لا ابالی پن اور فسق میں سوء الاختیار ہونا مشہور نہ ہو اور اگر مشہور ہو تو بالاتفاق نکاح صحیح نہ ہوگا۔

"لم یعرف بسوء الاختیار"

كا واضح مطلب  یہ  ہے کہ یہ بات درجہ یقین كو پہنچ جائے  کہ اس نے اپنی خود غرضی، كسی دباؤ اور طمع زر سے لڑكی كے مصالح اور مفاد كو نظر انداز كردیا ہے تو ایسا نكاح نافذ اور صحیح نہ ہوگا۔

"وقیده الشارحون وغیرهم بأن لا یكون معروفا بسوء الاختیار حتی لو كان معروفا بذلك مجانة وفسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([25])

’’ ائمہ نے سوء الاختیار کی قید اس لئے لگائی کہ وہ معروف ہو تو صحیح یہ ہے کہ وہ نکاح باطل ہے۔ ‘‘

پس اگر ولی نے لڑکی کے مصالح و مفادات کا لحاظ کئے بغیر نکاح کر دیا اور قاضی کے نزدیک لڑکی نے اپنے مفاد کے خلاف کئے گئے نکاح کے خلاف دعوی کو ثابت کر دیا اور فسخ نکاح کا مطالبہ کیا تو قاضی شریعت کو حق حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کرے، کیونکہ نکاح کے لازم ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ ولی سوء اختیار میں معروف نہ ہو اور نہ ہی لا پرواہی و فسق میں نکاح سے قبل معروف ہو۔([26])

اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرنے کے وقت لڑکی کے مصالح و مفادات کا لحاظ نہیں کیا تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں :

اول یہ کہ اس وقت ولی ہوش و حواس کی حالت میں نہ ہو اور نکاح اس نے کسی ایسے شخص سے کر دیا جو فاسق، شریر، لڑکی کے خاندان کے مقابلہ میں بہت غریب یا پیشہ کے اعتبا ر سے کم تر پیشہ والا ہو تو یہ نکاح درست نہیں۔([27])

دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی سفاہت و بے وقوفی اور حرص و طمع کی وجہ سے اختیارات کے غلط استعمال میں مصروف ہے تو بالا تفاق اس کا کیا ہوا نکاح درست نہیں۔ علامہ  شامی نے شرح مجمع کے حوالہ سے نقل کیا ہے:

"لو عرف من الأب سوء الاختیار لسفهه أو لطمعه لا یجوز عقده اتفاقا۔"([28])

’’تیسری صورت یہ ہے کہ وہ فسق و فجور اور لا پرواہی کی وجہ سے اختیارات کے غلط استعمال میں معروف ہو تو ایسے باپ اور دادا کا کیا ہوا نکاح بھی منعقد نہیں ہوگا۔ ‘‘

"حتی لو كان معروفاً بذلك مجانة أو فسقا فالعقد باطل علی الصحیح۔"([29])

لیکن سوال یہ ہے کہ  ’’ معروف بسوء الاخیار  ‘‘سے کیا مراد ہے؟ عام طور پر فقہاء کا رجحان یہ ہے کہ اگر باپ نے پہلے کسی لڑکی کے نکاح میں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو تب ہی اس دوسری لڑکی کا نکاح نا درست ہوگا، اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ نکاح لازم ہوگا۔([30])

لیکن بظاہر معروف بسوء الاختیار قرار پانے کے لئے خاص نکاح ہی کے معاملہ میں نا تجربہ کاری کا ظہور ضروری ہو، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بعض دفعہ دوسرے معاملات اور روز مرہ کے معمولات سے بھی یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ شخص اپنے اختیارات کے صحیح استعمال کی صلاحیت سے محروم ہے یا قصداً اس کا ارتکاب کرتا ہے۔اس لئے اگر کسی شخص کی ایسی ناتجربہ کاری کا ظہور ہوا ہو اور وہ کوئی ایسا نکاح کر دے جو مصلحت و مفاد کے خلاف ہو تو اس نکاح کو درست نہیں ہوناچاہیے۔

چنانچہ امام کاسانی ؒ اور ابن نجیم نے ذکر کیا ہے کہ اگر نابالغ لڑکی کا مہر، مہر مثل سے نمایاں طور پر زیادہ مقرر کر دے، یا نابالغ لڑکی کا مہر، مہر مثل سے نمایاں طور پر کم خود باپ یا دادا نے مقرر کیا ہو تو امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوگا، کیونکہ ولایت کا حق اس کی شفقت و محبت کی وجہ سے اس کو دیا گیا ہے اور اس کا یہ عمل صریح طور پر تقاضۂ شفقت کے خلاف ہے۔

"لأن الولایة مقیدة بشرط النظر فعند فواته یبطل العقد۔"([31])

’’کیونکہ ولایت میں شفقت پیش نظر ہوتی ہے اور یہ ہی مفقود ہو تو سرے سے عقد ہی باطل ہوجائے گا۔ ‘‘

میرے خیال میں دور حاضر میں یہی نقطہ نظر زیادہ قرین صواب ہے، کیونکہ جب کسی شخص کا سوء اختیار اس کے عمل ہی سے ظاہر ہو تو محض گمان شفقت کو اس پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ حصکفی ؒ نے نشہ میں مبتلا باپ اور دادا کے کئے ہوئے ناموزوں نکاح کے غیر معتبر ہونے پر یہی استدلال کیا ہے۔

"لظهور سوء اختیاره فلا تعارضه شفقته المظنونة۔"([32])

اس لئے اگر قاضی محسوس کرے کہ ولی نے اس نکاح میں لڑکی کے مصالح اور مفادات کا کوئی لحاظ نہیں کیا ہے تو وہ اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

اگر ولی نے لڑکی کا نکاح کرتے وقت خود لڑکی کے مصالح و مفادات کا لحاظ نہیں کیا بلکہ کسی دباؤ یا اپنے کسی مفاد کی خاطر نا مناسب جگہ لڑکی کی شادی کردی، لڑکی اس نکاح سے مطمئن اور راضی نہیں ہے، چنانچہ قاضی کے یہاں فسخ نکاح کا دعوی لے کر آتی ہے، بیانات اور گواہوں کے بعد قاضی یہ بات محسوس کرتا ہے کہ ولی نے اس نکاح میں لڑکی کے مصالح و مفادات کا سرے سے لحاظ نہیں کیا ہے تو قاضی اس نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

کیونکہ قاضی کا گواہوں اور بیانات سے اس بات پر مطمئن ہوجانا کہ نکاح میں لڑکی کے مصالح و مفادات بری طرح پامال کئے گئے ہیں۔ ولی کا سىء الاختیار ہونا متحقق وغیر مشتبہ ہوچکا ہے، اس لئے یہ نکاح باطل ہے، اس میں قضائے قاضی کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن اگر معاملہ قاضی تک آگیا ہے تو قاضی اس نکاح کو ضابطے کے مطابق فسخ کرسکتا ہے۔

ولایت اجبار نابالغ اور مجنون افراد پر ثابت ہے مگر بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ (The Child Marriage Restraint Act)  میں  اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکے اور سولہ سال سے کم عمر لڑکی کے نکاح کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس پر تعزیری سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔ ([33])

بچوں کی شادی کی ممانعت کے ایکٹ سیکشن4-6کے مطابق اٹھارہ سال سے زائد عمر کے آدمی کے بچی سے نکاح کرنے، چائلڈ میرج (اىسی شادی جس میں فریقین معاہدہ میں  سے کوئی ایک بچہ ہو) کا اہتمام کرنے والے ، والدین یا سرپرست کو ایک ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں جبکہ عورت کو قید کی سزا نہیں ہو سکتی۔([34])

سیکشن264کے مطابق باپ دادا کے علاوہ دیگر اولیاء کے نکاح کرنے پر خیار بلوغ حاصل ہو گا۔

The minor has the option to repudiate the marriage on attaining puberty. This is technically called the "option of puberty.([35] (

تو نابالغ کو بلوغت کے وقت فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہو گا۔ اسے اصطلاح میں ’’خیار بلوغ‘‘ کہا جاتا ہے۔

خلاصہ بحث

پاکستانی معاشرے میں جبری شادیوں کی اقسام اور اسباب و محرکات پر تفصیلی بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دورِ جدید میں بھی عورتوں کے استحصال کا سلسلہ مختلف ناموں سے جاری ہے۔ دین اور اسلام کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن عمل احکام اسلامی کے خلاف کیا جا رہا ہے۔

اسلام میں خاص طو رپر بنیادی انسانی حقوق کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ والدین پر ان کی اولاد کی طرف سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں جن میں ان کی پیدائش، تربیت، تعلیم اور ان کی شادی جیسا اہم معاملہ بھی شامل ہے جس میں والدین کو اولاد کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور یہ حق اسلام نے انہیں اولاد کے ساتھ محبت و شفقت کی وجہ سے دیا ہےتاکہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی زندگی کا فیصلہ کریں۔

اگرچہ اسلام نے والدین پر اولاد کے ضمن میں محبت و شفقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں انہیں حق ولایت سونپا ہے لیکن ان اسلامی احکامات کی آڑ میں اکثر والدین اپنی ذاتی انا، خاندانی روایات اور بہت سے ذاتی و معاشرتی اور معاشی مقاصد کے حصول کیلئے اپنی اولاد کو قربان کر دیتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں خاندانی اور قبائلی جھگڑے اور دشمنی کو ختم کرنے کے لیے بیٹوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ قتل کو معاف کرانے کے لیے مقتول کے خاندان میں اپنی کم عمر بچیوں کو دینے کا رواج پایا جاتا ہے۔ ونی، سوارا، ڈنڈ میں دی جانے والی بچیاں روپے پیسے کے نعم البدل کے طو رپر دشمن قبیلے کو سونپ دی جاتی ہیں۔ کیا اسلام نے انسانی زندگی کا استعمال مال و دولت کے طور پر کرنے کا حکم دیا ہے۔ شریعت میں اس بات کی گنجائش موجود نہیں کہ خون بہا کے طور پر گھر کی بہنوں بیٹیو ں کو دشمن قبیلے کے حوالے کردیا جائے یا اپنی غلطیوں اور گناہوں کی تلافی کے طور پر بیٹیوں اور بہنوں کو قربان کردیا جائے۔ جانوروں کی طرح ان کی خرید و فروخت کی جائے۔ کوئی مذہب بھی اس قسم کی غیر انسانی روایات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

اگر اسلام اولیاء کو اپنی کم عمر اولاد کا حق کفالت و کفایت بخشا ہے تو اس کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ اس حق کو ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اپنی محبت و شفقت کا مظاہرہ ان پر جبراً اپنے غیر فطری فیصلوں کو مسلط کرتے ہوئے کیا جائے۔ کوئی مہذب معاشرہ ایسی روایات اور رسوم کو قبول نہیں کرتا۔ عورتوں کے حقوق کا معاملہ آئین پاکستان  مىں بھی موجود ہے لیکن پھر بھی عورت علاقائی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اس معاشرتی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ارباب حکومت ہیں جو جان بوجھ کر اس خرابی کو دور کرنا نہیں چاہتے۔ عوام کے لئے اسلام اور قانون کی باتیں کرنے والے خود رسوم و رواج کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ لہذا ضرورت ہے کہ اہل دانش اور ہمدردی رکھنے والے لوگ آگے بڑھیں اور ان ظالمانہ رسوم کو ختم کرنے کی جدوجہد کاآغاز کریں۔

Reference

[1]-Great Britain, (2007). Foreign and Commonwealth office, Human Rights, Annual Report, P:85


[2] ۔ پاکستان میں آبادی اور گھرانوں کا ڈیمو گرافک ہیلتھ سروے،2007ء

[3] ۔ خاور ممتاز، سہیل وڑائچ، شارق امام و دیگر، شرکت گاہ ویمنز ریسورس سنٹر، لاہور، پاکستان2012ء، ص : 5

[4] ۔ خالد رحمن، عورت قانون اور معاشرہ، کنٹری رپورٹ، شرکت گاہ،  1996ء، ص : 14

[5]- Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report: Liberation for Forced Marriages, Anjuman-e-Urdu Press P:7.

[6] - Muslim Arbitration Tribunal (MAT), Report, P:8

[7] ۔ عورت قانون اور معاشرہ، کنٹری رپورٹ، ص: 112

[8] ۔ عورت قانون اور معاشرہ، کنٹری رپورٹ، ص: 320

[9] ۔ عورت قانون اور معاشرہ، کنٹری رپورٹ،  ص: 320

[10] ۔ گلریز محمود، دور نبوت میں شادی بیاہ کے رسم و رواج اور پاکستانی معاشرہ، ص:  239۔ 238

[11] ۔ عورت قانون اور معاشرہ، کنٹری رپورٹ،  ص: 77

[12] ۔ گلریز محمود، پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ،  ص: 161

[13] ۔ گلریز محمود، پاکستانی معاشرہ اور شادی بیاہ، ص : 206

[14] - شیبانی، ابوعبداللہ محمد بن الحسن ، کتاب الآثار، بیروت، لبنان، دارالکتب العلمیہ  1993ء، ص: 95

[15] ۔ جصاص، ابوبکراحمد بن علی رازی حنفی، احکام القرآن، بیروت، لبنان، ط احیاء التراث الغربی،  (1405ھ) ص : 546

[16] ۔  ابن العربی، ابوبکر محمد بن عبداللہ احکام القرآن، بیروت، لبنان، دارالکتب العلمیہ، (۲۰۰۳ء)  ،  ۲۲۱

[17] ۔ ابن العربی، احکام القرآن،  ص ۳۲۱

[18] -Inamul Haque, Muhammadan Law, Lahore, Mansoor Book House, p.347

[19] ۔ کاسانی، علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود بن أحمد،. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، لبنان: دار الکتاب العربی، ١٩٨٢ء،  ج ٢، ص ٣١٥

[20] - جزیری، عبد الرحمن بن محمد عوض، (٢٠٠٣ء). الفقه علی المذاهب الاربعة، بیروت، لبنان، دار الکتب العلمىة، ج ٤، ص ٣٣

[21] - ايضاً

[22] - نظام الدین،  فتاوی عالمگیری (الفتاویٰ الہندیہ)، بیروت، لبنان: دار الفکر ، 1991ء،  ج 1، ص: 286

[23] - ابن عابدین الشامی، محمد بن محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی، رد المحتار علی الدرالمختار، بیروت، لبنان، دار الفکر للطباعة والنشر ،(٢٠٠٠ء)  ج ٣، ص٦٧

[24] - حصکفی، محمد بن علی بن محمد الحِصْنی المعروف بعلاء الدین الحصکفی الحنفی، الدر المختار شرح تنویر الأبصار وجامع البحار، بیروت، لبنان، دار کتب العلمىة ، (٢٠٠٢ء) ج ٣، ص ٦٦

[25] - ابن نجیم، الشیخ زین بن ابراهىم بن محمد بن محمد بن بکر الحنفی(٩٧٠ھ) ، البحر الرائق شرح کنز الدقائق۔ مصر: مطبوعة مطبعة علمىة، ١٣١١ھ، ج ٣، ص ١٤٤

[26] ۔ حصکفی، الدر المختار، ج ٣، ص ٦٦

[27] ۔ ابن عابدین شامی، رد المحتار علی الدر المختار، ج ٣، ص ٦٧

[28] -  ابن نجيم ، البحر الرائق ج ٣، ص ١٤٤

[29] - ابن نجیم، البحر الرائق، ج ٣، ص١٤٤

[30] ۔ حصکفی، الدر المحتار، ج ٣، ص ٦٧

[31] - Inamul Haque, Muhammadan Law/474

[32] - Inamul Haque, Muhammadan Law / 474

[33] ۔ Inamul Haque, Muhammadan Law / 351

[34] ۔ ibid

[35]- ibid

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...